پنجاب کی سماجی اور سیاسی زندگی صدیوں سے برادریوں کی بنیاد پر متحرک رھتی آرھی
ھے۔ پنجاب کی 10 بڑی برادریوں میں سے ارائیں ‘ اعوان ‘ جٹ ‘ راجپوت ’ کشمیری ‘ گجر
اور شیخ برادریاں پنجاب اور پنجابی قوم کی بڑی برادریاں ھیں جو کہ پنجاب کی آبادی
کا 75 % ھیں۔ جبکہ پٹھان ‘ بلوچ اور ھندوستانی مھاجر برادریاں بھی پنجاب میں رھتی
ھیں جو کہ مختلف ادوار میں پنجاب پر حملہ آور ھوکر پنجاب پر قابض ھونے والوں یا
پنجاب میں نقل مکانی کرنے والوں کی اولادیں ھیں جو کہ پنجاب کی آبادی کا 15 % ھیں۔
انکے علاوہ پنجاب کی آبادی کا 10 % دوسری چھوٹی چھوٹی برادریاں ھیں۔
پنجاب میں آباد پٹھانوں اور بلوچوں کو تو مغلوں کے دور سے لیکر
انگریزوں کے دور تک (سوائے مھاراجہ رنجیت سنگھ کے دور کے) پنجاب میں نہ صرف سیاسی
' سماجی اور انتظامی بالادستی حاصل رھی بلکہ پنجاب کے بڑے بڑے جاگیردار بھی پٹھان
اور بلوچ تھے یا پھر ان پٹھانوں اور بلوچوں کی اتحادی عباسی ' قریشی ' گیلانی
برادریاں اور ایرانی ' عربی اور عراقی نزاد خاندان۔ لیکن 1947 میں پاکستان کے قیام
کے وقت پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے اور پنجاب کی تقسیم کے نتیجے میں 20 لاکھ
پنجابیوں کے قتل جبکہ 2 کروڑ پنجابیوں کے دربدر ھوجانے اور پاکستان کا وزیرِ اعظم
اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر لیاقت علی خان کے بن جانے کی وجہ سے
اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کو بھی پنجاب کے شھری علاقوں میں
اپنی سیاسی ' سماجی اور انتظامی بالادستی قائم کرنے کا موقع مل گیا۔ پنجاب میں
آباد پٹھانوں اور بلوچوں کی سیاسی ' سماجی اور انتظامی بالادستی میں بھی مزید
اضافہ ھوگیا۔ لیکن پنجاب اور پنجابی قوم کی بڑی برادریوں ارائیں ‘ اعوان ‘ جٹ ‘
راجپوت ’ کشمیری ‘ گجر اور شیخ کو نہ تو پنجاب میں سیاسی بالادستی حاصل رھی۔ نہ
سماجی بالادستی حاصل رھی۔ نہ انتطامی بالادستی حاصل رھی۔ اس لیے ھی پاکستان کے
قیام کے بعد پنجاب کا پہلا وزیرِ اعلی پنجاب اور پنجابی قوم کی بڑی برادریوں ارائیں
‘ اعوان ‘ جٹ ‘ راجپوت ’ کشمیری ‘ گجر اور شیخ میں سے بننے کے بجائے پٹھان برادری
کا افتخار حسین ممدوٹ بنا جبکہ 25 جنوری 1949 کو اترپردیش کے اردو بولنے والے
ھندوستانی مھاجر وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کی طرف سے پاکستان میں سب سے پہلے پنجاب
کی منتخب اسمبلی کو برخاست کرکے پنجاب میں پاکستان کا سب سے پہلا گورنر راج نافذ
کرنے کے بعد کاکڑ پٹھان سردار عبدالرب نشتر کو پنجاب کا گورنر نامزد کیا گیا۔
پنجاب میں آباد پٹھان ‘ بلوچ ' ھندوستانی مھاجر برادریوں اور
عباسی ' قریشی ' گیلانی جاگیردار وں اور مخدوموں جبکہ ایرانی ' عربی ' عراقی نزاد
خاندانوں کو پنجاب میں سیاسی ' سماجی اور انتظامی بالادستی حاصل رھی ھے۔ اس لیے
پنجاب اور پنجابی قوم کی بڑی برادریوں ارائیں ‘ اعوان ‘ جٹ ‘ راجپوت ’ کشمیری ‘
گجر اور شیخ کی سیاسی ناپختگی ' سماجی مفلوک الحالی اور انتظامی کسمپسری نے انہیں
اپنے ھی دیش پر حملہ آور ھوکر قابض ھونے والوں یا نقل مکانی کرکے آنے والوں کی
اولادوں کا کاسہ لیس بناکر رکھ دیا۔ جسکی وجہ سے ارائیں ‘ اعوان ‘ جٹ ‘ راجپوت ’
کشمیری ‘ گجر اور شیخ آپس میں دست و گریباں رھنے لگے۔ جس سے پنجابی قوم کی اھمیت
ختم اور برادریوں کی اھمیت بڑھنے لگی۔ جس کی وجہ سے پنجاب میں آباد پٹھان ‘ بلوچ '
ھندوستانی مھاجر برادریوں اور عباسی ' قریشی ' گیلانی جاگیرداروں اور مخدوموں جبکہ
ایرانی ' عربی ' عراقی نزاد خاندانوں کو پنجابی برادریوں کو " لڑاؤ اور حکومت
کرو" کے اصول پر کاربند ھوکر اور پنجاب کے باھر سے آکر پنجاب پر حکمرانی کرنے
والوں کا ہر اول دستہ بنتے رہنے سے اپنے سیاسی ' سماجی اور انتظامی تسلط کو مزید
فروغ دینے کا موقع ملتا رھا بلکہ ابھی تک مل رھا ھے۔ جبکہ ارائیں ‘ اعوان ‘ بٹ ‘
جٹ ‘ راجپوت ’ گجر ' شیخ اور پنجاب کی دوسری چھوٹی چھوٹی برادریوں میں سے ذاتی
مفادات رکھنے والے یا سیاسی ناپختگی والے لوگ ان کے دستِ راست بن کر پنجاب میں
انکے سیاسی ' سماجی اور انتظامی تسلط کو دانستہ یا نادانستہ تقویت فراھم کرتے رھے
بلکہ اب بھی کر رھے ھیں۔
No comments:
Post a Comment