Saturday 31 March 2018

پنجاب کو 1947 میں انگریز نے تقسیم کیا تھا۔


دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ عالمی طاقت کے طور پر ابھر چکا تھا۔ اس لیے امریکہ کی بھی پالیسی تھی کہ پنجاب تقسیم ھو۔ وجہ پنجاب کا چین اور روس کا پڑوسی ھونا اور پنجابی قوم کا جنوبی اشیا کی تیسری بڑی قوم اور دنیا کی نوویں بڑی قوم ھونا جبکہ مسلمان پنجابی کا مسلم امہ کی تیسری بڑی لسانی آبادی ھونا بنا۔

اگر پنجاب کو تقسیم نہ کیا گیا ھوتا۔ پنجابی زبان کو کمزور نہ کیا گیا ھوتا۔ پنجابی کا تشخص پنجابی کے بجائے مسلمان ' سکھ ' ھندو ' عیسائی نہ کیا گیا ھوتا تو کیا جس طرح پاکستان کی طرف سے امریکہ اور برطانیہ کی جی حضوری ھوتی رھی ھے۔ کیا پنجاب اور پنجابی قوم ایسا کرتے؟

اس لیے ھی پاکستان کے قیام سے لیکر قوم پرست پنجابی سیاستدانوں ' صحافیوں اور سرکاری افسروں کو نہ سیاست کرنے دی گئی۔ نہ صحافت کرنے دی گئی۔ نہ سرکاری نوکری کرنے دی گئی۔ جبکہ قوم پرست پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر سیاستدانوں ' صحافیوں ' سرکاری افسروں کو پاکستان پر مسلط رکھا گیا۔

پنجابی زبان کو پاکستان میں 60٪ پنجابی پہلی زبان کے طور پر بولتے ھیں۔ دیگر 20٪ بھی پاکستان میں پنجابی زبان کو دوسری زبان کے طور پر بول لیتے ھیں جبکہ پاکستان میں 90٪ لوگ پنجابی زبان کو سمجھ لیتے ھیں لیکن پھر بھی پنجابیوں کو بھارت سے پاکستان میں درآمد شدہ ھندوستانی مھاجر اقلیت کی زبان بولنی پڑتی ھے۔

پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی ھے لیکن دنیا کو پنجابی کا نہیں پاکستانی کا پتہ ھے۔ مسلم امہ کی تیسری بڑی آبادی پنجابی ھے لیکن مسلم امہ کو پنجابی کا نہیں پاکستانی کا پتہ ھے۔ 1947 میں پنجابی قوم اور پنجاب کو ھی تقسیم نہیں کیا گیا بلکہ گذشتہ 72 سال سے پنجابی کا تشخص بھی ختم کیا گیا۔

پنجابی دی اکھ وچ پٹھان ' بلوچ تے ھندوستانی مھاجر رڑکن لگ پئے نے۔


1947 وچ پنجاب دی ونڈ ھون توں پہلوں پنجاب وچ مسلمان پنجابی 56٪ ھندو پنجابی 26٪ سکھ پنجابی 14٪ تے عیسائی پنجابی 4٪ سن۔ پنجاب دی ونڈ ھون توں پہلوں پنجاب وچ مسلمان تے غیر مسلمان دا چکر چلدا ریندا سی۔ ایس لئی مسلمان پنجابیاں دا دھیان پنجاب وچ رین والے غیر پنجابی مسلماناں دی آن سازشاں ول نئیں سی جاندا۔ 1947 وچ پنجاب ونڈ ھون نال پاکستان دا پنجاب 98٪ مسلماناں دا پنجاب بن گیا پر پنجاب دی ونڈ دے کرکے 20 لکھ پنجابی مارے جان تے 2 کروڑ پنجابی در بدر ھوجان دے کرکے زبانی کلامی تے ذھنی طور تے پنجاب وچ مسلماناں نال محبت تے غیر مسلماناں نال نفرت دا ماحول بنیا رے آ۔ ایس لئی پنجاب دی ونڈ توں بعد وی مسلمان پنجابیاں دا دھیان پنجاب وچ رین والے غیر پنجابی مسلماناں دی آں سازشاں ول نئیں گیا۔

ھن پاکستان دے بنن تے پنجاب دی ونڈ نوں 72 سال ھوگئے نے۔ پنجاب دی آبادی 98٪ مسلمان اے۔ 1947 وچ پنجاب دی ونڈ دے کرکے 20 لکھ پنجابی مارے جان تے 2 کروڑ پنجابی در بدر ھوجان دی گل وی پرانی ھوگئی اے۔ پر انہاں 72 سالاں وچ اک تے مسلمان پنجابی نوں پنجاب وچ رین والے غیر پنجابی مسلماناں دی اں سازشاں دا چنگی طراں پتہ لگ گیا اے۔ اے غیر پنجابی سازشی زیادہ تر پٹھان ' بلوچ تے ھندوستانی مھاجر نے۔ جد کہ پنجاب توں بار خیبر پختونخواہ دے پختون علاقے وچ پنجابیاں نال پختوناں دے ' بلوچستان دے پشتون علاقے وچ پنجابیاں نال پشتوناں دے ' بلوچستان دے بلوچ علاقے تے سندھ وچ پنجابیاں نال بلوچاں دے ' کراچی وچ پنجابیاں نال ھندوستانی مھاجراں دے سلوک توں بعد پنجابیاں دی آں اکھاں چنگی طراں کھل چکیاں نے۔

پاکستان وچ پنجابی 60٪ سندھی 12٪ پٹھان 8٪ ھندوستانی مھاجر 8٪ بلوچ 4٪ تے دوجے 8٪ نے۔ پاکستان دی 97٪ آبادی مسلمان اے۔ پاکستان دے بنن نوں 72 سال ھوگئے نے۔ 72 سالاں بعد پاکستان وچ مسلمان پنجابیاں دا حال ھن او ای ھوندا جارے آ اے جیہڑا 1947 وچ سی۔ بس فرق اے وے کہ 1947 وچ مسلمان پنجابیاں دے دماغ وچ غیر مسلمان پنجابی نال نفرت پادتی گئی سی یا پے گئی سی۔ پر ھن مسلمان پنجابی دی اکھ وچ غیر پنجابی مسلمان پٹھان ' بلوچ تے ھندوستانی مھاجر رڑکن لگ پئے نے۔ اک واری جَد شروع ھو جاوے - تےگل فیر ایویں مُکدی نئیں۔

Friday 30 March 2018

کسی علاقہ پر حکمرانی کرنے کا طریقہ کیا ھے؟

اگر آپ کسی علاقہ پر حکمرانی کرنا چاھتے ھیں تو ؛
آپ کو 4 کام کرنے ھوں گے۔
ایک اس علاقے کے بڑے بڑے شھروں پر قبضہ کرلیں۔
دوسرا سرکاری نوکریوں پر غلبہ کرلیں۔
تیسرا صحافت پر دسترس حاصل کرلیں۔
چوتھا سیاست کرنا شروع کردیں۔
اس علاقے پر آپ کی حکمرانی ھوگی
اور وھاں کے رھنے والے آپ کے سیاسی ' سماجی ' انتظامی غلام ھوں گے۔
پھر وھاں کے مکینوں کو اپنے تعلیم یافتہ اور مہذب ھونے کی
خوب فخریہ داستانیں سنائیں۔
دوسرے الفاظ میں جن پر حکمرانی ھے
ان کو انکے جاھل اور غیر مہذب ھونے کا احساس دلوائیں
اور جی بھر کر ان کی ایسی تیسی کریں۔

یہ کام اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی نے
پاکستان کے قائم ھوتے ھی؛
پاکستان کے بڑے بڑے شھروں پر قبضہ کرکے
پاکستان کی سرکاری نوکریوں پر غلبہ کرکے
پاکستان کی صحافت پر دسترس حاصل کرکے
پاکستان میں سیاست کرکے
پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک کرکے دکھا دیا۔

اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی کی مہارت سے پنجابی سبق سیکھ لیں۔
سندھی ' بلوچ ' پٹھان کو اس کا فائدہ اس لیے نہیں کہ
نہ انہوں نے اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی سے مقابلہ کرکے
پاکستان کے بڑے بڑے شھروں پر قبضہ کرپانا ھے۔
نہ پاکستان کی سرکاری نوکریوں پر غلبہ کرپانا ھے۔
نہ پاکستان کی صحافت پر دسترس حاصل کرپانی ھے۔
اس لیے صرف سیاست کرنے سے نتیجہ صفر نکلنا ھے۔

پنجابی چونکہ اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی سے مقابلہ کرکے
پاکستان کے بڑے بڑے شھروں پر قبضہ کرچکا ھے۔
پاکستان کی سرکاری نوکریوں پر غلبہ کرچکا ھے۔
پاکستان کی صحافت پر دسترس حاصل کرچکا ھے۔
اس لیے پنجابی کو اب صرف پاکستان کی سیاست کرنے کی ضرورت ھے۔

جب انگریز آزاد پنجاب پر قابض ہوا۔ Aamir Riaz TuTu

پچھلے 418 برسوں سے پنجاب کے لوگ مارچ کا آخری ہفتہ بڑی شان سے میلہ چراغاں کے طور پر مناتے چلے آ رہے ہیں کہ مادھو لال حسین (شال حسین لہوری) اپنے لازوال کلام کی وجہ سے پنجابیوں اور غیر پنجابیوں میں یکساں مقبول ہیں۔

مگر 169 سال قبل چراغاں کا میلہ نہیں منایا جاسکا کیونکہ 29 مارچ 1849ء کو 50 سال سے چل رہی آزاد سلطنت " لاہور دربار" کا خاتمہ کردیا گیا تھا۔ اُس دن انگریزوں نے نہ صرف پنجاب بشمول خیبر پختونخوا اور فاٹا پر قبضہ کیا بلکہ پلاسی کی لڑائی (1757ء)’ کرناٹک جنگوں (63-1744ء)’ پانی پت کی جنگ (1761ء)’ بکسر کی لڑائی (1764ء)’ ٹیپو کی شکست (1799ء) اور دلی پر قبضے (1803ء) سے نوآبادیاتی تسلط کی جو مہم جاری تھی وہ بھی مکمل ہوئی۔

جیسے ہندوؤں کو ساتھ ملانے کے لیے انگریزوں نے مغلوں اور سلاطین دہلی کو مسلمان بادشاہ کہا ویسے ہی پنجاب کے مسلمانوں اور پختونوں کو ساتھ ملانے کے لیے انگریزوں نے " لاہور دربار" کو سکھوں کی حکومت قرار دے کر اپنے مفادات کو پورا کرنے کے جتن کیے۔

تاریخ کو مسخ کرنے کے لیے درباری مصنفین سے کتابیں لکھوائی گئیں جن میں مغلوں اور لاہور دربار کے تمسخر اڑانے کے ساتھ ساتھ مذہبی و فرقہ وارانہ تعصبات کو ہوا دینا لازم تھا۔ سونے پر سہاگہ ہمارا فارسی و ترک زبانوں سے رشتہ تڑوا دیا گیا اور ہم اپنی تاریخ سے مکمل کٹ گئے۔

" لاہور دربار " کی ریاست 1799ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے مسلمان پنجابیوں سے مل کر بنائی تھی’ جس میں کشمیر’ گلگت بلتستان’ پشاور اور فاٹا شامل تھے۔ مہاراجہ کے دربار میں مسلمان’ ہندو’ سکھ بھی بیٹھتے تھے اور کشمیری’ بلتی’ پٹھان اور پنجابی بھی۔

یہی نہیں بلکہ " لاہور دربار " کی طرف سے انگریزوں کے خلاف لڑنے والوں میں پٹھان’ کشمیری’ پوربیے (پورب کے رہنے والے’ یو پی سی پی کے لوگ)’ پنجابی ہی نہیں بلکہ کچھ امریکی’ فرانسیسی’ اطالوی’ حتیٰ کہ برٹش جنرل بھی شامل تھے۔ یاد رکھنے والی حقیقت تو یہ ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے سکھ مثلوں (ریاستوں) کو ختم کرکے لاہوردربار کی بنیادیں رکھیں کہ کئی مذہبی جتھے بندیاں مہاراجہ کے خلاف تھیں’ مگر انگریزوں اور ان کے ہمنواؤں نے لاہور دربار کو سکھ سرکار کہا۔

جب مہاراجہ نے لاہور میں حکومت بنائی تو یہ فرانسیسی لیڈر نپولین بونا پارٹ کے عروج کا زمانہ تھا اور دلّی پر تسلط کرچکے انگریزوں کو ڈر تھا کہ فتوحات کرتا نپولین ایران و سندھ سے پنجاب آسکتا ہے۔

1805ء میں جب مہاراجہ رنجیت سنگھ نے انگریزوں سے برسرِ پیکار جسونت راؤ ہولکر اور جنرل لیک میں سمجھوتہ کروایا تو انگریزوں کو مہاراجہ کی طاقت کا اندازہ ہوگیا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب سلطنت عثمانیہ (ترکوں) اور ایرانیوں سے نپولین کے سمجھوتوں نے انگریزوں کے ڈر کو یقین میں بدل دیا۔

1809ء میں لارڈ منٹو کی طرف سے چارلس میٹکاف نے " لاہور دربار " کے ساتھ معاہدہ کیا جس کی شقیں آج بھی لاہور دربار کی طاقت کے اعتراف کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ حیران نہ ہوں کیونکہ انگریز اس دور میں بھی افغانستان جانے کا راستہ مانگ رہے تھے مگر مہاراجہ نے انکار کردیا تھا۔

اسی دور میں جب روسیوں نے پنجاب پر حملے کے لیے افغانستان کے بادشاہ دوست محمد خان سے راستہ مانگا تو انہوں نے بھی ایسے ہی انکار کردیا تھا۔ جب تک مہاراجہ زندہ رہا اس وقت تک انگریز نہ تو افغانستان کی طرف بڑھ سکے اور نہ ہی سندھ’ بلوچستان پر قابض ہوئے۔ اس دوران انگریزوں نے لاہور دربار کو ایک مسلمان دشمن حکومت قرار دینے کے لیے خوب پروپیگنڈا کیا اور ایک مذہب کے نام پر جنگ کو بھی تقویت دی۔

جون 1839ء میں مہاراجہ کی وفات کے وقت انگریز شملہ منیفسٹو تیار کرچکے تھے اور پہلے قلات’ کابل و قندہار پر قبضہ ہوا’ 1843ء میں سندھ’ 1846ء میں کشمیر اور 1849ء میں پنجاب پر قبضہ کیا گیا۔

مہاراجہ کی موت کے بعد لاہور دربار کو اندر سے کمزور کرنے کے لیے انگریزوں نے محلاتی لڑائیوں کو تیز کرنے کے لیے تخت کے دعویداروں اور فوج کو بھڑکایا کہ اب اس بارے میں سیر حاصل مواد دستیاب ہے۔

1846ء میں فیصلہ کن جنگ دریائے ستلج کے کنارے ہوئی جس کے بعد انگریز لاہور دربار کو تو نہ توڑ سکے مگر کشمیر اور اس کے حاکم شیخ برادران کو بے دخل کرکے گلاب سنگھ کو کشمیر پر بطور نمائندہ لگا دیا گیا۔ درباری تاریخ لکھنے والے ہمیں یہ نہیں بتاتے کہ مسلم اکثریتی کشمیر و بلتستان میں سکھوں کی حکومت کے دور میں مسلمان شیخ برادران حاکم رہے جبکہ انگریزوں کے دور میں گلاب سنگھ کو کشمیر کا حاکم بنایا گیا۔

1846ء سے 1849ء کے درمیان ہونے والی 3 بڑی جنگوں کا احوال بہت سی کتابوں میں درج ہے جس میں رائل بنگال آرمی میں ہندوؤں کو بھرتی کرنے کے لیے یہ کہا گیا کہ انہیں اس علاقے کو فتح کرنے جانا ہے جہاں تاریخی طور پر ہمیشہ مسلمانوں کا قبضہ رہا ہے۔

ان جنگوں میں جن پورپی بٹالینوں نے رائل بنگال آرمی کو تج کرکے لاہور دربار کا ساتھ دیا لیکن ان کا ذکر بھی نہیں کیا جاتا۔ دوست محمد خان کا بھائی سلطان محمد تو ساری عمر لاہور دربار کے ساتھ رہا جبکہ اس کا بیٹا 1848ء میں ہونے والے چیلیانوالہ (گجرات کے پاس) معرکے میں لاہور دربار کی فوج کے ساتھ ملا۔ یہی نہیں بلکہ ملتان کے مول راج کی انگریزوں کے خلاف بغاوت بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ بلاامتیاز مذہب و قومیت بیرونی قبضوں کے خلاف مزاحمت کی ایک طویل تاریخ ہے۔

جن لوگوں نے دیبی پرشاد’ گنیش داس’ برائن ہیوگل’ کنگھم’ الیگزینڈر گارڈنر’ اسٹین بیک’ فقیر وحید الدین’ خشونت سنگھ اور کرنل (ر) معین باری کی کتب پڑھیں ہیں وہ درباری مصنفین کے کرتبوں سے کما حقہ واقف ہیں۔ مگر پاکستان و بھارت میں بالعموم انگریزی پالیسی ہی تاحال جاری ہے اور لاہور دربار کے بارے میں پہلی سے 16ویں جماعت تک کی کسی بھی نصابی کتاب میں ایک بھی سبق شامل نہیں۔

29 مارچ کے دن جس ریاست کو انگریزوں نے فتح کیا اس کے خلاف نوآبادیاتی دور میں جج لطیف’ کنہیا لال جیسوں سے کتب لکھوائی گئیں۔

اگر یہ تحریر آپ کو اپنی گمشدہ تاریخ پر نظر ڈالنے کی تحریک دے سکے تو اس کا مقصد پورا ہوجائے گا۔

پاکستان میں سیاست کو اپنے کنٹرول میں کرنے کا طریقہ

پاکستان میں سیاست کو اپنے کنٹرول میں رکھنے والے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے بجائے؛

1۔ یونین کونسل کی سیاست کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے اعتماد والے تھانیدار اور پٹواری کی تعینانی کرواتے ھیں۔

2۔ تحصیل کی سیاست کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے اعتماد والے ڈی ایس پی اور تحصیلدار کی تعینانی کرواتے ھیں۔

3۔ ضلع کی سیاست کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے اعتماد والے ڈی پی او اور ڈی سی او کی تعینانی کرواتے ھیں۔

4۔ ڈویزن کی سیاست کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے اعتماد والے ڈی آئی جی اور کمشنر کی تعینانی کرواتے ھیں۔

5۔ صوبے کی سیاست کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے اعتماد والے آئی جی اور چیف سیکریٹری کی تعینانی کرواتے ھیں۔

6۔ ملک کی سیاست کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے اعتماد والے آرمی چیف اور وریر اعظم کی تعینانی کرواتے ھیں۔

Wednesday 28 March 2018

اج مارچ دی 29 :اوہ دن جداں انگریزاں پنجاب تے مل ماری۔ Aamir Riaz TuTu

ایہہ دن اساں کیوں یاد نہیں کردے؟
ساڈا میڈیا کیوں ایس بارے لمیری چپ وچ غرق ہے؟
لہور دربار دے ناں نوں وی کیوں انگریز  تے اوس دے حواری
ساڈے چیتے توں ہی کڈہنا چاہندے نیں؟
لہور دربار دی حکومت نوں کیوں سکھ سرکار آکھیا گیا؟
افغانستان دے حاکم دوست محمدخان دا بھرا
کیوں ساری حیاتی رنجیت سنگھ نال رہیا؟
1809 وچ جدوں دلی دا ریذیڈنٹ تے لارڈ منٹو دا بلارا
لہور دربار نال معاہدہ کرن پنجاب اپڑیا تے اوس نپولین نال ڈراون دے نال نال
افغانستان جاون لئی مہاراجہ نوں رستہ دین دا کیوں آکھیا
تے مہاراجہ اوس توں انکاری کیوں ہویا؟
تھامس ہنری تھارٹن’ سید لطیف تے کنھیا لال ورگیاں دی کتاباں وچ
سکھ مسلم تے پنجابی پٹھان جھیڑیاں نوں ودھان دے جتن انگریزاں کیوں کیتے؟
انگریز مخالف لٹریچر کیوں ایس دیہاڑ بارے چپ ہے؟
انگریز فوجیاں ایہہ گل کیوں لکھی کہ
اساں ایہہ جنگ لڑ کے نہیں سگوں سازشاں نال جتی ہے؟
کنگھم آپ لہور دربار خلاف کمپنی دی فوج وچ سی
فیر اوس دی کتاب نوں ترے وار بین کیوں کیتا انگریزاں نے؟
ساڈے بچے اج چیلیانوالہ دی جنگ بارے کجھ نہیں جاندے’ پر کیوں؟
سیکولر انگریزاں لہور دربار دی حکومت نوں ڈیگن لئی
کیوں اک جہاد نوں ہلا شیریاں دتیاں؟
دھرمی سکھ رنجیت سنگھ دے کیوں خلاف سن؟
ایہہ کجھ سوال نیں جیہڑے ایس جھوٹ توں پردہ چکن لئی چکے نیں
جس نوں انگریزاں بنایا تے کاٹھے انگریزاں راکھی کیتی۔
اج دے دیہاڑ ایس بارے سوچو۔

Tuesday 27 March 2018

پٹھان ' بلوچ ' مھاجر میں سے پنجابی کے لیے بڑا مسئلہ کون؟


پاکستان میں پٹھان ' بلوچ ' مھاجر کی طرف سے یہ تاثر دے کر گمراہ کیا جاتا رھا ھے کہ پاکستان کے علاقے پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ قوموں کے علاقے ھیں۔ پنجاب میں پنجابی رھتے ھیں۔ سندھ میں سندھی رھتے ھیں۔ خیبر پختونخوا میں پٹھان رھتے ھیں۔ بلوچستان میں بلوچ رھتے ھیں۔ حالانکہ پاکستان کا کوئی بھی علاقہ یک لسانی نہیں ھے۔ پاکستان کے ھر علاقے میں مختلف لسانی گروھوں کی ملی جلی آبادی ھے۔ پنجاب ' سندھ ' خیبر پختونخوا ' بلوچستان ' پاکستان کے صوبے ھیں ' نہ کہ پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ قوموں کے راجواڑے ھیں۔

پاکستان اصل میں پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ‘ کوھستانی ‘ چترالی ‘ سواتی ‘ ڈیرہ والی ‘ راجستھانی ' گجراتی کے علاوہ پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں اور دیگر کا بھی ملک ھے۔ پنجابی قوم پاکستان کی اکثریتی آبادی ھے۔ پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی ھے اور پنجابی قوم کے  سماٹ ' ھندکو ' براھوئی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ‘ کوھستانی ‘ چترالی ‘ سواتی ‘ ڈیرہ والی ‘ راجستھانی ' گجراتی کے ساتھ برادرانہ اور عزت و احترام والے مراسم ھیں۔ پنجابی قوم کے صرف پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے ساتھ برادرانہ اور عزت و احترام والے مراسم نہیں ھیں۔ لیکن پٹھان ' بلوچ ' مھاجر میں سے پنجابی کے لیے بڑا مسئلہ کون؟ اس کی نوعیت پاکستان کے ھر علاقے کے حساب سے مختلف ھے۔

جنوبی پنجاب میں بلوچ نے اپنی اجارہ داری قائم کی ھوئی ھے اور جنوبی پنجاب میں بلوچوں کا رویہ پنجابیوں کے ساتھ انتہائی تذلیل اور توھین والا ھے۔ اس لیے جنوبی پنجاب میں رھنے والے پنجابی کے نزدیک پٹھان ' بلوچ ' مھاجر میں سے پنجابی کے لیے بڑا مسئلہ بلوچ ھیں۔

دیہی سندھ میں بلوچ نے اپنی اجارہ داری قائم کی ھوئی ھے اور دیہی سندھ میں بلوچوں کا رویہ پنجابیوں کے ساتھ انتہائی تذلیل اور توھین والا ھے۔ اس لیے دیہی سندھ میں رھنے والے پنجابی کے نزدیک پٹھان ' بلوچ ' مھاجر میں سے پنجابی کے لیے بڑا مسئلہ بلوچ ھیں۔

بلوچستان کے بلوچ علاقے میں بلوچ نے اپنی اجارہ داری قائم کی ھوئی ھے اور بلوچستان کے بلوچ علاقے میں بلوچوں کا رویہ پنجابیوں کے ساتھ انتہائی تذلیل اور توھین والا ھے۔ اس لیے بلوچستان کے بلوچ علاقے میں رھنے والے پنجابی کے نزدیک پٹھان ' بلوچ ' مھاجر میں سے پنجابی کے لیے بڑا مسئلہ بلوچ ھیں۔

بلوچستان کے پشتون علاقے میں پشتون نے اپنی اجارہ داری قائم کی ھوئی ھے اور بلوچستان کے پشتون علاقے میں پشتونوں کا رویہ پنجابیوں کے ساتھ انتہائی تذلیل اور توھین والا ھے۔ اس لیے بلوچستان کے پشتون علاقے میں رھنے والے پنجابی کے نزدیک پٹھان ' بلوچ ' مھاجر میں سے پنجابی کے لیے بڑا مسئلہ پشتون ھیں۔

خیبر پختونخوا کے پختون علاقے میں پختون نے اپنی اجارہ داری قائم کی ھوئی ھے اور خیبر پختونخوا  کے پختون علاقے میں پختونوں کا رویہ پنجابیوں کے ساتھ انتہائی تذلیل اور توھین والا ھے۔ اس لیے خیبر پختونخوا کے پختون علاقے میں رھنے والے پنجابی کے نزدیک پٹھان ' بلوچ ' مھاجر میں سے پنجابی کے لیے بڑا مسئلہ پختون ھیں۔

کراچی میں اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر نے اپنی اجارہ داری قائم کی ھوئی ھے اور کراچی میں اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا رویہ پنجابیوں کے ساتھ انتہائی تذلیل اور توھین والا ھے۔ اس لیے کراچی میں رھنے والے پنجابی کے نزدیک پٹھان ' بلوچ ' مھاجر میں سے پنجابی کے لیے بڑا مسئلہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر ھیں۔

اب مسئلہ صرف وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے پنجابی کا ھے۔ ویسے تو پنجاب میں پٹھان ' بلوچ ' مھاجر بڑی تعدا میں آباد ھیں۔ سیاست ' صحافت ' سرکاری نوکریوں میں ان کو بھرپور حصہ دیا جاتا ھے جبکہ زمین اور جائیداد بھی ان کے پاس بہت ھے لیکن وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب میں چونکہ پنجابیوں کی آبادی بہت زیادہ ھے۔ اس لیے شمالی پنجاب میں مزید پٹھانوں کو آنے دو۔ وسطی پنجاب میں مزید بلوچوں اور ھندوستانی مھاجر وں کو آنے دو۔

وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے پنجابی کو مدِ مقابل کے طور پر بڑی تعداد میں پٹھان ' بلوچ ' مھاجر ملے گا تو ھی وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے پنجابی کو پٹھان ' بلوچ ' مھاجر کی اصلیت کا معلوم ھوگا اور یہ بھی معلوم ھوگا کہ یہ پٹھان ' بلوچ ' مھاجر اپنے اپنے اکثریتی علاقوں میں رھنے والے پنجابیوں کے ساتھ کیسا تذلیل اور توھین والا سلوک کرتے ھیں۔ اس سے وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کا پنجابی اندازہ لگا پائے گا کہ؛ پٹھان ' بلوچ ' مھاجر میں سے پنجابی کے لیے بڑا مسئلہ کون ھے؟

پنجاب کی 12 کروڑ ابادی میں سے 11 کروڑ پنجابی ھیں۔ اس لیے پنجاب میں پٹھان یا بلوچ یا مھاجر نے 11 کروڑ پنجابیوں کا کیا کر لینا ھے؟ بلکہ پٹھان ' بلوچ ' مھاجر نے آپس میں متحد ھوکر بھی پنجاب میں 11 کروڑ پنجابیوں کا کیا کر لینا ھے؟ اس لیے بہتر یہ رھے گا کہ پٹھان ' بلوچ ' مھاجر کو پنجاب میں لایا جائے؛

خیبر پختونخوا میں 2 کروڑ پٹھان رھتے ھیں۔ کیا ان 2 کروڑ پٹھانوں میں سے ایک کروڑ پٹھان پنجاب لاکر پٹھانوں کو پنجاب میں اکٹھا کرکے پٹھانوں کی منجی ٹھوک نہیں دینی چاھیے؟ جبکہ خیبر پختونخوا میں سے لائے جانے والے ایک کروڑ پٹھانوں کی جگہ ایک کروڑ پنجابی خیبر پختونخوا بھیج دینے چاھیئں؟

بلوچستان میں 43 لاکھ بلوچ رھتے ھیں۔ کیا ان 43 لاکھ بلوچوں کو بھی پنجاب لاکر بلوچوں کو پنجاب میں اکٹھا کرکے بلوچوں کی منجی ٹھوک نہیں دینی چاھیے؟ جبکہ بلوچستان میں سے لائے جانے والے 43 لاکھ بلوچوں کی جگہ 43 لاکھ پنجابی بلوچستان بھیج دینے چاھیئں؟

کراچی میں 51 لاکھ مھاجر رھتے ھیں۔ کیا ان 51 لاکھ مھاجروں کو بھی پنجاب لاکر مھاجروں کو پنجاب میں اکٹھا کرکے مھاجروں کی منجی ٹھوک نہیں دینی چاھیے؟ جبکہ کراچی میں سے لائے جانے والے 51 لاکھ مھاجروں کی جگہ 51 لاکھ پنجابی کراچی بھیج دینے چاھیئں؟

Monday 26 March 2018

پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر کو پنجاب آنے دو۔


جنوبی پنجاب میں پنجابی کا مقابلہ بلوچ کے ساتھ ھے اس لیے جنوبی پنجاب میں رھنے والے پنجابی میں پنجابی قوم پرستی ھے۔

دیہی سندھ میں پنجابی کا مقابلہ بلوچ کے ساتھ ھے اس لیے دیہی سندھ میں رھنے والے پنجابی میں پنجابی قوم پرستی ھے۔

کراچی میں پنجابی کا مقابلہ ھندوستانی مھاجر کے ساتھ ھے اس لیے کراچی میں رھنے والے پنجابی میں پنجابی قوم پرستی ھے۔

بلوچستان کے بلوچ علاقے میں پنجابی کا مقابلہ بلوچ کے ساتھ ھے اس لیے بلوچستان کے بلوچ علاقے میں رھنے والے پنجابی میں پنجابی قوم پرستی ھے۔

بلوچستان کے پشتون علاقے میں پنجابی کا مقابلہ پشتون کے ساتھ ھے اس لیے بلوچستان کے پشتون علاقے میں رھنے والے پنجابی میں پنجابی قوم پرستی ھے۔

خیبر کے علاقے میں پنجابی کا مقابلہ پختون کے ساتھ ھے اس لیے خیبر کے علاقے میں رھنے والے پنجابی میں پنجابی قوم پرستی ھے۔

اب مسئلہ صرف وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کا ھے۔ شمالی پنجاب میں پٹھان کو آنے دو۔ وسطی پنجاب میں بلوچ اور ھندوستانی مھاجر کو آنے دو۔ کیونکہ؛ قوم پرستی وھیں بڑھتی ھے جہاں مدِ مقابل ھو۔

وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے پنجابی کو مدِ مقابل ملے گا تو ھی وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کا پنجابی بھی "پنجابی قوم پرست" بن سکے گا۔

بلوچ نے بروھی کی زمین بلوچستان پر کب اور کیسے قبضہ کیا؟

سلجوقیوں کے ھاتھوں ولیمی اور غزنوی طاقتوں کا خاتمہ ھوا تو بارھویں صدی میں میر جلال خان کی سر کرد گی میں کردستانی بلوص قبائل کے چوالیس مختلف قبیلے کرمان چھوڑ کربولک قہرمان ' سیستان ' بندر عباس اور بمپور کے درمیانی علاقوں میں آکر آباد ھوگئے۔بلوچوں کی مقبول عام روایات میر جلال خان کے عہد سے شروع ھوتی ھیں۔ اس کے چار بیٹے رند ' کورائ ' لاشار  ' ھوت تھے اور بیٹی جتوئی تھی۔ جب میر جلال خان کا انتقال ھوا تو ان کی چھوٹی اھلیہ عجوبہ بی بی نے اپنے کمسن بچے میر ھوت کو ملک کا وارث قرار دے دیا جبکہ میر جلال خان نے اپنی زندگی میں ھی اپنے بڑے بیٹے میر رند کو مسند کا وارث مقرر کیا تھا۔ جب میر رند دوسرے لوگوں کے ھمراہ میر جلال خان کو دفنانے قبرستان گیا ھوا تھا تو عجوبہ بی بی نے شہر کے دروازے بند کرا دیے۔

میر رند کی واپسی ھوئی تو اس نے شہر کے دروازے بند پائے تو سوتیلی والدہ اور چھوٹے بھائی سے جنگ کرنا مناسب نہ سمجھا اور اور شہر سے باھر ھی فاتحہ کی رسم ادا کی اور پھر ان کے کردستانی بلوص ساتھی پھیل کر ایران میں بمپور سے افغانستان میں قندھار تک پھیل گئے۔ میر جلال خان کی قبر کے مقام کا تعین آج تک نہیں ھو سکا۔ دو پشتوں کے بعد ان کی اولاد میں میر شیہک خان پیدا ھوا اور تمام کردستانی بلوص قبائل کا سردار بنا۔ کردستانی بلوص قبائل نے پندرھویں صدی عیسوی میں میر شیہک رند کی سر کردگی میں وادی سندھ کی تہذیب کے مھرگڑہ کے علاقے مکران میں قدم رکھا اور مکران کے حکمراں بدرالدین کے ساتھ جنگ کرکے علاقہ پر قبضہ کرلیا۔ اسکے بعد میر شیہک رند نے بلیدہ سے چل کر بروھیوں کے ساتھ جنگ کرکے 1486 میں قلات کو فتح کر لیا۔ جو بروھی ان کے مقابلے پر آئے یا تو وہ قتل کردئیے گئے یا انہوں نے اطاعت قبول کر لی۔


میر شہک سے 1468ء میں میر چاکر پیدا ھوا۔ سبی کی فتح کے وقت اس کی عمر 20 سال تھی۔ میر شہک کی وفات کے بعد کردستانی بلوص قبائل کا سردار چاکر خان رند بنا۔ میر چاکر خان کی سرکردگی میں کردستانی بلوص قبائل مختلف راستوں سے ھوتے ھوئے بلوچستان کے ایک بڑے حصے میں پھیل گئے۔  سردار چاکر خان رند نے خضدار فتح کیا ، درۂ مولا پر قبضہ کیا۔ کچھی کے میدانوں کو فتح کیا۔ درۂ بولان پر قبضہ کیا اور ڈھاڈر پر قبضہ کرنے کے بعد سبّی کو اپنا مستقر بنا لیا۔ لاشاری قبیلہ نے میر گواھرام کی سرکردگی میں گنداوا کو مستقر بنا لیا۔ سردار چاکر خان رند کے عہد میں سارا بلوچستان کردستانی بلوص قبائل کے قبضے میں آگیا۔ سبی کردستانی بلوص قبائل کا مرکز بن گیا اور میر چاکر کو کردستانی بلوص وفاق کا سردار اعلیٰ تسلیم کر لیا گیا۔ دراوڑی زبان کا لفظ ھے " بر" جسکے معنی ھیں "آنا" اور دوسرا لفظ ھے "اوک" جو کہ اسم مفعول کی نشانی ھے. جسکے معنی "والا" ھے. "بر- اوک" کے لفظ کا مفہومی معنی "نیا آنے والا" یعنی " نو وارد ' اجنبی ' پرائے دیس والا " ھے. کردستانی بلوص قبائل جب پندھرویں صدی عیسوی میں براھوی کی زمین پر آنا شروع ھوئے تو بروھی انکو "بر- اوک" کہتے تھے۔ اس لیے کردستانی بلوص قبائل " بلوص " سے " بروک" پھر " بروچ" اور پھر "بلوچ" بن گئے۔

Sunday 25 March 2018

DeraJaat and Invasion of DeraJaat by Baloch Mercenaries.

DeraJaat is a region of Punjab, located in the area where the provinces of Balochistan, Khyber Pakhtunkhwa, and Punjab meet. DeraJaat is bound by the Indus River to the east and the mountains to the west. The region consists of three districts, Dera Ghazi Khan, Dera Ismail Khan, and Rajanpur. Actual and original inhabitants of these Deras are called Derawal and the dialect of Punjabi they speak is called as Derawali Punjabi.

The DeraJaat owes its existence as a historical area to the Baloch infiltration in the fifteenth century. Langah is an Afghan tribe. They came to Multan along with Sultan Mahmoud of Ghaznavi from Afghanistan. The tribe had ruled Multan for around 80 years before the attack of Mughal Emperor Babar. Sultan Husain, the Langah sovereign of Multan, being unable to hold his trans-Indus possessions due to the revolt of Derawali Punjabis, therefore, he called in Baloch mercenaries and assigned these territories to Malik Sohrab Dodai in Jagir. Malik Sohrab Dodai was accompanied by his sons, Ghazi Khan, Fatih Khan, and Ismail Khan.

Malik Sohrab Dodai sons, Ghazi Khan, Ismail Khan, and Fateh Khan founded the three Deras or 'settlements' named after them. Dera Ghazi Khan founded by Ghazi Khan Mirani, Dera Fateh Khan founded by the Fateh Khan and Dera Ismail Khan founded by Ismail Khan Dodai. This move is seen as the establishment of the Baloch presence in Punjab, as Dodai was followed by fellow Baloch mercenaries. Shah Hussain of Langah dynasty encouraged them by offering them lands extending from Kot Kehor (Karor Lal Esan) to Dhankot (present-day Muzaffargarh).

On Babar's conquest of Northern India in 1526 Baba Nanak revolted against Babar therefore due to Punjabi uprising in Punjab Babar allied the Hooth tribe of Baloch mercenaries in DeraJaat, and at his death, the DeraJaat became a dependency of his son Kamran Mirza, the ruler of Kabul. During the era of Humayun, due to the increase of Punjabi unrest in Punjab Humayun increased the Baloch infiltration in DeraJaat and Southern areas of Punjab. Humayun settled Mir Chakar Khan Rind under the command of his son, Mir Shahdad Khan Rind in Sahiwal in 1555 and provided them Jagirs. During era of Akbar, due to revolt of Dulla Bhatti against Akbar and selecting the area of Bhakkar for his hideout Mughal Emperor Akbar increased the infiltration of Baloch mercenaries in DeraJaat and all the Baloch tribes were acknowledged the overlordship of the Hooth Nawabs, who ruled for about fifteen generations at Dera Ghazi Khan, taking alternately the style of 'Malik' and ` Ghazi Khan.' At Dera Ismail Khan ruled the Hooth Baloch chiefs, who bore the title of Ismail Khan from father to son and also held Darya Khan and Bhakkar, east of the Indus. Early in the eighteenth century, the Hooths lost their supremacy, being overwhelmed by the Kalhora Dynasty, the Kalhoras of Sind.

In 1739 after Nadir Shah had defeated the Mughals and acquired all the territory west of the Indus, he made the Wazir, Mahmud Khan Gujar, the governor in Dera Ghazi Khan under the Kalhora chief, who also became his vassal. Under Ahmad Shah Durrani the Kalhoras now in a state of decadence, contended for the possession of Dera Ghazi Khan, but Mahmud Khan Gujar appears to have been its real governor. He was succeeded by his nephew, who was killed in 1779, and the Durranis then appointed governors direct for a period of thirty-two years. Meanwhile, the last of the Hooth chiefs of Dera Ismail Khan had been deposed in 1770, and his territories also were administered from Kabul. In 1794 Humayun Shah attempted to deprive Zaman Shah Durrani of his kingdom, but he was defeated and fell into the hands of Muhammad Khan Sadozai, governor of the Sind Sagar Doab.

As a reward for this capture, Zaman Shah bestowed the province of Dera Ismail Khan on Nawab Muhammad Khan, who governed it from Mankera by a deputy. His son-in-law, Hafiz Ahmad Khan, surrendered at Mankera to Maharaja Ranjit Singh in 1821, and at the same time tribute was imposed by the Maharaja Ranjit Singh on the chiefs of Tank (Sarwar Khan) and Sagar. Dera Fateh Khan was also occupied; but Dera Ismail Khan, to which Hafiz Ahmad Khan was permitted to retire in the fall of Mankera, remained independent till 1836, when Nao Nihal Singh deposed Muhammad Khan, the son of Hafiz Ahmad Khan, and appointed Diwan Lakhi Mal to be Kardar. Diwan Lakhi Mal held this post until his death in 1843 and was succeeded by his son Diwan Daulat Rai, who enjoyed the support of the Multani Pathan Sardars. He was bitterly opposed by Malik Fateh Khan Tiwana, who had also procured a nomination as Kardar from the Durbar of Maharaja Ranjit Singh.


The DeraJaat passed to the British in 1849 and on the recommendation of Herbert Edwardes, General Van Cortlandt was appointed as the Kardar of DeraJaat. Due to creating a province of NWFP (North West Frontier Province) by the British in 1901 on northwestern areas of Punjab, DeraJaat was divided between the Districts of Dera Ghazi Khan in Punjab and Dera Ismail Khan in the Khyber Pakhtunkhwa. After the independence of Pakistan in 1947, Hindu Derawali Punjabis, and Sikh Derawali Punjabis migrated to India, remaining original inhabitants of these Deras Muslim Derawali Punjabis and the area of Derajaat fallen under the domination of Baloch infiltrators.

Saturday 24 March 2018

مسلم لیگ نے 1946ء میں مسلمان پنجابی اور سکھ پنجابی کو لڑوایا


برطانوی ھندوستان میں 1946ء کے انتخابات کے فوراً بعد برطانیہ کی حکومت نے برطانوی ھندوستان میں اقتدار منتقل کرنے کے لیے راہ ھموار کرنے کی غرض سے تین وزرا پر مشتمل ایک مشن برطانوی ھندوستان بھیجا۔ یہ مشن "کیبنٹ مشن" یا "وزارتی مشن" کے نام سے یاد کیا جاتا ھے۔ اس مشن میں تین وزرا شامل تھے۔ 1۔ لارڈ پیتھک لارنس 2۔ سر سٹیفورڈ کرپس 3۔اے ۔ وی ۔ الیگزینڈر۔

مشن کا اصل مقصد برطانوی ھندوستان میں ایک عارضی حکومت کا قیام اورکانگرس اور مسلم لیگ کے درمیان موجود آئینی بحران کو ختم کراکے انتقال اقتدار کے لیے راہ ھموار کرنا تھا۔ مشن نے برطانوی ھندوستان پہنچتے ھی وائسرائے ھند ' صوبائی گورنروں ' ایگزیکٹیو کونسل کے اراکین ' کانگرس اور مسلم لیگ کے لیڈروں کے ساتھ اپنی بات چیت کا سلسلہ شروع کیا۔ لیکن ان ملاقاتوں کا کوئی خاص نتیجہ برآمد نہ ھوا۔ اس لیے مشن نے شملہ کے مقام پر اھم سیاسی راھنماؤں کی ایک مشترکہ کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا۔ یہ کانفرنس 5 مئی 1946ء سے 12 مئی 1946ء تک شملہ میں منعقد ھوئی۔ اس کانفرنس میں آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے قائداعظم محمد علی جناح ' لیاقت علی خان ' نواب محمد اسماعیل خان اور سردار عبدالرب نشتر نے شرکت کی جبکہ کانگرس کی نمائندگی ابوالکلام آزاد ' پنڈت جواھر لال نہرو ' ولی بھائی پٹیل اور خان عبدالغفار خان نے کی۔

دونوں سیاسی پارٹیوں کے مؤقف میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ مسلم لیگ برطانوی ھندوستان کی تقسیم چاھتی تھی جبکہ کانگرس برطانوی ھندوستان کی تقسیم پر راضی نہ تھی۔ کانفرنس کے اختتام پر "کیبنٹ مشن" یا "وزارتی مشن" ان حالات سے دوچار تھا کہ وہ نہ تو مسلم لیگ کے مطالبے کو جائز قرار دے سکتا تھا اور نہ ھی کانگرس کی خواھش کو جائز کہہ سکتا تھا۔ اس لیے اس مشن نے 16 مئی 1946ء کو اپنی طرف سے ایک منصوبہ پیش کیا۔ اس منصوبے کو ’’کیبنٹ مشن پلان‘‘ کہتے ھیں۔ اس منصوبے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں دونوں سیاسی پارٹیوں کے نقطہ نظر کو ایک خاص تناسب کے ساتھ شامل کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کے دو حصے تھے۔ ایک قلیل المعیاد منصوبہ جس کے تحت ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں لانا تھا۔ دوسرا طویل المعیاد منصوبہ جس کے تحت کم از کم دس سال کے لیے برطانوی ھندوستان کو تقسیم سے روکنا تھا۔ کیبنٹ مشن پلان کے اھم نکات تھے؛

1۔ برطانوی ھند کے صوبوں پر مشتمل ایک کل ھند یونین (مرکزی حکومت) کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ اس یونین کے پاس خارجہ امور ' دفاع اور مواصلات کے شعبے ھوں گے۔

2۔ برطانوی ھند اور ریاستوں کے نمائندوں کے باھمی اشتراک سے مرکزی حکومت اپنی انتظامیہ اور مقننہ تشکیل دے گی۔ مقننہ میں زیر غور ھر ایسا معاملہ جس سے کوئی بڑا فرقہ ورانہ مسئلہ پیدا ھونے کا امکان ھو ' کو فیصلہ کرنے کے لیے ھر دو بڑی قومیتوں کے نمائندوں کی اکثریت اور پارلیمنٹ میں موجود اراکین کی اکثریت ضروری قرار دی گئی۔

3۔ پلان ھذا کے مطابق برطانوی ھند کے تمام گیارہ صوبوں کو مندرجہ ذیل تین گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔

پہلے گروپ میں ھندو اکثریتی صوبے یو پی ' سی پی ‘ بہار ‘اُڑیسہ ‘ بمبئی ‘مدراس شامل کیے گئے۔
دوسرے گروپ میں شمال مغرب میں مسلم اکثریتی صوبے پنجاب ‘سرحد’ اورسندھ شامل کیے گئے۔
تیسرے گروپ میں شمال مشرق میں مسلم اکثریتی صوبے بنگال اور آسام شامل کیے گئے۔

4۔ خارجہ امور ‘ دفاع اور مواصلات کے شعبوں کے علاوہ دیگر تمام شعبے صوبوں اور ریاستوں کو دینے کی سفارش کی گئی۔

5۔ کل ھند یونین کے آئین اور ھر گروپ کے آئین میں ایک شق ایسی ھوگی جس کے تحت کوئی بھی صوبہ اگر چاھے تو ھر دس سال کے بعد اپنی قانون ساز اسمبلی کی اکثریت کی خواھش پر آئین کی نکات یا شقوں پر ازسرنو غور کرنے کا مجاز ھوگا۔ شق ھذا کے مطابق تمام صوبوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ دس سال گذرنے کے بعد وہ انفرادی طور پر یا گروپ کی صورت میں اگر چاھیں توکل برطانوی ھندوستان یونین سے علیحدگی اختیار کرسکتے ھیں۔

6۔ صوبائی اسمبلیوں میں صوبوں کو آبادی کے تناسب سے نشستیں الاٹ کرنے کے لیے کہا گیا۔ ھر دس لاکھ افراد کے لیے ایک نشست مخصوص کی گئی۔ برطانوی ھند کے گیارہ صوبوں کو کل دو سو نوے 290 نشستوں میں تقسیم کیا گیا جن میں اٹھہتر 78 مسلمانوں کے لیے مقرر کی گئیں۔ اسی طرح ریاستوں کو زیادہ سے زیادہ تریانو 93 نشستیں دی گئیں۔

منصوبے کو قابل عمل بنانے کے لیے کیبنٹ مشن نے یہ بھی شرط عائد کر دی کہ جو بھی سیاسی پارٹی اس پلان کو مسترد کرے گی اسے عبوری حکومت میں شامل ھونے کی دعوت نہیں دی جائے گی۔

کیبنٹ مشن پلان کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچنا نہایت ھی آسان ھے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد انگریز سرکار برطانوی ھندوستان کو آزادی دینے کے لیے راضی تھی لیکن وہ برطانوی ھندوستان کا مسئلہ برطانوی ھندوستان کے باشندوں کے ذریعے حل کروانا چاھتی تھی۔ لیکن کانگریس اور مسلم لیگ کے مؤقف میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کانگریس برطانوی ھندوستان کی تقسیم کے خلاف تھی جبکہ مسلم لیگ کی قیادت کے لیے برطانوی ھندوستان کی تقسیم کے بغیر کوئی دوسرا حل قابل قبول نہیں تھا۔

کانگرس نے 25 جون 1946ء کو کیبنٹ مشن پلان منظور کر لیا جبکہ مسلم لیگ نے اپنے موقف کو منوانے کے لیے 29 جولائی 1946ء کو "راست اقدام" (ڈائریکٹ ایکشن ڈے) کا فیصلہ کیا۔ پورے برطانوی ھندوستان کی سطح پر ھڑتال کرانے کے لیے 16 اگست 1946ء کی تاریخ بھی مقرر کر دی۔

بنگال کے برطانوی ھندوستان کا سب سے بڑا مسلم اکثریتی صوبہ اور پنجاب کے برطانوی ھندوستان کا دوسرا سب سے بڑا مسلم اکثریتی صوبہ ھونے کی وجہ سے مسلم لیگ نے " ڈائریکٹ ایکشن ڈے " منانے کے لیے بنگال اور پنجاب میں خاص اھتمام کیا۔ جس کے لیے جلسوں ' جلوسوں ' مظاھروں کے لیے مساجد کا بھی بھرپور استعمال کیا گیا۔ لہٰذا 16 اگست 1946 کو بنگال کے دارالحکومت کلکتہ اور گرد و نواح میں خوفناک فساد پھوٹ پڑے۔ مسلم لیگ کے رھنماؤں کی قیادت میں ھندو بنگالیوں کو مسلمان بنگالیوں نے جی بھر کے لوٹا اور قتل کیا اور لگ بھگ تین ھزار ھلاکتیں ھوئیں۔ جبکہ پنجاب کے شھر راولپنڈی اور گرد و نواح میں مسلم لیگ کی منظم منصوبہ بندی سے پانچ ھزار سکھ پنجابی قتل کردیے گئے۔ راولپنڈی اور گرد و نواح میں سکھ پنجابی قتل کرنے کے لیے صوبہ سرحد کے پٹھانوں کو منظم انداز میں راولپنڈی لایا گیا۔ جسکے ردِ عمل میں پنجاب ھی کے شھر امرتسر اور گرد و نواح میں مسلمان پنجابیوں کو جی بھر کے لوٹا اور قتل کیا گیا۔

برطانوی ھندوستان میں ھندو مسلم فسادات کا ایک لافانی سلسلہ شروع ھوگیا اور فسادات کے نتیجے میں بنگال میں کلکتہ اور پنجاب میں راولپنڈی ' امرتسر اور دھلی میں سب سے زیادہ تباھی اور بربادی ھوئی۔ جبکہ بمبئی ‘ احمد آباد ’ نواں کلی ‘ بہار میں معمولی نوعیت کے واقعات ھوئے۔ لیکن " ڈائریکٹ ایکشن ڈے " کے اصل کردار اترپردیش کے مسلمان نہ صرف خون کی ھولی سے بچے رھے بلکہ پنجابی قوم کو مذھب کی بنیاد پر آپس میں دست و گریبان کروانے میں مصروف رھے اور بلآخر پنجاب کو تقسیم کروا کر 20 لاکھ پنجابی مروانے اور 2 کروڑ پنجابی دربدر کروانے میں کامیاب رھے۔

پاکستان کے 15 اگست 1947 میں قیام کے بعد 17 اگست کو پنجاب تقسیم کرکے 17 مسلم پنجابی اکثریتی اضلاع پاکستان میں شامل کردیے گئے اور 12 ھندو پنجابی و سکھ پنجابی اکثریتی اضلاع بھارت میں شامل کردیے گئے۔ پاکستان کا گورنر جنرل کراچی کا رھنے والا محمد علی جناح بن گیا۔ پاکستان کا وزیرِ اعظم اترپردیش کا اردو بولنے والا ھندوستانی مھاجر لیاقت علی خان بن گیا۔ پنجابی تباہ و برباد ھونے کے بعد ذلت و رسوائی کا سامنا کرنے لگے بلکہ پاکستان کے قیام کی سات دھائیاں گزرنے کے بعد بھی کر رھے ھیں۔

Wednesday 21 March 2018

پاکستان میں اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا مستقبل اب تاریک ھے۔

یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر اس وقت بڑی تیزی کے ساتھ سماجی تنہائی میں مبتلا ھوتے جا رھے ھیں۔ کیونکہ مھاجر عصبیت میں مبتلا ھوکر الطاف حسین کی حمایت اور ایم کیو ایم کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے پنجابی ' پٹھان ' سندھی ' بلوچ اب یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں سے میل ملاقات کرنے سے اجتناب کرنے لگے ھیں۔

اس وقت یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا سب سے بڑا مسئلہ روزگار بنتا جا رھا ھے۔ روزگار کے شعبے ذراعت ' صنعت ' تجارت اور سروسز ھوتے ھیں۔ سیاست اور صحافت کا شمار بھی سروسز کے شعبے میں ھوتا ھے۔ پاکستان کے قیام کے بعد یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر نے ذراعت ' صنعت اور تجارت کے شعبوں میں بھی روزگار کے ذرائع اختیار کرنے کے بجائے خود کو سروسز کے شعبے تک محدود کرلیا اور وہ بھی زیادہ تر حکومتی اداروں اور سرکاری سروسز کے شعبوں میں اور خاص طور پر ان حکومتی اداروں اور سرکاری سروسز کے شعبوں میں جو کراچی یا بڑے شہری علاقوں میں ھیں۔ لیکن اب پنجابی ' پٹھان ' سندھی ' بلوچ بھی کراچی اور بڑے شہری علاقوں کے حکومتی اداروں اور سرکاری سروسز کے شعبوں میں اپنی آبادی کے مطابق حصہ چاھتا ھے۔

ھندوستانی مھاجر سے مراد یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی ' گجراتی ' راجستھانی ' بہاری لیا جاتا ھے۔ مھاجر کی آبادی 4٪ گجراتی ' راجستھانی ' بہاری کی ھے اور 4٪ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کی ھے۔ گجراتی ' راجستھانی ' بہاری نے تو سیاست ' صحافت ' حکومتی اداروں اور سرکاری سروسز کے شعبوں کے علاوہ بھی روزگار کے ذرائع اختیار کیے ھوئے ھیں لیکن یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کا انحصار ابھی تک سیاست ' صحافت ' حکومتی اداروں اور سرکاری سروسز کے شعبوں پر ھے۔ 

سیاست ' صحافت ' حکومتی اداروں اور سرکاری سروسز کے شعبوں میں وفاقی سطخ پر پنجابیوں کا اور صوبائی سطح پر سندھیوں کا غلبہ ھوچکا ھے۔ پنجابی اور سندھی کسی صورت بھی یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کو سیاست ' صحافت ' حکومتی اداروں اور سرکاری سروسز کے شعبے میں ان کی آبادی سے زیادہ حصہ نہیں دیں گے۔ لہٰذا سیاست ' صحافت ' حکومتی اداروں اور سرکاری سروسز کے شعبوں میں 4٪ حصہ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کو ملنے کے بعد باقی 96٪ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کیا کریں؟ اس لیے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا سیاسی ' سماجی اور معاشی مستقبل تاریک ھی نظر آتا ھے۔

پٹھانوں کا مستقبل تاریک کیوں ھے؟

پچھلے ھزار سال کی تاریخ بتاتی ھے کہ افغانیوں نے اپنی دھرتی افغانستان کو ترقی دے کر حلال رزق کے ذرائع پیدا کرنے کے بجائے مسلمان کا روپ دھار کر دوسری قوموں کی دھرتی پر قبضے اور وسائل کی لوٹ مار کرنے کے بعد مسلمان کے بجائے؛

1۔ خیبر پختونخواہ میں قوم پرست پختون بن کر اس دھرتی کو اپنی دھرتی اور اس قوم کے وسائل کو اپنے وسائل قرار دیا اور مقبوضہ ھندکو قوم پر الزام تراشی شروع کردی کہ وہ پختونوں کے ساتھ ظلم ' زیادتی اور نا انصافی کرتے ھیں۔

2۔ بلوچستان میں قوم پرست پشتون بن کر اس دھرتی کو اپنی دھرتی اور اس قوم کے وسائل کو اپنے وسائل قرار دیا اور مقبوضہ براھوئی قوم اور بلوچ پر الزام تراشی شروع کردی کہ وہ پشتونوں کے ساتھ ظلم ' زیادتی اور نا انصافی کرتے ھیں۔

3۔ پنجاب ' سندھ اور کراچی میں قوم پرست پٹھان بن کر اس دھرتی کے کچھ علاقوں کو اپنی دھرتی اور اس قوم کے وسائل کو اپنے وسائل قرار دیا اور پنجاب میں پنجابی ' سندھ میں سندھی اور کراچی میں مھاجر قوم پر الزام تراشی شروع کردی کہ وہ پٹھانوں کے ساتھ ظلم ' زیادتی اور نا انصافی کرتے ھیں۔

افغانیوں کے اپنی دھرتی افغانستان کو ترقی دے کر حلال رزق کے ذرائع پیدا کرنے کے بجائے دوسری قوموں کی دھرتی پر قبضے اور وسائل کی لوٹ مار کرنے کے لالچ کا نتیجہ یہ نکلا ھے کہ 4 کروڑ 98 لاکھ افغانی ' پختون ' پشتون ' پٹھان اس وقت افغانستان ' فاٹا ' بلوچستان ' خیبر پختونخواہ ' پنجاب ' سندھ اور کراچی میں بکھر چکے ھیں۔ اس لیے افغانیوں کا افغانستان میں تاجک ' ھزارہ ' ایمک ' ازبک ' ترکمان کے ساتھ ' خیبر پختونخواہ میں پختونوں کا ھندکو پنجابی کے ساتھ ' بلوچستان میں پشتونوں کا براھوئی اور بلوچ کے ساتھ ' پٹھانوں کا پنجاب میں پنجابی  کے ساتھ ' سندھ میں سندھی  کے ساتھ اور کراچی میں مھاجر کے ساتھ سیاسی ' سماجی اور معاشی ٹکراؤ ھے۔ اس لیے افغانیوں کا اپنے وطن افغانستان ' پختونوں کا خیبر پختونخواہ ' پشتونوں کا بلوچستان اور پٹھانوں کا پنجاب ' سندھ اور کراچی میں سیاسی ' سماجی اور معاشی مستقبل تاریک ھی نظر آتا ھے۔

کردستانی بلوچوں کا مستقبل تاریک کیوں ھے؟

کردستانی بلوچوں کا مستقبل تاریک ھونے کی وجہ یہ ھے کہ؛ کردستان سے قبائل کی شکل میں آکر پہلے بروھیوں کے ساتھ جنگ کرکے 1486 میں قلات پر قبضہ کرلیا۔ پھر مغل بادشاہ ھمایوں نے 1555 میں کردستانی بلوچوں کو پنجابیوں کی مزاھمت کا مقابلہ کرنے کے لیے پنجاب میں آباد کیا اور ان کو بڑی بڑی جاگیریں دیں جبکہ اس سلسلے کو انگریزوں نے بھی جاری رکھا۔ اس طرح پنجاب کے جنوبی علاقوں میں کردستانی بلوچوں کا قبضہ ھوگیا۔ 1783 میں عباسی کلھوڑا کے ساتھ جنگ کرکے کردستانی بلوچوں نے سندھ پر قبضہ کرلیا اور سندھ کے علاقے میں جاگیریں بنانا شروع کردیں۔

پاکستان کی سیاست ' صحافت ' ملٹری بیوروکریسی ' سول بیوروکریسی ' صنعت کے شعبوں ' تجارت کے شعبوں ' ھنرمندی کے شعبوں اور پاکستان کے بڑے بڑے شھروں پر اب پنجابیوں کا کنٹرول قائم ھوتا جا رھا ھے۔ پنجابیوں میں قومپرستی بھی بڑی تیزی سے فروغ پا رھی ھے۔ پنجابیوں کے سماٹ ' ھندکو ' بروھی قوموں اور کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی برادریوں کے ساتھ خوشگوار سماجی ' کاروباری اور سیاسی مراسم ھیں لیکن کردستانی بلوچوں کے ساتھ خوشگوار سماجی ' کاروباری اور سیاسی مراسم نہیں ھیں۔

بروھیوں ' ڈیراہ والی پنجابیوں ' ریاستی پنجابیوں ' ملتانی پنجابیوں اور سماٹ  سندھیوں کے علاقے ابھی تک شھری سے زیادہ دیہی علاقے ھیں۔ ان علاقوں میں اپنی قبائلی افرادی قوت کی بنا پر قبضہ کرنے کے بعد سے لیکر اب تک کردستانی بلوچ بلوچستان ' جنوبی پنجاب اور سندھ کے دیہی علاقوں میں ھی اپنی قبضہ گیری اور بالادستی قائم کیے ھوئے ھیں۔ اس لیے پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے 50 بڑے شہروں میں سے کردستانی بلوچوں کی کسی ایک شہر میں بھی اکثریت نہیں ھے اور نہ ھی معاش کے مستقل ذرائعے ذراعت ' صنعت ' تجارت اور ھنرمندی کے شعبوں میں کردستانی بلوچ کو مھارت حاصل ھے۔ جبکہ پنجاب میں ڈیراہ والی پنجابیوں ' ریاستی پنجابیوں ' ملتانی پنجابیوں کی ' سندھ میں سماٹ کی اور بلوچستان میں بروھیوں کی کردستانی بلوچوں کے ساتھ محاذ آرائی میں اضاٖفہ ھونا ھے۔ جس کی وجہ سے اب کردستانی بلوچوں کا پنجاب ' سندھ اور بلوچستان میں سیاسی ' سماجی اور معاشی مستقبل تاریک ھی نظر آتا ھے۔