پاکستان کو "
نظریہ پاکستان ” کی بنیاد پر بنایا گیا تھا۔ نہ کہ “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر
بنایا گیا تھا۔ “دو قومی نظریہ” کی پر ملک بننا تھا تو اتر پردیش کو مسلم اتر
پردیش اور غیر مسلم اتر پردیش میں تقسیم کرکے بننا تھا۔ نہ کہ بنگالی ' پنجابی ‘
سندھی ‘ ھندکو ‘ براھوئی قوموں کی زمین پر بننا تھا جو کہ پہلے سے ھی مسلم اکثریتی
علاقے تھے۔
اصل صورتحال یہ ھے کہ؛
پاکستان کے قیام کے دوران پنجاب کو مسلم پنجاب اور غیر مسلم پنجاب میں تقسیم
کروادیا گیا۔ پنجاب میں چونکہ مسلمان پنجابی ' ھندو پنجابی ' سکھ پنجابی اور
عیسائی پنجابی الگ الگ خطوں میں رھنے کے بجائے سارے پنجاب میں ھی مل جل کر رھتے
تھے۔ اس لیے نقل مکانی شروع ھوگئی۔ جس کی وجہ سے ماڑ دھاڑ اور لوٹ مار کا سلسلہ
شروع ھوگیا۔ اس کے نتیجہ میں 20 لاکھ پنجابی مارے گئے اور 2 کروڑ پنجابی بے گھر
ھوگئے۔ پنجابیوں کے اجڑنے ' برباد ھونے ' قتل
ھونے اور بے گھر ھونے کے عرصہ کے دوران ھی پاکستان کے قائم ھوتے ھی
اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی لیاقت علی خاں کو پاکستان کا وزیرِ اعظم
اور بمبئی کے خوجہ محمد علی جناح کو پاکستان
کا گورنر جنرل بن جانے کا موقع مل گیا۔ حالانکہ پاکستان کی سب سے بڑی
آبادی بنگالی اور دوسری بڑی آبادی پنجابی کے ھونے کی وجہ سے پاکستان کا گورنر جنرل
بنگالی اور وزیرِ اعظم پنجابی ھونا چاھیے تھا۔ کیونکہ جس زمین پر پاکستان قائم ھوا
تھا اس زمین کی زبان ' ثقافت ' تہذیب ' جغرافیہ اور عوام کے مسائل کا نہ لیاقت علی
خاں کو علم تھا اور نہ محمد علی جناح کو علم
تھا۔
پاکستان کے قائم ھوتے
ھی پاکستان کی بیوروکریسی پر بھی اترپردیش والوں کے قابض ھوجانے ' پاکستان کی
سیاست اور صحافت بھی اترپردیش والوں کے ھاتھ آجانے ' پاکستان کے شھری علاقوں پر
بھی اترپردیش والوں کے چھا جانے کی وجہ سے لیاقت علی خاں اور اترپردیش والوں کو “
دو قومی نظریہ ” کو " پاکستان کے بنیادی فریم ورک " میں گھسیڑ کر اپنے
درینہ منصوبے پر عمل کرنے کا موقعہ مل گیا اور " نظریہ پاکستان ” کی چھٹی
کروادی گئی۔ اسکے بعد بنگالی ' پنجابی ‘ سندھی ‘ ھندکو ‘ براھوئی قوموں کو یہ پٹی
پڑھانا شروع کی گئی کہ " نظریہ پاکستان ” اور “ دو قومی نظریہ ” ایک ھی بات
ھیں۔
پاکستان کے قیام کے بعد
جب پاکستان کی 97٪ آبادی مسلمان تھی تو 3٪ غیر مسلمانوں سے مقابلہ کرنے کے لیے کیا
97٪ مسلمانوں کو مذھب کی بنیاد پر “ دو قومی نظریہ ” کی ضرورت تھی؟ پاکستان کے قیام
کے بعد پاکستان کی 97٪ آبادی مسلمان ھونے کی وجہ سے پاکستان کو مذھب کی بنیاد پر “
دو قومی نظریہ ” کی نہیں بلکہ پاکستان کے بنگالی ' پنجابی ‘ سندھی ‘ ھندکو ‘ براھوئی
قوموں کا ملک ھونے کی وجہ سے قوموں کی بنیاد پر “ پانچ قومی نظریہ ” کی ضرورت تھی۔
جبکہ پاکستان کے لیے پیش کیے گئے " نظریہ پاکستان ” میں بھی پاکستان کو
قوموں کی بنیاد پر قائم کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی نہ کہ پاکستان کو مذھب کی
بنیاد پر “ دو قومی نظریہ ” کی بنیاد پر قائم کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔
چوھدری رحمت علی گجر
ایک مسلمان پنجابی تھے جو پاکستان کی ریاست کے قیام کے ابتدائی حامیوں میں سے ایک
تھے اور “نظریہ
پاکستان” کے بانی تھے۔
ان کا شمار موجودہ پاکستان کو قائم کرنے کے لئے "پاکستان" کے نام
کے تخلیق کار کے طور پر کیا جاتا ھے اور انہیں پاکستان کی تحریک کے
بانی کے طور پر یاد کیا جاتا ھے۔ انہیں 1933 کے ایک مشہور پمفلٹ "ابھی یا
کبھی نہیں؛ ھم رھتے ھیں یا ھمیشہ کے لئے ھلاک کردیے جائیں گے"؟ کے مصنف کے
طور پر جانا جاتا ھے۔ اس پمفلٹ کو پاکستان کے اعلامیہ کے طور پر جانا جاتا ھے۔
پمفلٹ ایک مشہور بیان کے ساتھ شروع ھوتا ھے؛
"بھارت کی تاریخ
کے اس اھم دور میں جب برطانوی اور بھارتی سیاستدان اس ملک کے لیے ایک وفاقی آئین
کی بنیادیں بچھانے جا رھے ھیں تو ھم ھمارے مشترکہ ورثے کے نام پر ' ھمارے
تین کروڑ مسلمان بھائیوں (پنجاب ' سندھ ' بلوچستان ' سرحد ' کشمیر کے
باشندے) کی جانب سے ' اس اپیل کے ذریعے آپسے مخاطب ھیں ' جو پاکستان کے رھنے والے
ھیں ۔ جس سے مراد ھے بھارت کے پانچ شمال مغربی یونٹس مطلب: پنجاب ' افغانیہ
(صوبہ سرحد اور فاٹا کے علاقے) ' کشمیر ' سندھ ' بلوچستان"۔
چوھدری رحمت علی گجر
پاکستان کے تصور کے لئے ایک اھم شخصیت تھے۔ وہ اپنی بالغ زندگی کا سب سے زیادہ
عرصہ برطانیہ میں رھے۔ وہ پاکستان کے قیام کے بعد اپنے ملک میں رھنے کا منصوبہ بنا
کر اپریل 1948 ء میں پاکستان واپس آئے۔ لیکن پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے اور کشمیر
کو پاکستان میں شامل نہ کرنے کی وجہ سے وہ 1933 میں اپنے پمفلٹ "ابھی یا کبھی
نہیں؛ ھم رھتے ھیں یا ھمیشہ کے لئے ھلاک کردیے جائیں گے"؟ میں تجویز کردہ
پاکستان جسکا مطالبہ لاھور کی 1940 کی قرارداد میں بھی کیا گیا تھا کے بجائے ایک
چھوٹے پاکستان پر زیادہ خوش نہیں تھے۔ لہذا وہ پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے اور
پاکستان میں کشمیر کو شامل نہ کرنے کی وجہ سے ایک نامکمل پاکستان اور پاکستان میں
بنگال کو شامل کرنے جبکہ یوپی ' سی پی کے لوگوں کو پاکستان کی حکومت 'سرکاری
ملازمتوں اور سیاست میں شامل کرلینے کی وجہ سے نامناسب پاکستان کو تخلیق کرنے پر
اپنے عدم اطمینان کا اظہار کرنے لگے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے پمفلٹ "ابھی یا
کبھی نہیں؛ ھم رھتے ھیں یا ھمیشہ کے لئے ھلاک کردیے جائیں گے"؟ میں بنگال کے
مسلمانوں کے لیے ایک مسلم وطن "بنگستان" کے نام سے تجویز کیا تھا۔
"عثمانستان" کے نام سے ایک مسلم ملک دکن اور یوپی ' سی پی کے
مسلمانوں کے لیے تجویز کیا تھا اور "دینیاس" کے نام سے ایک ملک جنوبی
ایشیا کے مختلف مذاھب کے لوگوں کے لیے تجویز کیا تھا۔ جبکہ اپنے پمفلٹ بعنوان
"ابھی یا کبھی نہیں؛ ھم رھتے ھیں یا ھمیشہ کے لئے ھلاک کردیے جائیں گے"؟
میں لفظ "پاکستان" بھارت کے پانچ شمال مغربی یونٹس مطلب: پنجاب
(بغیر تقسیم کے) ' افغانیہ (صوبہ سرحد اور فاٹا کے علاقے) ' کشمیر ' سندھ '
بلوچستان کے لیے تجویز کیا تھا"۔ نتیجے کے طور پر پاکستان کے اس
وقت کے اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے ' اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمان وزیر
اعظم لیاقت علی خان کی طرف سے چوھدری رحمت علی گجر کو پاکستان کا غدار قرار دے کر
پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ انکا سامان ضبط کر لیا گیا۔ انہیں پاکستان کے قیام
کے بعد پاکستان میں صرف چھہ ماہ رھنا نصیب ھوا اور وہ اکتوبر 1948 میں خالی ھاتھ
برطانیہ کے لئے روانہ ھوئے۔ انہوں نے فروری 1951 ء میں وفات پائی اور برطانیہ میں
کیمبرج کے نیومارکیٹ روڈ قبرستان میں 20 فروری کو سپرد خاک کر دیا گیا۔
جہاں تک “دو قومی
نظریہ” کی بات ھے تو؛ برٹش انڈیا کے مسلم اکثریتی صوبوں پنجاب ' سندھ '
بلوچستان ' شمال مغربی فرنٹیئر صوبہ یا سرحد (جسے اب 2010 سے خیبر پختونخواہ کہا
جاتا ھے) اور مشرقی بنگال میں مسلمانوں کی طرف سے 1937 کے انتخابات میں جمہوریت کو
ایک خطرے کے طور پر نہیں دیکھا گیا تھا۔ لیکن سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے
والے مسلمان اپنے صوبوں میں اقلیت میں تھے۔ اس لیے برٹش انڈیا کے آزاد ھونے کی
صورت میں جمہوریت کو اپنے لیے نقصاندہ سمجھتے تھے۔ آزاد انڈیا میں خود کو نقصان سے
بچانے کے لیے انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت پر قابض ھونا شروع کردیا اور
برٹش انڈیا کو مذھب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی تحریک شروع کردی اور برٹش انڈیا کے
مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک کی تشکیل کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔ دراصل سینٹرل
برٹش انڈیا کی مسلمان اشرافیہ کو اپنی نوابی خطرے میں پڑتی دکھائی دینے لگی
تھی۔ اسی لیے سینٹرل برٹش انڈیا کی مسلمان اشرافیہ کو معلوم ھوا کہ یہ
مسلمان ھیں اور ایک علیحدہ قوم ھیں۔ ورنہ انکے آباؤ اجداد کو 350 سال تک ھندوؤں پر
حکمرانی کرنے کے باوجود بھی علیحدہ قوم ھونے کا احساس نہیں ھوا تھا اور نہ ھی 1300
سال تک کے عرصے کے دوران کبھی کسی مسلمان عالم نے مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم قرار
دیا تھا۔
سینٹرل برٹش
انڈیا کی مسلمان اشرافیہ کے لیے سب سے مشکل کام یہ تھا کہ مسلم
اکثریتی صوبوں کے مسلمانوں کو برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک تشکیل
دینے کی حمایت کرنے کے لیے کیسے قائل کیا جائے؟ آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت پر
قابض سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں نے برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے
اتحاد کو مظبوط اور منظم کرنے کے مشن کی ابتدا کی۔ اس بات کا بھرپور چرچا شروع کیا
کہ برٹش انڈیا کے تمام مسلمان ایک قوم ھیں۔ نہ صرف انکا مذھب ایک ھے بلکہ انکی
زبان بھی ایک ھی ھے ' انکی ثقافت بھی ایک ھی ھے اور انکا سیاسی مفاد بھی ایک ھی
ھیں۔ بلاشبہ یہ ایک مذھب انکا دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والا اسلامی فلسفہ
تھا۔ ایک زبان انکی اردو زبان تھی۔ ایک ثقافت انکی گنگا جمنا کی ثقافت تھی اور ایک
سیاسی مفاد انکا نئے مسلم ملک میں سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں
کو برتری حاصل ھونا تھا۔
ایک ھی مذھب ھونے کے
باوجود برٹش انڈیا کے مسلمان دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والے اسلامی فلسفہ سے
ھٹ کر مختلف مذھبی نقطہ نظر رکھتے تھے۔ انکی زبانیں الگ الگ تھیں۔ انکی ثقافتیں
الگ الگ تھیں۔ انکی اپنی اپنی انفرادی تاریخ تھی۔ انکی اپنی اپنی منفرد قومی
شناختیں تھیں اور انکے اپنے اپنے سیاسی مفادات تھے۔ اس لیے تمام مسلم حلقوں میں
“دو قومی نظریہ” کو پذیرائی حاصل نہ ھوسکی۔ مثال کے طور پر 1937 کے انتخابات میں
“دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر مہم کو چلایا گیا لیکن آل انڈیا مسلم لیگ کو تمام
مسلم اکثریت کے صوبوں میں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 1937 کے انتخابات میں
صرف 4.6 فیصد مسلمانوں نے مسلم لیگ کے لئے ووٹ دیا اور مسلم لیگ نے پنجاب میں 84
نشستوں میں سے صرف 2 ' سندھ میں مسلمانوں کے لئے محفوظ 33 نشستوں میں سے 3 ' بنگال
کی 117 نشستوں میں سے 39 اور شمال مغربی فرنٹیئر صوبہ یا سرحد (جسے اب 2010
سے خیبر پختونخواہ کہا جاتا ھے) میں کوئی بھی نشست حاصل نہیں کی۔ اس طرح
پاکستان کے قیام سے صرف ایک دھائی پہلے برٹش انڈیا کے مسلمانوں نے تقریبا متفقہ
طور پر “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مسلم ملک
کے خیال کو مسترد کردیا تھا۔
سال 1940 ء میں آل
انڈیا مسلم لیگ نے لاھور میں اپنا سالانہ اجلاس منقعد کیا۔ جہاں نظریات کا اختلاف
واضح طور پر نظر آتا تھا۔ سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں نے “دو
قومی نظریہ” کی بنیاد پر برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مسلم ملک بنانے کے
حامیوں کا ایک گروپ بنایا۔ جبکہ مسلم اکثریت والے صوبوں بنگال ' پنجاب ' سندھ '
سرحد اور بلوچستان کے رھنماؤں نے لسانی ' ثقافتی اور نسلی تحفظ کی حمایت کی بنیاد
پر دوسرے گروپ کی تشکیل کی اور 1937 کے انتخابات کے نتائج سے آگاہ کیا۔ مسلم
اکثریت والے صوبوں کے رھنماؤں نے سالانہ اجلاس میں اپنی بالا دستی رکھی اور اپنی
خود مختاری کی خواھشات کو قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں بنگالی قوم پرست
اے ۔ کے فضل الحق کی طرف سے اجلاس میں ایک قرارداد پیش کی گئی۔ تاھم فضل الحق کی
طرف سے اجلاس میں قرارداد پیش کرنے سے پہلے مسلم لیگ کے رھنما محمد علی جناح نے
بھارت کے مسلمانوں کے جذبات کو جذباتی کرنے کی کوشش کی۔ لاھور میں آل انڈیا مسلم
لیگ کے سالانہ اجلاس میں تقریر کرتے ھوئے انہوں نے کہا؛
"مسلمانان
(مسلمان) فاتح ' تاجر اور مبلغین کے طور پر بھارت آئے تھے۔ وہ اپنے ساتھ اپنی
ثقافت اور تہذیب لائے تھے۔ انہوں نے بھارت میں اصلاح اور اصلاحات کیں. آج برطانوی
بھارت میں سو ملین مسلمان دنیا کے کسی بھی حصے میں مسلم آبادی کا سب سے بڑا حصہ
ھیں۔ ھم زبان اور ثقافت ' تہذیب اور تمدن ' آرٹ اور فن تعمیر ' نام اور کیلنڈر '
قدر اور تناسب ' قوانین اور اخلاق ' استعداد اور امتیاز ' تاریخ اور روایات ھیں۔
ھمارے پاس زندگی کا اپنا منفرد نقطہ نظر ھے۔ بین الاقوامی قانون کے تمام اصولوں کے
مطابق ھم ایک قوم ھیں۔
مسلم قومیت کے اس طرح
کے پرجوش الفاظ کے باوجود نہ محمد علی جناح نے اور نہ ھی مسلم لیگ کے کسی دوسرے
رھنما نے “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مسلم ملک
کی قراداد پیش کی۔ کیونکہ سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں کو 1937
کے انتخابات میں “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر شکست کی تازہ یادوں کی وجہ سے مسلم
اکثریت کے صوبوں کی قیادت سے ایسی مانگ کے لئے حمایت کا یقین نہیں تھا۔ اس کے
بجائے مسلم اکثریت والے ایک صوبے بنگال کے ایک رھنما فضل الحق کی طرف سے برٹش
انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مسلم ریاست کے الفاظ کو نظر انداز کرتے ھوئے برٹش
انڈیا کے مسلمانوں کے مستقبل کے لئے ایک قرارداد پیش کی کہ؛ جغرافیائی طور پر ملحق
اکائیوں کی علاقائی حدبندی کر کے ان کی آئینی تشکیل اس طرح کی جائے کہ جن علاقوں
میں مسلمان عددی طور پر اکثریت میں ھیں ' جیسا کہ ھندوستان کے شمال مغربی اور
مشرقی حصے ' ان کو آزاد ریاستوں میں گروہ بند کر دیا جائےاور اس طرح تشکیل پانے
والی یہ اکائیاں مکمل آزاد اور خودمختار ھوں گی۔ ان اکائیوں میں موجود خطوں کے
آئین میں اقلیتوں کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذھبی ' ثقافتی ' معاشی ' سیاسی '
انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے مناسب ' مؤثر اور لازمی اقدامات
یقینی بنائے جائیں گے اور ھندوستان کے دوسرے حصے جہاں مسلمان اقلیت میں ھیں ' آئین
میں ان کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذھبی ' ثقافتی ' معاشی ' سیاسی ' انتظامی اور
دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے مناسب ' مؤثر اور لازمی اقدامات عمل میں لائے
جائیں گے۔ مسلم لیگ نے رسمی طور پر 23 مارچ 1940 کو لاھور میں اس قرارداد کو
اپنایا۔ مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم
لیگی رھنما چوھدری خلیق الزماں ' پنجاب سے مولانا ظفر علی خان ' سرحد سے سردار
اورنگ زیب 'سندھ سے سر عبداللہ
ھارون اور بلوچستان سے قاضی عیسی نے کی۔ قرارداد 23 مارچ کو اختتامی اجلاس میں
منظور کی گئی۔
بہرحال اس وقت پاکستان
میں "دو مذھبی قومیں" نہیں ھیں۔ کیونکہ پاکستان کی 97٪ آبادی مسلمان
ھونے کی وجہ سے پاکستان مذھبی نظریہ کی بنیاد پر "ایک ھی مذھبی نظریہ"
والوں کی واضح اکثرت کا ملک ھے۔ جبکہ پاکستان لسانی نظریہ کی بنیاد پر چار قوموں
پنجابی ‘ سندھی ‘ ھندکو ‘ براھوئی قوموں کا ملک ھے۔ بلکہ کشمیری ‘ گلگتی بلتستانی
‘ چترالی ‘ راجستھانی ‘ گجراتی ‘ پٹھان ‘ بلوچ ' اردو بولنے والی ھندوستانی
برادریاں بھی پاکستان کی شہری ھیں۔ پہلے بھی “دو قومی نظریہ” پنجاب ' سندھ '
خیبر پختونخوا ' بلوچستان کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ اتر پردیش کا مسئلہ تھا اور اب
بھی اتر پردیش کا مسئلہ ھے۔ اس لیے اتر پردیش والے جانیں اور اتر پردیش والوں کا
مسئلہ جانے۔ پنجابی ‘ سندھی ‘ ھندکو ‘ براھوئی قومیں اور کشمیری ‘ گلگتی بلتستانی
‘ چترالی ‘ راجستھانی ‘ گجراتی ‘ پٹھان ‘ بلوچ ' اردو بولنے والی ھندوستانی
برادریاں اپنے مسئلے پر دھیان دیں۔ چونکہ پنجابی ‘ سندھی ‘ ھندکو ‘ براھوئی قومیں
اور کشمیری ‘ گلگتی بلتستانی ‘ چترالی ‘ راجستھانی ‘ گجراتی ‘ پٹھان ‘ بلوچ ' اردو
بولنے والے ھندوستانی الگ الگ علاقوں میں رھنے کے بجائے پاکستان کے ھر علاقے میں
مل جل کر رہ رھے ھیں۔ اس لیے پنجابی ‘ سندھی ‘ ھندکو ‘ براھوئی قوموں اور کشمیری ‘
گلگتی بلتستانی ‘ چترالی ‘ راجستھانی ‘ گجراتی ‘ پٹھان ‘ بلوچ ' اردو بولنے والی
ھندوستانی برادریوں کے باھمی تعلقات اور تنازعات پر دھیان دینے کی ضرورت ھے۔ نہ کہ
اتر پردیش کے “دو قومی نظریہ” پر بحث و مباحثہ کرتے رھنے اور "نظریہ
پاکستان" پر “دو قومی نظریہ” کو فوقیت دیتے رھنے کی ضرورت ھے۔
قوموں کی اپنی زمین '
زبان ' رسم و رواج ھوتے ھیں۔ پاکستان وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین پر قائم ھے۔
پاکستان کی 97٪ آبادی مسلمان ھے۔ پاکستان ' پنجابی ‘ سندھی ‘ ھندکو ‘ براھوئی '
کشمیری ‘ گلگتی بلتستانی ‘ چترالی ‘ راجستھانی ‘ گجراتی ‘ پٹھان ‘ بلوچ ' اردو
بولنے والی ھندوستانی برادریوں کا ملک ھے۔ پاکستان میں امن ' استحکام اور خوشحالی
جبکہ پاکستان کی عوام کو مطمعن ' مستحکم اور متحد رکھنے کے لیے ضروری ھے کہ
پاکستان کی پنجابی ‘ سندھی ‘ ھندکو ‘ براھوئی ' کشمیری ‘ گلگتی بلتستانی ‘ چترالی
‘ راجستھانی ‘ گجراتی ‘ پٹھان ‘ بلوچ ' اردو بولنے والی ھندوستانی برادریوں سے “دو
قومی نظریہ” کے بجائے “نظریہ پاکستان” پر عمل کروایاجائے۔
No comments:
Post a Comment