Friday, 29 March 2019

پنجابی ' پٹھان ' ھندوستانی مھاجر اشرافیہ کے کھلاڑیوں کے کھیل کا جائزہ

پاکستان کے قیام سے لیکر 1990 میں پہلی بار نواز شریف کے وزیرِ اعظم بننے تک پاکستان کے اداروں پر تسلط ھندوستانی مھاجروں اور پٹھانوں کی اشرافیہ کے کھلاڑیوں کا رھا۔ سندھیوں اور بلوچوں کی اشرافیہ کے کھلاڑیوں کو تو اب بھی پاکستان کے اداروں میں دسترس حاصل نہیں ھے۔ جبکہ پاکستان کے قیام سے لیکر پنجابیوں کی اشرافیہ کے کھلاڑیوں کی پاکستان کے اداروں میں حیثیت ثانوی رھی۔

پاکستان کی فوج کا پہلا پنجابی سربراہ پاکستان کے قیام کے 28 سال بعد 1975 میں بننے میں کامیاب ھوسکا۔ اس کے علاوہ پاکستان کے اداروں میں پالیسی بنانے کا کام تو اب بھی ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑی انجام دے رھے ھیں اور انکے ساتھ ان پنجابیوں کو شامل کردیا جاتا ھے جن کی نظریاتی تربیت ھندوستانی مھاجروں کے ھاتھوں کروائی گئی ھوتی ھے۔ وہ پنجابی جسمانی طور پر تو پنجابی ھوتے ھیں لیکن ذھنی طور پر "اترپردیشی" ھوتے ھیں۔

ذالفقار علی بھٹو ' جنرل ضیاء الحق ' محمد خان جونیجو ھی وہ تین افراد تھے جن کو پاکستان کے اداروں میں موجود ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں کی مرضی و منشا کے برعکس پاکستان پر حکومت کرنے کا موقع ملا لیکن وہ بھی پاکستان کے اداروں پر سے ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں کا کنٹرول ختم نہ کرسکے تھے۔

نواز شریف کے پاکستان میں قومی سطح کے پہلے پنجابی سیاستدان کے طور پر 1990 میں سامنے آنے اور پاکستان کا وزیرِ اعظم بننے کے بعد ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں نے نواز شریف کو اپنے مفادات کے لیے خطرے کے طور پر دیکھنا شروع کردیا تھا۔ لہٰذا نواز شریف کے دشمن پاکستان کے ادارے نہیں بلکہ پاکستان کے اداروں میں موجود ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑی تھے۔ اس لیے؛

نواز شریف کو 1993 میں پاکستان کے پٹھان صدر غلام اسحاق خان اور پٹھان چیف آف آرمی اسٹاف وحید کاکڑ نے وزارتِ عظمیٰ سے نکالا۔

نواز شریف کو 1999 میں ھندوستانی مھاجر چیف آف آرمی اسٹاف پرویز مشرف نے وزارتِ عظمیٰ سے نکالا اور جیل پہنچایا۔

نواز شریف کو 2017 میں سابق ھندوستانی مھاجر چیف آف آرمی اسٹاف پرویز مشرف اور پٹھان عمران خان نے باھمی سازشیں کرکے عدالت کے ذریعے وزارتِ عظمیٰ سے نکلوایا اور 2018 میں جیل پہنچایا۔

ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں کو پنجابی نواز شریف کو جیل پہنچانے کی شدید ضرورت اور پٹھان عمران خان کو وزیرِ اعظم بنانے کا بہت شوق تھا۔ مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں نے قومی مفاد کو بنیاد بنا کر اداروں کو استعمال کرکے جبکہ عوام میں پنجابی نواز شریف کو چور قرار دے کر اور نواز شریف کی گھٹیا طریقے سے تذلیل اور توھین کرکے نواز شریف کی کھٹیا کھڑی کی اور نواز شریف کو جیل پہنچایا۔ سندھی نزاد بلوچ آصف زرداری بھی پنجابی نواز شریف کی کھٹیا کھڑی کرنے کے کھیل کے وقت مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں کے شانہ بشانہ رھا۔

ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں کے نواز شریف کی کھٹیا کھڑی کرنے کے کھیل کے وقت پنجابی اشرافیہ کے کھلاڑی خاموش رھے۔ کیونکہ پنجابی نواز شریف کی حمایت یا پٹھان عمران خان کی مخالفت کی وجہ سے ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں کے اور پنجابی اشرافیہ کے کھلاڑیوں کے درمیان صورتحال دست و گریبان والی ھوجانی تھی۔ جبکہ پنجابی نواز شریف کی کھٹیا کھڑی کرنے کے کھیل کے وقت چونکہ سندھی نزاد بلوچ آصف زرداری بھی مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں کے شانہ بشانہ تھا۔ اس لیے پنجابی اشرافیہ کے کھلاڑیوں کی ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ سندھیوں اور بلوچوں سے بھی محاذ آرائی شروع ھوجانی تھی۔

پنجابی نواز شریف کی کھٹیا کھڑی کرنے کے بعد پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں کو تو نہ صرف پاکستان کی وفاقی حکومت جبکہ خیبر پختونخواہ اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں پر بھی دسترس حاصل ھوگئی لیکن سندھ کا اقتدار سندھی نزاد بلوچ آصف زرداری کی دسترس میں چلا گیا۔ ھندوستانی مھاجر اشرافیہ کے کھلاڑی چونکہ سندھ پر اپنی بالادستی قائم کرنا چاھتے ھیں لیکن پاکستان کا صدر اور سندھ کا گورنر ھندوستانی مھاجر اشرافیہ کے کھلاڑیوں کے ھونے کے باوجود بھی ھندوستانی مھاجر اشرافیہ کے کھلاڑی اٹھارویں آئینی ترمیم کی وجہ سے صوبوں کو اختیارات کا آئینی تحفظ حاصل ھونے کی بنا پر سندھ پر اپنی بالادستی قائم نہیں کرسکتے۔ اس لیے جس طرح پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں نے نواز شریف کی کھٹیا کھڑی کرکے پاکستان کی وفاقی حکومت اور پنجاب کی صوبائی حکومت پر دسترس حاصل کی۔ ویسے ھی ھندوستانی مھاجر اشرافیہ کے کھلاڑی اب سندھی نزاد بلوچ آصف زرداری کی کھٹیا کھڑی کرکے سندھ پر اپنی دسترس قائم کرنا چاھتے ھیں۔

پاکستان کے اداروں پر پٹھان اور ھندوستانی مھاجر اشرافیہ کے کھلاڑیوں کا تو کنٹرول ھے لیکن سندھیوں اور بلوچوں کی اشرافیہ کے کھلاڑیوں کو پاکستان کے اداروں میں دسترس حاصل نہیں ھے۔ پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں کا اس وقت چونکہ پنجابی اشرافیہ کے کھلاڑیوں سے مقابلہ ھے۔ اس لیے پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں کو ھندوستانی مھاجر اشرافیہ کے کھلاڑیوں کی حمایت سے محروم ھونے کی صورت میں پنجابی اشرافیہ کے کھلاڑیوں سے تنہا مقابلہ کرنا پڑے گا جو کہ وہ کر نہیں سکتے۔

دوسری طرف پاکستان کے ریاستی اداروں کے نواز شریف کی پاکستان کے لیے بنائی گئی قومی اور بین الاقوامی پالیسی پر عمل کرنے کے لیے مجبور ھونے کی وجہ سے جبکہ پاکستان کے لیے سیاسی طور پر فائدہ مند قومی اور بین الاقوامی کھلاڑیوں کے ساتھ نواز شریف کے دیرینہ سیاسی رابطے ھونے کی وجہ سے پاکستان کے قومی مفاد کی خاطر پاکستان کے لیے سیاسی طور پر فائدہ مند قومی اور بین الاقوامی کھلاڑیوں کے ساتھ نواز شریف کے ذریعے سیاسی رابطے برقرار رکھنے کے لیے نواز شریف کو جیل سے نکالنا پڑا ھے۔

پاکستان کی اس قومی اور بین الاقوامی صورتحال کے تناظر میں پٹھان اور مھاجر اشرافیہ کے کھلاڑی اب سندھی نزاد بلوچ آصف زرداری کی کھٹیا کھڑی کرکے ھندوستانی مھاجر اشرافیہ کے کھلاڑیوں کی سندھ پر دسترس قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ تاکہ پنجاب پر سے اگر پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں کا تسلط ختم بھی ھوجائے تو خیبرپختونخواہ پر پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں اور سندھ پر مھاجر اشرافیہ کے کھلاڑیوں کا تسلط ھونے کی وجہ سے پٹھان اور مھاجر اشرافیہ کے کھلاڑی پاکستان کی وفاقی حکومت پر اپنا تسلط برقرار رکھ سکیں یا پنجابی اشرافیہ کے کھلاڑیوں سے مقابلہ کرنے کے بجائے مفاھمت کا راستہ نکال سکیں۔ اس لیے سندھی نزاد بلوچ آصف زرداری کی کھٹیا کھڑی ھونا اب یقینی ھوچکا ھے۔

Friday, 15 March 2019

پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر "بھارت" کے ھاتھوں "قربانی کا بکرا" بننے سے بچیں


چیئرمین جوائینٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے اپریل 2018 میں بتایا تھا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی "را" نے 2015 سے پاکستان میں سی ۔ پیک منصوبوں کو ختم کرنے کے لئے بھی 500 ملین ڈالر سے زائد کی رقم سے خصوصی طور پر ایک نیا سیل قائم کیا ھوا ھے۔ بھارت چونکہ عرصہ دراز سے پاکستان میں "جسمانی دھشت گردی" کے علاوہ "سیاسی پراکسی" کے ذریعے "دانشورانہ دھشت گردی" میں بھی ملوث ھے۔ اس لیے سوال اٹھتا ھے کہ؛ پاکستان کی فوج نے "پاکستان میں بھارت کی جسمانی دھشت گردی" کے خلاف تو کارروائی کرنے کے لئے آپریشن شروع کیا ھوا ھے۔ لیکن پاکستان کی حکومت ' پاکستان کی فوج ' آئی ایس آئی ' ایم آئی ' آئی بی نے بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کی پاکستان میں "سیاسی پراکسی" کے ذریعے "دانشورانہ دھشت گردی" کا مقابلہ کرنے کے لئے کیا اقدامات کیے ھیں؟

پاکستان کی 85٪ آبادی پنجابی ' ھندکو ' براھوئی ' سماٹ ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی امن پسند ' محبِ وطن اور محنت کش ھیں۔ لیکن پاکستان کی 15٪ آبادی افغانی نزاد پٹھان ' کردستانی نزاد بلوچ ' یوپی ‘ سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کا کام ھندکو ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' براھوئی ' سماٹ  ' گجراتی ' راجستھانی کو اپنے سیاسی ' سماجی اور معاشی تسلط میں رکھنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خلاف سازشیں کرکے پنجاب اور پنجابیوں کو بلیک میل کرتے رھنا بن چکا ھے۔ پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے ' پنجاب اور پنجابیوں کو بلیک میل کرنے کے لیے ھی افغانی نزاد پٹھان پختونستان ' کردستانی نزاد بلوچ آزاد بلوچستان' یوپی ‘ سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر جناح پور کی سازشیں کرتے رھتے ھیں اور پاکستان کا سماجی ' سیاسی ' معاشی اور انتظامی ماحول خراب کرتے رھتے ھیں۔ پاکستان کی فوج کا آپریشن ردالفساد بھی زیادہ تر ان ھی علاقوں میں ھو رھا ھے جہاں یہ افغانی نزاد پٹھان ' کردستانی نزاد بلوچ ' یوپی ‘ سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر رھتے ھیں۔ مطلب یہ کہ پاکستان کی فوج کا آپریشن ردالفساد پاکستان کی 85٪ آبادی پنجابی ' ھندکو ' براھوئی ' سماٹ ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی کے خلاف نہیں ھورھا بلکہ پاکستان کی 15٪ آبادی افغانی نزاد پٹھان ' کردستانی نزاد بلوچ ' یوپی ‘ سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کے خلاف ھورھا ھے۔

پاکستان کے قائم ھوتے کے بعد سے افغانی نزاد پٹھانوں کو پٹھان غفار خان ' کردستانی نزاد بلوچوں کو بلوچ خیر بخش مری ' 1972 سے بلوچ سندھیوں اور عربی نزاد سندھیوں کو عربی نزاد جی - ایم سید ' 1986 سے یوپی ‘ سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کو مھاجر الطاف حسین نے بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کی پاکستان میں " سیاسی پراکسی" کا کھیل ' کھیل کر "دانشورانہ دھشت گردی" کے ذریعے گمراہ کرکے ' انکی سوچ کو تباہ کردیا تھا۔ اس لیے کراچی کی یوپی ‘ سی پی کی اردو بولنے والی ھندوستانی مہاجر اشرافیہ ' سندھ کے دیہی علاقے اور پنجاب کے جنوبی علاقے کی عربی نزاد اشرافیہ ‘ بلوچستان کے بلوچ علاقے ‘ سندھ کے دیہی علاقے اور پنجاب کے جنوبی علاقے کی کردستانی نزاد بلوچ اشرافیہ ‘ خیبر پختونخوا ' بلوچستان کے پشتون علاقے ' شمالی اور وسطی پنجاب کی افغانی نزاد پٹھان اشرافیہ کو اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے دشمنوں سے سازباز کرکے پاکستان دشمنی کے اقدامات کرنے میں آسانی رھتی ھے اور اس نے اپنا وطیرہ بنائے رکھا کہ ھر وقت پنجاب ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج کے الفاظ ادا کرکے پنجاب اور پنجابی کو گالیاں دی جائیں۔ الزام تراشیاں کی جائیں اور اپنے اپنے علاقے میں رھنے والے پنجابیوں کے ساتھ ظلم اور زیادتی کی جائے۔ تاکہ ایک تو پنجاب اور پنجابی قوم پر الزامات لگا کر ' تنقید کرکے ' توھین کرکے ' گالیاں دے کر ' گندے حربوں کے ذریعے پنجاب اور پنجابی قوم کو بلیک میل کیا جائے۔ دوسرا ھندکو ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' براھوئی ' سماٹ  ' گجراتی ' راجستھانی پر اپنا سماجی ' سیاسی اور معاشی تسلط برقرار رکھا جائے۔ تیسرا پاکستان کے سماجی ' سیاسی ' معاشی اور انتظامی استحکام کے خلاف سازشیں کرکے پاکستان کے دشمنوں سے ذاتی فوائد حاصل کیے جائیں۔ لیکن پنجاب ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج اب تک بھارت کی "سیاسی پراکسی" کے ذریعے پاکستان میں "دانشورانہ دھشت گردی" کا سیاسی طور پر تدارک کرنے میں ناکام رھی ھے۔ جبکہ انتظامی اقدامات سے بھارت کی سازشوں اور پاکستان دشمن سرگرمیوں کو عارضی طور پر روکا تو جاتا رھا لیکن ختم نہیں کیا جاسکا۔

بھارت میں اتنی ھمت نہیں ھے کہ پاکستان کے ساتھ سرحدی جنگ کرسکے۔ کیونکہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت اور دنیا کی چھٹی بڑی فوجی طاقت ھے۔ جبکہ پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی ھونے کی وجہ سے پاکستان کی فوج کا بڑا حصہ بھی پنجابی ھے۔ ھزاروں سالوں سے پنجابی ایک جنگجو قوم ھے اور جنگ کرنے سے گھبراتی نہیں ھے۔ جبکہ بھارت اور پاکستان کی سرحدی جنگ ھونے کی صورت میں جنگ پاکستانی اور بھارتی پنجاب کے علاقے میں ھونی ھے۔ چونکہ پنجابی قوم پرستی روز بروز بڑھتی جارھی ھے اور بھارت کے قبضے سے سکھ پنجابی اور ھندو پنجابی اب آزاد ھونا چاھتے ھیں۔ اس لیے اب بھارت اور پاکستان کی جنگ میں بھارت کے سکھ پنجابیوں اور ھندو پنجابیوں نے بھی پاکستان کے پنجابی اکثریتی ملک ھونے کی وجہ سے بھارت کے بجائے پاکستان کا ساتھ دینا ھے۔ جبکہ بھارت کی فوج میں بھی سکھ پنجابیوں اور ھندو پنجابیوں کی اکثریت ھے۔

بھارت کے پاکستان کے ساتھ سرحدی جنگ نہ کرسکنے کی وجہ سے بھارت نے پاکستان کے اندر اپنی پہلے سے جاری پراکسی جنگ کو اب بڑھا دینا ھے۔ اس لیے پاکستان کو بھی سرحدی جنگ کی تیاری کے ساتھ ساتھ بھارت کی پاکستان کے اندر جاری بھارتی پراکسی جنگ کے کھلاڑیوں کو ختم کرنا ھوگا اور بھارت کے اندر پراکسی جنگ کرنا پڑے گی۔

پاکستان تو پنجابی ' سندھی ' ھندکو اور براھوئی بولنے والوں کا ملک ھے اور پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی ھے۔ لیکن بھارت تو ھندی ' تیلگو ' تامل ' ملایالم ' مراٹھی ' گجراتی ' راجستھانی ' کنڑا ' اڑیہ ' آسامی ' بھوجپوری قوموں اور ھندو بنگالیوں ' ھندو پنجابیوں ' سکھ پنجابیوں کا علاقہ ھے ' جہاں 25٪ آبادی ھندی ھے لیکن 75٪ آبادی ھندی نہیں ھے۔

پاکستان کی 60٪ آبادی ھونے کی وجہ سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں تو پنجابیوں کی ھی اکثریت ھونی تھی۔ لیکن بھارت میں ھندوستانیوں (اترپردیش کے ھندی بولنے والے گنگا جمنا تہذیب و ثقافت والے) نے بھارت کی 75٪ آبادی کو ھندی اسٹیبلشمنٹ اور ھندی زبان کے ذریعے مغلوب کیا ھوا ھے۔

بھارت کی ھندی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان میں پراکسی کرکے ' پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو پنجابی اسٹیبلشمنٹ قرار دلوا کر ' پنجاب کو غاصب قرار دلوا کر ' پاکستان کو پنجابستان قرار دلوا کر ' پاکستان ' پنجاب اور پنجابی قوم کے خلاف نفرت کا ماحول قائم کرواکر ' پاکستان کے اندر ' افغانی بیک گراؤنڈ پشتو بولنے والوں کو پشتونستان بنانے کی راہ پر ڈالنے کی سازش شروع کی ھوئی ھے۔ کردستانی بیک گراؤنڈ بلوچی بولنے والوں کو آزاد بلوچستان بنانے کی راہ پر ڈالنے کی سازش شروع کی ھوئی ھے۔ عربی نزاد اور بلوچ نزاد سندھیوں کو سندھودیش بنانے کی راہ پر ڈالنے کی سازش شروع کی ھوئی ھے۔ یوپی ' سی پی کے ھندوستانی بیک گراؤنڈ اردو بولنے والے مھاجروں کو جناح پور بنانے کی راہ پر ڈالنے کی سازش شروع کی ھوئی ھے۔

بھارت کی ھندی اسٹیبلشمنٹ ' اس طرح کی سازش کے ذریعے ' ماضی میں لسانی پراکسی کرکے ' مشرقی پاکستان میں ' 1971 میں بنگالی قوم کو پاکستان سے الگ کرنے میں کامیاب ھوچکی ھے۔ لیکن 1971 میں نہ پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ پنجابی کے پاس تھی اور نہ ملٹری لیڈرشپ۔

1971 میں پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ بنگالی مجیب الرحمٰن اور سندھی بھٹو کے پاس تھی۔ جبکہ پاکستان کی ملٹری لیڈرشپ میں کلیدی قردار اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر جرنیلوں اور پٹھان جرنیلوں کا تھا۔ جبکہ پاکستان کا سربراہ بھی پٹھان یحیٰ خان تھا۔

پنجابی کے پاس تو پاکستان کی ملٹری لیڈرشپ 1975 میں جنرل ضیاءالحق کے پاکستان کی فوج کے پہلے پنجابی چیف آف آرمی اسٹاف بننے کے بعد آئی۔ جبکہ پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ 1988 میں نوازشریف کے پاکستان مسلم لیگ کا صدر بننے کے بعد 1990 میں پاکستان کا وزیرِاعظم بننے کے بعد آئی۔

جب 1971 میں بھارت کی ھندی اسٹیبلشمنٹ نے بنگالی قوم کو پاکستان سے الگ کرنے کی لسانی پراکسی شروع کی تو اس کے جواب میں پاکستان کو بھی مشرقی پنجاب اور کشمیر میں لسانی پراکسی کرنی چاھیئے تھی۔ لیکن اس وقت پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ اور ملٹری لیڈرشپ پنجابی کے پاس نہیں تھی۔ جبکہ پاکستان کی ملٹری لیڈرشپ میں موجود اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر جرنیلوں ' پٹھان جرنیلوں اور مغربی پاکستان کے سیاسی لیڈر ' سندھی بھٹو نے بھارت میں لسانی پراکسی کرنے سے گریز کیا۔ کیونکہ بھارت میں لسانی پراکسی کرکے بھارتی پنجاب اور کشمیر کو بھارت سے الگ کرکے پاکستان میں شامل کرنے سے پاکستان میں پنجابیوں کی آبادی کے 60٪ سے بڑہ کر 85٪ ھوجانے کی وجہ سے ' وہ غیر پنجابی ھونے کی بنا پر خوفزدہ تھے۔

بھارت کی ھندی اسٹیبلشمنٹ کی پراکسی کے ذریعے پاکستان میں پشتونستان ' آزاد بلوچستان ' سندھودیش اور جناح پور بنانے کی سازش اب تک ناکام رھی ھے۔ لیکن اب اس سازش کو جڑ سے ھی ختم کرنا ضروری ھے۔ جبکہ بھارت کی ھندی اسٹیبلشمنٹ کو سبق سکھانے کے لیے بھارت کے اندر پشتونستان کی پراکسی کے بدلے میں خالصتان ' آزاد بلوچستان کی پراکسی کے بدلے میں کشمیر ' سندھودیش کی پراکسی کے بدلے میں ھریانستان ' جناح پور کی پراکسی کے بدلے میں تامل لینڈ اور مشرقی پاکستان میں پراکسی کرکے 1971 میں مسلمان بنگالیوں کو پاکستان سے الگ کرنے کے بدلے میں ھندو بنگالیوں کا آزاد ملک بنانے کے لیے اب پاکستان کو بھرپور پراکسی جنگ کرنا ھوگی۔ جبکہ تیلگو قوم ' ملایالم قوم ' مراٹھی قوم ' گجراتی قوم ' راجستھانی قوم ' کنڑا قوم ' اڑیہ قوم ' آسامی قوم ' بھوجپوری قوم کو بھی اترپردیش کے ھندی بولنے والے ' گنگا جمنا تہذیب و ثقافت والے ھندوستانیوں کی غلامی سے نجات دلوانی ھوگی۔

جبکہ پاکستان کے اندر جاری پراکسی جنگ کے کھلاڑیوں کو ختم کرنے کے لیے؛

1۔ پاکستان کے اندر بھارت کے ایجنٹ بن کر ' بھارت کی پراکسی جنگ کی حکمت عمل کے مطابق بھارت کی پراکسی جنگ کے کھلاڑیوں کو پالیسی بنا کر دینے والے پاکستان کی فارن افیئرس ' ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سول بیوروکریسی سے ریٹائرڈ افسروں کا ' ملک دشمنی کا جرم کرنے کی وجہ سے جنگی بنیادوں پر خاتمہ کردیا جائے۔

2۔ پاکستان کے اندر بھارت کے ایجنٹ بن کر ' بھارت کی پراکسی جنگ کی حکمت عمل کے مطابق بھارت کی پراکسی جنگ کے کھلاڑیوں کی سرپرستی کرنے والے پاکستان کی فارن افیئرس ' ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سول بیوروکریسی میں موجود افسروں کا ' ملک دشمنی کا جرم کرنے کی وجہ سے جنگی بنیادوں پر خاتمہ کردیا جائے۔

3۔ پاکستان کے اندر بھارت کے ایجنٹ بن کر ' بھارت کی پراکسی جنگ کی حکمت عمل کے مطابق سیاسی انتشار پھیلانے والے سیاسی رھنماؤں کا ' ملک دشمنی کا جرم کرنے کی وجہ سے جنگی بنیادوں پر خاتمہ کردیا جائے۔

4۔ پاکستان کے اندر بھارت کے ایجنٹ بن کر ' بھارت کی پراکسی جنگ کی حکمت عمل کے مطابق سماجی انتشار پھیلانے والے سماجی رھنماؤں کا ' ملک دشمنی کا جرم کرنے کی وجہ سے جنگی بنیادوں پر خاتمہ کردیا جائے۔

5۔ پاکستان کے اندر بھارت کے ایجنٹ بن کر ' بھارت کی پراکسی جنگ کی حکمت عمل کے مطابق انتشار پھیلانے والوں کو مظلوم بناکر ایڈورٹائز کرنے کی سہولتیں فراھم کرنے والے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کے کھلاڑیوں کا ' ملک دشمنی کا جرم کرنے کی وجہ سے جنگی بنیادوں پر خاتمہ کردیا جائے۔

6۔ پاکستان کے اندر بھارت کے ایجنٹ بن کر ' بھارت کی پراکسی جنگ کی حکمت عمل کے مطابق پروپگنڈہ کرکے انتشار پھیلانے والے ایجوکیشنل انسٹیٹیوشنس اور اسکلڈ پروفیشنس کے کھلاڑیوں کا ' ملک دشمنی کا جرم کرنے کی وجہ سے جنگی بنیادوں پر خاتمہ کردیا جائے۔

7۔ پاکستان کے اندر بھارت کے ایجنٹ بن کر ' بھارت کی پراکسی جنگ کی حکمت عمل کے مطابق جرائم کرکے انتشار پھیلانے والے جرائم پیشہ اور غیر قانونی کاروبار کرنے والے کھلاڑیوں کا ' ملک دشمنی کا جرم کرنے کی وجہ سے جنگی بنیادوں پر خاتمہ کردیا جائے۔

Thursday, 14 March 2019

پاکستان کے اداروں میں اشرافیہ کے کھلاڑیوں کے کھیل کا جائزہ

پاکستان کے قیام سے لیکر 1990 میں پہلی بار نواز شریف کے وزیرِ اعظم بننے تک پاکستان کے اداروں پر تسلط ھندوستانی مھاجروں اور پٹھانوں کی اشرافیہ کے کھلاڑیوں کا رھا۔ سندھیوں اور بلوچوں کی اشرافیہ کے کھلاڑیوں کو تو اب بھی پاکستان کے اداروں میں دسترس حاصل نہیں ھے۔ جبکہ پاکستان کے قیام سے لیکر پنجابیوں کی اشرافیہ کے کھلاڑیوں کی پاکستان کے اداروں میں حیثیت ثانوی رھی۔

پاکستان کی فوج کا پہلا پنجابی سربراہ پاکستان کے قیام کے 28 سال بعد 1975 میں بننے میں کامیاب ھوسکا۔ اس کے علاوہ پاکستان کے اداروں میں پالیسی بنانے کا کام تو اب بھی ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑی انجام دے رھے ھیں اور انکے ساتھ ان پنجابیوں کو شامل کردیا جاتا ھے جن کی نظریاتی تربیت ھندوستانی مھاجروں کے ھاتھوں کروائی گئی ھوتی ھے۔ وہ پنجابی جسمانی طور پر تو پنجابی ھوتے ھیں لیکن ذھنی طور پر "اترپردیشی" ھوتے ھیں۔

ذالفقار علی بھٹو ' جنرل ضیاء الحق ' محمد خان جونیجو ھی وہ تین افراد تھے جن کو پاکستان کے اداروں میں موجود ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں کی مرضی و منشا کے برعکس پاکستان پر حکومت کرنے کا موقع ملا لیکن وہ بھی پاکستان کے اداروں پر سے ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں کا کنٹرول ختم نہ کرسکے تھے۔

نواز شریف کے پاکستان میں قومی سطح کے پہلے پنجابی سیاستدان کے طور پر 1990 میں سامنے آنے اور پاکستان کا وزیرِ اعظم بننے کے بعد ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں نے نواز شریف کو اپنے مفادات کے لیے خطرے کے طور پر دیکھنا شروع کردیا تھا۔ لہٰذا نواز شریف کے دشمن پاکستان کے ادارے نہیں بلکہ پاکستان کے اداروں میں موجود ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑی تھے۔ اس لیے؛

نواز شریف کو 1993 میں پاکستان کے پٹھان صدر غلام اسحاق خان اور پٹھان چیف آف آرمی اسٹاف وحید کاکڑ نے وزارتِ عظمیٰ سے نکالا۔

نواز شریف کو 1999 میں ھندوستانی مھاجر چیف آف آرمی اسٹاف پرویز مشرف نے وزارتِ عظمیٰ سے نکالا اور جیل پہنچایا۔

نواز شریف کو 2017 میں سابق ھندوستانی مھاجر چیف آف آرمی اسٹاف پرویز مشرف اور پٹھان عمران خان نے باھمی سازشیں کرکے عدالت کے ذریعے وزارتِ عظمیٰ سے نکلوایا اور 2018 میں جیل پہنچایا۔

ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں کو پنجابی نواز شریف کو جیل پہنچانے کی شدید ضرورت اور پٹھان عمران خان کو وزیرِ اعظم بنانے کا بہت شوق تھا۔ مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں نے قومی مفاد کو بنیاد بنا کر اداروں کو استعمال کرکے پنجابی نواز شریف کی کھٹیا کھڑی کی اور نواز شریف کو جیل پہنچایا۔ سندھی نزاد بلوچ آصف زرداری بھی پنجابی نواز شریف کی کھٹیا کھڑی کرنے کے کھیل کے وقت مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں  کے شانہ بشانہ رھا۔

ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں کے نواز شریف کی کھٹیا کھڑی کرنے کے کھیل کے وقت پنجابی اشرافیہ کے کھلاڑی خاموش رھے۔ کیونکہ پنجابی نواز شریف کی حمایت یا پٹھان عمران خان کی مخالفت کی وجہ سے ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں کے اور پنجابی اشرافیہ کے کھلاڑیوں کے درمیان صورتحال دست و گریبان والی ھوجانی تھی۔ جبکہ پنجابی نواز شریف کی کھٹیا کھڑی کرنے کے کھیل کے وقت چونکہ سندھی نزاد بلوچ آصف زرداری بھی مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں  کے شانہ بشانہ تھا۔ اس لیے پنجابی اشرافیہ کے کھلاڑیوں کی ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ سندھیوں اور بلوچوں سے بھی محاذ آرائی شروع ھوجانی تھی۔

پنجابی نواز شریف کی کھٹیا کھڑی کرنے کے بعد پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں کو تو نہ صرف پاکستان کی وفاقی حکومت جبکہ خیبر پختونخواہ اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں پر بھی دسترس حاصل ھوگئی لیکن سندھ کا اقتدار سندھی نزاد بلوچ آصف زرداری کی دسترس میں چلا گیا۔ ھندوستانی مھاجر اشرافیہ کے کھلاڑی چونکہ سندھ پر اپنی بالادستی قائم کرنا چاھتے ھیں لیکن پاکستان کا صدر اور سندھ کا گورنر ھندوستانی مھاجر اشرافیہ کے کھلاڑیوں کے ھونے کے باوجود بھی اٹھارویں آئینی ترمیم کی وجہ سے صوبوں کو اختیارات کا آئینی تحفظ حاصل ھونے کی بنا پر سندھ پر اپنی بالادستی قائم نہیں کرسکتے۔ اس لیے جس طرح پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں نے نواز شریف کی کھٹیا کھڑی کرکے پاکستان کی وفاقی حکومت اور پنجاب کی صوبائی حکومت پر دسترس حاصل کی۔ ویسے ھی ھندوستانی مھاجر اشرافیہ کے کھلاڑی سندھی نزاد بلوچ آصف زرداری کی کھٹیا کھڑی کرکے سندھ پر اپنی دسترس قائم کرنا چاھتے ھیں۔

پاکستان کے اداروں پر ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں کا تو کنٹرول ھے لیکن سندھیوں اور بلوچوں کی اشرافیہ کے کھلاڑیوں کو پاکستان کے اداروں میں دسترس حاصل نہیں ھے۔ پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں کا اس وقت چونکہ پنجابی اشرافیہ کے کھلاڑیوں سے مقابلہ ھے۔ اس لیے پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں کو ھندوستانی مھاجر اشرافیہ کے کھلاڑیوں کی حمایت سے محروم ھونے کی صورت میں پنجابی اشرافیہ کے کھلاڑیوں سے تنہا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف پاکستان کے لیے بنائی گئی نواز شریف کی قومی اور بین الاقوامی پالیسی پر عمل کرنے کے لیے مجبور ھونے کی وجہ سے قومی مفاد کے لیے نواز شریف کو جیل سے نکالنا پڑے گا۔ لہٰذا مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑی سندھی نزاد بلوچ آصف زرداری کی کھٹیا کھڑی کرکے ھندوستانی مھاجر اشرافیہ کے کھلاڑیوں کی سندھ پر دسترس قائم کرنے کی کوشش کر رھے ھیں۔ تاکہ پنجاب پر سے اگر تسلط ختم بھی ھوجائے تو خیبرپختونخواہ پر پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑیوں اور سندھ پر مھاجر اشرافیہ کے کھلاڑیوں کا تسلط ھونے کی وجہ سے مھاجر اور پٹھان اشرافیہ کے کھلاڑی پاکستان کی وفاقی حکومت پر اپنا تسلط برقرار رکھ سکیں یا پنجابی اشرافیہ کے کھلاڑیوں سے مقابلہ کرنے کے بجائے مفاھمت کا راستہ نکال سکیں۔

Wednesday, 13 March 2019

سندھ میں سماٹ اور پنجابی کی سیاسی ھم آھنگی ضروری ھے۔

سندھ کا علاقہ شہری سندھ اور دیہی سندھ پر مشتمل ھے۔ شہری سندھ پر یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں اور دیہی سندھ پر بلوچ نزاد سندھیوں کی مکمل سیاسی بالادستی تھی۔ لیکن سندھ کی بد امنی ' بدمعاشی ' بھتہ خوری ' دھشتگردی اور ملک دشمن سازشوں کے کھلاڑی ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر پرویز مشرف ' الطاف حسین اور عشرت العباد سندھ کی سیاست سے فارغ ھوچکے ھیں۔ بلکہ گجراتی فاروق ستار ' بہاری مصطفیٰ کمال ' راجستھانی انیس قائم خانی بھی فارغ ھوچکے ھیں۔ اب بلوچ نزاد سندھی آصف زرداری کے فارغ ھونے کا وقت آگیا ھے۔

مھاجروں کا بے تاج بادشاہ بننے کا خواھشمند پرویز مشرف 1۔ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر عشرت العباد کے ٹولے 2۔ گجراتی فاروق ستار کے ٹولے 3۔ بہاری مصطفیٰ کمال کے ٹولے 4۔ راجستھانی انیس قائم خانی کے ٹولے 5۔ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر الطاف حسین کے ٹولے کو جتن کرنے کے باوجود اکٹھا نہ کرسکا۔ جسے مینڈکوں کی "پنج سیری" تولنا ھی کہا جاسکتا تھا۔

سندھ کے شہری علاقوں میں یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر قیادت کے بحران میں مبتلا ھوکر بے اثر اور منتشر ھوچکے ھیں۔ سندھ کے دیہی علاقوں میں بلوچ نزاد سندھی اب قیادت کے بحران میں مبتلا ھوکر بے اثر اور منتشر ھو جائیں گے۔ سماٹ سندھی اب سندھ کی سیاست میں اپنا مقام بنانے اور سندھ کا اقتدار سمبھالنے کی کوشش کرسکتے ھیں۔ جبکہ سندھ کے پنجابی اور پٹھان کا سندھ کی سیاست میں کردار نہ صرف اھمیت اختیار کر جائے گا بلکہ فیصلہ کن حیثیت اختیار کر جائے گا۔

سندھ میں رھنے والے %42 سماٹ سندھی ھیں ' جو کہ سندھ کے اصل باشندے ھیں۔
%19 مھاجر ھیں ' جو یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی ' بہاری ' گجراتی ' راجستھانی اور دکنی ھیں۔
%16 کردستانی نزاد سندھی ھیں ' جو خود کو بلوچ کہلواتے ھیں۔
%10 پنجابی ' %7 پٹھان ' %4 دیگر ھیں۔
%2 عربی نزاد سندھی ھیں ' جو خود کو عباسی ' انصاری ' گیلانی ' جیلانی ' قریشی ' صدیقی وغیرہ کہلواتے ھیں۔

سندھ میں ' سندھ کی مجموعی آبادی کے مطابق تو سندھی پہلے ' مہاجر دوسرے ' پنجابی تیسرے اور پٹھان چوتھے نمبر پر ھیں لیکن کراچی میں مہاجر پہلے ' پنجابی دوسرے ' پٹھان تیسرے اور سندھی چوتھے نمبر پر ھیں جبکہ اندرون سندھ ' سندھی پہلے ' پنجابی دوسرے ' مہاجر تیسرے اور پٹھان چوتھے نمبر پر ھیں۔

سندھ کی دس بڑی برادریوں کا جائزہ لیا جائے تو سندھ 1۔ سماٹ 2۔ پنجابی 3۔ پٹھان 4۔ بروھی 5۔ گجراتی 6۔ راجستھانی 7۔ بہاری 8۔ بلوچ نزاد سندھی 9۔ عربی نزاد سندھی 10۔ یوپی ' سی پی والوں کی برادریوں کا صوبہ ھے۔

سندھ کی سماٹ اور پنجابی برادریوں کی سیاسی ھم آھنگی کی صورت میں سندھ کی 1۔ سماٹ 2۔ پنجابی 3۔ پٹھان 4۔ بروھی 5۔ گجراتی 6۔ راجستھانی برادریوں کے سیاسی طور پر ھم آھنگ ھونے کے امکانات بڑہ جانے ھیں۔ جس سے سندھ کی سیاست میں بے اثر اور منتشر ھوجانے والی یوپی ' سی پی والوں اور بلوچ نزاد سندھیوں کی برادریوں نے سندھ کی سیاست میں مزید بے اثر اور منتشر ھوجانا ھے جبکہ عربی نزاد سندھی اور بہاری برادیوں کی بھی سندھ کی سیاست میں اھمیت اور اثر و رسوخ کم ھوجانا ھے۔

سندھ کی سماٹ اور پنجابی برادریوں کی سیاسی ھم آھنگی نہ ھونے کی صورت میں شہری سندھ میں 1۔ پنجابی 2۔ پٹھان 3۔ گجراتی 4۔ راجستھانی برادریوں کے سیاسی طور پر ھم آھنگ ھونے کے امکانات بڑہ جانے ھیں۔ جبکہ با امر مجبوری بہاری اور یوپی ' سی پی والوں کی برادریوں نے بھی پنجابی ' پٹھان ' گجراتی ' راجستھانی برادریوں کے ساتھ سیاسی مفاھمت کی راہ تلاش کرنی ھے۔ کیونکہ دیہی سندھ میں سماٹ نے تو پہلے کی طرح بے اثر ھی رھنا ھے۔ بروھی نے بھی بے اثر رھنا ھے۔ جبکہ بلوچ نزاد سندھی اور عربی نزاد سندھی نے بھی قیادت کے بحران میں مبتلا ھوکر بے اثر اور منتشر ھو جانا ھے۔ اس لیے شہری سندھ میں 1۔ پنجابی 2۔ پٹھان 3۔ گجراتی 4۔ راجستھانی برادریوں کے سیاسی طور پر ھم آھنگ ھونے کی صورت میں پنجابیوں کے روابط کی وجہ سے پنجاب اور مرکز کے ساتھ شہری سندھ کے سیاسی ' سماجی اور تجارتی روابط مظبوط ھوجانے ھیں اور سندھ کی سیاست میں دیہی سندھ کے بجائے شہری سندھ کی اھمیت مزید بڑہ جانی ھے۔ جبکہ دیہی سندھ سے چند نشستوں پر اپنے اتحادیوں کو منتخب کروا لینے کی صورت میں سندھ کا وزیر اعلی بھی دیہی سندھ کے بجائے شہری سندھ سے بننے لگے گا۔ جس سے شہری و دیہی سندھ کی خلیج نے مزید بڑہ جانا ھے۔

برصفیر میں اسلام کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرنا کس نے شروع کیا؟

برٹش انڈیا کے مسلم اکثریتی صوبوں پنجاب ' سندھ ' بلوچستان ' شمال مغربی فرنٹیئر صوبہ یا سرحد (جسے اب 2010 سے خیبر پختونخواہ کہا جاتا ھے) اور مشرقی بنگال میں مسلمانوں کی طرف سے 1937 کے انتخابات میں جمہوریت کو ایک خطرے کے طور پر نہیں دیکھا گیا تھا۔ لیکن سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمان اپنے صوبوں میں اقلیت میں تھے۔ اس لیے برٹش انڈیا میں جمہوریت کو اپنے لیے نقصاندہ سمجھتے تھے۔ جمہوری انڈیا میں خود کو نقصان سے بچانے کے لیے انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت پر قابض ھونا شروع کردیا اور برٹش انڈیا کو مذھب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی تحریک شروع کردی اور برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک کی تشکیل کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔ دراصل جمہوری انڈیا میں سینٹرل برٹش انڈیا کی مسلمان اشرافیہ کو اپنی نوابی خطرے میں پڑتی دکھائی دینے لگی تھی۔ اسی لیے سینٹرل برٹش انڈیا کی مسلمان اشرافیہ کو معلوم ھوا کہ وہ مسلمان ھیں اور ایک علیحدہ قوم ھیں۔ ورنہ انکے آباؤ اجداد کو 350 سال تک ھندوؤں پر حکمرانی کرنے کے باوجود بھی علیحدہ قوم ھونے کا احساس نہیں ھوا تھا اور نہ ھی 1300 سال تک کے عرصے کے دوران کبھی کسی مسلمان عالم نے مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم قرار دیا تھا۔

سینٹرل برٹش انڈیا کی مسلمان اشرافیہ  کے لیے سب سے مشکل کام یہ تھا کہ مسلم اکثریتی صوبوں کے مسلمانوں کو برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک تشکیل دینے کی حمایت کرنے کے لیے کیسے قائل کیا جائے؟ آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت پر قابض سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں نے برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے اتحاد کو مظبوط اور منظم کرنے کے مشن کی ابتدا کی۔ اس بات کا بھرپور چرچا شروع کیا کہ برٹش انڈیا کے تمام مسلمان ایک قوم ھیں۔ نہ صرف انکا مذھب ایک ھے بلکہ انکی زبان بھی ایک ھی ھے ' انکی ثقافت بھی ایک ھی ھے اور انکا سیاسی مفاد بھی ایک ھی ھیں۔ بلاشبہ یہ ایک مذھب انکا دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والا اسلامی فلسفہ تھا۔ ایک زبان انکی اردو زبان تھی۔ ایک ثقافت انکی گنگا جمنا کی ثقافت تھی اور ایک سیاسی مفاد انکا نئے مسلم ملک میں سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں کو برتری حاصل ھونا تھا۔

ایک ھی مذھب ھونے کے باوجود برٹش انڈیا کے مسلمان دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والے اسلامی فلسفہ سے ھٹ کر مختلف مذھبی نقطہ نظر رکھتے تھے۔ انکی زبانیں الگ الگ تھیں۔ انکی ثقافتیں الگ الگ تھیں۔ انکی اپنی اپنی انفرادی تاریخ تھی۔ انکی اپنی اپنی منفرد قومی شناختیں تھیں اور انکے اپنے اپنے سیاسی مفادات تھے۔ اس لیے تمام مسلم حلقوں میں “دو قومی نظریہ” کو پذیرائی حاصل نہ ھوسکی۔ مثال کے طور پر 1937 کے انتخابات میں “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر مہم کو چلایا گیا لیکن آل انڈیا مسلم لیگ کو تمام مسلم اکثریت کے صوبوں میں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 1937 کے انتخابات میں صرف 4.6 فیصد مسلمانوں نے مسلم لیگ کے لئے ووٹ دیا اور مسلم لیگ نے پنجاب میں 84 نشستوں میں سے صرف 2 ' سندھ میں مسلمانوں کے لئے محفوظ 33 نشستوں میں سے 3 ' بنگال کی 117 نشستوں میں سے 39 اور شمال مغربی فرنٹیئر صوبہ یا سرحد (جسے اب 2010 سے خیبر پختونخواہ کہا جاتا ھے) میں کوئی بھی نشست حاصل نہیں کی۔ اس طرح پاکستان کے قیام سے صرف ایک دھائی پہلے برٹش انڈیا کے مسلمانوں نے تقریبا متفقہ طور پر “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مسلم ملک کے خیال کو مسترد کردیا تھا۔

سال 1940 ء میں آل انڈیا مسلم لیگ نے لاھور میں اپنا سالانہ اجلاس منقعد کیا۔ جہاں نظریات کا اختلاف واضح طور پر نظر آتا تھا۔ سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں نے “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مسلم ملک بنانے کے حامیوں کا ایک گروپ بنایا۔ جبکہ مسلم اکثریت والے صوبوں بنگال ' پنجاب ' سندھ ' سرحد اور بلوچستان کے رھنماؤں نے لسانی ' ثقافتی اور نسلی تحفظ کی حمایت کی بنیاد پر دوسرے گروپ کی تشکیل کی اور 1937 کے انتخابات کے نتائج سے آگاہ کیا۔ مسلم اکثریت والے صوبوں کے رھنماؤں نے سالانہ اجلاس میں اپنی بالا دستی رکھی اور اپنی خود مختاری کی خواھشات کو قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں مسلم اکثریت والے ایک صوبے بنگال کے ایک رھنما فضل الحق کی طرف سے برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مسلم ریاست کے الفاظ کو نظر انداز کرتے ھوئے برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے مستقبل کے لئے ایک قرارداد پیش کی کہ؛ جغرافیائی طور پر ملحق اکائیوں کی علاقائی حدبندی کر کے ان کی آئینی تشکیل اس طرح کی جائے کہ جن علاقوں میں مسلمان عددی طور پر اکثریت میں ھیں ' جیسا کہ ھندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی حصے ' ان کو آزاد ریاستوں میں گروہ بند کر دیا جائےاور اس طرح تشکیل پانے والی یہ اکائیاں مکمل آزاد اور خودمختار ھوں گی۔ ان اکائیوں میں موجود خطوں کے آئین میں اقلیتوں کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذھبی ' ثقافتی ' معاشی ' سیاسی ' انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے مناسب ' مؤثر اور لازمی اقدامات یقینی بنائے جائیں گے اور ھندوستان کے دوسرے حصے جہاں مسلمان اقلیت میں ھیں ' آئین میں ان کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذھبی ' ثقافتی ' معاشی ' سیاسی ' انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے مناسب ' مؤثر اور لازمی اقدامات عمل میں لائے جائیں گے۔ مسلم لیگ نے رسمی طور پر 23 مارچ 1940 کو لاھور میں اس قرارداد کو اپنایا۔ مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رھنما چوھدری خلیق الزماں ' پنجاب سے مولانا ظفر علی خان ' سرحد سے سردار اورنگ زیب 'سندھ سے سر عبداللہ ھارون اور بلوچستان سے قاضی عیسی نے کی۔ قرارداد 23 مارچ کو اختتامی اجلاس میں منظور کی گئی۔

اپریل سن 1941 میں مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قراردادِ لاھور کو جماعت کے آئین میں شامل کر لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ھوئی۔ لیکن اُس وقت بھی ان علاقوں کی واضح نشاندھی نہیں کی گئی تھی ' جن پر مشتمل علیحدہ مسلم مملکتوں کا مطالبہ کیا جارھا تھا۔ پہلی بار پاکستان کے مطالبے کے لیے علاقوں کی نشاندھی 7 اپریل سن 1946 کو دلی کے تین روزہ کنونشن میں کی گئی۔ جس میں مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے مسلم لیگی اراکین نے شرکت کی تھی۔ اس کنونشن میں برطانیہ سے آنے والے کیبنٹ مشن کے وفد کے سامنے مسلم لیگ کا مطالبہ پیش کرنے کے لیے ایک قرارداد منظور کی گئی تھی۔ جس کا مسودہ مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے دو یو پی کے مسلم لیگی اراکین چوھدری خلیق الزماں اور حسن اصفہانی نے تیار کیا تھا۔ اس قراداد میں واضح طور پر پاکستان میں شامل کئے جانے والے علاقوں کی نشاندھی کی گئی تھی۔ شمال مشرق میں بنگال اور آسام اور شمال مغرب میں پنجاب ' سرحد ' سندھ اور بلوچستان۔ تعجب کی بات ھے کہ اس قرارداد میں کشمیر کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ حالانکہ شمال مغرب میں مسلم اکثریت والا علاقہ تھا اور پنجاب سے جڑا ھوا تھا۔ یہ بات بے حد اھم ھے کہ دلی کنونشن کی اس قرارداد میں دو مملکتوں کا ذکر یکسر حذف کر دیا گیا تھا۔ جو قراردادِ لاھور میں بہت واضح طور پر تھا۔ اس کی جگہ پاکستان کی واحد مملکت کا مطالبہ پیش کیا گیا تھا۔

غالباً بہت کم لوگوں کو اس کا علم ھے کہ مولوی فضل الحق کی طرف سے 23 مارچ کو پیش کردہ قراردادِ لاھور کا اصل مسودہ اس زمانہ کے پنجاب کے یونینسٹ وزیر اعلی سر سکندر حیات خان نے تیار کیا تھا۔ یونینسٹ پارٹی اس زمانہ میں پنجاب میں مسلم لیگ کی اتحادی جماعت تھی اور سر سکندر حیات خان یونینسٹ پارٹی کے صدر تھے۔ سر سکندر حیات خان نے قرارداد کے اصل مسودہ میں بر صغیر میں ایک مرکزی حکومت کی بنیاد پر عملی طور پر کنفڈریشن کی تجویز پیش کی تھی لیکن جب اس مسودہ پر مسلم لیگ کی سبجیکٹ کمیٹی میں غور کیا گیا تو قائد اعظم محمد علی جناح نے خود اس مسودہ میں بر صغیر میں واحد مرکزی حکومت کا ذکر یکسر کاٹ دیا۔ سر سکندر حیات خان اس بات پر سخت ناراض تھے اور انہوں نے 11 مارچ سن 1941 کو پنجاب کی اسمبلی میں صاف صاف کہا تھا کہ ان کا "پاکستان کا نظریہ" جناح صاحب کے نظریہ سے بنیادی طور پر مختلف ھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ھندوستان میں ایک طرف ھندو راج اور دوسری طرف مسلم راج کی بنیاد پر تقسیم کے سخت خلاف ھیں اور وہ ایسی تباہ کن تقسیم کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ مگر ایسا نہ ھوا۔ سر سکندر حیات خان دوسرے سال سن 1942 میں انتقال کر گئے ' یوں پنجاب میں محمد علی جناح کو شدید مخالفت کے اٹھتے ھوئے حصار سے نجات مل گئی۔

سن 1946 کے دلی کنونشن میں پاکستان کے مطالبہ کی قرارداد حسین شھید سہروردی نے پیش کی اور یو پی کے مسلم لیگی رھنما چوھدری خلیق الزماں نے اس کی تائد کی تھی۔ قراردادِ لاھور پیش کرنے والے مولوی فضل الحق اس کنونشن میں شریک نہیں ھوئے کیونکہ انہیں سن 1941 میں مسلم لیگ سےخارج کردیا گیا تھا۔ دلی کنونشن میں بنگال کے رھنما ابو الہاشم نے اس قرارداد کی پر زور مخالفت کی اور یہ دلیل پیش کی کہ یہ قرارداد "لاھور کی قرارداد" سے بالکل مختلف ھے۔ جو مسلم لیگ کے آئین کا حصہ ھے- ان کا کہنا تھا کہ "قراردادِ لاھور" میں واضح طور پرشمال مغربی اور مشرقی حصے میں مسلمانوں کے لیے دو مملکتوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا لہذا دلی کنونشن کو مسلم لیگ کی اس بنیادی قرارداد میں ترمیم کا قطعی کوئی اختیار نہیں۔ ابوالہاشم کے مطابق قائد اعظم نے اسی کنونشن میں اور بعد میں بمبئی میں ایک ملاقات میں یہ وضاحت کی تھی کہ اس وقت چونکہ برصغیر میں دو الگ الگ دستور ساز اسمبلیوں کے قیام کی بات ھورھی  ھے لہذا دلی کنونشن کی قرارداد میں ایک مملکت کا ذکر کیا گیا ھے۔ البتہ جب پاکستان کی دستور ساز اسمبلی آئین مرتب کرے گی تو وہ اس مسئلہ کی حتمی ثالث ھوگی اور اسے دو علیحدہ مملکتوں کے قیام کے فیصلہ کا پورا اختیار ھوگا۔ لیکن پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے نہ تو قائد اعظم کی زندگی میں اور نہ اس وقت جب سن 1956 میں ملک کا پہلا آئین منظور ھورھا تھا ' بر صغیر میں مسلمانوں کی دو آزاد اور خود مختار مملکتوں کے قیام پر غور کیا۔ 25 سال کی سیاسی اتھل پتھل و کشمکش اور سن 1971 میں بنگلہ دیش کی جنگ کی تباھی کے بعد البتہ برصغیر میں مسلمانوں کی دو الگ الگ مملکتیں ابھریں جن کا مطالبہ "قراردادِ لاھور" کی صورت میں آج بھی محفوظ ھے۔

پاکستان کے قیام کے بعد اتر پردیش کا رھنے والا آل انڈیا مسلم لیگ کا جنرل سیکریٹری ' اردو بولنے والا ھندوستانی ' لیاقت علی خان پاکستان کا وزیرِاعظم بن گیا۔ پاکستان کی تشکیل کا مقصد اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرہ تشکیل دینا بتایا گیا تھا ' جسکے لیے پنجابی قوم کو مذھب کی بنیاد پر لڑوا کر ' پنجاب کو تقسیم کروا کر 20 لاکھ پنجابی مروائے گئے اور 2 کروڑ پنجابی بے گھر کروائے گئے لیکن پاکستان کے قائم ھونے کے بعد سب سے پہلے پاکستان کی ھی عوام سے انکے اپنے علاقوں پر انکا اپنا حکمرانی کا حق چھینا گیا ' جسکے لیے 22 اگست 1947 کو جناح صاحب نے سرحد کی متخب حکومت برخاست کردی۔ 26 اپریل 1948 کو جناح صاحب کی ھدایت کی روشنی میں گو رنر ھدایت اللہ نے سندھ میں ایوب کھوڑو کی متخب حکومت کو برطرف کر دیا اور اسی روایت کو برقرار رکھتے ھوئے ' بلکہ مزید اضافہ کرتے ھوئے ' لیاقت علی خان نے 25 جنوری 1949 کو پنجاب کی منتخب اسمبلی کو ھی تحلیل کر دیا- یعنی ملک کے وجود میں آنے کے ڈیڑھ سال کے اندر اندر عوام کے منتخب کردہ جمہوری اداروں اور نمائندوں کا دھڑن تختہ کر دیا گیا۔

لیاقت علی خان نے گنگا جمنا ثقافت کی شیروانی اور پاجامہ کو پاکستان کا قومی لباس قرار دیکر ' پاکستان کی سب سے بڑی لسانی آبادی ' مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کے شدید احتجاج کے باوجود ' اتر پردیش کی زبان اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیکر پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروںکے لیے سماجی گرفت مظبوط کرنے کی راہ ھموار کردی۔

25 جنوری 1949 کو پاکستان کی دوسری بڑی لسانی آبادی پنجابی کے صوبہ پنجاب کی منتخب اسمبلی کو تحلیل کرکے پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کے بعد ژوب میں پیدا ھونے والے ' پشاور میں رھائش پذیر اور علیگڑہ کے پڑھے ھوئے ایک کاکڑ پٹھان سردار عبدالرب نشتر کو پنجاب کا گورنر نامزد کرکے پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے سیاسی گرفت مظبوط کرنے کی راہ ھموار کردی۔

پاکستان کی سب سے بڑی لسانی آبادی بنگالی اور پاکستان کی دوسری بڑی لسانی آبادی پنجابی پر اپنی سماجی اور سیاسی گرفت مظبوط کرنے کے بعد اتر پردیش میں واقع علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمان لاکر پاکستان کی حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض کروا کر پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیےانتظامی گرفت مظبوط کرنے کی راہ ھموار کردی۔ لہٰذا اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی پاکستان میں سماجی ' سیاسی ' انتظامی گرفت مظبوط ھونے کی وجہ سے پاکستان کی حکومت کے اداروں ' پاکستان کی سیاست اور پاکستان کی صحافت پر دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل یوپی ' سی پی کے سرکاری ملازم افسروں اور کلرکوں ' سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت کا غلبہ ھوگیا۔

یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمانوں کو پاکستان لانا اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی سازش اور لسانی ترجیح تھی کہ جب ملک معاشی طور پر سنبھل رھا تھا تو پاکستان کو بنانے کے لیے کی جانے والی پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے مغربی پنجاب سے نقل مکانی کرنے والے ھندو پنجابیوں و سکھ پنجابیوں اور مشرقی پنجاب سے نقل مکانی کرنے والے مسلمان پنجابیوں کی آبادکاری کے لیے 1950 میں کیے جانے والے لیاقت - نہرو پیکٹ کی آڑ لیکر ھندوستان سے پلے پلائے مھاجروں کو لا کر کراچی اور حیدرآباد کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شہروں میں آباد کرنا شروع کردیا۔

اب یہ یوپی ' سی پی کا اردو بولنے والا ھندوستانی لسانی طبقہ پاکستان کے معاشی حب کراچی پر مکمل طور پر قابض اور لسانی عصبیت کا شکار ھے اور گذشتہ تین دھائیوں سے ایم کیو ایم کے نام سے مھاجر لسانی دھشتگرد سیاسی پارٹی بنا کر کراچی کو ملک سے الگ کرنے کی سازشیں کر رھا ھے اور حیدرآباد کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شہروں میں آباد یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی بھی انکی سازشوں کی پشت پناھی اور تعاون کرتے ھیں تاکہ کراچی کو یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کا آزاد ملک "جناح پور" بنایا جائے۔

پاکستان بنانے کے لیے جب پنجاب کو تقسیم کیا گیا تو پنجاب کے مغرب کی طرف سے ھندو پنجابی اور سکھ پنجابی اپنے تمام کے تمام خاندانوں سمیت پنجاب کے مشرق کی طرف منتقل ھوئے اور پنجاب کے مشرق کی طرف سے مسلمان پنجابی اپنے تمام کے تمام خاندانوں سمیت پنجاب کے مغرب کی طرف منتقل ھوئے لیکن پاکستان آنے والے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے خاندان تو کیا بلکہ گھر کے ھی چند افراد پاکستان آگئے اور باقی ھندوستان میں ھی رھے۔ اسی لیے پاکستان پر قابض اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے ابھی تک ھندوستان میں اپنے خاندان کے افراد سے رابطے رھتے ھیں جسکی وجہ سے پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے اور بھارت کی آلہ کاری کرنے میں انہیں آسانی رھتی ھے۔

پاکستان اصل میں یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمانوں کی شکارگاہ اور ٹرانزٹ کیمپ رھا ھے۔ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی ' مسلمان ھونے اور پاکستان کو بنانے کا نعرہ مار کر یوپی ' سی پی سے پاکستان آتے رھے۔ پاکستان اور اسلام کا لبادہ اوڑہ کر پاکستان کی سیاست ' صحافت ' حکومت ' فارن افیئرس ' سول بیوروکریسی ' ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور بڑے بڑے شہروں پر قابض ھوتے رھے۔ پاکستان کے دشمنوں کے ایجنڈے پر عمل کرکے پاکستان کو برباد کرکے ' پاکستان کی اصل قوموں پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کو تباہ کرکے اور پاکستان میں لوٹ مار کرنے کے بعد امریکہ ' برطانیہ ' متحدہ عرب امارت کو اپنا مستقل ٹھکانہ بناتے رھے۔

دراصل 1950 میں لیاقت - نہرو پیکٹ کے ھوتے ھی انڈیا نے دورمار پلاننگ کی تھی اور ان اردو بولنے والے ھندوستانیوں کو ایک سازش کے تحت پاکستان بھیجا گیا تھا۔ پاکستان کی پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ عوام نے آنکھیں بند کئے رکھیں اور ملک کی ریڑھ کی ھڈی کراچی پر انڈین ایجنٹوں کا قبضہ ھوگیا۔

بین الاقوامی روابط ھونے کی وجہ سے پاکستان کے دشمنوں سے ساز باز کرکے پاکستان کے اندر سازشیں کرنا اور بین الاقوامی امور میں دلالی کرنا یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھوندوستانی مھاجروں کا پسندیدہ مشغلہ ھے۔ چونکہ شھری علاقوں’ سیاست’ صحافت’ صنعت’ تجارت’ سرکاری عھدوں اور تعلیمی مراکز پر ان یوپی ‘ سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا کنٹرول ھے اس لیے اپنی باتیں منوانے کے لئے ھڑتالوں ' جلاؤ گھیراؤ اور جلسے جلوسوں میں ھر وقت مصروف رھتے ھیں- پنجابی' سندھی ' پٹھان ' بلوچ میں سے جو بھی ان کے آگے گردن اٹھائے کی کوشش کرے اس کے گلے پڑ جاتے ھیں اوراس کو ھندوّں کا ایجنٹ ' اسلام کا مخالف اور پاکستان دشمن بنا دیتے ھیں۔ 

اردو بولنے والا ھندوستانی جب نعرہ لگاتا ھے کہ "پاکستان فرسٹ" تو اس سے مراد صرف "کراچی " ھوتا ھے۔ پاکستان کی اصل قوموں پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کے علاقے پنجاب ' دیہی سندھ ' کے پی کے ' بلوچستان نہیں ھوتے۔ جن سے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کو کوئی دلچسپی نہیں۔

اردو بولنے والا ھندوستانی جب نعرہ لگاتا ھے کہ "کراچی والے" تو اس سے مراد صرف "کراچی کا اردو بولنے والا ھندوستانی مھاجر" ھوتا ھے۔ نہ کہ کراچی میں رھنے والے پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ بھی۔ جن سے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کو کوئی دلچسپی نہیں۔

اردو بولنے والا ھندوستانی جب نعرہ لگاتا ھے کہ "پاکستانیت کو فروغ دیا جائے" تو اس سے مراد "اردو زبان ' یوپی ' سی پی کی تہذیب اور گنگا جمنا کی ثقافت" ھوتا ھے۔ نہ کہ پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کی زبان ' تہذیب اور ثقافت بھی۔ جس سے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کو کوئی دلچسپی نہیں۔

یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر پاکستان کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ھیں۔ کیونکہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا کام پاکستان کے بننے سے لیکر ھی امریکہ ' برطانیا اور ھندوستان کی دلالی کرنا رھا ھے اور اب بھی کر رھے ھیں جبکہ اسلام اور پاکستان کے نعرے لگا لگا کر پنجاب اور پنجابی قوم کو بیواقوف بھی بناتے رھے ھیں۔ حالانکہ نہ یہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ھیں اور نہ پاکستان کی تعمیر ' ترقی ' خوشحالی اور سلامتی سے ان کو دلچسپی ھے۔

Saturday, 9 March 2019

نیو گریٹ گیم کیا ھے اور نیو گریٹ گیم میں پاکستان کی حکومت کیا کرے؟

امریکہ کے علاوہ اب چین اور روس بھی بین الاقوامی کھلاڑی بنتے جارھے ھیں۔ سینٹرل ایشیا ' مڈل ایسٹ اور ساؤتھ ایشیا کا علاقہ امریکہ ' چین اور روس کے کھیل کا اکھاڑہ بن چکا ھے۔ اس کھیل کو "نیو گریٹ گیم" کہا جاتا ھے اور پاکستان کے چین ' سینٹرل ایشیا ' مڈل ایسٹ اور ساؤتھ ایشیا کے سنگم پر واقع ھونے کی وجہ سے پاکستان کی جیو پولیٹیکل اھمیت ھے۔ اس لیے "نیو گریٹ گیم" میں پاکستان کا مرکزی کردار ھے اور رھے گا۔

بین الاقوامی کھلاڑی امریکہ ' چین اور روس ھوں یا اھم علاقائی کھلاڑی ترکی ' ایران ' سعودی عرب ' متحدہ عرب امارات ھوں۔ ان کھلاڑیوں کے لیے جیو پولیٹیکل اھمیت کی وجہ سے "نیو گریٹ گیم" میں پاکستان کا تعاون بنیادی اھمیت کا حامل ھے اور رھے گا۔

چین اور ساؤتھ ایشیا کے ساتھ تو بھارت کا جیو پولیٹیکل تعلق ھے لیکن سینٹرل ایشیا اور مڈل ایسٹ کے ساتھ بھارت کا جیو پولیٹیکل تعلق نہ ھونے کی وجہ سے "نیو گریٹ گیم" میں بھارت نہ تو بین الاقوامی کھلاڑی امریکہ ' چین اور روس کے لیے سود مند ھے اور نہ علاقائی کھلاڑی ترکی ' ایران ' سعودی عرب ' متحدہ عرب امارات کے لیے فائدہ مند ھے۔

پاکستان کے چین ' سینٹرل ایشیا ' مڈل ایسٹ اور ساؤتھ ایشیا کے سنگم پر واقع ھونے کی وجہ سے "نیو گریٹ گیم" میں پاکستان کا کردار مرکزی ھے اور رھے گا۔ اس لیے پاکستان کو دباؤ میں رکھنے کے لیے کچھ کھلاڑی بھارت کو استعمال کرکے بھارت کا پاکستان کے ساتھ تنازعہ کھڑا کرکے "نیو گریٹ گیم" میں پاکستان کے مرکزی کردار کو دباؤ میں رکھنا یا پاکستان کو دباؤ میں لاکر پاکستان کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاھتے ھیں۔

اس وقت دنیا کے فوجی + مالی طاقت کی وجہ سے ترتیب کے لحاظ سے 20 طاقتور ترین ملک امریکہ ' روس ' چین ' برطانیہ ' جرمنی ' فرانس ' جاپان ' اسرائیل ' سعودی عرب ' متحدہ عرب امارات ' جنوبی کوریا ' کینیڈا ' ترکی ' ایران ' سوئزرلینڈ ' انڈیا ' آسٹریلیا ' اٹلی ' سوئیڈن اور پاکستان ھیں۔

"نیو گریٹ گیم" کے براہِ راست بین الاقوامی کھلاڑی؛ امریکہ ' روس ' چین ھیں۔ علاقائی کھلاڑی؛ ترکی ' ایران ' سعودی عرب ' متحدہ عرب امارات ھیں جبکہ بھارت خاہ مخواہ کا کھلاڑی ھے۔ لیکن برطانیہ ' جرمنی ' فرانس ' جاپان ' اسرائیل ' جنوبی کوریا ' کینیڈا ' سوئزرلینڈ ' آسٹریلیا ' اٹلی ' سوئیڈن بھی دنیا کے 20 طاقتور ترین ملکوں میں ھونے کی وجہ سے "نیو گریٹ گیم" سے لاتعلق نہیں ھیں۔

دنیا کے 20 طاقتور ترین ملکوں میں رھنے والوں میں سے قومی اور بین الاقوامی معاملات سے آگاہ سرمایہ دار اور صحافی ھی "نیو گریٹ گیم" کی شد بد رکھتے ھیں۔ قومی اور بین الاقوامی معاملات کی سفارتکاری اور سیاست کرنے والے سفارتکار اور سیاستدان ھی "نیو گریٹ گیم" کو سمجھ سکتے ھیں۔ قومی اور بین الاقوامی معاملات کی مھارت رکھنے والے سول سرکاری افسران اور فوجی جرنیل ھی "نیو گریٹ گیم" کا کھیل کھیل سکتے ھیں۔

پاکستان کے چین ' سینٹرل ایشیا ' مڈل ایسٹ اور ساؤتھ ایشیا کے سنگم پر واقع ھونے کی وجہ سے "نیو گریٹ گیم" میں پاکستان کی جیو پولیٹیکل اھمیت کا پاکستان کی عوام کو بھرپور فائدہ پہنچانے کے لیے ضروری ھے کہ؛ قومی اور بین الاقوامی معاملات سے آگاہ سرمایہ داروں اور صحافیوں ' قومی اور بین الاقوامی معاملات کی سفارتکاری اور سیاست کرنے والے سفارتکاروں اور سیاستدانوں ' قومی اور بین الاقوامی معاملات کی مھارت رکھنے والے سول سرکاری افسروں اور فوجی جرنیلوں کو پاکستان کی حکومت کی طرف سے منظم اور متحد کرکے باقائدہ پرواگرام اور پالیسی کے تحت پاکستان کی طرف سے "نیو گریٹ گیم" کھیلا جائے اور "نیو گریٹ گیم" سے آگاہ نہ ھونے کی وجہ سے پاکستان کی عوام "نیو گریٹ گیم" کے ختم ھونے تک اپنی سیاسی سرگرمیاں اپنے مقامی اور صوبائی سطح کے سماجی ' معاشی ' انتظامی اور اقتصادی معاملات تک محدود رکھے۔

قومی اور بین الاقوامی معاملات کی آگاہی نہ رکھنے والوں ' قومی اور بین الاقوامی معاملات کی سفارتکاری اور سیاست کو نہ سمجھنے والوں اور قومی اور بین الاقوامی معاملات کی مھارت نہ رکھنے والوں کے ذریعے اور باقائدہ پرواگرام اور پالیسی بنائے بغیر اگر پاکستان کی طرف سے "نیو گریٹ گیم" کھیلا گیا تو پاکستان کے چین ' سینٹرل ایشیا ' مڈل ایسٹ اور ساؤتھ ایشیا کے سنگم پر واقع ھونے کی وجہ سے پاکستان کی جیو پولیٹیکل اھمیت ھونے اور "نیو گریٹ گیم" میں پاکستان کا مرکزی کردار ھونے جبکہ بین الاقوامی کھلاڑی امریکہ ' چین ' روس اور علاقائی کھلاڑی ترکی ' ایران ' سعودی عرب ' متحدہ عرب امارات کے لیے "نیو گریٹ گیم" میں پاکستان کا تعاون بنیادی اھمیت کا حامل ھونے کے باوجود پاکستان اچھے طریقے سے "نیو گریٹ گیم" نہیں کھیل سگے گا اور پاکستان کی عوام کو ناقابل تلافی نقصان ھوگا۔

Friday, 8 March 2019

Maharajah Ranjit Singh Made Punjab An Important Player.

Ranjit Singh was born on 13 November 1780 to Maha Singh Sukerchakia and Raj Kaur, the daughter of Raja Gajpat Singh of Jind, in Gujranwala, Punjab. Several different clans have claimed Ranjit Singh as their own. His grand-daughters, the daughters of his son Duleep Singh believed that their true ancestors belonged to the Sandhawalia family of Raja Sansi. Ranjit Singh has been described as "Sansi" in some records, which has led to claims that he belonged to the Sansi tribe. However, it is more likely that he belonged to a Jaat gotra named Sansi; the Sandhawalias, who claimed Rajput descent, belonged to the same gotra. Ranjit Singh's birth name was Buddh Singh, after his ancestor who was a disciple of Guru Gobind Singh, a Khalsa, and whose descendants created the Sukerchakia misl before the birth of Ranjit Singh, which became the most powerful of many small Sikh kingdoms in northwestern Southern Asia in the wake of the disintegrating Mughal Empire. The child's name was changed to Ranjit (literally, "victor in battle") by his father to commemorate his army's victory over the Muslim Chatha chieftain Pir Muhammad. He was short in stature, never schooled, and did not learn to read or write anything beyond the Gurmukhi alphabet, however, he was trained at home in horse riding, musketry, and other martial arts. At age 12, his father died. He then inherited his father's Sukerchakia misl estates and was raised by his mother Raj Kaur, who, along with Lakhpat Rai, also managed the estates. The first attempt on his life was made when he was 13, by Hashmat Khan, but Ranjit Singh prevailed and killed the assailant instead. At age 18, his mother died and Lakhpat Rai was assassinated, and thereon he was helped by his mother-in-law from his first marriage.

Ranjit Singh received support from Muslim Punjabis who fought under his banner and repeatedly defeated invasions of Punjab by Muslim armies who were arriving in Punjab from Afghanistan and created the Sikh Empire of Punjab. Almost 777 years of foreign rule, starting from the Turkish invader Mahmud of Ghazni in 1022 after ousting the Hindu Shahi ruler Raja Tarnochalpal, until the time Maharajah Ranjit Singh entered the gates of Lahore on July 7, 1799; Punjabis had not ruled their own land.

Maharajah Ranjit Singh's reign introduced reforms, modernization, investment into infrastructure, and general prosperity. His army and government included Sikh Punjabi, Muslim Punjabi, Hindu Punjabi, and included Polish, Russian, Spanish, Prussian and French officers. His court reflected a secular pattern, his Prime Minister Dhian Singh was a Hindu Dogra Punjabi, his Foreign Minister Fakir Azizuddin was a Mulsim Punjabi, his Finance Minister Dina Nath was a Hindu Brahmin Punjabi, and artillery commanders such as Mian Ghausa, Sarfaraz Khan were Muslim Punjabi.

The Khalsa army of Maharajah Ranjit Singh reflected the regional population. In the Doab region, his army was composed of the Punjabi Jat Sikhs, in Jammu and northern Indian Hills, it was Punjabi Hindu Rajputs, while relatively more Punjabi Muslims served his army in the Jhelum river area and closer to Afghanistan. Maharajah Ranjit Singh ensured that Panjab was self-sufficient in all Panjab manufactured weapons, equipment and munitions that his army needed. His government invested in infrastructure in the 1800s and thereafter, established raw materials mines, cannon foundries, gunpowder and arms factories. Some of these operations were owned by the state, others operated by private operatives. The prosperity of his Empire, in contrast to the Mughal-Sikh wars era, largely came from the improvement in the security situation, reduction in violence, reopened trade routes and greater freedom to conduct commerce.

At the beginning of the nineteenth century, the East India Company controlled southern India, Bengal, Bihar, and Orissa (modern Odisha). Dominance was gained at the expense of its French equivalent, the Compagnie des Indes. After taking power in 1799, French leader Napoleon Bonaparte won a string of military victories that gave him control over most of Europe. He annexed present-day Belgium and Holland, along with large chunks of present-day Italy, Croatia, and Germany, and he set up dependencies in Switzerland, Poland, and various German states. Spain was largely under his hegemony despite continuing guerilla warfare there, and Austria, Prussia, and Russia had been browbeaten into becoming allies. Only Great Britain remained completely outside of his grasp.

Napoleon had proposed a joint Franco-Russian invasion of India to his Imperial Majesty Paul I of Russia. In 1801 Paul, fearing a future action by the British against Russia and her allies in Europe decided to make the first move towards where he believed the British Empire was weakest. He wrote to the Ataman of the Don Cossacks Troops, Cavalry General Vasily Petrovich Orlov, directing him to march to Orenburg, conquer the Central Asian Khanates, and from there invade India. Paul was assassinated in the same year and the invasion was terminated. Napoleon tried to persuade Paul's son, Tsar Alexander I of Russia, to invade India; however, Alexander resisted. In 1807, Napoleon dispatched General Claude Matthieu, Count Gardane on a French military mission to Persia, with the intention of persuading Russia to invade India. In response in 1808, Britain sent its own diplomatic missions, with military advisers to Persia and Afghanistan under the capable Mountstuart Elphinstone to avert the French and possible Russian threat. However, Britain was left with concerns about being able to defend India.

Britain and France were at war, and the Franco-Persian alliance of 1807 followed the same year by the Franco-Russian Treaty of Tilsit and attempt to negotiate trade deals with Maharaja Ranjit Singh and the Talpur Amirs of Sindh, alerted the HEIC to the external threat posed from the northwest. In 1810, Lieutenant Henry Pottinger and Captain Charles Christie undertook an expedition from Nushki (Balochistan) to Isfahan (Central Persia) disguised as Muslims. The expedition was funded by the East India Company and was to map and research the regions of "Balochistan " and Persia because of concerns about India being invaded by French forces from that direction. After the disastrous French invasion of Russia in 1812 and the collapse of the French army, the threat of a French invasion through Persia was removed. By 1819 only Sindh and the Sikh Empire of Punjab remained outside the Company's control. Napoleon was vanquished, but the Empire of the Tsars had begun to expand south and east.

The Great Game began on 12 January 1830 when Lord Ellenborough, the President of the Board of Control for India tasked Lord William Bentinck, the Governor-General, to establish a new trade route to the Emirate of Bukhara. Following the Treaty of Turkmenchay 1828 and the Treaty of Adrianople (1829), Britain feared that Persia and Turkey would become protectorates of Russia. This would change Britain's perception of the world, and its response was "The Great Game". Britain had no intention of getting involved in the Middle East, but it did envision a series of buffer states between the British and Russian Empires that included Turkey, Persia, plus the Khanate of Khiva and the Khanate of Bukhara that would grow from future trade. Behind these buffers, states would be their protected states stretching from the Persian Gulf to India and up into the Emirate of Afghanistan, with British sea-power protecting trade sea-lanes. Access to Afghanistan was to be through developing trade routes along the Indus and Sutlej Rivers using steam-powered boats, therefore, access through the Sindh and Punjab regions would be required. Persia would have to give up its claim on Herat in Afghanistan. Afghanistan would need to be transformed from a group warring principalities into one state ruled by an ally whose foreign relations would be conducted on his behalf by the Governor-General and the Foreign Office. The Great Game meant closer ties between Britain and the states along her northwest frontier.

Britain believed that it was the world's first free society and the most industrially advanced country, and therefore that it had a duty to use its iron, steam power, and cotton goods to take over Central Asia and develop it. British goods were to be followed by British values and respect for private property. With pay for work and security in place, nomads would settle and become tribal herdsmen surrounding oasis cities. These were to develop into modern states with agreed borders, as in the European model. Therefore, lines needed to be agreed and drawn on maps. Two proud and expanding empires approached each other, without any agreed frontier, from opposite directions over a "backward, uncivilized and undeveloped region."

Britain intended to gain control over the Emirate of Afghanistan and make it a protectorate and to use Turkey, Persia, the Khanate of Khiva and the Emirate of Bukhara as buffer states between both empires. This would protect India and also key British sea trade routes by stopping Russia from gaining a port on the Persian Gulf or the Indian Ocean. Russia proposed Afghanistan as the neutral zone. The results included the failed First Anglo-Afghan War of 1838, the First Anglo-Sikh War of 1843, the Second Anglo-Sikh War of 1848, the Second Anglo-Afghan War of 1878, and the annexation of Khiva, Bukhara, and Kokand by Russia.

After 1830, Britain's commercial and diplomatic interest in the northwest became difficult. In 1831, Captain Alexander Burnes and Colonel Henry Pottinger's surveys of the Indus River would prepare the way for a future assault on the Sindh to clear a path towards Central Asia. Burnes embarked on a dangerous 12-month journey beginning in 1831 into Afghanistan and through the Hindu Kush to Bukhara, returning in 1832. Burnes and Christian traveling through a Muslim country were one of the first to study Afghanistan for British Intelligence and upon his return; he published his book, Travels To Bukhara. Between 1832 and 1834, Britain attempted to negotiate trade agreements with Maharaja Ranjit Singh, ruler of the Sikh empire of Punjab, and the Talpur Amirs of Sindh. However, these attempts were unsuccessful.

In 1835, Lord Auckland was appointed Governor-General and replaced Bentinck who had pursued a non-intervention policy. In that year, Lieutenant John Wood of the Indian Navy commanded the first steamboat to paddle up the Indus River and surveyed the river as he went. In 1838, he led an expedition that found one of the River Oxus' sources in central Asia.

In 1837, the Russian envoy Captain Jan Vitkevitch visited Kabul, and the British believed that it was to facilitate some form of diplomatic or military presence in Afghanistan. While in Kabul, he dined with the British envoy, Captain Alexander Burnes, who reported negatively on Russia's intentions. Russia feared British inroads on their commerce in Central Asia, as well as the influence that a Muslim power with British support might have on the other khanates.

During 1838, there were rumors in London of a coming Russian move towards Khiva. Additionally, Persia intended to annex Herat to make up for territory. However, the allegiance of Herat to Afghanistan was crucial to the British strategy. The Siege of Herat began in November 1837 when the new Shah of Persia, Mohammed Mirza, arrived before Herat. His intention was to take Herat then move on to Kandahar. With him was the Russian Envoy Count Simonich, seconded Russian officers and a regiment of Russian deserters under the Polish general Berowski. Eldred Pottinger, an officer of the Bengal Artillery, who had earlier entered Herat in disguise, stiffened the defenses and despite the presence of Russian advisers, the siege lasted eight months. Britain threatened to take military action and Persia withdrew in September.

Meanwhile, the conflict between Afghanistan and Punjab focused on the Khyber route. Dost Muḥammad Barakzai appealed to the HEIC for aid in recovering Peshawar, but the Company could not help him without alienating its treaty ally Maharaja Ranjit Singh. When Dost Muḥammad Barakzai redirected his appeal to Russia, the Governor-General Lord Auckland resolved to depose Dost Muḥammad Barakzai and replace him with Shah Shuja Durrani. Dost Moḥammad Barakzai had been dealing with Persia and Russia, while it was thought that Shah Shuja Durrani could be trusted to have nothing to do with them.

Long before 1838 the British in India had been alarmed by the Russian advance into Central Asia and by the interest of the czar’s agents in Persia and Afghanistan. At stake was the market for Russian or British products in Central Asia. British imperialists dreamed of sending goods in steamboats up the Indus and overland into Central Asia and Russian imperialists aspired to gain possession of Ḵīva in the belief that it would become the center of all the commerce of Asia and would undermine the commercial superiority of those who dominated the sea.

From 1829 onward the British considered it a matter of urgent national importance to extend their influence into Central Asia before the Russians arrived. They also feared that their hold on India would be jeopardized if Russia were dominant in Central Asia and militarily present in or near Afghanistan. To protect their interests, they sent an envoy, Alexander Burnes, by way of Sindh to Lahore in 1830 and by way of Kabul to Bokhara in 1831-32 (for which he became famous as an explorer and political agent and earned the nickname “Bokhara Burnes;”.

At this time the strong Russian influence in Persia was being used to encourage a Persian campaign against the strategically important fortress of Herat, which was ruled by a Sadozay. The British sought to save Herat from Persia and thus to hold the Russians at bay in the west. Meanwhile, the only Indian state of any significant independence and military power was Punjab under Maharaja Ranjit Singh. The British could not hope to establish a strong influence beyond the Indus unless they first either conciliated or conquered Punjab.

The spectacle of the well-trained and equipped armies of Lahore persuaded the British to make friendship with Punjab a high priority. It was impossible for the British to befriend Maharaja Ranjit Singh and Dost Muhammad Barakzai at the same time, for there was a fierce quarrel between them over the Sikh occupation of Peshawar and the shelter and encouragement given to Shah Shuja Durrani. Even Burnes, on a mission to Kabul, was unable to reconcile Dost Muhammad Barakzai with Maharaja Ranjit Singh. Burnes’ masters could not offer Dost Muhammad Barakzai anything that he really wanted in return for giving up a correspondence with Persia and Russia.

In 1838 the Governor-General, Lord Auckland, signed the Simla Manifesto, which was in effect a declaration of war upon the Barakzai rulers of Kabul and Qandahār and of intent to restore Shah Shuja Durrani while saving Herat from Persian designs. Punjabis played a minimal part in subsequent military operations. The Punjabi "Army of the Indus", as the British called it, entered Afghanistan in the spring of 1839 and made its way through Qandahār and Ḡaznī to Kabul. Governor-General Lord Auckland restored the throne of Shah Shuja Durrani in Kabul, on term and condition that the exiled former ruler would accept the Punjabis gains west of the Indus, and the Company controlling his foreign policy. The agreement was formalized with the Treaty of Simla signed in June 1838 between Shah Shuja Durrani, the HEIC, and Maharaja Ranjit Singh. British influence was to be extended into Afghanistan and it was to become a buffer state.

Shah Shuja Durrani had ascended the throne in 1803 and had signed a mutual defense agreement with the British in 1809 against a possible Franco-Russian invasion of India via Afghanistan. In the same year, he was deposed and imprisoned by his half-brother. There were a number of Amirs of Afghanistan until Dost Muḥammad Barakzai gained power in 1836. Shah Shuja Durrani was not popular with the Afghans and tensions grew, leading to the killing of the British envoy, Captain Alexander Burnes, in 1841. By January 1842, the Afghans were in full revolt. With a weakening of military discipline, the British decided to withdraw from Kabul. The Kabul garrison of 4,500 troops and 12,000 camp followers left Kabul for Jalalabad that was 80 miles and 5 days march away. They were attacked by 30,000 Afghans. Six British officers escaped on horseback but only one, the wounded Dr. William Brydon riding on a wounded horse, made it to Jalalabad. Over one hundred of the British and 2,000 sepoys and camp followers were taken a hostage and the rest killed. In April, a punitive expedition by the Punjabi "Army of the Indus" was dispatched and recaptured Kabul and freed the captives in September. The new Governor-General, Lord Ellenborough, decided to withdraw all British garrisons from Afghanistan and Dost Muḥammad Barakzai was freed in India to return to the throne.

In 1843, Britain annexed the Sindh and after the death of Maharaja Ranjit Singh, between 1845 and 1846, the First Anglo-Sikh War was fought between the Sikh Empire of Punjab and the East India Company, which resulted in the partial subjugation of the Sikh kingdom. Between 1848 and 1849, the Second Anglo-Sikh War was fought between the Sikh Empire and the British East India Company, which resulted in the subjugation of the Sikh Empire and the annexation of Punjab.

The Great Game is a term used by historians to describe a political and diplomatic confrontation that existed for most of the nineteenth century between Britain and Russia over Afghanistan and neighboring territories in Central and Southern Asia. Russia was fearful of British commercial and military inroads into Central Asia, and Britain was fearful of Russia adding "the jewel in the crown", India, to the vast empire that Russia was building in Asia. This resulted in an atmosphere of distrust and the constant threat of war between the two empires.

The timing of the beginning and end of the Great Game is not completely agreed. One author believes that the Great Game commenced when the Franco-Persian alliance of 1807 followed the same year by the Franco-Russian Treaty of Tilsit and attempt to negotiate trade deals with Maharaja Ranjit Singh and the Talpur Amirs of Sindh. Another believes that it began with Russia's victory in the Russo-Persian War (1804–13) and the signing of the Treaty of Gulistan of 1813 or the Treaty of Turkmenchay of 1828. Another believes that it started in the aftermath of the Crimean War (1853–6) and the Caucasus war (1828–59).

One author proposes that The Great Game was over at the end of the First Anglo-Afghanistan war in 1842 with the British withdrawal from Afghanistan. Some authors believe that the Great Game came to a close with the three Anglo-Russian agreements of 1907 which delineated the spheres of interest between British India and Russian Central Asia in the borderland areas of Persia, Afghanistan, and Tibet.

Another that it was trailing off not long after that time, and another with the Bolshevik Revolution in 1917 and the end of Russia's interest in Persia. One has stated that unofficially, the Great Game in Central Asia might never end. When everyone is dead, the Great Game is finished. Not before. - Rudyard Kipling

Note: - Almost the same game was played in the 1980s. Three players Russia, Pathan, and Punjabi were the same players but the British were replaced by the America and Punjabi nation supported America in the game, as supported the British in 1839.

Exactly the same game is again in practice. Three players Russia, Pathan, and Punjabi are the same players but the British are replaced by America. However, British is still a joint venture player with the main player America and India is also included in the game as a proxy player for America to create a situation of Indo-Pak war for building pressure on Pakistan to Armtwist the Punjabi nation and to pressurize the Punjabi nation to act in the game according to the will and wish of America. China is an additional player. Some regional players are also added in the game but, these players are assisting America, China, or Russia, therefore, they may be called the extra players of the game and the game is called a ‘’New Great Game’’.

Nevertheless, the role of Punjabi nation in present Great Game is not only essential like the role in previous games but, it is significant too due to the inclusion of China in the Great Game and project of CPEC as a joint venture project of Pakistan and China.

What will be the Strategy of Punjabi Nation in the New Great Game?

1. The Punjabi nation will support America in the game as supported the British in 1839 and supported America in the game of 1980s to obstruct the Russian advancement via Central Asia into Afghanistan to reach the warm water?

2. The Punjabi nation will support Russia in present Great game to facilitate Russia to reach the Gwadar via Central Asia and Afghanistan to join the CPEC project by expanding the CPEC (China, Pakistan Economic Corridor) project into PCPREC (Pakistan, China, Pakistan, Russia, Economic Corridor) project?


3. The Punjabi nation will keep himself neutral in the present Game in Afghanistan and concentrate only on the CPEC project. Therefore, the game in Afghanistan will be played by America, Russia, and China?



4. The Punjabi nation will stop to facilitate China to reach the Gwadar. Therefore, Pakistan will withdraw himself from the CPEC project to get the support of America in Pak-India war or to withdraw the support of America for India in Pak-India war and the game in Afghanistan will be played by America, Russia, and China?