Friday, 14 September 2018

نواز شریف کی ذھنی کیفیت اور آئندہ کا سیاسی لائحہء عمل اھم ھوگا۔

انسان کو جب کچھ کھو جانے کا خدشہ ھو تو خوف میں رھتا ھے۔ انسان کو جب کچھ ملنے کی امید ھو تو لالچ میں رھتا ھے۔ پاکستان کی وزاتِ اعظمیٰ کے کھو جانے اور اپنی بیٹی سمیت جیل جانے جبکہ اپنی شریکِ حیات کے انتقال کے بعد اب نواز شریف کے پاس مزید کھونے کے لیے تو کچھ بچا نہیں ھے۔ نواز شریف کے دو بیٹے ھیں جو پاکستان کی شہریت ختم کرکے برطانیہ کی شہریت لے چکے ھیں۔ انتخاب ھو چکے ھیں اور 2023 تک کے لیے پاکستان کی حکومت قائم ھوچکی ھے۔ اس لیے فوری طور پر پاکستان کی حکومت ملنے کی امید نہیں ھے۔ لہٰذا نواز شریف کو اب نہ تو کچھ کھو جانے کا خوف رھنا ھے اور نہ کچھ ملنے کا لالچ رھنا ھے۔ جبکہ سیاست سے نواز شریف نے اب دستبردار ھونا نہیں ھے بلکہ اب مفاھمانہ کے بجائے مزید جارحانہ سیاست کی طرف بھی جا سکتا ھے۔

پاکستان کا تین بار وزیرِ اعظم منتخب ھونے لیکن تینوں بار اقتدار کی مدت پوری کرنے سے پہلے اقتدار سے محروم ھونے بلکہ دو بار تو اقتدار سے محروم ھونے کے بعد جیل جانے کے تجربے نے نواز شریف کی ذھنی کیفیت اور نفسیاتی حالت کو بھی تبدیل کردیا ھے۔ جبکہ نواز شریف اس وقت بھی پاکستان کا سب سے زیادہ اور خاص طور پر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا اور پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی کا مقبول رھنما اور پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ن لیگ کا قائد ھے۔ بلکہ اپنے سیاسی جانشیں کے طور پر اپنی بیٹی مریم نواز کی سیاسی تربیت کرکے اپنا متبادل بنا چکا ھے۔

سیاست کا 35 سالہ تجربہ ھونے اور پاکستان کا تین بار وزیرِ اعظم رھنے کی وجہ سے نواز شریف کے قومی ھی نہیں بلکہ بین الاقوامی تعلقات بھی ھیں۔ بین الاقوامی حالات کا بھی ادراک رکھتا ھے۔ پاکستان میں بین الاقوامی طاقتوں کی دلچسپیوں کا بھی علم ھے۔ پاکستان کے قومی معاملات کی بھی معلومات ھیں۔ پاکستان کے صوبائی و مقامی مسائل سے بھی آگاہ ھے۔ جبکہ اسے تین بار اقتدار سے نکالنے والوں کے مفادات اور معاملات سے بھی آگاھی ھے۔

ماضی میں ذالفقار علی بھٹو بھی 1958 سے لیکر 1979 تک کے 21 سال کا عرصہ پاکستان کی سیاست میں رھا۔ لیکن ذالفقار علی بھٹو کی سیاست کی ابتدا پاکستان کے پہلے ڈکٹیٹر جنرل اسکندر مرزا کی کابینہ میں شامل ھونے سے ھوئی تھی اور بعد میں پاکستان کے دوسرے ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کی کابینہ میں شامل رھا تھا۔ جبکہ پاکستان کا واحد سویلین مارشل لاء ایڈمینسٹریٹر بھی رھا اور صرف ایک بار ھی جمہوری سیاسی عمل میں شریک ھوکر پاکستان کا وزیرِ اعظم بنا تھا اور وہ بھی مشرقی پاکستان کے علیحدہ ھوکر بنگلہ دیش بننے کی وجہ سے ورنہ ذالفقار علی بھٹو پاکستان کا وزیرِ اعظم نہ بنتا بلکہ اپوزیشن لیڈر رھتا۔

اسکے باوجود 1977 میں مارشل لاء نافذ کرکے 1979 میں ذالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد ذالفقار علی بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے 2007 میں قتل ھونے تک پاکستان کی سیاست میں طوفان برپا کیے رکھا اور پاکستان کی سیاست پر چھائی رھیں۔ حالانکہ بے نظیر بھٹو ایک تو سندھی تھیں اور دوسری طرف بے نظیر بھٹو کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب سے نواز شریف ایک سیاسی رھنما بن کر سامنے آگیا تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کی اکثریت کا تعلق بھی پنجاب سے تھا۔

اس وقت پاکستان کی سیاسی صورتحال یہ ھے کہ؛ ایک طرف قحط الرجالی کی وجہ سے پاکستان میں پاکستان کی سطح کا تو کیا کسی ایک صوبے میں صوبائی سطح کا بھی کوئی سیاسی رھنما نہیں ھے۔ دوسری طرف پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھی سیاسی نظریہ کے بجائے شخصی بنیادوں پر منظم ھیں۔ اس لیے قومی سطح کی سیاسی جماعتوں کے بجائے لسانی ' فرقہ ورانہ یا علاقائی گروہ کی حیثیت رکھتی ھیں۔ تیسری طرف نواز شریف اور مریم نواز کا تعلق پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور پاکستان کی سب سے بڑی قوم پنجابی سے ھے۔ جبکہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کی اکثریت کا تعلق بھی پنجاب اور پنجابی قوم سے ھے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں بین الاقوامی طاقتوں کے جاری کھیل کی وجہ سے نواز شریف خود بھی اس کھیل میں شامل ھوسکتا ھے یا پھر پاکستان میں بین الاقوامی کھیل کھیلنے والی طاقتیں بھی نواز شریف یا مریم نواز کو اپنے کھیل کے لیے استعمال کر سکتی ھیں۔ اس لیے پاکستان کی سیاست میں پاکستان کے قیام کی سات دھائیوں کے بعد اب ایک نئی طرح کی سیاسی فضاء بن سکتی ھے۔

ان حالات میں نواز شریف کی موجودہ ذھنی کیفیت ' نفسیاتی حالت اور آئندہ کا سیاسی لائحہء عمل پاکستان کے مستقبل کے لیے بہت اھم ھے۔ نواز شریف کو جیل سے نکلنے دینا بھی مسئلہ بن سکتا ھے۔ نواز شریف کو جیل میں بند رکھنا بھی مسئلہ بن جانا ھے۔ نواز شریف جیل میں رھے یا جیل سے باھر رھے۔ نواز شریف کی زبان سے نکلنے والے الفاظ بڑی اھمیت اختیار کر جائیں گے۔ خاص طور پر نواز شریف کو تین بار اقتدار سے نکالنے والوں کے مفادات اور معاملات کو نواز شریف کی طرف سے پاکستان کی عوام کے سامنے لانے کی صورت میں پاکستان میں سیاسی طوفان برپا ھوسکتا ھے جو بہت کچھ بہا کر لے جاسکتا ھے۔ جبکہ نواز شریف کی سیاسی جانشین مریم نواز کی سیاسی جدوجہد اس سیاسی طوفان کے دھارے کو نواز شریف کی مرتب کردہ سیاسی حکمت عملی کے مطابق رواں دواں رکھنے کے لیے رھنما کا کردار ادا کرسکتی ھے۔

No comments:

Post a Comment