Friday, 16 August 2019

جنرل ضیاء الحق ھانگ کانگ کا متبادل بین الاقوامی فری پورٹ بنا رھا تھا۔


برطانیہ نے 1890 میں ھانگ کانگ کو چین سے 100 سال کی لیز پر لے کر ھانگ کانگ میں بین الاقوامی فری پورٹ بنایا ھوا تھا۔ 1990 میں ھانگ کانگ کی لیز ختم ھو رھی تھی۔ ساؤتھ ایشا ' سینٹرل ایشیا اور مڈل ایسٹ کے سنگم پر واقع ھونے ' افرادی قوت ' خام مال اور بہترین سمندری حدود کی وجہ سے ھانگ کانگ کے بعد بین الاقوامی فری پورٹ کے طور پر مناسب مقام پاکستان کے ساحلی علاقے تھے۔ اس لیے پاکستان کے صدر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق نے 1979 میں ھانگ کانگ کے متبادل کے طور پر کراچی سے لیکر حیدرآباد تک سپر ھائی وے کے علاقے کو بین الاقوامی فری پورٹ بنانے کا منصوبہ بنایا۔ اس مقصد کے لیے سپر ھائی وے پر کراچی - حیدرآباد کے درمیان نوری آباد کے نام سے ایشیا کا سب سے بڑا صنعتی زون بنانا شروع کیا۔ زرعی اور ڈیری فارم بنانے کے لیے زمینوں کی لیز دی گئی۔ جبکہ کراچی میں سپر ھائی وے پر اسکیم 33 اور حیدرآباد میں سپر ھائی وے پر گلشنِ شھباز کے نام سے رھائشی علاقے بنانا شروع کیے جو 1988 تک تیار ھوچکے تھے۔ لیکن بھارت ' دبئی ' برطانیہ سمیت کچھ دیگر ممالک ھانگ کانگ کے بعد پاکستان میں بین الاقوامی فری پورٹ کا بننا اپنے مفاد کے خلاف سمجھتے تھے۔

جنرل ضیاء الحق نے پاکستان میں بین الاقوامی فری پورٹ بنانے کے منصوبے پر کام شروع کیا ھوا تھا جبکہ پاکستان میں بین الاقوامی فری پورٹ کا بننا اپنے مفاد کے خلاف سمجھنے والے پاکستان میں بین الاقوامی فری پورٹ بنانے کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے سرگرم تھے۔ اس مقصد کے لیے کراچی اور حیدرآباد میں مھاجر قومی موومنٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جبکہ دیہی سندھ میں ڈاکو راج قائم کیا گیا۔ اس لیے 1987 سے کراچی اور حیدرآباد میں مھاجر قومی موومنٹ کی جلاؤ ' گھراؤ ' لوٹ مار ' غنڈہ گردی ' بھتہ خوری اور قتل و غارتگری جاری تھی۔ دیہی سندھ میں 1983 سے پی پی پی کی شروع کی گئی تحریک کی آڑ میں پیدا کئے گئے ڈاکوؤں کا راج تھا۔ لیکن 1988 میں جنرل ضیاء الحق کی طیارے کے حادثے میں ھلاکت کے بعد پاکستان کی فوج کا سربراہ مرزا اسلم بیگ اور پاکستان کی وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کے بننے کی وجہ سے ھانگ کانگ کے متبادل کے طور پر کراچی سے لیکر حیدرآباد تک سپر ھائی وے کے علاقے کو بین الاقوامی فری پورٹ بنانے کے منصوبہ پر کام روک دیا گیا۔

کراچی اور حیدرآباد میں مھاجر قومی موومنٹ کی قتل و غارتگری ' دیہی سندھ میں ڈاکوؤں کا راج اور پاکستان میں بین الاقوامی فری پورٹ بنانے کے منصوبے پر کام روکنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ؛ ھانگ کانگ سے منتقل ھوکر کچھ بین الاقوامی کمپنوں نے اپنے دفاتر سنگاپور ' ملائشیا اور بنگلہ دیش میں بنا لیے۔ پاکستان کے مقابلے میں معاشی طور پر بدحال سنگاپور ' ملائشیا اور بنگلہ دیش بین الاقوامی ایکسپورٹر بننے کی وجہ سے معاشی طور پر خوشحال ملک بن گئے۔ جبکہ دبئی کو بین الاقوامی فری پورٹ بنانے کی وجہ سے زیادہ تر بین الاقوامی کمپنوں نے اپنے دفاتر ھانگ کانگ سے دبئی منتقل کرلیے۔ اس لیے دبئی اس وقت ھانگ کانگ کی لیز ختم ھونے کے بعد بین الاقوامی فری پورٹ بن چکا ھے اور بین الاقوامی ایکسپورٹر بننے کی وجہ سے معاشی طور پر خوشحال ملک بن گیا ھے۔

دبئی کے بین الاقوامی فری پورٹ بننے کے باوجود اپنے جغرافیائی محلِ وقوع ' افرادی قوت ' خام مال اور بہترین سمندری حدود کی وجہ سے ابھی تک پاکستان کے ساحلی علاقے عالمی تجارتی حلقوں میں بین الاقوامی فری پورٹ بننے کے لیے زیادہ بہتر اور فائدہ مند سمجھے جاتے ھیں۔ بلکہ جنرل ضیاء الحق کا کراچی سے لیکر حیدرآباد تک سپر ھائی وے کے علاقے کو بین الاقوامی فری پورٹ بنانے کا منصوبہ اگر کامیاب ھوگیا ھوتا تو دبئی نے بین الاقوامی فری پورٹ بن ھی نہیں پانا تھا۔ اس لیے جب بھی پاکستان اپنے ساحلی علاقے پر بین الاقوامی فری پورٹ بنانے میں کامیاب ھوگیا تو دبئی میں واقع بیشتر بین الاقوامی کمپنوں نے اپنے دفاتر دبئی سے پاکستان کے ساحلی علاقے پر واقع بین الاقوامی فری پورٹ منتقل کرلینے ھیں۔ پاکستان کے ساحلی علاقے پر بین الاقوامی فری پورٹ بننے سے پاکستان بین الاقوامی ایکسپورٹر بن جائے گا۔ پاکستان کے خام مال کا بہتر استعمال ھونا شروع ھوجائے گا۔ پاکستان کی افرادی قوت کے لیے پاکستان میں ھی روزگار حاصل ھونا شروع ھو جائے گا۔ جس سے پاکستان کی معیشت مظبوط ھوگی اور پاکستان ایک خوشحال ملک بن جائے گا۔

No comments:

Post a Comment