Sunday 30 July 2017

"آل انڈیا مسلم لیگ" مسلمانوں کی پارٹی یا یوپی ' سی پی ' بہار کے مسلمانوں کی پارٹی؟


دسمبر 1906 میں جب آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس مین شرکت کے لیے ھندوستان کے مسلم رھنما ڈھاکہ میں جمع ھوئے تو کانفرنس کے اجلاس کے بعد ایک سیاسی انجمن کی شکل میں "آل انڈیا مسلم لیگ" کا قیام عمل میں آیا۔

"آل انڈیا مسلم لیگ" کی قرارداد ڈھاکہ کے نواب سلیم اللہ خان نے پیش کی تھی۔

برطانوی حکومت کے تئیں وفاداری کے جذبہ کا فروغ ' ھندوستانی مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ اور ان کے اندر دوسرے فرقوں کے تئیں عداوت کا امتناع "آل انڈیا مسلم لیگ" کے مقاصد قرار دیے گئے۔

"آل انڈیا مسلم لیگ" کے اولین صدر سر محمد سلطان آغا خاں منتخب ھوئے اور نائب صدر کی حثیت سے حکیم اجمل خاں کا انتخاب عمل میں آیا۔

"آل انڈیا مسلم لیگ" نے مطالبہ کیا کہ 1905 میں وائسرائے لارڈ کرزن کے ذریعہ عمل میں لائی جانے والی تقسیمِ بنگال کو منسوخ نہیں کیا جانا چاھیے۔

پہلے "آل انڈیا مسلم لیگ" کا صدر دفتر علی گڑھ میں قائم تھا لیکن بعد ازاں 1916 میں اسے لکھنو متتقل کر دیا گیا اور اسی سال کانگریس اور لیگ کے درمیان "میثاقِ لکھنو" پر دستخط ھوئے۔

اس معاہدے کی رو سے جن نکات پر اتفاق رائے کیا گیا ان کی تفصیل کچھ یوں ھے؛

1۔ کانگریس نے مسلم لیگ کا مطالبہ برائے جداگانہ انتخاب تسلیم کر لیا۔

2۔ مرکزی قانون ساز اسمبلی میں مسلمانوں کے لیے ایک تہائی نشستیں مخصوص کرنے سے بھی کانگریس نے اتفاق کر لیا۔

3۔ ھندوؤں کو پنجاب اور بنگال میں Weight age دیا گیا۔ ان صوبوں میں ھندو نشستوں میں اضافے کے ساتھ مسلم لیگ نے اتفاق کر لیا ۔

4۔ جن جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت نہیں تھی وھاں مسلم نشستوں میں اضافہ کر دیا گیا ۔

5۔ اس بات سے بھی اتفاق کیا گیا کہ کوئی ایسا بل یا قرارداد جس کے ذریعے اگر ایک قومیت متاثر ھو سکتی ھے اور اسی قومیت کے تین چوتھائی اراکین اس بل یا قرارداد کی مخالفت کرے تو ایسا کوئی مسودہ قانون کاروائی کے لیے کسی بھی اسمبلی میں پیش نہیں کیا جائے گا۔

مسلم لیگ کے اجلاس میں بنگال سے فضل الحق ' عبدالرسول ' مولانا اکرم خان اور ابوالقاسم۔ پنجاب سے سر فضل حسین اور ذوالفقارعلی خان۔ یوپی سے سر رضا علی ' سرمحمد یعقوب ' آل نبی اور آفتاب احمد خان۔ بہار سے حسن امام اور مظفر حق نے شرکت کی اور "لکھنو پیکٹ" طے پایا۔

"لکھنو پیکٹ" آگے چل کے "دو قومی نظریہ" کی بنیاد بنا۔ آل انڈیا نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ دونوں نے مسلمانوں کے لئے جداگانہ انتخاب کو تسلیم کیا۔ گو مسلمان اور ھندوﺅں کا ایک بڑا طبقہ اس پیکٹ کے شدید خلاف تھا۔

1935 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت ھونے والے الیکشن کے بعد کانگریس اور لیگ کےدرمیان اختلافات نے شدت اختیار کر لی۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران مسلم لیگ نے برطانوی حکومت کا ساتھ دیا جبکہ کانگریس نے اس کی مخالفت کی۔

23 مارچ 1940 کو مسلم لیگ نے لاھور میں منعقدہ اپنے اجلاس میں "قراداد لاھور" پاس کی اور مسلمان اکثریتی علاقوں پر مشتمل "ریاستیں" قائم کرنے کا مطالبہ پیش کر دیا۔

1940 سے 1947 تک لیگ نے قیام پاکستان کے سلسلہ میں کامیاب کوششیں کیں جن میں اسے برطانوی حکومت کی تائید اور حمایت حاصل رھی۔

انجام کار آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ھندوستان کے فرقہ وارانہ مسئلہ کے لیے تقسیمِ ھند کو واحد حل تجویز کیا۔

برطانیہ کی پارلیمنٹ کے " انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ 1947" کے تحت پر امن طور پر 15 اگست 1947 کو جب پاکستان اور بھارت وجود میں آئے تو اس وقت پنجاب نہ پاکستان میں تھا اور نہ بھارت میں۔ پاکستان کے قیام کے 2 دن کے بعد 17 اگست 1947 کو پنجابیوں کو بتایا گیا کہ پنجاب کے کون سے اضلاع پاکستان میں شامل کردیے گئے ھیں اور کون سے اضلاع بھارت میں شامل کردیے گئے ھیں۔

17 اگست 1947 کو پنجاب کو تقسیم کرکے 17 مسلم پنجابی اکثریتی اضلاع پاکستان میں شامل کردیے گئے اور 12 ھندو پنجابی و سکھ پنجابی اکثریتی اضلاع بھارت میں شامل کردیے گئے۔ پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے مسلمان پنجابیوں ' ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں کو نقل مکانی کرنی پڑی۔ جسکی وجہ سے مار دھاڑ ' لوٹ مار اور قتل و غارتگری کا سلسلہ شروع ھوا؛

جس میں 20 لاکھ پنجابی مارے گئے۔ جو کہ تاریخ میں دنیا کی مختصر وقت میں سب سے بڑی قتل و غارتگری قرار دی جاتی ھے۔

جبکہ 2 کروڑ پنجابیوں نے نقل مکانی کی۔ جو کہ تاریخ میں دنیا کی مختصر وقت میں سب سے بڑی نقل مکانی قرار دی جاتی ھے۔

اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ؛ یہ سارا کھیل ھندوستان کے مسلمانوں کی آزادی کا تھا یا مسلمان اور سکھ پنجابیوں کو آپس میں لڑواکر اور پنجاب کو تقسیم کرکے ' پاکستان کے نام پر مسلمانوں کے ملک کو وجود میں لا کر اس ملک پر یوپی ' سی پی ' بہار کے مسلمانوں کی سماجی ' سیاسی اور انتظامی بالادستی قائم کرنے کا؟

ریاست کے ھر دیانتدار ادارے کی جانب سے نواز شریف کی کرپشن پکڑی گئی۔

نواز شریف کو دو مرتبہ کرپشن پر پکڑا گیا لیکن پنجابیوں نے ھر بار نواز شریف کو مینڈیٹ دے کر پھر سے پاکستان کا وزیرِ اعظم بنوا دیا۔ اس لیے اب نواز شریف کو تیسری مرتبہ کرپشن پر پکڑنے کے باوجود بھی ڈر ھے کہ پنجابیوں سے چوتھی مرتبہ پھر سے مینڈیٹ لے کر نواز شریف ایک بار پھر سے پاکستانیوں کے سر پر مسلط نہ ھو جائے۔

نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم بنا اور تین مرتبہ کرپشن پر برطرف ھوا۔

پہلی مرتبہ نواز شریف کو صدر مملکت نے برطرف کیا تھا جو سیاسی طور پر ایک قطعاً غیر جانبدار شخص ھوتا ھے۔

دوسری مرتبہ نواز شریف کو جنرل پرویز مشرف جیسے درد دل رکھنے والے جرنیل نے برطرف کیا تھا جو آئینِ پاکستان کا مکمل طور پر وفادار تھا۔ جنرل مشرف کا یہی اخلاص دیکھ کر سپریم کورٹ نے ان کو حق دیا تھا کہ آئین میں جو چاھے ترمیم کریں تاکہ ملک ترقی کی راہ پر چل سکے۔

اب تیسری مرتبہ نواز شریف کو سپریم کورٹ کے ایک بڑے بینچ نے کرپشن پر نااھل کر دیا ھے۔

یعنی ریاست کے ھر دیانتدار ادارے کی جانب سے نواز شریف کی کرپشن پر فیصلہ آ چکا ھے۔ اس لیے اب کسی ذی شعور پنجابی کو اس امر میں رتی برابر بھی شبہ نہیں ھونا چاھیے کہ نواز شریف نہ صرف کرپشن کرتا ھے بلکہ ایسا کرتے ھوئے ھر بار پکڑا بھی جاتا ھے۔ اس لیے پنجابیوں کو چاھیئے کہ بار بار نواز شریف کو مینڈیٹ دینے کے بجائے اب کسی غیر پنجابی سیاستدان کو مینڈیٹ دیں تاکہ پاکستان میں سے کرپشن کا خاتمہ ھوسکے اور ملک ترقی کی راہ پر چل سکے۔

ویسے نواز شریف کے ساتھ عجیب اتفاق ھے کہ؛

نواز شریف کو 1993 میں جب پاکستان کے صدر نے آئین کے آرٹیکل 58 ٹو بی کے اختیارات کا استعمال کرکے وزارتِ اعظمیٰ سے نکالا تو اس وقت پاکستان کا صدر پٹھان غلام اسحاق خان تھا۔

نواز شریف کو 1999 میں جب مارشل لاء نافذ کرکے وزارتِ اعظمیٰ سے نکالا تو اس وقت پاکستان کی فوج کا سربراہ اردو بولنے والا ھندوستانی مھاجر جنرل پرویز مشرف تھا۔

نواز شریف کو 2017 میں اب سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت وزارتِ اعظمیٰ سے نکالا تو اس وقت پاکستان کی سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کا سربراہ بلوچ آصف کھوسہ تھا۔

Saturday 29 July 2017

چین ' امریکہ اور عرب ممالک کے کھیل میں پاکستان کیا کرے گا؟

سی پیک کھیل کا مقصد تھا؛
1۔ گوادر پورٹ کی تعمیر
2۔ کاشغر سے لیکر گوادر پورٹ تک سڑکوں کی تعمیر
3۔ کاشغر سے لیکر گوادر پورٹ تک ریلوے لائنوں کی تعمیر
4۔ کاشغر سے لیکر گوادر پورٹ تک آئل اور گیس پائپ لائنوں کی تعمیر

گوادر پورٹ کی تعمیر بھی ھوگئی
کاشغر سے لیکر گوادر تک سڑکوں کی تعمیر بھی ھوگئی
کاشغر سے لیکر گوادر پورٹ تک ریلوے لائنوں کی تعمیر بھی ھو جائے گئی
کاشغر سے لیکر گوادر تک آئل اور گیس پائپ لائنوں کی تعمیر بھی ھو جائے گئی۔

سی پیک کے منصوبے پاکستان کے اندرونی معاملے اور ترقیاتی منصوبے تھے۔
سی پیک کے ترقیاتی منصوبے پاکستان کی کسی منتخب جمہوری حکومت نے شروع کیے یا پاکستان کی فوج نے شروع کیے یا پاکستان کی کسی منتخب جمہوری حکومت اور پاکستان کی فوج نے باھمی صلاح مشورے سے شروع کیے؟ اسکی وضاحت ھوجانی چاھیے۔

بحرحال اس وقت صورتحال یہ ھے کہ؛
ساؤتھ چائنا سی کا علاقہ امریکہ اور چین کے درمیان ٹکراؤ بلکہ جاپان ' تائیوان ' کوریا ' فلپائن کی وجہ سے تیسری جنگِ عظیم کا باعث بن سکتا ھے۔
چین کو تیل کی 50٪ سپلائی عرب ممالک سے ھوتی ھے۔ ساؤتھ چائنا سی میں امریکہ اور چین کے درمیان ٹکراؤ کی صورت میں چین کو آئل کی سپلائی میں مشکل ھوگی بلکہ عرب ممالک سے چین تک تیل کی رسائی کے درمیان امریکی بحری بیڑے حائل ھوںگے۔
ساؤتھ چائنا سی میں امریکہ اور چین کے درمیان ٹکراؤ کی صورت میں چین کو آئل کی سپلائی گوادر سے کاشغر تک کے راستے سے بحال رہ سکتی ھے۔
چین ' گوادر سے کاشغر تک آئل اور گیس لے جانے کی کوشش کرے گا۔
امریکہ ' گوادر سے کاشغر تک آئل اور گیس نہ جانے دینے کی کوشش کرے گا۔
بحرِ ھند میں واقع بحرِعرب کے کونسے ممالک چین کو آئل اور گیس دیں گے؟
چین کو آئل اور گیس فروخت کرنا یا نہ کرنا
بحرِ ھند میں واقع بحرِعرب کے ممالک کا اندرونی اور تجارتی معاملہ ھے۔
بین الاقوامی قانون کے تحت
گوادرسے لیکر کاشغر تک آئل اور گیس کی ترسیل کی اجازت دینا نہ دینا
پاکستان کا اندرونی اور تجارتی معاملہ ھے۔

اس لیے اب بحرِ ھند کا کھیل ھوگا؛
گوادرسے لیکر کاشغر تک آئل اور گیس پائپ لائنوں کے ذریعے
آئل اور گیس کن کن ممالک سے
گوادرسے لیکر کاشغر تک جائے گا؟
یہ چین ' امریکہ اور عرب ممالک کا کھیل ھے۔
یہ کھیل 2020 سے 2030 تک عروج پر رھے گا۔

چین ' امریکہ اور عرب ممالک کے کھیل میں پاکستان کیا کرے گا؟
1۔ چین ' امریکہ اور عرب ممالک کے کھیل میں پاکستان امریکہ کے ساتھ رھے گا؟
2۔ چین ' امریکہ اور عرب ممالک کے کھیل میں پاکستان چین کے ساتھ رھے گا؟
3۔ چین ' امریکہ اور عرب ممالک کے کھیل میں پاکستان غیرجانبدار رھے گا؟

چین ' امریکہ اور عرب ممالک کے کھیل میں پاکستان کو کیا کرنا ھے؟
اسکا فیصلہ کون کرے گا؟
1۔ اسکا فیصلہ پاکستان کی منتخب جمہوری حکومت کرے گی؟
2۔ اسکا فیصلہ پاکستان کی فوج کرے گی؟
3۔ اسکا فیصلہ پاکستان کی منتخب جمہوری حکومت اور پاکستان کی فوج باھمی صلاح مشورے سے کرے گی؟

عمران خان کی سیاست نے پنجاب میں پنجابی ' پٹھان جنگ کا ماحول بنا دیا ھے۔

مجھے میرے استاد نے بتایا تھا کہ کنجروں کے بھی سردار ھوتے ھیں۔ ویسے تو کسی کے ساتھ بدزبانی کرنی نہیں چاھیئے۔ معاملات اور تنازعات کو اخلاق اور قانون کے دائرے میں رھتے ھوئے حل کرنا چاھیئں۔ لیکن اگر کہیں بدزبانی کرنی ھی پڑ جائے تو کنجر سے کرلینا لیکن کنجروں کے سردار کو خود برا نہ کہنا۔ کیونکہ عقیدت اندھی ھوتی ھے۔ وہ کنجر اپنی بے عزتی برداشت کرلے گا لیکن عقیدت کی وجہ سے اپنے سردار کی بے عزتی برداشت نہیں کرے گا۔ سمجھانے کا مقصد یہ تھا کہ جب بھی کسی سے کوئی معاملہ یا تنازعہ ھوجائے تو اخلاق اور قانون کے دائرے میں رھتے ھوئے معاملے یا تنازعے کو حل کرنا لیکن کبھی کسی شخص بلکہ کبھی کسی برے شخص کو بھی اسکے چاھنے والوں کے سامنے برا مت کہنا۔

یہ تمہید اس لیے بیان کی کہ پاکستان کی سیاست کے کھیل میں نواز شریف کوئی سیٹھ نہیں ھے بلکہ پاکستان کا سب سے بڑا سیاسی رھنما ھے۔ بلکہ پاکستان کی سب سے بڑی ' طاقتور ' مظبوط ' با عزت اور باوقار قوم ' پنجابی قوم کی سیاسی جماعت ن لیگ کا سیاسی رھنما ھے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کی 342 نشستوں میں سے؛ ن لیگ کی 189 + پی پی پی کی 47 + پی ٹی آئی کی 33 + ایم کیو ایم کی 24 + جے یو آئی کی 13 + ف لیگ کی 5 + جے آئی کی 4 + پی کیو ایم ایل کی 3 + این پی پی کی 2 + ق لیگ کی 2 + اے این پی کی 2 + وطن پارٹی کی 1 + زیڈ لیگ کی 1 + عوامی لیگ کی 1 + آزد اراکین کی 9 نشستیں ھیں۔ یہ ٹوٹل 336 نشستیں بنتی ھیں۔ 1 نشست مھاجر پرویز مشرف کی پارٹی اے پی ایم ایل کے پاس ھے۔ جبکہ بقیہ 5 نشستیں بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے پاس ھیں۔

1988 سے لیکر 1999 تک کے گیارہ سالہ دور میں پی پی پی کی سندھی بے نظیر اور ن لیگ کے پنجابی نواز شریف کے درمیان سیاسی محاذآرائی رھی لیکن اس محاذآرائی میں سیاسی حربے استعمال ھوتے تھے۔ اس وقت سیاسی میدان میں پاکستان کی قومی اسمبلی کی 342 نشستوں میں سے پی پی پی کی 47 نشستیں ھونے کے باوجود اب 2013 سے پی ٹی آئی کی 33 نشستیں رکھنے والے پٹھان عمران خان اور پنجابی نواز شریف کے درمیان سیاسی محاذآرائی ھے۔ لیکن اس محاذآرائی میں سیاسی حربے استعمال کرنے کے بجائے پٹھان عمران خان نے بدتمیزی والی گفتگو اور بدتہذیبی والا انداز اختیار کرکے سیاست کے ماحول کو گھٹیا بنا دیا ھے۔ چونکہ تلوار کے زخم مٹ جاتے ھیں لیکن زبان کے زخم نہیں مٹتے۔ اس لیے سیاسی انداز کے بجائے بازاری انداز میں نواز شریف کی عزت اور غیرت پر لگائے جانے والے زبان کے زخموں کے بعد نواز شریف ایک ناکام سیاستدان اور بڑا بے غیرت انسان ھوگا جو صرف اپنی ھی نہیں بلکہ اپنے خاندان کی بھی ایک پٹھان عمران خان سے تذلیل اور توھین کروا کر خاموش رھے اور پٹھان عمران خان کو سبق نہ سکھائے۔

سپریم کورٹ کے نواز شریف کو صادق اور امین نہ ھونے کی وجہ سے نا اھل قرار دے کر وزیرِ اعظم کے طور پر نا اھل قرار دینے کے باوجود بھی ن لیگ کا سیاسی رھنما تو نواز شریف نے ھی رھنا ھے۔ نواز شریف چونکہ تین بار پاکستان کا وزیرِ اعظم منتخب ھوچکا ھے اور وہ بھی پنجابیوں کے ووٹوں سے۔ اس لیے ایک الو یا گدھے کو بھی معلوم ھے کہ نواز شریف پاکستان کی سب سے بڑی قوم اور پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی کا واحد سیاسی رھنما بھی ھے۔ نواز شریف کو پنجابیوں کی سیاسی حمایت حاصل ھے۔ گذشتہ 32 سال سے پنجابیوں نے سندھی بے نظیر کو پنجاب کی حکومت نہ بنانے دی ' پنجابیوں نے بلوچ زرداری کو پنجاب کی حکومت نہ بنانے دی ' تو پھر پٹھان عمران خان کو پنجابی کیسے پنجاب کی حکومت بنانے دیں گے؟ جبکہ پہلے نہیں تھے لیکن اس وقت پنجابی تو قوم پرست بھی بنتے جا رھے ھیں۔

کیا نواز شریف کی تذلیل اور توھین کرنے والوں کو احساس نہیں ھوتا کہ وہ کسی یتیم نواز شریف کی نہیں بلکہ ایک سیاسی رھنما کی تذلیل اور توھین کرتے ھیں۔ اس لیے انکی تذلیل اور توھین کا نواز شریف کے پیروکاروں کے ذھنوں پر کیا اثر ھوتا ھوگا؟ اگر یہ ھی اندار نواز شریف کے پیروکاروں نے عمران خان کے ساتھ اختیار کر لیا تو پھر خون خرابے کا ذمہ دار کون ھوگا؟ تحریکِ انصاف کو پٹھانوں کی حمایت حاصل ھے جبکہ ن لیگ کو پنجابیوں کی حمایت حاصل ھے۔ کیا عمران خان کی طرف سے نواز شریف کی تذلیل اور توھین کرنے کے ردِ عمل میں شروع ھونے والی جنگ کہیں پنجابی ' پٹھان جنگ میں تو تبدیل نہیں ھوجائے گی؟

ویسے پنجابی ' پٹھان میں اگر  جنگ شروع ھوئی تو پھر پنجابی ' پٹھان جنگ کا سب سے زیادہ فائدہ سندھیوں اور خاص طور پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں نے اٹھا لینا ھے۔ پٹھانوں سے پنجاب تو خالی ھوجانا ھے لیکن پنجابی ' پٹھان جنگ کی وجہ سے ایک تو اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں نے پنجابیوں کے ساتھ اپنے خراب تعلقات ٹھیک کر لینے ھیں اور دوسرا پنجابی ' پٹھان جنگ کا فائدہ اٹھاکر دیہی سندھ سے سندھیوں نے اور کراچی میں سے مھاجروں نے پٹھانوں کو نکال دینا ھے۔

Monday 24 July 2017

پٹھانوں کو اپنے سماجی ' سیاسی اور معاشی مستقبل پر دھیان دینا ھوگا۔

پاکستان اصل میں سپتا سندھو یا وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین کا ھی نیا نام ھے۔ سپتا سندھو یا وادئ سندھ کی تہذیب کے قدیمی باشندے جنہوں نے سپتا سندھو یا وادئ سندھ کی زمین پر تہذیب کو تشکیل دیا وہ پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی ھیں۔ جو پاکستان کی آبادی کا 85 فیصد ھیں۔ انہیں پاکستان کی 15 فیصد آبادی کی وجہ سے الجھن ' پریشانی اور بحران کا سامنا ھے۔ یہ 15 فیصد آبادی والے لوگ ھیں؛ افغانستان سے آنے والے جو اب پٹھان کہلواتے ھیں۔ کردستان سے آنے والے جو اب بلوچ کہلواتے ھیں۔ ھندوستان سے آنے والے جو اب مھاجر کہلواتے ھیں۔

پنجابی صرف پنجاب کی ھی سب سے بڑی آبادی نہیں ھیں بلکہ خیبر پختونخواہ کی دوسری بڑی آبادی ' بلوچستان کے پشتون علاقے کی دوسری بڑی آبادی ' بلوچستان کے بلوچ علاقے کی دوسری بڑی آبادی ' سندھ کی دوسری بڑی آبادی ' کراچی کی دوسری بڑی آبادی بھی پنجابی ھی ھیں۔ اس لیے کراچی میں اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی دیہی سندھ ' بلوچستان کے بلوچ علاقے اور جنوبی پنجاب میں بلوچ کی جبکہ بلوچستان کے پشتون علاقے اور خیبر پختونخواہ کے پختون علاقے میں پٹھان کی پنجابی قوم کے ساتھ محاذآرائی ھے۔

مسئلہ یہ ھے کہ پاکستان قائم تو سپتا سندھو یا وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین پر ھے لیکن غلبہ گنگا جمنا کی زبان و ثقافت اور افغانی و کردستانی بد تہذیبی کا ھو چکا ھے۔ کراچی میں یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر اپنا تسلط رکھنا چاھتے ھیں۔ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے پشتون علاقے میں افغانی نزاد پٹھان اپنا تسلط رکھنا چاھتے ھیں۔ بلوچستان کے بلوچ علاقے ' دیہی سندھ اور جنوبی پنجاب میں کردستانی بلوچ اپنا تسلط رکھنا چاھتے ھیں اور ان علاقوں میں پہلے سے رھنے والے لوگوں پر اپنی سماجی ' معاشی اور سیاسی بالاتری کو مزید بڑھانا چاھتے ھیں۔

سپتا سندھو یا وادئ سندھ کی تہذیب کے قدیمی باشندے ھونے کی وجہ سے پنجابی قوم کے اور سماٹ ' ھندکو ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی کے آپس کے سماجی ' معاشی اور سیاسی مراسم ٹھیک ھیں۔ لیکن پنجابی قوم کے اور اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں ' بلوچوں اور پٹھانوں کے آپس کے سماجی ' معاشی اور سیاسی مراسم ٹھیک نہیں ھیں۔ پاکستان میں پنجابی کی آبادی 60% ھے اور اس وقت پنجابی قوم سماٹ ' ھندکو ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی کو تو سماجی ' سیاسی اور معاشی طور پر تعاون فراھم کر رھی ھے لیکن پنجابی قوم اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں ' بلوچوں اور پٹھانوں کو سماجی ' سیاسی اور معاشی طور پر تعاون فراھم کرنے پر تیار نہیں ھے۔

اس لیے کراچی میں رھنے والے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں جبکہ دیہی سندھ ' بلوچستان کے بلوچ علاقے اور جنوبی پنجاب میں رھنے والے بلوچ کے پاس اسکے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ اپنے مراسم پنجابی قوم کے ساتھ جلد از جلد ٹھیک کرلیں ورنہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر تو تیزی کے ساتھ سماجی ' سیاسی اور معاشی طور پر تباہ اور بلوچ تیزی کے ساتھ برباد ھوتے جارھے ھیں لیکن پنجابی قوم کے ساتھ جلد از جلد مراسم ٹھیک نہ کرنے کی صورت میں سماجی ' سیاسی اور معاشی طور پر مزید تباہ و برباد ھو جائیں گے۔ جبکہ پنجاب میں تو پٹھان سماجی ' سیاسی اور معاشی طور پر پنجابی قوم کے رحم و کرم پر ھیں ھی لیکن سندھ ' کراچی اور خبیر پختونخواہ کے ھندکو علاقے میں بھی پٹھان کو پنجابی قوم نے سماجی ' سیاسی اور معاشی طور پر ٹھیک ٹھاک رگڑا لگا دینا ھے اور پٹھانوں کو خیبر پختونخواہ کے پختون علاقے اور بلوچستان کے پشتون علاقے تک محدود ھونا پڑ جانا ھے۔

Thursday 20 July 2017

سندھ و بلوچستان کے پنجابیوں کے بچوں کا مستقبل تباہ ھونے سے کیسے بچایا جائے؟


سندھ کا علاقہ سماٹ سندھیوں کا ھے۔ لیکن سندھ کے دیہی علاقوں پر قبضہ عربی نزادوں اور کردستان سے آکر بلوچوں نے کیا ھوا ھے۔ جبکہ سندھ کے شھری علاقوں پر قبضہ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے کیا ھوا ھے۔

دیہی سندھ کے عربی نزادوں اور بلوچوں کا موقف ھے کہ؛ دیہی سندھ پر پنجابیوں کا کوئی حق نہیں ھے۔ اس لیے دیہی سندھ میں آباد پنجابیوں کو دیہی سندھ میں سماجی ' معاشی ' سیاسی اور انتظامی حقوق کے لحاظ سے نظر انداز کیا جاتا ھے۔ جسکی وجہ سے دیہی سندھ میں آباد پنجابی دوسرے درجے بلکہ تیسرے درجے کے شھری کی حیثیت سے زندگی گزار رھے ھیں۔

بلوچستان کا علاقہ براھوئی کا ھے۔ لیکن بلوچستان کے شمالی علاقوں پر قبضہ افغانستان سے آکر پشتونوں نے کیا ھوا ھے۔ جبکہ بلوچستان کے جنوبی علاقوں پر قبضہ کردستان سے آکر بلوچوں نے کیا ھوا ھے۔

بلوچستان کے پشتونوں اور  بلوچوں کا موقف ھے کہ؛ بلوچستان پر پنجابیوں کا کوئی حق نہیں ھے۔ اس لیے بلوچستان میں آباد پنجابیوں کو بلوچستان میں سماجی ' معاشی ' سیاسی اور انتظامی حقوق کے لحاظ سے نظر انداز کیا جاتا ھے۔ جسکی وجہ سے بلوچستان میں آباد پنجابی دوسرے درجے بلکہ تیسرے درجے کے شھری کی حیثیت سے زندگی گزار رھے ھیں۔

چونکہ مستقبل میں بھی دیہی سندھ اور بلوچستان میں آباد پنجابیوں کو سماجی عزت ' معاشی استحکام ' سیاسی حقوق ' انتظامی انصاف اور جان و مال کا تحفظ ملنے کے امکانات نہیں ھیں۔ اس لیے دیہی سندھ اور بلوچستان میں آباد پنجابیوں کو دیہی سندھ اور بلوچستان سے واپس پنجاب لاکر آباد کرنا ضروری ھے۔

اس وقت صورتحال یہ ھے کہ؛ جتنے پنجابی بلوچستان کے بلوچ علاقے اور دیہی سندھ میں رھتے ھیں۔ اس سے زیادہ بلوچ پنجاب میں رھتے ھیں۔ جتنے پنجابی بلوچستان کے پشتون علاقے میں رھتے ھیں۔ اس سے زیادہ پشتون پنجاب میں رھتے ھیں۔ بلکہ اس وقت پاکستان کا وزیر اعظم بھی پنجاب میں رھنے والا پٹھان ھے اور پنجاب کا وزیر اعلی بھی پنجاب میں رھنے والا بلوچ ھے۔

پنجابی اپنا تو ماضی برباد کرچکے ھیں لیکن اب اپنے بچوں کا مستقبل تباہ نہیں کرنا چاھتے۔ اس لیے کیا یہ بہتر نہیں رھے گا کہ؛ بلوچستان حکومت بلوچستان میں آباد پنجابیوں کو پنجاب منتقل کردے اور پنجاب میں رھنے والے پشتونوں کو بلوچستان کے پشتون علاقے میں اور پنجاب میں رھنے والے بلوچوں کو بلوچستان کے بلوچ علاقے میں منتقل کرلے اور ان کی جائیدادوں کا تبادلہ کردیا جائے۔ تاکہ بلوچستان میں آباد پنجابی کو پنجاب منتقل ھونے سے سماجی ' معاشی ' سیاسی اور انتظامی حقوق حاصل ھوسکیں اور وہ دوسرے درجے بلکہ تیسرے درجے کے شھری کی حیثیت سے زندگی گزار نے پر مجبور نہ رھیں۔

سندھ حکومت دیہی سندھ میں آباد پنجابیوں کو پنجاب منتقل کردے اور پنجاب میں رھنے والے عربی نزادوں اور بلوچوں کو دیہی سندھ میں منتقل کرلے اور ان کی جائیدادوں کا تبادلہ کردیا جائے۔ تاکہ دیہی سندھ میں آباد پنجابی کو پنجاب منتقل ھونے سے سماجی ' معاشی ' سیاسی اور انتظامی حقوق حاصل ھوسکیں اور وہ دوسرے درجے بلکہ تیسرے درجے کے شھری کی حیثیت سے زندگی گزار نے پر مجبور نہ رھیں۔

سندھ حکومت کے پاس دوسرا حل یہ بھی ھے کہ؛ دیہی سندھ میں آباد پنجابیوں کو کراچی منتقل کرکے کراچی میں رھنے والے عربی نزادوں اور بلوچوں کو دیہی سندھ منتقل کرلے اور ان کی جائیدادوں کا تبادلہ کردیا جائے۔ جبکہ سندھ کو تقسیم کرکے دیہی سندھ کو عربی نزادوں ' بلوچوں اور سماٹ کا صوبہ قرار دے دے اور کراچی کو مھاجروں اور پنجابیوں کا صوبہ بنادے۔

کراچی ‘ سندھ اور بلوچستان کے پنجابی کیا کریں؟

کراچی ‘ سندھ اور بلوچستان میں رھنے والے پنجابیوں کو چونکہ کراچی ‘ سندھ اور بلوچستان کی مقامی اور صوبائی حکومٹوں میں نمائدگی نہیں دی جاتی ' اس لیے کراچی ‘ سندھ اور بلوچستان کے پنجابیوں کا سیاسی موقف سامنے نہیں آتا اور نہ ھی کراچی ‘ سندھ اور بلوچستان کے پنجابیوں کو سیاسی حقوق اور حکومتی سہولیات مل پاتی ھیں۔

کراچی ‘ سندھ اور بلوچستان میں رھنے والے پنجابیوں کو چونکہ کراچی ‘ سندھ اور بلوچستان کی مقامی اور صوبائی حکومٹوں میں سرکاری نوکریاں بھی نہیں دی جاتیں ' اس لیے کراچی ‘ سندھ اور بلوچستان کے پنجابیوں کو چاھیئے کہ کراچی ‘ سندھ اور بلوچستان کی مقامی اور صوبائی حکومٹوں میں سرکاری نوکریوں کے لیے درخواستیں دیتے رھنے کے بجائے وفاقی حکومت کی نوکریوں کے لیے درخواست دیا کریں۔

وفاقی حکومت کو چاھیئے کہ کراچی ‘ سندھ اور بلوچستان میں رھنے والے پنجابیوں کو چونکہ کراچی ‘ سندھ اور بلوچستان کی مقامی اور صوبائی حکومٹوں میں سرکاری نوکریاں نہیں دی جاتیں ' اس لیے کراچی ‘ سندھ اور بلوچستان میں رھنے والے پنجابیوں کو وفاقی حکومت کی سرکاری نوکریاں دی جائیں۔

پنجاب حکومت کو بھی چاھیئے کہ کراچی ‘ سندھ اور بلوچستان میں پنجابیوں  کے ساتھ مناسب سلوک نہ ھونے کی وجہ سے جو پنجابی واپس پنجاب آنا چاھتے ھیں انکے لیے پنجاب حکومت میں سرکاری نوکریوں کا کوٹا رکھا جائے ' انکے بچوں کے لیے میڈیکل اور انجینیئرنگ کالجز میں داخلہ کے لیے نشستیں رکھی جائیں اور رھائشی کالونیاں بنا کر کراچی ‘ سندھ اور بلوچستان سے پنجاب واپس آنے والے پنجابیوں کی پنجاب میں آبادگاری میں سہولت فراھم کی جائے۔

کراچی ‘ سندھ اور بلوچستان کے پنجابیوں کو چاھیئے کہ اپنے مسئلے اور معاملات کے ھل پر دھیان دیں۔ کراچی ‘ سندھ اور بلوچستان کے مسئلے اور معاملات وہ دیکھ لیں گے جن کے پاس کراچی ‘ سندھ اور بلوچستان میں سیاسی نمائدگی اور مقامی و صوبائی حکومٹوں میں سرکاری نوکریاں ھوتی ھیں۔

کراچی ‘ سندھ اور بلوچستان میں رھنے والے پنجابیوں کو چاھیئے کہ آپس میں تعاون پر زیادہ دھیان دیں تاکہ اپنا اور اپنے بچوں کا سماجی و معاشی مستقبل کراچی ‘ سندھ اور بلوچستان میں محفوظ کر سکیں۔


کراچی ‘ سندھ اور بلوچستان میں وفاقی حکومت کی سرکاری نوکریاں کرنے والے پنجاب کے پنجابیوں کو چاھیئے کہ کراچی ‘ سندھ اور بلوچستان میں رھنے والے پنجابی کے ساتھ جس قدر ھو سکے تعاون کریں تاکہ کراچی ‘ سندھ اور بلوچستان میں رھنے والے پنجابی کی جس قدر ھو سکے مدد کی جا سکے۔

Tuesday 18 July 2017

رھنما کون ھوتا ھے اور رھنما کا دائرہ کیا ھوتا ھے؟

رھنما وہ ھوتا ھے جسکی زبان سے نکلے ھوئے الفاظ پر عمل ھوتا ھے۔
اب دیکھنا یہ ھے کہ رھنما ھونے کا دائرہ کیا ھوتا ھے؟
کچھ رھنماؤں کی زبان سے نکلنے والے الفاظ پر عمل؛
1۔ گھر کی حدود تک ھوتا ھے۔
2۔ محلے کی حدود تک ھوتا ھے۔
3۔ دیہہ کی حدود تک ھوتا ھے۔
4۔ یونین کونسل کی حدود تک ھوتا ھے۔
5۔ تحصیل کی حدود تک ھوتا ھے۔
6۔ ضلع کی حدود تک ھوتا ھے۔
7۔ ڈویژن کی حدود تک ھوتا ھے۔
8۔ صوبے کی حدود تک ھوتا ھے۔
9۔ ملک کی حدود تک ھوتا ھے۔

پاکستان میں ایسے کتنے رھنما ھیں جنکی زبان سے نکلنے والے الفاظ پر عمل ملک کی حدود تک ھوتا ھے۔
پنجاب میں ایسے کتنے رھنما ھیں جنکی زبان سے نکلنے والے الفاظ پر عمل صوبے کی حدود تک ھوتا ھے۔
سندھ میں ایسے کتنے رھنما ھیں جنکی زبان سے نکلنے والے الفاظ پر عمل صوبے کی حدود تک ھوتا ھے۔
خیبر پختونخواہ میں ایسے کتنے رھنما ھیں جنکی زبان سے نکلنے والے الفاظ پر عمل صوبے کی حدود تک ھوتا ھے۔
بلوچستان میں ایسے کتنے رھنما ھیں جنکی زبان سے نکلنے والے الفاظ پر عمل صوبے کی حدود تک ھوتا ھے۔

پاکستان کی انتخابی سیاست میں کس سیاسی جماعت کی کیا حیثیت ھے؟

پاکستان کی قومی اسمبلی کی 342 نشستیں ھیں۔ پاکستان کا موجودہ سیاسی ماحول لسانی ھے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھی لسانی بنیادوں پر منظم ھیں۔ اس لیے پاکستان کی قومی اسمبلی میں درجہ ذیل صورتحال ھے اور رھنی ھے؛

مھاجروں کی سیاسی جماعت ایم کیو ایم ھے۔ پاکستان کے موجودہ لسانی سیاسی ماحول کی وجہ سے مھاجروں کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ایم کیو ایم کو کراچی کے مھاجر اکثریتی علاقے کی نشستوں میں سے ھی 24 نشستیں ملی ھیں اور آئندہ بھی مل سکتی ھیں لیکن پاکستان کے دوسرے کسی علاقے سے نشستیں نہیں مل سکتیں۔

سندھیوں کی پہلی بڑی سیاسی جماعت پی پی پی ھے ' دوسری بڑی سیاسی جماعت ف لیگ ھے ' تیسری بڑی سیاسی جماعت این پی پی ھے۔ پاکستان کے موجودہ لسانی سیاسی ماحول کی وجہ سے سندھیوں کی پہلی بڑی سیاسی جماعت پی پی پی کو دیہی سندھ کی نشستوں میں سے ھی 47 نشستیں ملی ھیں۔ جبکہ دوسری بڑی سیاسی جماعت ف لیگ کو 5 نشستیں ملی ھیں ' تیسری بڑی سیاسی جماعت این پی پی کو 2 نشستیں ملی ھیں اور آئندہ بھی مل سکتی ھیں لیکن پاکستان کے دوسرے کسی علاقے سے نشستیں نہیں مل سکتیں۔

پٹھانوں کی پہلی بڑی سیاسی جماعت پی ٹی آئی ھے ' دوسری بڑی سیاسی جماعت جے یو آئی ھے ' تیسری بڑی سیاسی جماعت جے آئی ھے۔ چوتھی بڑی سیاسی جماعت پی کیو ایم ایل ھے ' پانچویں بڑی سیاسی جماعت اے این پی ھے ' چھٹی بڑی سیاسی جماعت وطن پارٹی ھے۔ پاکستان کے موجودہ لسانی سیاسی ماحول کی وجہ سے پٹھانوں کی پہلی بڑی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کو خیبر پختونخواہ ' فاٹا اور بلوچستان کے پشتون علاقے کی نشستوں میں سے ھی 33 نشستیں ملی ھیں۔ جبکہ دوسری بڑی سیاسی جماعت جے یو آئی کو 13 نشستیں ملی ھیں ' تیسری بڑی سیاسی جماعت جے آئی کو 4 نشستیں ملی ھیں ' چوتھی بڑی سیاسی جماعت پی کیو ایم ایل کو 3 نشستیں ملی ھیں ' پانچویں بڑی سیاسی جماعت اے این پی کو 2 نشستیں ملی ھیں ' چھٹی بڑی سیاسی جماعت وطن پارٹی کو 1 نشست ملی ھے اور آئندہ بھی مل سکتی ھیں لیکن پاکستان کے دوسرے کسی علاقے سے نشستیں نہیں مل سکتیں۔

پنجابیوں کی پہلی بڑی سیاسی جماعت ن لیگ ھے ' دوسری بڑی سیاسی جماعت ق لیگ ھے ' تیسری بڑی سیاسی جماعت زیڈ لیگ ھے ' چوتھی بڑی سیاسی جماعت عوامی لیگ ھے۔ پاکستان کے موجودہ لسانی سیاسی ماحول کی وجہ سے پنجابیوں کی پہلی بڑی سیاسی جماعت ن لیگ کو پنجاب کی نشستوں میں سے ھی 189 نشستیں ملی ھیں۔ جبکہ دوسری بڑی سیاسی جماعت ق لیگ کو 2 نشستیں ملی ھیں ' تیسری بڑی سیاسی جماعت زیڈ لیگ کو 1 نشست ملی ھے ' چوتھی بڑی سیاسی جماعت عوامی لیگ کو 1 نشست ملی ھے اور آئندہ بھی مل سکتی ھیں لیکن پاکستان کے دوسرے کسی علاقے سے نشستیں نہیں مل سکتیں۔

پنجابی قوم دا فرد تے پنجاب دا رھائشی ھون وچ فرق کی اے؟

پنجابی قوم دی بنیاد نسل ' قبائل تے مذھب توں اتاں ھوکے روایتی طور تے لسانی ' جغرافیائی ' تہذیبی تے ثقافتی اے۔ پنجابی قوم پرستی دے آغاز توں ای پنجابی تشخص دی بنیاد پنجاب دے علاقے وچ رین والے اوہ افرد نے جیہڑے پنجابی زبان نوں پہلی زبان دے طور تے بولدے نے ' پنجابی تہذیب اختیار کیتے ھوئے نے' پنجابی ثقافت دے تحت زندگی دے امور انجام دیندے نے ' مراد لے آ جاندا اے۔

پنجابی قوم نوں مختلف پنجابی ذاتاں تے برادری آں وچ تقسیم کیتا جاندا اے پر جناں لوکاں دا پنجاب دی تاریخی ذاتاں تے برادری آں چوں کسے نال تعلق نئیں اے ' اناں نوں وی پنجاب دے علاقے وچ رین ' پنجابی زبان نوں پہلی زبان دے طور تے بولن ' پنجابی تہذیب اختیار کرلین ' پنجابی ثقافت دے تحت زندگی دے امور انجام دین دے کرکے پنجابی قوم وچ ای شامل کیتا جاندا اے۔

ایس لئی پنجاب دی زمین تے رھن والا ' جیس نسل دا وی ھووے ' جیس ذات دا وی ھووے ' جیس مذھب دا وی ھووے ' جے پنجاب نوں اپنا دیش سمجھدا اے ' پنجابی اوس دی زبان اے ' پنجابی تہذیب اختیار کیتی ھوئی اے ' پنجابی ثقافت دے تحت زندگی دے امور انجام دیندا اے ' تے اوہ پنجابی ای اے تے پنجابی قوم دا ای حصہ اے۔

وقت دے نال نال ذاتاں تے برادری آں دا ڈھانچہ کمزور تے قوم دا تشخص بوھتا مظبوط ھوندا جارے آ اے۔ جیس دی وجہ نال پنجابی قوم وچ بوھتی ھم آھنگی پیدا ھوندی جا رئی اے تے پنجابی معاشرتی اقدار بہتر طور تے ودھدے جا رئے نے۔

پنجابی قوم دی تشکیل مشترکہ زمین ' اکو جئی زبان ' تہذیب تے ثقافت دی بنیاد تے ھیگی تے مختلف مذاھب تے مشتمل اک قوم اے- مذاھب دے مختلف ھون دے باوجود اک ای زمین تے رھن ' اکو جئی زبان ' تہذیب تے ثقافت دے ھون دے کرکے پنجابیاں دے مشترکہ سیاسی تے دنیاوی مفادات نے۔

مذاھب دے فرق دے باوجود اک ای زمین تے رین توں علاوہ زبان ' تہذیب تے ثقافت دے اکو جے آ ھون دے کرکے مسلمان پنجابی ' ھندو پنجابی ' سکھ پنجابی ' عیسائی پنجابی ' احمدی پنجابی اک ای قوم نال واسطہ رکھدے نے۔

1۔ مذھب ھر فرد دا اپنا تے اوس دے رب دا معاملہ اے کہ؛ اوہ کیس مذھب دی تعلیمات حاصل کر کے اپنا اخلاق ٹھیک کرکے تے روحانی نشو نما کر کے ' اپنی جسمانی حرکات ' نفسانی خواھشات تے قلبی خیالات دی اصلاح کرکے ' اپنی دنیا تے آخِرَت سنواردا اے۔

2۔ قوم دا معاملہ پنجابیاں دے سماجی احترام ' سیاسی استحکام تے پنجاب دی اقتصادی ترقی ' معاشی خوشحالی جئے دنیاوی زندگی دے اجتماعی معاملے آں نال اے۔

پنجابی قوم جٹ ' ارائیں ' راجپوت ' گجر ' اعوان ' شیخ وغیرہ جئی مختلف برادریاں تے مشتمل اے۔ جدکہ؛

1۔ پنجاب وچ رین والے یا پنجاب نال تعلق رکھن والے لوک جے پنجابی زبان نئیں بولدے ' پنجابی تہذیب اختیار نئیں کردے ' پنجابی ثقافت دے تحت زندگی دے کم انجام نئیں دیندے ' فے اناں لوکاں نوں پنجاب وچ رین والے دے طور تے تسلیم کیتا جاتدا اے پر اوس دا شمار پنجابی قوم وچ نئیں ھوندا۔

2۔ پنجاب نوں اپنی دھرتی دے طور تے قبول کرن ' پنجابی زبان نوں مادری زبان دے طور تے اپنان ' پنجابی تہذیب نوں اختیار کرلین ' پنجابی ثقافت دے تحت زندگی دے امور انجام دین دے کرکے غیر پنجابی نژاد ذاتاں تے برادری آں دے لوکاں نوں وی پنجابی تسلیم کیتا جاندا اے تے پنجابی قوم دا فرد شمار کیتا جاتدا اے۔

بابا فرید ' بلھے شاہ ' وارث شاہ دا عربی پس منظر سی۔ بابا فرید پنجابی زبان دے پہلے شاعر سن۔ وارث شاہ نوں پنجابی زبان دے شیکسپیئر دے طور تے تصور کیتا جاندا اے۔ بابا فرید ' بلھے شاہ ' وارث شاہ نوں نہ صرف مسلمان پنجابی بلکہ ھندو پنجابی ' سکھ پنجابی ' عیسائی پنجابی وی پنجابی قوم دے روحانی رھنماواں دے طور تے تسلیم کردے نے تے عزت و احترام وی کردے نے۔

ایس لئی' پنچ دریاواں دی زمین وچ غیر پنجابی پس منظر حملہ آوراں ' قبضہ گیراں یا نقل مکانی کرکے آن والے آں دی آں اولاداں نوں چائی دا اے کہ؛

1۔ پنجاب دی دھرتی ' پنجابی زبان ' پنجابی تہذیب تے پنجابی ثقافت وچ اپنے آپ نوں ضم کرکے بابا فرید ' بلھے شاہ ' وارث شاہ دے نقش قدم دی پیروی کردے ھوئے پنجابی زبان ' تہذیب ' ثقافت دے فروغ ' پنجابیاں دے سماجی احترام ' پنجابی قوم دے سیاسی استحکام تے پنجاب دی خوشحالی وچ اپنا کردار ادا کرن۔

2۔ پنجابی قوم دی جٹ ' ارائیں ' راجپوت ' گجر ' اعوان ' شیخ وغیرہ ' مختلف برادریاں نوں چائی دا اے کہ؛ ذات تے برادری تک محدود رہ کے آپس وچ محاذ آرائی کرن دے بجائے ' پنجابی قوم پرست بن کے اپنا دھیان پنجاب دی زمین ' زبان ' تہذیب ' ثقافت تے دے کے ' پنجابی قوم نوں سیاسی تے سماجی طور تے مضبوط قوم تے پنجاب نوں معاشی تے اقتصادی طور تے مستحکم دیش بنان۔

پاکستان کی جمہوری سیاست میں کس سیاستدان کی کیا حیثیت بنتی ھے؟

پاکستان کی قومی اسمبلی کی 342 نشستوں میں سے؛ ن لیگ کی 189 + پی پی پی کی 47 + پی ٹی آئی کی 33 + ایم کیو ایم کی 24 + جے یو آئی کی 13 + ف لیگ کی 5 + جے آئی کی 4 + پی کیو ایم ایل کی 3 + این پی پی کی 2 + ق لیگ کی 2 + اے این پی کی 2 + وطن پارٹی کی 1 + زیڈ لیگ کی 1 + عوامی لیگ کی 1 + آزد اراکین کی 9 نشستیں ھیں۔ یہ ٹوٹل 336 نشستیں بنتی ھیں۔ 1 نشست مھاجر پرویز مشرف کی پارٹی اے پی ایم ایل کے پاس ھے۔ جبکہ بقیہ 5 نشستیں بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے پاس ھیں۔

پاکستان میں قابلِ ذکر متحرک سیاسی جماعتوں کے لیڈر ھیں؛
ن لیگ کا پنجابی نواز شریف
ق لیگ کا پنجابی شجاعت حسین
عوامی لیگ کا پنجابی شیخ رشید
پی پی پی کا بلوچ آصف زرداری
اے پی ایم ایل کا مھاجر پرویز مشرف
ایم کیو ایم کا مھاجر فاروق ستار
پی ٹی آئی کا پٹھان عمران خان
جماعت اسلامی کا پٹھان سراج الحق
جے یو آئی کا پٹھان فضل الرحمٰن
اے این پی کا پٹھان اسفند یار ولی
پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کا پٹھان محمود اچکزئی۔
اس لیے اب آپ ھی بتائیں کہ؛
پاکستان کی جمہوری سیاست میں کس سیاستدان کی کیا حیثیت بنتی ھے؟

Sunday 16 July 2017

پنجاب وچ رین والے تے پنجاب توں بار رین والے پنجابی کی کرن؟


جیہڑے پنجابی کراچی وچ ریندے نے او اردو وی بولنا جاندے نے ' پنجابی وی بولدے نے تے اپنے آپ نوں اکھواندے وی پنجابی نے۔ جیہڑے پنجابی دیہی سندھ وچ ریندے نے او سندھی وی بولنا جاندے نے ' پنجابی وی بولدے نے تے اپنے آپ نوں اکھواندے وی پنجابی نے۔ جیہڑے پنجابی خیبر پختونخواہ وچ ریندے نے او پختو وی بولنا جاندے نے ' پنجابی وی بولدے نے تے اپنے آپ نوں اکھواندے وی پنجابی نے۔ جیہڑے پنجابی بلوچستان دے پشتون علاقے وچ ریندے نے او پشتو وی بولنا جاندے نے ' پنجابی وی بولدے نے تے اپنے آپ نوں اکھواندے وی پنجابی نے۔ جیہڑے پنجابی بلوچستان دے بلوچ علاقے وچ ریندے نے او بلوچی وی بولنا جاندے نے ' پنجابی وی بولدے نے تے اپنے آپ نوں اکھواندے وی پنجابی نے۔

مسئلہ اے وے کہ؛ کراچی ' دیہی سندھ ' خیبر پختونخواہ ' بلوچستان دا پنجابی جے ریندا ای کراچی ' دیہی سندھ ' خیبر پختونخواہ ' بلوچستان وچ اے تے فے اوس نوں نہ پنجاب دی فکر کرنی چائی دی اے تے نہ پنجابی زبان ' ثقافت تے رسم رواج دی۔ انہاں نوں جتھے ریندے نے اوتھے دی زبان ' ثقافت تے رسم رواج وچ رچ وس جانا چائی دا اے؟ یا فے انہاں نوں فکر پنجاب دی تے پنجابی زبان ' ثقافت تے رسم رواج دی ای کرنی چائی دی اے۔ کیونکہ جتھے او ریندے نے اوتھے دی زبان ' ثقافت تے رسم رواج وچ رچ وس کے وی اوتھے دے رین والے آں اناں نوں سمجھنا پنجابی ای اے تے رکھنا وی اوپرے آں ونگ ای اے؟

سیاسی تے معاشی مفادات دی وجہ نال پنجاب دا پنجابی وکھ اے۔ کراچی ' دیہی سندھ ' خیبر پختونخواہ ' بلوچستان دے پشتون علاقے تے بلوچستان دے بلوچ علاقے دا پنجابی وی وکھ وکھ اے۔ پنجاب ' کراچی ' دیہی سندھ ' خیبر پختونخواہ ' بلوچستان دے پشتون علاقے تے بلوچستان دے بلوچ علاقے دے پنجابی آں دے اپنے اپنے سیاسی تے معاشی مفادات نے پر پنجابی ھون دے کرکے اک دوجے دے دکھ سکھ ونڈنے چائی دے نے۔ ایس نال پنجابی آں نوں سیاسی تے معاشی فائدہ ھووے گا ' نئیں تے پنجابی آں نوں سیاسی تے معاشی نقصان ھووے گا تے پنجابی قوم وی کمزور ھووے گی۔

پنجاب وچ رین والے پنجابی قوم پرستاں نوں پنجابی قوم پرستی دی گل کردے آں اے خیال رکھنا چائی دا اے کہ پاکستان وچ پنجاب توں بار رین والے پنجابی کی کرن؟ کیونکہ جیہڑے پنجابی کراچی ' دیہی سندھ ' خیبر پختونخواہ ' بلوچستان وچ ریندے نے او اپنے زور تے ریندے نے کوئی پنجاب دے پنجابی آں دے موڈے تے چڑہ کے نئیں ریندے۔ بلکہ پنجاب دے اناں پنجابی آں دی آں کراچی ' دیہی سندھ ' خیبر پختونخواہ ' بلوچستان وچ حرکتاں دے کرکے ذلیل ھوندے نے جیہڑے کراچی ' دیہی سندھ ' خیبر پختونخواہ ' بلوچستان وچ صنعتکاری ' تجارت ' سرکاری نوکری ' پرائویٹ نوکری  ' ٹھیکیداری کردے آں لٹ مار تے فراڈ کرکے واپس پنجاب نٹھ آندے نے۔

پنجاب دا پنجابی اک تے پہلوں ای سیاسی نئیں بلکہ کاروباری تے مفاد پرستی والا ذھن رکھدا اے ' دوجا پنجاب دے پنجابی نال نہ کراچی دے مھاجر دی بندی اے ' نہ دیہی سندھ دے سندھی دی بندی اے ' نہ خیبر پختونخواہ دے پختون دی بندی اے ' نہ بلوچستان دے پشتون علاقے دے پشتون دی بندی اے تے نہ بلوچستان دے بلوچ علاقے دے بلوچ دی بندی اے۔ ایس لئی جے پنجاب دا پنجابی ' کراچی ' دیہی سندھ ' خیبر پختونخواہ ' بلوچستان دے پشتون علاقے تے بلوچستان دے بلوچ علاقے دے پنجابی آں نال سانجھ نہ کر سکیا تے فے پنجاب نال ھووے گا کی تے پنجابی قوم دا بنے گا کی؟

پاکستان وچ پنجابی دی آبادی 60% اے۔ پنجابی صرف پنجاب دی ای سب توں وڈی آبادی نئیں نے۔ خیبر پختونخواہ دی دوجی وڈی آبادی ' بلوچستان دے پشتون علاقے دی دوجی وڈی آبادی ' بلوچستان دے بلوچ علاقے دی دوجی وڈی آبادی ' سندھ دی دوجی وڈی آبادی ' کراچی دی دوجی وڈی آبادی وی پنجابی ای نے۔ پاکستان دی اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی ' فارن افیئرس ' صنعت ' تجارت ' سیاست ' صحافت ' ھنرمندی ' ذراعت تے شہری علاقیاں وچ پنجابی ای چھائے ھوئے نے۔

کراچی ' سندھ ' خیبر پختونخواہ ' بلوچستان دے پشتون علاقے تے بلوچستان دے بلوچ علاقے دی دوسری وڈی آبادی پنجابی ای اے پر پنجابی آں دے نال جیڑا سلوک کراچی وچ مھاجر ' سندھ وچ بلوچ۔سندھی ' بلوچستان دے بلوچ علاقے وچ بلوچ ' بلوچستان دے پشتون علاقے وچ پشتون ' خیبر پختونخواہ وچ پختون کر رئے سن تے ھن جنوبی پنجاب وچ آباد کردستانی بلوچاں ' عربستانی مخدوماں ' قریشیاں ' عباسیاں تے افغانستانی پٹھاناں نے سرائیکی بن کے سرائیکی دے ناں نال اک نواں شوشہ کھڑا کرکے ' اناں سرائیکی آں وی کرنا شروع کر دتا اے۔ ایہدا ری ایکشن بڑا خطرناک ھووے گا۔

ھجے وی ویلا اے کہ؛ کراچی ' سندھ ' خیبر پختونخواہ ' بلوچستان دے پشتون علاقے ' بلوچستان دے بلوچ علاقے ' جنوبی پنجاب وچ پنجابی آں نوں کندھ نال نہ لایا جائے۔ دوجے درجے دا شھری نہ بنایا جائے۔ نالے وسطی پنجاب تے شمالی پنجاب دا پنجابی وی ھن تے کجھ عقل نوں ھتھ مار لے تے پنجابی قوم پرست بننا شروع کردے۔ نئیں تے رگڑیا اوھناں وی جانا اے۔ کیوں کہ 2040 وچ پاکستان دی آبادی 40 کروڑ ھو جانی اے تے پنجاب دی آبادی 24 کروڑ ھو جانی اے۔ جد کہ آبادی وچ سب توں بوھتا وادھا وسطی پنجاب تے شمالی پنجاب وچ ھونا اے۔ ایس لئی وسطی پنجاب تے شمالی پنجاب وچ آبادی بوھتی تے زمین گھٹ ھون دے کرکے تے صنعت ' تجارت ' سرکاری نوکری ' پرائویٹ نوکری  ' ھنرمندی ' ٹھیکیداری دے شعبے آں نوں اپنان دے کرکے وسطی پنجاب تے شمالی پنجاب چوں پنجابی آں نوں بار جانا پے نا اے۔ ایس لئی 2040 تک پنجابی نے صرف پنجاب دی ای وڈی آبادی نئیں رھنا ' کراچی ' سندھ ' خیبر پختونخواہ ' بلوچستان دے پشتون علاقے تے بلوچستان دے بلوچ علاقے دی وی سب توں وڈی آبادی پنجابی ای ھو جانی اے۔

ایس ویلے جنی پنجابی قوم پرستی کراچی ' سندھ ' خیبر پختونخواہ ' بلوچستان دے پشتون علاقے ' بلوچستان دے بلوچ علاقے تے جنوبی پنجاب دے علاقے دے پنجابی وچ اے ' وسطی پنجاب تے شمالی پنجاب دے پنجابی وچ اوس دا دسواں حصہ وی نئیں ھونی۔ وسطی پنجاب تے شمالی پنجاب دا پنجابی تے پنجابی بول لینے نوں ای پنجابی قوم پرستی سمجھ لیندا اے۔ ایس توں اگے ایس دی عقل کم ای نئیں کردی۔ جد وسطی پنجاب تے شمالی پنجاب چوں پنجابی ' سندھ ' کراچی ' خیبر پختونخواہ ' بلوچستان دے پشتون علاقے ' بلوچستان دے بلوچ علاقے وچ جان گے تے فے وسطی پنجاب تے شمالی پنجاب دے پنجابی نوں لگ پتہ جاوے گا تے سمجھ اے وی آجاوے گا کہ؛ قوم پرستی کی ھوندی اے؟ تے پنجابی قوم پرست بنے بغیر نہ عزت محفوظ رہ سکدی اے ' نہ جان محفوظ رہ سکدی اے ' نہ مال محفوظ رہ سکدا اے ' نہ گھر آباد ھو سکدا اے تے نہ کاروبار کیتا جا سکدا اے۔