Tuesday 20 March 2018

بلوچوں ' پٹھانوں ' ھندوستانی مھاجروں کا مستقبل تاریک کیوں ھے؟

چوھدری رحمت علی گجر نے 1933 میں اپنے پمفلٹ "ابھی یا کبھی نہیں؛ ھم رھتے ھیں یا ھمیشہ کے لئے ھلاک کردیے جائیں گے"؟ میں لفظ "پاکستان" وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین کے پانچ یونٹس مطلب: پنجاب (بغیر تقسیم کے) ' افغانیہ (فاٹا کے علاقے) ' کشمیر ' سندھ ' بلوچستان کے لیے تجویز کیا تھا اور وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین اب پاکستان ھے۔ وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین کو پہلے سپتا سندھو کہا جاتا رھا اور اب پاکستان کہا جاتا ھے اور وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین کے قدیم باشندوں پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی کے علاوہ پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں اور دیگر کا بھی ملک ھے۔

چونکہ پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' بروھی قومیں اور کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر الگ الگ علاقوں میں رھنے کے بجائے پاکستان کے ھر علاقے میں مل جل کر رہ رھے ھیں۔ اس لیے وادیء سندھ کی تہذیب کے فروغ اور پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' بروھی قوموں اور کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والی ھندوستانی برادریوں کے باھمی تعلقات اور تنازعات پر دھیان دینے کی ضرورت ھے۔ 

پاکستان قائم تو سپتا سندھو یا وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین پر ھے لیکن غلبہ گنگا جمنا کی زبان و ثقافت اور افغانی و کردستانی بد تہذیبی کا ھو گیا۔ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر مھاجر کراچی میں ' افغانی نزاد پٹھان خیبر پختونخواہ میں اور بلوچستان کے پشتون علاقے میں ' کردستانی بلوچ بلوچستان کے بروھی علاقے میں ' جنوبی پنجاب میں اور دیہی سندھ میں اپنا تسلط قائم کیے ھوئے ھیں۔ ان علاقوں میں پہلے سے رھنے والے لوگوں پر اپنی سماجی ' معاشی اور سیاسی بالاتری قائم کیے ھوئے ھیں۔ اس لیے پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' بروھی قوموں اور کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی برادریوں کے ساتھ بھی اچھے سماجی ' کاروباری اور سیاسی مراسم نہیں ھیں۔

پاکستان کی سیاست ' صحافت ' ملٹری بیوروکریسی ' سول بیوروکریسی ' صنعت کے شعبوں ' تجارت کے شعبوں ' ھنرمندی کے شعبوں اور پاکستان کے بڑے بڑے شھروں پر اب چونکہ پنجابیوں کا کنٹرول قائم ھوتا جا رھا ھے۔ پنجابیوں میں قومپرستی بھی بڑی تیزی سے فروغ پا رھی ھے۔ پنجابی قوم کے سماٹ ' ھندکو ' بروھی قوموں اور کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی برادریوں کے ساتھ اچھے سماجی ' کاروباری اور سیاسی مراسم بھی قائم ھوچکے ھیں۔ اس لیے اب بلوچوں ' پٹھانوں اور اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا زوال تیزی کے ساتھ شروع ھونے والا ھے۔

کردستانی بلوچوں کا مستقبل تاریک کیوں ھے؟

کردستانی بلوچوں کے زوال کی وجہ یہ ھے کہ؛ کردستان سے قبائل کی شکل میں آکر پہلے بروھیوں کے ساتھ جنگ کرکے 1486 میں قلات پر قبضہ کر لیا۔ پھر مغل بادشاہ ھمایوں نے 1555 میں کردستانی بلوچوں کو پنجابیوں کی مزاھمت کا مقابلہ کرنے کے لیے پنجاب میں آباد کیا اور ان کو بڑی بڑی جاگیریں دیں جبکہ اس سلسلے کو انگریزوں نے بھی جاری رکھا۔ اس طرح پنجاب کے جنوبی علاقوں میں کردستانی بلوچوں کا قبضہ ھوگیا۔ 1783 میں عباسی کلھوڑا کے ساتھ جنگ کرکے کردستانی بلوچوں نے سندھ پر قبضہ کرلیا اور سندھ کے علاقے میں جاگیریں بنانا شروع کردیں۔

پاکستان کی سیاست ' صحافت ' ملٹری بیوروکریسی ' سول بیوروکریسی ' صنعت کے شعبوں ' تجارت کے شعبوں ' ھنرمندی کے شعبوں اور پاکستان کے بڑے بڑے شھروں پر اب پنجابیوں کا کنٹرول قائم ھوتا جا رھا ھے۔ پنجابیوں میں قومپرستی بھی بڑی تیزی سے فروغ پا رھی ھے۔ پنجابیوں کے سماٹ ' ھندکو ' بروھی قوموں اور کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی برادریوں کے ساتھ خوشگوار سماجی ' کاروباری اور سیاسی مراسم ھیں لیکن کردستانی بلوچوں کے ساتھ خوشگوار سماجی ' کاروباری اور سیاسی مراسم نہیں ھیں۔

بروھیوں ' ڈیراوالی پنجابیوں ' ریاستی پنجابیوں ' ملتانی پنجابیوں اور سماٹ  کے دیہی علاقوں میں اپنی قبائلی افرادی قوت کی بنا پر اپنا قبضہ کرنے کے بعد سے لیکر اب تک کردستانی بلوچ دیہی علاقوں میں ھی اپنی قبضہ گیری اور بالادستی قائم کیے ھوئے ھیں۔ اس لیے پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے 50 بڑے شہروں میں سے کردستانی بلوچوں کی کسی ایک شہر میں بھی اکثریت نہیں ھے اور نہ ھی معاش کے مستقل ذرائعے ذراعت ' صنعت ' تجارت اور ھنرمندی کے شعبوں میں کردستانی بلوچ کو مھارت حاصل ھے۔ جبکہ پنجاب میں ڈیراوالی پنجابیوں ' ریاستی پنجابیوں ' ملتانی پنجابیوں کی ' بلوچستان میں بروھیوں کی اور سندھ میں سماٹ کی کردستانی بلوچوں کے ساتھ محاذ آرائی میں اضاٖفہ ھونا ھے۔ جس کی وجہ سے اب کردستانی بلوچوں کا پنجاب ' بلوچستان اور سندھ میں سیاسی ' سماجی اور معاشی مستقبل تاریک ھی نظر آتا ھے۔

2۔ پٹھانوں  کا مستقبل تاریک کیوں ھے؟

پٹھانوں کے زوال کی وجہ یہ ھے کہ؛ پچھلے ھزار سال کی تاریخ بتاتی ھے کہ پٹھانوں نے اپنی دھرتی افغانستانی کو ترقی دے کر حلال رزق کے ذرائع پیدا کرنے کے بجائے مسلمان کا روپ دھار کر دوسری قوموں کی دھرتی پر قبضے اور وسائل کی لوٹ مار کرنے کے بعد مسلمان کے بجائے؛


خیبر پختونخواہ میں قوم پرست پختون بن کر اس دھرتی کو اپنی دھرتی اور اس قوم کے وسائل کو اپنے وسائل قرار دیا اور مقبوضہ ھندکو قوم پر الزام تراشی شروع کردی کہ وہ پختونوں کے ساتھ ظلم ' زیادتی اور نا انصافی کرتے ھیں۔

بلوچستان میں قوم پرست پشتون بن کر اس دھرتی کو اپنی دھرتی اور اس قوم کے وسائل کو اپنے وسائل قرار دیا اور مقبوضہ بروھی قوم پر الزام تراشی شروع کردی کہ وہ پشتونوں کے ساتھ ظلم ' زیادتی اور نا انصافی کرتے ھیں۔

پنجاب ' سندھ اور کراچی میں قوم پرست پٹھان بن کر اس دھرتی کے کچھ علاقوں کو اپنی دھرتی اور اس قوم کے وسائل کو اپنے وسائل قرار دیا اور پنجاب میں پنجابی ' سندھ میں سندھی اور کراچی میں ھندوستانی مھاجر پر الزام تراشی شروع کردی کہ وہ پٹھانوں کے ساتھ ظلم ' زیادتی اور نا انصافی کرتے ھیں۔

افغانیوں کے اپنی دھرتی افغانستانی کو ترقی دے کر حلال رزق کے ذرائع پیدا کرنے کے بجائے دوسری قوموں کی دھرتی پر قبضے اور وسائل کی لوٹ مار کرنے کے لالچ کا نتیجہ یہ نکلا ھے کہ 3 کروڑ 50 لاکھ افغانی ' پختون ' پشتون ' پٹھان اس وقت افغانستان ' فاٹا ' بلوچستان ' خیبر پختونخواہ ' پنجاب ' سندھ اور کراچی میں بکھر چکے ھیں۔ اس لیے افغانیوں کا افغانستان میں تاجک ' ھزارہ ' ایمک ' ازبک ' ترکمان کے ساتھ ' خیبر پختونخواہ میں پختونوں کا ھندکو پنجابیوں کے ساتھ ' بلوچستان میں پشتونوں کا بروھیوں کے ساتھ ' پٹھانوں کا پنجاب میں پنجابیوں  کے ساتھ ' سندھ میں سندھیوں  کے ساتھ اور کراچی میں مھاجروں کے ساتھ سیاسی ' سماجی اور معاشی ٹکراؤ ھے۔ اس لیے افغانیوں کا اپنے وطن افغانستان ' پختونوں کا خیبر پختونخواہ ' پشتونوں کا بلوچستان اور پٹھانوں کا پنجاب ' سندھ اور کراچی میں سیاسی ' سماجی اور معاشی مستقبل تاریک ھی نظر آتا ھے۔

3۔ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا مستقبل تاریک کیوں ھے؟

یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر اس وقت بڑی تیزی کے ساتھ سماجی تنہائی میں مبتلا ھوتے جا رھے ھیں۔ کیونکہ مھاجر عصبیت میں مبتلا ھوکر الطاف حسین کی حمایت اور ایم کیو ایم کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے پنجابی ' پٹھان ' سندھی ' بلوچ اب یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں سے میل ملاقات کرنے سے اجتناب کرنے لگے ھیں۔

اس وقت یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا سب سے بڑا مسئلہ روزگار بنتا جا رھا ھے۔ روزگار کے شعبے ذراعت ' صنعت ' تجارت اور سروسز ھوتے ھیں۔ سیاست اور صحافت کا شمار بھی سروسز کے شعبے میں ھوتا ھے۔ پاکستان کے قیام کے بعد یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر نے ذراعت ' صنعت اور تجارت کے شعبوں میں بھی روزگار کے ذرائعے اختیار کرنے کے بجائے خود کو سروسز کے شعبے تک محدود کرلیا اور وہ بھی زیادہ تر حکومتی اداروں اور سرکاری سروسز کے شعبوں میں اور خاص طور پر ان حکومتی اداروں اور سرکاری سروسز کے شعبوں میں جو کراچی یا بڑے شہری علاقوں میں ھیں۔ لیکن اب پنجابی ' پٹھان ' سندھی ' بلوچ بھی کراچی اور بڑے شہری علاقوں کے حکومتی اداروں اور سرکاری سروسز کے شعبوں میں اپنی آبادی کے مطابق حصہ چاھتا ھے۔

ھندوستانی مھاجر سے مراد یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی ' گجراتی ' راجستھانی ' بہاری لیا جاتا ھے۔ مھاجر کی آبادی 4٪ گجراتی ' راجستھانی ' بہاری کی ھے اور 4٪ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کی ھے۔ گجراتی ' راجستھانی ' بہاری نے تو سیاست ' صحافت ' حکومتی اداروں اور سرکاری سروسز کے شعبوں کے علاوہ بھی روزگار کے ذرائع اختیار کیے ھوئے ھیں لیکن یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کا انحصار ابھی تک سیاست ' صحافت ' حکومتی اداروں اور سرکاری سروسز کے شعبوں پر ھے۔ سیاست ' صحافت ' حکومتی اداروں اور سرکاری سروسز کے شعبوں میں وفاقی سطخ پر پنجابیوں کا اور صوبائی سطح پر سندھیوں کا غلبہ ھوچکا ھے۔ پنجابی اور سندھی کسی صورت بھی یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کو سیاست ' صحافت ' حکومتی اداروں اور سرکاری سروسز کے شعبے میں ان کی آبادی سے زیادہ حصہ نہیں دیں گے۔ لہٰذا سیاست ' صحافت ' حکومتی اداروں اور سرکاری سروسز کے شعبوں میں 4٪ حصہ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کو ملنے کے بعد باقی 96٪ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کیا کریں؟ اس لیے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا سیاسی ' سماجی اور معاشی مستقبل تاریک ھی نظر آتا ھے۔

No comments:

Post a Comment