برٹش
انڈیا کے مسلم اکثریتی صوبوں پنجاب ' سندھ ' بلوچستان ' شمال مغربی فرنٹیئر صوبہ
یا سرحد (جسے اب 2010 سے خیبر پختونخواہ کہا جاتا ھے) اور مشرقی بنگال میں
مسلمانوں کی طرف سے 1937 کے انتخابات میں جمہوریت کو ایک خطرے کے طور پر نہیں
دیکھا گیا تھا۔ لیکن سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمان اپنے صوبوں میں
اقلیت میں تھے۔ اس لیے برٹش انڈیا میں جمہوریت کو اپنے لیے نقصاندہ سمجھتے تھے۔
جمہوری انڈیا میں خود کو نقصان سے بچانے کے لیے انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی
قیادت پر قابض ھونا شروع کردیا اور برٹش انڈیا کو مذھب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی
تحریک شروع کردی اور برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک کی تشکیل کا
مطالبہ کرنا شروع کردیا۔ دراصل جمہوری انڈیا میں سینٹرل برٹش
انڈیا کی مسلمان اشرافیہ کو اپنی نوابی خطرے میں پڑتی دکھائی دینے لگی تھی۔
اسی لیے سینٹرل برٹش انڈیا کی مسلمان اشرافیہ کو معلوم ھوا کہ وہ مسلمان
ھیں اور ایک علیحدہ قوم ھیں۔ ورنہ انکے آباؤ اجداد کو 350 سال تک ھندوؤں پر
حکمرانی کرنے کے باوجود بھی علیحدہ قوم ھونے کا احساس نہیں ھوا تھا اور نہ ھی 1300
سال تک کے عرصے کے دوران کبھی کسی مسلمان عالم نے مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم قرار
دیا تھا۔
سینٹرل
برٹش انڈیا کی مسلمان اشرافیہ کے لیے سب سے مشکل کام یہ تھا کہ
مسلم اکثریتی صوبوں کے مسلمانوں کو برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک
تشکیل دینے کی حمایت کرنے کے لیے کیسے قائل کیا جائے؟ آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت
پر قابض سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں نے برٹش انڈیا کے مسلمانوں
کے اتحاد کو مظبوط اور منظم کرنے کے مشن کی ابتدا کی۔ اس بات کا بھرپور چرچا شروع
کیا کہ برٹش انڈیا کے تمام مسلمان ایک قوم ھیں۔ نہ صرف انکا مذھب ایک ھے بلکہ انکی
زبان بھی ایک ھی ھے ' انکی ثقافت بھی ایک ھی ھے اور انکا سیاسی مفاد بھی ایک ھی
ھیں۔ بلاشبہ یہ ایک مذھب انکا دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والا اسلامی فلسفہ
تھا۔ ایک زبان انکی اردو زبان تھی۔ ایک ثقافت انکی گنگا جمنا کی ثقافت تھی اور ایک
سیاسی مفاد انکا نئے مسلم ملک میں سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں
کو برتری حاصل ھونا تھا۔
ایک
ھی مذھب ھونے کے باوجود برٹش انڈیا کے مسلمان دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والے
اسلامی فلسفہ سے ھٹ کر مختلف مذھبی نقطہ نظر رکھتے تھے۔ انکی زبانیں الگ الگ تھیں۔
انکی ثقافتیں الگ الگ تھیں۔ انکی اپنی اپنی انفرادی تاریخ تھی۔ انکی اپنی اپنی
منفرد قومی شناختیں تھیں اور انکے اپنے اپنے سیاسی مفادات تھے۔ اس لیے تمام مسلم
حلقوں میں “دو قومی نظریہ” کو پذیرائی حاصل نہ ھوسکی۔ مثال کے طور پر 1937 کے
انتخابات میں “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر مہم کو چلایا گیا لیکن آل انڈیا مسلم
لیگ کو تمام مسلم اکثریت کے صوبوں میں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 1937 کے
انتخابات میں صرف 4.6 فیصد مسلمانوں نے مسلم لیگ کے لئے ووٹ دیا اور مسلم لیگ نے
پنجاب میں 84 نشستوں میں سے صرف 2 ' سندھ میں مسلمانوں کے لئے محفوظ 33 نشستوں میں
سے 3 ' بنگال کی 117 نشستوں میں سے 39 اور شمال مغربی فرنٹیئر صوبہ یا سرحد
(جسے اب 2010 سے خیبر پختونخواہ کہا جاتا ھے) میں کوئی بھی نشست حاصل نہیں
کی۔ اس طرح پاکستان کے قیام سے صرف ایک دھائی پہلے برٹش انڈیا کے مسلمانوں نے
تقریبا متفقہ طور پر “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لیے
ایک مسلم ملک کے خیال کو مسترد کردیا تھا۔
سال
1940 ء میں آل انڈیا مسلم لیگ نے لاھور میں اپنا سالانہ اجلاس منقعد کیا۔ جہاں
نظریات کا اختلاف واضح طور پر نظر آتا تھا۔ سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے
مسلمانوں نے “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مسلم
ملک بنانے کے حامیوں کا ایک گروپ بنایا۔ جبکہ مسلم اکثریت والے صوبوں بنگال '
پنجاب ' سندھ ' سرحد اور بلوچستان کے رھنماؤں نے لسانی ' ثقافتی اور نسلی تحفظ کی
حمایت کی بنیاد پر دوسرے گروپ کی تشکیل کی اور 1937 کے انتخابات کے نتائج سے آگاہ
کیا۔ مسلم اکثریت والے صوبوں کے رھنماؤں نے سالانہ اجلاس میں اپنی بالا دستی رکھی
اور اپنی خود مختاری کی خواھشات کو قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں مسلم
اکثریت والے ایک صوبے بنگال کے ایک رھنما فضل الحق کی طرف سے برٹش انڈیا کے
مسلمانوں کے لیے ایک مسلم ریاست کے الفاظ کو نظر انداز کرتے ھوئے برٹش انڈیا کے
مسلمانوں کے مستقبل کے لئے ایک قرارداد پیش کی کہ؛ جغرافیائی طور پر ملحق اکائیوں
کی علاقائی حدبندی کر کے ان کی آئینی تشکیل اس طرح کی جائے کہ جن علاقوں میں
مسلمان عددی طور پر اکثریت میں ھیں ' جیسا کہ ھندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی
حصے ' ان کو آزاد ریاستوں میں گروہ بند کر دیا جائےاور اس طرح تشکیل پانے والی یہ
اکائیاں مکمل آزاد اور خودمختار ھوں گی۔ ان اکائیوں میں موجود خطوں کے آئین میں
اقلیتوں کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذھبی ' ثقافتی ' معاشی ' سیاسی ' انتظامی اور
دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے مناسب ' مؤثر اور لازمی اقدامات یقینی بنائے
جائیں گے اور ھندوستان کے دوسرے حصے جہاں مسلمان اقلیت میں ھیں ' آئین میں ان کی
مشاورت کے ساتھ ان کے مذھبی ' ثقافتی ' معاشی ' سیاسی ' انتظامی اور دیگر حقوق اور
مفادات کے تحفظ کے مناسب ' مؤثر اور لازمی اقدامات عمل میں لائے جائیں گے۔ مسلم
لیگ نے رسمی طور پر 23 مارچ 1940 کو لاھور میں اس قرارداد کو اپنایا۔ مولوی
فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی
رھنما چوھدری خلیق الزماں ' پنجاب سے مولانا ظفر علی
خان ' سرحد سے سردار اورنگ زیب 'سندھ سے سر عبداللہ ھارون اور
بلوچستان سے قاضی عیسی نے کی۔ قرارداد 23 مارچ کو اختتامی اجلاس میں منظور کی گئی۔
اپریل
سن 1941 میں مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قراردادِ لاھور کو جماعت کے آئین میں
شامل کر لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ھوئی۔ لیکن اُس وقت
بھی ان علاقوں کی واضح نشاندھی نہیں کی گئی تھی ' جن پر مشتمل
علیحدہ مسلم مملکتوں کا مطالبہ کیا جارھا تھا۔ پہلی بار پاکستان کے مطالبے کے
لیے علاقوں کی نشاندھی 7 اپریل سن 1946 کو دلی کے تین روزہ کنونشن
میں کی گئی۔ جس میں مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے مسلم لیگی اراکین نے شرکت
کی تھی۔ اس کنونشن میں برطانیہ سے آنے والے کیبنٹ مشن کے وفد کے سامنے مسلم لیگ کا
مطالبہ پیش کرنے کے لیے ایک قرارداد منظور کی گئی تھی۔ جس کا مسودہ مسلم لیگ
کی مجلس عاملہ کے دو یو پی کے مسلم لیگی اراکین چوھدری خلیق الزماں اور
حسن اصفہانی نے تیار کیا تھا۔ اس قراداد میں واضح طور پر پاکستان میں شامل کئے
جانے والے علاقوں کی نشاندھی کی گئی تھی۔ شمال مشرق میں بنگال اور آسام اور شمال
مغرب میں پنجاب ' سرحد ' سندھ اور بلوچستان۔ تعجب کی بات ھے
کہ اس قرارداد میں کشمیر کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ حالانکہ شمال مغرب میں
مسلم اکثریت والا علاقہ تھا اور پنجاب سے جڑا ھوا تھا۔ یہ بات بے حد
اھم ھے کہ دلی کنونشن کی اس قرارداد میں دو مملکتوں کا ذکر یکسر حذف کر دیا
گیا تھا۔ جو قراردادِ لاھور میں بہت واضح طور پر تھا۔ اس کی جگہ پاکستان
کی واحد مملکت کا مطالبہ پیش کیا گیا تھا۔
غالباً
بہت کم لوگوں کو اس کا علم ھے کہ مولوی فضل الحق کی طرف سے 23 مارچ
کو پیش کردہ قراردادِ لاھور کا اصل مسودہ اس زمانہ کے پنجاب کے یونینسٹ
وزیر اعلی سر سکندر حیات خان نے تیار کیا تھا۔ یونینسٹ پارٹی اس زمانہ میں پنجاب
میں مسلم لیگ کی اتحادی جماعت تھی اور سر سکندر حیات خان یونینسٹ پارٹی کے صدر
تھے۔ سر سکندر حیات خان نے قرارداد کے اصل مسودہ میں بر صغیر میں ایک مرکزی حکومت
کی بنیاد پر عملی طور پر کنفڈریشن کی تجویز پیش کی تھی لیکن جب اس مسودہ پر مسلم لیگ
کی سبجیکٹ کمیٹی میں غور کیا گیا تو قائد اعظم محمد علی جناح نے خود اس مسودہ میں
بر صغیر میں واحد مرکزی حکومت کا ذکر یکسر کاٹ دیا۔ سر سکندر حیات خان اس بات پر
سخت ناراض تھے اور انہوں نے 11 مارچ سن 1941 کو پنجاب کی اسمبلی میں صاف صاف کہا
تھا کہ ان کا "پاکستان کا نظریہ" جناح صاحب کے نظریہ سے بنیادی طور پر
مختلف ھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ھندوستان میں ایک طرف ھندو راج اور دوسری طرف
مسلم راج کی بنیاد پر تقسیم کے سخت خلاف ھیں اور وہ ایسی تباہ کن تقسیم کا ڈٹ کر
مقابلہ کریں گے۔ مگر ایسا نہ ھوا۔ سر سکندر حیات خان دوسرے سال سن 1942 میں
انتقال کر گئے ' یوں پنجاب میں محمد علی جناح کو شدید مخالفت کے اٹھتے ھوئے حصار
سے نجات مل گئی۔
سن
1946 کے دلی کنونشن میں پاکستان کے مطالبہ کی قرارداد حسین شھید سہروردی نے پیش کی
اور یو پی کے مسلم لیگی رھنما چوھدری خلیق الزماں نے اس کی تائد کی تھی۔ قراردادِ
لاھور پیش کرنے والے مولوی فضل الحق اس کنونشن میں شریک نہیں ھوئے کیونکہ
انہیں سن 1941 میں مسلم لیگ سےخارج کردیا گیا تھا۔ دلی کنونشن میں بنگال کے
رھنما ابو الہاشم نے اس قرارداد کی پر زور مخالفت کی اور یہ دلیل پیش کی کہ یہ قرارداد
"لاھور کی قرارداد" سے بالکل مختلف ھے۔ جو مسلم لیگ کے آئین کا حصہ
ھے- ان کا کہنا تھا کہ "قراردادِ لاھور" میں واضح طور پرشمال مغربی اور
مشرقی حصے میں مسلمانوں کے لیے دو مملکتوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا
لہذا دلی کنونشن کو مسلم لیگ کی اس بنیادی قرارداد میں ترمیم کا قطعی کوئی اختیار
نہیں۔ ابوالہاشم کے مطابق قائد اعظم نے اسی کنونشن میں اور بعد میں بمبئی میں ایک
ملاقات میں یہ وضاحت کی تھی کہ اس وقت چونکہ برصغیر میں دو الگ الگ دستور ساز
اسمبلیوں کے قیام کی بات ھورھی ھے لہذا دلی کنونشن کی قرارداد میں ایک مملکت
کا ذکر کیا گیا ھے۔ البتہ جب پاکستان کی دستور ساز اسمبلی آئین مرتب کرے گی
تو وہ اس مسئلہ کی حتمی ثالث ھوگی اور اسے دو علیحدہ مملکتوں کے قیام کے فیصلہ کا
پورا اختیار ھوگا۔ لیکن پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے نہ تو قائد اعظم
کی زندگی میں اور نہ اس وقت جب سن 1956 میں ملک کا پہلا آئین منظور
ھورھا تھا ' بر صغیر میں مسلمانوں کی دو آزاد اور خود مختار
مملکتوں کے قیام پر غور کیا۔ 25 سال کی سیاسی اتھل پتھل و کشمکش اور سن 1971 میں
بنگلہ دیش کی جنگ کی تباھی کے بعد البتہ برصغیر میں مسلمانوں کی دو الگ الگ مملکتیں
ابھریں جن کا مطالبہ "قراردادِ لاھور" کی صورت میں آج بھی محفوظ ھے۔
پاکستان
کے قیام کے بعد اتر پردیش کا رھنے والا آل انڈیا مسلم لیگ کا جنرل سیکریٹری ' اردو
بولنے والا ھندوستانی ' لیاقت علی خان پاکستان کا وزیرِاعظم بن گیا۔
پاکستان کی تشکیل کا مقصد اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرہ تشکیل دینا بتایا گیا
تھا ' جسکے لیے پنجابی قوم کو مذھب کی بنیاد پر لڑوا کر ' پنجاب کو تقسیم کروا کر
20 لاکھ پنجابی مروائے گئے اور 2 کروڑ پنجابی بے گھر کروائے گئے لیکن پاکستان کے
قائم ھونے کے بعد سب سے پہلے پاکستان کی ھی عوام سے انکے اپنے علاقوں پر انکا اپنا
حکمرانی کا حق چھینا گیا ' جسکے لیے 22 اگست 1947 کو جناح صاحب نے سرحد کی متخب
حکومت برخاست کردی۔ 26 اپریل 1948 کو جناح صاحب کی ھدایت کی روشنی میں گو رنر
ھدایت اللہ نے سندھ میں ایوب کھوڑو کی متخب حکومت کو برطرف کر دیا اور اسی روایت
کو برقرار رکھتے ھوئے ' بلکہ مزید اضافہ کرتے ھوئے ' لیاقت علی خان نے 25 جنوری
1949 کو پنجاب کی منتخب اسمبلی کو ھی تحلیل کر دیا- یعنی ملک کے وجود میں آنے کے
ڈیڑھ سال کے اندر اندر عوام کے منتخب کردہ جمہوری اداروں اور نمائندوں کا دھڑن
تختہ کر دیا گیا۔
لیاقت
علی خان نے گنگا جمنا ثقافت کی شیروانی اور پاجامہ کو پاکستان کا قومی لباس قرار
دیکر ' پاکستان کی سب سے بڑی لسانی آبادی ' مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کے شدید
احتجاج کے باوجود ' اتر پردیش کی زبان اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار
دیکر پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروںکے
لیے سماجی گرفت مظبوط کرنے کی راہ ھموار کردی۔
25
جنوری 1949 کو پاکستان کی دوسری بڑی لسانی آبادی پنجابی کے صوبہ پنجاب کی منتخب
اسمبلی کو تحلیل کرکے پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کے بعد ژوب میں پیدا ھونے
والے ' پشاور میں رھائش پذیر اور علیگڑہ کے پڑھے ھوئے ایک کاکڑ پٹھان سردار
عبدالرب نشتر کو پنجاب کا گورنر نامزد کرکے پاکستان پر اردو بولنے
والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے سیاسی گرفت مظبوط کرنے کی
راہ ھموار کردی۔
پاکستان
کی سب سے بڑی لسانی آبادی بنگالی اور پاکستان کی دوسری بڑی لسانی آبادی پنجابی پر
اپنی سماجی اور سیاسی گرفت مظبوط کرنے کے بعد اتر پردیش میں واقع علیگڑہ
مسلم یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور بریلوی مدرسوں
سے فارغ التحصیل اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمان لاکر پاکستان کی
حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض کروا کر پاکستان پر اردو
بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیےانتظامی گرفت
مظبوط کرنے کی راہ ھموار کردی۔ لہٰذا اردو بولنے
والے ھندوستانی مھاجروں کی پاکستان میں سماجی ' سیاسی '
انتظامی گرفت مظبوط ھونے کی وجہ سے پاکستان کی حکومت کے اداروں ' پاکستان کی
سیاست اور پاکستان کی صحافت پر دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور
بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل یوپی ' سی پی کے سرکاری ملازم افسروں اور کلرکوں '
سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت کا غلبہ
ھوگیا۔
یوپی
' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمانوں کو پاکستان لانا اس وقت کے
وزیر اعظم لیاقت علی خان کی سازش اور لسانی ترجیح تھی کہ جب ملک معاشی طور پر
سنبھل رھا تھا تو پاکستان کو بنانے کے لیے کی جانے والی پنجاب کی تقسیم کی وجہ
سے مغربی پنجاب سے نقل مکانی کرنے والے ھندو پنجابیوں و سکھ پنجابیوں
اور مشرقی پنجاب سے نقل مکانی کرنے والے مسلمان پنجابیوں کی آبادکاری کے
لیے 1950 میں کیے جانے والے لیاقت - نہرو پیکٹ کی آڑ لیکر ھندوستان سے پلے پلائے
مھاجروں کو لا کر کراچی اور حیدرآباد کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے
شہروں میں آباد کرنا شروع کردیا۔
اب
یہ یوپی ' سی پی کا اردو بولنے والا ھندوستانی لسانی طبقہ پاکستان کے معاشی حب
کراچی پر مکمل طور پر قابض اور لسانی عصبیت کا شکار ھے اور گذشتہ تین دھائیوں سے
ایم کیو ایم کے نام سے مھاجر لسانی دھشتگرد سیاسی پارٹی بنا کر کراچی کو ملک سے
الگ کرنے کی سازشیں کر رھا ھے اور حیدرآباد کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے بڑے
بڑے شہروں میں آباد یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی بھی انکی سازشوں کی
پشت پناھی اور تعاون کرتے ھیں تاکہ کراچی کو یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے
ھندوستانیوں کا آزاد ملک "جناح پور" بنایا جائے۔
پاکستان
بنانے کے لیے جب پنجاب کو تقسیم کیا گیا تو پنجاب کے مغرب کی طرف سے ھندو پنجابی
اور سکھ پنجابی اپنے تمام کے تمام خاندانوں سمیت پنجاب کے مشرق کی طرف منتقل ھوئے
اور پنجاب کے مشرق کی طرف سے مسلمان پنجابی اپنے تمام کے تمام خاندانوں سمیت پنجاب
کے مغرب کی طرف منتقل ھوئے لیکن پاکستان آنے والے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے
خاندان تو کیا بلکہ گھر کے ھی چند افراد پاکستان آگئے اور باقی ھندوستان میں ھی
رھے۔ اسی لیے پاکستان پر قابض اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے ابھی تک ھندوستان
میں اپنے خاندان کے افراد سے رابطے رھتے ھیں جسکی وجہ سے پاکستان کے خلاف سازشیں
کرنے اور بھارت کی آلہ کاری کرنے میں انہیں آسانی رھتی ھے۔
پاکستان
اصل میں یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمانوں کی شکارگاہ اور
ٹرانزٹ کیمپ رھا ھے۔ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی ' مسلمان ھونے اور
پاکستان کو بنانے کا نعرہ مار کر یوپی ' سی پی سے پاکستان آتے رھے۔ پاکستان اور
اسلام کا لبادہ اوڑہ کر پاکستان کی سیاست ' صحافت ' حکومت ' فارن افیئرس ' سول
بیوروکریسی ' ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور بڑے بڑے شہروں پر قابض ھوتے رھے۔ پاکستان کے
دشمنوں کے ایجنڈے پر عمل کرکے پاکستان کو برباد کرکے ' پاکستان کی اصل قوموں
پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کو تباہ کرکے اور پاکستان میں لوٹ مار کرنے کے بعد
امریکہ ' برطانیہ ' متحدہ عرب امارت کو اپنا مستقل ٹھکانہ بناتے رھے۔
دراصل
1950 میں لیاقت - نہرو پیکٹ کے ھوتے ھی انڈیا نے دورمار پلاننگ کی تھی اور ان اردو
بولنے والے ھندوستانیوں کو ایک سازش کے تحت پاکستان بھیجا گیا تھا۔ پاکستان کی
پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ عوام نے آنکھیں بند کئے رکھیں اور ملک کی ریڑھ کی
ھڈی کراچی پر انڈین ایجنٹوں کا قبضہ ھوگیا۔
بین
الاقوامی روابط ھونے کی وجہ سے پاکستان کے دشمنوں سے ساز باز کرکے پاکستان کے اندر
سازشیں کرنا اور بین الاقوامی امور میں دلالی کرنا یوپی ' سی پی کے اردو بولنے
والے ھوندوستانی مھاجروں کا پسندیدہ مشغلہ ھے۔ چونکہ شھری علاقوں’ سیاست’ صحافت’
صنعت’ تجارت’ سرکاری عھدوں اور تعلیمی مراکز پر ان یوپی ‘ سی پی کے اردو بولنے
والے ھندوستانی مھاجروں کا کنٹرول ھے اس لیے اپنی باتیں منوانے کے لئے ھڑتالوں '
جلاؤ گھیراؤ اور جلسے جلوسوں میں ھر وقت مصروف رھتے ھیں- پنجابی' سندھی ' پٹھان '
بلوچ میں سے جو بھی ان کے آگے گردن اٹھائے کی کوشش کرے اس کے گلے پڑ جاتے ھیں
اوراس کو ھندوّں کا ایجنٹ ' اسلام کا مخالف اور پاکستان دشمن بنا دیتے ھیں۔
اردو
بولنے والا ھندوستانی جب نعرہ لگاتا ھے کہ "پاکستان فرسٹ" تو اس سے
مراد صرف "کراچی " ھوتا ھے۔ پاکستان کی اصل قوموں پنجابی ' سندھی '
پٹھان ' بلوچ کے علاقے پنجاب ' دیہی سندھ ' کے پی کے ' بلوچستان نہیں ھوتے۔ جن سے
یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کو کوئی دلچسپی نہیں۔
اردو
بولنے والا ھندوستانی جب نعرہ لگاتا ھے کہ "کراچی والے" تو اس سے
مراد صرف "کراچی کا اردو بولنے والا ھندوستانی مھاجر" ھوتا ھے۔ نہ
کہ کراچی میں رھنے والے پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ بھی۔ جن سے یوپی ' سی پی کے
اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کو کوئی دلچسپی نہیں۔
اردو
بولنے والا ھندوستانی جب نعرہ لگاتا ھے کہ "پاکستانیت کو فروغ دیا
جائے" تو اس سے مراد "اردو زبان ' یوپی ' سی پی کی تہذیب اور گنگا
جمنا کی ثقافت" ھوتا ھے۔ نہ کہ پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کی زبان '
تہذیب اور ثقافت بھی۔ جس سے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کو
کوئی دلچسپی نہیں۔
یوپی
' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر پاکستان کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا
خطرہ ھیں۔ کیونکہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا کام پاکستان کے بننے سے
لیکر ھی امریکہ ' برطانیا اور ھندوستان کی دلالی کرنا رھا ھے اور اب بھی کر رھے
ھیں جبکہ اسلام اور پاکستان کے نعرے لگا لگا کر پنجاب اور پنجابی قوم کو بیواقوف
بھی بناتے رھے ھیں۔ حالانکہ نہ یہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ھیں اور نہ پاکستان
کی تعمیر ' ترقی ' خوشحالی اور سلامتی سے ان کو دلچسپی ھے۔