Thursday 15 October 2020

‏‎ اسلام کی تعلیمات کا مقصد ' ذریعہ اور مرحلے

اللہ کے دین کا نام اسلام ھے۔ اسلام کا مقصد اپنے رسول کی شریعت کے مطابق دین کی تعلیمات پر عمل کرکے اپنے عمل صالح ' خواھشات حسنات والی اور قلبی خیالات حق والے بناکر اپنی آخرت سنوارنا ھوتا ھے۔

اسلام کی تعلیمات کا ذریعہ قرآن ھے۔ قرآن انسانوں کے لیے ھدایت ھے اور اس ھدایت میں  حق کو باطل سے الگ کرنے کی واضح دلیلیں ھیں۔ حق کو باطل سے الگ کرنے کی واضح دلیلیں انسانوں کے لیے بیان ھے۔ قرآن پڑھ کرحق کو باطل سے الگ کرنے کے بیان کو سمجھ کر اسلام میں داخل ھونے کے بعد اپنے رسول کی شریعت کے مطابق دین کی تعلیمات پر عمل کرکے اپنے عمل صالح کیے جاتے ھیں۔ پھر طریقت کا علم حاصل کرکے اپنی خواھشات حسنات والی کی جاتی ھیں۔ پھر حقیقت کا علم حاصل کرکے اپنے قلبی خیالات حق والے کیے جاتے ھیں۔ پھر معرفت کا علم حاصل کرکے صراط مستقیم پر چلا جاتا ھے۔

اللہ پر ' آخرت پر ' فرشتوں پر ' کتابیوں پر ' نبیوں پر ایمان لاکر اسلام میں داخل ھونے۔ جبکہ اسلام کی تعلیمات حاصل کرکے اپنے عمل صالح ' خواھشات حسنات والی اور قلبی خیالات حق والے کرکے صراط مستقیم پر چلنے کے مرحلے ھیں۔ اس لیے یہ سمجھتا ضروری ھے کہ؛

1۔ اللہ پر ' آخرت پر ' فرشتوں پر ' کتابیوں پر ' نبیوں پر ایمان لائے بغیر اسلام میں داخل نہیں ھوا جاسکتا۔ اسلام میں داخل ھونا "ایمان لانے والوں" کا مقام ھے۔

قرآن کی ھدایت ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ھیں صرف بیان نہیں رھتی بلکہ  شفا بھی بن جاتی ھے۔ اس لیے شریعت کے مرحلے سے آگاھی ھونے لگتی ھے۔

2۔ شریعت کا علم حاصل کیے بغیر سوء العمل سے بچا نہیں جاسکتا اور صالح عمل کیے نہیں جاسکتے۔ صالح عمل کرنا "متقیوں" کا مقام ھے۔

"ایمان لانے والوں" کا مقام حاصل کرنے کے بعد اللہ کی محبت میں قربت والے لوگوں کو اور یتیموں کو اور مسکینوں کو اور مسافروں کو مال دینے۔ اور مانگنے والوں پر اور گردنوں  کے چھڑانے میں خرچ کرنے۔ اور صلاۃ قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے۔ اور جب عہد کرلیا جائے تو اس کو پورا کرنے۔ اور تنگدستی میں اور جسمانی تکلیف میں اور معرکہ کارزار کے وقت صبر کرنے سے"متقیوں" کا مقام حاصل ھوتا ھے۔

قرآن کی ھدایت متقیوں کے لیے صرف بیان اور شفا نہیں رھتی بلکہ عبرت بھی بن جاتی ھے۔ اس لیے طریقت کے مرحلے سے آگاھی ھونے لگتی ھے۔

3۔ طریقت کا علم حاصل کیے بغیر سیات والی خواھشات سے بچا نہیں جاسکتا اور حسنات والی خواھشات پر عمل کیا نہیں جاسکتا۔ حسنات والی خواھشات پر عمل کرنا "محسنین" کا مقام ھے۔

"متقیوں" کا مقام حاصل کرنے کے بعد ھر عبادت کے مقام پر اپنی زینت سے آراستہ رھنے اور کھانے اور پینے لیکن اسراف نہ کرنے۔ تمام فحش کاموں سے خواہ ظاھر ھوں یا پوشیدہ ھوں بچنے۔ گناہ کرنے سے بچنے۔ حق کے بغیر زیادتی کرنے سے بچنے۔ ان کو الله کا شریک نہ بنانے جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی۔ الله کے بارے میں ایسی باتیں نہ کہنے جن کا کچھ علم نہ ھو۔ اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرنے۔ زنا کے قریب نہ جانے۔ اس نفس کو قتل نہ کرنے جس کو قتل کرنا اللہ نے حرام کیا ھے۔ یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جانے مگر ایسے طریقے سے کہ جو احسن ھو۔ جب کوئی چیز ناپ کر دینی ھو تو پیمانہ پورا بھرنے اور جب تول کر دینی ھو تو ترازو سیدھی رکھنے۔ ایسی بات کے پیچھے نہ لگنے کہ جس کا علم نہ ھو۔ زمین پر اکڑ کر نہ چلنے۔ کیونکہ یہ سب سَيٍّئُه ھیں جو اللہ کے نزدیک بہت ناپسندیدہ ھیں۔ زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد برپا نہ کرنے۔ صبر کرنے اور صبر پر قائم رھنے اور آپس میں رابطہ رکھنے۔ الله سے ڈرتے رھنے اور اللہ کی خاطر جدوجہد کرتے رھنے اور خوف اور امید کے ساتھ اللہ سے دعائیں مانگتے رھنے سے "محسنین" کا مقام حاصل ھوتا ھے۔

قرآن کی ھدایت محسنین کے لیے صرف بیان اور شفا اورعبرت نہیں رھتی بلکہ رحمت بھی بن جاتی ھے۔ اس لیے حقیقت کے مرحلے سے آگاھی ھونے لگتی ھے۔

4۔ حقیقت کا علم حاصل کیے بغیر قلب کو باطل خیالات سے بچایا نہیں جاسکتا اور حق والے خیالات کی طرف متوجہ نہیں کیا جاسکتا۔ حق والے خیالات کی طرف متوجہ ھونا "مومنین" کا مقام ھے۔

"محسنین" کا مقام حاصل کرنے کے بعد جب الله کا ذکر کیا جائے تو دل لرز جانے۔ اللہ کی آیات پڑھی جائیں تو ایمان مزید بڑھ جانے۔ اللہ پر توکل رکھنے۔ صلاۃ قائم کرنے۔ جو رزق اللہ نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرنے۔ الله کی راہ میں اپنے مال سے اور اپنے نفس سے جدوجہد کرنے۔ اللہ کی  راہ میں جدوجہد کرنے والوں کو پناہ دینے اور ان کی مدد کرنے۔ ھجرت کرنے۔ آخرت کا ارادہ رکھنے اور آخرت کے لیے بھاگ دوڑکرنے جو بھاگ دوڑ آخرت کے لیے ضروری ھے ۔ اپنے نفس پر نبی کو زیادہ حق دار رکھنے اور نبی کی بیویوں کو اپنی  مائیں سمجھنے۔ مومنوں اور مہاجروں کی نسبت خونی رشتہ دار وں کوآپس میں زیادہ حق دار  سمجھنے  سوائے اس کے کہ اپنے سرپرستوں کے ساتھ کوئی معروف فعل کرنا  ھو۔ الله سے ڈرنے اور آپس کے تعلقات درست کرنے اور الله کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے۔ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا پر قائم رھنے۔ اپنی صلاۃ اور اپنی قربانی اور اپنی حیاتی اور اپنی موت اللہ کے لیے رکھنے۔ ھر چیز کا رب اللہ کو سمجھنے۔ اس پر یقین رکھنے کہ الله وہ ھے کہ نہیں ھے کوئی معبود سوائے اس کے اور مومنوں کو الله پر ھی توکل کرنا چاھیے۔ جو الله نے اپنے فضل سے عطا کیا ھے اس پر خوش رھنے۔ نہ کوئی خوف کرنے اور نہ غمگین ھونے۔ الله کی طرف سے دی گئی نعمتوں اور اس کے فضل سے مطمئن رھنے۔ تکلیفیں اٹھاکر اور مصیبتیں برداشت کرکے بھی الله اور رسول کے حکم کو قبول کرتے ھوئے احسن کام کرنے اور تقویٰ اختیار کرنے سے "مومنین" کا مقام حاصل ھوتا ھے۔

قرآن کی ھدایت مومنین کے لیے صرف بیان اور شفا اور عبرت اور رحمت نہیں رھتی بلکہ بشارت بھی بن جاتی ھے۔ اس لیے معرفت کے مرحلے سے آگاھی ھونے لگتی ھے۔

5۔ معرفت کا علم حاصل کیے بغیر صراط الجھیم سے بچا نہیں جاسکتا اور صراط مستقیم پر چلا نہیں جاسکتا۔ صراط مستقیم پر چلنا "مقربین" کا مقام ھے۔

"مومنین" کا مقام حاصل کرنے کے بعد وہ لوگ جنہوں نے الله کو مضبوطی سے پکڑے رکھا تو ان کو وہ اپنی رحمت اور فضل میں داخل کرے گا اور ان کی صِرَاطًا مُّسْتَقِيم کی طرف رھنمائی کرے گا۔ اللہ ھی نے واضح آیات نازل کیں ھیں اور الله ھی جسے چاھتا ھے صِرَاطٍ مُّسْتَقِيم کی طرف ھدایت دیتا ھے۔ تمہارے پاس الله کی طرف سے نور اور كِتَابٌ مُّبِين آگئی ھے۔ اس کے ذریعے سے الله اس کو ھدایت دیتا ھے جو سلامتی کی راھوں کے لیے اس کی رضا کی پیروی کرتا ھے اور ان کو اپنی اجازت سے ظلمات سے نور کی طرف نکالتا ھے اور ان کو صِرَاطٍ مُّسْتَقِيم کی طرف ھدایت دیتا ھے۔ اللہ نے ھدایت کی تھی کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ھے اور اللہ کی ھی عبادت کرنا۔ یہی صِرَاطٌ مُّسْتَقِيم ھے۔ ابلیس نے اللہ سے کہا تھا کہ چونکہ تونے مجھے دھتکارا ھے تو میں تیرے الْمُسْتَقِيم راستے پر ان کے لیے ضرور گھات  لگاتا رھوں گا۔ میں ضرور ان کے لیے زمین میں زیبائش پیدا کروں گا اور ان سب کو ضرور بہکاؤں گا۔ سوائے تیرے ان بندوں کے جو الْمُخْلَصِين ھیں۔ الله نے فرمایا تھا کہ یہی ھے مجھ تک پہنچنے کا مُسْتَقِيم راستہ۔ اللہ نے کہا کہ ھم نے تم میں سے ھر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک طریقہء کار بنا دیا ھے۔ اگر الله چاھتا تو تم کو ایک ھی اُمّت بنا دیتا لیکن چونکہ اس نے جو تمہیں دیا ھے اس سے تمہاری آزمائش کرنی ھے سو الخَيْرَات میں سبقت لے جاؤ۔ سبقت لے جانے والے تو سبقت لے جانے والے ھیں۔ یہی تو مقرب ھیں۔