Tuesday 19 December 2017

پنجاب میں "سرائیکی سازش" کرنے والے کون ھیں؟

جنوبی پنجاب کا علاقہ ریاستی پنجابیوں ' ملتانی پنجابیوں ' ڈیرہ والی پنجابیوں کا علاقہ ھے۔ جنوبی پنجاب میں آباد ھونے والے بلوچ ' پٹھان ' گیلانی ' قریشی ' عباسی خود کو ویسے ھی سرائیکی کہلواتے ھیں جیسے اترپردیش ' راجستھان ' گجرات ' مھاراشترا وغیرہ سے آکر جنوبی سندھ میں آباد ھونے والے خود کو مھاجر کہلواتے ھیں۔

پنجاب میں آباد ھونے والے عربی نزاد گیلانیوں ‘ قریشیوں ‘ عباسیوں کو پنجابیوں نے مسلمان سمجھ کر عزت بھی دی اور پنجاب میں رھنے کی جگہ بھی دی۔ زمین اور جائیداد بھی دی۔ کیا پتہ تھا کہ جنوبی پنجاب میں آباد ھونے والے گیلانی ‘ عباسی ‘ قریشی ' مسلمان کے روپ میں قبضہ گیر ' سازشی اور فسادی نکلیں گے۔

بلوچوں کو 1555 میں مغل بادشاہ ھمایوں نے پنجابیوں کی مغلوں کے خلاف محاذآرائی کی وجہ سے سردار چاکر خان رند کی سربراھی میں پنجاب میں آباد کیا۔ اس کے بعد مغلوں کے خلاف پنجابیوں کی مزاھمت کے بڑھنے کی وجہ سے مزید بلوچ پنجاب آتے رھے اور مغلوں سے جاگیریں لے کر مغلوں کے وفادار بن کر جنوبی پنجاب پر قابض ھونے لگے۔

پٹھان بھی مسلمان کے نام پر ھندوستان کو لوٹنے کے لیے حملہ کرنے والے ترک مسلمانوں کی فوج میں شامل ھو کر پنجاب میں آ آ کر آباد ھوتے گئے۔ شیر شاہ سوری کے دور میں پٹھانوں کو باقائدہ پنجاب میں جاگیریں دے کر آباد کیا جانے لگا۔ اس کے بعد جب پٹھانوں کو افغانستان کی ریاست کو 1747 میں قائم کرکے درانی سلطنت قائم کرنے والے احمد شاہ ابدالی کی سرپرستی حاصل ھوئی تو پٹھان سارے پنجاب پر قابص ھو گئے۔ پنجاب میں لوٹ مار بھی کرنے لگے۔ جسکے بعد مھاراجہ رنجیت سنگھ نے 1799 میں نہ صرف پٹھانوں کا لاھور ' 1818 میں ملتان اور پشاور پر سے قبضہ ختم کروایا بلکہ افغانستان کے علاقے میں بھی ان پٹھانوں کو دبا کر رکھا تاکہ یہ پٹھان دوبارہ پنجاب میں داخل ھوکر لوٹ مار اور قبضہ گیری نہ کر سکیں۔

1839 میں مھاراجہ رنجیت سنگھ کے انتقال کر جانے اور 1849 میں انگریزوں کے پنجاب پر قبضے کے دور میں ان بلوچوں ‘ پٹھانوں اور عربی نزاد گیلانیوں ‘ قریشیوں ‘ عباسیوں کو پِھر سے پنجاب میں لوٹ مار کرنے ' قبضہ گیری کرنے ' پنجاب اور پنجابیوں کے خلاف بھرپور سازشیں کرکے "سیکولر پنجاب کو ریلیجیس پنجاب" میں تبدیل کرنے کے لیے پنجابی مسلمانوں کو سکھ پنجابیوں اور ھندو پنجابیوں سے بدظن اور متنفر کرنے کی سازشیں کرنے کا موقع مل گیا۔ جس پر انگریز سرکار نے انعام کے طور پر جنوبی پنجاب میں ان کو جاگیریں اور دریا کے کچے کی زمینیں دیں۔

جنوبی پنجاب کے علاقے بہاول پور میں آباد عربی نزاد قبیلے عباسی کے نواب ' نواب آف بہاول پور نے انگریز کے ساتھ "وفادار" نبھائی- لہذا انگریز سرکار نے پاکستان کے قیام تک بہاول پور کی ریاست کا والی عربی نزاد قبیلے عباسی کو بنائے رکھا۔

جنوبی پنجاب کے علاقے ملتان میں آباد عربی نزاد قبیلے قریشی کے سربراہ اور گدی نشین مخدوم شاہ محمود نے رائے احمد کھرل کی انگریزوں کے خلاف پنجاب کی آزادی کی تحریک میں انگریز کمشنر کومقامی آبادی کی بے چینی کے متعلق معلومات اور اطلاعات پہنچائیں اور سرکاری فوج کی مدد کے لیے پچیس سو سواروں کی ایک ملتانی پلٹن تیار کر کے دی- لہذا انگریزوں نے اس “ خدمت “ کے عوض اسے قیمتی جاگیر' نقد انعام اور آٹھ کنویں زمین عطاء کی-

جنوبی پنجاب کے علاقے ملتان میں آباد عربی نزاد قبیلے گیلانی کے سربراہ اور گدی نشین مخدوم سید نور شاہ نے انگریز سرکار کا ساتھ دیا۔ لہذا انگریز سرکار نے اس “ خدمت “ کے عوض خلعت اور سند سے نوازا اور بعد میں کاسہ لیسی کے صلے گیلانی خاندان کو جاگیریں بھی ملیں-

جنوبی پنجاب کے علاقے ملتان میں آباد پٹھان قبیلے کے گردیزی خاندان نے انگریز سرکار کا بھرپور ساتھ دیا۔ لہذا انگریز سرکار نے انگریز کی " مدد " کر نے کے صلے میں جاگیریں عطاء کیں-

جنوبی پنجاب کے علاقے خان گڑھ میں آباد پٹھان قبیلے کے نوابزادگان کے جد امجد اللہ داد خان نے انگریزوں کے خلاف تحریک چلانے والوں کو کچلنے میں انگریزوں کا بھرپور ساتھ دیا- لہذا نگریز سرکار نے اس “ خدمت “ کے عوض اسے دو بار خصوصی خلعت دی اور انعام میں جاگیریں عطاء کیں-

جنوبی پنجاب میں آباد بلوچ قبیلے مزاری کے سردار امام بخش مزاری نے کھل کر انگریزوں کا ساتھ دیا- لہذا انگریز سرکار نے انگریز کی " مدد " کر نے کے صلے میں اسے سر کا خطاب دیا اور جاگیریں عطا کیں-

جنوبی پنجاب میں آباد بلوچ قبیلے دریشک کے سردار بجاران خان دریشک نے انگریزوں کے خلاف تحریک چلانے والوں کے خلاف لڑنے کے لیے دریشکوں کا ایک خصوصی دستہ انگریزوں کے پاس بھیجا- لہذا انگریز سرکار نے انگریز کی " مدد " کر نے کے صلے میں دریشکوں کو جاگیریں عطا کیں-

یہ بلوچ ‘ پٹھان ‘ گیلانی ‘ عباسی ‘ قریشی پاکستان بننے کے بعد ایوب خان اور یحییٰ خان کے دور میں سندھ اور بلوچستان کے بلوچوں ' سرحد (موجودہ خیبر پختونخواہ) کے پٹھانوں ' سندھ کے عربی نزاد مخدوموں ‘ گیلانیوں ‘ جیلانیوں ' قریشیوں ‘ عباسیوں اور کراچی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کو اپنے ساتھ ملا کر اور مغربی پاکستان میں ون یونٹ قائم کروا کر حکومت کرتے رھے اور بنگالیوں کی گالیاں پنجابیوں کو پڑتی رھیں۔ اب یہ بلوچ ‘ پٹھان ‘ گیلانی ‘ عباسی ‘ قریشی ' سندھیوں کی پارٹی پی پی پی کی سازش کا حصہ بن کر اور سرائیکی کا روپ دھار کر ایک بار پِھر پنجاب اور پنجابیوں کو لوٹنے کے چکر میں ھیں۔


یہ بلوچ ‘ پٹھان ‘ گیلانی ‘ عباسی ‘ قریشی جاگیردار پاکستان کے قیام سے پہلے پنجابیوں کو مسلمان پنجابیوں اور غیر مسلم پنجابیوں میں تقسیم کرنے کے لیے مذھبی جذبات کو اشتعال دے کر آپس میں لڑواتے رھتے تھے۔ اب یہ بلوچ ‘ پٹھان ‘ گیلانی ‘ عباسی ‘ قریشی جاگیردار جنوبی پنجاب میں سرائیکی سازش کر رھے ھیں تاکہ پنجاب میں ملتانی پنجابیوں ' ریاستی پنجابیوں ' ڈیرہ والی پنجابیوں اور عام بلوچ ‘ پٹھان ‘ گیلانی ‘ عباسی ‘ قریشی آبادگاروں کو آپس میں پنجابی اور سرائیکی کی بنیاد پر لڑوا کر جنوبی پنجاب پر اپنا قبضہ برقرار اور اپنی جاگیروں کو محفوظ رکھ سکیں۔

Monday 18 December 2017

کیا پنجابی قوم مریم نواز کی قیادت میں متحد ھونے والی ھے؟

پنجاب کی سماجی اور سیاسی زندگی صدیوں سے برادریوں کی بنیاد پر متحرک رھتی آرھی ھے۔ پنجاب کی 10 بڑی برادریوں میں سے ارائیں ‘ اعوان ‘ جٹ ‘ راجپوت ’ کشمیری ‘ گجر اور شیخ برادریاں پنجاب اور پنجابی قوم کی بڑی برادریاں ھیں جو کہ پنجاب کی آبادی کا 75 % ھیں۔ جبکہ پنجابی بولنے والی افغان یا پٹھان ‘ بلوچ اور ھندوستانی مھاجر برادریاں بھی پنجاب میں رھتی ھیں جو کہ مختلف ادوار میں پنجاب پر حملہ آور ھوکر پنجاب پر قابض ھونے والوں یا پنجاب میں نقل مکانی کرنے والوں کی اولادیں ھیں جو کہ پنجاب کی آبادی کا 15 % ھیں۔ انکے علاوہ پنجاب کی آبادی کا 10 % دوسری چھوٹی چھوٹی برادریاں ھیں جن میں ازبک ' ایرانی اور عراقی نزاد برادیاں بھی شامل ھیں جوکہ اب پنجابی قوم کا حصہ بن چکی ھیں۔

پنجاب میں آباد پٹھانوں اور بلوچوں کو تو مغلوں کے دور سے لیکر انگریزوں کے دور تک (سوائے مھاراجہ رنجیت سنگھ کے دور کے) پنجاب میں نہ صرف سیاسی ' سماجی اور انتظامی بالادستی حاصل رھی بلکہ پنجاب کے بڑے بڑے جاگیردار بھی پٹھان اور بلوچ تھے یا پھر ان پٹھانوں اور بلوچوں کی اتحادی عباسی ' قریشی ' گیلانی برادریاں اور ایرانی ' عربی اور عراقی نزاد خاندان۔ لیکن 1947 میں پاکستان کے قیام کے وقت پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے اور پنجاب کی تقسیم کے نتیجے میں 20 لاکھ پنجابیوں کے قتل جبکہ 2 کروڑ پنجابیوں کے دربدر ھوجانے اور پاکستان کا وزیرِ اعظم اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر لیاقت علی خان کے بن جانے کی وجہ سے اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کو بھی پنجاب کے شھری علاقوں میں اپنی سیاسی ' سماجی اور انتظامی بالادستی قائم کرنے کا موقع مل گیا۔ پنجاب میں آباد پٹھانوں اور بلوچوں کی سیاسی ' سماجی اور انتظامی بالادستی میں بھی مزید اضافہ ھوگیا۔ لیکن پنجاب اور پنجابی قوم کی بڑی برادریوں ارائیں ‘ اعوان ‘ جٹ ‘ راجپوت ’ کشمیری ‘ گجر اور شیخ کو نہ تو پنجاب میں سیاسی بالادستی حاصل رھی۔ نہ سماجی بالادستی حاصل رھی۔ نہ انتطامی بالادستی حاصل رھی۔ اس لیے ھی پاکستان کے قیام کے بعد پنجاب کا پہلا وزیرِ اعلی پنجاب اور پنجابی قوم کی بڑی برادریوں ارائیں ‘ اعوان ‘ جٹ ‘ راجپوت ’ کشمیری ‘ گجر اور شیخ میں سے بننے کے بجائے پٹھان برادری کا افتخار حسین ممدوٹ بنا جبکہ 25 جنوری 1949 کو اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کی طرف سے پاکستان میں سب سے پہلے پنجاب کی منتخب اسمبلی کو برخاست کرکے پنجاب میں پاکستان کا سب سے پہلا گورنر راج نافذ کرنے کے بعد کاکڑ پٹھان سردار عبدالرب نشتر کو پنجاب کا گورنر نامزد کیا گیا۔

پنجاب میں آباد پٹھان ‘ بلوچ ' ھندوستانی مھاجر برادریوں اور عباسی ' قریشی ' گیلانی جاگیردار وں اور مخدوموں جبکہ ایرانی ' عربی ' عراقی نزاد خاندانوں کو پاکستان کے قیام سے لیکر ھی پنجاب میں سیاسی ' سماجی اور انتظامی بالادستی حاصل رھی ھے۔ اس لیے پنجاب اور پنجابی قوم کی بڑی برادریوں ارائیں ‘ اعوان ‘ جٹ ‘ راجپوت ’ کشمیری ‘ گجر اور شیخ کی سیاسی ناپختگی ' سماجی مفلوک الحالی اور انتظامی کسمپسری نے انہیں اپنے ھی دیش پر حملہ آور ھوکر قابض ھونے والوں یا نقل مکانی کرکے آنے والوں کی اولادوں کا کاسہ لیس بناکر رکھ دیا۔ جسکی وجہ سے ارائیں ‘ اعوان ‘ جٹ ‘ راجپوت ’ کشمیری ‘ گجر اور شیخ آپس میں دست و گریباں رھنے لگے۔ جس سے پنجابی قوم کی اھمیت ختم اور برادریوں کی اھمیت بڑھنے لگی۔ جسے پنجاب میں آباد پٹھان ‘ بلوچ ' ھندوستانی مھاجر برادریاں اور عباسی ' قریشی ' گیلانی جاگیردار اور مخدوم جبکہ ایرانی ' عربی ' عراقی نزاد خاندان "لڑاؤ اور حکومت کرو" کے اصول کی بنیاد پر اپنے سیاسی ' سماجی اور انتظامی تسلط کے لیے مزید فروغ دیتے رھے۔ لیکن پاکستان کے قیام کے 70 سال بعد اب پنجاب میں پی پی پی چونکہ پنجاب کے بلوچوں کی اکثریت کی سیاسی جماعت بن چکی ھے۔ پی ٹی آئی پنجاب کے پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں کی اکثریت کی سیاسی جماعت بن چکی ھے۔ اس لیے ارائیوں ‘ اعوانوں ‘ جٹوں ‘ راجپوتوں ’ کشمیریوں ‘ گجروں اور شیخوں کی نہ پی پی پی میں اور نہ پی ٹی آئی میں کوئی عزت ھے۔ نہ اھمیت ھے۔ نہ گنجائش ھے۔ لہذا ن لیگ پنجاب کے ارائیوں ‘ اعوانوں ‘ جٹوں ‘ راجپوتوں ’ کشمیریوں ‘ گجروں اور شیخوں کی اکثریت کی سیاسی جماعت بنتی جا رھی ھے۔

پنجاب کے بلوچ خود کو سرائیکی کہلواتے ھیں اور پنجاب کے جنوبی علاقے میں اپنی سیاسی اور انتطامی بالادستی قائم کرنے کے لیے پنجاب کو تقسیم کرکے جنوبی پنجاب میں سرائیکی صوبہ بنانے کی سازشیں کر رھے ھیں جسے بلوچ نزاد آصف زرداری اور بلاول زرداری کی کھلم کھلا حمایت حاصل ھے۔ آصف زرداری اور بلاول زرداری سرائیکی صوبہ بنانے کا اعلان جنوبی پنجاب میں پی پی پی کے ھونے والے جلسوں میں کرتے بھی رھتے ھیں۔

پنجاب کے پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں کو پاکستان کے قیام سے لیکر ھی پنجاب میں سیاسی اور انتطامی بالادستی حاصل رھی تھی۔ لیکن ن لیگ کے اقتدار میں آجانے کے بعد ن لیگ میں پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں کو من پسند سیاسی اور انتطامی بالادستی حاصل نہ ھوپانے کی وجہ سے اب پنجاب میں پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں کی سیاسی اور انتطامی بالادستی برقرار نہیں رھی۔ اس لیے پنجاب کے پٹھان اور ھندوستانی مھاجر پنجاب میں اپنی سیاسی اور انتطامی بالادستی پھر سے بحال کرنے کی جدوجہد میں مصروف ھیں۔ اس لیے پٹھان نزاد عمران خان اور پٹھان نزاد جہانگیر ترین پنجاب میں آباد پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں کو پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم پر متحد اور سیاسی طور پر مضبوط کر کے جلسوں اور جلوسوں میں مصروف رھتے ھیں تاکہ محلاتی سازشوں ' جلسوں اور جلوسوں کے ذریعے پنجاب سے ن لیگ کی عوامی حمایت ختم کروا کر پی ٹی آئی کی پنجاب میں حکومت قائم کرکے پنجاب میں پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں کی سیاسی اور انتطامی بالادستی قائم کی جاسکے۔

قصہ مختصر !!! عمران خان نے پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں کو پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم پر متحد اور سیاسی طور پر مضبوط کر کے جبکہ آصف زرداری نے بلوچوں کو پی پی پی کے پلیٹ فارم پر متحد اور سیاسی طور پر مضبوط کر کے ارائیں ‘ اعوان ‘ جٹ ‘ راجپوت ’ کشمیری ‘ گجر اور شیخ برادریوں کو ن لیگ کے پلیٹ فارم پر متحد اور سیاسی طور پر مضبوط ھونے کا راسته دکھا دیا ھے۔ اس لیے اب پنجاب میں ارائیں ‘ اعوان ‘ جٹ ‘ راجپوت ’ کشمیری ‘ گجر اور شیخ برادریوں نے آپس کے برادریوں کے اختلافات اور محاذآرائی کو ختم کر کے پنجابی قوم کی بنیاد پر مزید متحد ھوتے جانا ھے اور انکی پی پی پی کے بلوچوں ' پی ٹی آئی کے پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں کے ساتھ سیاسی کے علاوہ سماجی محاذآرائی بھی بہت بڑھ جانی ھے۔

پنجابی قوم کی بڑی برادریوں ارائیں ‘ اعوان ‘ بٹ ‘ جٹ ' راجپوت ’ گجر ' شیخ اور دیگر چھوٹی برادریوں پر مشتمل پنجابی قوم صرف پنجاب کی ھی سب سے بڑی آبادی نہیں ھیں۔ بلکہ خیبر پختونخواہ کی دوسری بڑی آبادی ' بلوچستان کے پختون علاقے کی دوسری بڑی آبادی ' بلوچستان کے بلوچ علاقے کی دوسری بڑی آبادی ' سندھ کی دوسری بڑی آبادی ' کراچی کی دوسری بڑی آبادی بھی پنجابی ھی ھیں۔ اس لیے شہری علاقوں' صنعت ' تجارت ' ذراعت ' سیاست ' صحافت ' ھنرمندی اور سرکاری ملازمت کے شعبوں میں پنجابی چھائے ھوئے نظر آتے ھیں۔ لیکن پنجابی قوم کو پاکستان کی مظبوط ' مستحکم اور باعزت قوم بنانے کے لیے پنجابی قوم کی بنیاد "پنجاب" میں پنجابی قوم کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ضروری تھا۔

ن لیگ کی رھنما مریم نواز کے بے خوف ' نڈر ' بے باک ھونے کی وجہ سے اور جیل میں رھنے کا تجربہ بھی کرلینے کے بعد اب مریم نواز نے پنجاب کا مقبول اور انتہائی طاقتور سیاستدان بن جانا ھے۔ ن لیگ کو چونکہ ارائیں ‘ اعوان ‘ جٹ ‘ راجپوت ’ کشمیری ‘ گجر اور شیخ برادریوں کی اکثریت کی حمایت حاصل ھوتی جارھی ھے جوکہ پنجاب اور پنجابی قوم کی بڑی برادریاں ھیں اور پنجاب کی آبادی کا 75 % ھیں۔ مریم نواز خود بٹ ھے۔ مریم نواز کا شوھر کیپٹن صفدر اعوان ھے۔ مریم نواز کا داماد راحیل منیر ارائیں ھے۔ بٹ ' راجپوت ’ گجر اور شیخ برادریوں کی واضح اکثریت کی حمایت پہلے ھی ن لیگ کو حاصل تھی لیکن ن لیگ کی رھنما مریم نواز کے سیاسی طور پر متحرک ھونے اور جیل جانے جبکہ اپنے بیٹے جنید صفدر اعوان اور داماد راحیل منیر ارائیں کو سیاست کے میدان میں اتارنے کی وجہ سے ارائیں اور اعوان برادریوں کی واضح اکثریت کی حمایت بھی اب ن لیگ کو حاصل ھونا شروع ھوجانی ھے۔ جبکہ جٹ برادری کو بھی ق لیگ کی حمایت سے دسبردار ھوکر اب ن لیگ کی واضح اکثریت کے ساتھ حمایت کرنی پڑے گی۔ کیونکہ چوھدری شجاعت اور چوھدری پرویز الٰہی کی ناقص سیاسی حکمت عملیوں کی وجہ سے پنجاب اور پنجابی قوم کی بڑی برادریاں اور پنجاب کی آبادی کا 75 % ارائیں ‘ اعوان ‘ جٹ ‘ راجپوت ’ کشمیری ‘ گجر اور شیخ ق لیگ کے پلیٹ فارم پر نہ متحد رہ سکے اور نہ منظم ھوسکے۔ اس لیے ارائیں ‘ اعوان ‘ بٹ ‘ راجپوت ’ گجر اور شیخ کے ن لیگ کے پلیٹ فارم پر متحد اور منظم ھونے کے بعد جٹ برادری کو بھی ن لیگ کے پلیٹ فارم پر متحد اور منظم ھونا ھوگا۔ ورنہ جٹ برادری ایک تو ق لیگ ' ن لیگ ' پی ٹی آئی اور پی پی پی میں تقسیم ھوکر اپنی سیاسی اھمیت برقرار نہیں رکھ پائے گی اور دوسرا ارائیں ‘ اعوان ‘ بٹ ‘ راجپوت ’ گجر اور شیخ برادریوں سے سیاسی طور پر محاذ آرائی کی وجہ سے اپنی سماجی عزت بھی برقرار نہیں رکھ پائے گی۔ جبکہ نقصان پنجابی قوم کا بھی ھو جائے گا۔


پنجاب میں ارائیں ‘ اعوان ‘ جٹ ‘ راجپوت ’ کشمیری ‘ گجر اور شیخ برادریوں کے آپس کے برادریوں کے اختلافات اور محاذآرائی کو ختم کر کے پنجابی قوم کی بنیاد پر متحد ھوکر اور سیاسی طور پر مضبوط ھوکر پی ٹی آئی کے پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں اور پی پی پی کے بلوچوں کے ساتھ سیاسی محاذآرائی کرنے سے پنجاب میں پنجابی قوم کی بنیاد مظبوط ھو جانی ھے۔ پنجاب میں پنجابی قوم کی بنیاد مظبوط ھونے کا سماجی ‘ سیاسی اور کاروباری اثر پنجاب سے باھر کراچی ‘ سندھ ‘ بلوچستان کے بلوچ علاقے ‘ بلوچستان کے پشتون علاقے ‘ خیبر پختونخواہ کے پختون علاقے پر بھی پڑے گا۔ کراچی میں ھندوستانی مھاجروں کے سیاسی ' سماجی اور انتظامی تسلط سے گجراتی اور راجستھانی برادریاں نجات چاھتی ھیں۔ سندھ میں بلوچوں کے سیاسی ' سماجی اور انتظامی تسلط سے سماٹ اور سید برادریاں نجات چاھتی ھیں۔ بلوچستان کے بلوچ علاقے میں بلوچوں کے سیاسی ' سماجی اور انتظامی تسلط سے بروھی برادری نجات چاھتی ھے۔ بلوچستان کے پشتون علاقے میں پشتونوں کے سیاسی ' سماجی اور انتظامی تسلط سے بروھی برادری نجات چاھتی ھے۔ خیبر پختونخواہ کے پختون علاقے میں پختونوں کے سیاسی ' سماجی اور انتظامی تسلط سے ھندکو برادری نجات چاھتی ھے۔ لہذا پنجابی قوم کے کراچی میں گجراتی اور راجستھانی برادریوں کے ساتھ ‘ سندھ میں سماٹ اور سید برادریوں کے ساتھ ‘ بلوچستان میں بروھی برادری کے ساتھ ‘ خیبر پختونخواہ میں ھندکو برادری کے ساتھ اچھے سماجی ‘ سیاسی اور کاروباری مراسم قائم ھونا شروع ھو جائیں گے۔ جبکہ پنجابی قوم پاکستان کی سب سے بڑی قوم ھونے کی وجہ سے پاکستان کی مظبوط ' مستحکم اور باعزت قوم بن جائے گی۔ انشاء اللہ

پنجاب میں پنجابی قوم پرستی بڑھنے کی وجہ کیا ھے؟

پنجاب میں پنجابی قوم پرستی اب تیزی کے ساتھ بڑھنا شروع ھو گئی ھے۔ ویسے پاکستان میں پنجابی کی آبادی 60% ھے۔ لیکن پنجابی صرف پنجاب کی ھی سب سے بڑی آبادی نہیں ھیں۔ بلکہ خیبر پختونخواہ کی دوسری بڑی آبادی ' بلوچستان کے پختون علاقے کی دوسری بڑی آبادی ' بلوچستان کے بلوچ علاقے کی دوسری بڑی آبادی ' سندھ کی دوسری بڑی آبادی ' کراچی کی دوسری بڑی آبادی بھی پنجابی ھی ھیں۔ اس لیے شہری علاقوں' صنعت ' تجارت ' ذراعت ' سیاست ' صحافت ' ھنرمندی اور سرکاری ملازمت کے شعبوں میں پنجابی چھائے ھوئے نظر آتے ھیں۔ لیکن پنجابی قوم کو پاکستان کی مظبوط ' مستحکم اور باعزت قوم بنانے کے لیے پنجابی قوم کی اصل بنیاد "پنجاب" میں پنجابی قوم پرستی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ضروری تھا۔

پنجاب کی 10 بڑی برادریوں میں سے ارائیں ‘ اعوان ‘ جٹ ‘ بٹ ‘ راجپوت ’ گجر اور شیخ برادریاں پنجاب کی اصل برادریاں ھیں جو کہ پنجاب کی آبادی کا 75 % ھیں۔ جبکہ پٹھان ‘ بلوچ اور ھندوستانی مھاجر برادریاں بھی پنجاب میں رھتی ھیں جو کہ مختلف ادوار میں پنجاب پر حملہ آور ھوکر ' پنجاب پر قابض ھونے والوں یا پنجاب میں نقل مکانی کرنے والوں کی اولادیں ھیں جو کہ پنجاب کی آبادی کا 15 % ھیں۔ انکے علاوہ پنجاب کی آبادی کا 10 % دوسری چھوٹی چھوٹی برادریاں ھیں۔

پنجاب میں پی پی پی چونکہ پنجاب کے بلوچوں کی اکثریت کی سیاسی جماعت بن چکی ھے۔ پی ٹی آئی پنجاب کے پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں کی اکثریت کی سیاسی جماعت بن چکی ھے۔ ن لیگ پنجاب کے ارائیوں ‘ اعوانوں ‘ جٹوں ‘ بٹوں ‘ راجپوتوں ’ گجروں اور شیخوں کی اکثریت کی سیاسی جماعت بن چکی ھے۔ اس لیے اب پنجاب میں ارائیں ‘ اعوان ‘ جٹ ‘ بٹ ‘ راجپوت ’ گجر اور شیخ برادریوں نے آپس کے اختلافات ختم کر کے مزید متحد ھوتے جانا ھے اور انکی پی پی پی کے بلوچوں ' پی ٹی آئی کے پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں کے ساتھ سیاسی کے علاوہ سماجی محاذآرائی بھی بہت بڑھ جانی ھے۔

قصہ مختصر !!! عمران خان نے پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں کو پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم پر متحد اور سیاسی طور پر مضبوط کر کے جبکہ آصف زرداری نے بلوچوں کو پی پی پی کے پلیٹ فارم پر متحد اور سیاسی طور پر مضبوط کر کے ارائیں ‘ اعوان ‘ جٹ ‘ بٹ ‘ راجپوت ’ گجر اور شیخ برادریوں کو ن لیگ کے پلیٹ فارم پر متحد اور سیاسی طور پر مضبوط ھونے کا راسته دکھا دیا ھے۔

پنجاب میں ارائیں ‘ اعوان ‘ جٹ ‘ بٹ ‘ راجپوت ’ گجر اور شیخ برادریوں کے آپس کے برادریوں کے اختلافات اور محاذآرائی کو ختم کر کے پنجابی قوم کی بنیاد پر متحد ھوکر اور سیاسی طور پر مضبوط ھوکر پی ٹی آئی کے پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں اور پی پی پی کے بلوچوں کے ساتھ سیاسی محاذآرائی کرنے سے پنجاب میں پنجابی قوم پرستی کی بنیاد مظبوط ھو جانی ھے۔ پنجاب میں پنجابی قوم پرستی کی بنیاد مظبوط ھونے کا اثر پنجاب سے باھر کراچی ‘ سندھ ‘ بلوچستان کے بلوچ علاقے ‘ بلوچستان کے پشتون علاقے ‘ خیبر پختونخواہ کے پختون علاقے پر بھی پڑے گا۔ پنجابی قوم کے کراچی میں گجراتی اور راجستھانی برادریوں کے ساتھ ‘ سندھ میں سماٹ اور سید برادریوں کے ساتھ ‘ بلوچستان میں بروھی برادری کے ساتھ ‘ خیبر پختونخواہ میں ھندکو برادری کے ساتھ اچھے سماجی ‘ سیاسی اور کاروباری مراسم قائم ھونا شروع ھو جائیں گے۔ جبکہ پنجابی قوم پاکستان کی سب سے بڑی قوم ھونے کی وجہ سے پاکستان کی مظبوط ' مستحکم اور باعزت قوم بن جائے گی۔ انشاء اللہ

ھندوستانی مھاجر جنرل پرویز مشرف پاکستان میں آمریت کیوں چاھتا ھے؟

پاکستان کے سابق اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر جنرل پرویز مشرف نے حکومت کے خلاف بنایا جانے والا سارا خفیہ پلان کھول دیا۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں پاکستان کے سابقہ ھندوستانی مھاجر جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ سپریم کورٹ اچھا کام کر رھی ھے اور اگر فوج کا بھی اس میں کردار ھے تو یہ اچھی بات ھے۔ ملک کی موجودہ صورتحال کا حل یہی ھے کہ عبوری حکومت کو لایا جائے جو سپریم کورٹ کی اجازت سے قانون میں ترامیم بھی کر سکے اور کچھ مدت تک وہ حکومت کرے۔ اگر حکومت کے ختم ھونے کے بعد تین یا چھ ماہ کے لیے عبوری حکومت آتی ھے تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس وقت ملک میں ٹیکنوکریٹ حکومت ضروری ھے۔ اس وقت آئین سے زیادہ ملک کو بچانے اور جمہوری ترامیم کی ضرورت ھے۔ یاد رھے کہ میڈیا پر کافی دنوں سے سرگوشیوں میں کہا جا رھا ھے کہ پاکستان کا طاقتور ادارہ ٹیکنوکریٹ حکومت لانے کی تیاری میں ھے۔ جس کے لیے نمائندوں کے علاوہ نئے وزیر اعظم کا نام بھی چن لیا گیا ھے۔ کچھ دن پہلے پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر نے بیان دیا تھا کہ کچھ طاقتیں حکومت کو گرانا چاھتی ھیں۔

پاکستان کی سیاسی صورتحال یہ ھے کہ؛ پاکستان کی 60 % آبادی پنجابی ھے اور 12 % سندھی ھے۔ اس لیے پاکستان کی سطح پر پنجابی اور سندھ کی سطح پر سندھی کو جمہوریت کا فائدہ ھے۔ لیکن اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر پاکستان میں صرف 4 % ھیں۔ اس لیے جمہوری نطام اور لسانی ماحول میں اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے جمہوری عمل کے ذریعے منتخب ھوکر پاکستان پر حکمرانی کرنے کا امکان نہیں رھتا۔ بلکہ لیاقت علی خان اور پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر اراکین کے لیے انتخابی حلقے بنانے اور سیاسی سرگرمیوں کے لیے کارکن فراھم کرنے کے لیے بھی پاکستان کے پہلے نامزد وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کے دور سے ھی یوپی ' سی پی سے مسلمانوں کو لاکر کراچی ' حیدرآباد اور سندھ کے دیگر شھروں میں آباد کرنے کا سلسلہ شروع کرنا پڑا تھا۔ یوپی ' سی پی سے لاکر کراچی ' حیدرآباد اور سندھ کے دیگر شھروں میں آباد کیے جانے والے آج سندھ کے لیے تباھی اورسندھیوں کے لیے بربادی کا سبب بنے ھوئے ھیں۔

پنجاب پر انگریز کے قبضہ کے وقت انگریز کی فوج کے ساتھ شامل ھوکر یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی 1849 میں پنجاب میں داخل ھونا شروع ھوئے اور پنجاب کے بڑے بڑے شھروں پر قابض ھوگئے۔ اس لیے پنجاب میں ' خاص طور پر پنجاب کے شھروں لاھور اور راولپنڈی میں تو یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی ' جن کو پنجاب میں پنجابی مٹروا اور بھیا کہتے ھیں ' 1849 سے آباد ھوتے آئے ھیں۔ جو آج پنجاب کے لیے تباھی اورپنجابیوں کے لیے بربادی کا سبب بنے ھوئے ھیں اور انہوں نے پنجابیوں کی زبان ' تہذیب اور ثقافت تک کو برباد کرکے رکھ دیا ھے۔

یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی طرف سے پاکستان کے قیام سے لیکر یہ پروپیگنڈا چلا آ رھا ھے کہ " پاکستان میں آمریت ھونی چاھیئے ' جمہوریت نہیں "۔ "آئین سے زیادہ ملک کو بچانے کی ضرورت ھے"۔ "ملک میں ٹیکنوکریٹ حکومت ضروری ھے"۔ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر سیاستدانوں ' صحافیوں ' دانشوروں ' مذھبی رھنماؤں ' سرکاری ملازموں ' ھنر مندوں ' تاجروں نے بار بار یہ کرکے بھی دکھایا۔ جس کے لیے انہوں نے سیاستدانوں کے نا اھل ھونے کی کہانیاں بنا کر ' نالائق ھونے کی داستانیں سناکر اور کرپٹ ھونے کے قصوں کا طوفان برپا کرکے ' سیاستدانوں کی وجہ سے " پاکستان " کے خطرے میں ھونے کا شور مچا مچا کر اور فوج کو " پاکستان " کو بچانے کا واحد ذریعہ قرار دے دے کر پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں 4 بار جمہوریت ختم کروا کر آمریت قائم کروائی۔

یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کو کراچی ' یوپی ' سی کے رسم و رواج اور اردو زبان کے علاوہ اور کسی چیز سے دلچسپی نہیں۔

اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر جب کہتے ہیں کہ پاکستان پہلے تو اس سے انکی مراد کراچی ھوتا ھے نہ کہ پنجاب ' دیہی سندھ ' خیبر پختونخواہ اور بلوچستان۔

اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر جب کہتے ہیں کہ پاکستانیت تو اس سے انکی مراد یوپی ' سی کے رسم و رواج اور اردو زبان ھوتی ھے ' نہ کہ پنجابی ' سندھی ' پٹھان اور بلوچ کے رسم و رواج اور نہ پنجابی ' سندھی ' پشتو اور بلوچی زبان۔

اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر جب کہتے ہیں کہ پاکستانی قوم کی ترقی تو اس سے انکی مراد یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر ہی ھوتے ہیں نہ کہ پاکستان کی اصل قومیں پنجابی ' سندھی ' پٹھان اور بلوچ۔

Saturday 16 December 2017

ملک توڑنے والا بھٹوــــ ملک بچانے کا اعلان کرتا ھے۔

3 مارچ 1971 کو ڈھاکا میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا اجلاس ھونا تھا جو چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے مطالبے پر منسوخ کر دیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں شدید ردّ عمل ھوا۔ اسی مہینے صدر جنرل یحیٰ خان اور چیئرمین بھٹو ڈھاکا پہنچے اور شیخ مجیب الرحمان سے مذاکرات شروع ھوئے۔ مذاکرات ناکام ھونے پر 25 مارچ 1971 کو مشرقی پاکستان میں آرمــی آپــریـشـن شروع ھوا۔ فوجی کاروائی سے پہلے ڈھاکا سے کراچی پہنچنے والی پی آئی اے کی آخری فلائٹ سے چیئرمین بھٹو بھی کراچی واپس پہنچے۔ کراچی ایئرپورٹ پر جناب بھٹو نے بیان دیا : " خـدا کا شکر ھے۔ پاکستان بـچ گیا "۔

کیا آپ بتا سکتے ھیں کہ وہ کونسا پاکستان تھا جو بچا لیا گیا تھا؟

چلیے میں بتاتا ھوں۔ وہ وہ پاکستان تھا جس پر بھٹو نے انتخابات میں شکست کھا کر اور بنگالیوں سے جان چھڑا کر حکومت کرنی تھی۔ اگر پاکستان نہ ٹوٹتا تو بھٹو نے پوری زندگی میں کبھی بھی بر سر اقتدار نہیں آنا تھا اور اقتدار کی ھوس سینے میں دبائے قبر میں چلا جانا تھا۔ اس نے ملک ٹوٹنا گوارا کر لیا لیکن اقتدار کی ھوس نہ چھوڑی اور آخر پٹھان اور ھندوستانی مہاجر جرنیلوں سے ساز باز کرکے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ھوگیا۔

ذوالفقار علی بھٹو سندھی تھا اور 1971 میں پاک فوج کے با اختیار جرنیل پٹھان اور ھندوستانی مہاجر تھے۔ سندھی سیاستدان ' پٹھان اور ھندوستانی مہاجر جرنیلوں کا مفاد سانجھا تھا۔ انہوں نے ذاتی مفاد کی خاطر پاکستان تو توڑا ھی لیکن 1971 سے لیکر آج تک خود کو الزام سے بچانے کے لیے مشرقی بنگال کی علیحدگی کا قصور وار الٹا پنجابیوں کو قرار دیتے رھتے ھیں۔ پنجابی الزام تراشیاں سنتا رھتا ھے۔ پنجابی گالیاں کھاتا رھتا ھے۔ لیکن پنجابی خاموش ھے۔ پنجابی گونگا بہرا بنا ھوا ھے۔ اسے سندھی ' پٹھان اور ھندوستانی مہاجر کی عیاری ' مکاری یا ھوشیاری سمجھا جائے یا پنجابی کی بے حسی ' بے پروائی یا بے واقوفی؟