سندھ
میں سندھ کی مجموعی آبادی کے مطابق تو سندھی پہلے ' مہاجر دوسرے ' پنجابی تیسرے
اور پٹھان چوتھے نمبر پر ھیں۔ لیکن کراچی میں مہاجر پہلے ' پنجابی دوسرے ' پٹھان
تیسرے اور سندھی چوتھے نمبر پر ھیں۔ جبکہ اندرون سندھ ' سندھی پہلے ' پنجابی دوسرے
' مہاجر تیسرے اور پٹھان چوتھے نمبر پر ھیں۔ سندھ میں رھنے والے پنجابیوں کے
سندھیوں کے ساتھ تعلقات پاکستان کے بننے سے پہلے تو بہت اچھے تھے لیکن پاکستان کے
بننے کے بعد بھی 1960 کی دھائی تک بہت اچھے ھی رھے۔ دیہی سندھ کی ترقی اور
خوشحالی کے لیے عربی نزاد اور بلوچ نزاد سندھ کے قبضہ گیروں کے مقابلے میں دیہی
سندھ کے پنجابی آبادگاروں نے زراعت کی ترقی میں میں زیادہ بہتر اور بنیادی
کردار ادا کیا۔ دیہی سندھ میں ھنرمندی کے شعبوں میں بھی اپنی خدمات پیش
کیں۔ دیہی سندھ میں کاروباری شعبے کو مظبوط کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔
دیہی
سندھ کے پنجابیوں نے سندھی زبان میں تعلیم حاصل کر کے سندھی زبان کو فروغ دینے کے
ساتھ ساتھ سندھی ثقافت کو اپنایا اور سندھی رسم و رواج کو اختیار کرنا بھی شروع کر
دیا۔ لیکن 1901 کی دھائی میں نارہ کینال اور 1930 کی دھائی میں سکھر بیئراج
کی زمینیں آباد کرنے کے لیے جانے والے پنجابیوں کی اکثریت کو 1972 میں سندھ
کے عربی نزاد قبضہ گیر جی - سید کی بنائی گئی تنظیم "جیئے
سندھ" کی "سندھو دیش" تحریک کی دھشتگردانہ کاروائیوں کی وجہ
سے 1970 کی دھائی میں اپنی آباد کی ھوئی زمینیں اور کاروبار چھوڑ کر دیہی
سندھ سے نکلنا پڑا۔
1970
کی دھائی میں اور 1980 کی دھائی میں دیہی سندھ کے تعلیمی اداروں میں سندھ کے
پنجابیوں کو غنڈہ گردی ' تشدد اور قتل و غارتگری کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے سے روکا
جاتا رھا۔ جسکے بعد سے پنجابی نے دیہی سندھ میں اپنے ٹائم ' ٹیلنٹ اور وسائل
کی انویسٹمنٹ کے لیے نہ صرف جانا بند کر دیا بلکہ جو پنجابی آبادگار دیہی سندھ سے
نکل سکتا تھا ' اسنے دیہی سندھ سے نکلنا شروع کر دیا۔ اس وقت دیہی سندھ میں
وہ پنجابی بچا ھے جو نہ تو معاشی طور پر مظبوط ھے ' نہ سیاسی طور پر مظبوط ھے ' نہ
اعلیٰ تعلیم یافتہ ھے اور نہ جدید ھنرمندی کی مھارت رکھتا ھے۔
پاکستان
میں پنجابیوں کی آبادی 60٪ ھونے کے باوجود پنجاب نے پی پی پی کی خود قیادت کرنے کے
بجائے پی پی پی کی سندھی قیادت کو بار بار پاکستان پر حکومت کروائی بلکہ پی پی کی
تو بنیاد بھی پنجاب ھی میں رکھی گئی تھی۔ لیکن پی پی پی کی سندھی قیادت کا کردار
پنجاب اور پنجابیوں کے ساتھ کیسا رھا اور اب بھی کیسا ھے؟ بھٹو کے دور میں جو
پنجابی سندھ سے اپنی آباد کی ھوئی زمیںیں چھوڑ کر پنجاب آگئے۔ وہ اس وقت پنجاب کے
کونے کونے میں موجود ھیں اور پنجاب والوں کو آج تک یاد دلاتے ھیں کہ انکے بنائے
ھوئے لیڈر کی وجہ سے انکو اپنے گھربار چھوڑ کر دربدر ھونا پڑا۔
سندھ
میں جو پنجابی اس وقت بھی موجود ھیں انکے آباوّ اجداد نے کسی زمانے میں سندھ جانے
کی غلطی کرلی تھی۔ وہ پیدا تو سندھ میں ھی ھوئے ھیں اور سندھی زبان نہ صرف بولتے
ھیں بلکہ پڑھ بھی سکتے ھیں اور تہذیب و ثقافت بھی سندھ کی اختیار کرچکے ھیں۔ لیکن
اس کے باوجود وہ سندھ میں دوسرے درجے کے شہری ھیں۔ سندہ میں رھنے والے پنجابیوں کو
نہ تو سماجی سرگرمیوں کی اجازت ھے۔ نہ انکی سیاسی نمائندگی کی ضرورت کو محسوس کرتے
ھوئے سندھ کے بلوچوں اور سیدوں کی بالادستی والی اور سندھ کی حکمراں سیاسی جماعت پی پی پی میں انکو صوبائی اور ضلعی سطح کے پارٹی عھدے دیے جاتے ھیں۔ نہ سندھ
کی صوبائی نوکریوں میں حصہ دیا جاتا ھے۔ نہ سندھ کابینہ میں نمائدگی دی جاتی ھے۔ اس
لیے سندھ میں پنجابیوں کے سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی مسائل کی نمائدگی کیسے
ھوتی ھے؟
ایک
طرف تو سندھ میں رھنے والے سید اور بلوچ خود کو سندھی قرار دیتے ھیں تو دوسری طرف
سندھ میں 1901 اور 1932 سے آباد پنجابی کو سندھی تسلیم کرکے سماجی ' سیاسی ' معاشی
اور انتظامی معاملات میں برابری کا حق دینے کی مخالفت کرتے ھیں۔ حالانکہ سندھ میں
رھنے والے پنجابی اپنے نام کے ساتھ پنجابی کا لفظ تک نہیں لگاتے جبکہ بلوچ اور سید
اپنے نام کے ساتھ لفظ بلوچ اور سید ضرور لکھتے ھیں۔ لیکن پھر بھی پنجابی کو تو نہ
سندھی تسلیم کیا جاتا ھے اور نہ برابری کے حقوق دیے جاتے ھیں۔ جبکہ بلوچ اور سید
کو سندھی تسلیم ھی نہیں کیا جاتا بلکہ دیہی سندھ ان کے کنٹرول میں ھے اور سماٹ
سندھی کو بھی انکے ساتھ آنکھیں ملا کر بات کرنے کی ھمت نہیں ھے۔
1970
میں جی ایم سید کی موقع پرست سیاست کی وجہ سے موجودہ وقت میں سماٹ سندھی دیہی سندھ
میں سید اور بلوچ جاگیرداروں کے غلام ھیں۔ سندھ کے شہری علاقوں پر اردو بولنے والے
ھندوستانی مھاجروں کا کنٹرول ھے۔ جبکہ پنجاب سے پنجابیوں کو دیہی سندھ میں جاکر
زراعت ' صنعت ' تجارت کے کاروبار کے فروغ ' صحت اور تعلیم کے شعبوں کی ترقی میں
اپنے اقتصادی وسائل اور دانشورانہ مہارت کی سرمایہ کاری کرنے کی کوئی دلچسپی نہیں
ھے۔ جب معاشی طور پر مظبوط ' سیاسی طور پر مظبوط ' اعلیٰ تعلیم یافتہ اور جدید
ھنرمندی کی مھارت والا پنجابی دیہی سندھ میں اپنے ٹائم ' ٹیلنٹ اور وسائل کی
انویسٹمنٹ کرنے کے لیے تیار ھی نہیں اور نہ 1970 کی دھائی میں اور 1980 کی دھائی
میں دیہی سندھ کے پنجابیوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کو بھولنے پر تیار ھے تو
پھر سندھیوں اور پنجابیوں کے درمیان سماجی ' کاروباری اور سیاسی تعلقات کیسے بہتر
ھوسکتے ھیں؟
سندھیوں
کے پنجاب کے عوام کے ساتھ رابطے اور واسطے کے ختم ھونے اور پنجاب کے سندھیوں کے
ساتھ لاتعلقی کے باعث اب مستقبل میں سندھیوں کو پاکستان کی مرکزی حکومت ' پاکستان
کی بیوروکریسی ' اسٹیبلشمنٹ ' صنعت ' تجارت ' سیاست ' صحافت اور ھنرمندی کے شعبوں
میں وہ عزت ' اھمیت اور سہولت نہیں ملا کرنی جو ماضی میں ملتی رھی۔ سندھ کے سماٹ
سندھیوں ' بلوچ نزاد اور عربی نزاد سندھیوں کا پنجاب اور پنجابی قوم کے ساتھ
تعلقات کا انحصار اب سندھ میں رھنے والے پنجابیوں کے ساتھ تعلقات پر
منحصر ھے۔ پنجاب اور پنجابی قوم اب سندھ کے پنجابی کے ساتھ ھونے والے ظلم و زیادتی
اور سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی استحصال کو ھر گز برداشت نہیں کرے گی۔
No comments:
Post a Comment