کراچی کے مہاجر 1972 میں ذالفقار علی بھٹو اور اس وقت
سندھ میں قائم مہاجر ' پنجابی ' پٹھان اتحاد کے درمیان ھونے والے
معاھدہ کا اب تک ناجائز فائدھ اٹھا رھے ھیں. 1972 میں
سندھ کے وزیر اعلی ممتاز بھٹو نے سندھ اسمبلی
میں لینگویج بل پیش کیا تھا۔ جسکے تحت سندھ
کی سرکاری اور تعلیمی زبان اردو کے بجائے صرف سندھی کو قرار دینا تھا. لینگویج بل
سندھ اسمبلی میں پیش ھوتے ھی سندھ میں لسانی فسادات پھوٹ پڑے.
اس
وقت کے حالات میں مہاجر ' پنجابی ' پٹھان کو غیر سندھی قرار دیا جاتا
تھا۔ جسکی وجہ سے سندھ کے ایک مہاجر سیاستدان نواب مظفر
علی خاں کی قیادت میں مہاجر ' پنجابی ' پٹھان اتحاد بنا ھوا تھا اور
سندھ کے مہاجر ' پنجابی ' پٹھان نواب مظفر علی خاں کی قیادت میں متحد
تھے۔ مہاجر اردو زبان کو سندھ کی سرکاری اور تعلیمی زبان رکھنا چاھتے تھے۔ سندھ
کے پنجابی اور پٹھان ' مہاجروں کے اتحادی ھونے کی وجہ سے اور بعض دیگر
وجوھات کی بنا پر مہاجروں کے مطالبے کی حمایت کر رھے تھے۔
سندھ
میں اردو اور سندھی کی بنیاد پر لسانی فسادات کے بعد ذالفقار علی بھٹو کو ٹی وی پر
آکر سندھ کے غیر سندھی مہاجروں ' پنجابیوں اور پٹھانوں سے معافی مانگنی پڑی اور
صرف سندھی کو سندھ کی سرکاری اور تعلیمی زبان قرار دینے کا بل واپس لینے کے ساتھ
ساتھ یہ معاھدہ بھی کرنا پڑا کہ سندھ کا وزیرِ اعلیٰ سندھی اور گورنر غیر سندھی
ھوا کرے گا۔ اس لیے اس وقت کے سندھ کے سندھی گورنر رسول بخش تالپور کو ھٹاکر مہاجر
بیگم رعنا لیاقت علی خاں کو سندھ کا گورنر بنا دیا گیا۔
ایم
کیو ایم کے قیام تک سندھ کے مہاجر ' پنجابی ' پٹھان ' غیر سندھی کی بنیاد پر ایک
تھے لیکن یہ اور بات ھے کہ سندھ کا گورنر غیر سندھی کے معاھدے کے تحت صرف مہاجر ھی
بنتا رھا اور شہری سندھ کے 40٪ سرکاری نوکریوں کے کوٹہ میں سے زیادہ تر نوکریاں
مھاجروں کو ھی ملتی رھیں۔
ایم کیو ایم کے قیام کے بعد سندھ کے پنجابی اور پٹھان چونکہ اب مہاجر سے الگ ھوچکے ھیں۔ اس لیے سندھ میں غیر سندھی کے نام پر مہاجر گورنر کی تعیناتی کا رواج اب ختم ھونا چاھیئے اور شہری سندھ کی 40٪ سرکاری نوکریوں کے کوٹہ میں پنجابیوں اور پٹھانوں کا بھی حصہ ھونا چاھیئے۔ خاص طور پر کراچی کی مقامی حکومت کی نوکریوں میں۔ جہاں مھاجروں کے سیاسی غلبہ کی وجہ سے صرف مھاجروں کو سرکاری نوکریاں دی جاتی ھیں اور کراچی میں رھنے والے پنجابیوں اور پٹھانوں کو نظرانداز کیا جاتا ھے۔
کراچی
والے اور کراچی کے مھاجر میں زمین آسمان کا فرق ھے۔ کراچی والے صرف مھاجر نہیں
بلکہ کراچی کے پنجابی ' پٹھان ' سندھی ' بلوچ بھی ھیں۔ جبکہ کراچی کے مھاجر صرف
کراچی کے مھاجر ھی ھیں۔ مہاجروں کو اپنی احساسِ محرومی کا رونا بند کرکے اب کراچی
کے پنجابی ' پٹھان ' سندھی ' بلوچ کی کراچی میں احساسِ محرومی ختم کرنا ھوگی۔
کراچی کے پنجابی ' پٹھان ' سندھی ' بلوچ کو کراچی میں عزت اور سکون کے ساتھ زندگی
گذارنے کا حق دینا ھوگا۔
پاکستان
کے قیام کے بعد یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر نے ذراعت اور
صنعت کے شعبوں میں بھی روزگار کے ذرائعے اختیار کرنے کے بجائے خود کو سروسز کے
شعبے تک محدود کرلیا اور وہ بھی زیادہ تر حکومتی اداروں اور سرکاری سروسز کے شعبوں
میں اور خاص طور پر ان حکومتی اداروں اور سرکاری سروسز کے شعبوں میں جو کراچی یا
بڑے شہری علاقوں میں ھیں۔ لیکن اب پنجابی ' پٹھان ' سندھی ' بلوچ بھی کراچی اور
بڑے شہری علاقوں کے حکومتی اداروں اور سرکاری سروسز کے شعبوں میں اپنی آبادی کے
مطابق حصہ چاھتا ھے۔
یوپی
' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کے روزگار کے مسئلے کا حل یہ ھے کہ
یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر صرف حکومتی اداروں اور سرکاری
سروسز کے شعبوں اور وہ بھی کراچی یا بڑے شہری علاقوں میں ھی روزگار کرنے کی ضد
کرنے کے بجائے ذراعت اور صنعت کے شعبوں میں بھی روزگار کے ذرائعے اختیاریں اور
دیہی علاقوں میں جاکر بھی آباد ھونا شروع کریں۔
بحرحال
اس وقت صورتحال یہ ھے کہ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا سب
سے بڑا مسئلہ سماجی تنہائی بنتا جا رھا ھے۔ کیونکہ الطاف حسین کی حمایت اور ایم
کیو ایم کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے پنجابی ' پٹھان ' سندھی ' بلوچ اب یوپی ' سی پی
کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں سے میل ملاقات کرنے سے اجتناب کرنے لگے ھیں۔
No comments:
Post a Comment