ﺳﺎﺋﻨﺴﺪﺍﻧﻮﮞ
ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮔﺮﻭہ ﻧﮯ 5 ﺑﻨﺪﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﭘِﻨﺠﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺪ کیا۔ ﺍﺱ ﭘِﻨﺠﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺍنہوں ﻧﮯ ﺍﯾﮏ
ﺳﯿﮍﮬﯽ ﺍﻭﺭ ﺍس کے ﺍﻭﭘﺮ ﮐﭽھ ﮐﯿﻠﮯ بھی رکھے۔ ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﻨﺪﺭ ﺳﯿﮍﮬﯽ ﭘﺮ ﭼﮍﮬﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺗﺎ
ﺗﻮ ﺳﺎﺋﻨﺴﺪﺍن ﻧﯿﭽﮯ کھڑے ھوئے ﺑﻨﺪﺭﻭﮞ ﭘﺮ ٹھنڈﺍ ﭘﺎﻧﯽ ﺑﺮﺳﺎﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ۔
ﺍﺱ
واقعہ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ بھی ﮐﻮﺋﯽ ﺑﻨﺪﺭ ﮐﯿﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﻻﻟﭻ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﻮ ﻧﯿﭽﮯ
کھڑے ھﻮﺋﮯ ﺑﻨﺪﺭ ﺍﺱ کو ﺳﯿﮍﮬﯽ ﭘﺮ ﭼﮍﮬﻨﮯ ﻧﮧ ﺩﯾﺘﮯ۔ ﮐﭽھ ﺩﯾﺮ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﯿﻠﻮﮞ ﮐﮯ ﻻﻟﭻ ﮐﮯ
ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﮐﻮﺋﯽ بھی ﺑﻨﺪﺭ ﺳﯿﮍﮬﯽ ﭘﺮ ﭼﮍﮬﻨﮯ ﮐﯽ ھﻤﺖ نہیں ﮐﺮ ﭘﺎ رھا تھا۔
سائسدانوں
نے فیصلہ کیا کہ ان میں سے ایک بندر کو بدل دیا جائے۔ پہلی چیز جو آنے والے بندر
نے کی وہ اوپر چڑھنا تھا لیکن فورا ھی اسے دوسرے بندروں نے مارنا شروع کردیا۔ کئی
دفعہ پٹنے کے بعد آنے والے بندر نے ھمیشہ کے لیے طے کرلیا کہ وہ اوپر نہیں چڑھے
گا۔ حتیٰ کہ اسے معلوم نہیں کہ کیوں؟؟؟
ﺳﺎﺋﻨﺴﺪﺍﻧﻮﮞ
ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺑﻨﺪﺭ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍس کا بھی یہی ﺣﺸﺮ ھوا۔ ﻣﺰﮮ ﮐﮧ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ھے ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ
پہلے ﺗﺒﺪﯾﻞ ھﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﻨﺪﺭ بھی ﺍﺳﮯ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ تھا۔ ﺍس کے ﺑﻌﺪ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﺑﻨﺪﺭ
ﮐﻮ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍس کا بھی یہی ﺣﺸﺮ ھوا۔ یہاں ﺗﮏ ﮐﮧ ﺳﺎﺭﮮ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺑﻨﺪﺭ ﻧﺌﮯ
ﺑﻨﺪﺭوں ﺳﮯ ﺗﺒﺪﯾﻞ ھو ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺳﺎﺗھ یہی ﺳﻠﻮﮎ ھوتا رھا۔
اب
پنجرے میں صرف نئے بندر رہ گئےجن پر سائنسدانوں نے کبھی بارش نہیں برسائی لیکن پھر
بھی وہ سیڑھی پر چڑھنے والے بندر کی پٹائی کرتے۔
اگر
یہ ممکن ھوتا کہ بندروں سے پوچھا جائے کہ تم کیوں سیڑھی پر چڑھنے والے بندر کو
مارتے ھو؟ تو یقینا جواب ملتا کہ ھمیں نہیں معلوم۔ ھم نے تو سب کو ایسے ھی کرتے
دیکھا۔
پنجابی’
سماٹ’ ھندکو’ براھوئی کے ساتھ بھی کچھ ایسی ھی صورتحال ھے۔
پاکستان
کے بننے کے بعد پاکستان پر یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے قبضہ
کرلیا اور پاکستان کی اصل قوموں بنگالی’ پنجابی’ سماٹ’ ھندکو’ براھوئی پر حکومت
کرنا شروع کردی۔ ایک اردو بولنے والے ھندوستانی کو وزیراعظم بنایا دوسرے اردو
بولنے والے ھندوستانی کو حکومتی پارٹی کا صدر بنایا ' جھوٹے کلیموں پر یوپی ' سی پی
سے اردو بولنے والے ھندوستانی بلا کرجائیدادیں ان میں بانٹیں ' خاص کوٹہ برائے
مھاجرین مخصوص کرکے جعلی ڈگریوں کے ذریعے بڑی بڑی سرکاری نوکریوں پر اردو بولنے
والے ھندوستانی بھرتی کیے ' بنگالی' پنجابی' سماٹ’ ھندکو’ براھوئی کی زبانوں کو
قومی زبان بنانے کے بجائے اپنی زبان اردو کو مسلمانوں کی زبان ھونے کا چکر چلا کر
قومی زبان بنا کر بنگالی ' پنجابی ' سماٹ’ ھندکو’ براھوئی کو اردو بولنے پر مجبور
کیا۔
جب
کوئی بنگالی’ پنجابی’ سماٹ’ ھندکو’ براھوئی اپنی مادری زبان میں بات کرتا تو یہ
یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی دوسرے بنگالی’ پنجابی’ سماٹ’ ھندکو’ براھوئی
کو بتاتے کہ وہ بنگالی’ پنجابی’ سماٹ’ ھندکو یا براھوئی غیر تہذیب یافتہ ' جاھل '
گنوار ' پنڈو ھے۔ جبکہ اردو کے پاکستان کی قومی زبان ھونے کا درس اور اردو کے
مسلمانوں کی زبان ھونے کی تبلیغ اسکے علاوہ ھوتی۔ لہذا اپنی زبان بولنے کی وجہ سے
غیر تہذیب یافتہ ' جاھل ' گنوار ' پنڈو ھونے کے فتوے سننے کے بعد وہ شخص نہ صرف
خود اپنی زبان بولتے ھوئے گھبراتا بلکہ اپنے اھل و اعیال اور عزیز و اقربا کو بھی
اپنی زبان بولنے کے بجائے پاکستان کی قومی اور مسلمانوں کی زبان اردو کو بولنے کی
ترغیب دیتا۔
اس
تذلیل ' توھین اور بدسلوکی سے بدظن ھوکر ' بڑی قوم ھونے اور ان اردو بولنے والے
ھندوستانیوں کے مرکز کراچی سے دور ھونے کی وجہ سے بنگالی قوم نے آزادی حاصل کرلی
لیکن پنجابی' سماٹ’ ھندکو’ براھوئی ان میں پھنسے رھے بلکہ عرصہ دراز تک اردو بولنے
والے ھندوستانیوں کی طرف سے گرائے جانے والے تذلیل ' توھین اور بدسلوکی کے ٹھنڈے
پانی کی وجہ سے پاکستان کے شہری علاقوں میں اپنی مادری زبان میں بات کرتے ھوئے
شرماتے ' گھبراتے بلکہ ڈرتے بھی رھے اور اردو کے پاکستان کی قومی زبان ھونے کا درس
اور اردو کے مسلمانوں کی زبان ھونے کی تبلیغ سن سن کر اردو بولنے کو ھی ترجیح دیتے
رھے۔ لیکن اب پنجابی قوم نے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے حربے سے آگاھی کے بعد
نہ صرف اپنی زبان پنجابی کو بولتے ھوئے ڈرنا ' گھبرانہ اور شرمانہ چھوڑنا شروع کر
دیا ھے بلکہ پنجاب کی تعلیمی اور دفتری زبان پنجابی کرنے کے مطالبے بھی شروع کر
دیے ھیں۔ بلکہ اب تو یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی آماجگاہ
کراچی میں بھی پنجابی' سماٹ’ ھندکو’ براھوئی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی '
سواتی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ اور دوسری زبانیں بولنے والوں میں اپنی
اپنی مادری زبان بولنے کے رحجان میں روز بروز اضافہ ھوتا جارھا ھے۔
No comments:
Post a Comment