کردستانی بلوص قبائل نے پندرھویں صدی عیسوی میں میر شیہک کی سر کردگی میں وادی سندھ کی تہذیب کے مھرگڑہ کے علاقے مکران میں قدم رکھا اور مکران کے حکمراں بدرالدین کے ساتھ جنگ کرکے علاقہ پر
قبضہ کرلیا۔ اسکے بعد میر شیہک نے بلیدہ سے چل کر بروھیوں کے ساتھ جنگ کرکے 1486 میں قلات کو فتح کرلیا۔ جو بروھی ان کے مقابلے پر آئے یا تو وہ قتل کردئیے گئے یا انہوں نے
اطاعت قبول کر لی۔
دراوڑی زبان کا لفظ ھے " بر" جسکے معنی ھیں "آنا" اور دوسرا لفظ ھے "اوک" جو کہ اسم مفعول کی نشانی ھے. جسکے معنی "والا" ھے. "بر- اوک" کے لفظ کا مفہومی معنی "نیا آنے والا" یعنی " نو وارد ' اجنبی ' پرائے دیس والا " ھے. کردستانی بلوص قبائل جب پندھرویں صدی عیسوی میں براھوی کی زمین پر آنا شروع ھوئے تو بروھی انکو "بر- اوک" کہتے تھے۔ اس لیے کردستانی بلوص قبائل " بلوص " سے " بروک" پھر " بروچ" اور پھر "بلوچ" بن گئے۔
پنجاب
پر 1526 سے مغلوں کے قبضے کے بعد مغل بادشاہ بابر کے خلاف بابا گرو نانک کی
سربراہی میں پنجابیوں کی مزاحمتی جدوجہد کی وجہ سے مغل بادشاہ ھمایوں نے ایرانی
بادشاہ سے تعاون لیکر اسلام شاہ سوری کو شکست دیکر 1555 میں دھلی کا تخت سمبھالنے
کے بعد سردار چاکر خان رند کی سر کرد گی میں چالیس ھزار کردستانیوں کو پنجابیوں کی مزاھمت کا
مقابلہ کرنے کے لیے وادی سندھ کی تہذیب کے ھڑپا کے میدانی علاقے میں آباد کیا ' جو
پنجابی علاقہ تھا۔
ھمایوں
نے میر چاکر کو اوکاڑہ کے قریب ست گھرہ نامی مقام پر زرعی زرخیز جاگیر عطا کی۔ میر
چاکر نے اپنے لشکر کے ساتھ پنجاب میں سکونت اختیار کی اور مغل بادشاہ اکبر کے دور
' 1565 ء میں اس کا انتقال ھوا اور مزار ست گھرہ میں واقع ھے۔ اکبر کے خلاف دلا بھٹی کی سربراھی میں پنجابیوں
کی مزاحمتی جدوجہد کی وجہ سے مزید بلوچوں کو بھی مغلوں کی سرپرستی ملنے لگی اور
انہیں دلا بھٹی کے زیرِ اثر علاقوں کے نزدیک بڑی بڑی جاگیریں دی جانے لگیں تو
بلوچوں کی جنوبی پنجاب میں آبادگاری میں مزید اضاٖفہ ھوتا گیا اور بلوچوں کا سب سے
بڑا پڑاؤ جنوبی پنجاب بن گیا۔
No comments:
Post a Comment