Saturday 30 June 2018

نواز شریف کو نہ رھنما بننا آیا اور نہ حکمران بننا آیا۔

پاکستان کا سیاسی ماحول لسانی ھے۔ اس لیے سندھ کے بلوچوں اور عربی نزاد سندھیوں کی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی ' خیبر پختونخواہ کے پٹھانوں ' پنجاب میں رھنے والے پٹھانوں ' بلوچوں اور اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی پارٹی پاکستان تحریکِ انصاف کو تو پنجابی مینڈیٹ دیتے نہیں۔ لہذا پنجابیوں کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن کو مینڈیٹ دے دیتے ھیں۔ پنجاب سے قومی اسمبلی کی 150 نشستیں ھیں۔ پاکستان کی وفاقی حکومت بنانے کے لیے 137 نشستوں کی ضرورت ھوتی ھے۔ جو پنجاب سے ھی مل جاتی ھیں۔ اس لیے نواز شریف کو پاکستان کا وزیرِ اعظم بننا نصیب ھوتا رھا۔

پنجابی قوم نے نواز شریف کو پنجاب کے ساتھ ساتھ ' بار بار پاکستان کا حکمراں بھی بنوایا لیکن نواز شریف نے نہ تو رھنما بن کر پاکستان بھر کے پاکستان مسلم لیگ ن کے کارکنوں کی سیاسی تربیت کرکے پاکستان کے عوام کو سیاسی سوچ ' سمجھ اور شعور دیا ' نہ پنجابی قوم کی سماجی ' ثقافتی اور سیاسی ترقی کے لیے اقدامات کیے ' نہ پٹھانوں ' بلوچوں ' مھاجروں کی پنجاب کو بلیک میل کرنے ' پاکستان اور پنجابی قوم کے خلاف سازشیں کرتے کی عادت کو ختم کروانے کے لیے سیاسی اقدامات کیے ' نہ حکمرانی کے فرائض انجام دیتے ھوئے پاکستان کے حکومتی اداروں کی کارکردگی بہتر کرکے پاکستان کو مظبوط اور مستحکم ملک بنایا ' نہ معاشی و اقتصادی ترقی دے کر پاکستان کو ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنایا ' بلکہ پنجاب اور پاکستان کی حکمرانی کا فائدہ اٹھاتے ھوئے اپنے ذاتی کاروبار اور اپنے خاندان کے مفادات کے تحفظ میں لگا رھا۔

پنجاب اور پنجابی قوم کے لیے اس سے بھی اھم معاملہ یہ ھے کہ؛

نواز شریف 1985 سے لیکر ' 32 سال کے عرصے سے سیاسی طور پر پنجاب پر راج کر رھا ھے۔ بلکہ حقیقت یہ ھے کہ پنجابی 32 سال کے عرصے سے نواز شریف کو پنجاب پر سیاسی راج کروا رھے ھیں۔ جبکہ پنجابیوں کے مینڈیٹ سے ھی نواز شریف کو پاکستان پر بھی 3 بار راج کرنے کا موقع ملا۔ لیکن؛

نواز شریف نے انگریزوں کے دور سے پنجاب پر مسلط کی گئی اردو زبان کو پنجاب سے ختم کرکے پنجابیوں کو انکی زبان تک نہ دی۔ تاکہ پنجابی اپنے بچوں کو اپنی ماں بولی میں تعلیم دلوا سکتے اور دفتری معاملات کو اپنی ماں بولی میں انجام دے سکتے۔ بلکہ پنجاب کی تعلیمی اور دفتری زبان پنجابی ھو جانے سے پنجابی تہذیب ' ثقافت اور رسم و رواج نے بھی فروغ پانا تھا جبکہ پنجابی قوم نے بھی پنجابی زبان کے لہجوں اور پنجابی برادریوں کے تنازعات سے نکل کر سماجی ' معاشی اور سیاسی طور پر مظبوط ' مستحکم اور خوشحال قوم بن جانا تھا اور پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر کی بلیک میلنگ سے بھی خود کو بچا لینا تھا۔

جبکہ نواز شریف کے اپنے لیے اھم معاملہ یہ رھا کہ؛

مشرف نے 1999 سے 2008 تک حکومت کی۔ زرداری نے 2008 سے 2013 تک حکومت کی۔ نواز شریف کی حکومت 2013 سے شروع ھوئی۔ نواز شریف نے 2013 میں حکومت سمبھالنے کے بعد مشرف اور زرداری کی حکومت کے دور میں ھونے والی لوٹ مار کا حساب کتاب کرنا تھا۔ مشرف اور زرداری نے اپنے اپنے دور میں کمائے ھوئے سرمایہ کا ایک حصہ خود کو اور اپنے ساتھوں کو بچانے پر لگانے کا پروگرام بنایا۔ مشرف اور زرداری نے میڈیا ھاؤس خریدے ' اینکر ' صحافی ' تجزیہ نگار بھرتی کیے۔ پہلے طاھر القادری کے ذریعے میدان سجایا۔ پھر عمران خان کو آگے کرنا شروع کیا۔ اپنے اقتدار کے دور میں بدعنوانیوں میں ملوث رھنے والے اور پنجاب و خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے اپنے ساتھوں کو خود عمران خان کی پارٹی میں شامل کروایا۔ اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکیسی میں موجود اپنے ساتھیوں کو نواز شریف کی مخالفت اور عمران خان کی حمایت پر لگایا۔ جلسے ھوئے ' جلوس ھوئے ' دھرنے ھوئے۔ مشرف اور زرداری بچے رھے۔ حکومت میں ھونے کے باوجود الٹا احتساب نواز شریف کا شروع ھوگیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ؛ نواز شریف نہ صرف اقتدار سے محروم ھوا بلکہ جیل بھی پہنچ گیا۔ خیبر پختونخواہ کے پٹھانوں ' پنجاب میں رھنے والے پٹھانوں ' بلوچوں اور اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی پارٹی پاکستان تحریکِ انصاف کو پاکستان ' پنجاب اور خیبر پختونخواہ کا اقتدار مل گیا۔ سندھ کا اقتدار سندھ کے بلوچوں اور عربی نزاد سندھیوں کی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کو مل گیا۔ جبکہ مشرف ملک سے باھر بیٹھا موجیں کر رھا ھے۔

نواز شریف کو پنجاب سے پنجابیوں کی جبکہ خیبر پختونخواہ سے ھندکو اور پنجابی کی ' بلوچستان سے براھوئی اور پنجابی کی ' سندھ سے سماٹ اور پنجابی کی ' کراچی سے گجراتی ' راجستھانی ' ھندکو ' براھوئی ' سماٹ ' اور پنجابی کی بھرپور حمایت سے حکومت ملنے کے باوجود نواز شریف نے کھسروں کی فوج بھرتی کرکے 2013 سے 2018 تک حکومت میں رہ کر مشرف اور زرداری کا کیا کرلیا؟ کیا مھاجر مشرف ' بلوچ زرداری ' پٹھان عمران نے نواز شریف کو تگنی کا ناچ نہیں نچا دیا؟

نواز شریف کے اقتدار میں آنے کے بعد اسٹیبلشنٹ کا سربراہ پہلے جنرل راحیل شریف تھا۔ اب جنرل قمر جاوید باجوہ ھے۔ اسٹیبلشنٹ اگر نواز شریف کی مخالف ھوتی تو پہلے جنرل راحیل شریف نے یا اب جنرل قمر جاوید باجوہ نے نواز شریف کی کھٹیا کھڑی کردی ھوتی۔ اسٹیبلشنٹ پر الزام تراشیاں کرکے پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی ' گجراتی ' راجستھانی عوام کو گمراہ کرنے ' ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کے بجائے نواز شریف کی کھسرا فوج کو چاھیے کہ؛ اپنی کمزوریوں ' خامیوں ' کوتاھیوں ' نالائقیوں کا اعتراف اور اقرار کرے۔ سیاست کھسروں کا نہیں مردوں کا کھیل ھے۔

Thursday 28 June 2018

پنجابیوں کو قوم بننے سے منع کیوں کیا جاتا ھے؟


افراد مل کر گھر ' گھر مل کر گھرانہ ' گھرانے مل کر خاندان ' خاندان مل کر برادری ' برادریاں مل کر قوم اور قومیں مل کر ریاست بناتے ھیں۔

گھر کے معاملات اور مسائل اپنی یونین کونسل کی حد تک کے ھوتے ھیں۔

گھرانہ کے معاملات اور مسائل اپنی تحصیل کی حد تک کے ھوتے ھیں۔

خاندان کے معاملات اور مسائل اپنے ضلع کی حد تک کے ھوتے ھیں۔

برادری کے معاملات اور مسائل اپنے صوبہ کی حد تک کے ھوتے ھیں۔

قوم کے معاملات اور مسائل اپنے ملک کی حد تک کے ھوتے ھیں۔

پاکستان کے قیام کے بعد سے لیکر پنجابیوں کو درس دیا جاتا ھے کہ؛ پنجابی اپنے گھر ' گھرانے ' خاندان ' برادری کے معاملات اور مسائل پر دھیان دیں لیکن؛ پنجابیوں کو پنجابی قوم بننے سے منع کیا جاتا ھے۔ بلکہ پنجابیوں کو ریاست پاکستان کے شہریوں کو قوم قرار دینے پر مجبور کیا جاتا ھے۔ پنجابیوں کو سمجھایا جاتا ھے کہ؛ وہ پاکستان کے شہری نہیں بلکہ پاکستانی قوم کے فرد ھیں۔

حلانکہ ریاست کے شہریوں کا تعلق تو مختلف قوموں سے ھوتا ھے۔ ان قوموں کی اپنی برادریاں ' اپنے خاندان ' اپنے گھرانے اور اپنے گھر ھوتے ھیں۔ اس لیے پنجابی قوم کی بھی اپنی برادریاں ' اپنے خاندان ' اپنے گھرانے اور اپنے گھر ھیں۔

کیا اپنی قوم سے لاتعلق ھونے کا مطلب اپنی قوم کو کمزور کرنا نہیں ھے؟

کیا اپنی قوم کو کمزور کرنے کا مطلب اپنی برادری کو کمزور کرنا نہیں ھے؟

کیا اپنی برادری کو کمزور کرنے کا مطلب اپنے خاندان کو کمزور کرنا نہیں ھے؟

کیا اپنے خاندان کو کمزور کرنے کا مطلب اپنے گھرانے کو کمزور کرنا نہیں ھے؟

کیا اپنے گھرانے کو کمزور کرنے کا مطلب اپنے گھر کو کمزور کرنا نہیں ھے؟

کیا اپنے گھر کو کمزور کرنے کا مطلب اپنے آپ کو کمزور کرنا نہیں ھے؟

افراد کے آپس میں تعاون کرنے سے گھر مظبوط ھوتے ھیں۔

گھروں کے آپس میں تعاون کرنے سے گھرانے مظبوط ھوتے ھیں۔

گھرانوں کے آپس میں تعاون کرنے سے خاندان مظبوط ھوتے ھیں۔

خاندانوں کے آپس میں تعاون کرنے سے برادری مظبوط ھوتی ھے۔

برادریوں کے آپس میں تعاون کرنے سے قوم مظبوط ھوتی ھے۔

قوموں کے آپس میں تعاون کرنے سے ریاست مظبوط ھوتی ھے۔

یہ ایک سلسلہ ھے جو چلتا رھتا ھے۔ اس لیے؛

کیا پنجابی اپنی قوم ' اپنی برادری ' اپنے خاندان ' اپنے گھرانے اور اپنے گھر کو مظبوط نہ کریں؟

کیا پنجابیوں کے قوم نہ بننے کا مطلب اپنی قوم کی دوسری برادریوں سے لاتعلق ھونا نہیں ھے؟

کیا پنجابی ' پنجابی قوم بننے سے انکار کرکے؛

پہلے اپنی قوم کے وجود کا انکاری ھونے کی وجہ سے دوسری قوموں کو ملک کی سطح پر پنجابی قوم پر اپنی سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی بالادستی قائم کرنے دیں؟

پھر اپنی قوم کے کمزور ھو جانے کی وجہ سے دوسری قوموں کی برادریوں کو صوبے کی سطح پر پنجابی قوم کی برادریوں پر اپنی سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی بالادستی قائم کرنے دیں؟

پھر اپنی برادری کے کمزور ھو جانے کی وجہ سے دوسری قوموں کی برادریوں کے خاندانوں کو ضلع کی سطح پر پنجابی قوم کی برادریوں کے خاندانوں پر اپنی سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی بالادستی قائم کرنے دیں؟

پھر اپنے خاندان کے کمزور ھو جانے کی وجہ سے دوسری قوموں کی برادریوں کے خاندانوں کے گھرانوں کو تحصیل کی سطح پر اپنی قوم کی برادریوں کے خاندانوں کے گھرانوں پر اپنی سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی بالادستی قائم کرنے دیں؟

پھر اپنے گھرانے کے کمزور ھو جانے کی وجہ سے دوسری قوموں کی برادریوں کے خاندانوں کے گھرانوں کے گھروں کو یونین کونسل کی سطح پر اپنی قوم کی برادریوں کے خاندانوں کے گھرانوں کے گھروں پر اپنی سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی بالادستی قائم کرنے دیں؟

جبکہ پنجابی خود کو اپنے ملک کے معاملات اور مسائل کو حل کرنے کے لیے وقف کیے رکھیں؟

اک جنے توں لے کے قوم تک دے مرحلے کیہڑے ھوندے نے؟

میرا ناں شھباز اے۔
میرے والد دے گھر دے جی میرا گھرانہ اے۔
میرے دادکے آں تے ناکے آں دے گھرانے میرا خانداناں اے۔
میرے پردادکے آں تے پرنانکے آں دے خاندان میری برادری اے۔
میری برادری تے دوجیاں پنجابی برادریاں میری قوم اے۔

اک جنے توں لے کے قوم تک دے مرحلے اے نے کہ؛
اک ای گھر دے جی کٹھے ھو کے گھر بناندے نے۔
اک ای خاندان دے گھر کٹھے ھو کے خاندان بناندے نے۔
اک ای برادری دے خاندان کٹھے ھو کے برادری بناندے نے۔
اک ای قوم دی آں برادریاں کٹھے ھو کے قوم بناندیاں نے۔

مختلف نسلاں ' ذاتاں ' قبیلے آں ' برادریاں دے لوکی جیہڑے زمین دے ایہو جئے خطے وچ رھندے نے ' جتھے اناں دی اکو جئی زبان ' اکو جئی تہذیب تے اکو جئی ثقافت ھووے۔ اناں نوں اک قوم آکھیا جاندا اے۔

پنجاب میں سیاسی کشمکش کا بنیادی محرک کیا ھے؟


پنجاب میں افغانی ‘ ایرانی ‘ عراقی ' کردستانی ' ھندوستانی نزاد لوگ بھی رھتے ھیں۔ جنہیں مھاجر ' بلوچ ' پٹھان ھی نہیں سماٹ ' ھندکو اور بروھی بھی بلکہ خود پنجابی بھی پنجاب میں رھنے کی وجہ سے پنجابی قرار دیتے ھیں اور پنجابی کہتے ھیں۔

یہ بات درست بھی ھے کہ؛ ان کی اکثریت طویل عرصے سے پنجاب میں رھنے ' پنجابی زبان بولنے ' پنجابی ثقافت اختیار کرنے اور پنجابی تہذیب میں رچ بس جانے کی وجہ سے اب پنجابی ھی ھے۔

لیکن مذکورہ نسلوں کے پنجاب میں رھنے والے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد ابھی تک خود کو ذھنی طور پر پنجابی تسلیم کرنے پر تیار نہیں بلکہ پنجابی قوم اور پنجابی قوم پرستی کے الفاظ سنتے ھی سیخ پا ھوجاتی ھے۔

جبکہ سندھی قوم اور قوم پرستی ' مھاجر قوم اور قوم پرستی ' بلوچ قوم اور قوم پرستی ' پٹھان قوم اور قوم پرستی کے الفاظ سنتے ھی عقیدت و احترام اور محبت و الفت کا اظہار کرنا شروع کر دیتی ھے۔ لیکن پنجابیوں کو پاکستانی بننے اور اردو بولنے کی ترغیب دیتی رھتی ھے۔

ان کا پاکستان کے قیام سے پہلے بھی اور پاکستان کے قیام کے بعد سے لیکر بھی پنجاب کی سیاست ' صحافت ' اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی پر مکمل تسلط رھا ھے۔ یہ الگ بات ھے کہ؛ انکے آمرانہ طرزِ عمل کی وجہ سے بدنامی کا سہرا پنجاب پر سجتا رھا اور الزام تراشی پنجابی قوم پر ھوتی رھی۔

اب پھر مذکورہ نسلوں کے لوگوں کو پنجاب سے پاکستان کی قومی سیاست ' صحافت ' اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی پر مسلط رکھنے کے جتن کیے جا رھے ھیں۔ جبکہ پنجاب میں پنجابی قوم پرستی کے بڑھتے ھوئے رحجان کی وجہ سے پنجابی قوم اب اس سلسلے کو قبول کرنے پر تیار نہیں۔ اس لیے پنجاب میں سیاسی کشمکش طویل ھونے کے بعد اب محاذ آرائی میں تبدیل ھوتی جا رھی ھے۔

Wednesday 27 June 2018

پنجاب میں عمران خان کو سپورٹ کرنے والے کون ھیں؟

پنجاب کی آبادی 11 کروڑ ھے۔ اس میں سے 22 لاکھ پشتو بولنے والے پٹھان ھیں اور 54 لاکھ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر ھیں۔ جن میں سے 90٪ فیصل آباد سے لیکر لاھور اور لاھور سے لیکر راولپنڈی کے بڑے بڑے شھروں میں رھتے ھیں۔ جبکہ اسلام آباد میں بھی 20 لاکھ کی آبادی میں سے 4 لاکھ پشتو بولنے والے پٹھان اور ڈھائی لاکھ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر ھیں۔ یہ ملا کر کل ساڑھے 82 لاکھ بن جاتے ھیں۔

پنجاب کی سماجی اور سیاسی زندگی صدیوں سے برادریوں کی بنیاد پر متحرک رھتی آرھی ھے۔ پنجاب کی 10 بڑی برادریوں میں سے ارائیں ‘ اعوان ‘ جٹ ‘ راجپوت ’ کشمیری ‘ گجر اور شیخ برادریاں پنجاب اور پنجابی قوم کی بڑی برادریاں ھیں جو کہ پنجاب کی آبادی کا 75 % ھیں۔ جبکہ پنجابی بولنے والی افغان یا پٹھان ‘ بلوچ اور ھندوستانی مھاجر برادریاں بھی پنجاب میں رھتی ھیں جو کہ مختلف ادوار میں پنجاب پر حملہ آور ھوکر پنجاب پر قابض ھونے والوں یا پنجاب میں نقل مکانی کرنے والوں کی اولادیں ھیں جو کہ پنجاب کی آبادی کا 15 % ھیں۔ انکے علاوہ پنجاب کی آبادی کا 10 % دوسری چھوٹی چھوٹی برادریاں ھیں جن میں ازبک ' ایرانی اور عراقی نزاد برادیاں بھی شامل ھیں جوکہ اب پنجابی قوم کا حصہ بن چکی ھیں۔

پنجاب میں پشتو بولنے والے پٹھانوں کا تو پھر بھی علم ھو جاتا ھے کہ؛ یہ پٹھان ھیں لیکن اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا تو علم ھی نہیں ھوتا کہ؛ یہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر ھیں یا پنجابی ھیں۔ ان پشتو بولنے والے پٹھانوں اور اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں نے کچھ سیاسی شعور نہ رکھنے والے یا ذاتی مفاد رکھنے والے پنجابی بھی اپنے ساتھ ملائے ھوئے ھیں۔ جبکہ افغانی ‘ ایرانی ‘ عراقی ‘ کردستانی نزاد پنجابیوں کی اکثریت تو خود ھی دامے ' درمے ' سخنے انکے ساتھ ھے۔ اس طرح یہ 1 کروڑ 50 لاکھ لوگ بن جاتے ھیں جو پچھلے 5 سال سے فیصل آباد سے لیکر اسلام آباد تک عمران خان اور پی ٹی آئی کے لیے ورک کرتے رھے ھیں اور جلوس نکالتے رھے ھیں۔

پی ٹی آئی کے پنجاب میں ھونے والے جلسے بھی یہ 1 کروڑ 50 لاکھ لوگ ھی کرتے رھے ھیں۔ اس لیے ھی پی ٹی آئی کے جلسوں میں عمران خان چاھے پنجاب کو تقسیم کرنے کی بات کرتا رھا ھو یا پنجابی قوم کے اور پنجاب کے مفاد کے خلاف تقریریں کرتا رھا ھو ' یہ پٹھان ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر ' سیاسی شعور نہ رکھنے والے یا ذاتی مفاد رکھنے والے پنجابی اور افغانی ‘ ایرانی ‘ عراقی ‘ کردستانی نزاد پنجابی تالیاں بجاتے رھے ھیں اور عمران خان کی ان تقریروں کی حمایت کرتے رھے ھیں۔


اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں اور افغانی ‘ ایرانی ‘ عراقی نزاد پنجابیوں کا تو پنجاب کے ھر بڑے شھر میں سیاست ' صحافت ' سرکاری دفتروں ' پرائیویٹ دفتروں ' اسکولوں ' کالجوں ' یونیورسٹیوں ' مدرسوں اور مذھبی تنظیموں میں ٹھیک ٹھاک کنٹرول ھے اور عوام کی ذھن سازی میں یہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر اور افغانی ‘ ایرانی’ عراقی نزاد پنجابی ھی بڑا کردار ادا کرتے ھیں اور انہوں نے ھی پچھلے 5 سالوں سے عمران خان اور پی ٹی آئی کی حمایت کے لیے پنجابیوں کا ذھن بنانے جبکہ نواز شریف اور ن لیگ کے خلاف پنجابیوں کا ذھن خراب کرنے کے لیے ' پروپیگنڈہ کرنے میں اھم کردار ادا کیا ھے۔

Tuesday 26 June 2018

سندھ کی سیاست میں برادریوں اور خاندانوں کی حیثیت

افراد مل کر گھرانہ ' گھرانے مل کر خاندان ' خاندان مل کر برادری بناتے ھیں۔ سندھ کے رھنے والوں میں ویسے بھی گھرانوں ' خاندانوں اور برادریوں کے آپس کے سماجی روابط بہت مظبوط ھیں۔ گھرانے ' خاندان اور برادریاں ایک دوسرے کا عزت و احترام کرتے ھیں۔ ایک دوسرے کی خوشی و غمی میں شریک رھتے ھیں اور ایک دوسرے کے دکھ و سکھ بانٹتے رھتے ھیں۔ لیکن سندھ میں سیاسی پارٹیاں چونکہ سیاسی نظریات کے بجائے شخصی بنیادوں پر منظم اور ذاتی تعلقات کی بنیاد پر سرگرمِ عمل ھیں۔ اس لیے سندھ کی سیاست میں بھی بنیادی کردار صوبائی سطح پر برادریوں اور علاقائی یا تحصیل کی سطح پر خاندانوں کا ھی رھتا ھے۔

سندھ کی 10 بڑی برادریاں؛ سماٹ ‘ بلوچ ‘ بروھی ‘ عربی نزاد ' یوپی سی پی ’ راجستھانی ‘ گجراتی ' بہاری ' پٹھان اور پنجابی ھیں۔

ان میں سے 4 برادریاں؛ بلوچ ‘ عربی نزاد ‘ بروھی  ‘ سماٹ برادریوں کی اکثریت پی پی پی کو سپورٹ کرتی ھے۔

ان میں سے 2 برادریوں؛ راجستھانی اور بہاری برادریوں کی اکثریت پی ایس پی کو سپورٹ کرتی ھے۔

یوپی سی پی برادری کی اکثریت ایم کیو ایم کو سپورٹ کرتی ھے۔

پنجابی برادری 2 حصوں میں تقسیم ھے۔
ایک حصہ ن لیگ اور دوسرا پی پی پی کو سپورٹ کرتا ھے۔

گجراتی برادری 2  حصوں میں تقسیم ھے۔
ایک حصہ ایم کیو ایم اور دوسرا پی ایس پی کو سپورٹ کرتا ھے۔

پٹھان برادری 3 حصوں میں تقسیم ھے۔
ایک حصہ اے این پی ' دوسرا پی ٹی آئی اور تیسرا جے یو آئی کو سپورٹ کرتا ھے۔

سندھ میں 6 برادریوں؛ بلوچ برادری کے پاس آصف زرداری ' یوپی سی پی برادری کے پاس الطاف حسین ' بہاری برادری کے پاس مصطفیٰ کمال ' راجستھانی برادری کے پاس انیس قائم خانی ' گجراتی برادری کے پاس فاروق ستار اور عربی نزاد برادری کے پاس پیر پگارا برادری سطح کے سیاسی لیڈر ھیں۔ اس لیے ان برادریوں کا اثر و رسوخ سندھ میں صوبائی سطح تک ھے۔

آصف زرداری کو بلوچ برادری کا سیاسی لیڈر ھونے کے ساتھ ساتھ چونکہ بروھی برادریوں کے اکثر ' عربی نزاد برادری کے زیادہ تر ' سماٹ برادری کے بیشتر خاندان کی بنیاد پر اپنے اپنے علاقے کی سیاست میں اثر و رسوخ رکھنے والے سیاستدانوں کی حمایت بھی حاصل ھے اور وہ آصف زرداری کو اپنے سیاسی قائد کے طور پر قبول کرتے ھیں۔ اس لیے سندھ میں صوبائی سطح پر آصف زرداری کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ھے۔

الطاف حسین کو یوپی سی پی برادری کا سیاسی لیڈر ھونے کے ساتھ ساتھ چونکہ گجراتی برادری کے زیادہ تر ' بہاری اور راجستھانی برادری کے خاندان کی بنیاد پر اپنے اپنے علاقے کی سیاست میں اثر و رسوخ رکھنے والے سیاستدانوں کی بھی کسی حد تک حمایت حاصل ھے اور وہ الطاف حسین کو اپنے سیاسی قائد کے طور پر قبول کرتے ھیں۔۔ اس لیے سندھ میں صوبائی سطح پر الطاف حسین کا کسی حد تک اثر و رسوخ ھے۔

مصطفیٰ کمال بہاری برادری کا سیاسی لیڈر ھے لیکن ایک تو بہاری برادری ایم کیو ایم کو بھی سپورٹ کرتی ھے اور دوسرا سندھ کی دیگر 9 بڑی برادریوں سماٹ ‘ بلوچ ‘ بروھی ‘ عربی نزاد ' یوپی سی پی ’ راجستھانی ‘ گجراتی ' پٹھان اور پنجابی کے خاندان کی بنیاد پر اپنے اپنے علاقے کی سیاست میں اثر و رسوخ رکھنے والے سیاستدان مصطفیٰ کمال کو اپنے سیاسی قائد کے طور پر قبول نہیں کرتے۔ اس لیے سندھ میں صوبائی سطح پر مصطفیٰ کمال کا اثر و رسوخ بہت کم ھے۔

انیس قائم خانی راجستھانی برادری کا سیاسی لیڈر ھے لیکن ایک تو راجستھانی برادری ایم کیو ایم کو بھی سپورٹ کرتی ھے اور دوسرا سندھ کی دیگر 9 بڑی برادریوں سماٹ ‘ بلوچ ‘ بروھی ‘ عربی نزاد ' یوپی سی پی ’ بہاری ‘ گجراتی ' پٹھان اور پنجابی کے خاندان کی بنیاد پر اپنے اپنے علاقے کی سیاست میں اثر و رسوخ رکھنے والے سیاستدان انیس قائم کو اپنے سیاسی قائد کے طور پر قبول نہیں کرتے۔ اس لیے سندھ میں صوبائی سطح پر انیس قائم کا اثر و رسوخ بہت کم ھے۔

فاروق ستار گجراتی برادری کا سیاسی لیڈر ھے لیکن ایک تو گجراتی برادری ایم کیو ایم کو بھی سپورٹ کرتی ھے اور دوسرا سندھ کی دیگر 9 بڑی برادریوں سماٹ ‘ بلوچ ‘ بروھی ‘ عربی نزاد ' یوپی سی پی ’ بہاری ‘راجستھانی ' پٹھان اور پنجابی کے خاندان کی بنیاد پر اپنے اپنے علاقے کی سیاست میں اثر و رسوخ رکھنے والے سیاستدان فاروق ستار کو اپنے سیاسی قائد کے طور پر قبول نہیں کرتے۔ اس لیے سندھ میں صوبائی سطح پر فاروق ستار کا اثر و رسوخ بہت کم ھے۔

پیر پگارا عربی نزاد برادری کا سیاسی لیڈر ھے لیکن ایک تو عربی نزاد برادری پی پی پی کو بھی سپورٹ کرتی ھے اور دوسرا سندھ کی دیگر 9 بڑی برادریوں سماٹ ‘ بلوچ ‘ بروھی ‘ گجراتی ' یوپی سی پی ’ بہاری ‘راجستھانی ' پٹھان اور پنجابی کے خاندان کی بنیاد پر اپنے اپنے علاقے کی سیاست میں اثر و رسوخ رکھنے والے سیاستدان پیر پگارا کو اپنے سیاسی قائد کے طور پر قبول نہیں کرتے۔ اس لیے سندھ میں صوبائی سطح پر پیر پگارا کا اثر و رسوخ بہت کم ھے۔

جبکہ 4 برادریوں سماٹ ‘ بروھی ‘ پٹھان اور پنجابی کے پاس سندھ میں برادری کی سطح کے سیاسی لیڈر نہیں ھیں۔ اس لیے ان برادریوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدان خاندان کی بنیاد پر اپنے اپنے علاقے یا تحصیل کی حد تک ھی اثر و رسوخ رکھتے ھیں اور سندھ میں صوبائی سطح پر تو کیا کسی ضلعے کی حد تک بھی ان برادریوں کا اثر و رسوخ نہیں ھے۔

خاندان کی بنیاد پر اپنے اپنے علاقے یا تحصیل تک کی حد تک سیاست کرنے والے سیاستدانوں کو اپنے اپنے محلے یا یونین کونسل کی حد تک سیاست میں اثر و رسوخ رکھنے والے گھرانوں کی سیاسی حمایت حاصل ھوتی ھے۔ اس لیے سندھ میں انفرادی طور پر محلے یا یونین کونسل کی سیاست کی جاسکتی ھے لیکن علاقے یا تحصیل کی سیاست کرنے کے لیے خاندانوں اور صوبائی سیاست کرنے کے لیے لیے برادریوں کی حمایت ضروری ھے۔

پنجاب کی سیاست میں برادریوں اور خاندانوں کی حیثیت

افراد مل کر گھرانہ ' گھرانے مل کر خاندان ' خاندان مل کر برادری بناتے ھیں۔ پنجابی تہذیب اور ثقافت میں ویسے بھی گھرانوں ' خاندانوں اور برادریوں میں آپس کے سماجی روابط بہت مظبوط ھوتے ھیں۔ گھرانے ' خاندان اور برادریاں ایک دوسرے کا عزت و احترام کرتے ھیں۔ ایک دوسرے کی خوشی و غمی میں شریک رھتے ھیں اور ایک دوسرے کے دکھ و سکھ بانٹتے رھتے ھیں۔ لیکن پنجاب میں سیاسی پارٹیاں چونکہ سیاسی نظریات کے بجائے شخصی بنیادوں پر منظم اور ذاتی تعلقات کی بنیاد پر سرگرمِ عمل ھیں۔ اس لیے پنجاب کی سیاست میں بھی بنیادی کردار صوبائی سطح پر برادریوں اور علاقائی یا تحصیل کی سطح پر خاندانوں کا ھی رھتا ھے۔

پنجاب کی 10 بڑی برادریاں؛ ارائیں ‘ اعوان ‘ جٹ ‘ راجپوت ’ کشمیری ‘ گجر ' شیخ ' پٹھان ‘ بلوچ اور عربی نزاد ھیں۔

ان میں سے 4 برادریوں؛ کشمیری ’ اعوان ‘ شیخ ' راجپوت برادریوں کی اکثریت ن لیگ کو سپورٹ کرتی ھے۔

پٹھان برادری کی اکثریت پی ٹی آئی کو سپورٹ کرتی ھے۔

بلوچ برادری کی اکثریت پی پی پی کو سپورٹ کرتی ھے۔

عربی نزاد برادری 2 حصوں میں تقسیم ھے۔
ایک حصہ پی پی پی اور دوسرا پی ٹی آئی کو سپورٹ کرتا ھے۔

ارائیں برادری 2 حصوں میں تقسیم ھے۔
ایک حصہ ن لیگ اور دوسرا پی ٹی آئی کو سپورٹ کرتا ھے۔

گجر برادری 3 حصوں میں تقسیم ھے۔
ایک حصہ پی پی پی دوسرا ن لیگ اور تیسرا پی ٹی آئی کو سپورٹ کرتا ھے۔

جٹ برادری 4 حصوں میں تقسیم ھے۔
ایک حصہ ق لیگ دوسرا پی پی پی تیسرا ن لیگ اور چوتھا پی ٹی آئی کو سپورٹ کرتا ھے۔

پنجاب میں 3 برادریوں؛ کشمیری برادری کے پاس نواز شریف ' پٹھان برادی کے پاس عمران خان اور جٹ برادری کے پاس چوھدری شجاعت برادی سطح کے سیاسی لیڈر ھیں۔ اس لیے ان برادریوں کا اثر و رسوخ پنجاب میں صوبائی سطح تک ھے۔

نواز شریف کو کشمیری برادری کا سیاسی لیڈر ھونے کے ساتھ ساتھ چونکہ اعوان ‘ شیخ ‘ راجپوت برادریوں کے اکثر ' ارائیں برادری کے زیادہ تر ' گجر اور جاٹ برادری کے بیشتر خاندان کی بنیاد پر اپنے اپنے علاقے کی سیاست میں اثر و رسوخ رکھنے والے سیاستدانوں کی حمایت بھی حاصل ھے اور وہ نواز شریف کو اپنے سیاسی قائد کے طور پر قبول کرتے ھیں۔ اس لیے پنجاب میں صوبائی سطح پر نواز شریف کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ھے۔

عمران خان کو پٹھان برادری کا سیاسی لیڈر ھونے کے ساتھ ساتھ چونکہ عربی نزاد برادری کے زیادہ تر ' ارائیں ' گجر اور جاٹ برادری کے خاندان کی بنیاد پر اپنے اپنے علاقے کی سیاست میں اثر و رسوخ رکھنے والے سیاستدانوں کی بھی کسی حد تک حمایت حاصل ھے اور وہ عمران خان کو اپنے سیاسی قائد کے طور پر قبول کرتے ھیں۔۔ اس لیے پنجاب میں صوبائی سطح پر عمران خان کا کسی حد تک اثر و رسوخ ھے۔

چوھدری شجاعت جاٹ برادری کا سیاسی لیڈر ھے لیکن ایک تو جاٹ برادری ن لیگ ' پی پی پی اور پی ٹی آئی کو بھی سپورٹ کرتی ھے اور دوسرا پنجاب کی دیگر 9 بڑی برادریوں ارائیں ‘ اعوان ‘ راجپوت ’ کشمیری ‘ گجر ' شیخ ' پٹھان ‘ بلوچ اور عربی نزاد کے خاندان کی بنیاد پر اپنے اپنے علاقے کی سیاست میں اثر و رسوخ رکھنے والے سیاستدان چوھدری شجاعت کو اپنے سیاسی قائد کے طور پر قبول نہیں کرتے۔ اس لیے پنجاب میں صوبائی سطح پر چوھدری شجاعت کا اثر و رسوخ بہت کم ھے۔

جبکہ 7 برادریوں ارائیں ‘ اعوان ‘ راجپوت ‘ گجر ' شیخ ‘ بلوچ اور عربی نزاد کے پاس پنجاب میں برادری کی سطح کے سیاسی لیڈر نہیں ھیں۔ اس لیے ان برادریوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدان خاندان کی بنیاد پر اپنے اپنے علاقے یا تحصیل کی حد تک ھی اثر و رسوخ رکھتے ھیں اور پنجاب میں صوبائی سطح پر تو کیا کسی ضلعے کی حد تک بھی ان برادریوں کا اثر و رسوخ نہیں ھے۔

خاندان کی بنیاد پر اپنے اپنے علاقے یا تحصیل تک کی حد تک سیاست کرنے والے سیاستدانوں کو اپنے اپنے محلے یا یونین کونسل کی حد تک سیاست میں اثر و رسوخ رکھنے والے گھرانوں کی سیاسی حمایت حاصل ھوتی ھے۔ اس لیے پنجاب میں انفرادی طور پر محلے یا یونین کونسل کی سیاست کی جاسکتی ھے لیکن علاقے یا تحصیل کی سیاست کرنے کے لیے خاندانوں اور صوبائی سیاست کرنے کے لیے لیے برادریوں کی حمایت ضروری ھے۔

Monday 25 June 2018

گھر' خاندان' برادری دے مسئلے سماجی تے قوماں دے سیاسی طور تے حل ھوندے نے۔

افراد مل کے گھرانہ بناندے نے تے گھرانے وچ بھرا وی لڑ پیندے نے۔
گھرانے مل کے خاندان بناندے نے تے خاندان وچ گھرانے وچ لڑ پیندے نے۔
خاندان مل کے برادری بناندے نے تے برادری وچ خاندان وی لڑ پیندے نے۔ برادریاں مل کے قوم بناندیاں نے تے قوم وچ برادیاں وی لڑ پینیاں نے۔

گھرانے دا مسئلہ ذاتی مسئلہ ھوندا اے۔
ایس لئی گھرانے وچ ھون والے مسئلہ نوں ذاتی سطح تے ای حل کیتا جاندا اے تے ذاتی سطح تے حل وی کرنا چائی دا اے تاکہ گھر دی گل گھر تک ای رووے۔

خاندان دا مسئلہ رشتے داری دا مسئلہ ھوندا اے۔
ایس لئی خاندان وچ ھون والے مسئلہ نوں رشتے داری دی سطح تے ای حل کیتا جاندا اے تے رشتے داری دی سطح تے حل وی کرنا چائی دا اے تاکہ خاندان دی گل خاندان تک ای رووے۔

برادری دا مسئلہ خانداناں دا مسئلہ ھوندا اے۔
ایس لئی برادری وچ ھون والے مسئلہ نوں خانداناں دی سطح تے ای حل کیتا جاندا اے تے خانداناں دی سطح تے حل وی کرنا چائی دا اے تاکہ برادری دی گل برادری تک ای رووے۔

قوم دا مسئلہ برادریاں دا مسئلہ ھوندا اے۔
ایس لئی قوم وچ ھون والے مسئلہ نوں برادریاں دی سطح تے ای حل کیتا جاندا اے تے برادریاں دی سطح تے حل وی کرنا چائی دا اے تاکہ قوم دی گل قوم تک ای رووے۔

گھر ' خاندان ' برادری تے قوم دے مسئلے سماجی مسئلے ھوندے نے پر ایک قوم دے دوجیاں قوماں نال مسئلے سماجی نئیں بلکہ سیاسی ھوندے نے۔

گھر ' خاندان ' برادریاں اپنی قوم دے علاقے وچ وی ریندے نے تے دوجیاں قوماں دے علاقے وچ وی ریندے نے۔

پنجاب وچ رین والیاں 10 وڈیاں برادریاں ارائیں ‘ اعوان ‘ جٹ ‘ راجپوت ’ کشمیری ‘ گجر ' شیخ ' پٹھان ‘ بلوچ تے عربی نزاد نے۔ اناں چوں پنجابی برادریاں کیہڑیاں کیہڑیاں نے؟

سندھ وچ رین والیاں 10 وڈیاں برادریاں سماٹ ‘ بلوچ ‘ بروھی ‘ عربی نزاد ' یوپی سی پی ’ راجستھانی ‘ گجراتی ' بہاری ' پٹھان تے پنجابی نے۔ اناں چوں سندھی برادریاں کیہڑیاں کیہڑیاں نے؟

ایس دے بارے وچ علم ھونا ایس لئی ضروری اے تاکہ پتہ چل سکے کہ کیہڑیاں کیہڑیاں برادریاں نوں اک ای قوم دیاں برادریاں ھون دے کرکے تے قوم دا مفاد سانجھا ھون دے کرکے آپس وچ مسئلے سماجی طور تے حل کرنے چائی دے نے تے کیہڑیاں کیہڑیاں برادریاں نوں وکھ وکھ قوم دیاں برادریاں ھون دے کرکے تے قوماں دے مفاد وکھ وکھ ھون دے کرکے آپس وچ مسئلے سیاسی طور تے حل کرنے چائی دے نے۔

Monday 18 June 2018

کیا پاکستان کے 60٪ پنجابیوں پر پٹھان ' بلوچ اور عربی نزاد راج کریں گے؟

پنجاب میں آباد ھونے والے بلوچ ‘ پٹھان ‘ گیلانی ‘ قریشی ‘ عباسی جاگیرداروں نے سازش کرکے پنجابی زبان کے ریاستی پنجابی ' ملتانی پنجابی ' ڈیرہ والی پنجابی لہجوں کو 1962 میں یکجا کرکے "سرائیکی" کا لفظ وجود میں لاکر ملتانی پنجابیوں ' ڈیرہ والی پنجابیوں اور ریاستی پنجابیوں کی شناخت ختم کرکے ان کو "سرائیکی" کے نام پر اپنا سماجی ' سیاسی اور معاشی غلام بنایا ھوا ھے۔ حالانکہ کسی بھی زبان کے کچھ لہجوں کو یکجا کرکے ایک نئی زبان کیسے قرار دیا جا سکتا ھے؟ دراصل جنوبی پنجاب کے دیہی علاقوں پر جنوبی پنجاب میں مقیم بلوچ ‘ پٹھان ‘ گیلانی ‘ قریشی ‘ عباسی جاگیردار اپنی سماجی ' سیاسی اور معاشی بالادستی قائم کر تے چلے آرھے تھے۔ جس کا پنجابی قوم نے بروقت تدارک نہ کیا۔ جس کا نتیجا یہ نکلا کہ بالادستی کو قائم کرنے کے بعد اب یہ بلوچ ‘ پٹھان ‘ گیلانی ‘ قریشی ‘ عباسی جاگیردار اپنی بالادستی کو مستقل شکل دینا چاھتے ھیں۔ اسکے لئے پنجاب کو "سرائیکی" یا "جنوبی پنجاب" کے نام پر تقسیم کرنے اور پنجابی قوم کو سیاسی ' سماجی' معاشی اور انتظامی مشکلات میں مبتلا کرنے میں مصروف ھیں۔

بلوچ ‘ پٹھان ‘ گیلانی ‘ قریشی ‘ عباسی جاگیردار پنجاب کے اندر "سرائیکی سازش"میں اسلیے مصروف ھیں تاکہ برٹش گورنمنٹ سے ملنے والی جاگیروں کو مستقل طور پر محفوظ کرنے ' پنجاب کے دریاؤں کے کچے کے علاقوں پر کیے گئے قبضوں کو مستقل کرنے اور ملتانی پنجابیوں ' ریاستی پنجابیوں ' ڈیرہ والی پنجابیوں پر اپنا سماجی ' سیاسی ' معاشی تسلط برقرار رکھنے کے لیے "سرائیکی" یا " جنوبی پنجاب" کے نام سے صوبہ بنوا کر اس کی حکومت یہ بلوچ ‘ پٹھان ‘ گیلانی ‘ قریشی ‘ عباسی جاگیردار خود سنبھال لیں تاکہ مقامی اور صوبائی معاملات میں ان بلوچ ‘ پٹھان ‘ گیلانی ‘ قریشی ‘ عباسی جاگیرداروں کے ظلم اور زیادتیوں کو صوبائی حکومت کے انہی بلوچ ‘ پٹھان ‘ گیلانی ‘ قریشی ‘ عباسی جاگیرداروں کے پاس ھونے کی وجہ سے انکو تحفظ بھی مل سکے اور یہ بلوچ ‘ پٹھان ‘ گیلانی ‘ قریشی ‘ عباسی جاگیردار پنجاب ' پنجابیوں اور وفاقی حکومت کو مزید بلیک میل بھی کرسکیں بلکہ دیہی سندھ سے بلوچوں اور سیدوں ' بلوچستان سے بلوچوں اور خیبرپختونخواہ سے پٹھانوں کو ساتھ ملا کر وفاقی حکومت بھی خود بنانے کے قابل ھوجائیں۔ دیہی سندھ میں بھی چونکہ صورتحال جنوبی پنجاب جیسی ھی ھے۔ جنوبی پنجاب میں تو ابھی بلوچ ‘ پٹھان ‘ گیلانی ‘ قریشی ‘ عباسی جاگیرداروں نے ملتانی پنجابیوں ' ریاستی پنجابیوں ' ڈیرہ والی پنجابیوں پر صرف اپنا سماجی ' سیاسی ' معاشی تسلط قائم کیا ھوا ھے لیکن دیہی سندھ میں تو بلوچوں اور سیدوں نے سماٹ سندھیوں پر اپنی مکمل سماجی ' سیاسی ' معاشی بالادستی قائم کی ھوئی ھے۔ اس لیے دیہی سندھ کے بلوچ اور سید بھی جنوبی پنجاب میں ھونی والی سرائیکی سازش میں بھرپور حصہ لیتے ھیں۔

2018 کے الیکشن میں بلوچ آصف زرداری کی سیاسی جماعت پی پی پی اور پٹھان عمران خان کی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کا سرِ فہرست ایجنڈہ بھی جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانا ھی ھے۔ جبکہ عربی نزاد جاگیردار یا تو بلوچ آصف زرداری کی سیاسی جماعت پی پی پی کو یا پٹھان عمران خان کی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کو سپورٹ کر رھے ھیں۔ دراصل پاکستان کی 272 نشستوں کی قومی اسمبلی میں پنجاب کی 141 نشستیں ھیں۔ ان میں سے جنوبی پنجاب کی 40 نشستیں ھیں اور باقی پنجاب کی 101 نشستیں ھیں۔ جبکہ دیہی سندھ کی 40 ' بلوچستان کی 16 اور خیبرپختونخواہ کی 51 نشستیں ھیں۔ اس طرح پنجاب کی 101 نشستوں کے مقابلے میں جنوبی پنجاب ' دیہی سندھ ' بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کی 147 نشستیں بن جاتی ھیں۔ خیبرپختونخواہ میں ھندوکو پر پٹھانوں کو ' بلوچستان میں بروھیوں پر بلوچوں کو جبکہ دیہی سندھ میں سماٹ سندھیوں پر بلوچوں اور سیدوں کو مکمل سیاسی ' سماجی اور معاشی بالادستی حاصل ھے۔ لیکن جنوبی پنجاب میں پنجاب کی حکومت پر پنجابیوں کی بالادستی ھونے کی وجہ سے بلوچ ‘ پٹھان ‘ گیلانی ‘ قریشی ‘ عباسی جاگیردار ملتانی پنجابیوں ' ریاستی پنجابیوں ' ڈیرہ والی پنجابیوں پر اپنا سیاسی ' سماجی 'معاشی تسلط اس طرح قائم نہیں کرپا رھے جیسے خیبرپختونخواہ میں پٹھانوں نے ھندکو پر ' بلوچستان میں بلوچوں نے بروھیوں پر اور دیہی سندھ میں بلوچوں اور سیدوں نے سماٹ سندھیوں پر قائم کیا ھوا ھے۔ اس لیے سرائیکی صوبہ نہ سہی جنوبی پنجاب صوبہ ھی بن جاتا ھے تو جنوبی پنجاب کی صوبائی حکومت پر تسلط ھونے کی وجہ سے بلوچ ‘ پٹھان ‘ گیلانی ‘ قریشی ‘ عباسی جاگیردار ملتانی پنجابیوں ' ریاستی پنجابیوں ' ڈیرہ والی پنجابیوں پر اپنا ویسا ھی سیاسی ' سماجی 'معاشی تسلط قائم کرنے میں کامیاب ھوجائیں گے جیسا پٹھانوں نے خیبرپختونخواہ میں ھندوکو پر ' بلوچوں نے بلوچستان میں بروھیوں پر ' بلوچوں اور سیدوں نے دیہی سندھ میں سماٹ سندھیوں پر پہلے سے ھی قائم کیا ھوا ھے۔

جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کے بعد جنوبی پنجاب کی 40 اور دیہی سندھ کی 40 نشستوں کی وجہ سے جنوبی پنجاب اور دیہی سندھ کے بلوچ اور عربی نزاد بلوچستان میں سے بلوچوں اور خیبر پختونخواہ میں سے پٹھانوں کو اپنے ساتھ ملا کر قومی اسمبلی میں 147 نشستوں کے ساتھ سب سے زیادہ نشستیں ھونے کی وجہ سے پاکستان کی وفاقی حکومت بھی آرام سے بنا لیا کریں گے۔ جبکہ وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کی قومی اسمبلی میں 101 نشستیں ھونے کی وجہ پنجابیوں کو 36 مزید نشستوں کا انتظام کرنا پڑا کرے گا جو کہ بہت مشکل ھوجائے گا۔ بلکہ پنجابیوں کی وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کی 101 نشستیں میں سے بھی نشستیں کم ھوجایا کریں گی۔ کیونکہ وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب میں سے پٹھانوں ' اردو بولنے والے ھندوستانی بھئیوں اور سیاسی شعور نہ رکھنے والے پنجابیوں کی بھی بلوچ ' عربی نزاد اور پٹھان ویسے ھی حمایت حاصل کرلیا کریں گے جیسے اس وقت پٹھان عمران خان نے حاصل کی ھوئی ھے۔ اس لیے پنجابی پھر پاکستان کی قومی اسمبلی میں اقلیت میں رھا کریں گے اور 137 نشستیں حاصل کرکے پاکستان کی وفاقی حکومت نہیں بنا پایا کریں گے۔ یہی وجہ ھے کہ؛ جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام میں جنوبی پنجاب کے بلوچ ‘ پٹھان ‘ گیلانی ‘ قریشی ‘ عباسی جاگیردار تو سرگرم ھیں ھی اور دیہی سندھ کے بلوچ اور سید بھی بھرپور طریقے سے ان کے شانہ بشانہ ھیں لیکن بلوچستان کے بلوچ اور خیبرپختونخواہ کے پٹھان بھی انکے ساتھ ھر طرح کی جدوجہد میں شامل ھیں۔ بلکہ وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب میں سے پٹھان ' اردو بولنے والے ھندوستانی بھئیے اور سیاسی شعور نہ رکھنے والے پنجابی بھی پٹھان عمران خان کے جنوبی پنجاب کے صوبہ بنانے کے اعلان پر بھرپور حمایت کر رھے ھیں اور تالیاں بجا رھے ھیں۔

جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام سے جنوبی پنجاب کے اصل باشندوں ملتانی پنجابیوں ' ریاستی پنجابیوں ' ڈیرہ والی پنجابیوں پر بلوچ ‘ پٹھان ‘ گیلانی ‘ قریشی ‘ عباسی جاگیرداروں کا ' بلوچستان کے اصل باشندوں بروھیوں پر بلوچوں کا ' خیبرپختونخواہ کے اصل باشندوں ھندکو پر پٹھانوں کا اور سندھ کے اصل باشندوں سماٹ پر بلوچوں اور سیدوں کا سیاسی ' سماجی ' معاشی تسلط مزید بڑہ جائے گا۔ پنجاب کی تقسیم کے علاوہ پنجابی قوم بھی زبان کے لہجوں کی بنیاد پر مزید تقسیم ھوجائے گی۔ پاکستان کی 60٪ آبادی ھونے کے باوجود پنجابیوں کے لیے وفاقی خکومت بنانا بھی ناممکن ھوجائے گا۔ جبکہ وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب میں بھی پنجابیوں پر پٹھانوں اور اردو بولنے والے ھندوستانی بھئیوں کا سیاسی ' سماجی ' معاشی تسلط قائم ھوجائے گا اور پنجابی بڑہ چڑہ کر انکی جی حضوری ' چمچہ گیری اور خوشامد کیا کریں گے۔ اس لیے جنوبی پنجاب میں بلوچ ‘ پٹھان ‘ گیلانی ‘ قریشی ‘ عباسی جاگیرداروں کا مقابلہ کرنے کے لیے ملتانی پنجابیوں ' ریاستی پنجابیوں ' ڈیرہ والی پنجابیوں کو ' بلوچستان میں بلوچوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بروھیوں کو ' خیبرپختونخواہ میں پٹھانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ھندکو کو اور سندھ میں بلوچوں اور سیدوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سماٹ سندھیوں کو ابھی سے سیاسی ' سماجی 'معاشی طور پر مظبوط کرنے کے لیے بروھی ' ھندکو اور سماٹ سندھی کے پنجابی قوم کے ساتھ سماجی اور سیاسی مراسم کو بہتر اور مظبوط کیا جائے۔

پنجابیوں نے ابھی سے سیاسی فھم و فراست سے کام نہ لیا اور پاکستان کے سیاسی ماحول میں ابھی سے مثبت کردار ادا نہ کیا تو جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کے بعد پاکستان کی 60٪ آبادی والے پنجابیوں کے پاس صرف دو ھی راستے بچیں گے؛ ایک تو پاکستان میں جمہوری نظام اور عوامی رائے کو تسلیم کرنے سے انکار کرکے فوج کی طاقت استعمال کرکے آمرانہ طریقے سے پاکستان کا نظام چلائیں اور دوسرا یہ کہ؛ چونکہ جنوبی پنجاب ' دیہی سندھ ' بلوچستان اور خیبرپختونخواہ پر پٹھانوں ' بلوچوں اور عربی نزادوں کا مکمل سیاسی ' سماجی اور انتظامی تسلط قائم ھوچکا ھوگا جبکہ فوج میں بھی پنجابیوں کے بعد پٹھانوں کی تعداد بہت زیادہ ھے جبکہ اردو بولنے والے ھندوستانی بھی فوج میں ابھی تک اپنا تسلط رکھتے ھیں۔ اس لیے پنجابیوں کے لیے فوج کی طاقت استعمال کرکے آمرانہ طریقے سے پاکستان کا نظام چلانا ممکن نہ رھے۔ اس لیے آمرانہ طریقے سے پاکستان کا نظام چلانے کے بجائے جمہوری نظام اور عوامی رائے کو برقرار رکھیں لیکن خود کو پٹھانوں ' بلوچوں اور عربی نزادوں سے الگ کرکے پنجاب کو ھی پاکستان سے الگ کرلیں۔ پنجاب کو الگ کرنے کی صورت میں پنجاب تنہا گذارا کرلے گا لیکن سندھ کو دریا کا پانی نہیں ملے گا۔ پتھان کو خیبرپختونخواہ سے سندھ اور سندھ سے خیبرپختونخواہ ٹرک لے کر جانے کے لیے بھی پہلے پنجاب سے ویزا لینا پڑا کرکے گا۔ خیبرپختونخواہ کا ھندکو اور ڈیرہ والی علاقہ بھی خیبرپختونخواہ میں نہیں رھے گا بلکہ پنجاب میں ھی شامل ھوجائے گا۔ جبکہ کراچی پھر سندھ کا حصہ نہیں رھے گا اور کراچی کی 1 کروڑ 50 لاکھ کی آبادی میں سے 50 لاکھ مھاجر ' 25 لاکھ پنجابی اور 25 لاکھ پٹھان کراچی کا فیصلہ کریں گے اور کراچی میں رھنے والے 15 لاکھ سندھیوں کا کراچی میں گزارا مشکل ھوجائے گا۔

پنجاب وچ عمران خان نوں سپورٹ کرن والے کون نے؟

پنجاب دی آبادی 11 کروڑ اے۔ ایس چوں 22 لکھ پٹھان نے تے 54 لکھ اردو بولنے والے ھندوستانی نے جنہاں چوں 90٪ فیصل آباد توں لے کے راولپنڈی دے وڈے وڈے شھراں وچ ریندے نے۔ جد کہ اسلام آباد وچ وی 20 لکھ دی آبادی چوں 4 لکھ پٹھان تے ڈھائی لکھ اردو بولنے والے ھندوستانی نے۔ اے ملاکے کل ساڈھے 82 لکھ بن جاندے نے۔

پنجاب دی سماجی تے سیاسی زندگی صدیاں توں برادریاں دی بنیاد تے متحرک رھندی آئی اے۔ پنجاب دی 10 برادریاں چوں ارائیں ‘ اعوان ‘ جٹ ‘ راجپوت ’ کشمیری ‘ گجر تے شیخ برادریاں پنجاب تے پنجابی قوم دی آں وڈیاں برادریاں نے جیہڑیاں کہ پنجاب دی آبادی دا 75 % نے۔ جد کہ پنجابی بولن والی افغان یا پٹھان ‘ بلوچ تے ھندوستانی مھاجر برادریاں وی پنجاب وچ ریندیاں نے جیہڑیاں مختلف ادوار وچ پنجاب تے حملہ آور ھوکے پنجاب تے قابض ھون والیاں یا پنجاب وچ نقل مکانی کرکے آن والیاں دی آں اولاداں نے تے اے پنجاب دی آبادی دا 15 % نے۔ اناں توں علاوہ پنجاب دی آبادی دا 10 % دوسری چھوٹی چھوٹی برادریاں نے جنہاں چوں افغانی ' ایرانی تے عراقی نزاد برادیاں وی شامل نے جیہڑیاں ھن پنجابی قوم دا حصہ بن چکیاں نے۔

پنجاب وچ پٹھاناں دا تے فے وی پتہ لگ جاندا اے کہ؛ اے پٹھان نے پر اردو بولنے والے ھندوستانیاں دا تے پتہ ای نئیں لگدا کہ؛ اے اردو بولنے والے ھندوستانی نے یا پنجابی نے۔ اناں پٹھاناں تے اردو بولنے والے ھندوستانیاں نے کجھ سیاسی شعور نہ رکھن والے یا ذاتی مفاد رکھن والے پنجابی وی اپنے نال رلائے ھوئے نے۔ جد کہ افغانی ‘ ایرانی’ عراقی نزاد پنجابیاں دی اکثریت تے آپ ای دامے ' درمے ' سخنے انہاں دے نال اے۔ ایس طراں اے 1 کروڑ 50 لکھ جنے بن جاندے نے۔ جیہڑے پچھلے 5 سال تو فیصل آباد توں لے کے اسلام آباد تائیں عمران خان تے پی ٹی آئی لئی ورک کردے رئے تے جلوس کڈھدے رئے نے۔

پی ٹی آئی دے پنجاب وچ ھون والے جلسے وی اے 1 کروڑ 50 لکھ جنے ای کردے رئے نے۔ ایس لئی ای پی ٹی آئی دے جلسیاں وچ عمران خان بھاویں پنجاب نوں ونڈن دی آں گلاں کردا رے آ ھووے یا پنجابی قوم دے تے پنجاب دے مفاد دے خلاف تقریراں کردا رے آ ھووے ' اے پٹھان ' اردو بولنے والے ھندوستانی ' سیاسی شعور نہ رکھن والے یا ذاتی مفاد رکھن والے پنجابی تے افغانی ‘ ایرانی’ عراقی نزاد پنجابی تالیاں وجاندے رئے تے تے عمران خان دی آں تقریراں دی حمایت کردے رئے نے۔

اردو بولنے والے ھندوستانیاں دا تے افغانی ‘ ایرانی’ عراقی نزاد پنجابیاں دا پنجاب دے ھر وڈے شھر وچ سیاست ' صحافت ' سرکاری دفتراں ' پرائیویٹ دفتراں ' اسکولاں ' کالجاں ' یونیورسٹاں ' مدرسے آں تے مذھبی تنظیماں وچ چنگا بھلا کنٹرول اے تے پنجابیاں دی ذھن سازی وچ اے اردو بولنے والے ھندوستانی تے ایرانی' افغانی' ازبک' عراقی نزاد پنجابی ای وڈا کردار ادا کردے نے تے اناں نے ای پچھلے 5 سالاں توں عمران خان تے پی ٹی آئی دی حمایت لئی پنجابیاں دا ذھن بنان لئی نالے نواز شریف تے ن لیگ دے خلاف پنجابیاں دا ذھن خراب کرن لئی پروپیگنڈہ کرکے اپنا کردار ادا کیتا اے۔

Friday 15 June 2018

یوپی ' سی پی کی اشرافیہ نے کراچی پر قبضہ کیا ھوا ھے


کراچی منی پاکستان ھے۔ پنجابی ‘ سندھی ‘ پٹھان ‘ ھندکو ‘ بلوچ ‘ براھوئی ‘ کشمیری ‘ گلگتی بلتستانی ‘ چترالی ‘ سواتی ‘ یوپی سی پی ‘ بہاری ‘ گجراتی ‘ راجستھانی برادریاں کراچی کی بڑی بڑی برادریاں ھیں۔ کراچی کا عام پنجابی ‘ سندھی ‘ پٹھان ‘ ھندکو ‘ بلوچ ‘ براھوئی ‘ کشمیری ‘ گلگتی بلتستانی ‘ چترالی ‘ سواتی ‘ یوپی سی پی ‘ بہاری ‘ گجراتی ‘ راجستھانی محبِ وطن اور محنت کش ھے۔ اپنے گھربار اور کاروبار میں مصروف رھتا ھے۔ اس لیے اب ابہام کا خاتمہ ضروری ھے کہ؛ ایم کیو ایم کراچی کی نمائندہ جماعت ھے یا کراچی کے مھاجروں کی نمائندہ جماعت ھے؟

کراچی والے اور کراچی کے مھاجر میں زمین آسمان کا فرق ھے۔ کراچی والے صرف مھاجر نہیں بلکہ کراچی کے پنجابی ‘ سندھی ‘ پٹھان ‘ ھندکو ‘ بلوچ ‘ براھوئی ‘ کشمیری ‘ گلگتی بلتستانی ‘ چترالی ‘ سواتی بھی ھیں۔ جبکہ کراچی کے مھاجر صرف کراچی کے ‘ یوپی سی پی ‘ بہاری ‘ گجراتی ‘ راجستھانی ھیں۔ یو پی ‘ سی پی کے اردو بولنے والے ہندوستانی مھاجروں کو بتانا چاھیئے کہ؛ ان کا پاکستان سے کیا واسطہ؟ یہ کس قانون کے تحت پنجابی ‘ سندھی ‘ پٹھان ‘ بلوچ کی زمین پر آکر آباد ھوئے؟

یوپی سی پی کی اشرافیہ کو مہاجروں کی احساسِ محرومی کا رونا بند کرکے اب کراچی کے پنجابی ‘ سندھی ‘ پٹھان ‘ ھندکو ‘ بلوچ ‘ براھوئی ‘ کشمیری ‘ گلگتی بلتستانی ‘ چترالی ‘ سواتی کی کراچی میں احساسِ محرومی ختم کرنا ھوگی۔ کراچی کے پنجابی ‘ سندھی ‘ پٹھان ‘ ھندکو ‘ بلوچ ‘ براھوئی ‘ کشمیری ‘ گلگتی بلتستانی ‘ چترالی ‘ سواتی کو کراچی میں عزت اور سکون کے ساتھ زندگی گذارنے کا حق دینا ھوگا۔

ایم کیو ایم کو وجود میں لاکراور مھاجر کی بنیاد پر لسانی جذبات کو فروغ دیکر جس طرح 1986 سے یوپی سی پی کی اشرافیہ نے کراچی پر اپنا قبضہ کیا ھوا ھے اور کراچی کے پنجابی ‘ سندھی ‘ پٹھان ‘ ھندکو ‘ بلوچ ‘ براھوئی ‘ کشمیری ‘ گلگتی بلتستانی ‘ چترالی ‘ سواتی کو یرغمال بنایا ھوا ھے ویسے ھی اگر کراچی کے پنجابی ‘ سندھی ‘ پٹھان ‘ ھندکو ‘ بلوچ ‘ براھوئی ‘ کشمیری ‘ گلگتی بلتستانی ‘ چترالی ‘ سواتی نے متحد ھوکر غیر مھاجر کی بنیاد پر لسانی جذبات کو فروغ دیکر سیاست کا کرنا شروع کردی تو پھر کراچی کا سیاسی اور سماجی ماحول کیا بنے گا؟

کراچی میں مھاجر کی اکثریت کراچی کے صرف 2 اضلاع کراچی سینٹرل اور کورنگی میں ھے جبکہ کراچی کے 4 اضلاع کراچی ساؤتھ ‘ کراچی ویسٹ ‘ کراچی ایسٹ اور ملیر میں اکثریت پنجابی ‘ سندھی ‘ پٹھان ‘ ھندکو ‘ بلوچ ‘ براھوئی ‘ کشمیری ‘ گلگتی بلتستانی ‘ چترالی ‘ سواتی کی ھے۔ یوپی سی پی کی اشرافیہ اگر کراچی پر قبضے اور کراچی کے پنجابی ‘ سندھی ‘ پٹھان ‘ ھندکو ‘ بلوچ ‘ براھوئی ‘ کشمیری ‘ گلگتی بلتستانی ‘ چترالی ‘ سواتی کو یرغمال بنائے رکھنے کے لیے مھاجر کی بنیاد پر لسانی جذبات کو فروغ دیکر سیاست اور دھشتگردی کر رھی ھے تو کیا کراچی کے پنجابی ‘ سندھی ‘ پٹھان ‘ ھندکو ‘ بلوچ ‘ براھوئی ‘ کشمیری ‘ گلگتی بلتستانی ‘ چترالی ‘ سواتی کو بھی حق حاصل ھے کہ وہ یوپی سی پی کی اشرافیہ کے یرغمال سے خود کو نکالنے اور کراچی میں اپنے سماجی ‘ سیاسی ‘ معاشی حقوق کے حصول اور تحفظ کے لیے خود کو غیر مھاجر کی بنیاد متحد کرکے اور لسانی جذبات کو فروغ دیکر سیاست کرنا شروع کردے؟ 

مسلماناں نوں نکی عید دی آں ڈھیر ودھائیاں

پہلی وڈی زبان عربی
دوجی وڈی زبان بنگالی
تیجی وڈی زبان پنجابی
چوتھی وڈی زبان جاوانی
پنجویں وڈی زبان ترکی
چھیویں وڈی زبان فارسی
ستویں وڈی زبان پشتو
اٹھویں وڈی زبان اردو
نویں وڈی زبان سندانی
دسویں وڈی زبان ازبک
تے دوجیاں زباناں بولن والے
مسلماناں نوں نکی عید دی آں ڈھیر ودھائیاں

دوستو !!! میرے مضمون لکھن دا مقصد کی اے؟


بندے نوں اپنے لئی وی کجھ کرنا پیندا اے۔ اپنے گھر والے آں تے محلہ داراں لئی وی۔ اپنے خاندان تے اپنے علاقے لئی وی۔ اپنی برادی تے اپنے صوبے لئی وی۔ اپنی قوم تے اپنے ملک لئی وی۔ اے جسمانی طور تے وی کرنا پیندا اے۔ مالی طور تے وی کرنا پیندا اے۔ علمی طور تے وی کرنا پیندا اے پر کرنا اونا ای پیندا اے جیس حساب نال اللہ نے توفیق دتی ھووے۔ نہ اللہ دی دتی ھوئی توفیق توں گھٹ کرنا چائی دا اے تے نہ ای اللہ دی دتی ھوئی توفیق توں ودھ کرن دے چکر وچ پینا چائی دا اے۔ نالے کرنا وی اللہ واسطے ای چائی دا اے۔ ایس لئی فرض سمجھ کے کرنا چائی دا اے۔ کیونکہ اے ای زندگی اے۔ انج کرن نال ای رب راضی ھوندا اے۔ ایس لئی میں اپنے لئی ' اپنے گھر والے آں تے اپنے محلہ داراں ' اپنے خاندان تے اپنے علاقے ' اپنی برادی تے اپنے صوبے ' اپنی قوم تے اپنے ملک لئی جو ھوسکے اللہ دے فضل نال کر رے آ واں۔ پہلے پہلے اپنے ' اپنے گھر تے اپنے محلہ داراں لئی کری دا سی تے جسمانی طور تے کری دا سی۔ فے عمر ودھن نال اپنے خاندان تے اپنے علاقے لئی وی کرنا شروع کردتا تے جسمانی دے نال نال مالی طور تے وی کرنا شروع کردتا۔ فے ھور عمر ' تعلیم تے تجربہ ودھن نال اپنی برادی تے اپنے صوبے لئی وی کرنا شروع کردتا تے جسمانی تے مالی دے نال نال علمی طور تے وی کرنا شروع کردتا۔ فے ھور عمر ' تعلیم تے تجربہ ودھن نال 2012 وچ سوچیا کہ اپنی قوم تے اپنے ملک لئی وی کجھ کرنا چائی دا اے۔

2012 دے آخر توں لے کے پنجابی قوم دے سیاسی شعور نوں ودھا کے پنجابی قوم نوں اک باعزت قوم بنان تے پاکستان وچ ھون والے قوماں دے سماجی فساد نوں مکا کے پاکستان نوں سماجی طور تے مستحکم ملک بنان لئی علمی کم شروع کیتا۔ کیونکہ پاکستان وچ جد سماجی معاملات ٹھیک ھون گے تے فے ای سیاسی معاملات ٹھیک ھون گے۔ جد سیاسی معاملات ٹھیک ھون گے تے فے ای انتظامی معاملات ٹھیک ھون گے۔ جد انتظامی معاملات ٹھیک ھون گے تے فے ای معاشی معاملات ٹھیک ھوت گے۔ جد معاشی معاملات ٹھیک ھون گے تے فے ای پاکستان ترقی کرے گا۔

عرض کرن دا مطلب اے کہ؛ میں پنجابی قوم پرستی لئی جیہڑا وی کم کیتا اے۔ اے اللہ واسطے تے فرض سمجھ کے کیتا اے تے کر رے آ واں۔ ایس دا نہ میں کسے کولوں دامے ' درمے ' سخنے معاوضہ لےآ اے تے نہ لینا اے۔ ایس کم دا اجر میرا رب آپ دیووے گا۔ میں کسے نوں وی اپنے مضمون زبردستی پڑھن نوں نئیں آکھدا۔ بلکہ ھن تے ٹیگ وی کسے نوں نئیں کردا سوائے انہاں دوستاں دے جنہاں آپ آکھیا ھویا اے یا جیہڑے میرے کم وچ میرا ھتھ ونڈان ڈئے نے تے پنجابی قوم پرستی دا کم میرے پروگرام مطابق تے میرے نال رل کے کرنا چاندے نے تے اے کم کرن لئی فیس بک تے ای
Punjabi Nationalist Forum بناکے پاکستان دے Zone بناکے Zonal Organizer بنائے ھوئے نے ۔ نہ میں کسے نوں آکھدا واں کہ او ھر حال وچ میری گل منن یا جو میں آکھدا واں او انج ای کرن۔ نہ میں کوئی سیاست کرنی اے کہ پنجابیاں کولوں ووٹ لینے پے جان تے نہ میں کوئی سیاسی پارٹی بنانی اے۔ ایس لئی کسے کولوں چندہ لین یا مالی مدد دی تے لوڑ ای نئیں رہ جاندی۔ بلکہ کسے پنجابی کولوں اپنی تعریف کروان دی یا اپنے آپ نوں عوام وچ مشہور کروان دی وی لوڑ نئیں رہ جاندی۔ ایس توں علاوہ گل اے وی اے کہ؛ اک بندے وچ اینی صلاحیت نئیں ھوندی کہ او 10 توں بوھتے دکھ سکھ والے آں ' 100 توں بوھتے میل ملاقات والے آں ' 1000 توں بوھتے دعا سلام والے آں تے 10000 توں بوھتے جان پہچان والے آں نال واسطہ رکھ سکے۔ جد کہ میرے وڈیاں چھوٹے ھوندے ای اک گل دماغ وچ بٹھا چھڈی سی کہ؛ " پتر لائیے تے توڑ نبھائیے ' نئیں تے نہ لائیے "۔ اللہ دے فضل نال میرے اپنے رشتے داراں تے دوستاں یاراں چوں 10 توں بوھتے ای دکھ سکھ والے تے 100 توں بوھتے ای میل ملاقات والے اللہ نے دتے ھوئے نے۔ تے او ھین وی 30 توں 40 سال پرانے۔ جد کہ دعا سلام وی 1000 توں بوھتیاں نال ای اے پر اناں نال ھن وقت ای نئیں ملدا کہ عوامی تقریبات وچ تے تفریحی مقامات تے جایا جاوے تے پہلوں وانگوں دعا سلام ھوجایا کرے۔ جد کہ جان پہچان دا حال اے وے کہ زیادہ تر لوک ایہو جئے ای نے کہ جناں نال ایس کرکے جان پہچان اے کہ او یا تے برادری دے نے ' یا علاقہ دے نے تے یا کاروبار دے کرکے جان پہچان والے نے پر اناں نوں شکلوں ای پہچانی دا اے پر ناں یاد نئیں ریندے۔

اے گلاں میں ایس توں عرض کر ریے آ واں کہ انبکس وچ میسج کر کر کے پنجابی مینوں ایہو جئیاں گلاں آکھدے نے کہ جداں میں پنجابیاں کولوں تنخواہ ' چندہ یا مالی مدد لے کے پنجابی قوم پرستی بارے مضمون لکھ رے آ واں ' ایس کرکے اناں دا نوکر واں یا میں سیاست کرنی اے تے پنجابیاں کولوں مینوں ووٹ چائی دے نے یا میں کوئی سیاسی پارٹی بنانی اے یا عوام وچ مشہور ھونا اے یا میرے کول کوئی دکھ سکھ والا یا میل ملاقات والا یا دعا سلام والا نئیں اے تے میں فیس بک تے لبھدا پھر رے آ واں تے اوھو اے ای نے جناں نوں میں لبھ رے آ واں۔

میری دوستاں نوں گزارش اے کہ؛ جیس نے میری فرینڈ لسٹ تے رینا اے تے رووے نئیں رینا تے نہ رووے۔ تانے ' میہنے ' ٹوکاں ' آکڑ مینوں پسند نئیں۔ ایس کرکے کدی کدی جے کوئی بوھتا ای گل پے جاوے تے فے کسر میں وی نئیں چھڈا تے اوس نوں ان فرینڈ وی کر دناں واں۔ مفت وچ مضمون پڑھن نوں ملدے نے ایس کرکے جیس نے مضمون پڑھنے نے پڑھے تے جیس نے نئیں پڑھنے نہ پڑھے۔ صلاح ' مشورے تے تبادلہ خیال دی حد تک ٹھیک اے پر بد تمیزی نہ کرے ' فضول بحث نہ کرے تے اپنے خیالات میرے تے مسلط کرن دی کوشش نہ کرے۔ فیس بک تے دکھ سکھ والا تے کوئی بن نئیں سکدا۔ نہ میل ملاقات والا بن سکدا اے۔ ودھ توں ودھ دعا سلام والا ای پہلے بنے گا جے کسے نے بننا ھویا تے اے اودوں ای ھوسکدا اے کہ جد ساڈا دوناں دا مزاج یا مفاد آپس وچ ملے گا۔ نئیں تے فیس بک تے اسیں صرف اپنے وچار ای اک دوجے تک اپڑا سکدے آں۔ فیس بک تے لکھاں پنجابی نے ایس کرکے سانوں چائی دا اے کہ جے کسے نال مزاج یا مفاد ملے تے آپس دی گل بات ودھایا کریے نئیں تے اک دوجے تک اپنے وچار اپڑانا ای کافی اے۔ اللہ نے جیہڑا علم مینوں دتا اے اوس نوں مضموناں دی شکل وچ عوام تائیں اپڑانا میرا فرض بن دا اے تے او فرض اللہ دے فضل نال پورا کری جا رے آ واں تے اگے رب سوھنے نے جیس نوں اے مضمون پڑھانے ھون تے اگے دا کم کرانا ھووے اوس لئی رب جانے تے او بندہ جانے۔ میں تے اوداں وی آکھیا ھویا اے کہ میرے مضمون پنجابی قوم دی امانت نے تے اپنے ناں دی مشہوری مینوں چائی دی نئیں۔ ایس لئی جیہڑا پنجابی چاوے میرے مضمون اپنے ای سمجھ کے جتھے مرضی ورتے۔ اصل مقصد پنجابیاں دا سیاسی شعور ودھانا اے تے اے کم ھونا چائی دا اے۔ ایس لئی مضموناں دے مواد تے دھیان رینا چائی دا اے نہ کہ لکھن والے دے ناں تے۔