Tuesday 25 August 2020

پاکستان پر پنجابی ' سماٹ ' براھوئی ' ھندکو کا راج قائم کرنا پڑے گا۔

پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی کی ھے۔ 15٪ آبادی ھندکو ' براھوئی اور سماٹ کی ھے۔ جبکہ 15٪ آبادی پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کی ھے اور 10٪ آبادی کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی و دیگر کی ھے۔ پنجاب تو پنجابیوں کا ھے جبکہ پنجابی خیبر پختونخوا ' بلوچستان ' سندھ اور کراچی میں بھی رھتے ھیں۔ خیبر پختونخوا کے اصل باشندے ھندکو ھیں لیکن افغانستان سے آکر خیبر پختونخوا پر قبضہ پٹھانوں نے کیا ھوا ھے۔ بلوچستان کے اصل باشندے براھوئی ھیں لیکن کردستان سے آکر بلوچستان پر قبضہ بلوچوں نے کیا ھوا ھے۔ سندھ کے اصل باشندے سماٹ ھیں لیکن کردستان سے آکر سندھ پر قبضہ بلوچوں نے کیا ھوا ھے۔ کراچی "منی پاکستان" ھے۔ اس لیے کراچی میں پنجابی ' ھندکو ' براھوئی ' سماٹ ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی کے علاوہ پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر و دیگر باشندے بھی رھتے ھیں۔ لیکن ھندوستان سے آکر کراچی پر قبضہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں نے کیا ھوا ھے۔

پاکستان کی 85٪ آبادی پنجابی ' ھندکو ' براھوئی ' سماٹ ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی امن پسند ' محبِ وطن اور محنت کش ھیں۔ لیکن پاکستان کی 15٪ آبادی پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کا کام سماٹ ' براھوئی ' ھندکو کو اپنے سیاسی ' سماجی اور معاشی تسلط میں رکھنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خلاف سازشیں کرکے پنجاب اور پنجابیوں کو بلیک میل کرتے رھنا بن چکا ھے۔ پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے ' پنجاب اور پنجابیوں کو بلیک میل کرنے کے لیے ھی پٹھان "پختونستان" ' بلوچ "آزاد بلوچستان"' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر "جناح پور" کی سازشیں کرتے رھتے ھیں۔ پاکستان کی فوج کا آپریشن بھی ان ھی علاقوں میں ھو رھا ھے جہاں یہ پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر رھتے ھیں۔ مطلب یہ کہ؛ پاکستان کی فوج کا آپریشن پاکستان کی 85٪ آبادی پنجابی ' ھندکو ' براھوئی ' سماٹ ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی کے خلاف نہیں ھورھا۔ بلکہ پاکستان کی 15٪ آبادی پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کے خلاف ھورھا ھے۔

پاکستان کی 62٪ آبادی کے صوبے پنجاب کا وزیر اعلیٰ بلوچ نزاد ھے۔ پاکستان کا صدر سندھ کا مھاجر ھے۔ پاکستان کا وزیر اعظم پنجاب کا پٹھان ھے۔ پاکستان کی سینٹ کا چیئرمین بلوچستان کا بلوچ نزاد ھے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کا اسپیکر خیبر پختونخوا کا پٹھان ھے۔ پاکستان کے وفاق میں اھم سیاسی عہدے پاکستان کی 15٪ آبادی پٹھان ' بلوچ ' مھاجر کے پاس ھیں۔ پنجابی ' سماٹ ' براھوئی ' ھندکو کو پاکستان کی حکمرانی نہ دینے سے پاکستان کی 75٪ آبادی پنجابی ' سماٹ ' براھوئی ' ھندکو کے سماجی مسائل و معاشی حقوق اور انتظامی معاملات و اقتصادی مفادات کا سیاسی تحفظ کیسے ھوگا؟

کسی بھی ملک کے مستحکم اور خوشحال ھونے کے لیے ملک کا اقتصادی طور پر مضبوط ھونا ضروری ھوتا ھے۔ پاکستان کی اقتصادی ترقی کا انحصار زراعت اور صنعت کی پیداوار پر ھے۔ پاکستان کی 75٪ آبادی پنجابی ' سماٹ ' براھوئی ' ھندکو کے زراعت اور صنعت کے شعبوں میں بھرپور کردار ادا کرنے کی وجہ سے پاکستان کی اقتصادی ترقی ھوتی ھے۔ جبکہ پاکستان کی 15٪ آبادی پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کا پاکستان کی زرعی اور صنعتی پیداوار میں کردار نہ ھونے کے برابر ھے۔ ملک کی اقتصادی ترقی میں کرادر ادا نہ کرنے والے ملک کی معیشت پر بوجھ ھوا کرتے ھیں۔ انہیں ملک کو اقتصادی طور پر مضبوط بنانے کے بجائے اپنی معاشی آسودگی سے غرض ھوتی ھے۔

ملک کی اقتصادی ترقی میں کرادر ادا نہ کرنے والے جب ملک کا اقتدار سمبھالنے میں کامیاب ھو جائیں تو وہ ملک کی زرعی اور صنعتی پیداوار بڑھا کر ملک کو اقتصادی طور پر مضبوط کرنے کے بجائے عوام پر ٹیکس بڑھاتے رھتے ھیں اور ایسے اقدامات کرتے رھتے ھیں جس سے ملک کو تو اقتصادی طور پر نقصان ھوتا رھتا ھے۔ لیکن ان کا معاشی تسلط برقرار رھتا ھے۔ جس کی وجہ سے ملک کی زرعی اور صنعتی پیداوار کم ھوجاتی ھے۔ ملک معاشی بحران میں مبتلا ھوجاتا ھے۔ عوام غربت ' جہالت ' بے روزگاری ' مہنگائی اور نا انصافی کا شکار جبکہ بنیادی سہولتوں سے محروم رھتی ھے۔

پاکستان کی 15٪ آبادی پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کے سیاسی ' سماجی اور معاشی تسلط سے آزاد ھوکر پاکستان کی 75٪ آبادی پنجابی ' سماٹ ' براھوئی ' ھندکو کو پاکستان پر اپنا سیاسی ' سماجی اور معاشی تسلط قائم کرکے پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کو کنٹرول میں رکھنے ' ان کی پاکستان کے خلاف سازشیں ختم کرنے ' پنجاب اور پنجابیوں کو بلیک میل کرنے سے باز رکھنے ' خیبر پختونخوا میں ھندکو کو پٹھانوں ' بلوچستان میں براھوئی کو بلوچوں ' سندھ میں سماٹ کو بلوچوں اور کراچی پر سے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کے قبضے کو ختم کرنے کے لیے سخت سیاسی اقدامات کرنے پڑیں گے۔ تاکہ پاکستان کی 85٪ آبادی پنجابی ' ھندکو ' براھوئی ' سماٹ ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی سیاسی طور پر امن اور سماجی طور پر سکون سے زندگی گذار سکیں اور پاکستان بھی اقتصادی طور پر مظبوط ' انتظامی طور پر مستحکم اور معاشی طور پر خوشحال ھوجائے۔

اختلافات نوں اخلاق ' آئین تے قانون دے دائرے دے اندر رہ کے نبیڑیا جائے۔

پی این ایف دا "مشن" اخلاق ' آئین تے قانون دے دائرے دے اندر ریہندے ھوئے "علمی دلائل دے نال مکالمہ" کرکے پنجابی قوم دی سماجی عزت ' معاشی خوشحالی ' انتظامی بالادستی ' اقتصادی ترقی لئی کم کرنا اے۔

1۔ غیر سیاسی تے غیر جمہوری طریقے نال مسئلے نبیڑن دی کوشش کرنا "غیر اخلاقی" کم اے۔ "غیر اخلاقی" کم کرن والا "ماحول دا دشمن" ھوندا اے۔

2۔ غیر آئینی تے غیر قانونی طریقے نال مسئلے نبیڑن دی کوشش کرنا "جرم" اے۔ "غیر آئینی تے غیر قانونی" کم کرن والا "معاشرے دا دشمن" ھوندا اے۔

3۔ مسئلے نبیڑن لئی ریاست دے پرچم ' ریاست دے ادارے آں یا ریاست دی املاک نوں نقصان پہنچانا "سنگین جرم" اے۔ "سنگین جرم" کرن والا "ریاست دا دشمن" ھوندا اے۔

پاکستان دی آں قوماں نوں آپس دے سیاسی اختلافات سیاسی تے جمہوری طریقے نال آئین تے قانون دے دائرے دے اندر ریہندے ھوئے نبیڑنے چائی دے نے۔

آپس دے سیاسی اختلافات نوں بنیاد بنا کے؛ نہ غیر سیاسی تے غیر جمہوری طریقے نال تے نہ غیر آئینی تے غیر قانونی طریقے نال مسئلے نبیڑن دی کوشش کرنی چائی دی اے تے نہ "ریاست دے پرچم" یا "ریاست دے ادارے" یا "ریاست دی املاک" نوں نقصان پہنچانا چائی دا اے۔

1۔ غیر سیاسی تے غیر جمہوری طریقے نال مسئلے نبیڑن دی کوشش کرن والے آں نوں حکومت دے مقامی انتظامی محکمیاں نوں "انتظامی کاروائی" کرکے کنٹرول وچ رکھنا چائی دا اے۔

2۔ غیر آئینی تے غیر قانونی طریقے نال مسئلے نبیڑن دی کوشش کرن والے آں نوں حکومت دے صوبائی انتظامی محکمیاں نوں "قانونی کارروائی" کرکے کنٹرول وچ رکھنا چائی دا اے۔

3۔ ریاست نوں نقصان پہچان والے مجرماں دے خلاف ریاست دی سلامتی دے قومی اداریاں نوں "انتظامی تے قانونی" کارروائی کرکے کنٹرول وچ رکھنا چائی دا اے۔

پی این ایف کی ٹیم کی "کراچی زون" کے بارے میں رپورٹ درکار ھے۔

پاکستان کے سارے شھری پاکستانی ھیں۔ لیکن افراد مل کر گھرانہ ' گھرانے مل کر خاندان ' خاندان مل کر برادری اور برادریاں مل کر قوم بناتی ھیں۔ قوموں کے افراد ملک کے شھری ھوتے ھیں۔

1۔ افراد اور گھرانوں کے مسائل ذاتی تعلقات کی بنیاد پر حل ھوا کرتے ھیں۔

2۔ خاندانوں اور برادریوں کے مسائل سماجی بنیاد پر حل ھوا کرتے ھیں۔

3۔ قوموں کے مسائل سیاسی بنیاد پر حل ھوا کرتے ھیں۔

ملک کی قومی سطح کی سیاسی پارٹی کو ملک کی ساری قوموں کی سیاسی پارٹی ھونا چاھیے تاکہ قوموں کے سیاسی مسائل حل کرے۔ لیکن پاکستان میں ایک تو سیاسی پارٹیاں ایک ایک یا دو دو قوموں کی سیاسی پارٹیاں ھیں۔ دوسرا پاکستان کی ساری قوموں کے درمیان سیاسی افہام و تفہیم کرانے میں ناکام ھیں۔ اس لیے پاکستان میں قوموں کے درمیان سیاسی اختلافات بڑھتے جا رھے ھیں۔

پاکستان میں عوام کو سیاسی مسئلہ پاکستان کی حکومت کے ساتھ نہیں ھے۔ کیونکہ عوام کا حکومت کے ساتھ مسئلہ انتظامی بنیادوں والا ھوا کرتا ھے اور ناقص انتظامی کارکردگی کی وجہ سے عوام کو حکومت کے ساتھ انتظامی شکایات ھیں۔ پاکستان میں عوام کا مسئلہ؛

1۔ انفرادی یا گھریلو تعلقات کا بھی نہیں ھے۔ کیونکہ انفرادی یا گھریلو تعلقات کے مسائل ذاتی نوعیت کے ھوتے ھیں۔

2۔ خاندانوں یا برادریوں کے معاملات کا بھی نہیں ھے۔ کیونکہ خاندانوں یا برادریوں کے مسائل سماجی نوعیت کے ھوتے ھیں۔

پاکستان میں عوام کا سیاسی مسئلہ قوموں کے سیاسی اختلافات کا ھے۔ پاکستان کی 60% آبادی پنجابی ھے۔ پنجابی قوم کے افراد پنجاب کے علاوہ خیبر پختونخوا ' بلوچستان کے پشتون علاقے ' بلوچستان کے براھوئی علاقے ' سندھ اور کراچی میں بھی رھتے ھیں۔ اس لیے پنجابی قوم کے افراد کو پنجاب سے باھر سب سے زیادہ سیاسی مسائل ھیں۔ سیاسی مسائل سے مراد سماجی ' معاشی ' انتظامی ' اقتصادی مسائل ھوا کرتے ھیں۔

پی این ایف کے پاکستان میں 8 زون ھیں۔ پی این ایف پنجابی قوم کی سماجی عزت ' معاشی خوشحالی ' انتظامی بالادستی ' اقتصادی ترقی کے لیے سرگرم ھے اور اخلاق ' آئین ' قانون کے دائرے میں رھتے ھوئے سیاسی اور جمہوری طریقے سے علمی دلائل کے ساتھ مکالمہ کرکے اپنا موقف بیان کرتی ھے۔ جبکہ پاکستان کی ھر زون میں رھنے والے پنجابیوں کے سماجی ' معاشی ' انتظامی ' اقتصادی مسائل کا جائزہ لے کر زون کے لیے پی این ایف کی پالیسی بنائی جاتی ھے۔

پی این ایف کراچی کے زونل آرگنائزر جناب Saleem Ilyas صاحب اپنی زون کی لیڈر شپ کا کراچی کے پنجابیوں کے ساتھ تبادلہ خیال کروا کر پی این ایف کی ڈپٹی چیف آرگنائزر محترمہ Shahnaz Awan صاحبہ کو 15 ستمبر 2020 تک درج ذیل 3 سوالات پر مبنی تفصیلی رپورٹ ارسال کریں گے۔

1۔ کراچی میں 1987 سے لیکر اب تک ھندوستانی مھاجروں کی طرف سے پنجابیوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا رھا؟

2۔ اس وقت کراچی میں ھندوستانی مھاجروں کے پنجابیوں کے ساتھ کیسے سیاسی مراسم ھیں؟

3۔ کراچی میں پنجابیوں کی سماجی عزت ' معاشی خوشحالی ' انتظامی بالادستی ' اقتصادی ترقی کے لیے پنجابیوں کو ھندوستانی مھاجروں ' پٹھانوں ' سندھیوں ' بلوچوں ' گجراتیوں اور راجستھانیوں میں سے کون سی 3 قوموں کے ساتھ سیاسی مراسم رکھنے کو ترجیح دینی چاھیے؟

پی این ایف کی سینٹرل لیڈرشپ کراچی زون کے آرگنائزر کی رپورٹ کے مطابق پی این ایف کراچی زون کے بارے میں پالیسی کی تجدید کرے گی۔

کراچی میں رھنے والے پنجابی پی این ایف کراچی زون کے ڈپٹی زونل آرگنائزر جناب Taseer Wahdan صاحب یا پی این ایف کراچی زون کی ایگزیکٹو کمیٹی کے میمبران سے رابطہ کرکے اپنے مسئلوں ' معلومات اور ترجیحات سے پی این ایف کراچی کی ٹیم کو آگاہ کریں۔

پی این ایف کی "ھندوستانی مھاجروں" کے لیے پنجاب ' دیہی سندھ ' کراچی میں پالیسی الگ الگ ھے۔

پاکستان کی اصل قومیں جس طرح پنجابی ' سندھی ' پشتو اور بلوچی بولنے والے ھیں ویسے ھی بھارت کی اصل قومیں ھندی/اردو ' تیلگو ' تامل ' ملایالم ' مراٹھی ' کنڑا ' اڑیہ ' بنگالی ' آسامی اور بھوجپوری بولنے والے ھیں۔ جبکہ پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے پنجابی بولنے والے بھی بھارت میں رھتے ھیں۔

پاکستان کے قیام کی وجہ سے پنجاب کے تقسیم ھونے سے ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں نے پنجاب کے مغرب کی طرف سے پنجاب کے مشرق کی طرف نقل مکانی کی جبکہ مسلمان پنجابیوں نے پنجاب کے مشرق کی طرف سے پنجاب کے مغرب کی طرف نقل مکانی کی ' جسکی وجہ سے 20 لاکھ پنجابی مارے گئے اور 2 کروڑ پنجابی بے گھر ھوئے۔

پاکستان کی سرحد کے قریب ھونے ' پنجاب و سندھ میں پہلے سے روابط ھونے اور سندھ و پنجاب سے ھندؤں کی راجستھان اور گجرات کی طرف نقل مکانی کرنے کی وجہ سے ' بڑی تعداد میں راجستھانی اور گجراتی مسلمان بھی پاکستان منتقل ھو گئے۔ جبکہ جونا گڑہ ' مناودر اور حیدرآباد دکن کی ریاستوں کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے اعلان کی وجہ سے کچھ تعداد میں جونا گڑھی ' مراٹھی ' مدراسی ' دکنی مسلمان بھی پاکستان منتقل ھوگئے۔

ھندوستان کے صوبوں یونائیٹیڈ پروینس (جسکا نام اب اتر پردیش ھے۔ جو کہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کی مجموعی آبادی سے بھی بڑا صوبہ ھے۔ اسکی اس وقت آبادی 22 کروڑ ھے اور وھاں کے رھنے والوں کو یوپی والے کہا جاتا ھے) اور سنٹرل پروینس (وھاں کے رھنے والوں کو سی پی والے کہا جاتا ھے) کی نہ تو سرحد پاکستان کے ساتھ ملتی تھی اور نہ یوپی ' سی پی والوں کے پاکستان کی اصل قوموں پنجابی ' سندھی ' پٹھان اور بلوچ کے ساتھ روابط تھے۔

پاکستان کے قیام کے وقت جس طرح پنجاب کو مسلم پنجاب اور نان مسلم پنجاب میں تقسیم کیا گیا اسی طرح یوپی ' سی پی کے مسلمانوں کو چاھیے تھا کہ یوپی اور سی پی کے علاقوں کو بھی مسلم یوپی ' سی پی اور نان مسلم یوپی ' سی پی میں تقسیم کرواتے لیکن یوپی ' سی پی کے مسلمانوں نے مشرقی پنجاب کا پڑوسی ھونے کا فائدہ اٹھایا اور مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب کی طرف نقل مکانی کرنے والے مسلمان پنجابیوں کی آڑ لے کر اور مسلم پنجابیوں کو مھاجر قرار دے کر خود بھی مھاجر بن کر پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شہروں ' پاکستان کی حکومت ' پاکستان کی سیاست ' پاکستان کی صحافت ' سرکاری نوکریوں ' زمینوں ' جائیدادوں پر قبضہ کر لیا۔

یوپی ' سی پی کے مسلمانوں نے مشرقی پنجاب کے مسلمان پنجابیوں کو مھاجر قرار دے کر اور خود بھی مھاجر بن کر پاکستان میں خوب فائدہ اٹھایا۔ حالانکہ مسلمان پنجابیوں کو اپنے ھی دیش میں ' مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب کی طرف نقل مکانی کرنے کی بنیاد پر مھاجر نہیں کہا جاسکتا۔ مھاجر وہ ھوتے ھیں جو اپنی زمین سے پناہ کی خاطر کسی اور قوم کی زمین میں جا بسیں۔

پاکستان کے قیام کے بعد بھی جو مسلمان یوپی ' سی پی سے آکر پنجاب اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں پناھگزیر ھوگئے انکی قانونی حیثیت پاکستان کے شہری کی نہیں ھے کیونکہ ابھی تک انہوں نے پاکستان کے "سٹیزن شپ ایکٹ" کے تحت پاکستان کی شہریت نہیں لی۔ بلکہ ابھی تک انکو اقوام متحدہ کے "مھاجرین کے چارٹر" کے تحت ھندوستانی مھاجرین قرار نہیں دیا گیا ' اس کا مطلب ھے کہ ھندوستان سے آکر پنجاب اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں رھائش اختیار کرنے والے یوپی اور سی پی کے لوگ ابھی تک غیر قانونی مھاجرین ھیں؟

پاکستان میں راجستھانی ' گجراتی ' جونا گڑھی ' مراٹھی ' مدراسی ' دکنی اپنی اصل شناخت کے ساتھ رھتے ھیں۔ لیکن یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے لیے مھاجر کی اصطلاح استعمال کی جاتی ھے جو پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شھروں میں رھتے ھیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد ان یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے پنجاب اور سندھ کے تمام بڑے بڑے شھروں پر قبضہ کرلیا تھا جو کہ پنجاب کے شھروں میں پنجابیوں اور سندھ کے شھروں میں سندھیوں کے دیہی علاقوں سے شھری علاقوں کی طرف نقل مکانی کی وجہ سے برقرار نہ رہ سکا۔ لیکن کراچی اور حیدرآباد پر یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے ابھی تک نان اردو اسپیکنگ گجراتیوں اور راجستھانیوں کو بھی مھاجر بنا کر اپنا کنٹرول قائم رکھا ھوا ھے۔

پاکستان کی 2017 کی مردم شماری کے مطابق اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی پنجاب میں آبادی 5,356,464 ' کراچی میں آبادی 5,278,245 اور دیہی سندھ میں آبادی 3,431,356 ھے۔

پنجاب میں اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی زیادہ آبادی پنجاب کے بڑے شھروں میں ھے۔ چھوٹے شہروں میں آبادی بہت کم ھے۔ جبکہ پنجاب کے دیہی علاقوں میں ھندوستانی مھاجروں کی آبادی نہیں ھے۔ بڑوں شھروں میں سے بھی ھندوستانی مھاجروں کی سب سے زیادہ آبادی لاھور ' فیصل آباد ' گجرانوالہ ' راولپنڈی اور اسلام آباد میں ھے۔

پنجاب کی 12 کروڑ کی آبادی میں 5,356,464 ھندوستانی مھاجروں کے بکھرے ھونے کی وجہ سے پنجاب میں ھندوستانی مھاجروں کے لیے پنجابیوں پر سماجی ' معاشی ' انتظامی ' اقتصادی بالادستی قائم کرنا ممکن نہیں ھے۔ لیکن پنجاب کے سب سے بڑے شھروں لاھور ' فیصل آباد ' گجرانوالہ ' راولپنڈی اور اسلام آباد میں رھائش پذیر ھونے کی وجہ سے پنجابیوں کے پنجابی زبان اور پنجابی ثقافت اختیار کرنے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے رھتے ھیں۔ پنجاب کی دفتری اور تعلیمی زبان اردو ھونے کا فائدہ اٹھا کر پنجابیوں کو گنگا جمنا کی زبان اور لکھنو کی ثقافت کی طرف مائل کرنے میں لگے رھتے ھیں۔ جبکہ پنجاب میں رھتے ھوئے کراچی کے ھندوستانی مھاجروں کی سیاسی مدد اور حمایت کرتے رھتے ھیں۔ اس لیے پنجاب میں پنجابیوں کو ھندوستانی مھاجروں کے ساتھ سماجی ' معاشی ' سیاسی مراسم رکھنے کی ضرورت نہیں ھے۔

پنجاب میں رھنے والے ھندوستانی مھاجروں کی طرف سے چونکہ پنجابیوں کو لسانی اور ثقافتی نقصان برداشت کرنا پڑتا ھے۔ اس لیے پنجابیوں کے پنجابی زبان اور پنجابی ثقافت اختیار کرنے کی راہ میں ھندوستانی مھاجروں کی طرف سے ڈالی جانے والی رکاوٹوں کا سدباب کرنے کی کوشش کو بڑھانے کی ضرورت ھے۔ تاکہ پنجاب کی دفتری اور تعلیمی زبان پنجابی کروائی جاسکے۔ جبکہ پنجاب میں پنجابی زبان اور پنجابی ثقافت کو فروغ دیا جاسکے۔ اس کے علاوہ چونکہ کراچی کے ھندوستانی مھاجروں کی طرف سے کراچی میں رھنے والے پنجابیوں پر ظلم و زیادتی کی جاتی ھے۔ اس لیے پنجاب میں رھنے والے ھندوستانی مھاجروں کی طرف سے کراچی کے ھندوستانی مھاجروں کی سیاسی مدد اور حمایت کو غیر موثر کروانے کی ضرورت ھے۔

دیہی سندھ میں رھنے والے ھندوستانی مھاجروں کی آبادی 3,431,356 ھے۔ اس میں سے آدھی آبادی حیدرآباد میں ھے اور آدھی آبادی دیہی سندھ کے دیگر شھروں میں بکھری ھوئی ھے۔ حیدرآباد کی 25 لاکھ کی آبادی کی حد تک تو ھندوستانی مھاجروں کی حیدرآباد میں سندھیوں ' پنجابیوں اور پٹھانوں پر سماجی ' معاشی ' انتظامی ' اقتصادی بالادستی قائم ھے۔ لیکن دیہی سندھ کے 3 کروڑ کی آبادی کے علاقوں میں جہاں سندھیوں کے بعد دوسری بڑی آبادی پنجابی ھیں اور ھندوستانی مھاجر تیسری بڑی آبادی ھیں۔ ھندوستانی مھاجروں کے بکھرے ھونے کی وجہ سے ھندوستانی مھاجروں کے لیے نہ صرف سندھیوں بلکہ پنجابیوں پر بھی سماجی ' معاشی ' انتظامی ' اقتصادی بالادستی قائم کرنا ممکن نہیں ھے۔

1986 میں ایم کیو ایم (مھاجر قومی موومنٹ) کے قیام سے پہلے تک دیہی سندھ میں رھنے والے ھندوستانی مھاجروں کے ساتھ دیہی سندھ کے پنجابیوں کے سیاسی روابط زیادہ تھے۔ پنجابی چونکہ دیہات میں زیادہ اور شھروں میں کم تھے۔ اس لیے شھروں میں مقیم ھونے کی وجہ سے پنجابیوں کی سیاسی قیادت ھندوستانی مھاجر کیا کرتے تھے۔ لیکن ایم کیو ایم کے قیام کے بعد ھندوستانی مھاجروں کے ساتھ پنجابیوں کے سیاسی روابط ختم ھوگئے۔

دیہی سندھ میں پنجابیوں کے 1901 اور 1932 سے آباد ھونے۔ جبکہ زراعت کے پیشے سے منسلک ھونے کی وجہ سے سندھ کے دیہاتی علاقوں میں بھی مقیم ھونے کی وجہ سے پنجابیوں کے سماجی اور معاشی روابط سندھیوں کے ساتھ تھے۔ اس لیے ایم کیو ایم کے قیام کے بعد ھندوستانی مھاجروں کے ساتھ پنجابیوں کے سیاسی روابط ختم ھوجانے کی وجہ سے اس وقت دیہی سندھ کے شھری علاقوں کی حد تک پنجابیوں کے ھندوستانی مھاجروں کے ساتھ مراسم صرف دعا سلام تک محدود ھیں۔

اس وقت دیہی سندھ میں رھنے والے پنجابیوں کے نہ صرف سندھیوں کے ساتھ سماجی اور معاشی مراسم ھیں بلکہ سیاسی مراسم بھی ھیں۔ دیہی سندھ میں رھنے والے پنجابی چونکہ سندھی زبان میں تعلیم حاصل کرتے ھیں۔ اس لیے سندھی زبان بولتے ھوئے اندازہ لگانا مشکل ھوتا ھے کہ؛ وہ سندھی ھیں یا پنجابی ھیں۔ جبکہ دیہی سندھ میں رھنے والے پنجابیوں نے سندھی ثقافت بھی اختیار کی ھوئی ھے۔ لیکن دیہی سندھ میں رھنے والے ھندوستانی مھاجروں نے اردو زبان میں تعلیم حاصل کرنے اور شھروں میں رھنے کی وجہ سے سندھی زبان اختیار نہیں کی اور نہ سندھی ثقافت اختیار کی ھے۔

اس وقت دیہی سندھ میں رھنے والے پنجابیوں کے سماجی ' معاشی ' سیاسی مفادات سندھیوں کے ساتھ تو ھیں۔ لیکن دیہی سندھ میں رھنے والے ھندوستانی مھاجروں کے ساتھ نہ سماجی اشتراک ھے۔ نہ معاشی مفاد ھے۔ نہ سیاسی ھم آھنگی ھے۔ اس لیے دیہی سندھ میں رھنے والے ھندوستانی مھاجروں کے ساتھ پنجابیوں کو سماجی ' معاشی ' سیاسی مراسم رکھنے کی ضرورت نہیں ھے۔ لہذا دیہی سندھ میں رھنے والے پنجابیوں کے سماجی ' معاشی ' سیاسی روابط سندھیوں کے ساتھ ھی رھنے ھیں۔ جوکہ سندھ کے اصل باشندے بھی ھیں۔

کراچی کی ایک کروڑ 50 لاکھ کی آبادی میں سے ھندوستانی مھاجروں کی آبادی 5,356,464 ھے۔ کراچی میں ھندوستانی مھاجروں کی آدھی آبادی کراچی کے ضلع وسطی اور کورنگی میں ھے۔ جبکہ آدھی آبادی ضلع شرقی ' ضلع غربی ' ضلع جنوبی اور ضلع ملیر میں ھے۔

کراچی کی 80٪ آبادی اردو بولنے والوں کی نہیں ھے۔ کیونکہ کراچی میں 15٪ پنجابی ' 15٪ پٹھان ' 10٪ سندھی ' 10٪ گجراتی ' 5٪ راجستھانی ' 5٪ بلوچ اور 20٪ ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' برمی ' بنگالی ' افغانی و دیگر بھی ھیں۔ جنکی زبان اردو نہیں ھے۔ لیکن وہ آپس میں متحد نہیں ھیں۔

کراچی کے 20٪ اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجروں نے مھاجر لسانی تشخص کی بنیاد پر ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم پر آپس میں متحد ھوکر کراچی پر قبضہ کیا ھوا ھے اور 15٪ پنجابی ' 15٪ پٹھان ' 10٪ سندھی ' 10٪ گجراتی ' 5٪ راجستھانی ' 5٪ بلوچ اور 20٪ ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' برمی ' بنگالی ' افغانی و دیگر کو اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں نے یرغمال بنایا ھوا ھے۔

کراچی کے 15٪ پنجابی ' 15٪ پٹھان ' 10٪ سندھی کی آبادی 20٪ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں سے زیادہ بنتی ھے۔ اگر کراچی کے 15٪ پنجابی ' 15٪ پٹھان ' 10٪ سندھی آپس میں متحد ھو جائیں تو 10٪ گجراتی ' 5٪ راجستھانی ' 5٪ بلوچ اور 20٪ ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' برمی ' بنگالی ' افغانی و دیگر نے بھی اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے قبضہ سے نجات کے لیے پنجابی ' پٹھان اور سندھی کو ھی سپورٹ کرنا ھے اور کراچی پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے بجائے پنجابی ' پٹھان اور سندھی کا کنٹرول ھو جانا ھے۔

Pakistan Citizenship Act 1951.


Section 3

Section 3 mein hy k es act say pehlay jo Pakistan migrate ho gaay woh Pakistan k citizens hain.

Section 3 mein migration say muraad Punjab ki division ki wajaah say India mein include kiay janay walay Punjab k area say Pakistan mein include kiay janay walay Punjab k area mein aanay walay hain.

Section 4

Pakistan k area mein paida honay walon par section 4 apply hota hy.

Section 5

Section 5 un buchon par apply hota hy jin k father ya mother mein say aik Pakistan ka citizen na ho.

Section 6

Section 6 k tahut 1 January 1952 say pehlay India say Pakistan mein permanent rehaish k liay aanay walon nay Pakistan ki citizenship layni hy. UP, CP k logon nay migration nahi ki thi balkay Pakistan mein permanent residence k liay aa'ay thay es liay 1 January 1952 say pehlay India say Pakistan mein permanent residence k liay aanay walon ko Section 6 k tahut Pakistan ki citizenship layni thi. India say Pakistan aanay walon par section 6 apply hota hy.

Section 7

Pakistan k Citizenship Act 1951 k Section 7 k tahut Pakistan say India migrate honay walon ki Pakistan ki citizenship khutum ho gae.

Section 7 mein migration say muraad Punjab ki division ki wajaah say Pakistan mein include kiay janay walay Punjab k area say India mein include kiay janay walay Punjab k area mein jaanay walay hain.

پاکستان میں "سیاسی مسئلہ" قوموں کے سیاسی اختلافات کا ھے۔

پاکستان کے سارے شھری پاکستانی ھیں۔ جبکہ پاکستان کی 97% آبادی مسلمان ھے۔ اس لیے پاکستان کے شھری ھونے یا مسلمان ھونے کی وجہ سے پاکستان کی عوام میں اختلاف نہیں ھے۔ لیکن افراد مل کر گھرانہ ' گھرانے مل کر خاندان ' خاندان مل کر برادری اور برادریاں مل کر قوم بناتی ھیں۔ قوموں کے افراد ملک کے شھری ھوتے ھیں اور انہیں عوام کہا جاتا ھے۔

زندگی چونکہ مسائل کے گرد گھومتی رھتی ھے۔ اس لیے عوام کو مسائل درپیش آتے رھتے ھیں۔ مسائل کی وجہ سے ھی عوام میں اختلاف ھوتے ھیں۔ مسائل کو حل کرنے کے لیے اتفاق کرکے ھی عوام آپس میں تعاون کیا کرتے ھیں۔ لیکن عوام کے مسائل ذاتی نوعیت کے بھی ھوتے ھیں۔ سماجی ذاتی نوعیت کے بھی ھوتے ھیں۔ سیاسی نوعیت کے بھی ھوتے ھیں۔

1۔ افراد اور گھرانوں کے مسائل ذاتی تعلقات کی بنیاد پر حل ھوا کرتے ھیں۔ اس لیے پاکستان میں عوام انفرادی اور گھرانوں کے مسائل ذاتی تعلقات کی بنیاد پر حل کرلیتے ھیں۔

2۔ خاندانوں اور برادریوں کے مسائل سماجی بنیاد پر حل ھوا کرتے ھیں۔ اس لیے پاکستان میں عوام خاندانوں اور برادریوں کے مسائل سماجی بنیاد پر حل کرلیتے ھیں۔

3۔ قوموں کے مسائل سیاسی بنیاد پر حل ھوا کرتے ھیں۔ لیکن پاکستان میں عوام کے سیاسی مسائل سیاسی بنیاد پر حل نہیں ھو پا رھے۔

ملک کی قومی سطح کی سیاسی پارٹی کو ملک کی ساری قوموں کی سیاسی پارٹی ھونا چاھیے۔ تاکہ قوموں کے سیاسی مسائل حل کرے۔ لیکن پاکستان میں ایک تو سیاسی پارٹیاں ایک ایک یا دو دو قوموں کی سیاسی پارٹیاں ھیں۔ دوسرا پاکستان کی ساری قوموں کے درمیان سیاسی افہام و تفہیم کرانے میں ناکام ھیں۔ اس لیے پاکستان میں قوموں کے درمیان سیاسی اختلافات بڑھتے جا رھے ھیں۔

پاکستان میں عوام کو سیاسی مسئلہ پاکستان کی حکومت کے ساتھ نہیں ھے۔ کیونکہ عوام کا حکومت کے ساتھ مسئلہ انتظامی بنیادوں والا ھوا کرتا ھے اور ناقص انتظامی کارکردگی کی وجہ سے عوام کو حکومت کے ساتھ انتظامی شکایات ھیں۔ پاکستان میں عوام کا مسئلہ؛

1۔ انفرادی یا گھریلو تعلقات کا بھی نہیں ھے۔ کیونکہ انفرادی یا گھریلو تعلقات کے مسائل ذاتی نوعیت کے ھوتے ھیں۔

2۔ خاندانوں یا برادریوں کے معاملات کا بھی نہیں ھے۔ کیونکہ خاندانوں یا برادریوں کے مسائل سماجی نوعیت کے ھوتے ھیں۔

پاکستان میں عوام کا سیاسی مسئلہ قوموں کے سیاسی اختلافات کا ھے۔ پاکستان کی 60% آبادی پنجابی ھے۔ پنجابی قوم کے افراد پنجاب کے علاوہ خیبر پختونخوا ' بلوچستان کے پشتون علاقے ' بلوچستان کے براھوئی علاقے ' سندھ اور کراچی میں بھی رھتے ھیں۔ اس لیے پنجابی قوم کے افراد کو پنجاب سے باھر سب سے زیادہ سیاسی مسائل ھیں۔ سیاسی مسائل سے مراد سماجی ' معاشی ' انتظامی ' اقتصادی مسائل ھوا کرتے ھیں۔

"پی این ایف" کے پاکستان میں 8 زون ھیں۔ "پی این ایف" پنجابی قوم کی سماجی عزت ' معاشی خوشحالی ' انتظامی بالادستی ' اقتصادی ترقی کے لیے سرگرم ھے اور اخلاق ' آئین ' قانون کے دائرے میں رھتے ھوئے سیاسی اور جمہوری طریقے سے علمی دلائل کے ساتھ مکالمہ کرکے اپنا موقف بیان کرتی ھے۔ جبکہ پاکستان کی ھر زون میں رھنے والے پنجابیوں کے سماجی ' معاشی ' انتظامی ' اقتصادی مسائل کا جائزہ لے کر زون کے لیے "پی این ایف" کی پالیسی بنائی جاتی ھے۔

مذھب کی بنیاد پر "دو قومی نظریہ" کا مسئلہ پہلے بھی اتر پردیش کا تھا اور اب بھی ھے۔

پاکستان کو "دو قومی نظریہ" کی بنیاد پر بنایا گیا۔ دراصل انگریزوں نے جب 1937 میں عوامی انتخاب کے ذریعے برٹش انڈیا کے صوبوں میں جمہوری حکومتوں کے قیام کا عمل شروع کیا تو صرف پنجاب ' بنگال اور سندھ میں مسلمان وزیرِ اعظم منتخب ھوئے۔ یوپی ' سی پی میں یوپی ' سی پی کی مسلمان اشرافیہ کی جگہ ھندوؤں کے وزیرِ اعظم منتخب ھونے کے بعد یوپی ' سی پی کی مسلمان اشرافیہ کو اپنی نوابی خطرے میں پڑتی دکھائی دینے لگی۔ اس لیے یوپی ' سی پی کی مسلمان اشرافیہ کو معلوم ھوا کہ یہ مسلمان ھیں اور ایک علیحدہ قوم ھیں۔ ورنہ انکے آباؤ اجداد کو 800 سال تک ھندوؤں پر حکمرانی کرنے کے باوجود بھی علیحدہ قوم ھونے کا احساس نہیں ھوا تھا اور نہ ھی 1300 سال تک کے عرصے کے دوران کبھی کسی مسلمان عالم نے مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم قرار دیا تھا۔

برٹش انڈیا کی سب سے بڑی قوم ھندی - اردو بولے والے ھندوستانی (یوپی ' سی پی والے) تھے۔ دوسری بڑی قوم بنگالی تھے۔ جبکہ پنجابی تیسری ' تیلگو چوتھی ' مراٹھی پانچویں ' تامل چھٹی ' گجراتی ساتویں ' کنڑا آٹھویں ' ملایالم نویں ' اڑیہ دسویں بڑی قوم تھے۔

برٹش انڈیا میں "دو قومی نظریہ" کو بنیاد بنا کر دوسری بڑی قوم بنگالی اور تیسری بڑی قوم پنجابی کو مذھب کی بنیاد پر تقسیم کر کے مسلمان بنگالیوں اور مسلمان پنجابیوں کو پاکستان میں شامل کر کے ایک تو انڈیا کی دوسری اور تیسری بڑی قوم کو تقسیم کر دیا گیا۔

دوسرا برٹش انڈیا کی چوتھی ' پانچویں ' چھٹی ' ساتویں ' آٹھویں ' نویں ' دسویں بڑی قوم کو ھندی بولے والے ھندوستانیوں کی بالادستی میں دے دیا گیا۔

تیسرا اردو بولے والے ھندوستانی مسلمانوں کو پاکستان لا کر ' پاکستان کا وزیرِ اعظم اردو بولے والے ھندوستانی کو بنا دیا گیا۔ پاکستان کی قومی زبان بھی ان گنگا جمنا کلچر والے ھندوستانیوں کی زبان اردو کو بنا دیا گیا۔ پاکستان کا قومی لباس بھی ان گنگا جمنا کلچر والوں کی شیروانی اور پاجامہ بنا دیا گیا۔ پاکستان کی حکومت ' دستور ساز اسمبلی ' اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت ' شہری علاقوں ' تعلیمی اداروں پر ان اردو بولے والے ھندوستانیوں کی بالادستی قائم کروا دی گئی۔

پاکستان کو مسلمانوں کا ملک بنا کر پاکستان کی تشکیل کا مقصد اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرہ تشکیل دینا بتایا گیا تھا۔ جسکے لیے پنجابی قوم کو مذھب کی بنیاد پر لڑوا کر ' پنجاب کو تقسیم کروا کر 20 لاکھ پنجابی مروائے گئے اور 2 کروڑ پنجابی بے گھر کروائے گئے۔ سندھ میں سے سماٹ سندھی ھندؤں کو نکال دیا گیا اور یوپی ' سی پی سے مسلمانوں کو سندھ لاکر سماٹ سندھی ھندؤں کی جائدادیں یوپی ' سی پی کے مسلمانوں کو دے دی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی قوموں سے انکے اپنے علاقوں پر انکا اپنا حکمرانی کا حق بھی چھین لیا گیا۔ جسکے لیے 22 اگست 1947 کو جناح صاحب نے سرحد کی منتخب حکومت برخاست کردی۔ 26 اپریل 1948 کو جناح صاحب کی ھدایت کی روشنی میں گورنر ھدایت اللہ نے سندھ میں ایوب کھوڑو کی منتخب حکومت کو برطرف کر دیا اور اسی روایت کو برقرار رکھتے ھوئے ' بلکہ مزید اضافہ کرتے ھوئے ' لیاقت علی خان نے 25 جنوری 1949 کو پنجاب کی منتخب اسمبلی کو ھی تحلیل کر دیا-

یعنی ملک کے وجود میں آنے کے ڈیڑھ سال کے اندر اندر عوام کے منتخب کردہ جمہوری اداروں اور نمائندوں کا دھڑن تختہ کر دیا گیا۔ اسکے ساتھ ساتھ پاکستان کی قوموں سے انکی اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا حق بھی چھین لیا گیا۔ جسکے لیے 21 مارچ 1948 کو رمنا ریس کورس ڈھاکہ میں جناح صاحب نے انگریزی زبان میں اکثریتی زبان بولنے والے بنگالیوں سے کہہ دیا کہ سرکاری زبان اردو اور صرف اردو ھو گی اور اس بات کی مخالفت کرنے والے ملک دشمن تصور ھونگے۔

جناح نے پاکستان بنانے کے لیے پنجاب تقسیم کروا دیا۔ 20 لاکھ پنجابی مروا دیے۔ 2 کروڑ پنجابی بے گھر کروا دیے۔ سندھ میں سے سماٹ سندھی ھندؤں کو نکال دیا۔ مذھبی نفرت کی جو آگ جناح نے لگائی ' اس میں پنجابی قوم اب تک جل رھی ھے۔ جناح نے برٹش ایجنڈے اور یوپی ' سی پی والوں کے سیاسی مفادات پر کام کر کے ' جو ظلم پنجابی قوم پر کیا ' اس کا انجام اچھا نہیں۔ اسلام کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے سے پاکستان میں اسلام بھی سیاست زدہ ھو چکا ھے اور اردو کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کے باوجود سات دھائیوں کے بعد بھی نہ پاکستانی نام کی قوم بن سکی اور نہ بنتی نظر آ رھی ھے۔

چونکہ"دو قومی نظریہ" کو وجود میں لانے والا طبقہ یوپی ' سی پی کی مسلمان اشرافیہ تھی۔ اس لیے 1971 میں مسلمان بنگالیوں کے مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرکے بنگالی قوم کا ملک بنگلہ دیش بنانے اور 1984 میں یوپی ' سی پی کی مسلمان اشرافیہ کی طرف سے مھاجر تشخص اختیار کرکے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے "مھاجر قومی موومنٹ" کے نام سے سیاسی جماعت بنا لینے کے بعد پاکستان کی زمین کی اصل وارث اور مالک پنجابی ' سماٹ ' ھندکو اور براھوئی قوموں کے لیے "دو قومی نظریہ" کی تو بلکل ھی نہ کوئی افادیت رھتی ھے اور نہ ھی کوئی اھمیت رھتی ھے۔

مذھب کی بنیاد پر "دو قومی نظریہ" کا مسئلہ پنجاب ' سندھ ' خیبر پختونخوا ' بلوچستان کا نہیں تھا۔ مذھب کی بنیاد پر "دو قومی نظریہ" کا مسئلہ اتر پردیش کا تھا اور اب بھی ھے۔ "دو قومی نظریہ" پر ملک بننا تھا تو اتر پردیش کو مسلم اتر پردیش اور غیر مسلم اتر پردیش میں تقسیم کرکے بننا تھا۔ نہ کہ پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قوموں کی زمین پر بننا تھا اور پنجاب کو تقسیم کرکے بننا تھا۔ جو کہ پہلے سے ھی مسلم اکثریتی علاقے تھے۔

بہرحال اس وقت پاکستان میں دو مذھبی قومیں نہیں ھیں۔ کیونکہ پاکستان کی 97٪ آبادی مسلمان ھونے کی وجہ سے پاکستان مذھبی نظریہ کی بنیاد پر ایک ھی مذھبی نظریہ والوں کی واضح اکثرت کا ملک ھے۔ جبکہ پاکستان لسانی نظریہ کی بنیاد پر چار قوموں پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قوموں کا ملک ھے۔ بلکہ کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والی ھندوستانی برادریاں بھی پاکستان کی شہری ھیں۔

پہلے بھی "دو قومی نظریہ" پنجاب ' سندھ ' خیبر پختونخوا ' بلوچستان کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ اتر پردیش کا مسئلہ تھا اور اب بھی اتر پردیش کا مسئلہ ھے۔ اس لیے اتر پردیش والے جانیں اور اتر پردیش والوں کا مسئلہ جانے۔ پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قومیں اور کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والی ھندوستانی برادریاں اپنے مسئلے پر دھیان دیں۔

چونکہ پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قومیں اور کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانی الگ الگ علاقوں میں رھنے کے بجائے پاکستان کے ھر علاقے میں مل جل کر رہ رھے ھیں۔ اس لیے پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قوموں اور کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والی ھندوستانی برادریوں کے باھمی تعلقات اور تنازعات پر دھیان دینے کی ضرورت ھے۔ نہ کہ اتر پردیش کے "دو قومی نظریہ" پر بحث و مباحثہ کرتے رھنے کی ضرورت ھے۔

قومون کی اپنی زمین ' زبان ' رسم و رواج ھوتے ھیں۔ پاکستان وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین پر قائم ھے۔ وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین کی درجہ بندی وادئ سندھ کی تہذیب کے پنجابی خطے۔ وادئ سندھ کی تہذیب کے سماٹ خطے۔ وادئ سندھ کی تہذیب کے ھندکو خطے۔ وادئ سندھ کی تہذیب کے براھوئی خطے کے طور پر کی جاسکتی ھے۔ وادئ سندھ کی تہذیب کے اصل باشندے پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی ھیں۔

پاکستان ' پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قوموں کا ملک ھے۔ پاکستان کی پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قوموں کو اردو زبان بولنے پر مجبور کر کے ' گنگا جمنا کی رسمیں اختیار کرنے پر مجبور کر کے ' یوپی ' سی پی کے رواج اختیار کرنے پر مجبور کر کے ' "پاکستانی قوم" کیسے بنایا جا سکتا ھے؟

پاکستان کی زمین کی اصل وارث اور مالک پنجابی ' سماٹ ' ھندکو اور براھوئی قوموں کے لیے "دو قومی نظریہ" ایک ناقابلِ عمل نظریہ تھا لیکن "دو قومی نظریہ" کی ناکامی کے بعد متبادل کے طور پر اب تک کوئی واضح نظریہ وجود میں نہ لانے کی وجہ سے پاکستان کی عوام پر دولت اور طاقت کے ذریعے حکمرانی کی جا رھی ھے۔ جسکی وجہ سے مالی وسائل رکھنے والے افراد کی طرف سے دولت کی بنیاد پر عوام کو فرقے ' علاقے ' نسل ' ذات اور برادری کی بنیاد پر ٹکڑیوں میں تقسیم کرکے عوام کا ھجوم اکٹھا کرکے حکومت حاصل کی جاتی ھے۔ حکومت حاصل کرنے کے بعد عوام کو بنیادی سہولیات اور انصاف فراھم کرنے کے بجائے حکومت کی طاقت کی بنیاد پر عوام پر راج کرکے عوام کے ساتھ ظلم اور زیادتیاں کی جا رھی ھیں۔ لیکن دولت اور طاقت کے ذریعے عوام پر راج کرنے والے بھی بے اطمینانی اور بے سکونی میں مبتلا ھیں۔ جبکہ ملک میں بھی بد امنی اور بد حالی بڑھتی جا رھی ھے۔

پاکستان کی عوام کو منظم اور مطمعن رکھنے ' عوام پر راج کرنے والوں کے اطمینان اور سکون جبکہ ملک میں بھی امن اور خوشحالی کے لیے ضروری ھے کہ؛ پاکستان کی زمین کی اصل وارث اور مالک پنجابی ' سماٹ ' ھندکو اور براھوئی قوموں اور پاکستان میں رھنے والی کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والی ھندوستانی برادریوں کے لیے "دو قومی" نظریہ جیسے ناکام نظریہ کی جگہ "قابلِ عمل نظریہ" وجود میں لایا جائے۔ تاکہ دولت اور طاقت کی بنیاد پر پاکستان کی عوام پر راج کرنے والوں سے نجات ملے ' عوام کو بنیادی سہولیات اور انصاف فراھم ھوں اور پاکستان میں سے بد امنی اور بد حالی ختم ھو۔

ھندوستانی مھاجروں کا مسئلہ کیا ھے؟

اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی سیاسی جماعت یا سیاسی مافیا ایم کیو ایم ھے۔ ایم کیو ایم اور یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا مسئلہ یہ ھے کہ؛

1۔ ایک طرف تو ھندوستانی خفیہ ایجنسی "را" کے ایجنڈے پر عمل کرکے پاکستان کے سب سے بڑے شھر اور پاکستان کی بندرگاہ کراچی کو پاکستان سے الگ کرنا چاھتے ھیں۔ یا کم از کم کراچی میں بدامنی قائم رکھنا چاھتے ھیں۔

2۔ دوسری طرف چاھتے ھیں کہ پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ ان کو ویسے ھی سپورٹ کرے جیسے مھاجر چیف آف آرمی اسٹاف مرزا اسلم بیگ اور مھاجر چیف آف آرمی اسٹاف پرویز مشرف کے دور میں کرتی رھی۔

3۔ ھندوستانی مھاجروں کو پاکستان کی وفاقی حکومت اور سندھ کی صوبائی حکومت میں شامل کرکے ' کراچی ' حیدرآباد ' میرپور خاص کی مقامی حکومت مکمل طور پر انکے سپرد کرکے انکو بھرپور انتظامی طاقت فراھم کی جاتی رھے۔

4۔ ایم کیو ایم اور یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر پاکستان میں سیاسی اور انتظامی بحران پیدا کرکے ' پاکستان کی سماجی زندگی مفلوج کرتے رھیں اور پاکستان کی معاشی ترقی میں رکاوٹ بنے رھیں۔

پنجابی قوم پرستی کی آگ نے بھڑکنا شروع کردیا ھے۔

پنجابیوں نے بھی پنجاب اور پنجابیوں کے بارے میں پٹھان ' بلوچ ' مھاجر قوم پرست سیاستدانوں اور صحافیوں کے ارشادات ' القابات ' فرمودات اور کلمات سن سن کر "پنجابی قوم پرست" بننا شروع کردیا ھے۔ جسکی وجہ سے پنجابی قوم پرستی کی آگ نے بھڑکنا شروع کردیا ھے۔

پنجابی قوم پرستی کی آگ نے چونکہ پٹھان ' بلوچ ' مھاجر قوم پرستی کے ردِ عمل کے طور پر بھڑکنا شروع کیا ھے اور پاکستان میں پنجابیوں کی آبادی 60٪ ھے۔ اس لیے پنجابی قوم پرستی کی آگ نے پٹھان ' بلوچ ' مھاجر قوم پرستی کی آگ کی طرح سلگنا نہیں ھے۔ بلکہ بھانبڑ بن کر بھڑکنا ھے۔ اس لیے پٹھان ' بلوچ ' مھاجر سیاستدانوں اور صحافیوں کی سلگائی ھوئی قوم پرستی کی آگ کے جواب میں بھڑکنے والے پنجابی قوم پرستی کی آگ کے بھانبھڑ نے اب پٹھان ' بلوچ ' مھاجر کو بھون کر رکھ دینا ھے۔

بہتر ھے کہ؛ پٹھان ' بلوچ ' مھاجر اپنے قوم پرست سیاستدانوں اور صحافیوں کو موردِ الزام ٹھرائیں۔ نہ کہ پنجابی قوم پرستوں کو موردِ الزام ٹھرائیں۔ کیونکہ پٹھان ' بلوچ ' مھاجر قوم پرست سیاستدانوں اور صحافیوں کو موردِ الزام ٹھرانے کے بجائے پنجابیوں پر الزام لگانے سے "پنجابی قوم پرستی" کی آگ کے بھانبھڑ نے مزید بھڑک جانا ھے۔

بلوچستان کے کون سے اضلاع میں کس قوم کی اکثریت ھے؟

1۔ بارکھان 2۔ بولان 3۔ نصیر آباد 4۔ جھل مگسی 5۔ صحبت پور 6۔ ڈیرہ بگٹی میں کس قوم کی اکثریت ھے؟ ان اضلاع میں پنجابیوں کی آبادی کتنی ھے؟

1۔ کوھلو 2۔ جعفر آباد میں کس قوم کی اکثریت ھے؟ ان اضلاع میں بلوچوں کی آبادی کتنی ھے؟

1۔ نوشکی 2۔ قلات 3۔ مستونگ 4۔ خاران 5۔ خضدار میں کس قوم کی اکثریت ھے؟ ان اضلاع میں براھوئی کی آبادی کتنی ھے؟

01۔ کوئٹہ 02۔ لورالائی 03۔ ھرنائی 04۔ قلعہ سیف اللہ 05۔ پشین 06۔شیرانی 07۔ قلعہ عبداللہ 08۔ زیارت 09۔ موسی خیل 10۔ ژوب میں کس قوم کی اکثریت ھے؟ ان اضلاع میں پشتون کی آبادی کتنی ھے؟

1۔ لسبیلہ 2۔ آواران 3۔ کیچ 4۔ پنجگور 5۔ گوادر 6۔ واشک 7۔ چاغی میں کس قوم کی اکثریت ھے؟ ان اضلاع میں جگدل کی آبادی کتنی ھے؟

1۔ لہڑی میں کس قوم کی اکثریت ھے؟ ان اضلاع میں پنجابیوں کی آبادی کتنی ھے؟

پاکستان بناتے وقت “پاور” کے کھیل میں "پنجابی قوم" کی ھار ھوئی تھی۔

عدلیہ ' فارن سروسز ' سول سروسز ' ملٹری سروسز ‘ سیاسی جماعتوں ' بلدیاتی اداروں ' بار کونسلوں ' پریس کلبوں ' چیمبر آف کامرس اور تعلیمی اداروں پر جس قوم کی بالادستی ھو ' وہ قوم "پاور فل" ھوتی ھے اور سیاست اس "پاور" کو حاصل کرنے کا راستہ ھے۔

پاور فل ھونے کے لیے ھی افراد ' خاندان ‘ برادری اور قوم ' سیاست کرتے ھیں ' جن کو "پاور پلیئر" کہا جاتا ھے۔ "پاور پلیئر" ھر دور میں کھیل کھیلتے آئے ھیں۔ اس لیے ھر جگاہ سیاست ھوتی ھے اور ھر دور میں ھوتی آئی ھے۔ یہ البتہ الگ بات ھے کہ سیاست کہیں جمہوری طریقوں اور سیاسی اصولوں کے تحت ھوتی ھے اور کہیں آمرانہ طریقوں اور سیاسی سازشوں کے ذریعے ھوتی ھے۔

پاکستان کے بننے سے پہلے بھی “پاور” کا کھیل ھوا تھا ' جس میں ھار پنجابی کی ھوئی اور ھندی- اردو بولنے والے ھندوستانی (یوپی ' سی پی والے ) جیت گے۔ برٹش انڈیا کی سب سے بڑی قوم ھندی- اردو بولنے والے ھندوستانی (یوپی ' سی پی والے ) تھے ' بنگالی دوسری بڑی قوم تھے۔ جبکہ پنجابی تیسری ' تیلگو چوتھی ' مراٹھی پانچویں ' تامل چھٹی ' گجراتی ساتویں ' کنڑا آٹھویں ' ملایالم نویں ' اڑیہ دسویں بڑی قوم تھے۔

برٹش انڈیا میں "دو قومی نظریہ" کو بنیاد بنا کر ' دوسری بڑی قوم بنگالی اور تیسری بڑی قوم پنجابی کو مذھب کی بنیاد پر تقسیم کر کے مسلمان بنگالیوں اور مسلمان پنجابیوں کو پاکستان میں شامل کر کے ایک تو انڈیا کی دوسری اور تیسری بڑی قوم کو تقسیم کر دیا گیا۔ دوسرا برٹش انڈیا کی چوتھی ' پانچویں ' چھٹی ' ساتویں ' آٹھویں ' نویں ' دسویں بڑی قوم کو ھندی بولنے والے ھندوستانیوں کی بالادستی میں دے دیا گیا۔ تیسرا اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمانوں کو پاکستان لا کر ' پاکستان کا وزیر اعظم اردو بولنے والے ھندوستانی کو بنا دیا گیا۔ پاکستان کی قومی زبان بھی ان گنگا جمنا کلچر والے ھندوستانیوں کی زبان اردو کو بنا دیا گیا۔ پاکستان کا قومی لباس بھی ان گنگا جمنا کلچر والوں کی شیروانی اور پاجامہ بنا دیا گیا۔ پاکستان کی حکومت ' آئین ساز اسمبلی ' عدلیہ ' فارن سروسز ' سول سروسز ' ملٹری سروسز ‘ سیاسی جماعتوں ' بلدیاتی اداروں ' بار کونسلوں ' پریس کلبوں ' چیمبر آف کامرس اور تعلیمی اداروں پر اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی بالادستی قائم کروا دی گئی۔ اس لیے پاکستان کے بڑے بڑے شھروں پر اور پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانیوں کا "کنٹرول" قائم ھوگیا۔

جس برادری کا شھر کی بلدیہ ' بار کونسل ' پریس کلب ' چیمبر آف کامرس اور تعلیمی اداروں پر "کنٹرول" ھو۔ اس برادری کا شھر پر "کنٹرول" ھوتا ھے۔ جس قوم کا ملک کی عدلیہ ' فارن سروسز ' سول سروسز ' ملٹری سروسز ‘ سیاسی جماعتوں پر "کنٹرول" ھو۔ اس قوم کا ملک پر "کنٹرول" ھوتا ھے۔

پاکستان کی 60% آبادی پنجابی ھے۔ جبکہ 40% آبادی سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر ھے۔ (ھندکو ' کشمیری اور ڈیرہ والی کا شمار پنجابی قوم میں ھوتا ھے)۔

پاکستان کے قیام کے سات دھائیوں کے بعد پاکستان کی 60% آبادی پنجابی ھونے کی وجہ سے پاکستان کی عدلیہ ' فارن سروسز ' سول سروسز ' ملٹری سروسز ‘ سیاسی جماعتوں پر "کنٹرول" پنجابی قوم کا ھوچکا ھے۔ جبکہ دوسرے نمبر پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں اور تیسرے نمبر پر پٹھانوں کا "کنٹرول" ھے۔

پنجابی قوم کی پاکستان میں سماجی ' معاشی ' انتظامی ' اقتصادی بالادستی قائم کرنے کے لیے اب پاکستان کے 10 بڑے شھروں پر پنجابیوں کا "کنٹرول" قائم کروانا ضروری ھے۔ پاکستان کے 10 بڑے شھر 01۔ کراچی 02۔ لاھور 03۔ فیصل آباد 04۔ راولپنڈی 05۔ گجرانوالہ 06۔ ملتان 07۔ حیدرآباد 08۔ پشاور 09۔ اسلام آباد 10۔ کوئٹہ ھیں۔ پاکستان کے 10 بڑے شھروں پر "پنجابی قوم کے کنٹرول" کے لیے ضروری ھے کہ؛ ان شھروں کی بلدیہ ' بار کونسل ' پریس کلب ' چیمبر آف کامرس اور تعلیمی اداروں پر "پنجابیوں کا کنٹرول" ھو۔ بلکہ "پنجابی قوم پرستوں کا کنٹرول" ھو۔

پاکستان کے 10 بڑے شھروں میں سے 6 شھر لاھور ' فیصل آباد ' راولپنڈی ' گجرانوالہ ' ملتان ' اسلام آباد پنجابی اکثریتی آبادی والے شھر ھیں۔ جبکہ دوسری بڑی آبادی اردو بولنے ھندوستانی مھاجروں کی اور تیسری پٹھانوں کی ھے۔

پنجاب کے بڑے شھروں میں اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر چونکہ پنجابی زبان بولنا بھی جانتے ھیں۔ اس لیے پنجاب کے 6 بڑے شھروں میں بلدیہ ' بار کونسل ' پریس کلب ' چیمبر آف کامرس اور تعلیمی اداروں پر "پنجابیوں کا مکمل کنٹرول" قائم کرنے کے لیے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے پنجابیوں کو حکمت عملی مرتب کرنی چاھیے۔

پاکستان کے 10 بڑے شھروں میں سے ایک شھر کراچی اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی اکثریتی آبادی والا شھر ھے۔ جبکہ دوسری بڑی آبادی پنجابیوں کی اور تیسری پٹھانوں کی ھے۔ کراچی کی بلدیہ ' بار کونسل ' پریس کلب ' چیمبر آف کامرس اور تعلیمی اداروں پر "پنجابیوں کا کنٹرول" قائم کرنے کے لیے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے پنجابیوں کو حکمت عملی مرتب کرنی چاھیے۔

پاکستان کے 10 بڑے شھروں میں سے ایک شھر حیدرآباد راجستھانیوں اور گجراتیوں کی اکثریتی آبادی والا شھر ھے۔ جبکہ دوسری بڑی آبادی سندھیوں کی ھے اور تیسری بڑی آبادی اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی ھے۔ لیکن اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں نے راجستھانیوں اور گجراتیوں کو مھاجر بنایا ھوا ھے اور ان پر اپنی سماجی اور سیاسی بالادستی قائم کرکے بلدیہ ' بار کونسل ' پریس کلب ' چیمبر آف کامرس اور تعلیمی اداروں پر "کنٹرول" قائم کیا ھوا ھے۔ حیدرآباد کی بلدیہ ' بار کونسل ' پریس کلب ' چیمبر آف کامرس اور تعلیمی اداروں پر "پنجابیوں کا کنٹرول" قائم کرنے کے لیے راجستھانیوں اور گجراتیوں یا سندھیوں کے ساتھ اشتراک کرکے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے پنجابیوں کو حکمت عملی مرتب کرنی چاھیے۔

پاکستان کے 10 بڑے شھروں میں سے 2 شھر پشاور اور کوئٹہ پٹھان اکثریتی آبادی والے شھر ھیں۔ جبکہ دوسری بڑی آبادی پنجابیوں کی ھے. پشاور اور کوئٹہ کی بلدیہ ' بار کونسل ' پریس کلب ' چیمبر آف کامرس اور تعلیمی اداروں پر "پنجابیوں کا کنٹرول" قائم کرنے کے لیے پٹھانوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے پنجابیوں کو حکمت عملی مرتب کرنی چاھیے۔

پنجابی قوم پاکستان کا یومِ آزادی 14 اگست کو منائے یا 17 اگست کو منائے؟

پاکستان کا قیام " 3 جون 1947 کے کیبنٹ مشن" کی سفارشات کے بعد برطانیہ کی پارلیمنٹ کے " انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ 1947" کے تحت پر امن طور پر وجود میں آیا۔

جب 14 اگست 1947 کو پاکستان اور 15 اگست 1947 کو بھارت کے قیام کا اعلان کیا گیا تو اس وقت پنجاب نہ پاکستان میں تھا اور نہ بھارت میں۔

پاکستان کے قیام کے 2 دن کے بعد 17 اگست 1947 کو پنجابیوں کو بتایا گیا کہ؛ پنجاب کے کون سے اضلاع پاکستان میں شامل کردیے گئے ھیں اور کون سے اضلاع بھارت میں شامل کردیے گئے ھیں۔

یہ بھی بتایا گیا کہ؛ پاکستان کا گورنر جنرل سندھی محمد علی جناح اور پاکستان کا وزیرِ اعظم اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی لیاقت علی خاں کو بنا دیا گیا ھے۔

17 اگست 1947 کو پنجاب کو تقسیم کرکے 17 مسلم پنجابی اکثریتی اضلاع پاکستان میں شامل کردیے گئے اور 12 ھندو پنجابی و سکھ پنجابی اکثریتی اضلاع بھارت میں شامل کردیے گئے۔

پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے مسلمان پنجابیوں ' ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں کو نقل مکانی کرنی پڑی۔ جسکی وجہ سے مار دھاڑ ' لوٹ مار اور قتل و غارتگری کا سلسلہ شروع ھوا۔ جس میں؛

20 لاکھ پنجابی مارے گئے۔ جو کہ؛ تاریخ میں دنیا کی مختصر وقت میں سب سے بڑی قتل و غارتگری قرار دی جاتی ھے۔

2 کروڑ پنجابیوں نے نقل مکانی کی۔ جو کہ تاریخ میں دنیا کی مختصر وقت میں سب سے بڑی نقل مکانی قرار دی جاتی ھے۔

1947 میں پنجابی قوم کو مذھب کی بنیاد پر تقسیم کروا کر ' 20 لاکھ پنجابی مروا کر اور 2 کروڑ پنجابی بے گھر کروا کر ' پنجاب کو تقسیم کروانے کے بعد اب پنجابی قوم اور پنجاب کے دشمن ان سازشوں میں مصروف رھتے ھیں کہ؛

پنجابی قوم کو مزید تقسیم کرنے کے لیے پنجابی قوم کو برادریوں ' علاقوں اور لہجوں کی بنیاد پر بھی تقسیم کیا جائے۔ اب پنجابی قوم؛

1۔ نہ تو ارائیں ' اعوان ' بٹ ' جٹ ' راجپوت ' شیخ ' گجر ' وغیرہ برادروں کی بنیاد پر تقسیم ھوگی۔

2۔ نہ پنجابی قوم امرتسری ' انبالوی ' بٹالوی ' بھاولپوری ' پشوری ' جالندھری ' جہلمی ' سیالکوٹی ' فیصل آبادی ' کشمیری ' گرداسپور ی ' لدھیانوی ' ملتانی ' ھوشیارپوری ' فیروزپوری ' لاھوری ' وغیرہ علاقوں کی بنیاد پر تقسیم ھوگی۔

3۔ نہ پنجابی قوم پوادی ' پوٹھوھاری ' تھلوچی ' جھنگچوی ' ھندکو ' دھنی ' دوآبی ' ڈوگری ' ڈیرہ والی ' ریاستی ' شاھپوری ' ماجھی ' مالوی ' ملتانی ' وغیرہ لہجوں کی بنیاد پر تقسیم ھوگی۔

مذھبی بنیاد پر تقسیم ھونے کے بعد اب پنجابیوں کا برادریوں ' علاقوں اور لہجوں کی بنیاد پر مزید تقسیم ھونے کا نہیں بلکہ؛ پنجابیوں کے متحد ھونے ' پنجابی قوم کے مستحکم ھونے اور پنجاب کے ترقی کرنے کا دور ھے۔ انشا اللہ۔

پنجابی کی آبادی پاکستان کی 60٪ آبادی ھے۔ اس لیے؛ پنجابیوں کے متحد ھونے ' پنجابی قوم کے مستحکم ھونے اور پنجاب کے ترقی کرنے کا مطلب پاکستان کی مظبوطی اور خوشحالی ھے۔

لیکن مسئلہ یہ ھے کہ؛ پنجابی قوم پاکستان کا یومِ آزادی 14 اگست کو منائیں یا 17 اگست کو منائیں؟