چوھدری رحمت علی گجر نے 1933 میں اپنے پمفلٹ "ابھی یا کبھی
نہیں؛ ھم رھتے ھیں یا ھمیشہ کے لئے ھلاک کردیے جائیں گے"؟ میں لفظ
"پاکستان" وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین کے پانچ یونٹس مطلب: پنجاب
(بغیر تقسیم کے) ' افغانیہ (فاٹا کے علاقے) ' کشمیر ' سندھ ' بلوچستان کے لیے
تجویز کیا تھا اور وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین اب پاکستان ھے۔ وادئ سندھ کی
تہذیب والی زمین کو پہلے سپتا سندھو کہا جاتا رھا اور اب پاکستان کہا جاتا
ھے۔
آٹھارویں صدی میں صنعتی معیشت کے وجود میں آنے سے پہلے معیشت کی
مظبوطی کا تعلق ذراعت پر منحصر تھا اور وادئ سندھ کی تہذیب قدیم مصر اور
میسوپوٹامیا کے ساتھ ساتھ دنیا کی تین پرانی ابتدائی تہذیبوں میں سے ایک
تھی۔ مصر کی تہذیب والی زمین کو ایک دریا سیراب کرتا تھا۔ میسوپوٹامیا کی تہذیب
والی زمین کو دو دریا سیراب کرتے تھے۔ جبکہ وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین کو سات
دریا سیراب کرتے تھے۔ اس لیے وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین معیشت کے لحاظ سے دنیا
کی سب سے زیادہ خوشحال خطہ تھی۔
اس وقت بھی پاکستان آبادی کے لحاظ سے مسلم دنیا کا دوسرا اور
دنیا کا چھٹہ بڑا ملک ھے۔ مسلم دنیا کا واحد اور دنیا کی آٹھ ایٹمی طاقتوں میں سے
ایک طاقت ھے۔ مسلم دنیا کی دوسری اور دنیا کی آٹھویں بڑی فوجی طاقت ھے۔ رقبہ کے
لحاظ سے دنیا کا تیتیسواں ' جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا کا ترتالیسواں '
پیداوار کے لحاظ سے دنیا کا پچیسواں اور معیشت کے لحاظ سے دنیا کا
چوتیسواں بڑا ملک ھے اور 2050 میں دنیا کی سولھویں بڑی معیشت ھوگا۔ انشا اللہ
سارے انسان حضرت آدم ؑ کی اولاد سے ھیں۔ آدم ؑ پاکستان یا وادئ
سندھ یا سپتا سندھو کی تہذیب والی زمین پر پیدا نہیں ھوئے تھے۔ اس لیے پاکستان میں
رھنے والے سارے کے سارے باشندے ھی باھر سے آکر سپتا سندھو یا وادئ سندھ کی زمین پر
آباد ھوئے ھیں لیکن سپتا سندھو یا وادئ سندھ کی تہذیب کے قدیمی باشندے جنہوں
نے سپتا سندھو یا وادئ سندھ کی زمین پر تہذیب کو تشکیل دیا اور باھر سے آکر
دوسرے باشندے اس تہذیب میں جذب ھوتے رھے ' وہ پنجابی ' سماٹ ' براھوی ' ھندکو ھیں۔
جو پاکستان کی آبادی کا 85 فیصد ھیں۔
سپتا سندھو یا وادئ سندھ کی تہذیب کے قدیمی باشندے ھونے کی
وجہ سے پنجابی ' سماٹ ' براھوی ' ھندکو کی تہذیب میں مماثلت ھے۔ صرف ثقافت اور
زبان میں معمولی معمولی سا فرق ھے۔ مزاج اور مفادات بھی آپس میں ملتے ھیں۔ اس لیے
ایک خطے کے باشندے دوسرے خطے میں نقل مکانی کی صورت میں اس ھی خطے کی ثقافت میں
جذب اور زبان کو اختیار کرلیتے رھے ھیں۔
تاریخ سے ظاھر ھوتا ھے کہ وادئ سندھ کی پانچ ھزار سالہ تاریخ
میں وادئ سندھ کے اصل باشندوں پنجابی ' سماٹ ' براھوی ' ھندکو نے کبھی ایک دوسرے
کے ساتھ جنگ نہیں کی اور نہ ایک دوسرے کو ملغوب کرنے کی کوشش کی لیکن اس وقت انہیں
پاکستان کی 15 فیصد آبادی کی وجہ سے الجھن ' پریشانی اور بحران کا سامنا ھے۔ یہ 15
فیصد آبادی والے لوگ ھیں؛ افغانستان سے آنے والے جو اب پٹھان کہلواتے ھیں۔ کردستان
سے آنے والے جو اب بلوچ کہلواتے ھیں۔ ھندوستان سے آنے والے جو اب مھاجر کہلواتے
ھیں۔
پاکستان کو اگر چوھدری رحمت علی گجر کے
تجویز کردہ علاقوں پر بنایا جاتا تو سوائے راجستھان اور گجرات کے علاقوں کے پاکستان
مکمل طور پر وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین پر قائم ھوتا اور موجودہ پاکستان سے
زیادہ خوشحال ' ترقی یافتہ اور مظبوط ملک ھوتا۔ نہ مذھب کی بنیاد پر پنجاب کی
تقسیم کی وجہ سے 20 لاکھ پنجابی مارے جاتے اور نہ 2 کروڑ پنجابی نقل مکانی کی وجہ
سے بے گھر ھوتے۔ نہ سندھی ھندوؤں کو اپنے آبائی زمین سے در بدر کیا جاتا۔ نہ کشمیر
کے باشندے سات دھائیوں سے بھارت کے ظلم و ستم کا شکار ھوتے اور نہ وادئ سندھ کی تہذیب پر
صدیوں سے مل جل کر رھنے والی قومیں مذھب کی بنیاد پر آپس میں دست و گریباں ھوتیں۔
در اصل برٹش انڈیا کی تقسیم کے وقت مذھب کی بنیاد پر "دو
قومی نظریہ" کا مسئلہ پنجاب ' سندھ ' خیبر پختونخواہ ' بلوچستان کا
نہیں تھا۔ مذھب کی بنیاد پر "دو قومی نظریہ" کا مسئلہ اتر پردیش
کا تھا اور اب بھی ھے۔ "دو قومی نظریہ" پر ملک بننا تھا تو گنگا
جمنا تہذیب والے خطے کی زمین اتر پردیش کو مسلم اتر پردیش اور غیر مسلم اتر پردیش
میں تقسیم کرکے بننا تھا۔ نہ کہ وادیء سندھ کی تہذیب والے خطے کی پنجابی ' سماٹ '
ھندکو ' بروھی قوموں کی زمین پر بننا تھا اور وہ بھی پنجاب کو تقسیم کرکے بننا
تھا۔ جو کہ پہلے سے ھی مسلم اکثریتی علاقے تھے۔
پاکستان قائم تو سپتا سندھو یا وادئ سندھ کی تہذیب والی
زمین پر ھے لیکن غلبہ گنگا جمنا کی زبان و ثقافت اور افغانی و کردستانی بد تہذیبی
کا ھو چکا ھے۔ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کراچی میں '
افغانی نزاد پٹھان خیبر پختونخواہ میں اور بلوچستان کے پشتون علاقے میں ' کردستانی
بلوچ بلوچستان کے بلوچ علاقے میں ' دیہی سندھ میں اور جنوبی پنجاب میں اپنا تسلط
رکھنا چاھتے ھیں۔ ان علاقوں میں پہلے سے رھنے والے لوگوں پر اپنی سماجی ' معاشی
اور سیاسی بالاتری رکھنا چاھتے ھیں۔
خیبر پختونخواہ میں ھندکو کی طرف سے پٹھانوں کا ' بلوچستان میں
بروھی کی طرف سے بلوچ کا ' سندھ میں سماٹ کی طرف سے بلوچ کا اور یوپی ' سی پی کے
اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا مقابلہ کرنے کی ھمت اور صلاحیت نہیں تھی
لیکن پنجابی بھی چونکہ کراچی ' بلوچستان ' دیہی سندھ اور خیبر پختونخواہ میں رھتے
ھیں۔ اس لیے خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے پشتون علاقے میں پنجابیوں کے ساتھ
پٹھانوں کے ناروا سلوک کے بعد اب پنجابیوں میں پٹھانوں کے لیے ناپسندیدگی پیدا
ھوتی جا رھی ھے۔ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے کراچی میں
پنجابیوں کے ساتھ ٹکراؤ کے بعد پنجابی قوم نے اب یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے
ھندوستانیوں کے ساتھ اپنا رویہ تبدیل کرنا شروع کر دیا ھے۔
کردستانی بلوچ ' بلوچستان میں بروھی اور دیہی سندھ میں سماٹ پر
اپنی سماجی ' معاشی اور سیاسی بالاتری قائم کرچکے تھے لیکن عرصہ دراز سے بلوچستان
اور دیہی سندھ میں پنجابیوں کے ساتھ محاذ آرائی کی وجہ سے اور اب جنوبی پنجاب میں ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی ' ڈیرہ والی پنجابی کو سرائیکی
کے نام پر اکٹھا کرنے کی کوشش کرکے پنجابی قوم کو تقسیم کرنے اور سرائیکی صوبہ کی
سازش کرنے کی وجہ سے پنجابی قوم میں کردستانی بلوچوں کے لیے شدید غصہ پایا جاتا
ھے۔
پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان اب وادئ سندھ کی تہذیب
والی زمین کے قدیم باشندوں پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی
بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی کے علاوہ پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے
ھندوستانیوں اور دیگر کا بھی ملک ھے۔ پنجابی قوم پاکستان کی اکثریتی آبادی ھے۔
پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی ھے۔ پنجابی قوم کے وادئ سندھ کی تہذیب کے
قدیمی باشندوں ' سماٹ ' ھندکو ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی '
راجستھانی ' گجراتی کے ساتھ برادرانہ اور عزت و احترام والے مراسم ھیں۔
پنجابی قوم کے وادئ سندھ کی زمین پر باھر سے اکر قبضہ گیری
اور در اندازی کرنے والے پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے ساتھ
برادرانہ اور عزت و احترام والے مراسم نہیں ھیں۔ پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے
ھندوستانیوں کے صرف پنجابی قوم کے ساتھ ھی نہیں بلکہ وادئ سندھ کی تہذیب
والی زمین کے دیگر قدیم باشندوں سماٹ ' ھندکو ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی
بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی ساتھ بھی برادرانہ اور عزت و احترام والے
مراسم نہیں ھیں۔ پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانیوں کو چاھیئے کہ نہ صرف
پنجابی قوم بلکہ سماٹ ' ھندکو ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی '
راجستھانی ' گجراتی کے ساتھ بھی برادرانہ اور عزت و احترام والے مراسم قائم کریں۔
پاکستان
کے قیام کے بعد پاکستان کے بارے میں "دو قومی نظریہ" کا ڈھنڈورا پیٹنے
والا طبقہ گنگا جمنا تہذیب والے خطے کی یوپی ' سی پی کی مسلمان اشرافیہ تھی۔ اس
لیے 1971 میں مسلمان بنگالیوں کے مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرکے بنگالی قوم
کا ملک بنگلہ دیش بنانے اور 1984 میں یوپی ' سی پی کی مسلمان اشرافیہ کی طرف سے
مھاجر تشخص اختیار کرکے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے "مھاجر
قومی موومنٹ" کے نام سے سیاسی جماعت بنا لینے کے بعد وادیء سندھ کی تہذیب
والے خطے پر وجود میں آنے والے ملک پاکستان کی اصل وارث اور مالک پنجابی ' سماٹ '
ھندکو اور بروھی قوموں کے لیے "دو قومی نظریہ" کی نہ کوئی افادیت رھتی
ھے اور نہ کوئی اھمیت بلکہ گنگا جمنا تہذیب والے خطے کی یوپی ' سی پی کی مسلمان
اشرافیہ کے پاس بھی اب "دو قومی نظریہ" کا ڈھنڈورا پیٹنے کا کوئی جواز
نہیں رھتا۔
بہرحال
اس وقت پاکستان میں دو مذھبی قومیں نہیں ھیں۔ کیونکہ پاکستان کی 97٪ آبادی مسلمان
ھونے کی وجہ سے پاکستان مذھبی نظریہ کی بنیاد پر ایک ھی مذھبی نظریہ والوں کی واضح
اکثرت کا ملک ھے۔ جبکہ پاکستان لسانی و ثقافتی نظریہ کی بنیاد پر وادیء سندھ کی
تہذیب والے خطے کی چار قوموں پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' بروھی قوموں کا ملک ھے۔ بلکہ کشمیری ' گلگتی بلتستانی
' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والی ھندوستانی
برادریاں بھی پاکستان کی شہری ھیں۔
پہلے
بھی "دو قومی نظریہ" وادیء سندھ کی تہذیب والے خطے ' پنجاب ' سندھ
' خیبر پختونخوا ' بلوچستان کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ گنگا جمنا تہذیب والے خطے اتر
پردیش کا مسئلہ تھا اور اب بھی اتر پردیش کا مسئلہ ھے۔ اس لیے اتر پردیش والے
جانیں اور اتر پردیش والوں کا مسئلہ جانے۔ وادیء سندھ کی تہذیب والے خطے
پاکستان کی پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' بروھی قومیں اور کشمیری ' گلگتی بلتستانی
' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والی ھندوستانی
برادریاں اپنے مسئلے پر دھیان دیں۔
چونکہ
پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' بروھی قومیں اور کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی '
راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانی الگ الگ علاقوں
میں رھنے کے بجائے پاکستان کے ھر علاقے میں مل جل کر رہ رھے ھیں۔ اس لیے وادیء
سندھ کی تہذیب کے فروغ اور پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' بروھی قوموں اور کشمیری '
گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والی
ھندوستانی برادریوں کے باھمی تعلقات اور تنازعات پر دھیان دینے کی ضرورت ھے۔ نہ کہ
گنگا جمنا تہذیب اور اتر پردیش کے "دو قومی نظریہ" پر بحث و
مباحثہ کرتے رھنے کی ضرورت ھے۔
No comments:
Post a Comment