پاکستان
کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ھے اور سب سے بڑی قوم پنجابی ھے جبکہ پاکستان کا دوسرا
بڑا صوبہ سندھ ھے اور دوسری بڑی قوم سندھی ھے۔ وادیء سندھ کی قومیں ھونے کی وجہ سے
پنجابی اور سندھی مشترکہ تہذیب اور ثقافت والی قومیں ھیں۔ پنجابی اور سندھی قومیں تاریخی
ھمسائے بھی ھیں۔ پاکستان کی دونوں بڑی قوموں میں سیاسی و سماجی ' معاشی و اقتصادی ھم
آھنگی رھتی تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ سندھ کو اور سندھیوں کو ھونا تھا۔ لیکن بلوچ نزاد اور عربی نزاد سندھی قوم پرستوں نے پنجاب اور پنجابی قوم کے ساتھ طویل عرصے تک محاذ آرائی کرکے
ایک طرف تو پاکستان کی سب سے بڑی قوم پنجابی کو خود سے اتنا بدظن کرلیا ھے کہ
پنجابی اب سندھ میں سماجی رابطے ' معاشی و اقتصادی سرگرمیاں ' حتیٰ کہ سیاست کرنے
سے بھی گریز کرتے ھیں۔ اس لیے ھی پنجابیوں کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ن لیگ سندھ کے
سماجی و سیاسی ' معاشی و اقتصادی معاملات میں دلچسپی لے کر سیاست کرنے کے بجائے صرف
خانہ پری کرنے کی حد تک سیاست کرتی ھے۔
دوسری طرف ذوالفقار علی بھٹو ' پیر پگارو ' محمد خان جونیجو ' غلام مصطفی جتوئی
اور بے نظیر بھٹو سندھیوں کے لیے پنجاب کے عوام کے ساتھ رابطے اور واسطے کا ذریعہ
رھے۔ لیکن انکی وفات کے بعد اب پنجاب کے ساتھ موثر سماجی رابطے اور سیاسی
واسطے کر پانے والی شخصیت کے نہ ھونے کی وجہ سے سندھیوں کا پنجاب کی عوام کے ساتھ
رابطہ اور واسطہ ختم ھوتا جا رھا ھے۔ جبکہ ن لیگ کے پنجابیوں کی سب سے بڑی سیاسی
پارٹی ھونے کے بعد اب پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں کی سیاسی پارٹی پی ٹی آئی کے پنجاب
کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی بن جانے کے بعد اب سندھیوں کی سیاسی پارٹی پی پی پی کی
پنجاب میں اور پاکستان کے وفاق میں گنجائش نہ ھونے کے برابر رہ گئی ھے۔ یہی وجہ ھے
کہ 1971 میں مشرقی پاکستان کے پاکستان سے الگ ھوکر بنگلہ دیش بننے کے بعد یہ پہلا
موقع ھے کہ پی پی پی نہ تو پاکستان کے وفاق میں حکومتی سیاسی پارٹی ھے اور نہ پاکستان
کی قومی اسمبلی میں اور نہ پاکستان کی سینٹ میں اپوزیشن لیڈر پی پی پی کا ھے۔ اس
لیے سندھیوں کے پنجابی قوم کے ساتھ رابطے اور واسطے کا ختم ھونا ' پنجاب کا
سندھیوں کے ساتھ لاتعلقی کا باعث اور سندھیوں کے لیے قومی سیاست میں خود کو تنہا
کرنے والا بنتا جا رھا ھے۔
پنجاب
کی آبادی پاکستان کی 60 فیصد آبادی ھے۔ پنجابیوں کی پاکستان کی مرکزی حکومت '
پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی ' صنعت ' تجارت ' سیاست ' صحافت اور ھنرمندی کے
شعبوں پر مکمل بالادستی ھے۔ سندھیوں کے پنجابی قوم کے ساتھ رابطے اور واسطے کے ختم
ھونے اور پنجاب کے سندھیوں کے ساتھ لاتعلقی کے باعث اب مستقبل میں سندھیوں کو
پاکستان کی مرکزی حکومت ' پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی ' صنعت ' تجارت '
سیاست ' صحافت اور ھنرمندی کے شعبوں میں وہ عزت ' اھمیت اور سہولت نہیں ملا کرنی
جو ماضی میں ملتی رھی۔
دراصل
1901 کی دھائی میں نارہ کینال اور 1930 کی دھائی میں سکھر بیئراج کی زمینیں آباد
کرنے کے لیے سندھ جانے والے پنجابیوں کی اکثریت 1972 میں سندھ کے عربی نزاد قبضہ
گیر جی ۔ ایم سید کی بنائی گئی تنظیم
"جیئے سندھ" کی "سندھو دیش" تحریک کی دھشتگردانہ کاروائیوں کی
وجہ سے 1970 کی دھائی میں اپنی آباد کی ھوئی زمینیں اور کاروبار چھوڑ کر دیہی سندھ
سے نکل کر پنجاب واپس آگئی اور جو پنجابی دیہی سندھ میں بچ گئے تھے وہ کراچی جانے
لگے۔
1970
کی دھائی میں اور 1980 کی دھائی میں دیہی سندھ کے تعلیمی اداروں میں سندھ کے
پنجابیوں کو غنڈہ گردی اور تشدد کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے سے روکا جاتا رھا اور دیہی
سندھ کے کوٹہ سے سرکاری ملازمتوں میں حصہ نہ لینے دیا جاتا رھا۔ جسکے بعد سے
پنجابی نے دیہی سندھ میں اپنے ٹائم ' ٹیلنٹ اور وسائل کی انویسٹمنٹ کے لیے نہ صرف سندھ
جانا بند کر دیا بلکہ جو پنجابی آبادگار دیہی سندھ سے نکل سکتا تھا ' اسنے دیہی
سندھ سے نکلنا شروع کر دیا۔ اس وقت دیہی سندھ میں وہ پنجابی بچا ھے ' جو نہ تو
معاشی طور پر مظبوط ھے ' نہ سیاسی طور پر مظبوط ھے ' نہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ھے اور
نہ جدید ھنرمندی کی مھارت رکھتا ھے۔
جب
معاشی طور پر مظبوط ' سیاسی طور پر مظبوط ' اعلیٰ تعلیم یافتہ اور جدید ھنرمندی کی
مھارت والا پنجابی دیہی سندھ میں اپنے ٹائم ' ٹیلنٹ اور وسائل کی انویسٹمنٹ کرنے
کے لیے تیار ھی نہیں اور نہ 1970 کی دھائی میں اور 1980 کی دھائی میں دیہی سندھ کے
پنجابیوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کو بھولنے پر تیار ھے ' تو پھر سندھیوں اور
پنجابیوں کے درمیان سماجی ' کاروباری اور سیاسی تعلقات کیسے بہتر ھوسکتے ھیں؟ سندھ
کی معاشی و اقتصادی ترقی اور سندھیوں کی سماجی و سیاسی ترقی کے لیے پنجابیوں کی
طرف سے ٹائم ' ٹیلنٹ اور وسائل کی انویسٹمنٹ کیوں کی جائے گی؟
دوسری
طرف سندھ کے شھری علاقے کراچی پر مھاجر قبضہ کرچکے ھیں۔ مستقبل میں کراچی کے مھاجر
اور پنجابی کی آپس میں سیاسی ' سماجی اور معاشی ھم آھنگی کراچی کو سندھ سے الگ
کرکے "کراچی صوبہ" بنا دے گی۔ جبکہ
دیہی سندھ کی معاشی اور اقتصادی صورتحال ویسی ھی ھے جیسی 1970 اور 1980 کی دھائی میں دیہی سندھ سے
پنجابیوں کے نکلتے وقت تھی۔ نہ ذراعت کو ترقی دی گئی۔ نہ صنعت لگائی گئی۔ نہ تعلیم
اور صحت کی معیاری سہولتیں ھیں۔ نہ تجارتی اور کاروباری مراکز قائم کیے جا سکے۔ نہ
ماڈرن شھر بنائے جا سکے۔ نہ جدید ھنر کے ادارے بنائے جا سکے۔ جب تک کوئی قوم خود
کو سیاسی ' معاشی و اقتصادی طور پر مظبوط نہیں کرتی اس وقت تک وہ قوم سماجی عزت اور
وقار کیسے حاصل کر سکتی ھے؟
پنجابیوں
کا دیہی سندھ کے سماجی و سیاسی ' معاشی و اقتصادی معاملات میں دلچسپی نہ لینا اور صرف
کراچی میں دلچسپی لینا دیہی سندھ کے لیے نقصاندہ ھوتا جا رھا ھے۔ کیونکہ اس سے
سندھ کے سماجی و سیاسی ' معاشی و اقتصادی معاملات میں کراچی کی بالاتری قائم ھوتی جا
رھی ھے۔ اس سے مھاجر فائدہ اٹھا رھے ھیں۔ جبکہ سندھیوں کو سماجی و سیاسی اور دیہی
سندھ کو معاشی و اقتصادی معاملات میں نقصان ھو رھا ھے۔ اس لیے سندھیوں نے اگر دیہی
سندھ کے سماجی و سیاسی ' معاشی و اقتصادی معاملات کو سیاسی فہم و فراست کے ذریعے
درست کرنے کی کوشش نہ کی تو مستقبل میں سندھیوں کو سماجی و سیاسی اور دیہی سندھ کو
معاشی و اقتصادی معاملات میں بہت بڑے بحران کا شکار ھونا پڑے گا۔
No comments:
Post a Comment