یہ بات طے ہے کہ جب تک پنجابی کے پاس بابا فرید گنج شکر' شاہ
حسین ' سلطان باہو ' بلہے شاہ ' وارث شاہ اور میاں محمد بخش موجود ہیں اس وقت تک
پجابی زبان اور تصوف کو کہیں سے کوئی خطرہ نہیں۔
تاہم یہ بات زبان کے بولنے اور سننے کی حد تک ہے۔ لکھنے کے
معاملے میں سکھ پنجابیوں نے ” پنجابی کا شاہ مکھی رسم الخط “ (فارسی رسم الخط)
چھوڑ کر دیوناگری رسم الخط میں ” پنجابی کا گرومکھی رسم الخط “ ایجاد کرکے اپنی
تحریری زبان بنایا۔ حالانکہ گورو کی زبان سے نکلنے والی ” بولی “ رسم الخط نہیں
رکھتی لیکن سکھ پنجابیوں نے گورو کے ”مکھ“ سے نکلنے والی زبان کو دیوناگری رسم
الخط عطا کرکے " پنجابی کا گورمکھی رسم الخط " بنادیا۔ دیوناگری خط سے
ناآشنا پنجابی بولنے والے مسلمان گورمکھی سے کٹ گئے اور دیوناگری رسم الخط والی
گورمکھی لکھنے والے سکھ پنجابی شاہ مکھی سے کٹ گئے۔
شاہ مکھی کا رسم الخط فارسی ہونے کے ساتھ ساتھ حروف تہجی بھی وہ
ہی ہیں جو اب اردو پر مشتمل ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ حروف تہجی پنجابی زبان کی
ضرورت پوری کرنے کے لئے ناکافی ہیں۔ کم از کم پانچ صوتی حروف ایسے ہیں جو پنجابی
کو شاہ مکھی رسم الخط میں لکھنے کے لئے درکار ہیں لیکن شاہ مکھی رسم الخط صدیوں سے
ان پانچ حروف سے محروم ہے۔ پنجابی زبان وادب کی ترویج کے لئے قائم ادارے عموماً
اور پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگویج آرٹ اینڈ کلچر خصوصاً اس چیلنج کو پورا کرنے میں
ناکام رہا ہے۔
پنجابی زبان کو پنجابیوں کی تمام تر بے اعتنائی اور احساس کمتری
نے صدیوں سے بہرحال اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنی مضبوطی اور عوامی مقبولیت اسے
پنجابی شاعری نے عطا کی ہے۔ جس زبان میں بابا فرید کے اشلوک ' شاہ حسین اور بلہے
شاہ کی کافیاں ' سلطان باہو کے ابیات ' وارث شاہ کی ہیر اور میاں محمد بخش کی سیف
الملوک ہوں اُسے مضبوطی اور دوام کے لئے کسی اور چیز کی شاید ضرورت بھی نہیں ہے۔
No comments:
Post a Comment