عظیم
پنجابی ھیرو بھگت سنگھ سوشلسٹ اور سیکولر انقلاب کا حامی تھا۔ طبقات سے پاک برابری
کی سطح پر قائم پنجابی معاشرہ چاہتا تھا۔ پنجاب کی جدوجہد آزادی کا ہیرو بھگت سنگھ
1907ء ضلع لائل پور کے موضع بنگہ میں پیدا ہوا۔ کاما گاٹا جہاز والے اجیت سنگھ اس
کے چچا تھے۔ جلیانوالہ باغ امرتسر اور عدم تعاون کی تحریک کے خونیں واقعات سے اثر
قبول کیا۔
1921ء میں سکول
چھوڑ دیا اور نیشنل کالج میں تعلیم شروع کی۔ 1927ء میں لاہور میں دسہرہ بم کیس کے
سلسلے میں گرفتار ہوا اور لاہور کے شاہی قلعے میں رکھا گیا۔ ضمانت پر رہائی کے بعد
نوجوان بھارت سبھا بنائی۔ اور پھر انقلاب پسندوں میں شامل ہوگیا۔ دہلی میں عین اس
وقت، جب مرکزی اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا اس نے اور بے ۔کے دت نے اسمبلی ہال میں
دھماکا پیدا کرنے والا بم پھینکا۔ دنوں گرفتار کرلیے گئے۔ عدالت نے عمر قید کی سزا
دی۔
1928ء میں سائمن کمیشن
کی آمد پر لاہور ریلوے سٹیشن پر زبردست احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ پولیس نے لاٹھی چارج
کیا جس میں لالہ لاچپت رائے رائے زخمی ہوگئے۔ اس وقت لاہور کے سینئر سپرٹینڈنٹ
پولیس مسٹر سکاٹ تھے۔ انقلاب پسندوں نے ان کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا۔ لیکن ایک
دن پچھلے پہر جب مسٹر سانڈرس اسسٹنٹ سپرٹینڈنٹ پولیس لاہور اپنے دفتر سے موٹر
سائیکل پر دفتر سے نکلے تو راج گرو اور بھگت سنگھ وغیرہ نے ان کو گولی مار ہلاک کر
دیا۔ حوالدار جین نے سنگھ کا تعاقب کیا۔ انھوں نے اس کو بھی گولی مار دی ۔ اور ڈی
اے وی کالج ہوسٹل میں کپڑے بدل کر منتشر ہوگئے۔ آخر خان بہادر شیخ عبدالعزیز نے
کشمیر بلڈنگ لاہور سے ایک رات تمام انقلاب پسندوں کو گرفتار کر لیا۔ لاہور کے
سینٹرل جیل کے کمرۂ عدالت میں ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ بھگت سنگھ اور دت اس سے قبل
اسمبلی بم کیس میں سزا پا چکے تھے۔ مقدمہ تین سال تک چلتا رہا۔
حکومت
کی طرف سے خان صاحب قلندر علی خان اور ملزمان کی طرف سے لالہ امرد اس سینئر وکیل
تھے۔ بھگت سنگھ اور سکھ دیو کو سزائے موت کا حکم دیا گیا اور 23 مارچ 1931 کو ان
کو پھانسی دے دی گئی۔ فیزوز پور کے قریب، دریائے ستلج کے کنارے، ان کی لاشوں کو
جلا دیا گیا۔ بعد میں یہاں ان کی یادگار قائم کی گئی۔
No comments:
Post a Comment