سیاست
میں سیاستدانوں نے تو اپنا سیاسی کردار ادا کرنا ھی ھوتا ھے اس لیے ھر ملک میں
سیاسی پارٹیاں ھوتی ھیں لیکن پاکستان میں فوجی افسران کو بھی سیاست کرنے کا شوق
رھا ھے۔ خاص طور پر اردو بولنے والے ھندوستانی فوجی افسروں کو اور پٹھان فوجی
افسروں کو زیادہ شوق رھا ھے۔ پاکستان میں چار بار مارشل لاء کا نفاظ کرکے یہ شوق
پورا کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن اب چونکہ فوج میں اعلیٰ درجے کے اردو بولنے والے
ھندوستانی مھاجر فوجی افسروں اور پٹھان فوجی افسروں کا اثر و رسوخ کم ھے اور
پنجابی فوجی افسر تعداد میں زیادہ ھیں۔ اس لیے ادارے کی حیثیت سے فوج اپنی آئینی
ذمہ داریوں پر زیادہ دھیان دیتی ھے اور فوج کو ادارے کے طور پر سیاست میں ملوث
نہیں ھونے دینا چاھتی۔ اس لیے فوج کے اعلیٰ افسر خود کو سیاست سے دور رکھے ھوئے
ھیں۔ جبکہ فوج میں نچلی سطح کے ملازمیں کی اکثریت کا تعلق پنجاب کے شمالی علاقہ
اور خیبر پختونخواہ کے ھندکو علاقے سے ھے۔ یہ علاقے ن لیگ کا مظبوط گڑہ ھیں اور ان
علاقوں میں عرصہ دراز سے قومی اور صوبائی
اسمبلی کے 90٪ سے زیادہ اراکین ن لیگ کے منتخب ھوتے رھے ھیں۔
البتہ فوج سے ریٹارڈ
کچھ اعلیٰ اور درمیانے درجے کے فوجی افسروں کو سیاست کا شوق ھے۔ ان میں اردو
بولنے والے ھندوستانی مھاجر فوجی افسروں اور پٹھان فوجی افسروں کے علاوہ پنجابی
فوجی افسر بھی شامل ھیں اور یہ فوجی افسر زیادہ تر وہ ھیں جو سابق فوجی آمر
ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے دستِ راست رھے ھیں بلکہ ان میں سے اکثر کو سیاست میں
لانے ' سیاست کا کھیل کھلانے والا بھی ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف ھی ھے۔ لیکن
چونکہ عملی سیاست کا انہیں تجربہ نہیں اور نہ اتنی صلاحیت ھے کہ سیاسی پارٹی بنا
کر یا کسی سیاسی پارٹی میں شامل ھوکر سیاست کر سکیں اور عوام کی حمایت حاصل کرسکیں
کیونکہ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف خود سیاسی پارٹی بناکر عوام کی حمایت
حاصل نہیں کر پایا۔ اس لیے فوج کے ادارے کے خود ساختہ ترجمان بن کر
اور فوج کے ادارے میں اپنے تعلقات کو استعمال کرکے سیاست کے میدان میں زور
آزمائی کرنے میں لگے رھتے ھیں۔ جس کی وجہ سے فوج میں درمیانے درجے کے افسر
اور خاص طور پر درمیانے درجے کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر
اور پٹھان افسر ' ان سیاست کا شوق رکھنے والے اعلیٰ اور درمیانے درجے
کے ریٹارڈ فوجی افسروں کی وجہ سے مقامی سطح پر سیاست میں ملوث ھوجاتے
ھیں۔ بلکہ سیاستدانوں ' صحافیوں اور سرکاری افسروں میں سے بھی ذاتی مفادات رکھنے
والے راضی بہ رضا یا اعلیٰ اور درمیانے درجے کے ریٹارڈ فوجی افسروں کو
فوج کے ادارے کے ترجمان یا نمائندہ سمجھ کر مغالطے میں ان اعلیٰ اور درمیانے
درجے کے ریٹارڈ فوجی افسروں کے ھم نوا یا ھم خیال بن جاتے ھیں۔
چیف آف آرمی اسٹاف کی
منظوری کے بعد فوج اگر واضح پروگرام اور پالیسی کے ساتھ
ادارے کے طور پر نواز شریف کی مخالف ھوتی تو پہلے جنرل راحیل
شریف نے یا اب جنرل قمر جاوید باجوہ نے نواز شریف
کی کھٹیا کھڑی کردی ھوتی اور ن لیگ بھی ٹوٹ پھوٹ گئی ھوتی۔ اس
لیے امکانات یہ ھی ھیں کہ چیف آف آرمی اسٹاف کے خود کو سیاست سے دور
رکھنے اور آئین پر عملدرآمد کرنے کی وجہ سے نہ ملک میں مارشل لاء لگنا ھے۔ نہ
ٹیکنوکریٹ حکومت بننی ھے۔ نہ انتخابات ملتوی ھونے ھیں۔ اس لیے 2013 کی طرح
2018 کے انتخاب بھی ھوجانے ھیں اور انتخاب میں چیف آف آرمی
اسٹاف نے نہ تو نواز شریف کو انتخاب جتوانے کے لیے فوج کے ادارے
کو استعمال ھونے دینا ھے اور نہ نواز شریف کو انتخاب میں ھروانے کے لیے
عمران خان ' مشرف ' زرداری کے ساتھوں کی مدد کرنے کے لیے
فوج کے ادارے کو استعمال ھونے دینا ھے۔ البتہ مشرف ' زرداری اور
انکے دور میں حکومت میں رھنے والے با اختیار فوجی و سول سرکاری افسر اور سیاستدان
' انکے اسٹیبلشمنٹ و بیوروکیسی میں موجود ساتھی ' جنہیں اب نواز شریف
خلائی مخلوق کے خطاب سے مخاطب کرتا ھے اور انکے خریدے ھوئے میڈیا ھاؤس
اور انکے بھرتی کیے گئے اینکر ' صحافی ' تجزیہ نگار اپنا کام ضرور جاری
رکھیں گے۔
No comments:
Post a Comment