Thursday 29 June 2017

بات بلآخر پھر اخلاق اور قانون تک پہنچ جاتی ھے۔

نظریے ‘ مزاج ‘ معاملے یا مفاد کے اختلاف کی وجہ سے آپس میں اختلاف کا ھونا لازمی امر ھے۔

اختلاف کی وجہ سے ھی گلہ ' شکوہ ' شکایت جنم لیتے ھیں۔

گلہ ' شکوہ ' شکایت کو اخلاق کے دائرے میں رھتے ھوئے باھمی گفت و شنید کے ذریعے بھی ختم کیا جا سکتا ھے۔ قانون کے مطابق کردار ادا کرکے بھی ختم کیا جا سکتا ھے۔

اخلاق نیک بھی ھوتا ھے اور بد بھی ھوتا ھے۔ کردار قانونی بھی ھوتا ھے اور غیر قانونی بھی ھوتا ھے۔

گلہ ' شکوہ ' شکایت کو اگر اخلاق کے دائرے یا قانون کے مطابق ختم کیا جائے تو بڑے سے بڑے گلہ ' شکوہ ' شکایت کا حل نکل آتا ھے۔

گلہ ' شکوہ ' شکایت کو اگر اخلاق کے دائرے یا قانون کے مطابق ختم نہ کیا جائے تو پھر بد اخلاقی یا بد کرداری کے ذریعے طے کرنے کی کوشش کی جاتی ھے۔

بد اخلاقی یا بد کرداری کے ذریعے گلہ ' شکوہ ' شکایت کو طے کرنے کی کوشش کی وجہ سے گلہ ' شکوہ ' شکایت ختم ھونے کے بجائے محاذآرائی میں تبدیل ھوجاتا ھے۔

محاذآرائی کے دوران جتنی بد اخلاقی یا بد کرداری کی جائے اتنی ھی محاذآرائی مزید بڑھتی ھے جو ایک حد تک بڑھنے کے بعد دشمنی میں تبدیل ھوجاتی ھے۔

جب نظریے ‘ مزاج ‘ معاملے یا مفاد کی وجہ سے پیدا ھونے والا گلہ ' شکوہ ' شکایت بد اخلاقی یا بد کرداری کی وجہ سے محاذآرائی میں تبدیل ھونے کے بعد دشمنی تک پہنچ جاتا ھے تو پھر طاقت کا بھرپور استعمال شروع ھوجاتا ھے۔ اس وقت کمزور فریق بد اخلاقی اور غیر قانونی اقدامات کا نشانہ بننے کی دھائی دینا جبکہ اخلاق کی اھمیت اور قانون کی ضرورت کا درس دینا شروع کر دیتا ھے۔

سیاستدان عوام کی رھنمائی کرتے ھیں۔ اس لیے سیاستدانوں کے اخلاق اور کردار سے متاثر ھوکر عوام انکے اخلاق اور کردار کو اپناتے بھی ھیں اور اپنے حلقہ احباب میں پھیلاتے بھی ھیں۔

نظریے ‘ مزاج ‘ معاملے یا مفاد کے اختلاف کی وجہ سے سیاستدانوں کا بھی آپس میں یا حکومت کے ساتھ اختلاف کا ھونا لازمی امر ھے۔

کیا بہتر نہیں ھے کہ نظریے ‘ مزاج ‘ معاملے یا مفاد کی وجہ سے پیدا ھونے والے آپس کے گلہ ' شکوہ ' شکایت کو سیاستدان اور حکومت اخلاق کے دائرے یا قانون کے مطابق حل کرلیا کریں تاکہ گلہ ' شکوہ ' شکایت بد اخلاقی یا بد کرداری کی وجہ سے محاذآرائی میں تبدیل ھوکر دشمنی تک نہ پہنچے اور نہ کمزور فریق کو بد اخلاقی اور غیر قانونی اقدامات کا نشانہ بننے کی دھائی دینے جبکہ اخلاق کی اھمیت اور قانون کی ضرورت کا درس دینے کی ضرورت پڑے۔

Tributes to Maharaja Ranjit Singh on his 178 Death Anniversary.

Ranjit Singh was born in 1780. He was the leader of the Sikh Empire of Punjab. He was popularly known as Sher-i-Punjab, or "Lion of Punjab". He fought his first battle alongside his father at age 10. After his father died, he fought several wars to expel the Afghans in his teenage years and was proclaimed as the "Maharaja of Punjab" at age 21. His empire grew in the Punjab region under his leadership through 1839.

Almost 777 years of foreign rule, starting from the Turkish invader Mahmud of Ghazni in 1022 after ousting the Hindu Shahi ruler Raja Tarnochalpal, until the time Maharajah Ranjit Singh entered the gates of Lahore on July 7, 1799; Punjabis had not ruled their own land.

Prior to his rise, the Punjab region had numerous warring misls (confederacies), twelve of which were under Sikh rulers and one Muslim. Ranjit Singh successfully absorbed and united the Sikh misls and took over other local kingdoms to create the Sikh Empire of Punjab.

He repeatedly defeated invasions by Muslim armies, particularly those arriving from Afghanistan, and established friendly relations with the British. He received support from Punjabi Musalmans who fought under his banner against Afghan forces of Nadir Shah and later of Azim Khan.

Ranjit Singh's reign introduced reforms, modernization, investment into infrastructure, and general prosperity. His army and government included Sikhs, Hindus, Muslims, and Europeans. His court reflected a secular pattern, his Prime Minister Dhian Singh was a Dogra, his Foreign Minister Fakir Azizuddin was a Mulsim, his Finance Minister Dina Nath was a Brahmin, and artillery commanders such as Mian Ghausa, Sarfaraz Khan were Muslims.

The army under Ranjit Singh was not limited to the Sikh community. The soldiers and troop officers included Sikhs, but also included Hindus, Muslims, and Europeans. Hindu Brahmins and people of all creeds and castes served his army, while the composition in his government also reflected a religious diversity. His army included Polish, Russian, Spanish, Prussian and French officers. In 1835, as his relationship with the British warmed up, he hired a British officer named Foulkes.

The Khalsa army of Ranjit Singh reflected the regional population. In the Doab region, his army was composed of the Jat Sikhs, in Jammu and northern Indian Hills it was Hindu Rajputs, while relatively more Muslims served his army in the Jhelum river area closer to Afghanistan than other major Panjab rivers.

Ranjit Singh ensured that Panjab was self-sufficient in all Panjab manufactured weapons, equipment and munitions that his army needed. His government invested in infrastructure in the 1800s and thereafter, established raw materials mines, cannon foundries, gunpowder and arms factories. Some of these operations were owned by the state, others operated by private operatives.

The prosperity of his Empire, in contrast to the Mughal-Sikh wars era, largely came from the improvement in the security situation, reduction in violence, reopened trade routes and greater freedom to conduct commerce.

There were no forced conversions in his time. His wives Bibi Mohran, Gilbahar Begum retained their faith and so did his Hindu wives.

Maharaja Ranjit Singh left for his heavenly abode on 27 June, the 15 Haarh 1839. Maharaja Ranjit Singh was succeeded by his son, Maharaja Kharak Singh. But, after the death of Maharaja Ranjit Singh, a fight to control the tax spoils emerged, leading to a power struggle within the nobles and his family from different wives, ending in a rapid series of assassinations of his descendants and palace coups, and the annexation of the Sikh Empire into the colonial British Empire in 1849.

Wednesday 28 June 2017

پاکستان کی قومی سیاست کا کھیلا جانے والا موجودہ کھیل ھے کیا؟

مھاجر مشرف نے 1999 سے لیکر 2008 تک پاکستان پر حکومت کی ' کراچی اور دیہی سندھ کے مھاجر علاقے میں یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کو سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی طور پر مظبوط بھی کیا اور پنجاب میں پنجابی قوم کو برادریوں میں تقسیم کرنے کا اپنا کھیل بھی کھیلا۔

بلوچ زرداری نے 2008 سے لیکر 2013 تک پاکستان پر حکومت بھی کی ' سندھ کے سندھی علاقے میں بلوچ سندھیوں کو سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی طور پر مظبوط بھی کیا اور پنجابی قوم کو پنجابی اور سرائیکی میں تقسیم کرنے کا اپنا کھیل بھی کھیلا۔

اب پٹھان عمران خان کی باری ھے۔ پٹھان عمران خان کے پاس خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت ھونے کی وجہ سے پٹھان عمران خان خیبر پختونخواہ کے پختون علاقے میں پٹھانوں کو سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی طور پر مظبوط بھی کر رھا ھے اور پنجاب میں رھنے والے پٹھانوں ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں اور سیاسی شعور نہ رکھنے والے مفاد پرست پنجابیوں کو پنجابی قوم کے خلاف اکٹھا بھی کر رھا ھے۔ جبکہ پنجابیوں کے سیاسی رھنما نواز شریف کو بھی گردن سے پکڑا ھوا ھے۔ اس کی ٹانگیں کھینچ کر رکھی ھوئی ھیں اور ھاتھ بھی باندھ کر رکھ دیئے ھیں۔

نواز شریف کے ساتھ جو ھو رھا ھے۔ اسکی وجہ یہ ھے کہ نواز شریف نے مھاجر مشرف ' بلوچ زرداری اور پٹھان عمران خان کی طرح سیاسی پروگرام بنا کر ' اپنے ووٹ بینک والے علاقے پنجاب میں اپنے ووٹ بینک کو جو کہ پنجابی تھا ' نہ سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی طور پر مظبوط کیا۔ نہ اپنے مخالف مھاجر مشرف ' بلوچ زرداری اور پٹھان عمران خان کے ووٹ بینک والے علاقوں میں انکے ووٹ بینک کو توڑ کر اپنا ووٹ بینک بنانے کا سیاسی پروگرام بنایا اور نہ اپنے ووٹ بینک والے علاقے پنجاب میں اپنے ووٹ بینک کو مھاجر مشرف ' بلوچ زرداری اور پٹھان عمران خان کے ھاتھوں ٹوٹنے سے بچانے کے لیے کوئی سیاسی پروگرام بنایا۔

سیاست کا کھیل وہ جیتتا ھے جسکے پاس پروگرام ھو اور اس پروگرام پر عمل کروانے والی ٹیم بھی ھو۔ پٹھان عمران خان ' بلوچ زرداری اور مھاجر مشرف کے پاس سیاسی پروگرام بھی ھے اور پروگرام پر عمل کروانے والی ٹیم بھی ھے۔ پنجابی نواز شریف کا مسئلہ یہ ھے کہ اسکے پاس پروگرام ھی نہیں ھے۔ پروگرام پر عمل کروانے والی ٹیم کی بات تو بعد کی ھے۔

نواز شریف کو نہ رھنما بننا آیا نہ حکمراں۔ صرف حکومت میں رھنا نصیب ھوا۔ وہ بھی اس لیے کہ پاکستان کا سیاسی ماحول لسانی تھا۔ اس لیے پنجابی ' سندھیوں کی پارٹی پی پی پی ' پٹھانوں کی پارٹی پی ٹی آئی ' اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی پارٹی ایم کیو ایم کو تو مینڈیٹ دیتے نہیں تھے۔ لہذا پنجابیوں کی پارٹی پی ایم ایل این کو مینڈیٹ دے دیتے تھے۔ نواز شریف کو رھنمائی کرنا نہ آنے کی وجہ سے اسکے اپنے ووٹ بینک والے علاقے پنجاب میں اسکے اپنے ووٹ بینک کی سیاسی تربیت نہیں ھو پائی۔ جسکی وجہ سے پنجابیوں میں سیاسی سوچ ' سمجھ اور شعور بہت کم ھے۔ جبکہ حکمرانی کرنا نہ آنے کی وجہ سے پاکستان کی وفاقی حکومت کے اداروں کی کارکردگی بہتر نہیں ھو پائی۔ جسکی وجہ سے انتظامی نا اھلی ' انتظامی نالائقی اور انتظامی بد عنوانی اپنے عروج پر پہنچ چکی ھے۔

2013 میں پنجابی نواز شریف کے پاکستان کی وفاقی حکومت بنانے کے بعد ھونا تو یہ چاھیئے تھا کہ 1999 سے لیکر 2008 تک پاکستان کی حکومت چلانے والے مھاجر مشرف اور اسکی ٹیم کا اور 2008 سے لیکر 2013 تک پاکستان کی حکومت چلانے والے بلوچ زرداری اور اسکی ٹیم کا احتساب ھوتا۔ لیکن ھو یہ رھا ھے کہ وزارتِ عظمیٰ سے عدالت عظمیٰ کے ذریعے نا اھلی بھی ھوچکی ھے اور احتساب بھی پنجابی نواز شریف اور اسکی ٹیم کا ھو رھا ھے۔ جبکہ مھاجر مشرف ' بلوچ زرداری اور انکی ٹیموں والے آرام کے ساتھ اپنا اپنا سیاسی کھیل کھیلنے میں لگے ھوئے ھیں۔

پاکستان کے موجودہ انتخابی سیاسی ماحول کی صورتحال یہ ھے کہ؛ کراچی اور دیہی سندھ کے مھاجر علاقے سے 20 سیٹیں مھاجر مشرف کے پاس ھیں۔ سندھ کے سندھی علاقے سے 40 سیٹیں بلوچ زرداری کے پاس ھیں۔ خیبر پختونخواہ اور فاٹا کے پٹھان علاقے سے 30 سیٹیں پٹھان عمران خان کے پاس ھیں۔ وفاقی حکومت بنانے کے لئے قومی اسمبلی کی 137 سیٹوں کی ضرورت ھوتی ھے۔ اگر پٹھان عمران خان ' بلوچ زرداری اور مھاجر مشرف 2018 کے الیکشن میں پنجاب سے 50 سیٹیں لینے میں کامیاب ھو جائیں تو پھر انکا کام بن جانا ھے۔

اگر پنجاب سے 50 سیٹیں مل جائیں تو پھر پٹھان عمران خان ' بلوچ زرداری اور مھاجر مشرف مل کر پاکستان کی وفاقی حکومت بنائیں گے۔ خیبر پختونخواہ میں پٹھان عمران خان کی صوبائی حکومت ھوگی۔ بلوچستان میں بلوچ زرداری اور پٹھان عمران خان کی مخلوط صوبائی حکومت ھوگی۔ سندھ میں بلوچ زرداری اور مھاجر مشرف کی مخلوط صوبائی حکومت ھوگی۔ پنجاب میں پٹھان عمران خان ' بلوچ زرداری اور مھاجر مشرف کی مخلوط صوبائی حکومت ھوگی۔

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی ' فارن افیئرس پر یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں ' بلوچوں ' پٹھانوں اور سیاسی شعور نہ رکھنے والے مفاد پرست پنجابیوں کا کنترول ھوگا۔ پھر پنجاب کی تقسیم بھی ھو جائے گی۔ پنجاب میں سرائیکی صوبہ اور پوٹھوھار صوبہ بن جائے گا۔ سرائیکی صوبے پر بلوچ زرداری کی صوبائی حکومت ھوگی۔ پوٹھوھار صوبے پر پٹھان عمران خان کی صوبائی حکومت ھوگی۔ شمالی پنجاب کے پنجابی کو پٹھان کھینچ کر رکھیں گے اور مفاد پرست پنجابی ان پٹھانوں کی خدمت کیا کریں گے۔ وسطی پنجاب کے پنجابی کو اردو بولنے والے بھیے تن کر رکھیں گے اور مفاد پرست پنجابی ان اردو بولنے والے بھیوں کی خدمت کیا کریں گے۔ جنوبی پنجاب کے پنجابی کو سرائیکی کہلوانے والے بلوچ ' پٹھان ' قریشی ' گیلانی ' عباسی رگڑ کر رکھیں گے اور مفاد پرست پنجابی ان سرائیکی کہلوانے والے بلوچوں ' پٹھانوں ' قریشیوں ' گیلانیوں ' عباسیوں کی خدمت کیا کریں گے۔ خیبر پختونخواہ ' بلوچستان ' سندھ اور کراچی کے پنجابی تو پہلے سے ھی کھینچ کر بھی رکھے ھوئے ھیں ' تن کر بھی رکھے ھوئے ھیں اور رگڑ کر بھی رکھے ھوئے ھیں۔

اس مضمون میں صرف وہ کھیل بیان کیا گیا ھے جو پٹھان عمران خان ' بلوچ زرداری اور مھاجر مشرف کھیل رھے ھیں اور کھیل پنجابی نواز شریف کے ساتھ ھے جو انکا مقابلہ نہیں کر پارھا۔ اگر کسی دوسرے پنجابی کھلاڑی نے پٹھان عمران خان ' بلوچ زرداری اور مھاجر مشرف کے پنجاب میں کھیلے جانے والے کھیل کا توڑ نکال لیا اور مھاجر مشرف کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر ' بلوچ زرداری کے بلوچ اور پٹھان عمران خان کے پٹھان ووٹ بینک والے علاقوں میں انکے ووٹ بینک کا توڑ کرلیا تو پھر مھاجر مشرف ' بلوچ زرداری اور پٹھان عمران خان نے ھی نہیں بلکہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں ' بلوچوں اور پٹھانوں نے بھی رل جانا ھے۔

مھاجر مشرف ' بلوچ زرداری اور پٹھان عمران خان کے علاوہ خاص طور پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں ' بلوچوں اور پٹھانوں کو اس بات پر دھیان رکھنا چاھیئے کہ پاکستان صرف پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ قوموں کا ھی ملک نہیں ھے۔ سماٹ ' ھندکو ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی قوموں کا بھی ملک ھے۔ پاکستان میں پنجابی کی آبادی 60% ھے۔ پنجابی صرف پنجاب کی ھی سب سے بڑی آبادی نہیں ھے۔ خیبر پختونخواہ کی دوسری بڑی آبادی ' بلوچستان کے پختون علاقے کی دوسری بڑی آبادی ' بلوچستان کے بلوچ علاقے کی دوسری بڑی آبادی ' سندھ کی دوسری بڑی آبادی ' کراچی کی دوسری بڑی آبادی بھی پنجابی ھی ھے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی ' فارن افیئرس ' شہری علاقوں' صنعت ' تجارت ' ذراعت ' سیاست ' صحافت ' ھنرمندی اور سرکاری ملازمت کے شعبوں میں بھی پنجابی ھی چھائے ھوئے ھیں۔

ویسے پاکستان کی قومی سیاست کا یہ کھیل ھے بہت بڑا۔ اس کھیل میں کچھ بین الاقوامی کھلاڑی بھی شامل ھیں۔ جبکہ پاکستان کے دنیا کے بڑے ممالک میں سے ایک ملک ' وہ بھی ایٹمی ملک اور عالمی سیاست کے جغرافیائی حساب سے ایک بہت حساس علاقے والے ملک میں عالمی طاقت امریکہ اور چین کی دلچسپی تو سب سے زیادہ ھوگی۔ کھیل کے اصول کے مطابق جو بین الاقوامی کھلاڑی پٹھان عمران خان ' بلوچ زرداری اور مھاجر مشرف کے پیچھے ھیں ' انکے مخالف بین الاقوامی کھلاڑیوں نے پٹھان عمران خان ' بلوچ زرداری اور مھاجر مشرف کے مخالف کھلاڑی کی پشت پناھی کرنی ھے۔

اب سوچنے کی بات یہ ھے کہ پٹھان عمران خان ' بلوچ زرداری اور مھاجر مشرف کے پیچھے بین الاقوامی کھلاڑی امریکہ ھے یا چین؟ اگر امریکہ ھے تو پھر چین کس کھلاڑی کی پشت پناھی کرے گا؟ اگر چین ھے تو پھر امریکہ کس کھلاڑی کی پشت پناھی کرے گا؟ اس لیے جو مقامی یا صوبائی سیاست کے کھلاڑی پاکستان کی قومی سیاست کے اس کھیل کو سمجھے بغیر تماشبین بن کر کھیل میں ٹانگیں مار رھے ھیں ' انکو بھی لگ پتہ جائے گا کہ؛ پاکستان کی قومی سیاست کا کھیلا جانے والا موجودہ کھیل ھے کیا؟ تو پھر عام آدمی اس کھیل کے بارے جانکاری حاصل کیے بغیر کھیل میں ٹانگیں مارنے سے ٹانگیں تو خود ھی تڑوا بیٹھیں گے۔ اس سیاسی کھیل نے چولیں ھلا دینی ھیں۔ اس سیاسی کھیل نے بہت بربادی کرنی ھے۔ اس سیاسی کھیل میں تماشبین بن کر چسکے لینے والوں نے سیاسی کھیل کے زور پکڑنے کے بعد مسلمان بنو ' پاکستانی بنو۔ اسلام بچاؤ ' پاکستان بچاؤ کی دھائی دیتے نظر آنا ھے۔

پاکستان دی قومی سیاست دا ھن ھون والا کھیل ھے کی اے؟

مھاجر مشرف نے 1999 توں لے کے 2008 تک پاکستان تے حکومت وی کیتی ' کراچی تے دیہی سندھ دے مھاجر علاقے وچ یوپی ' سی پی دے اردو بولن والے ھندوستانی مھاجراں نوں سیاسی ' سماجی ' معاشی تے انتظامی طور تے مظبوط وی کیتا تے پنجاب وچ پنجابی قوم نوں برادریاں وچ ونڈن دا اپنا کھیل وی کھیلیا۔

بلوچ زرداری نے 2008 توں لے کے 2013 تک پاکستان تے حکومت وی کیتی ' سندھ دے سندھی علاقے وچ بلوچ سندھیاں نوں سیاسی ' سماجی ' معاشی تے انتظامی طور تے مظبوط وی کیتا تے پنجابی قوم نوں پنجابی تے سرائیکی وچ ونڈن دا اپنا کھیل وی کھیلیا۔

ھن پٹھان عمران خان دی واری اے۔ پٹھان عمران خان کول خیبر پختونخواہ دی صوبائی حکومت ھون دے کرکے پٹھان عمران خان خیبر پختونخواہ دے پختون علاقے وچ پٹھاناں نوں سیاسی ' سماجی ' معاشی تے انتظامی طور تے مظبوط وی کر رے آ اے تے پنجاب وچ رین والے پٹھاناں ' اردو بولن والے ھندوستانی مھاجراں تے سیاسی شعور نہ رکھن والے مفاد پرست پنجابیاں نوں پنجابی قوم دے خلاف کٹھا وی کر ریا اے۔ جد کہ پاکستان دے پنجابی حکمراں نواز شریف نوں وی گچی چوں پھڑیا ھویا اے۔ ایس دی آں لتاں کھچ کے رکھیاں ھویاں نے تے ھتھ وی بن کے رکھ چھڈے نے۔

نواز شریف نال جو ھو ریا اے۔ ایس دی وجہ اے وے کہ نواز شریف نے مھاجر مشرف ' بلوچ زرداری تے پٹھان عمران خان وانگوں سیاسی پروگرام بنا کے اپنے ووٹ بینک والے علاقے پنجاب وچ اپنے ووٹ بینک نوں جیہڑا کہ پنجابی سی نہ سیاسی ' سماجی ' معاشی تے انتظامی طور تے مظبوط کیتا۔ نہ اپنے مخالف مھاجر مشرف ' بلوچ زرداری تے پٹھان عمران خان دے ووٹ بینک والے علاقیاں وچ اناں دے ووٹ بینک نوں توڑ کے اپنا ووٹ بینک بنان دا سیاسی پروگرام بنایا تے نہ اپنے ووٹ بینک والے علاقے پنجاب وچ اپنے ووٹ بینک نوں مھاجر مشرف ' بلوچ زرداری تے پٹھان عمران خان دے ھتھوں ٹٹن توں بچان لئی کوئی سیاسی پروگرام بنایا۔

سیاست دا کھیل او جتدا اے جیس کول پروگرام ھووے تے پروگرام تے عمل کروان والی ٹیم وی ھووے۔ پٹھان عمران خان ' بلوچ زرداری تے مھاجر مشرف کول سیاسی پروگرام وی ھے تے پروگرام تے عمل کروان والی ٹیم وی ھے۔ پنجابی نواز شریف دا مسئلہ اے وے کہ ایس کول پروگرام ای نئیں اے۔ پروگرام تے عمل کرن والی ٹیم دی گل تے بعد دی اے۔

نواز شریف نوں نہ رھنما بننا آیا نہ حکمراں۔ صرف حکومت وچ رھنا نصیب ھویا۔ اوہ وی ایس لئی کہ پاکستان دا سیاسی ماحول لسانی ھون دے کرکے پنجابی ' سندھیاں دی پارٹی پی پی پی ' پٹھاناں دی پارٹی پی ٹی آئی ' اردو بولن والے ھندوستانیاں دی پارٹی ایم کیو ایم نوں تے مینڈیٹ دیندے نئیں سن۔ ایس لئی پنجابیاں دی پارٹی پی ایم ایل این نوں مینڈیٹ دے دیندے  سن۔ نواز شریف نوں رھنمائی کرنا نہ آن دے کرکے ایس دے اپنے ووٹ بینک والے علاقے پنجاب وچ ایس دے اپنے ووٹ بینک دی سیاسی تربیت نئیں ھو پائی۔ جیس دی وجہ توں پنجابیاں وچ سیاسی سوچ ' سمجھ تے شعور بوت گھٹ اے۔ جد کہ نواز شریف نوں حکمرانی کرنا نہ آن دی وجہ توں پاکستان دی وفاقی حکومت دے ادارے آں دی کارکردگی بہتر نئیں ھو پائی۔ جیس دی وجہ توں انتظامی نا اھلی ' انتظامی نا لائقی تے انتظامی بد عنوانی اپنے عروج تے وے۔

2013 وچ پنجابی نواز شریف دے پاکستان دی وفاقی حکومت بنان توں بعد ھونا تے اے چائی دا سی کہ 1999 توں لے کے 2008 تک پاکستان دی حکومت چلان والے مھاجر مشرف تے ایس دی ٹیم والے آں دا تے 2008 توں لے کے 2013 تک پاکستان دی حکومت چلان والے بلوچ زرداری تے ایس دی ٹیم والے آں دا احتساب ھوندا۔ پر ھو اے رے آ وے کہ احتساب الٹا پنجابی نواز شریف دا ھو رے آ اے۔ جد کہ مھاجر مشرف ' بلوچ زرداری تے اناں دی آں ٹیماں والے آرام نال اپنا اپنا سیاسی کھیل کھیلن وچ لگے ھوئے نے۔

پاکستان دے موجودہ انتخابی سیاسی ماحول دی صورتحال اے وے کہ؛ کراچی تے دیہی سندھ دے مھاجر علاقے چوں 20 سیٹاں مھاجر مشرف کول پکیاں نے۔ سندھ دے سندھی علاقے چوں 40 سیٹاں بلوچ زرداری کول پکیاں نے۔ خیبر پختونخواہ تے فاٹا دے پٹھان علاقے چوں 30 سیٹاں پٹھان عمران خان کول پکیاں نے۔ وفاقی حکومت بنان لئی قومی اسمبلی دی آں 137 سیٹاں دی لوڑ ھوندی اے۔ جے پٹھان عمران خان ' بلوچ زرداری تے مھاجر مشرف 2018 دے الیکشن وچ پنجاب چوں 50 سیٹاں لین وچ کامیاب ھو جان تے فے اناں دا کم بن جانا اے۔

جے پنجاب چوں 50 سیٹاں مل جان تے فے پٹھان عمران خان ' بلوچ زرداری تے مھاجر مشرف رل کے پاکستان دی وفاقی حکومت بنان گے۔ خیبر پختونخواہ وچ پٹھان عمران خان دی صوبائی حکومت ھووے گی۔ بلوچستان وچ بلوچ زرداری تے پٹھان عمران خان دی رلی ملی صوبائی حکومت ھووے گی۔ سندھ وچ بلوچ زرداری تے مھاجر مشرف دی رلی ملی صوبائی حکومت ھووے گی۔ پنجاب وچ پٹھان عمران خان ' بلوچ زرداری تے مھاجر مشرف دی رلی ملی صوبائی حکومت ھووے گی۔

پاکستان دی اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی ' فارن افیئرس تے یوپی ' سی پی دے اردو بولن والے ھندوستانی مھاجراں ' بلوچاں ' پٹھاناں تے سیاسی شعور نہ رکھن والے مفاد پرست پنجابیاں دا کنترول ھووے گا۔  فے پنجاب دی ونڈ وی ھو جاوے گی۔ پنجاب وچ سرائیکی صوبہ تے پوٹھوھار صوبہ بن جاوے گا۔ سرائیکی صوبے  تے بلوچ زرداری دی صوبائی حکومت ھووے گی۔ پوٹھوھار صوبے تے پٹھان عمران خان دی صوبائی حکومت ھووے گی۔ شمالی پنجاب دے پنجابی نوں پٹھان کھچ کے رکھن  گے تے مفاد پرست پنجابی اناں پٹھاناں دی سیوا کرن گے۔ وسطی پنجاب دے پنجابی نوں اردو بولن والے بھیے تن کے رکھن  گے  تے مفاد پرست پنجابی اناں بھیاں دی سیوا کرن گے۔ جنوبی پنجاب دے پنجابی نوں سرائیکی اکھان والے بلوچ ' پٹھان ' قریشی ' گیلانی ' عباسی رگڑ کے رکھن  گے  تے مفاد پرست پنجابی اناں سرائیکی اکھان والے بلوچاں ' پٹھاناں ' قریشیاں ' گیلانیاں ' عباسیاں دی سیوا کرن گے۔ خیبر پختونخواہ ' بلوچستان ' سندھ تے کراچی دے پنجابی تے پہلوں توں ای کھچ کے وی رکھے ھوئے نے ' تن کے وی رکھے ھوئے نے تے رگڑ کے وی رکھے ھوئے نے۔

ایس مضمون وچ صرف او کھیل دسیا گیا اے جیہڑا پٹھان عمران خان ' بلوچ زرداری تے مھاجر مشرف کھیل رئے نے تے کھیل پنجابی نواز شریف نال اے جیہڑا اناں دا مقابلہ نئیں کر پاریا۔ جے کسے ھور پنجابی کھلاڑی نے پٹھان عمران خان ' بلوچ زرداری تے مھاجر مشرف دے پنجاب وچ کھیلے جان والے کھیل دا توڑ کڈھ لے آ تے نالے مھاجر مشرف دے اردو بولن والے ھندوستانی مھاجر ' بلوچ زرداری دے بلوچ تے پٹھان عمران خان دے پٹھان ووٹ بینک والے علاقیاں وچ اناں دے ووٹ بینک نوں توڑ لے آ تے فے مھاجر مشرف ' بلوچ زرداری تے پٹھان عمران خان نے ای نئیں اردو بولن والے ھندوستانی مھاجراں ' بلوچاں تے پٹھاناں نے وی رل جانا اے۔

مھاجر مشرف ' بلوچ زرداری تے پٹھان عمران خان  توں علاوہ خاص طور تے اردو بولن والے ھندوستانی مھاجراں ' بلوچاں تے پٹھاناں نوں ایس گل دا دھیان رکھنا چائی دا اے کہ پاکستان صرف پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ قوموں دا ای ملک نئیں اے۔ سماٹ ' ھندکو ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی قوماں دا وی ملک اے۔ پاکستان وچ پنجابی دی آبادی 60% اے۔ پنجابی صرف پنجاب دی ای سب توں وڈی آبادی نئیں نے۔ خیبر پختونخواہ دی دوجی وڈی آبادی ' بلوچستان دے پختون علاقے دی دوجی وڈی آبادی ' بلوچستان دے بلوچ علاقے دی دوجی وڈی آبادی ' سندھ دی دوجی وڈی آبادی ' کراچی دی دوجی وڈی آبادی وی پنجابی ای نے۔ پاکستان دی اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی ' فارن افیئرس ' شہری علاقیاں' صنعت ' تجارت ' ذراعت ' سیاست ' صحافت ' ھنرمندی تے سرکاری ملازمت دے شعبیاں وچ وی پنجابی ای چھائے ھوئے نے۔

اوداں پاکستان دی قومی سیاست دا اے کھیل ھے بوت وڈا۔ ایس کھیل وچ کجھ بین الاقوامی کھلاڑی وی شامل نے۔ جد کہ پاکستان دے دنیا دے وڈے ملکاں چون اک ملک تے او وی ایٹمی ملک تے عالمی سیاست دے جغرافیائی حساب نال اک بوت حساس علاقے والے ملک وچ عالمی طاقت امریکہ تے چین دی دلچسپی تے سب توں بوھتی ھونی اے۔  جیہڑے بین الاقوامی کھلاڑی پٹھان عمران خان ' بلوچ زرداری تے مھاجر مشرف دے پچھے نے اناں دے مخالف بین الاقوامی کھلاڑیاں نے پٹھان عمران خان ' بلوچ زرداری تے مھاجر مشرف دے مخالف کھلاڑی نال سانجھ کرنی اے۔

ایس لئی جیہڑے مقامی یا صوبائی سیاست دے کھلاڑی پاکستان دی قومی سیاست دے ایس کھیل نوں سمجھے بغیر تماشبین بن کے کھیل وچ لتاں مار رئے نے اناں نوں وی لگ پتہ جاناں اے کہ؛ پاکستان دی قومی سیاست دا ھن ھون والا کھیل ھے کی اے؟  تے فے عام بندے دے ایس کھیل بارے جانکاری توں بغیر کھیل وچ لت پان نال لت تے آپ ای وڈھی جانی اے۔ ایس سیاسی کھیل نے چولاں ھلا دینی آں نے۔ ایس سیاسی کھیل نے بوت بربادی لے آنی اے۔ ایس سیاسی کھیل وچ تماشبین بن کے چسکے لین والے آں نے سیاسی کھیل دے زور پھڑن توں بعد مسلمان بنو ' پاکستانی بنو۔ اسلام بچاؤ ' پاکستان بچاؤ دی دھائی دیندے نظر آنا اے۔

Saturday 24 June 2017

پنجاب کی سکھ سلطنت میں سرکاری زبان فارسی کیوں تھی؟

ایک علاقے میں اس علاقے کی اکثریتی آبادی کی زبان کو ایک مقامی زبان کے طور پر استعمال کیا جاتا ھے لیکن رابطے کی زبان کا استعمال اس علاقے کی حدود سے باھر ھوتا ھے۔ رابطے کی زبان کو مختلف زبانیں بولنے والوں کے درمیان رابطے کے لیے دوسری زبان کے طور پر استعمال کیا جاتا ھے۔

ھر دور میں ' دنیا بھر میں کبھی تجارتی ' کبھی سفارتی ' کبھی انتظامی سہولت کی غرض سے اور کبھی مختلف قوموں کے سائنسدانوں اور مذھبی عالموں کے درمیان معلومات کا تبادلہ کرنے کے لیے کسی نہ کسی زبان کے رابطے کی زبان کے طور پر استعمال کرنے کی ضرورت رھی ھے۔

مثال کے طور پر برطانیہ میں انگریزی ایک مقامی زبان ھے لیکن روسی اور فرانسیسی زبان بولنے والے انگریزی زبان کو ایک رابطے کی زبان کے طور پر استعمال کرتے ھیں۔ تاکہ دنیا بھر کے جن علاقوں میں روسی اور فرانسیسی زبان  تجارتی / تعلیمی زبان کے طور سمجھی نہیں جاتی۔ وھاں انگریزی زبان کے سمجھے جانے کی وجہ سے انگریزی کو رابطے کی زبان کے طور پر استعمال کریں۔

اھم بین الاقوامی زبانوں میں سے ' جیسے کثیر تعدا کے اسپینی زبان کو بولنے کے باوجود اسپینی زبان کو دنیا بھر کے بیشر علاقوں میں سمجھا نہیں جاتا۔ لہذا اسپینی زبان کو عالمی رابطے کی زبان کے طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا۔

پنجاب کی سکھ سلطنت کے دور کے دوران  پنجابی زبان کو پنجاب سے باھر بیشتر قوموں کے علاقوں میں سمجھا نہیں جاتا تھا۔ لہذا پنجاب کی مقامی زبان پنجابی زبان تھی۔ جبکہ علاقے کی دوسری قوموں کے ساتھ تجارتی و سفارتی سہولت کی غرض سے ' سائنسدانوں اور مذھبی عالموں کے درمیان معلومات کے تبادلہ کی وجہ سے ' انتظامی سہولت کے لیے علاقے کی رابطے کی زبان فارسی کو پنجاب کی سکھ سلطنت کی سرکاری زبان کا رتبہ حاصل تھا۔

مذھبی اجارہ دار بھی سرحد پار سے درآمد کیے گئے۔

دیوبند کے اس گروہ کا پاکستان کی اسکیم سے اختلاف اس بنیاد پر تھا کہ وہ پورے برصغیر پر مسلمان حکمرانی کی بحالی کے خواہشمند تھے۔ غیرمسلموں سے کسی قسم کا بھائی چارہ اس کی بنیاد نہیں تھا۔ پاکستان کے حامی اسے مدینہ ثانی کے طور پر پیش کرتے تھے۔ جس کے بعد فتح مکہ کا مرحلہ ناگزیر طور پر آتا ھے اور پھر فارس اور مصر اور روم وغیرہ فتح کیے جاتے ھیں۔ حماقت دونوں کی ایک ھی درجے کی تھی۔ دیوبند کے دوسرے گروہ نے پاکستان کے حکمرانوں کے مذھبی مشیر بن کر سنی علما و مشائخ کا پتا کاٹنے اور اقتدار پر بتدریج قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں مولانا شبیر عثمانی اور مولانا ظفر عثمانی کو بالترتیب کراچی اور ڈھاکہ بھیجا گیا۔ انھوں نے ھی نوابزادہ لیاقت علی خاں کی شہہ پر قرارداد مقاصد تیار کر کے فتنے کا بیج بویا۔ جس کی فصل آج ھم بحمداللہ کاٹ رھے ھیں۔

یہ بات معنی خیز ھے کہ بیوروکریسی اور سیاسی قیادت کی طرح ابتدا میں مذھبی اجارہ دار بھی سرحد پار سےدرآمد کیے گئے (حالانکہ علما و فضلا کی اِس طرف بھی کمی نہ تھی لیکن ان میں بیشتر غیردیوبندی تھے)۔ صرف انگریز کی چھوڑی ھوئی فوج جس نے پاکستان کے لیے آپٹ کیا ' مقامیوں پر مشتمل تھی۔ لیکن یہ مقامی زیادہ تر پنجابی اور تھوڑے بہت پٹھان تھے۔ بنگالی ' سندھی ' بلوچ ' فوج کا حصہ نہیں تھے اور نہ انہیں بننے دیا گیا۔ چنانچہ پارلیمنٹ کے برعکس (جس میں سارے صوبوں کی نمائندگی اصول طے کر کے رکھی گئی ھے) فوج صرف اور صرف پنجاب کی نمائندگی کرتی ھے۔ (Ajmal Kamal)

فوج اگر پنجابی تھی بھی تو سپاھیوں اور نچلی سطح کے افسروں کی وجہ سے۔ فوج کے اعلیٰ افسروں میں یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے اور پٹھان زیادہ تھے۔ فوج کا پہلا پنجابی سربراہ تو بنا ھی بنگلہ دیش کے بننے کے بعد۔ سوال یہ ھے کہ فوج کو کمانڈ فوج کا سربراہ اور اعلیٰ افسران کرتے ہیں یا سپاھی اور نچلی سطح کے افسران؟

بیوروکریسی اور سیاسی قیادت کی طرح ابتدا میں جو مذھبی اجارہ دار سرحد پار سے درآمد کیے گئے وہ اصل میں یوپی ' سی پی کے لوگ تھے۔ پاکستان کے بننے کے بعد اصل مسئلہ یہی یوپی ' سی پی کے لوگ ھی بنے۔ چاھے وہ سیاسی قیادت کے لبادے میں تھے۔ چاھے وہ حکومتی عھدیدار کے لبادے میں تھے۔ چاھے وہ بیوروکریسی کے لبادے میں تھے۔ چاھے وہ مذھبی اجارہ دار کے لبادے میں تھے۔ سوال یہ ھے کہ یوپی ' سی پی والے پاکستان کی زمین پر کس کھاتے میں آ قابض ھوئے؟

یوپی ' سی پی کی بیوروکریسی ' سیاسی قیادت اور مذھبی اجارہ داروں کے علاوہ فوج کے اعلیٰ افسروں میں یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے اور پٹھان افسروں کے زیادہ ھونے کا ذکر گول کرنے '  اور پنجاب ' پنجابی ' پنجابی فوج کی گردان کرنے سے پاکستان کا مسئلہ سلجھنے کے بجائے الجھتا ھی گیا اور مزید الجھ رھا ھے۔ "کھو چوں بوکے کڈھن نال کجھ نئیں جے ھونا۔ کتا کھو چوں کڈھنا ای پینا اے"۔ (Shahbaz Arain)

Pakistan ki Muslim Ummah aur World mein importance kyon hy?

Muslim Ummah mein aur World mein Pakistan ki importance es liay hy k Muslman Punjabi, Pakistan ki 60% population hy, Muslim Ummah ki 3rd largest ethnic population hy, Punjabi nation ki 56% population hy aur Punjabi nation World ki 9th biggest nation hy.

Pakistan k Sindhi, Muhajir, Baloch, Pathan ki na tu World mein importance hy, na Muslim Ummah mein importance hy aur na Pakistan mein importance hy. Kyon k, Sindhi, Muhajir, Baloch, Pathan ka dhiyaan Muslman Punjabi say apni izzat karwaanay, Pakistan ki taraki k liay koshish karnay, Muslim Ummah ki behtari k liay apna kirdaar adda karnay aur World ki nations mein Pakistan ko aik mazboot State bunaanay par rehnay k bajaay apnay zaati mofaadaat k liay Punjab aur Punjabiyon ko blackmail karnay aur dabaao mein rakhnay par he rehta hy.

Sindhi, Muhajir, Baloch, Pathan ko aggar samajh aa jaay k Muslman Punjabi, Pakistan ki 60% population hy, Muslim Ummah ki 3rd largest ethnic population hy, Punjabi nation ki 56% population hy aur Punjabi nation World ki 9th biggest nation hy tu Sindhi, Muhajir, Baloch, Pathan ko apni ooqaat maloom ho jaay aur Punjabiyon k sath Dushmuni karnay say guraiz karnay lagain.

Waisay, Muslman Punjabi nay bhe Sindhi, Muhajir, Baloch, Pathan k sath, Muslim Ummah ki Qoomon k sath, Punjabi nation ki Christian Punjabi Community, Sikh Punjabi Community, Hindu Punjabi Community k sath aur World ki nations k sath, Pakistani Muslman bun kar social, economic aur political interaction kar k 69 saal barbaad kiay.

Muslman Punjabi chon k Pakistan ki 60% population hy, Muslim Ummah ki 3rd largest ethnic population hy, Punjabi nation ki 56% population hy aur Punjabi nation World ki 9th biggest nation hy, es liay ab tu Muslman Punjabi ko Sindhi, Muhajir, Baloch, Pathan k sath, Muslim Ummah ki Qoomon k sath, Punjabi nation ki Christian Punjabi Community, Sikh Punjabi Community, Hindu Punjabi Community aur World ki nations k sath, Pakistani Muslman k bajaay Punjabi Muslman bun kar social, economic aur political interaction shoro kar dayna chaheay.

Pakistani Muslman k bajaay Punjabi Muslman bun kar social, economic aur political interaction karnay say na sirf Pakistan k Sindhi, Muhajir, Baloch, Pathan ko aur Punjabi nation ki Christian Punjabi Community, Sikh Punjabi Community, Hindu Punjabi Community ko balkay Muslim Ummah aur World ki nations ko bhe maalom hona shoro ho jaay ga k Muslim Punjabi ki Pakistan, Punjabi Nation, Muslim Ummah aur World mein kya position hy aur Punjabi Muslman k sath positive social, economic aur political relationship rakhna kyon zaroori hy.

Non-Punjabi Muslman Da "Divide Punjabis, Unite Non-Punjabis" Khyl.

Punjabi di Tazleel tay Tooheen karn laee Non-Punjabi Muslman sub toun wadh k activate rainday nay. A Non-Punjabi Muslman jud Punjabi Sikh, Punjabi Hindu, Punjabi Christian nu nishaana bunaaday nay, ous waylay a Punjabi nu Punjabi day bajaay Sikh, Hindu, Christian keh k hamla aawar honday nay par Muslman Punjabi nu a Non-Punjabi Muslman jud nishaana bunaaday nay tud Muslman nai par Punjabi keh k nishaana bunaaday nay.

Non-Punjabi Muslman assal vich Punjab tay Punjabiyaan day Dushmun nay par inna di policy a way k a Punjabiyaan nu Mazhab tay Nasal di bunyaad tay divide karkay v rakhna chaanday nay tay Punjabiyaan nu Mazhab tay Nasal di bunyaad tay aapas vich larwaana v chaanday nay ta k Punjabiyaan nu a apnay thalay lae rakhun tay inna Non-Punjabi Muslman di Punjabiyaan uttay baala dusti qaim raway.

A Non-Punjabi Muslman "Divide Punjabis, Unite Non-Punjabis" waala khyl, khyl raay nay. Ays lae Punjabi Sikh, Punjabi Hindu, Punjabi Christian tay hamla karn waylay a Non-Punjabi Muslman, sirf Muslman bun jaanday nay balkay Muslman Punjabiyaan chon v kujh Punjabiyaan nu ginti karwaan lae apnay naal shaamal kar lainday nay. 

Jud inna Non-Punjabi Muslmana da nishaana Punjabi Muslman hon tud a Muslman day bajaay Qoom Parast bun jaanday nay tay Muslman day bajaay Qoom Parast bun k Muslman Punjabiyaan tay humla aawar ho jaanday nay.

ساڈے سکول سمجھان لئی نئیں نے پڑھان لئی نے۔

نکے ھوندیاں پنڈ دے سکول دا ماسٹر جد اردو وچ پڑھاندا سی تے میں سوچدا سی کہ؛
ماسٹر پنجابی وچ کیوں نئیں پڑھاندا؟
تاکہ ماسٹر جو پڑھاندا اے ' او سمجھ وی آوے۔

فے سوچدا سی کہ؛
مولوی وی تے انج ای کردا اے۔
سپارا پڑھا دیندا اے تے میں یاد کرلیندا واں۔
نہ مولوی سمجھاندا اے تے نہ میں سمجھدا واں۔

ماسٹر دا پڑھایا سمجھ تے آندا نئیں سی پر سبق یاد کر ای لئی دا سی۔
پنڈ دے نکے سکول چوں وڈے سکول وچ وی اینج ای ھوندا ریا۔

شہر وچ آکے پڑھن ویلے اردو دے نال نال انگریجی وی پڑھنی پے گئی۔
پنڈ وچ ای سمجھ دے بجائے یاد کرن دی عادت پے گئی سی۔
ایس لئی کالج وچ آکے انگریجی وچ پڑھایا وی یاد کرنا اوکھا نئی لگیا۔
بس لیکچرار پڑھا دیندے سن تے میں یاد کرلیندا سی۔
نہ لیکچراراں نوں سمجھان دی لوڑ پیندی سی۔
نہ مینوں سمجھن دی۔
بس یاد کر لئی دا سی۔

زندگی کجھ ایہو جئی ھوگئی کہ'
یاد کرنا سوکھا ھوگیا۔
سمجھن دی لوڑ نہ رئی۔

میرے یار بیلی وی میرے ورگے ای نے
پڑھیا ھویا تے بوھت اے
سمجھ کجھ آندی نئیں
ایس لئی جد گل بات کری دی اے تے بڑا مزا آندا اے
ھر کوئی اپنی اپنی ماردا اے
نہ کوئی کسے دی گل سمجھدا اے
نہ کوئی کسے نوں گل سمجھاندا اے
ھر کوئی اک دوجے دی گل سندا اے
ھر کوئی اک دوجے نوں گل سنادا اے
نہ کسے نوں گل سمجھان دی لوڑ پیندی اے
نہ کسے نوں کسے دی گل سمجھن دی لوڑ پیندی اے
کوئی برا وی نئیں منادا کہ توں گل سمجھی کیوں نئیں؟
کوئی برا وی نئیں منادا کہ توں گل سمجھائی کیوں نئیں؟

ھن جد پنجاب دے پنڈاں وچ جانا ھوندا اے تے سوچدا واں کہ؛
جد کجھ سمجھانا ای نئی تے فے یاد کیوں کروایا جاندا اے؟

فے سوچدا واں کہ؛
ساڈے سکول سمجھان لئی نئیں نے
پڑھان لئی نے۔
ایس لئی ای اسیں روبوٹ آں
تے ساڈے اندر پروگرام فیڈ اے
اے فیڈ پرگرام ای سانوں کھچی پھردا اے۔

جے نکے ھوندیاں ای سکول وچ؛
پڑھا کے یاد کران دی عادت دے بجائے
پڑھا کے سمجھن دی عادت پا دتی گئی ھوندی
تے فے اساں روبوٹ نئیں سی ھونا
اساں سمجھدار انسان ھونا سی۔

سمجھدار ھون دے کرکے؛
اساں اشرف المخلوقات ھونا سی
اساں اسفل السافلین نئیں سی ھونا۔

Thursday 22 June 2017

آپ میں کونسا کردار ادا کرنے کی صلاحیت ھے؟


آپ حکمراں کو چوھدری کہہ سکتے ھیں۔
آپ انتظامیہ کو منشی کہہ سکتے ھیں۔
آپ میڈیا کو مراثی کہہ سکتے ھیں۔

چوھدری کا کام پروگرام بنانا ھوتا ھے۔
منشی کا کام چوھدری کے بنائے گئے پروگرام پر عمل کرنا ھوتا ھے۔
میڈیا کا کام چوھدری کے بنائے گئے پروگرام کا پروپگنڈہ کرنا ھوتا ھے۔
عوام تماش بین ھوتے ھیں۔

مقامی سطح پر آپنے اپنے علاقے میں چوھدریوں کو دیکھا ھوگا۔
چوھدریوں کے پاس منشی ھوتے ھیں۔ جنہیں آپ انتظامیہ کہہ سکتے ھیں۔
چوھدریوں کے پاس مراثی ھوتے ھیں۔ جنہیں آپ میڈیا کہہ سکتے ھیں۔

آپنے اندازہ لگانا ھو کہ کون سا چوھدری کامیاب چوھدری ھے تو آپ اس چوھدری کے منشیوں اور مراثیوں کی صلاحیوں کو پرکھ لیں۔ آپکو اندازہ ھوجائے گا کہ کونسے چوھدری کے پروگرام پر عمل ھوگا اور کونسے چوھری کی چودھراھٹ نہیں چلنی۔

مقامی سطح کی طرح کچھ ایسے ھی صوبائی اور ملکی سطح پر بھی ھوتا ھے۔ بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ھوتا ھے۔

مقامی سطح کے چوھریوں کے پاس محلوں اور برادریوں کی سطح کے منشیوں اور مراثیوں کی ٹیم ھوتی ھے۔ اس لیے مقامی سطح کے چوھریوں کو عوام پر برتری ھوتی ھے۔

صوبائی سطح کے چوھریوں کے پاس مقامی سطح کے منشیوں اور مراثیوں کی ٹیم ھوتی ھے۔ اس لیے صوبائی سطح کے چوھریوں کو مقامی سطح کے چوھریوں پر برتری ھوتی ھے۔

ملکی سطح کے چوھریوں کے پاس صوبائی سطح کے منشیوں اور مراثیوں کی ٹیم ھوتی ھے۔ اس لیے ملکی سطح کے چوھریوں کو صوبائی سطح کے چوھریوں پر برتری ھوتی ھے۔

بین الاقوامی سطح کے چوھریوں کے پاس ملکی سطح کے منشیوں اور مراثیوں کی ٹیم ھوتی ھے۔ اس لیے بین الاقوامی سطح کے چوھریوں کو ملکی سطح کے چوھریوں پر برتری ھوتی ھے۔

آپ بھی اگر منشیوں اور مراثیوں پر مشتمل ٹیم بنا سکتے ھیں تو آپ بھی اس سطح کا چوھدری بننے کی کوشش کریں ' جس سطح کی آپ ٹیم بنا سکتے ھیں۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ؛

چوھدری کا کام پروگرام بنانا ھوتا ھے۔

منشی کا کام چوھدری کے بنائے گئے پروگرام کو سمجھ کر پروگرام پر عمل کرنا ھوتا ھے۔

مراثی کا کام چوھدری کے بنائے گئے پروگرام کو سمجھ کر پروگرام کا پروپگنڈہ کرنا ھوتا ھے۔

تماش بین ھونے کی وجہ سے عوام خود بخود اس پروگرام میں دلچسپی لینے لگیں گے۔

اگر آپ سمجھتے ھیں کہ آپ چوھدری تو نہیں بن سکتے لیکن آپ کا شمار منشیوں یا مراثیوں میں ھوسکتا ھے تو پھر اس ھی سطح کے چوھدری کی ٹیم کا رکن بننے کی کوشش کریں ' جس سطح کے آپ منشی یا مراثی بن سکتے ھیں۔

اگر آپ میں منشی یا مراثی بننے کی بھی صلاحیت نہیں ھے یا آپ چوھدری کے بغیر ھی منشی یا مراثی کا کردار ادا کر رھے ھیں۔ تو اس کا مطلب ھے کہ آپ بغیر کسی پروگرام کے اپنا وقت ضائع کرکے پریشان ھورھے ھیں۔ اس لیے وقت ضائع کرنے اور پریشان ھونے سے بہتر ھے کہ آپ اپنے گھر اور کاروبار پر دھیان دیں اور چوھدریوں ' منشیوں اور مراثیوں کو اپنا کام کرنے دیں۔

Why was Persian an Official Language in Sikh Empire of Punjab?

Lingua francas have developed around the world throughout human history, sometimes for commercial reasons but also for religious, diplomatic and administrative convenience, and as a means of exchanging information between scientists and other scholars of different nationalities.

A vernacular language is used as a native language in a community but, a lingua franca is used beyond the boundaries of its original community and is used as a second language for communication between groups. For example, English is a vernacular in the United Kingdom but is used as a lingua franca in Russian and French serve a similar purpose as industrial/educational lingua francas in many areas.

International auxiliary languages such as Esperanto have not had a great degree of adoption globally so they cannot be described as global lingua francas.

During the era of Sikh Empire of Punjab, the Punjabi had not a great degree of adoption out of Punjab, therefore, the native language Punjabi was the vernacular language and regional lingua franca Persian was the official language of Sikh Empire of Punjab.

کراچی: ایک غلط فہمی کا ازالہ

کراچی کو بجا طورپرپاکستان کا دل کہا جا سکتا ہے۔ کراچی نہ صرف پاکستان کی واحد مکمل طور پر آپریشنل سمندری بندرگاہ اورپاکستان کا معاشی دارالخلافہ ہے بلکہ پاکستان سے آگے چین، افغانستان اور وسط ایشیایؑ ریاستوں کے لئے بھی گرم پانیوں تک رسائی اور بین الاقوامی تجارت کے لیے صدر دروازہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

مگر گزشتہ چند دہایؑوں سے اس شہر پر ایک آسیب کا سایہ ہے۔  بے یقینی کے بادل چھاےؑ ہوےؑ ہیں۔ معاشی اور ثقافتی سرگرمیاں ماند ہیں۔  بے امنی اور بد انتظامی کا راج ہے۔ اور ساتھ ھی ساتھ ایک تواتر سے یہ غلط فہمی پھیلائی جا رہی ہے کہ کراچی کو ایک ترقی پزیر شہر کی حیثیت قیام پاکستان کے بعد حاصل ہوئی۔ اس سے پہلے شاید یہاں جنگل تھا جس میں جانوروں کے ساتھ کچھ تہذیب و تمَدُن سے نا آشنا انسان بھی رہتے تھے۔ جن کی اکثریت غالباً درختوں پر یا غاروں میں رہتی تھی۔ پھر پاکستان بنا اور ہجرت کرکے ہنرمند اور تعلیم یافتہ لوگ آئے جنہوں نے اس ناتراشیدہ ہیرے کی نوک پلک سنواری اوراسےعروس البلاد ' روشنیوں کا شہر اور پرل آف عریبین سی بنا دیا۔

میں نے اس سے زیادہ جھوٹ پر مبنی ' مسخ شدہ اور بعید از حقیقت تاریخ نہ کبھی پڑھی نہ سنی۔ یہ غلط فہمی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پھیلایؑ جا رہی ہے اورایک ایسی مہم کا حصّہ ہے جس کے ذریعے موجودہ پاکستان کی جغرافیایؑ حدود میں شامل علاقوں کو قیام پاکستان کی تحریک سے لا تعلق بلکہ قیام پاکستان کا مخالف بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ تاثرعام کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کی جغرافیایؑ حدود میں شامل علاقوں کا قیام پاکستان کی تحریک سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اس زہریلے پروپیگنڈہ کے نتیجے میں پٹھان ' سندھی اور بلوچ قوم پرستی اورعلیحدگی پسندی کو فروغ حاصل ہوا ہے۔

میری اس تحریر کا محرک ہمارے ایک دوست کی ایسی ہی حالیہ پوسٹ ہے جس میں انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ جو علاقے آج پاکستان کی جغرافیایؑ حدود میں شامل ہیں ان کا تحریک آزادی میں کوئی حصہ نہ تھا۔

سچ تو یہ ہے کہ قیام پاکستان میں جتنا حصّہ یو پی ' دہلی اور بنگال کے مسلمانوں کا تھا اتنا ہی پنجاب ' سندھ اور شمال مغرب کے اہل اسلام کا تھا۔ مثلاً سندھ کے منتخب ایوان نے پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کی تو شمال مغرب کے مسلمانوں نے ریفرنڈم میں "اپنے" باچا خان کو انڈین نیشنل کانگریس کا حلیف ہونے کی پاداش میں مسترد کر کے گجراتی بولنے والے کراچی کے رہنے والے محمّد علی جناح کو صرف اور صرف اسلام اور قرآن کے نام پر ووٹ دے کر کامیاب کیا اور پنجاب کے شہرلاہورمیں تاریخی قرارداد پاکستان منظورہوئی جو بعد ازاں قیام پاکستان کی بنیاد بنی۔

تحریک آزادی کے بڑے بڑے رہنما جہاں لکھنواورعلیگڑھ سے تھے وہیں اس میں لاہور اور کراچی کے رہنے والے بھی پیش پیش تھے۔ محمّد علی جناح ' علامہ ڈاکٹر محمّد اقبال ' چوھدری رحمت علی ' چوہدری خلیق الزمان اوربے شمارنام ہیں جن کے بغیر پاکستان کے قیام کی تاریخ نامکمل ہے۔ 24 جولایٔ 1937 کو علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے نام لکھے گۓ ایک مکتوب میں حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالم دین مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے اعتراف کیا کہ اسلامی ہند ( تقسیم ہندوستان) کا فیصلہ شمال کے تین صوبوں کی طاقت پر منحصر ہے۔ اس لیے ایسا تاثر دینا کہ سندھ ' پنجاب ' شمال مغرب اور بلوچستان کے لوگ سو رریے تھے۔ جب آنکھ کھلی تو پاکستان بن چکا تھا۔ بد نیتی پر مبنی اور حقایؑق کے قطعی بر خلاف ہے۔

ہندوستان پر مکمل انگریزی راج کے راستے میں آخری چٹان بنے سندھی ' پٹھان اور بلوچ مجاہدین کی قربانیاں جدوجہد آزادی کی تاریخ میں سنہرے حرف سے درج ہیں۔ شہید پیر صاحب پگارا اوران کی حرفوج کی انگریزوں کے خلاف جہاد میں بے مثال قربانیوں کا منکر کوئی تاریخ کا اندھا جاہل ہی ہو سکتا ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں ہوش محد شیدی جیسے جانبازوں اور شمال مغرب کے قبایؑل نے کیؑی دہایؑوں تک انگریزی حملہ آواروں کو ناکوں چنے چبواےؑ اوراپنی سرزمین اور آزادی کا کامیابی سے دفاع کیا۔ آج وہ علاقے بھی پاکستان کا حصہ ہیں جہاں انگریز بھی کبھی اپنا تسلط قایؑم نہ کر سکا اس لیے ایسا کہنا کہ ان علاقوں کا انگریز کے خلاف مزاحمت اور آزادی کی جدوجہد میں کوئی حصہ نہ تھا تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔

میرے فاضل دوست نے یہ خامہ تراشی بھی کی ہے کہ کراچی پاکستان بنے کے بعد ترقی کی اس شاہراہ پر گامزن ہوا جس نے اس نیم آباد ویرانے کو ایک میٹروپولس بنا دیا۔ حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کراچی ' پاکستان بننے کے بعد زوال پذیر ہوا ہے۔ ترقی کے کچھ ادوار کو نکال کر یہ زوال ہر سطح پرآج بھی جاری ہے خواہ وہ ذہنی اور فکری انحتاط ہو یا معاشی اورسیاسی۔ مثلاً پاکستان بنے سے پہلے یہاں اس خطہ کی چند بڑی اور مصروف بندرگاہوں میں سے ایک کراچی پورٹ موجود تھا۔ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری پوری آب و تاب سے مصروف عمل تھا۔ کراچی جیمخانہ اور ہندو جیمخانہ موجود تھے۔ سندھ مدرسہ الاسلام اور ڈی جے سائنس کالج جیسے ادارے علم کی روشنی بکھیر رہے تھے۔ جمشید کوٹھاری پلیس ' سینٹ پیٹرکس ' ایمپریس مارکیٹ ' صدربازار ' سٹی کونسل ' فریئر ہال ' سٹی اور کینٹ اسٹیشن بھی پاکستان سے پہلے بنے۔ پاکستان بننے سے پہلے یہاں ٹرام بھی چلتی تھی اورڈبل ڈیکر بس بھی۔ زولوجیکل گارڈن بھی تھا اور موہٹہ پیلس بھی۔ الغرض کیا نہیں تھا کراچی میں؟

میں نے یہ نکتہ اس لیے اٹھایا ہے کہ شمس خان شاید کراچی کی تاریخ سے نابلد ہیں یا اسی زہریلے پروپیگنڈا کا شکار ہیں جس کا ذکر میں نے اوپر کیا۔ اسی لیے انہوں نے کراچی کی تمام تر ترقی کو 1947 کے بعد آئے لوگوں سے جوڑ دیا۔ جبکہ کراچی ' پاکستان سے پہلے بھی سندھ کا دارالخلافہ تھا۔ یہاں بین الاقوامی ہوائی اڈہ بھی تھا۔ روزنامہ ڈان یہیں سے شایؑع ہوتا تھا۔ بانیؑ پاکستان قایؑد اعظم محمّد علی جناح بھی یہیں پیدا ہوےؑ۔ اس شہر کی تاریخ قیام پاکستان سے شروع نہیں ہوئی بلکہ قیام پاکستان کی تاریخ میں اس شہر کا بڑا اھم حصّہ ہے۔

تاریخی خالقدینا ہال کون بھول سکتا ہے جہاں مولانا شوکت علی و برادران پرمقدمہ چلا۔ منتخب سندھ اسمبلی کا وہ ایوان بھی یہیں تھا جس میں پاکستان کے حق میں قراداد منظور کی گئی اور جس دن برصغیر کے مسلمانوں کی مشترکہ کوششوں اور محمد علی جناح کی رہنمائی میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔ مشرق و مغرب کے مشترکہ دارالخلافہ کے لئے نگاہ انتخاب بھی اسی شہر پر پڑی۔ کراچی شہر کا یہ اعزاز اس وقت تک برقرار رہا جب تک اس کی آبادی کسی حد تک قابو میں رہی مگر مہاجرین کی بڑھتی ہوئی آبادی جب قابو سے باہر ہونے لگی اور دارالخلافہ کا انتظام چلانا مشکل ہو گیا تو اسلام آباد بسانے اور دارالخلافہ کراچی سے منتقل کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ اگر 1984 کے بعد 2000 تک کے حالات کو پیش نظر رکھ کر منتقلی  کے اس فیصلے پر غورکیا جاےؑ تو فیصلہ کرنے والوں کی دور اندیشی کو داد دینا پڑتی ہے۔

مگر دارلخلافہ کی منتقلی کی یہ واحد وجہ نہیں تھی بلکہ مغربی پاکستان کے ہر صوبے سے کراچی انتہائی دوری پرواقع تھا اور جس نئی جگہ کا انتخاب کیا گیا وہ شمال مغرب ' پنجاب اور بلوچستان کے سنگم پر واقع ہے جس کا فاصلہ سکھر ' کویؑٹہ اور گلگت اور چترال سے لگ بھگ ایک جیسا ہے۔ یعنی اسلام آباد ایک طرح سے پاکستان کے مرکز میں واقع ہے۔

کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں آباد مھاجرین کے بارے میں ایک اور غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ جیسے وہ سب کے سب 1947 میں آ کر یہاں آباد ھوےؑ ہوں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ 1947 میں لٹے پٹے قافلوں کی صورت میں آنے والے مہاجرین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں تھی۔ مہاجرین کی آمد کا سلسلہ 1947 سے  لے کر 1957 تک بلا روک توک جاری رہا۔ یہاں تک کہ بھارت اور پاکستان نے طے شدہ معاہدہ کے تحت سرحدیں بند کردیں۔ 1957 کے بعد ھجرت کا باب بند ہو گیا اور ہر آنے جانے والے کو سفری کاغذات بنوانے پڑے۔ اس تاریخ کے بعد جو بھی بھارت سے پاکستان آیا اس نے ان معروف معنی میں اسلام یا پاکستان کی خاطر ہجرت نہیں کی بلکہ ان کا شمار معاشی مہاجرین یا ایمیگرنٹس میں کیا جانا چاہیے نہ کی ریفوجیز میں۔

ہجرت کا یہ سلسلہ 1957 سے 1970 تک جاری رہا اور 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد تو اس کی رفتار میں مزید اضافہ ہو گیا جب بڑی تعداد میں مشرقی پاکستان سے بہاری ' برمی ' بنگالی مہاجرین نے مغربی پاکستان کا رخ کیا۔ یہ سلسلہ 1990 تک جاری رہا اور اس دوران لاکھوں مہاجرین کراچی میں آباد ہوئے اور پھر 80 کی دہائی میں افغاں مہاجرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا اور ایک محتاط اندازے کے مطابق آج کراچی میں لگ بھگ ۸ لاکھ افغان مہاجر بھی آباد ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر سے روزگار کی تلاش میں آنے والے اور بعد ازاں کراچی میں مستقل سکونت اختیار کرنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔

کراچی کی ڈیموگرافی میں اس بے لگام تبدیلی کے مقامی آبادی پر انتہایؑ منفی اثرات مرتب ہوےؑ اور کراچی کے قدیمی باشندے اپنے ہی شہر میں اجنبی ہوگئے۔ کئی مقامی باشندوں نے کراچی کو خیرباد کہہ دیا۔ آج کرچی کے اصل باشندے کچھی میانے ' بلوچ اور سندھی انتہائی غربت اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے یہاں 1500 یہودی خاندان آباد تھے۔ آج ایک بھی نہیں ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے یہاں ہزاروں پولش مہاجرین آباد تھے اب دو چار گھرانے رہ گےؑ ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے یہاں سینکڑوں ایرانی ریسٹورانٹس اور بیکریز تھیں اب شاید درجن بھر بھی نہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے یہاں ہزاروں پارسی تجار اپنا کاروبار کرتے تھے اب معدودے چند سب چھوڑ گےؑ ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے قابل ذکر گوون اورملباری کمیونٹیز اب تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔

قیام پاکستان سے پہلے یہاں گندگی نام کو نہیں تھی اب یہ دنیا کے گندے ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے یہاں امن و امن کا دور دورہ تھا اب یہاں ٹارگٹ کلرز اور گینگ وار کا راج ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے کراچی ایک منظّم شہرتھا اب ایک بے ہنگم اور بے ربط آبادی ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے کراچی شہر کی شہرت رواداری تھی جہاں مسلم ' ھندو ' پارسی ' یہودی ' عیسائی سب کی عبادت گاہیں تھیں اور کچھی میانے ' بلوچ ' سندھی ' پٹھان ' میمن ' گجراتی ' گوون ' پارسی ' پنجابی سب مل جل کر رہتے تھے۔ آج یہ نسلی ' لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم آبادیوں کا مجموعہ ہے۔ قیام پاکستان سے قبل اس شہر کی مہمان نوازی اورغریب پروری کے دنیا میں چرچے تھے۔ اب اس شہر میں سفید پوش درمیانہ طبقہ کا وجود بھی خطرہ میں ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے کراچی کھلے دل کا روشن خیال شہر تھا جسے بتدریج تعصب اور تنگ نظری کی بند گلی میں دھکیل دیا گیا ہے۔

پاکستان بننے کے بعد یہاں لالوکھیت میں خیمہ بستی آباد ہوئی جو اب شہید ملت لیاقت علی خان کے نام سے منسوب ہے۔ اورنگی ٹاؤن بنا ' کورنگی  ' لانڈھی اورسہراب گوٹھ وجود میں آئے۔ کچی آبادیاں بنیں ' جو پہلے نا پید تھیں۔ پاکستان بننے سے پہلے کراچی میں کوئی ندی نالوں پر نہیں رہتا تھا۔ اب کراچی کا کوئی ندی نالہ نہیں رہتا۔ پاکستان بننے سے پہلے یہاں محمّد علی جناح ' حسسن علی آفندی اورعبدالله ہارون ہوا کرتے تھے۔ اب یہاں اجمل پہاڑی اور کامران مادھوری ہوتے ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے یہاں دنیا بھر سے سیاح اورسرمایہ کار آتے تھے۔ اب صرف جنوبی افریقہ سے بھتہ خوروں کی کالز آتی ہیں۔ اور مقامی سرمایہ کار بھی ملک کے اندر دوسرے شہروں یا بیرون ملک منقل ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر ' انجینیؑر اور ہنر مند اس شہر سے بھاگ رہے ہیں۔ اب آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ قیام پاکستان کے بعد کراچی  نے ترقی کی یا زوال پزیر ہوا ہے؟

Written by Muhammad Tariq Khan