Monday, 12 March 2018

پاکستان کی قومی اسمبلی کے 2018 میں ھونے والے انتخاب کے نتائج کیا ھونگے؟

سیاست میں سیاستدانوں نے تو اپنا سیاسی کردار ادا کرنا ھی ھوتا ھے اس لیے ھر ملک میں سیاسی پارٹیاں ھوتی ھیں لیکن پاکستان میں فوجی افسران کو بھی سیاست کرنے کا شوق رھا ھے۔ خاص طور پر اردو بولنے والے ھندوستانی فوجی افسروں کو اور پٹھان فوجی افسروں کو زیادہ شوق رھا ھے۔ پاکستان میں چار بار مارشل لاء کا نفاظ کرکے یہ شوق پورا کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن اب چونکہ فوج میں اعلیٰ درجے کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر فوجی افسروں اور پٹھان فوجی افسروں کا اثر و رسوخ کم ھے اور پنجابی فوجی افسر تعداد میں زیادہ ھیں۔ اس لیے ادارے کی حیثیت سے فوج اپنی آئینی ذمہ داریوں پر زیادہ دھیان دیتی ھے اور فوج کو ادارے کے طور پر سیاست میں ملوث نہیں ھونے دینا چاھتی۔ اس لیے فوج کے اعلیٰ افسر خود کو سیاست سے دور رکھے ھوئے ھیں۔ جبکہ فوج میں نچلی سطح کے ملازمیں کی اکثریت کا تعلق پنجاب کے شمالی علاقہ اور خیبر پختونخواہ کے ھندکو علاقے سے ھے۔ یہ علاقے ن لیگ کا مظبوط گڑہ ھیں اور ان علاقوں میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے 90٪ سے زیادہ اراکین ن لیگ سے وابستہ ھیں۔ اس لیے فوج میں نچلی سطح کے ملازمیں کی اکثریت کا رحجان ظاھر ھے کہ ن لیگ کی طرف ھی ھونا ھے جو کہ اس وقت پاکستان کی حکمراں جماعت ھے۔

البتہ فوج سے ریٹارڈ کچھ اعلیٰ اور درمیانے درجے کے فوجی افسروں کو سیاست کا شوق ھے۔ ان میں  اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر فوجی افسروں اور پٹھان فوجی افسروں کے علاوہ پنجابی فوجی افسر بھی شامل ھیں۔ لیکن چونکہ عملی سیاست کا انہیں تجربہ نہیں اور نہ اتنی صلاحیت ھے کہ سیاسی پارٹی بنا کر یا کسی سیاسی پارٹی میں شامل ھوکر سیاست کر سکیں اور عوام کی حمایت حاصل کرسکیں۔ اس لیے فوج  کے ادارے  کے خود ساختہ ترجمان بن کر اور فوج  کے ادارے میں اپنے تعلقات کو استعمال کرکے سیاست کے میدان میں زور آزمائی کرنے میں لگے رھتے ھیں۔ جس کی وجہ سے فوج میں درمیانے درجے  کے افسر اور خاص طور پر درمیانے درجے  کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر اور پٹھان افسر ' ان سیاست کا شوق رکھنے والے اعلیٰ اور درمیانے درجے کے ریٹارڈ فوجی افسروں کی وجہ سے مقامی سطح پر سیاست میں ملوث ھوجاتے ھیں۔ بلکہ سیاستدانوں ' صحافیوں اور سرکاری افسروں میں سے بھی ذاتی مفادات رکھنے والے راضی بہ رضا یا اعلیٰ اور درمیانے درجے کے ریٹارڈ فوجی افسروں کو فوج  کے ادارے کے ترجمان یا نمائندہ سمجھ کر مغالطے میں ان اعلیٰ اور درمیانے درجے  کے ریٹارڈ فوجی افسروں کے ھم نوا یا ھم خیال بن جاتے ھیں۔

پاکستان میں ھونے والے چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں اعلیٰ اور درمیانے درجے کے ریٹارڈ فوجی افسروں نے بھرپور طریقے سے حصہ لیا اور کچھ سیاستدان اور سیاسی پارٹیوں کے سربراہ بھی انکے شانہ بہ شانہ رھے۔ کیا یہ سیاستدان اور سیاسی پارٹیوں کے سربراہ ن لیگ سے مقابلہ نہ کرپانے اور ذاتی مفادات رکھنے کی وجہ سے راضی بہ رضا یا اعلیٰ اور درمیانے درجے کے ریٹارڈ فوجی افسروں کو فوج  کے ادارے کے ترجمان یا نمائندہ سمجھ کر مغالطے میں ان اعلیٰ اور درمیانے درجے کے ریٹارڈ فوجی افسروں کے ھم نوا یا ھم خیال بنے؟ یہ الگ موضوع ھے۔ لیکن زمینی حقائق یہ ھیں کہ؛ چیئرمین سینٹ کے الیکشن کے بعد پاکستان میں عملی طور پر دو سیاسی اتحاد بن چکے ھیں۔

ایک عسکری اتحاد ھے جو بلوچوں کی پارٹی پی پی پی ' پٹھانوں کی پارٹی پی ٹی آئی ' ھندوستانی مھاجروں کی پارٹی ایم کیو ایم پر مشتمل ھے۔ بلوچوں کی پارٹی پی پی پی کا دائرہ اثر دیہی سندھ تک محدود ھے۔ پٹھانوں کی پارٹی پی ٹی آئی کا دائرہ اثر خیبر پختونخواہ کے پختون علاقوں تک محدود ھے۔ ھندوستانی مھاجروں کی پارٹی ایم کیو ایم کا دائرہ اثر شھری سندھ تک محدود ھے۔

دوسرا عوامی اتحاد ھے جو پنجابیوں کی پارٹی ن لیگ ' پشتونوں کی پارٹی پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی ' بروھیوں کی پارٹی بلوچستان نیشنل پارٹی پر مشتمل ھے۔ پنجابیوں کی پارٹی ن لیگ کا دائرہ اثر پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے ھندکو علاقوں تک محدود ھے۔ پشتونوں کی پارٹی پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کا دائرہ اثر بلوچستان کے پشتون علاقوں تک محدود ھے۔ بروھیوں کی پارٹی بلوچستان نیشنل پارٹی کا دائرہ اثر بلوچستان کے بروھی علاقوں تک محدود ھے۔ 

یہ اتحاد پاکستان کی سینٹ کے انتخاب میں تو موثر رھا جہاں ھر صوبے کی برابر برابر نشستیں ھیں لیکن کیا یہ اتحاد پاکستان کی قومی اسمبلی کے 2018 میں ھونے والے انتخاب میں بھی موثر ھوگا؟ قومی اسمبلی کی 272 نشستوں میں سے صرف پنجاب میں 141 نشستیں ھیں۔ جبکہ خیبر پختونخواہ کے ھندکو علاقوں ' بلوچستان کے پشتون علاقوں ' بلوچستان کے بروھی علاقوں کی نشستیں اس کے علاوہ ھیں۔


2013 کے انتخاب میں ن لیگ نے سندھ میں دلچسپی نہیں لی تھی۔ اگر ن لیگ نے 2018 کے انتخاب میں دیہی سندھ کے سماٹ علاقوں اور شہری سندھ میں دلچسپی لی تو کیا دیہی سندھ میں بلوچ سندھیوں کی پارٹی پی پی پی اور شھری سندھ میں ھندوستانی مھاجروں کی پارٹی ایم کیو ایم کی نشستوں میں فرق پڑے نہیں گا؟

No comments:

Post a Comment