Saturday, 25 June 2016

کیا اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر پاکستان کے لیے خطرہ ھیں؟

اس مضمون میں دلائل کے ساتھ اس بات کی وضاحت کی گئی ھے کہ " اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر پاکستان کے لیے خطرہ ھیں"۔ اس لیے برھمی یا ناراضگی کے بجائے اس مضمون کو مکمل پڑھنے کے بعد مضمون میں لکھے گئے کسی پیراگراف یا جملے کے متعلق اعتراض ھو کہ غلط لکھا گیا ھے تو اس پیراگراف یا جملے کو کاپی کرکے کمنٹ بکس میں پیسٹ کرنے کے بعد اصل حقائق سے آگاہ کریں تاکہ تصیح ھوسکے لیکن برائے مھربانی بد زبانی اور گالم گلوچ سے پرھیز کریں تاکہ دلائل کے ساتھ تجزیہ کیا جا سکے کہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر پاکستان کے لیے خطرہ ھیں یا نہیں۔

پاکستان کا قیام "کیبنٹ مشن" کی سفارشات کے بعد برطانیہ کی پارلیمنٹ کے " انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ 1947" کے تحت وجود میں آیا جس کے باعث 1947 میں پاکستان بنانے کے لیے پنجاب کو تقسیم کردیا گیا جس کی وجہ سے پنجاب کے مغرب کی طرف سے ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں کو پنجاب کے مشرق کی طرف منتقل ھونا پڑا اور پنجاب کے مشرق کی طرف سے مسلمان پنجابیوں کو پنجاب کے مغرب کی طرف منتقل ھونا پڑا۔ پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے اگست 1947 سے لیکر دسمبر 1947 تک 20 لاکھ پنجابی مارے گئے۔ 2 کروڑ پنجابی نقل مکانی پر مجبور ھوئے۔

پاکستان بنانے کے لیے جب پنجاب کو تقسیم کروا کر 20 لاکھ پنجابی مروائے جارھے تھے اور 2 کروڑ پنجابی بے گھر کروائے جارھے تھے اور پنجابی مسلمان خون کی ندیوں کو عبور کرکے پاکستان کا حصہ بننے والے پنجاب کی طرف ھجرت کر رھے تھے تو یوپی ' سی پی کے مسلمانوں نے پاکستان ھجرت نہیں کی تھی کیونکہ ھندوستان کے صوبوں یونائیٹیڈ پروینس ' جسکا نام اب اتر پردیش ھے۔ جو کہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کی مجموعی آبادی سے بھی بڑا صوبہ ھے۔ اسکی اس وقت آبادی 20 کروڑ ھے اور وھاں کے رھنے والوں کو یوپی والے کہا جاتا ھے اور سنٹرل پروینس (وھاں کے رھنے والوں کو سی پی والے کہا جاتا ھے) کی نہ تو سرحد پاکستان کے ساتھ ملتی تھی اور نہ یوپی ' سی پی والوں کے پاکستان کی اصل قوموں پنجابی ' سندھی ' پٹھان اور بلوچ کے ساتھ روابط تھے۔

پاکستان کے قیام کے وقت جس طرح پنجاب کو مسلم پنجاب اور نان مسلم پنجاب میں تقسیم کیا گیا اسی طرح یوپی ' سی پی کے مسلمانوں کو چاھیئے تھا کہ یوپی اور سی پی کے علاقوں کو بھی مسلم یوپی ' سی پی اور نان مسلم یوپی ' سی پی میں تقسیم کرواتےلیکن پاکستان کے قیام کے بعد یوپی کا رھنے والا آل انڈیا مسلم لیگ کا جنرل سیکریٹری ' اردو بولنے والا ھندوستانی لیاقت علی خان پاکستان کا وزیرِاعظم بن گیا اور پاکستان کی حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر  یوپی ' سی پی  میں واقع علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ' دار العلوم ندوۃ العلماء ' دارالعلوم دیو بند اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل مسلمان آکر قابض ھوگئے 'جسکی وجہ سے یوپی ' سی پی کے مسلمانوں کے لیے پاکستان میں ملازمتوں اور تجارت کے زیادہ مواقع پیدا ھوگئے تھے۔ خصوصا سرکاری محکموں میں اور پاکستان کا دارالخلافہ کراچی ھونے کی وجہ سے کراچی میں۔ لہٰذا کراچی ' حیدرآباد اور پنجاب و سندھ کے بڑے بڑے شہروں میں آباد مھاجر کہلانے والے لوگ 1950 کے بعد یوپی ' سی پی سے پاکستان آنا شروع ہوگئے۔

مسلمان پنجابیوں کو اپنے ھی دیش میں ' مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب کی طرف نقل مکانی  کرنے کی بنیاد پر مھاجر نہیں کہا جاسکتا۔ مھاجر وہ ھوتے ھیں جو اپنی زمین سے پناہ کی خاطر کسی اور قوم کی زمین میں جا بسیں۔ ھجرت کسی مجبوری کے تحت ھوتی ھے اور مھاجر تب ھی بنتا ھے جب اسے اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کیا جائے۔ اس لیے کراچی ' حیدرآباد اور پنجاب و سندھ کے بڑے بڑے شہروں میں آباد مھاجر کہلانے والے لوگ مھاجر کی تعریف میں نہیں آتے۔ یہ پاکستان کے اندر غیر قانونی طور پر آکر قابض ھوجانے والے موقع پرست ھیں۔ جو تقسیم ھند کے بہت بعد پاکستان کی حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر  یوپی ' سی پی والوں کی گرفت کی وجہ سے معاشی مواقع دیکھ کر پاکستان آئے۔

پاکستان کے بننے کے بعد پاکستان  کی حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض  ھوجانے والے یوپی ' سی پی  میں واقع علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل مسلمانوں نے مھاجر کی اصطلاح ایجاد کی اور مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب کی طرف نقل مکانی کرنے والے مسلمان پنجابیوں کو مھاجر قرار دے کر اور خود بھی مھاجر بن کر یوپی ' سی پی کے مسلمانوں کو مھاجر کی بنیاد پر پاکستان لانے کی راہ ھموار کرنا شروع کردی اور 1950 میں ھونے والے لیاقت - نہرو پیکٹ کی آڑ لیکر یوپی ' سی پی کے مسلمانوں کو مھاجر کی بنیاد پر پاکستان لاکر پاکستان کی حکومت '  پاکستان کی سیاست ' پاکستان کی صحافت ' سرکاری نوکریوں میں بھرتی کرنے کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شہروں میں آباد کرکے  زمینوں اور جائیدادوں پر  بھی قبضے کر نے شروع کردیے۔ 

یوپی ' سی پی کے مسلمانوں کو پاکستان لانا اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی  سازش اور لسانی ترجیح تھی کہ جب ملک معاشی طور پر سنبھل رھا تھا تو پاکستان کو بنانے کے لیے کی جانے والی پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے پاکستانی پنجاب سے نقل مکانی کرنے والے ھندو و سکھ پنجابیوں اور ھندوستانی پنجاب سے نقل مکانی کرنے والے مسلمان پنجابیوں کی آبادکاری کے لیے کیے جانے والے لیاقت - نہرو پیکٹ کی آڑ لیکر ھندوستان سے پلے پلائے مھاجروں کو لا کر کراچی اور حیدرآباد کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شہروں میں آباد کرنا شروع کردیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اب یہ  یوپی ' سی پی کا اردو بولنے والا ھندوستانی لسانی طبقہ پاکستان کے معاشی حب کراچی پر مکمل طور پر قابض اور لسانی عصبیت کا شکار ھے اور گذشتہ 30 سال سے ایم کیو ایم کے نام سے مھاجر لسانی دھشتگرد سیاسی پارٹی بنا کر کراچی کو ملک سے الگ کرنے کی سازشیں کر رھا ھے اور حیدرآباد کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شہروں میں آباد یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی بھی انکی سازشوں کی پشت پناھی اور تعاون کرتے ھیں تاکہ کراچی کو یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کا آزاد ملک "جناح پور" بنایا جائے۔

یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں  کو کراچی ' یوپی ' سی کے رسم و رواج اور اردو زبان کے علاوہ اور کسی چیز سے دلچسپی نہیں۔

اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر جب کہتے ہیں کہ پاکستانی قوم کی ترقی تو اس سے انکی مراد یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر ہی ھوتے ہیں نہ کہ پاکستان کی اصل قومیں پنجابی ' سندھی ' پٹھان اور بلوچ۔

اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر جب کہتے ہیں کہ پاکستان پہلے تو اس سے انکی مراد کراچی ھوتا ھے نہ کہ پنجاب ' دیہی سندھ ' خیبر پختونخواہ اور بلوچستان۔

اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر جب کہتے ہیں کہ پاکستانیت تو اس سے انکی مراد یوپی ' سی کے رسم و رواج اور اردو زبان ھوتی ھے ' نہ کہ پنجابی ' سندھی ' پٹھان اور بلوچ کے رسم و رواج اور نہ پنجابی ' سندھی ' پشتو اور بلوچی زبان۔

مھاجروں کی لسانی مافیہ ایم کیو ایم سے الگ ھو کر پاک سرزمین پارٹی بنانے والے رھنماؤں نے انکشاف کیا ہے کہ ایم کیو ایم کو بھارت سے پیسہ مہیا کیا جاتا ہے۔ کیا اس میں اب بھی شک ھے کہ دراصل 1950 میں لیاقت - نہرو پیکٹ کے ھوتے ھی انڈیا نے دورمار پلاننگ کی تھی اور ان اردو بولنے والے ھندوستانیوں کو ایک سازش کے تحت پاکستان بھیجا گیا تھا؟ پاکستان کی پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ عوام نے آنکھیں بند کئے رکھیں اور ملک کی ریڑھ کی ھڈی کراچی پر انڈین ایجنٹوں کا قبضہ ہوگیا؟

پاکستان بنانے کے لیے جب پنجاب کو تقسیم کیا گیا تو پنجاب کے مغرب کی طرف سے ھندو پنجابی اور سکھ پنجابی اپنے تمام کے تمام خاندانوں سمیت پنجاب کے مشرق کی طرف منتقل ھوئے اور پنجاب کے مشرق کی طرف سے مسلمان پنجابی اپنے تمام کے تمام خاندانوں سمیت پنجاب کے مغرب کی طرف منتقل ھوئے لیکن پاکستان آنے والے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے خاندان تو کیا بلکہ گھر کے ھی چند افراد پاکستان آگئے اور باقی ھندوستان میں ھی رھے۔ اسی لیے پاکستان پر قابض اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے ابھی تک ھندوستان میں اپنے خاندان کے افراد سے رابطے رھتے ھیں جسکی وجہ سے پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے اور بھارت کی آلہ کاری کرنے میں انہیں آسانی رھتی ھے۔

جس طرح پاکستان کی اصل قومیں پنجابی ' سندھی ' پشتو اور بلوچی بولنے والے ھیں ویسے ھی بھارت کی اصل قومیں ھندی/اردو ' تیلگو ' تامل ' ملایالم ' مراٹھی ' گجراتی ' راجستھانی '  کنڑا ' اڑیہ ' آسامی اور بھوجپوری بولنے والے ھیں۔ جبکہ بنگال اور پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے بنگالی اور پنجابی بولنے والے بھی بھارت میں رھتے ھیں۔

پاکستان کی پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ عوام کی انڈیا کی تیلگو ' تامل ' ملایالم ' مراٹھی ' گجراتی ' راجستھانی ' کنڑا ' اڑیہ ' آسامی اور بھوجپوری بولنے والوں اور ھندو پنجابی یا سکھ پنجابی کے ساتھ دشمنی نہیں ھے۔ پاکستان کی دشمنی انڈیا کی ھندی/اردو بولنے والے یوپی ' سی پی کے ھندوستانیوں کے ساتھ ھے۔ جو ایک طرف تو پاکستان کے دشمن ھیں اور دوسری طرف انڈیا کی تیلگو ' تامل ' ملایالم ' مراٹھی ' گجراتی ' راجستھانی ' کنڑا ' اڑیہ ' آسامی اور بھوجپوری بولنے والوں اور ھندو پنجابی و سکھ پنجابی کو اپنا غلام بناکر بیٹھے ھوئے ھیں۔ اس لیے انڈیا پر قابض ھندی/اردو بولنے والی یوپی ' سی پی کی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان میں اپنی "پراکسی وار کی حکمت عملی" کے تحت پاکستان میں اردو بولنے والے یوپی ' سی پی کے مھاجروں کو منظم کیا ھوا ھے۔

سندھی اور بلوچ  کا پاکستان کے شہری علاقوں ' بیوروکریسی ' اسٹیبلشمنٹ ' فارن افیئرس '   صحافت اور سیاست پر کنٹرول نہیں ھے۔ اس لیے سندھی اور بلوچ کسی طرح سے بھی پاکستان کے لیے خطرہ نہیں بن سکتے۔ سندھی اور بلوچ دیہی علاقوں کے رھنے والے ھیں ' جہاں مقامی سطح پر غیر سیاسی سرگرمیاں اور بدمعاشی کرسکتے ھیں اور کر رھے ھیں۔ غیر سیاسی سرگرمیاں اور بدمعاشی کرکے سندھی اور بلوچ خود اپنے آپکو سماجی اور معاشی نقصان پہنچارھے ھیں اور اپنے علاقوں کو تباہ اور برباد کررھے ھیں لیکن پاکستان کی سلامتی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔

پٹھان ویسے ھی افغانستان اور پاکستان کے بیچ مین پھنس کر سماجی اور معاشی طور پر تباہ اور برباد ھوچکے ھیں۔ اس لیے گذر بسر کے لیے پٹھانوں کا انحصار اب پنجاب اور کراچی پر ھو چکا ھے۔ پاکستان کی سلامتی میں پٹھانوں کا فائدہ ھے۔ اگر پاکستان نہ رھا تو پٹھانوں کو پنجاب اور کراچی سے نکلنا پڑجانا ھے جبکہ خیبرپختونخواہ کے ھندکو پنجابیوں کے علاقوں کو بھی خالی کرنا پڑ جانا ھے۔ ویسے بھی  شہری علاقوں ' بیوروکریسی ' اسٹیبلشمنٹ ' فارن افیئرس ' صحافت اور سیاست پر پٹھانوں کا کنٹرول نہیں ھے۔ اس لیے پٹھان کسی طرح سے بھی پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں بن سکتے۔

پاکستان کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ صرف یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر ھیں  ' جنکا شہری علاقوں ' بیوروکریسی ' اسٹیبلشمنٹ ' فارن افیئرس ' صحافت اور سیاست پر کنٹرول ھے۔

بین الاقوامی روابط ھونے کی وجہ سے  پاکستان کے دشمنوں سے ساز باز کرکے پاکستان کے اندر سازشیں کرنا اور  بین الاقوامی  امور میں دلالی کرنا اردو بولنے والے یوپی ' سی پی کے مھاجروں کا پسندیدہ مشغلہ ھے۔ چونکہ شہری علاقوں’ سیاست’ صحافت’ صنعت’ تجارت’ سرکاری عہدوں اور تعلیمی مراکز پر انکا کنٹرول ہے اس لیے اپنی باتیں منوانے کے لئے ھڑتالوں ' جلاؤ گھیراؤ اور جلسے جلوسوں میں ھر وقت مصروف رھتے ھیں- پنجابی' سندھی ' پٹھان ' بلوچ میں سے جو بھی ان کے آگے گردن اٹھانے کی کوشش کرے اس کے گلے پڑ جاتے ھیں اور الٹا اسی کو ھندوّں کا ایجنٹ ' اسلام کا مخالف اور پاکستان دشمن بنا دیتے ھیں۔ 

 چونکہ یہ اردو بولنے والے یوپی ' سی پی کے مھاجر سازشی اور شرارتی ذھن رکھتے ھیں اس لیے پاکستان کے قیام کے وقت سے لیکر اب تک ان کی عادت یہی چلی آرھی ھے کہ پنجابی کے پاس سندھی ' پٹھان اور بلوچ کے ھندوّں کے ایجنٹ ' اسلام کے مخالف اور پاکستان کے دشمن ھونے کا رونا روتے رھتے ھیں اور سندھی ' پٹھان ' بلوچ کے پاس پنجابیوں کو آمر ' غاصب اور جمھوریت کا دشمن ثابت کرنے کے لیے الٹے سلٹے قصے ' کہانیاں بنا بنا کر شور مچاتے رھتے ھیں- پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کے درمیان بدگمانی پیدا کرتے رھنا انکا محبوب مشغلہ ھے۔

اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجروں کی اکثریت ایم کیو ایم سے وابستہ ھے اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے انڈیا کے ساتھ سازباز کرنے کے بعد بغاوت کا اعلان کیا تھا اور پاک فوج کو دھمکی دی تھی کہ؛

اگر ھمارے خلاف مہم ختم نہ کی گئی تو نہ تمہاری چھڑی رھے گی ' نہ کاندھوں پر ستارے اور نہ یہ ملک رھے گا۔

کارکن اپنی تربیت شروع کردیں۔ روزانہ ایک گھنٹہ کمانڈو ٹرینگ کریں۔ اسلحہ چلانا سیکھں۔

دیکھتے ھیں دریائے سندھ میں کس کا خون بہے گا۔

یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر پاکستان کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ھیں۔ کیونکہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا کام پاکستان کے بننے سے لیکر ھی امریکہ ' برطانیا اور ھندوستان کی دلالی کرنا رھا ھے اور اب بھی کر رھے ھیں جبکہ اسلام اور پاکستان کے نعرے لگا لگا کر پنجاب اور پنجابی قوم کو بیواقوف بھی بناتے رھے ھیں۔ حالانکہ نہ یہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ھیں اور نہ پاکستان کی تعمیر ' ترقی ' خوشحالی اور سلامتی سے ان کو دلچسپی ھے۔

پاکستان اصل میں یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمانوں کی شکارگاہ اور ٹرانزٹ کیمپ رھا ھے۔ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی ' مسلمان ھونے اور پاکستان کو بنانے کا نعرہ مار کر یوپی ' سی پی سے پاکستان آتے رھے۔ پاکستان اور اسلام کا لبادہ اوڑہ کر پاکستان کی سیاست ' صحافت ' حکومت ' فارن افیئرس ' سول بیوروکریسی ' ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور بڑے بڑے شہروں پر قابض ھوتے رھے۔ پاکستان کے دشمنوں کے ایجنڈے پر عمل کرکے پاکستان کو برباد  کرکے ' پاکستان کی اصل قوموں پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کو تباہ کرکے اور پاکستان میں لوٹ مار کرنے کے بعد امریکہ ' برطانیہ ' متحدہ عرب امارت کو اپنا مستقل ٹھکانہ بناتے رھے۔

پاکستان کے قیام کے بعد سے لیکر ایم کیو ایم کے قیام سے پہلے تک یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے خود کو ھندوستانی کہلواتے تھے جبکہ گجراتیوں اور راجستھانیوں کو اپنے ساتھ ملا کر مھاجر بن جاتے تھے لیکن سندھ میں رھنے والے پنجابیوں اور پٹھانوں سے ملتے تو خود کو نان سندھی کہلواتے۔ ایم کیو ایم کے قیام سے پہلے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے گجراتیوں اور راجستھانیوں کو اپنے ساتھ ملا کر مھاجر بن جاتے کے بعد سندھ میں رھنے والے پنجابیوں اور پٹھانوں کو اپنے ساتھ ملاکر مھاجر ' پنجابی ' پٹھان اتحاد بنایا ھوا تھا۔

مھاجر ' پنجابی ' پٹھان اتحاد کے پلیٹ فارم سے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے نہ صرف گجراتیوں اور راجستھانیوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا بلکہ سندھ میں رھنے والے پنجابیوں اور پٹھانوں کو بھی اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے رھے اور سندھیوں سے سندھ کی سیاست ' حکومت اور سرکاری نوکریوں میں نان سندھی کے نام پر گجراتیوں ' راجستھانیوں اور سندھ میں رھنے والے پنجابیوں اور پٹھانوں کا حصہ لینے کے بعد یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کو سندھ کی سیاست ' حکومت اور سرکاری نوکریوں میں مستحکم کرتے رھے۔ اردو زبان کی بالا دستی قائم رکھتے رھے جبکہ گجراتیوں اور راجستھانیوں کے علاوہ سندھ میں رھنے والے پنجابیوں اور پٹھانوں کو نان سندھی قرار دیکر سندھوں کے ساتھ محازآرائی پر اکساتے رھے۔

ایم کیو ایم کے قیام کے بعد سندھ میں رھنے والے پنجابیوں اور پٹھانوں کو تو یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے چنگل اور نان سندھی کی شناخت سے نجات مل گئی لیکن گجراتی اور راجستھانی ابھی تک مھاجر کی شناخت کے نام پر یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے چنگل میں پھنسے ھوئے ھیں اور یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کا سندھ کی سیاست ' حکومت اور سرکاری نوکریوں میں استحکام قائم رکھنے ' اردو زبان کی بالا دستی قائم رکھنے اور کراچی کو پاکستان سے الگ کرنے یا کم سے کم کراچی کو الگ صوبہ بنانے کے لیے استعمال ھو رھے ھیں۔

کراچی کی آبادی 25٪ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں ' 15٪ پنجابی بولنے والوں ' 15٪ پشتو بولنے والوں ' 10٪ سندھی بولنے والوں ' 5٪ بلوچی بولنے والوں ' 10٪ گجراتی بولنے والوں ' 10٪ راجستھانی بولنے والوں اور 10٪ دیگر زبانیں بولنے والوں پر مشتمل ھے۔ گو کہ پنجابیوں ' پٹھانوں ' سندھیوں ' بلوچوں اور دیگر کی کراچی میں آبادی 55٪ ھے۔ گجراتیوں اور راجستھانیوں کی آبادی 20٪ ھے۔ 

پنجابیوں ' پٹھانوں ' سندھیوں ' بلوچوں ' گجراتیوں ' راجستھانیوں اور دیگر کی کراچی میں آبادی 75٪ ھے ' جو کہ نان اردو اسپیکنگ ھیں لیکن ان 25٪ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے کراچی کے 20٪ نان اردو اسپیکنگ گجراتیوں اور راجستھانیوں کو مھاجر قرار دے کر کراچی میں اپنی آبادی 25٪ سے بڑھاکر 45٪ کر رکھی ھے جبکہ کراچی کی آبادی کے 55٪ پنجابیوں ' پٹھانوں ' سندھیوں ' بلوچوں اور دیگر کے متحد نہ ھونے کا فائدہ اٹھا کر کراچی پر اپنا کنٹرول قائم کیا ھوا ھے۔

No comments:

Post a Comment