جموں و کشمیر میں چناب اور جہلم کے درمیانی علاقوں اور پوٹھوھار سے لے کر مظفرآباد تک پھیلے ھوئے علاقہ جات کے باسیوں کی زبان پنجابی زبان کا پہاڑی لہجہ ھے۔ پہاڑی لہجہ کی قدامت کا اندازہ اِس سے لگایا جاسکتا ھے کہ؛ شمالی پنجاب میں تحریر ھونے والی پہلی کتاب ’’بھرت کتھا‘‘ پہاڑی لہجہ میں لکھی گئی تھی۔ پہاڑی لہجہ کی جائے پیدائش قدیم گندھارا کی سرزمین ھے’ جس کو خطہ "دردستان" کہا جاتا تھا۔ یہ خطہ دریائے سندھ سے جہلم کے درمیان پھیلا ھوا ھے۔
شمالی پنجاب میں اپنی حکمرانی کے جوھر دکھانے والے اشوک اور راجہ پورس کے درباروں کی زبان پہاڑی تھی۔ اِس کے علاوہ کشمیر پر جن بادشاھوں نے حکمرانی کی اُن میں سے سلطان مظفر خان ’ ھیبت خان ’ محمود خان ’ حسین خان ’ زبردست خان اور شیر احمد خان کے عہد کی سرکاری اور درباری زبان بھی پہاڑی رھی ھے۔
لسانیات کے ماھرین نے پہاڑی زبان کو تین بڑی شاخوں میں تقسیم کیا ھے۔
1۔ مشرقی پہاڑی زبان کی یہ شاخ نیپال تک کے وسیع خطے میں بولی جاتی ھے۔ اِس کو مقامی لوگ ’’خشورہ‘‘ کے نام سے پکارتے ھیں۔
2۔ وسطی پہاڑی زبان کی یہ شاخ اتراکھنڈ کے علاقے گڑھوال میں بولی جاتی ھے۔ اِس کو مقامی لوگ "گُڑ والی اور کومونی" کے نام سے پکارتے ھیں۔
3۔ مغربی پہاڑی زبان کی یہ شاخ ریاست ھماچل پردیش کے بالائی علاقوں ’ جموں ڈویژن ’ آزاد کشمیر ’ سطح مرتفع پوٹھوھار ’ مری ’ جہلم ’ ھزارہ اور پشاور میں لہجوں کے فرق سے بولی جاتی ھے۔
وسطی پہاڑی ' پنجابی زبان کا ضمنی لہجہ ھے جبکہ مشرقی پہاڑی لہجے میں پنجابی زبان کے ضمنی لہجہ پوٹھوھاری کے علاقے سے ملنے کی وجہ سے پوٹھوھاری لہجے کی آمیزش ھے۔ جبکہ مغربی پہاڑی لہجے میں پنجابی زبان کے ضمنی لہجہ ڈوگری کے علاقے سے ملنے کی وجہ سے ڈوگری لہجے کی آمیزش ھے۔
پہاڑی لہجہ پنجابی زبان کا ایک قدیم لہجہ ھے۔ جس کے بارے میں ماھر لسانیات کا خیال ھے کہ؛ ھمالیہ کی گھاٹیوں میں جب سے انسان نے قدم رکھا اس دن سے ھی پہاڑی اس کی زبان رھی ھے۔ اسی طرح پہاڑی کی ترقی کے حوالے سے؛
1۔ غلام مصطفی پونچھی بیان کرتے ھیں کہ؛ مہاراجہ اشوک کے دورحکومت میں پہاڑی زبان کو کافی حد تک ترقی اور وسعت حاصل ھوئی۔
2۔ کے۔ ڈی۔ مینی اس حوالے سے یوں رقمطراز ھیں کہ؛ مختلف علاقوں میں مختلف پڑوسی زبانوں کے ملاپ کے باعث یہ زبان مختلف علاقوں کی نسبت سے یعنی کھاشورہ ’ کمانی ’ گڑھوالی ’ سرموری ’ کتونی ’ کانگڑی ’ پونچھی ’ مظفرآبادی ’ پوٹھوھاری ’ ھندکو ’ چترالی ’ کاغانی اور ھزاروی کے نام سے مشہور ھوئی ھے لیکن درحقیقت یہ پہاڑی زبان ھی ھے۔
پنجابی زبان کا پہاڑی لہجہ کشمیریوں کی اکثریت کی زبان ھے۔ نذیر احمد مسعودی کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں بولا جانے والا پنجابی زبان کا پہاڑی لہجہ مقبوضہ ریاست کے علاقوں کٹھوعہ ’ جموں ’ اودھم پور’ وادی چناب ’ ڈوڈہ ’ بھدروا ’ کشتواڑ ’ راجوری ’ بارہ مولہ ’ لری ڈورہ ’ چک فیروزپور ’ چک تمریرن ’ سرینگر کے علاقوں ولی واڑ ’ واوہ ’ ناگن بل ’ پلوامہ کے علاقوں کربوہ ’ مانلوزورہ ’ چک سید پورہ اور اننت ناگ کے کئی حصوں کے ساتھ ساتھ مظفرآباد ’ پونچھ اور میرپور یعنی آزاد کشمیر بھر میں کثرت کے ساتھ بولا اور سمجھا جاتا ھے۔ اس کے علاوہ ھزارہ ’ پکھلی ’ مری اور پنڈی کہوٹہ کے مختلف علاقوں میں بھی پہاڑی لہجہ بولا جاتا ھے۔
جہاں تک رسم الخط کا تعلق ھے تو مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں میں پہاڑی لہجہ کے رسم الخط بھی مختلف رھے ھیں۔ پہاڑی لہجہ ٹاکری’ دیوناگری ' شاردالپی ' شاہ مکھی اور گرومکھی رسم الخط میں لکھا جاتا رھا ھے۔ اب پہاڑی کا رسم الخط مذھب کی بنیاد پر تقسیم ھے۔ ھماچل پردیش اور جموں کے ھندو اِسے دیونا گری رسم الخط میں لکھتے ھیں۔ ھماچل پردیش کے زیریں علاقوں کے سکھ اِس کو گرومکھی رسم الخط جبکہ جموں ’ کشمیر اور پاکستان میں رھنے والے مسلمان اسے شاہ مکھی رسم الخط میں لکھتے ھیں۔
پہاڑی لہجہ کی مشرقی اور وسطیٰ شاخیں تو وقت کے ساتھ ساتھ خوب ترقی کررھی ھیں۔ نیپال اور ھندوستان میں پہاڑی لہجہ میں ادب تخلیق ھورھا ھے۔ ان کا اپنا معیاری رسم الخط تیار ھوچکا ھے۔ پہاڑی زبان کی اپنی ایک الگ فلم انڈسٹری موجود ھے۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر یونیورسٹیوں میں اِس زبان کی تدریس ھورھی ھے۔ ھماچل پردیش میں بولی جانے والی مغربی پہاڑی ' جسے مہاشو پہاڑی کہا جاتا ھے اور جموں میں بولی جانے والی پہاڑی نے بھی گزشتہ نصف صدی کے دوران تدریس ’ ادب اور فلم و ٹی وی ڈراموں کے حوالے سے خاصی ترقی کی ھے۔ لیکن آزاد کشمیر کے 96 فیصد حصے اور مقبوضہ کشمیر کے 26 لاکھ انسانوں کے علاوہ پوٹھوھار اور کوہ مری میں بسنے والے لاکھوں انسانوں کی مادری بولی پہاڑی صرف بول چال تک محدود ھوکر رہ گئی ھے۔ لیکن سرکاری سطح پر اِسے بہت بُری طرح نظر انداز کیا جا رھا ھے۔
پہاڑی لہجہ پنجابی زبان کا ایک قدیم لہجہ ھے۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ؛ یہ لہجہ وسط ایشیاء اور مشرقی یورپ سے آنے والے آریاؤں کے اس گروہ کا لہجہ ھے جو پہلے مشرقی ایران میں قیام پذیر ھوا اور بعد ازاں 2000 قبل مسیح میں اس گروہ نے پنجاب کی طرف رخ کیا اور کوہ ھندوکش کے جنوبی علاقوں اور کشمیر کے شمالی علاقہ جات میں میں وارد ھوا اور اپنے ڈیرے ڈال دیے۔ اس گروہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ؛ یہ ” کھکھہ قبائل” کا گروہ تھا۔ انگریز محقق گریرسن نے اس کو” کھاشہ قبائل” کا نام دیا ھے۔ اسی تناظر میں وہ مزید لکھتا ھے کہ؛ ھندوکش جنوبی پہاڑی علاقہ جات اور مغربی پنجاب میں جو قبائل مقیم تھے۔ ان میں سے ایک کھاشہ قبیلہ تھا۔ ان کی زبان سنسکرت کے بہت قریب اور ایرانی زبان سے کافی حد تک مطابقت رکھتی تھی۔ یہ قبیلہ کوہ ھمالیہ کے مشرق سے مغرب تک پھیلا ھوا ھے۔ اس قبیلہ کا ٹھکانہ شمالی پنجاب کی پہاڑی سر زمین رھی ھے۔ کھاشہ قبائل کے حوالے سے راج ترنگنی میں بھی شوائد ملتے ھیں۔ اس قبیلہ کی ایک خاتون دیدہ رانی کشمیر کی حکمران بھی رھی ھے۔ جس کا باپ راجہ لوھرن/لوھارا پونچھ کا حکمران بھی رھا ھے۔
پنجابی زبان کا پہاڑی لہجہ جہاں بول چال کا ایک اھم ذریعہ ھے۔ وھاں ایک بھرپور تخلیقی لہجہ بھی ھے۔ تخلیقی نوعیت کے باعث اس میں لوک ادب کا ذخیرہ کافی معیاری مقدار میں موجود ھے۔ پہاڑی لہجہ میں لوک گیت ’ لوک کہاوتیں ’ لوک کہانیاں ' اقوال (اخان) ’ پہلیاں اور لوک داستانیں موجود ھیں۔ مختلف مواقعوں پر پہاڑی گیت جن میں شوپیا ’ اٹھی جے جلیا ایں ’ ڈھولا ’ چن ’ مٹھا ’ چرخہ ‘ قینچی ’ چنوٹا ماڑیا ’ وار ’ ماھیا ’ لیتری’ الی الی بینی ماڑی ’ ٹپا ’ سہلا اور شادی بیاہ کے موقعوں پر گائے جانے والے گیت کافی مقدار میں موجود ھیں۔
لوک ادب کے ساتھ ساتھ پہاڑی لہجہ میں تخلیقی ادب کا سرمایہ کافی حد تک موجود ھے۔ اس نقطہ نظر سے اس کو تین ابواب میں تقسیم کیا گیا ھے۔
پہلے دور کے مشہور قلم کاروں اور شعراء میں میاں یونس ’ میاں نظام الدین کیانی ’ سائیں قادر بخش ’ میاں محمد بخش شامل رھے ھیں۔ میاں محمد بخش کا پہاڑی کلام؛
جیونکر بیٹے تساں پیارے '
تیونکر بیت اساںنوں
بیٹے نوں کوئی انگل لائے'
لگدے بیت تسانوں
دشمن وانگ دسے اوہ سانوں '
جے کوئی بیت تروڑے
بیٹے نازک لال سندر دے '
ایونکر کن مروڑے
سیر کرو خوشبوئیں مانو '
پھل مباح تسانوں
شاخ رکھ تروڑ ناھیں '
بھلی صلاح تسانوں
دوسرا دور سائیں فقیر الدین ’ عبداللہ کرناھی ’ عزیز خان ’ پیر سید محمد نیک عالم شاہ ’ مولانا عبداللہ سیاکھوی اور میاں محمد زمان چن سمیت دوسرے شعراء کے حوالے سے مشہور ھے۔ میاں محمد زمان چن کا پہاڑی کلام؛
اک فراق ھے سجناں دا '
دوجی لگیاں سخت بیماریاں نی
چڑھیا تاپ فراق دا وچ سینے '
سجن وچھڑے قسمتاں ھاریاں نی
سدا رھن نہ تاج تے تخت شاھی '
سدا رھن نہ محل تے ماڑیاں نی
چن لائی پریت پردیس جا کے '
سینے وچ زمان کٹاریاں نی
تیسرا دور دور جدید ھے جو 70 کی دھائی کے بعد شروع ھوتا ھے اور اس میں بے شمار شعرا اور لکھاریوں نے پہاڑی لہجہ کے ذریعے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ھے۔ جن میں کریم اللہ قریشی ’ رفیق بھٹی ’ ڈاکٹر صغیر’ سلیم رفیقی ’ مشتاق شاد ’ نذیر انجم ’ جاویدحسن ’ صابر مرزا ’ صابر آفاقی ’ حسام الدین ’ سرفراز تبسم ’ الطاف قریشی اور دیگر قابل ذکر ھیں۔
پہاڑی لہجہ میں شعراء کے ساتھ ساتھ کافی تعداد میں افسانہ نگار بھی موجود ھیں۔ جن میں قریشی برادران کے علاوہ عبدالحمید خان ’ شہناز راجوری ’ کوش دیو مینی ’ جہانگیر عالم ’ یوسف نسیم ’ بیگم سنگھ راھی ’ سرور ریحان ’ غلام مصطفی پونچھی ’ ڈاکٹر محمد صغیر’ نثار راھی’ اعظم حسرت ’ مقبول ساحل اور نذر بونیازی جیسے کئی اھل قلم شامل ھیں۔ جدید افسانے میں علی عدالت کا نام اھمیت کا حامل ھے۔ جدید پہاڑی لہجہ کے افسانوں میں ”شیشے نیاں منکراں”‘ ”چٹھی نابہانہ”‘ ” بگے نی پگ”‘ ” ملاکڑھوغیرہ” علی عدالت کے مشہور نمائندہ افسانے ھیں۔
مختصرا یہ کہا جا سکتا ھے کہ؛ ریاست جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں بولا جانے والا پنجابی زبان کا پہاڑی لہجہ جو زمانہ قدیم میں اپنی شہرت میں مثال نہیں رکھتا تھا۔ عرصہ دراز کے بعد عروج کی راہ اپنائے ھوئے ھے۔ پہاڑی لہجہ اپنے اندر تخلیقی ادب ’ لوک ادب ’ لوک گیت ’ افسانوں اور ناول کا ایک بڑا ذخیرہ سموئے ھوئے ھے۔ پہاڑی لہجہ میں اظہار رائے کرنے والے اھل قلم کو اس بات کا ادراک ھے کہ؛ پہاڑی لہجہ زمانہ قدیم میں ایک اھم مقام رکھتا تھا اور آج بھی ریاست جموں و کشمیر کے اکثریتی علاقوں میں بولا جانے والی زبان ھے۔ لہذا جدید تخلیق کاران تمام امور ’ جو تخلیقی مواد کے لیے ضروری ھوتے ھیں ' نہ صرف ان سے واقف ھیں بلکہ ان تمام اوصاف کے حامل بھی ھیں۔ یہی امر پنجابی زبان کے پہاڑی لہجہ کی ترویج ‘ روشن مستقبل کی ضمانت کے ساتھ ساتھ اپنے اصل کے ساتھ وابستگی کا اظہار بھی ھے۔
No comments:
Post a Comment