پاکستان
آنے والے یوپی ' سی پی کے گنگا جمنا کی تہذیب و ثقافت والے اردو بولنے والے ھندوستانی
نہ زمیندار اور مزارعے تھے ' نہ صنعتکار اور مزدور تھے ' نہ
تاجر
اور ھنر مند تھے۔ یوپی ' سی پی سے زیادہ تر دانشور اور مذھبی ورکر ' صحافی اور سماجی ورکر ' سیاستدان
اور سیاسی ورکر ' فوجی افسر اور سپاھی ' سول افسر اور کلرک ' وکیل اور منشی ھی پاکستان آئے تھے۔ پاکستان کے قیام سے لیکر اب تک
دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء ' بریلوی مدرسوں اور علیگڑہ یونیورسٹی
میں پرورش و تربیت پانے والے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانیوں اور ان کی اولادوں نے اپنے "بیانیہ" کے مطابق پاکستان کو چلایا۔
یوپی
' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانیوں کا "بیانیہ" تھا کہ؛
پاکستانی ایک قوم ھیں۔ نہ صرف انکا مذھب ایک ھے بلکہ انکی زبان بھی ایک ھی ھے '
انکی ثقافت بھی ایک ھی ھے اور انکا سیاسی مفاد بھی ایک ھی ھیں۔ بلاشبہ یہ ایک مذھب
انکا دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والا اسلامی فلسفہ رھا۔ ایک زبان انکی اردو
زبان رھی۔ ایک ثقافت انکی گنگا جمنا کی ثقافت رھی اور ایک سیاسی مفاد انکا یوپی '
سی پی کے اردو بولنے والے مسلمانوں کی سماجی ' سیاسی ' انتظامی ' معاشی برتری رھا۔
ایک
ھی مذھب ھونے کے باوجود پاکستان کی پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ ' براھوئی '
ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' کوھستانی ' گجراتی '
راجستھانی قومیں دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والے اسلامی فلسفہ سے ھٹ کر مختلف
مذھبی نقطہ نظر رکھتی ھیں۔ انکی زبانیں الگ الگ ھیں۔ انکی ثقافتیں الگ الگ ھیں۔
انکی اپنی اپنی انفرادی تاریخ ھے۔ انکی اپنی اپنی منفرد قومی شناختیں ھیں اور انکے
اپنے اپنے سماجی ' سیاسی ' انتظامی ' معاشی مفادات ھیں۔
یوپی
' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانیوں کے "بیانیہ" کو مسترد
کرکے مشرقی پاکستان کے بنگالیوں نے تو 1971 میں ھی پاکستان سے علیحدگی اختیار کرکے
بنگلہ دیش کے نام سے آزاد ملک بنا لیا تھا۔ لیکن پاکستان میں اس وقت یوپی ' سی پی
کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانیوں کی اولادوں کی سب سے بڑی آبادی کراچی میں ھے اور یوپی
' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانیوں کی اولادوں میں سے دانشوروں اور مذھبی ورکروں ' صحافیوں اور سماجی ورکروں ' سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں ' فوجی افسروں اور سپاھیوں ' سول افسروں اور کلرکوں ' وکیلوں اور منشیوں کے ذریعے اور انکے "بیانیہ" کے مطابق پاکستان تو کیا کراچی
کے سیاسی اور حکومتی معاملات چلانا بھی ممکن نہیں رھا۔
جبکہ
پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی '
چترالی ' سواتی ' کوھستانی ' گجراتی ' راجستھانی قوموں کے دانشوروں اور مذھبی ورکروں ' صحافیوں اور سماجی ورکروں ' سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں ' فوجی افسروں اور سپاھیوں ' سول افسروں اور کلرکوں ' وکیلوں اور منشیوں کے پاس اب تک پاکستان کے سیاسی اور حکومتی معاملات
چلانے کے لیے "بیانیہ" نہیں ھے۔ اس لیے "بیانیہ" کے مطابق باقاعدہ پرورش و تربیت بھی نہیں ھے۔ اس لیے
پاکستان کو اب کس "بیانیہ" کے مطابق چلایا جائے گا؟ کیا "بیانیہ"
کے بغیر کسی ملک کو چلایا جاسکتا ھے؟ کیا "بیانیہ" کے بغیر پاکستان کو
چلانے سے سماجی انتشار ' سیاسی عدمِ استحکام ' انتظامی بحران ' معاشی مشکلات میں
اضافہ نہیں ھوتا جا رھا؟
No comments:
Post a Comment