سترھویں صدی تک یوپی
کے مغربی علاقے کی زبان کو ھندوستانی یا ھندوؤئی کہا جاتا تھا۔ اتر پردیش کا مغربی
علاقہ لکھنؤ ' میرٹھ ' بریلی ' مراد آباد ' علی گڑھ ھے۔ دارلحکومت دھلی میں مغلیہ
سلطنت کی سرکاری زبان فارسی تھی اور اعلی حلقوں میں فارسی ھی بولی جاتی تھی لیکن
عوام الناس کی زبان ھندی یا ھندوستانی تھی۔ جس کو دیوناگری رسم الخط میں لکھا
جاتا تھا۔ یہ اٹھارہویں صدی تک کے ھندوستان کا معاملہ ھے۔
بات وھاں سے شروع ھوتی ھے جب انگریز ھندوستان میں آتا ھے۔ چونکہ انگریز بنگال کے راستے انڈیا میں آیا تھا تو اس کا سب سے بڑا مرکز انیسویں صدی کے آغاز میں کلکتہ شہر تھا۔ یہ انیسویں صدی کے آغاز کی بات ھے یعنی سوا دوسو سال پہلے کا زمانہ۔
برٹش نے کلکتہ مٰیں فورٹ ولیم کالج کی بنیاد رکھی۔ یہ وہ کالج ھے جہاں انگریز ماھرِ لسانیات نے ھندی سیکھ کر اردو کو الگ زبان بنانے کا بیڑا اٹھایا۔ اردو کو فارسی رسم الخظ دیا گیا۔ اس سے پہلے اردو کا کوئی سکرپٹ نہیں تھا کیونکہ اس میں بعض حروفِ تہجی نہیں تھے۔ جس کی وجہ سے وہ الگ زبان نہیں بن پارھی تھی۔
انگریز ماھرِ
لسانیات نے ھندوستانی زبان میں کچھ حروفِ تہجی کا اضافہ کیا اور پھر اس کو فارسی
رسم الخط دیکر ھندی یا ھندوستانی سے الگ زبان بنادیا۔ اردو کی پہلی عظیم
کتابیں قصہ چہار درویش اور باغ و بہار فورٹ ولیم کالج کلکتہ ھی میں لکھی گئیں اور
اسی کالج کے پریس میں اردو ادب کی پہلی کتاب بھی چھپی۔یہ سن اٹھارہ سو تین کی بات ھے
یعنی آج سے دو سو بارہ سال پہلے کا واقعہ۔
فورٹ ولیم کالج کلکتہ کے روح رواں جان گلککرسٹ تھے۔ جو بنیادی طور پر تو ڈاکٹر تھے لیکن علم و ادب کی چاشنی ان میں قدرتی طور پر موجود تھی۔ دس سال ھندوستان میں گزارنے کے بعد ان کے دل میں ھندی سیکھنے کا شوق پیدا ھوا اور پھر اس زبان میں اتنی مہارت پیدا کرلی کہ استادوں میں شمار ھونے لگے۔ رفتہ رفتہ انھوں نے سکرپٹ کی بنیاد پر ھندوستانی زبان کو ھندی اور اردو میں تقسیم کرکے ھی دم لیا۔ اس کے بعد برطانیہ سے جو بھی افسر انڈیا تعینات ھوتے تھے ' اس کو فورٹ ولیم کالج میں اردو کی تعلیم حاصل کرنا پڑتی تھی۔ رقتہ رفتہ اردو کلچرڈ طبقے کی زبان ھونے کی علامت بنتی گئی ' جو آج ھر شخص کے ذھن میں موجود ھے۔ خاص طور پر لاھور کی اشرافیہ کے ذھنوں پر بہت بری طرح سوار ھے۔
اردو ھی کو انگریز نے مسلمانوں کی زبان قرار دیا اور سرسید احمد خان جو کہ انگریزی سرکار سے بڑے قریب تھے ' انھوں نے اردو ھندی تنازع پر بڑا کام کیا۔ پھر مسلم لیگ نے بھی اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دیکر سیاسی اشو بنادیا۔جب برٹش نے پنجاب فتح کیا تو اس نے پہلا کام یہ کیا کہ پنجاب کی دفتری اور تعلیمی زبان اردو قرار دے دی۔ اس سے پہلے پنجاب میں اردو کبھی بھی رائج نہیں رہی تھی۔
اب جو لوگ یہ
سمجھتے ھیں کہ اردو کوئی مسلمانوں کی زبان ھے یا ایک ھزار سال سے وجود رکھتی ھے۔
وہ اپنی غلط فہمی دور کرلیں۔ اردو کو انگریزوں نے انڈیا میں ھندو مسلم کو لڑوانے
کے لئے ھندی سے الگ زبان بنایا تھا۔ بالکل ایسے ھی جیسے بعض شرپسند ملتانی پنجابی
' ریاستی پنجابی اور ڈیرہ والی پنجابی کے لہجوں کو ملا کر سرائیکی کو پنجابی سے
الگ زبان بنانے کی بھونڈی کوشش کرتے رھتے ھیں۔
Contributed
by Shahzad Nasir
No comments:
Post a Comment