Monday 30 July 2018

The process of initiation to implementation of perception.

1. People those have Wisdom create Thoughts. It is the initiation of perception.

2. People those do not have Wisdom but have Vision, they do not retain the ability to create Thoughts but they have the capability to grasp Thoughts. It is the motivation of perception.

3. People those do not have Wisdom or Vision but have Views, they do not retain the ability to create Thoughts or capability to grasp Thoughts but they have the capacity to follow Thoughts. It is the execution of perception.

4. People those do not have Wisdom or Vision or Views but have News, they do not retain the ability to create Thoughts or capability to grasp Thoughts or capacity to follow Thoughts, therefore, they track the popular trends. It is the implementation of perception.

حکومت بنانے کے بعد عمران خان کو کیا مسائل درپیش ھونگے؟

پاکستان میں نظریاتی کے بجائے نسلی اور علاقائی بنیادوں پر سیاست کرنے کی وجہ سے پی پی پی سندھیوں کی ' ن لیگ پنجابیوں کی ' پی ٹی آئی پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں کی سیاسی پارٹی ھے۔ پی ٹی آئی کے پاکستان کی حکومت بنانے کے بعد عمران خان کو بین الاقوامی ' قومی اور صوبائی سطح پر درج ذیل مسائل درپیش آئیں گے۔

بین الاقوامی سطح پر مسئلہ یہ ھوگا کہ؛ امریکن کیمپ کے نخرے اٹھانے ھیں یا چینی کیمپ کے نخرے اٹھانے ھیں۔ امریکن کیمپ کے نخرے اٹھانے سے چین کی نا پسندیدگی کو برداشت کرنا پڑے گا۔ جبکہ چینی کیمپ کے نخرے اٹھانے سے امریکہ کی نا پسندیدگی کو برداشت کرنا پڑے گا۔ عمران خان کی حکومت کے ایک کیمپ کے نخرے اٹھانے کی وجہ سے پنجابیوں کی سیاسی پارٹی ن لیگ کے مراسم دوسرے کیمپ کے ساتھ قائم ھونا شروع ھوجانے ھیں۔

قومی سطح پر مسئلہ یہ ھوگا کہ؛ ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اسٹیبلشمنٹ کے نخرے اٹھانے ھیں یا پنجابی اسٹیبلشمنٹ کے نخرے اٹھانے ھیں۔ پنجابی اسٹیبلشمنٹ کے نخرے اٹھانے سے ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اسٹیبلشمنٹ کی نا پسندیدگی کو برداشت کرنا پڑے گا۔ مھاجر اور پٹھان اسٹیبلشمنٹ کی اکثریت کا رحجان پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں کی سیاسی پارٹی پی ٹی آئی کی طرف رھا ھے۔ اس لیے پی ٹی آئی کو ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے محروم ھونا پڑے گا۔ جبکہ ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اسٹیبلشمنٹ کے نخرے اٹھانے سے پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی نا پسندیدگی کو برداشت کرنا پڑے گا۔ پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی اکثریت کا رحجان پنجابیوں کی سیاسی پارٹی ن لیگ کی طرف رھا ھے۔ اس لیے پی ٹی آئی کو پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت برداشت کرنا پڑے گی اور پنجابی اسٹیبلشمنٹ نے پنجابیوں کی سیاسی پارٹی ن لیگ کو بھرپور طریقے سے سپورٹ کرنا شروع کر دینا ھے۔

صوبائی سطح پر خیبر پختونخواہ میں مسئلہ یہ ھوگا کہ؛ پختونوں کے نخرے اٹھانے ھیں یا ھندکو ' ڈیرہ والی ' سواتی ' چترالی کے نخرے اٹھانے ھیں۔ ھندکو ' ڈیرہ والی ' سواتی ' چترالی کے نخرے اٹھانے سے پختونوں کی نا پسندیدگی کو برداشت کرنا پڑے گا۔ پختونوں کی اکثریت کا رحجان پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں کی سیاسی پارٹی پی ٹی آئی کی طرف رھا ھے۔ اس لیے خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کو پختونوں کی حمایت سے محروم ھونا پڑے گا۔ جبکہ پختونوں کے نخرے اٹھانے سے ھندکو ' ڈیرہ والی ' سواتی ' چترالی کی نا پسندیدگی کو برداشت کرنا پڑے گا۔ ھندکو ' ڈیرہ والی ' سواتی ' چترالی کی اکثریت پہلے سے ھی پنجابیوں کی سیاسی پارٹی ن لیگ کو سپورٹ کر رھی ھے۔ لیکن ھندکو ' ڈیرہ والی ' سواتی ' چترالی کی نا پسندیدگی کی صورت میں ھندکو ' ڈیرہ والی ' سواتی ' چترالی نے پنجابیوں کی سیاسی پارٹی ن لیگ کو مزید جوش و خروش سے سپورٹ کرنا شروع کر دینا ھے۔

صوبائی سطح پر سندھ میں مسئلہ یہ ھوگا کہ؛ ھندوستانی مھاجروں کے نخرے اٹھانے ھیں یا سندھیوں کے نخرے اٹھانے ھیں۔ سندھیوں کے نخرے اٹھانے سے ھندوستانی مھاجروں کی نا پسندیدگی کو برداشت کرنا پڑے گا۔ ھندوستانی مھاجروں کی اکثریت کا رحجان پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں کی سیاسی پارٹی پی ٹی آئی کی طرف رھا ھے۔ اس لیے سندھ میں پی ٹی آئی کو ھندوستانی مھاجروں کی حمایت سے محروم ھونا پڑے گا۔ جبکہ ھندوستانی مھاجروں کے نخرے اٹھانے سے سندھیوں کی نا پسندیدگی کو برداشت کرنا پڑے گا۔ سندھیوں کی اکثریت اس وقت سندھیوں کی سیاسی پارٹی پی پی پی کو سپورٹ کر رھی ھے لیکن سندھیوں کی سیاسی پارٹی پی پی پی کو دیہی سندھ سے باھر سپورٹ حاصل نہیں رھی اور ن لیگ کے پنجابیوں کی جبکہ پی ٹی آئی کے پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں کی سیاسی پارٹی بن جانے کی وجہ سے پی پی پی کو اب آئندہ سپورٹ حاصل ھونے کے امکانات نہیں ھیں۔ اس لیے سندھیوں کی نا پسندیدگی کی صورت میں سندھیوں کے پاس پنجابیوں کی سیاسی پارٹی ن لیگ کو سپورٹ کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا سیاسی راستہ نہیں رھنا۔

صوبائی سطح پر پنجاب میں مسئلہ یہ ھوگا کہ؛ ھندوستانی مھاجر  ' پٹھان ‘ بلوچ ' عربی نزاد کے نخرے اٹھانے ھیں یا پنجابیوں کے نخرے اٹھانے ھیں۔ پنجابیوں کے نخرے اٹھانے سے ھندوستانی مھاجر  ' پٹھان ‘ بلوچ ' عربی نزاد کی نا پسندیدگی کو برداشت کرنا پڑے گا۔ ھندوستانی مھاجر  ' پٹھان ‘ بلوچ ' عربی نزاد کی اکثریت کا رحجان پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں کی سیاسی پارٹی پی ٹی آئی کی طرف رھا ھے۔ اس لیے پنجاب میں پی ٹی آئی کو ھندوستانی مھاجر  ' پٹھان ‘ بلوچ ' عربی نزاد کی حمایت سے محروم ھونا پڑے گا۔ جبکہ ھندوستانی مھاجر  ' پٹھان ‘ بلوچ ' عربی نزاد کے نخرے اٹھانے سے پنجابیوں کی نا پسندیدگی کو برداشت کرنا پڑے گا۔ پنجابیوں کی اکثریت پہلے سے ھی پنجابیوں کی سیاسی پارٹی ن لیگ کو سپورٹ کر رھی ھے۔ لیکن پنجابیوں کی نا پسندیدگی کی صورت میں پنجابیوں نے پنجابیوں کی سیاسی پارٹی ن لیگ کو مزید جوش و خروش سے سپورٹ کرنا شروع کر دینا ھے۔

Sunday 29 July 2018

پاکستان کے وزرائے اعظم کی فہرست میں پنجابی کتنے ھیں؟

1 لیاقت علی خان 15 اگست 1947ء 16 اکتوبر 1951ء مھاجر
2 خواجہ ناظم الدین 17 اکتوبر 1951ء 17 اپریل 1953ء مھاجر
3 محمد علی بوگرہ 17 اپریل 1953ء 12 اگست 1955ء بنگالی
4 چوہدری محمد علی 12 اگست 1955ء 12 ستمبر 1956ء پنجابی
5 حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء 17 اکتوبر 1957ء بنگالی
6 ابراہیم اسماعیل چندریگر 17 اکتوبر 1957ء 16 دسمبر 1957ء مھاجر
7 ملک فیروز خان نون 16 دسمبر 1957ء 7 اکتوبر 1958ء پنجابی
٭ عہدہ خالی رہا 28 اکتوبر 1958ء 7 دسمبر 1971ء فوجی حکمرانی
8 نور الامین 7 دسمبر 1971ء 20 دسمبر 1971ء بنگالی
٭ عہدہ خالی رہا 20 دسمبر 1971ء 14 اگست 1973ء سول مارشل لاء
9 ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973ء 5 جولائی 1977ء سندھی
٭ عہدہ خالی رہا 5 جولائی 1977ء 24 مارچ 1985ء فوجی حکمرانی
10 محمد خان جونیجو 24 مارچ 1985ء 29 مئی 1988ء سندھی
11 بینظیر بھٹو 2 دسمبر 1988ء 6 اگست 1990ء سندھی
نگران - 1 غلام مصطفیٰ جتوئی 6 اگست 1990ء 6 نومبر 1990ء بلوچ
12 نواز شریف 6 نومبر 1990ء 18 اپریل 1993ء پنجابی
نگران - 2 بلخ شیر مزاری 18 اپریل 1993ء 26 مئی 1993ء بلوچ
12 نواز شریف 26 مئی 1993ء 18 جولائی 1993ء پنجابی
نگران - 3 معین قریشی 18 جولائی 1993ء 19 اکتوبر 1993ء عربی نزاد
11 بینظیر بھٹو 19 اکتوبر 1993ء 5 نومبر 1996ء سندھی
نگران - 4 معراج خالد 5 نومبر 1996ء 17 فروری 1997ء پنجابی
12 نواز شریف 17 فروری 1997ء 12 اکتوبر 1999ء پنجابی
٭ عہدہ خالی رہا 12 اکتوبر 1999ء 21 نومبر 2002ء فوجی حکمرانی
13 ظفر اللہ خان جمالی 21 نومبر 2002ء 26 جون 2004ء بلوچ
14 چوہدرى شجاعت حسين 30 جون 2004ء 20 اگست 2004ء پنجابی
15 شوکت عزیز 20 اگست 2004ء 16 نومبر 2007ء مھاجر
نگران - 5 محمد میاں سومرو 16 نومبر 2007ء 25 مارچ 2008ء سندھی
16 سید یوسف رضا گیلانی 25 مارچ 2008ء 26 اپریل 2012ء عربی نزاد
17 راجہ پرویز اشرف 22 جون 2012ء 2013ء 26 دسمبر پنجابی
نگران - 6 میر ہزار خان کھوسو 24 مارچ 2013ء 4 جون 2013ء بلوچ
12 نواز شریف 5 جون 2013ء 28 جولائی 2017ء پنجابی
18 شاہد خاقان عباسی 1 اگست 2017ء 31 مئی 2018ء پنجابی
نگران - 7 ناصر الملک 1جون 2018ء تا 18 اگست 2018 پٹھان
19 عمران خان نیازی 18 اگست 2018 تا حال پٹھان

Monday 23 July 2018

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں بالادستی کس کی ھے؟

کسی بھی ملک اور قوم میں عوام کے معاملات اور اختیارات کا دائرہ اپنے علاقے اور برادری تک محدود رھتا ھے۔ لیکن ملک اور قوم کے معاملات کا انحصار اسٹیبلشمنٹ پر ھوتا ھے۔ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کا دائرہ اختیار قومی ھی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح تک ھوتا ھے۔ آرمی ' عدلیہ ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت اور سفارتکاری کے ادارے مل کر اسٹیبلشمنٹ کہلواتے ھیں۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں پاکستان کے قیام سے لیکر ھی مسئلہ اسٹیبلشمنٹ کے ھندوستانی مھاجر اور پٹھان کا بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ کے پنجابی کا رھا ھے۔ جو کہ اس وقت بہت بڑہ چکا ھے۔ اس لیے ھی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں پنجابی اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اسٹیبلشمنٹ کی تفریق موجود ھے۔ جبکہ پنجابی ' سندھی ' بلوچ ' مھاجر اور پٹھان عوام اپنے علاقے کے معاملات تک محدود اور برادری کے مسائل میں مصروف رھتی ھے۔

پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی ھے۔ لیکن مختلف وجوھات کی بنا پر پاکستان کی آرمی ' عدلیہ ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت اور سفارتکاری کے شعبوں پر پاکستان کے قیام کے ساتھ ھی پٹھانوں اور خاص طور پر ھندوستانی مھاجروں کی بالادستی قائم ھوگئی تھی۔ سندھی اور بلوچ کی نہ تو پاکستان میں آبادی زیادہ ھے اور نہ اب تک ان میں پاکستان کی آرمی ' عدلیہ ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت اور سفارتکاری کے شعبوں میں کارکردگی انجام دینے کی قابلیت اور صلاحیت پیدا ھوسکی ھے اور نہ مستقبل قریب میں ھوتی نظر آرھی ھے۔ اس لیے سندھی اور بلوچ کا نہ تو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں کردار رھا ھے اور نہ مستقبل میں کوئی کردار نظر آتا ھے۔ اس لیے سندھی اور بلوچ صرف اپنے علاقے کے معاملات تک محدود اور برادری کے مسائل میں مصروف رھتے ھیں اور پاکستان کی سطح کے ملکی و قومی معاملات میں خاص عمل دخل نہیں رکھتے۔

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے اداروں میں پنجابی اس وقت اعلیٰ سطح پر بھی عددی مقدار سے اکثریت حاصل کرچکے ھیں۔ لیکن ھر ادارے کی پالیسی ھوتی ھے۔ جو پہلے سے بنی ھوئی ھوتی ھے۔ اسٹیبلشمنٹ کے اداروں میں اعلیٰ سطح پر اکثریت حاصل کرلینے کے باوجود پنجابیوں میں ابھی اتنا سیاسی شعور نہیں ھے کہ؛ وہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے اداروں کی پاکستان کے قیام سے لیکر ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اسٹیبلشمنٹ کی بنائی جانے والی پالیسی میں ترمیم کرسکیں۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ کے اداروں میں اعلیٰ سطح پر جو پنجابی ھیں انہیں " لکیر کا فقیر " کہہ سکتے ھیں۔ لیکن پاکستان کے قیام کے 70 سال بعد اب پنجابی قوم میں سیاسی شعور آنا شروع ھوگیا ھے اور اس نے قابلیت اور صلاحیت بھی حاصل کرنا شروع کردی ھے۔ جبکہ پاکستان کی آرمی ' عدلیہ ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت اور سفارتکاری کے شعبوں میں اپنے قدم بھی جمانا شروع کردیے ھیں۔ اس لیے پنجابی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کے قیام سے لیکر ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اسٹیبلشمنٹ کی بنائی جانے والی اسٹیبلشمنٹ کے اداروں کی پالیسی میں ترمیم ضرور کرنی ھے۔

پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی ھونے اور پاکستان میں سیاسی نظام جمہوری ھوجانے کی وجہ سے نواز شریف کے پنجابی وزیرِ اعظم کے طور پر سامنے آنے کی وجہ سے پاکستان کی سیاست میں 1990 سے ھی پنجابیوں نے اپنے قدم جمانا شروع کردیے تھے لیکن 1999 سے 2008 تک مھاجر چیف آف آرمی اسٹاف کے پاکستان میں مارشلاء نافذ کرنے کی وجہ سے تعطل آگیا۔ لیکن 2008 تک پاکستان میں مارشل لاء کے خاتمے اور مھاجر چیف آف آرمی اسٹاف کے پاکستان کی صدارت سے دستبردار ھونے کے بعد پھر سے پنجابیوں نے سیاست میں اپنے قدم جمانا شروع کردیے اور اس وقت پنجابی سیاستدان سیاست کے شعبوں پر سے ھندوستانی مھاجروں اور پٹھانوں کا تسلط ختم کرکے اپنی بالاتری قائم کرتے جا رھے ھیں۔

پنجابیوں کے سیاست میں قدم جمانے سے پنجابی بیوروکریٹس کو بھی بیوروکریسی میں اپنے قدم جمانے کا موقع ملنا شروع ھوجانا ھے۔ اس لیے پنجابیوں نے بیوروکریسی میں اپنے قدم جمانا شروع کردینے ھیں۔ اس وقت بھی پنجابی بیوروکریٹس بیوروکریسی کے شعبوں پر سے ھندوستانی مھاجروں اور پٹھانوں کا تسلط ختم کرکے اپنی بالاتری قائم کرتے جا رھے ھیں۔

پنجابیوں کے سیاست اور بیوروکریسی میں قدم جمانے سے پنجابی صحافیوں کو بھی صحافت میں اپنے قدم جمانے کا موقع ملنا شروع ھوجانا ھے۔ اس لیے پنجابیوں نے صحافت میں اپنے قدم جمانا شروع کردینے ھیں۔ اس وقت بھی پنجابی صحافی صحافت کے شعبوں پر سے ھندوستانی مھاجروں اور پٹھانوں کا تسلط ختم کرکے اپنی بالاتری قائم کرتے جا رھے ھیں۔

پنجابیوں کے سیاست ' بیوروکریسی اور صحافت میں قدم جمانے سے پنجابی سفارتکاروں کو بھی اب سفارتکاری میں اپنے قدم جمانے کا موقع ملنا شروع ھوجائے گا۔ جس سے پنجابیوں نے سفارتکاری میں بھی اپنے قدم جمانا شروع کردینے ھیں۔ اس سے پنجابی سفارتکار سفارتکاری کے شعبوں پر سے بھی ھندوستانی مھاجروں اور پٹھانوں کا تسلط ختم کرکے اپنی بالاتری قائم کرنے میں کامیاب ھو جائیں گے۔

پاکستان کے قیام سے لیکر ھی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں ھندوستانی مھاجر اور پٹھان سیاسی طور پر سرگرم رھتے آئے ھیں اور اب بھی سرگرم ھیں۔ جبکہ اسٹیبلشمنٹ کے پنجابی "ڈھگے" بنے رھے۔ لیکن جیسا کہ اب پنجابیوں میں سیاسی شعور آنا شروع ھوگیا ھے اور وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے پنجابی کا سیاسی شعور بھی بڑھے گا۔ جس سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا پنجابی ھوش و حواص میں آئے گا۔ 

ھندوستانی مھاجر اور پٹھان کا مزاج اور مفادات مختلف ھیں جبکہ پنجابی کا مزاج اور مفادات مختلف ھے۔ اس لیے سیاسی شعور آنے کے بعد پنجابی اسٹیبلشمنٹ نے ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اسٹیبلشمنٹ کی بنائی جانے والی اسٹیبلشمنٹ کے اداروں کی پالیسی میں ترمیم کرنا شروع کردینی ھے۔ جس سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ پر ھندوستانی مھاجر اور پٹھان کی بالادستی ختم ھوجائے گی اور پاکستان کے سیاسی ' سماجی ' انتظامی ' معاشی اور اقتصادی حالات درست ھو جائیں گے۔ 

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے اداروں کی پالیسی میں ترمیم سے نہ صرف پنجابی عوام کو بلکہ سندھی اور بلوچ عوام کو بھی فائدہ ھوگا۔ لیکن اس کے بعد ھندوستانی مھاجر اور پٹھان کو صرف اپنے اپنے علاقے کے معاملات تک محدود اور برادری کے مسائل میں ھی مصروف رھتا پڑا کرے گا۔ کیونکہ انکا پاکستان کی سطح کے ملکی و قومی معاملات میں خاص عمل دخل نہیں رھے گا۔ اس لیے ھندوستانی مھاجر اور پٹھان پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے اداروں پر پاکستان کی 60٪ آبادی بنجابی کی بالادستی آسانی کے ساتھ قائم نہیں ھونے دیں گے۔ جسکی وجہ سے پاکستان کی سیاست کا فائنل راؤنڈ اسٹیبلشمنٹ کے اندر کھیلا جائے گا ' جوکہ؛ پنجابی اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اسٹیبلشمنٹ ھوگا۔

Sunday 22 July 2018

Why Karachi is in Political Turmoil?


Karachi is the Seaport of Pakistan. Punjabi, Pathan, Gujarati, Rajasthani, Hindustani Muhajir, Sindhi, and Baloch are the major ethnic groups residing in Karachi.

Due to the presence of Army installations, Navy installations, Air Force installations, Cantonment areas, Federal Government Offices, Industrial Zone of Punjabis, Transportation Network of Punjabis and Pukhtoons, Trade and Business Centers of Punjabis, Gujaratis, and Rajasthanis, Karachi is under domination and utilization of Punjabi, Pathan, Gujarati, and Rajasthani.

The economy and GDP of Karachi is generated by the Punjabi, Pathan, Gujarati, and Rajasthani. Hindustani Muhajir, Sindhi, and Baloch have a nonproductive role in Karachi. Their majority is engaged in the services sector and labor work.

But, due to the active role of Hindustani Muhajir, Sindhi and Baloch in the politics of Karachi and due to the inactive role of Punjabi, Pathan, Gujarati, and Rajasthani in the politics of Karachi, the city is in a political turmoil and under political hostage of Hindustani Muhajir, Sindhi and Baloch.

Friday 20 July 2018

کیا اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کے درمیان مفاھمت ناگزیر ھے؟

سیاسی رھنماؤں کو سیاست کے میدان میں سیاسی مقابلہ کے ذریعے عوام کی حمایت سے محروم کیا جاتا ھے ' عدالتی فیصلوں کے ذریعے یا انتظامی اختیارات کے استعمال کے ذریعے سیاسی رھنما کو عوام کی حمایت سے محروم کرنا ناقابلِ عمل ھے۔ عدالتی فیصلے سے نواز شریف وزیرِ اعظم کے طور پر نا اھل ھوگیا ' ن لیگ کی صدارت سے بھی محروم ھوگیا اور اور اپنی بیٹی سمیت جیل بھی چلا گیا لیکن اس کے باوجود نواز شریف کو پنجاب کی عوام کی اکثریت کی حمایت سے محروم اور سیاست کے میدان سے باھر نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ ن لیگ کے عام رھنما تو اپنی جگہ اگر شھباز شریف بھی ن لیگ سے الگ ھوجاتا ھے تو شھباز شریف کی پنجاب کی عوام میں اھمیت ختم ھوجانی ھے لیکن نواز شریف سے پنجاب کی عوام کی اکثریت نے الگ نہیں ھونا۔ اس کی وجہ یہ ھے کہ؛ پاکستان کے کسی سیاستدان میں سیاست کے میدان میں سیاسی مقابلہ کے ذریعے نواز شریف کو عوام کی حمایت سے اور خاص طور پر پنجاب کی عوام کی حمایت سے محروم کرنے کی صلاحیت نہیں ھے۔ اس لیے نواز شریف کو سیاست کے میدان سے باھر کرنے کا آخری طریقہ پاکستان میں مارشل لاء کا نفاذ ھے۔ لیکن مارشل لاء کے نفاذ کے بعد پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کے دفاعی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خارجی اور داخلی معاملات ' پاکستان کی عوام کے مسائل اور پاکستان کے صوبوں کی شکایات کو کنٹرول میں رکھنا پڑے گا۔ جبکہ نواز شریف کی سیاسی مخالفت کو بھی کنٹرول کرنا پڑے گا۔ جوکہ پنجاب میں سے عوام کی آرمی کے ساتھ محاذ آرائی کے شروع ھوجانے کی وجہ سے پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کے بس کی بات نظر نہیں آتی۔ بلکہ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کے اندر پنجابی اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اسٹیبلشمنٹ کی تفریق بھی جنم لے سکتی ھے۔

میرے تجزیئے کے مطابق نواز شریف کی سپریم کورٹ سے وزیرِ اعظم کے طور پر نا اھلی اور نیب عدالت سے سزا دلوا کر جیل بھجوانے میں ادارے کی حیثیت سے پاکستان کی فوج کا کوئی کردار نہیں ھے۔ کیونکہ چیف آف آرمی اسٹاف کی منظوری کے بعد فوج اگر واضح پروگرام اور پالیسی کے ساتھ ادارے کے طور پر نواز شریف کی مخالف ھوتی تو پہلے جنرل راحیل شریف نے یا اب جنرل قمر جاوید باجوہ نے نواز شریف کی کھٹیا کھڑی کردی ھوتی اور ن لیگ بھی ٹوٹ پھوٹ گئی ھوتی۔ دراصل پرویز مشرف نے 1999 سے 2008 تک حکومت کی۔ آصف زرداری نے 2008 سے 2013 تک حکومت کی۔ مشرف ' زرداری اور انکے دور میں حکومت میں رھنے والے با اختیار فوجی و سول سرکاری افسروں اور سیاستدانوں نے دل کھول کر پاکستان میں کرپشن کی۔ نواز شریف کی حکومت 2013 سے شروع ھوئی۔ نواز شریف نے 2013 میں حکومت سمبھالنے کے بعد مشرف اور زرداری کی حکومت کے دور میں ھونے والی کرپشن کا حساب کتاب کرنا تھا۔ نواز شریف کے 2013 میں حکومت سمبھالنے کے بعد مشرف ' زرداری اور انکے دور میں حکومت میں رھنے والے با اختیار فوجی و سول سرکاری افسروں اور سیاستدانوں نے اپنے اپنے دور میں کمائے گئے سرمایہ کا بڑا حصہ خود کو اور اپنے ساتھوں کو بچانے پر لگانا شروع کردیا۔ مشرف ' زرداری اور انکے دور میں حکومت میں رھنے والے با اختیار فوجی و سول سرکاری افسروں اور سیاستدانوں نے میڈیا ھاؤس خریدے ' اینکر ' صحافی ' تجزیہ نگار بھرتی کیے۔ پہلے طاھر القادری کے ذریعے میدان سجایا۔ پھر عمران خان کو آگے کرنا شروع کیا۔ اپنے اقتدار کے دور میں بدعنوانیوں میں ملوث رھنے والے ساتھوں کو عمران خان کی پارٹی میں شامل کروایا۔ اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکیسی میں موجود اپنے ساتھیوں کو ' جنہیں اب نواز شریف خلائی مخلوق  کے خطاب سے مخاطب کرتا ھے ' نواز شریف کی مخالفت اور عمران خان کی حمایت پر لگایا۔ عمران خان کے جلسے ھوئے ' جلوس ھوئے ' دھرنے ھوئے۔ مشرف اور زرداری بچے رھے۔ حکومت میں ھونے کے باوجود التا احتساب نواز شریف کا شروع ھوگیا۔ لیکن نواز شریف کی سپریم کورٹ سے وزیرِ اعظم کے طور پر نا اھلی اور نیب عدالت سے سزا کے بعد پاکستان کی فوج کے ادارے کے لیے بھی مشکلات بہت زیادہ بڑہ گئی ھیں۔

پاکستان کے کچھ الیکٹرونک میڈیا ھاؤس ' کچھ اینکرز ' کچھ تجزیہ نگار اور مشرف و زرداری کے دور میں حکومت میں رھنے والے با اختیار فوجی و سول سرکاری افسران اور سیاستدان 2014 سے ھی وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف سازش کر رھے تھے۔ اثار بتاتے ھیں کہ ان کو وزیرِ اعظم نواز شریف کی کردار کشی کرنے کے لیے غیبت ' تہمت اور بہتام تراشی کا کسی نے ٹھیکہ دیا ھوا تھا لیکن تاثر یہ دینے کی کوشش ھو رھی تھی کہ؛ دراصل پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے یہ کام ھو رھا ھے۔ مقصد اس ٹھیکے کا ن لیگ کے عام رکن اور پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کے عام رکن کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول قائم کرنا تھا۔ اس لیے ھی الیکٹرونک میڈیا پر کچھ اینکرز ' کچھ تجزیہ نگاروں اور کچھ سیاستدانوں کی طرف سے ایک تو وزیرِ اعظم نواز شریف کی کردار کشی کی جارھی تھی اور دوسرا پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کو بدنام کیا جا رھا تھا۔ اصل میں وزیرِ اعظم نواز شریف کی کردار کشی کا ٹھیکہ دینے والے " ایک تیر سے دو شکار " کر رھے تھے۔ بظاھر انکا نشانہ وزیرِ اعظم نواز شریف کو بدنام کرنا تھا لیکن پسِ پردہ انکا نشانہ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کو بھی بدنام کرنا تھا۔ تاکہ ن لیگ کے عام رکن اور پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول قائم کیا جائے اور وہ بچے رھیں۔ یہ ماحول اب تک کافی حد تک بن بھی گیا ھے۔

نواز شریف کے پنجاب کی عوام کے مقبول ترین سیاسی رھنما ھونے کی وجہ سے نواز شریف کی وزیرِ اعظم کے طور پر نا اھلی کے بعد پنجاب میں سیاست کا تندور گرم ھوگیا تھا لیکن عدالت کی طرف سے سزا سنائے جانے کے بعد نواز شریف کے اپنی بیٹی مریم نواز کے ھمراہ لندن سے آکر جیل جانے کے بعد سیاست کا تندور انتہائی گرم ھوتا جا رھا ھے۔ جب تندور گرم ھوتا ھے تو پڑوسی بھی روٹیاں لگا لیتے ھیں۔ اس لیے اب یہ ناممکن ھے کہ؛ پڑوسی روٹیاں نہ لگائیں۔ بلکہ پنجاب میں گرم ھونے والے سیاست کے تندور پر تو لگتا ھے کہ؛ امریکہ ' چین اور روس نے بھی روٹیاں لگانے والوں میں شامل ھو جانا ھے۔ جبکہ سیاست کے تندور کو زیادہ دیر تک اور زیادہ گرم رکھنے کے لیے کچھ نے تو تندور میں ایندھن بھی ڈالنا شروع کر دینا ھے۔ دراصل پاکستان میں " نیو گریٹ گیم " کا کھیل اپنے عروج پر ھے۔ پاکستان میں اس کھیل کے اھم کھلاڑی امریکہ ' چین ' پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ ' نواز شریف ' پرویز مشرف ' آصف زرداری ' عمران خان ھیں۔ پرویز مشرف ' آصف زرداری ' عمران خان واضح طور پر امریکن کیمپ کی طرف سے کھیل کھیل رھے ھیں۔ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کے واضح طور پر امریکن کیمپ یا چینی کیمپ کی طرف سے کھیل کھیلنے کا فیصلہ کرنے تک اب پاکستان میں سیاسی انتشار میں روز با روز اضافہ ھوتا جانا ھے۔

پاکستان اور پاکستان کے عوام کے مفاد میں تو بہتر یہ ھی تھا کہ وزیرِ اعظم ھوتے ھوئے نواز شریف اور پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ باھمی مشاورت کے ساتھ واضح طور پر امریکن یا چینی کیمپ میں جانے کا فیصلہ کرتے۔ لیکن نواز شریف کے وزیرِ اعظم کے طور پر برطرفی کے بعد اور خاص طور پر عدالت کی طرف سے سزا سنائے جانے کے بعد نواز شریف کے اپنی بیٹی مریم نواز کے ھمراہ لندن سے آکر جیل جانے کے بعد جو صورتحال پیدا ھو چکی ھے ' اسکے بعد زیادہ امکانات تو یہ ھی ھیں کہ اب نواز شریف اور پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ واضح طور پر امریکن یا چینی کیمپ میں جانے کا فیصلہ اپنے اپنے طور پر کریں گے۔ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے قائد نواز شریف کے پاکستان کے قومی کھلاڑی ھونے کی وجہ سے الگ الگ کیمپ میں جانے کی صورت میں پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے قائد نواز شریف کے درمیان ٹکراؤ ھوگا جس سے نقصان پاکستان اور پاکستان کے عوام کا ھوگا۔ جبکہ ایک ھی کیمپ میں جانے کی صورت میں پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے قائد نواز شریف کے درمیان مفاھمت اور باھمی تعاون کا طریقہ کار بلآخر طے کرنا ھی پڑنا ھے۔

Wednesday 18 July 2018

نواز شریف اور مریم نواز کو " پنجابی قوم پرست سیاستدان " بننا پڑے گا۔

پاکستان کے قیام سے لیکر 1990 میں پہلی بار نواز شریف کے وزیرِ اعظم بننے تک پاکستان کے اداروں پر کنٹرول ھندوستانی مھاجروں اور پٹھانوں کا رھا۔ سندھیوں اور بلوچوں کو تو پاکستان کے اداروں میں اب بھی شمولیت نہیں دی جا رھی۔ جبکہ پاکستان کے قیام سے لیکر پنجابیوں کی پاکستان کے اداروں میں حیثیت ثانوی رھی اور پاکستان کی فوج کا پہلا پنجابی سربراہ پاکستان کے قیام کے 28 سال بعد 1975 میں بننے میں کامیاب ھوسکا۔ اس کے علاوہ پاکستان کے اداروں میں پالیسی بنانے کا کام تو اب بھی ھندوستانی مھاجر اور پٹھان انجام دے رھے ھیں اور انکے ساتھ ان پنجابیوں کا شامل کردیا جاتا ھے جن کی نظریاتی تربیت ھندوستانی مھاجروں کے ھاتھوں کروائی گئی ھوتی ھے۔ وہ پنجابی جسمانی طور پر تو پنجابی ھوتے ھیں لیکن ذھنی طور پر "اترپردیشی" ھوتے ھیں۔

ذالفقار علی بھٹو ' جنرل ضیاء الحق ' محمد خان جونیجو ھی وہ تین افراد تھے جن کو پاکستان کے اداروں میں موجود ھندوستانی مھاجروں اور پٹھانوں کی مرضی و منشا کے برعکس پاکستان پر حکومت کرنے کا موقع ملا لیکن وہ بھی پاکستان کے اداروں پر سے ھندوستانی مھاجروں اور پٹھانوں کا کنٹرول ختم نہ کرسکے تھے۔ نواز شریف کے پاکستان میں قومی سطح کے پہلے پنجابی سیاستدان کے طور پر 1990 میں سامنے آنے اور پاکستان کا وزیرِ اعظم بننے کے بعد ھندوستانی مھاجروں اور پٹھانوں نے نواز شریف کو اپنے مفادات کے لیے خطرے کے طور پر دیکھنا شروع کردیا تھا۔ لہٰذا نواز شریف کے دشمن پاکستان کے ادارے نہیں ' پاکستان کے اداروں میں موجود ھندوستانی مھاجر اور پٹھان تھے۔ اس لیے نواز شریف کو؛

1993 میں پاکستان کے پٹھان صدر غلام اسحاق خان اور پٹھان چیف آف آرمی اسٹاف وحید کاکڑ نے وزارتِ عظمیٰ سے نکالا۔

1999 میں ھندوستانی مھاجر چیف آف آرمی اسٹاف پرویز مشرف نے وزارتِ عظمیٰ سے نکالا اور جیل پہنچایا۔

2017 میں سابق ھندوستانی مھاجر چیف آف آرمی اسٹاف پرویز مشرف اور پٹھان عمران خان نے باھمی سازشیں کرکے عدالت کے ذریعے وزارتِ عظمیٰ سے نکلوایا اور 2018 میں جیل پہنچایا۔

نواز شریف کے جیل جانے کے باوجود نواز شریف نے سیاست کا کھیل کھیلنا نہیں چھوڑنا۔ نواز شریف نے اگر سیاست کا کھیل کھیلنا چھوڑنا ھوتا تو عدالت کی طرف سے سنائی جانے والی سزا کے بعد خود ھی پاکستان آکر جیل نہ جاتا۔ جس طرح نواز شریف کے بیٹے لندن میں قیام پذیر ھیں ویسے ھی نواز شریف بھی لندن میں ھی رھتا۔ لیکن نہ صرف نواز شریف کے خود آنے بلکہ اپنی بیٹی مریم نواز کو بھی ساتھ لاکر جیل جانے کا مطلب ھے کہ نواز شریف نے اب اپنے جانشین کے طور پر اپنی بیٹی مریم نواز کو بھی سیاست کا کھیل کھلوانا ھے۔ 

نواز شریف کے عدالت کی طرف سے سزا سنائے جانے کے بعد لندن سے پاکستان آکر اپنی بیٹی سمیت جیل جانے سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ھے کہ؛ نواز شریف کے پاس پاکستان کی سیاسی بساط پر کھیلنے کے لیے اچھی چالیں اور مظبوط مہرے موجود ھیں۔ نواز شریف کو پاکستان کی سیاسی بساط پر یہ برتری تو پہلے سے ھی حاصل ھے کہ؛ پاکستان کے کسی دوسرے سیاستدان میں پاکستان کی عوام اور خاص طور پر پنجاب میں نواز شریف کی مقبلولیت اور عوامی حمایت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ھے۔ 

اس کے علاوہ طویل عرصہ تک سیاست کرنے ' دو بار پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ اور تین بار پاکستان کا وزیرِ اعظم رھنے کی وجہ سے پاکستان کے قومی معاملات کے علاوہ نواز شریف کو اب بین الاقوامی حالات سے بھی آگاھی ھے اور بین الاقوامی سیاست کے کھلاڑیوں سے تعلقات بھی ھیں۔ جبکہ پاکستان کے قومی اداروں اور قومی سطح کے سیاسی کھلاڑیوں کی صلاحیتوں اور چالوں سے بھی اب بخوبی آگاھی ھوچکی ھے۔ بلکہ دوسری بار جیل جانے سے اپنے مخالف کھلاڑیوں کی صلاحیتوں اور چالوں سے مزید آگاہ ھوچکا ھے اور سیاسی تجربہ میں بھی مزید اضافہ کر چکا ھے۔

سیاست کا کھیل کھیلنے کے لیے نواز شریف کو اب ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ھوئے نئی سیاسی بساط کی چالیں سوچنا اور چلنا پڑیں گی۔ اس لیے نواز شریف کو " خلائی مخلوق " اور " پاکستان کے اداروں " کو ذھن سے نکال کر اپنے اصل دشمن ' پاکستان کے اداروں میں موجود ھندوستانی مھاجروں اور پٹھانوں پر خاص دھیان دینا چاھیے۔ سندھی اور بلوچ قوموں کو اعتماد میں لینا چاھیے۔ لیکن اس سے پہلے پنجابی قوم پرست بن کر اپنی " پنجابی قوم " کی قیادت کرنے کا اعلان کرنا چاھیے۔ نواز شریف اگر پنجابی قوم پرست سیاستدان بننے بغیر پھر سے سیاست کرے گا یا اپنی بیٹی مریم نواز کو سیاست کروائے گا تو انجام پھر بھی پاکستان کے اداروں میں موجود ھندوستانی مھاجروں اور پٹھانوں کے ھاتھوں وزارتِ عظمیٰ سے نکلنا اور جیل جانا ھی ھوگا۔

اس بار بھی پنجابیوں کی سیاسی حمایت سے پاکستان کا وزیرِ اعظم بننے کے بعد نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے ھٹانے اور جیل پہنچانے کے لیے شروع کی جانے والی مہم میں نواز شریف کی تذلیل اور توھین کرنے کے لیے سب سے زیادہ متحرک ھندوستانی مھاجر اور پٹھان ھی نظر آئے۔ اس لیے ھندوستانی مھاجر اور پٹھان تو اب ویسے بھی کھل کر پنجابیوں کی نظروں میں آچکے ھیں۔ جبکہ سندھی اور بلوچ بھی انہیں بغور دیکھ رھے ھیں۔ اس لیے ھندوستانی مھاجر اور پٹھان کے ساتھ پنجابیوں کی محاذآرائی تو اب ویسے بھی ختم نہیں ھونی۔ جبکہ ھندوستانی مھاجروں اور پٹھانوں کے پاس بھی اب جواز نہیں رھنا کہ پنجابی انکے ساتھ محاذآرائی کیوں کرتے ھیں؟

پنجابیوں کی سیاسی حمایت تو 1988 سے ھی نواز شریف کو حاصل رھی ھے لیکن پنجابی قوم پرست سیاستدان بننے سے پاکستان کی 60٪ پنجابی آبادی مزید زور و شور سے نواز شریف اور مریم نواز کی پشت پر ھوگی۔ اس سے ایک تو ھندوستانی مھاجر اور پٹھان نواز شریف اور مریم نواز کی مخالفت کرنے کے لیے پنجابیوں کو ورغلا نہیں پائیں گے۔ دوسرا پنجابی قوم پرست سیاستدان ھونے کی وجہ سے سندھی اور بلوچ قومیں بھی نواز شریف اور مریم نواز کے دائیں اور بائیں کھڑی ھو جائیں گی۔ پنجابی قوم پرست سیاستدان بننے کے بعد سندھیوں اور بلوچوں کو اعتماد میں لینے سے پھر نواز شریف اور مریم نواز ' پاکستان کی سطح کے مظبوط سیاسی لیڈر ھی نہیں ھونگے بلکہ طاقتور وزیرِ اعظم بھی ھونگے۔ کیونکہ ھندوستانی مھاجر اور پٹھان پھر نہ تو پنجابیوں ' سندھیوں اور بلوچوں کو نواز شریف اور مریم نواز کیخلاف ورغلا پائیں گے۔ نہ سازشیں کر پائیں گے اور نہ تذلیل اور توھین کرنے کے قابل رھیں گے۔

ججوں ' جرنیلوں ' جرنلسٹوں کو سیاست میں ملوث ھونے سے روکا جائے۔

سیاست بھی شطرنج کی طرح کا ایک کھیل ھے۔ جب سیاستدان صحیح چالیں نہ چلے تو کھیل خراب کر بیٹھتا ھے۔ نواز شریف نے بین الاقوامی ' قومی ' صوبائی سیاسی چالیں چلنے میں بڑی غلطیاں کیں اور اپنے مھروں کا خیال بھی نہیں رکھا۔ اس لیے وزاتِ عظمیٰ سے ھاتھ دھونے کے بعد جیل بھی جانا پڑا۔

نواز شریف کے جیل جانے کے باوجود سیاست کا کھیل تو جاری رھنا ھے۔ نواز شریف کو اب نئی سیاسی بازی کی چالیں سوچنا پڑیں گی۔ لیکن حالات بتا رھے ھیں کہ؛ سیاست کے کھیل میں ججوں ' جرنیلوں اور جرنلسٹوں کو بھی نواز شریف کے خلاف استعمال کیا گیا۔

عوام میں تو نواز شریف کی مقبلولیت کا مقابلہ کرنے کی پاکستان کے کسی دوسرے سیاستدان میں صلاحیت نہیں ھے۔ لیکن اپنی سیاسی حمایت میں ججوں ' جرنیلوں اور جرنلسٹوں کو متحرک کرنے کی صلاحیت بھی نواز شریف میں ھے۔

لیکن نواز شریف کے ججوں ' جرنیلوں اور جرنلسٹوں کو اپنی سیاسی حمایت میں متحرک کرنے کی وجہ سے پاکستان میں عوام کے اندر سیاسی ٹکراؤ کے بعد پاکستان کے اداروں کے اندر بھی ٹکراؤ کی کیفیت بن جانی ھے۔

پاکستان اور پاکستان کے عوام کے مفاد میں بہتری اسی میں ھے کہ؛ کسی طرح پاکستان کے اداروں سے وابسطہ افراد کو پاکستان کی سیاست میں ملوث ھونے سے روکنے کے اقدامات کر لیے جائیں۔ خاص طور پر جج ' جرنیل اور جرنلسٹ اپنے اپنے پیشہ ورانہ فرائض پر دھیان دیں اور سیاستدانوں کے سیاسی کھیل کھیلنے کا اھتمام ججوں ' جرنیلوں اور جرنلسٹوں کو سیاست میں ملوث کیے بغیرھونا چاھیے۔

Monday 16 July 2018

قوم کی حالت لوگوں کی عادتوں کے مطابق ھوتی ھے۔

إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ (13:11)
الله کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ ان عادتوں کو نہ بدلے جو اس میں ھیں۔ (11-13)

زوال پذیر قوموں میں زیادہ تر لوگوں کی خواھش ھوتی ھے کہ انکے پاس پیسہ ھو اور پاور ھو تاکہ لوگ انکے آگے پیچھے پھریں اور انکے سامنے جی جی کریں۔ کیونکہ زیادہ تر لوگوں کی عادت ھوتی ھے کہ وہ پیسے والے اور پاور والے لوگوں کو اھمیت دیتے ھیں۔ وہ پیسے والے لوگوں کے آگے پیچھے پھرتے ھیں اور پاور والے لوگوں کے آگے جی جی کرتے ھیں۔

لوگوں کے پیسے والے لوگوں کے آگے پیچھے پھرنے کی وجہ سے پھر سیاست بھی پیسے والے لوگ ھی کرتے ھیں۔ اس لیے حکومت میں بھی پھر زیادہ تر پیسے والے لوگ آجاتے ھیں۔ جب ان پیسے والے لوگوں کو حکومت کی پاور بھی مل جاتی ھے تو پھر لوگ انکے آگے پیچھے پھرنے کے ساتھ ساتھ انکے سامنے جی جی بھی کرنے لگ جاتے ھیں۔

زوال پذیر قوموں میں علم والے لوگ بھی ھوتے ھیں۔ اگر لوگ پیسے کے بجائے علم والے لوگوں کی طرف دھیان کرنا شروع کردیں تو پھر لوگ علم والے لوگوں کی عزت کرنا شروع کردیتے ھیں۔ جسکی وجہ سے لوگوں میں پیسے والے لوگوں کی اھمیت کم ھوجاتی ھے۔ اس لیے لوگ پیسے والے لوگوں کے آگے پیچھے پھرنے کے بجائے علم والے لوگوں کے آگے پیچھے پھرنا شروع کردیتے ھیں۔ اس کی وجہ سے پیسے والے لوگ سیاست کرکے حکومت کی پاور بھی حاصل نہیں کر پاتے۔ جسکی وجہ سے پھر لوگ نہ صرف پیسے والے لوگوں کے آگے پیچھے نہیں پھرتے بلکہ انکے سامنے جی جی بھی نہیں کرتے۔

لوگوں کے علم والے لوگوں کی طرف دھیان دینے کی وجہ سے ' علم والے لوگوں کو عزت دینے کی وجہ سے ' علم والے لوگوں کے آگے پیچھے پھرنے کی وجہ سے ' علم والے لوگ سیاست بھی کرنا شروع کردیتے ھیں۔ جس کی وجہ سے حکومت میں بھی علم والے لوگ آجاتے ھیں۔ جب ان علم والے لوگوں کو حکومت کی پاور بھی مل جاتی ھے تو پھر عام لوگ بھی پاور والے لوگوں کے آگے جی جی کرنے کی عادی ھونے کی وجہ سے ان علم والے لوگوں کے آگے جی جی کرنا شروع کردیتے ھیں۔ جب کہ الله قوم کی حالت بدلنے کے لیے قوم کو زوال سے نکالنا شروع کردیتا ھے اور عروج دینا شروع کردیتا ھے۔ اس لیے علم والے لوگوں کے حکومت کرنے کی وجہ سے ملک ترقی کرنا شروع کردیتے ھیں اور قوم خوشحال ھونا شروع ھوجاتی ھے۔

قَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا قَالُوَاْ أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاء وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (2:247)

ان سے ان کے نبی نے کہا کہ؛ الله نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے۔ وہ بولے کہ؛ وہ ہم پر بادشاہ کیونکر ہوسکتا ہے؟ جبکہ ہم اس سے زیادہ بادشاہی کے حقدار ہیں۔ کیونکہ اسے مالی صلاحیت نہیں دی گئی ہے۔ نبی نے کہا کہ؛ الله نے تم پر اسے منتخب کرلیا ہے اور اس کو علم میں فراوانی اور جسمانی طاقت زیادہ عطا کی ہے اور الله اپنا ملک جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اللہ وَاسِعٌ عَلِيمٌ  ہے۔(247-2)

Sunday 15 July 2018

جاگ میرے پنجاب کہ پاکستان چلا

مضمون کی ابتدا حبیب جالب کے ان اشعار سے کرنا ضروری ھے؛

جاگ میرے پنجاب کہ پاکستان چلا
ٹوٹ چلے سب خواب کہ پاکستان چلا

سندھ بلوچستان تو کب سے روتے ھیں
اور اھلِ پنجاب ابھی تک سوتے ھیں

جن کو ذات کا غم ھے کب وہ مانے ھیں
بے بس لوگوں پر بندوقیں تانے ھیں

آنکھیں ھیں پر آب کہ پاکستان چلا
جاگ میرے پنجاب کہ پاکستاں چلا

پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ھے اور پاکستان کی سب سے بڑی قوم پنجابی ھے۔ پنجابی قوم کی اکثریت چونکہ ذراعت پیشہ ھے۔ اس لیے پنجابی قوم کی بڑی برادریوں ارائیں ' اعوان ' راجپوت ' جٹ ' گجر کی اکثریت پنجاب کے دیہی علاقوں اور چھوٹے چھوٹے شھروں میں رھتی ھے۔ زیادہ تر ذراعت اور مال مویشیوں کے پیشے سے وابسطہ ھے یا پھر نوکریاں اور چھوٹا موٹا کاروبار کرتی ھے۔ اس لیے ان میں بین الاقوامی یا قومی تو کیا صوبائی سطح کا بھی سیاسی شعور نہیں ھے۔ صرف مقامی سطح کا سیاسی شعور ھے۔ ان برادریوں کی دلچسپی بھی قومی یا صوبائی کے بجائے مقامی سیاست میں زیادہ ھوتی ھے۔ اس لیے برادریوں کی بنیاد پر آپس میں ایک دوسرے کی ٹانگیں بھی کھینچتی رھتی ھیں۔

جب کہ پنجاب کے بڑے بڑے شھروں میں پنجابی قوم کی شیخ اور کشمیری برادریاں بڑی تعدا میں ھیں۔ پنجابی قوم کی بڑی برادریاں ارائیں ' اعوان ' راجپوت ' جٹ ' گجر کی کثیر تعداد ایک تو دیہی علاقوں سے جاکر شھروں میں آباد ھوئی ھیں یا اب بھی آباد ھورھی ھیں اور دوسرا آپس کے برادری کے تنازعات کا شکار رھتی ھیں۔ اس لیے بڑے بڑے شھروں پر قبضہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا ھے۔ جو کہ پنجاب کے بڑے بڑے شھروں میں سیاست ' صحافت ' سرکاری دفتروں ' پرائیویٹ دفتروں ' اسکولوں ‘ کالجوں ‘ یونیورسٹیوں ‘ مدرسوں اور مذھبی تنظیموں پر بھی کنٹرول رکھتے ھیں اور پنجاب سے اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی میں جاکر وھاں بھی کنٹرول رکھتے ھیں۔ اسی لیے صوبائی ھی نہیں بلکہ قومی سیاست میں بھی دلچسپی لیتے رھتے ھیں۔ پنجابیوں کی ذھن سازی اور پنجاب کی پالیسی میکنگ کرنے میں بھی ان کی اجارہ داری ھے۔

ارائیں ‘ اعوان ‘ جٹ ‘ راجپوت ‘ گجر ’ کشمیری اور شیخ برادریاں جب تک صوبائی ھی نہیں بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح کا بھی سیاسی شعور حاصل نہیں کرتیں اور پنجاب کے بڑے بڑے شھروں میں سیاست ' صحافت ' سرکاری دفتروں ' پرائیویٹ دفتروں ' اسکولوں ‘ کالجوں ‘ یونیورسٹیوں ‘ مدرسوں ' مذھبی تنظیموں اور اسٹیبلشمنٹ و بیوروکریسی میں اردو بولنے والے ھندوستانیوں کا کنٹرول ختم کرکے اپنا کنٹرول قائم کرکے پنجاب کے عوام کی ذھن سازی اور پنجاب کی پالیسی میکنگ اپنے مزاج اور اپنے مفاد کے مطابق کرنا شروع نہیں کرتیں۔ اس وقت تک اسٹیبلشمنٹ میں اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی بالادستی قائم رھنی ھے۔

اسٹیبلشمنٹ کے اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ پاکستان کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ھیں۔ کیونکہ اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ‘ صحافیوں ‘ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا کام پاکستان کے بننے سے لیکر ھی امریکہ ' برطانیا اور ھندوستان کی دلالی کرنا رھا ھے اور اب بھی کر رھے ھیں جبکہ اسلام اور پاکستان کے نعرے لگا لگا کر پنجاب اور پنجابی قوم کو بیواقوف بھی بناتے رھے ھیں۔ حالانکہ نہ یہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ھیں اور نہ پاکستان کی تعمیر ' ترقی ' خوشحالی اور سلامتی سے ان کو دلچسپی ھے۔

پاکستان کے قیام سے لیکر پنجابی عوام اور پنجابی سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی نظریاتی تربیت اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ اپنے مزاج اور مفاد کے مطابق کرتے رھے ھیں۔ یہی وجہ ھے کہ پاکستان کے قیام کے 70 سال بعد بھی پنجابی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ اپنی زبان پنجابی کا احترام کرنے کے بجائے اترپردیش کی زبان اردو کے اسیر ھیں۔ اپنی پنجابی ثقافت کو فروغ دینے کے بجائے گنگا جمنا کی ثقافت کے زیرِ اثر ھیں۔ اپنی پنجابی تہذیب پر فخر کرنے کے بجائے لکھنو کی تہذیب کے پیرو کار ھیں۔

پنجابی عوام تو اب اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی طرف سے کی جانے والی نظریاتی تربیت سے نجات حاصل کرنے لگے ھیں لیکن پنجابی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ ابھی تک انکے چنگل میں پھنسے ھوئے ھیں۔ اس لیے پنجابی سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو جسمانی طور پر پنجابی کہا جاسکتا ھے لیکن ذھنی طور پر " اترپردیشی " بنے ھوئے ھیں۔

جب تک پنجابی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی طرف سے کی جانے والی نظریاتی تربیت کے چنگل سے خود کو نہیں نکالتے۔ اس وقت تک پنجابی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ پاکستان کی سندھی ' بلوچ ' پٹھان عوام تو کیا پنجابی عوام کے مزاج اور مفاد کے مطابق بھی امور انجام نہیں دے پائیں گے۔ سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے پاکستان کی عوام کے مزاج اور مفاد کے مطابق امور انجام نہ دینے کہ وجہ سے بنگالی قوم نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف محاذآرائی کرکے خود کو پاکستان سے الگ کرلیا۔ جبکہ سندھی ' بلوچ اور ُپٹھان اسٹیبلشمنٹ سے ناراض رھنے لگے لیکن اب پنجابیوں نے بھی اسٹیبلشمنٹ کے رویہ پر تنقید اور تشویش کرنا شروع کردی ھے۔

صوبائی اور مقامی سیاست ' صحافت اور سرکاری نوکریوں تک محدود سندھی ' بلوچ اور پٹھان گوکہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف محاذآرائی کرتے رھے ھیں لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ پنجابیوں کی بھی نظریاتی تربیت اردو بولنے والی ھندوستانیوں کے ھاتھوں ھونے کی وجہ سے سندھی ' بلوچ اور پٹھان کا ٹکراؤ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ پنجابیوں کے ساتھ بھی ھوتا رھا۔ جس کی وجہ سے اردو بولنے والی ھندوستانی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی قومی اور بین الاقوامی سیاست ' صحافت اور سرکاری نوکریوں میں اپنی بالادستی قائم کرتی رھی۔ سندھی ' بلوچ اور پٹھان کو نہ تو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بننے کا موقعہ ملا اور نہ پنجابیوں کے ساتھ سیاسی اور سماجی مراسم بہتر ھوسکے۔ بلکہ پنجابی خود بھی اسٹیبلشمنٹ کے استحصال کا شکار ھونا شروع ھوگئے۔

پنجابی قوم کو اسٹیبلشمنٹ کے استحصال سے بچانے اور پاکستان کی اصل قوموں پنجابی ' سندھی ' بلوچ اور پٹھان کے آپس میں بہتر سیاسی اور سماجی مراسم کے لیے ضروری ھے کہ؛ پنجابی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ خود کو اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی طرف سے کی جانے والی نظریاتی تربیت سے نجات حاصل کریں۔ پاکستان کے قیام سے لیکر چونکہ اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی اسٹیبلشمنٹ پر بالادستی رھی ھے اور اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ‘ صحافیوں ‘ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا کام امریکہ ' برطانیا اور ھندوستان کی دلالی کرنا رھا ھے اور اب بھی کر رھے ھیں۔ اس لیے پنجابی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ آسانی کے ساتھ اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی بالادستی سے نجات حاصل نہیں کر سکیں گے۔ لیکن مقامی سیاست ' صحافت اور سرکاری نوکریاں کرنے والے سندھیوں ' بلوچوں اور پٹھانوں کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائیوں اور پنجابیوں کی اسٹیبلشمنٹ کے رویہ پر تنقید اور تشویش کے بعد اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ؛ پنجابی  سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی  نظریاتی تربیت سے نجات حاصل کرکے اسٹیبلشمنٹ پر انکی بالادستی کو ختم کروائیں۔ تاکہ پاکستان میں سماجی استحکام پیدا ھوسکے ' سیاسی افراتفری ختم کی جاسکے ' انتظامی کارکردگی بہتر بنائی جاسکے اور پاکستان کو معاشی ترقی کے راستے پر گامزن کیا جا سکے۔

پٹھان ' بلوچ اور مھاجر کے ظلم اور زیادتی سے نجات ضروری ھے۔

پنجابی پہلے خود کو پاکستانی کہلواتا تھا۔ جبکہ پٹھان خود کو پٹھان ' بلوچ خود کو بلوچ اور مھاجر خود کو مھاجر کہلواتے تھے۔ جبکہ پنجاب ' پنجابی اور پاکستان کے خلاف سازشیں بھی کرتے تھے۔

(سماٹ ' ھندکو ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی برادریوں کا ذکر نہیں ھے کیونکہ مسئلہ پٹھان ' بلوچ ' مھاجر اور پنجابیوں کے درمیان ھے۔ پنجابیوں کے اور سماٹ ' ھندکو ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی کے آپس کے مراسم دوستانہ ھیں)۔

اب پنجابی نے خود کو پنجابی کہلوانا شروع کر دیا ھے۔ پنجابی صرف پنجاب کی ھی سب سے بڑی آبادی نہیں ھیں۔ بلکہ خیبر پختونخواہ کی دوسری بڑی آبادی ' بلوچستان کے پختون علاقے کی دوسری بڑی آبادی ' بلوچستان کے بلوچ علاقے کی دوسری بڑی آبادی ' سندھ کی دوسری بڑی آبادی ' کراچی کی دوسری بڑی آبادی بھی پنجابی ھی ھیں۔

اس لیے پٹھان ' بلوچ اور مھاجر کے لیے بہتر ھے کہ پاکستان کو اب پنجابیوں کا ھی ملک سمجھنا شروع کردیں۔ پنجابیوں کے اس ملک پاکستان میں سماٹ ' ھندکو ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی برادریوں کے ساتھ پنجابیوں کے دوستانہ مراسم ھیں۔ اس لیے پنجابی اب انہیں پٹھان ' بلوچ اور مھاجر کے ظلم اور زیادتی سے بھی بچائیں گے۔

Saturday 14 July 2018

اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آخری لڑائی پنجابی لڑیں گے۔

اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آخری لڑائی پنجاب سے لڑی جائے گی۔ یہ الفاظ ولی خان نے 1990میں کہے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آخری لڑائی پنجاب سے لڑی جائے گی لیکن اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آخری لڑائی پنجابی عوام نہیں لڑے گی۔ البتہ اسٹیبلشمنٹ کے اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے خلاف آخری لڑائی پنجابی  سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ  لڑیں گے۔ یہ الفاظ شھباز ارائیں نے 2012 میں کہے تھے۔

پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ھے اور پاکستان کی سب سے بڑی قوم پنجابی ھے۔ پنجابی قوم کی اکثریت چونکہ ذراعت پیشہ ھے۔ اس لیے پنجابی قوم کی بڑی برادریوں ارائیں ' اعوان ' راجپوت ' جٹ ' گجر کی اکثریت پنجاب کے دیہی علاقوں اور چھوٹے چھوٹے شھروں میں رھتی ھے۔ زیادہ تر ذراعت اور مال مویشیوں کے پیشے سے وابسطہ ھے یا پھر نوکریاں اور چھوٹا موٹا کاروبار کرتی ھے۔ اس لیے ان میں بین الاقوامی یا قومی تو کیا صوبائی سطح کا بھی سیاسی شعور نہیں ھے۔ صرف مقامی سطح کا سیاسی شعور ھے۔ ان برادریوں کی دلچسپی بھی قومی یا صوبائی کے بجائے مقامی سیاست میں زیادہ ھوتی ھے۔ اس لیے آپس میں ایک دوسرے کی ٹانگیں بھی کھینچتی رھتی ھیں۔

جب کہ پنجاب کے بڑے بڑے شھروں میں پنجابی قوم کی شیخ اور کشمیری برادریاں بڑی تعدا میں ھیں۔ پنجابی قوم کی بڑی برادریاں ارائیں ' اعوان ' راجپوت ' جٹ ' گجر کی کثیر تعداد ایک تو دیہی علاقوں سے جاکر شھروں میں آباد ھوئی ھیں یا اب بھی آباد ھورھی ھیں اور دوسرا آپس کے برادری کے تنازعات کا شکار رھتی ھیں۔ اس لیے بڑے بڑے شھروں پر قبضہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا ھے۔ جو کہ پنجاب کے بڑے بڑے شھروں میں سیاست ' صحافت ' سرکاری دفتروں ' پرائیویٹ دفتروں ' اسکولوں ‘ کالجوں ‘ یونیورسٹیوں ‘ مدرسوں اور مذھبی تنظیموں پر بھی کنٹرول رکھتے ھیں اور پنجاب سے اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی میں جاکر وھاں بھی کنٹرول رکھتے ھیں۔ اسی لیے صوبائی ھی نہیں بلکہ قومی سیاست میں بھی دلچسپی لیتے رھتے ھیں۔ پنجابیوں کی ذھن سازی اور پنجاب کی پالیسی میکنگ کرنے میں بھی ان کی اجارہ داری ھے۔

ارائیں ‘ اعوان ‘ جٹ ‘ راجپوت  ‘ گجر ’ کشمیری اور شیخ برادریاں جب تک صوبائی ھی نہیں بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح کا بھی سیاسی شعور حاصل نہیں کرتیں اور پنجاب کے بڑے بڑے شھروں میں سیاست ' صحافت ' سرکاری دفتروں ' پرائیویٹ دفتروں ' اسکولوں ‘ کالجوں ‘ یونیورسٹیوں ‘ مدرسوں ' مذھبی تنظیموں اور اسٹیبلشمنٹ و بیوروکریسی میں اردو بولنے والے ھندوستانیوں کا کنٹرول ختم کرکے اپنا کنٹرول قائم کرکے پنجاب کے عوام کی ذھن سازی اور پنجاب کی پالیسی میکنگ اپنے مزاج اور اپنے مفاد کے مطابق کرنا شروع نہیں کرتیں۔ اس وقت تک اسٹیبلشمنٹ میں اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی بالادستی قائم رھنی ھے۔

اسٹیبلشمنٹ کے اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ پاکستان کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ھیں۔ کیونکہ اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ‘ صحافیوں ‘ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا کام پاکستان کے بننے سے لیکر ھی امریکہ ' برطانیا اور ھندوستان کی دلالی کرنا رھا ھے اور اب بھی کر رھے ھیں جبکہ اسلام اور پاکستان کے نعرے لگا لگا کر پنجاب اور پنجابی قوم کو بیواقوف بھی بناتے رھے ھیں۔ حالانکہ نہ یہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ھیں اور نہ پاکستان کی تعمیر ' ترقی ' خوشحالی اور سلامتی سے ان کو دلچسپی ھے۔

اس وقت چونکہ پنجاب کے دیہی علاقوں اور دیہی سندھ میں رھنے والے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی کوئی وقعت نہیں ھے۔ جبکہ کراچی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی پاکستان کی سلامتی کے اداروں نے انتظامی طور پر "کھٹیا کھڑی" کردی ھے۔ اس لیے اب صرف سیاسی اور سماجی طور پر اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی بالادستی کو ختم کرنے کی ضرورت ھے۔ جسکے لیے کراچی کے سندھیوں ' پنجابیوں ' پٹھانوں اور بلوچوں کو  کراچی کی سیاست ' صحافت اور سرکاری دفاتر پر سے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کا تسلط ختم کروانا پڑنا ھے۔

البتہ پنجاب کے بڑے بڑے شھروں میں رھنے والے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی لحاظ سے بے انتہا مظبوط اور منظم ھونے کی وجہ سے صرف پنجاب ھی نہیں بلکہ پاکستان کے قومی معاملات میں بھی بھرپور سازشیں کر رھے ھیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد سے لیکر پنجاب میں اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ‘ صحافیوں ‘ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس نے اپنی سازشوں کے لیے جماعتِ اسلامی کا پلیٹ فارم استعمال کرنا شروع کیے رکھا۔ لیکن پنجاب میں پنجابیوں کے سیکولر رحجان میں اضافے نے جماعتِ اسلامی کی افادیت کو ختم کردیا۔ جس کی وجہ سے اب پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم کو استعمال کر رھے ھیں۔ اسی لیے پنجاب کے بڑے بڑے شھروں میں پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ سپورٹ اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی حاصل ھے۔ لیکن پنجابیوں کی ن لیگ کو بھرپور سپورٹ کی وجہ سے پنجاب میں پی ٹی آئی کا سیاسی مستقبل تاریک ھے۔ جبکہ اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی سازشوں سے بھی پنجابیوں کو اب آگاہی ھونے لگی ھے۔ اس لیے پنجاب سے تعلق رکھنے والے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی طرف سے کی جانے والی سازشوں کا سلسلہ بھی اپنے انجام کو پہنچنے والا ھے۔

پاکستان کے قیام سے لیکر پاکستان اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ‘ صحافیوں ‘ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی شکارگاہ تو بنا ھی رھا۔ لیکن دنیا بھر میں پاکستانی سفارتخانے بھی اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ‘ صحافیوں ‘ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی آماجگاہ بنے رھے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کی خارخہ پالیسی ھمیشہ سے نہ صرف ناقص بلکہ پاکستان کے لیے نقصان دہ رھی۔ جب باھر کے ممالک میں زیادہ تر پنجابی رھتے ھیں تو؛ سفیر اور سفارتی عملہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کیوں؟ پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے کے لیے پاکستان کے سفارتخانوں سے خاص طور پر یورپ ' امریکہ اور متحدہ عرب امارات میں رھنے والے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی سفارتی سطح پر سرپرستی کیوں ھونے دی جا رھی ھے؟

اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ‘ صحافیوں ‘ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی سازشوں سے مکمل نجات کے لیے اب پاکستانی سفارتخانوں پر سے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کا تسلط ختم کروانے کی ضرورت ھے۔ خاص طور یورپ ' امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے سفارتخانوں سے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کا تسلط فوری طور پر ختم کروانے کی ضرورت ھے۔ کیونکہ اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ‘ صحافیوں ‘ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی سازشوں کے اس وقت سب سے بڑے ٹھکانے یورپ ' امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے سفارتخانے بنے ھوئے ھیں۔

سندھی ' بلوچ اور پٹھان چونکہ سفارتکاری ' صحافت ' قومی سیاست اور بیوروکریسی میں دسترس نہیں رکھتے۔ اس لیے سندھی ' بلوچ اور پٹھان صرف اپنے اپنے صوبوں میں ھی صوبائی اور مقامی سیاست ' صحافت اور سرکاری نوکریاں کرتے ھیں لیکن اردو بولنے والے ھندوستانی پاکستان کے قیام سے لیکر ھی پاکستان کی قومی اور بین الاقوامی سیاست ' صحافت اور سرکاری نوکریوں میں اپنی بالادستی قائم کیے ھوئے ھیں۔ جبکہ پاکستان کے قیام سے لیکر پنجابی عوام اور پنجابی سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی نظریاتی تربیت بھی اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ اپنے مزاج اور مفاد کے مطابق کرتے رھے ھیں۔ یہی وجہ ھے کہ پاکستان کے قیام کے 70 سال بعد بھی پنجابی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ اپنی زبان پنجابی کا احترام کرنے کے بجائے اترپردیش کی زبان اردو کے اسیر ھیں۔ اپنی پنجابی ثقافت کو فروغ دینے کے بجائے گنگا جمنا کی ثقافت کے زیرِ اثر ھیں۔ اپنی پنجابی تہذیب پر فخر کرنے کے بجائے لکھنو کی تہذیب کے پیرو کار ھیں۔

پنجابی عوام تو اب اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی طرف سے کی جانے والی نظریاتی تربیت سے نجات حاصل کرنے لگے ھیں لیکن پنجابی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ ابھی تک انکے چنگل میں پھنسے ھوئے ھیں۔ اس لیے پاکستان میں اصل اسٹیبلشمنٹ ھمیشہ سے اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ رھے ھیں جبکہ پنجابی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ ھمیشہ سے انکے ذھنی غلام اور آلہ کار رھے ھیں۔ اس لیے پنجابی سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو جسمانی طور پر پنجابی کہا جاسکتا ھے لیکن ذھنی طور پر " اترپردیشی " بنے ھوئے ھیں۔

جب تک پنجابی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی طرف سے کی جانے والی نظریاتی تربیت کے چنگل سے خود کو نہیں نکالتے۔ اس وقت تک پنجابی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ پاکستان کی سندھی ' بلوچ ' پٹھان عوام تو کیا پنجابی عوام کے مزاج اور مفاد کے مطابق بھی امور انجام نہیں دے پائیں گے۔ سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے پاکستان کی عوام کے مزاج اور مفاد کے مطابق امور انجام نہ دینے کہ وجہ سے بنگالی قوم نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف محاذآرائی کرکے خود کو پاکستان سے الگ کرلیا۔ جبکہ سندھی ' بلوچ اور ُپٹھان اسٹیبلشمنٹ سے ناراض رھنے لگے لیکن اب پنجابیوں نے بھی اسٹیبلشمنٹ کے رویہ پر تنقید اور تشویش کرنا شروع کردی ھے۔

صوبائی اور مقامی سیاست ' صحافت اور سرکاری نوکریوں تک محدود سندھی ' بلوچ اور پٹھان گوکہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف محاذآرائی کرتے رھے ھیں لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ پنجابیوں کی بھی نظریاتی تربیت اردو بولنے والی ھندوستانیوں کے ھاتھوں ھونے کی وجہ سے سندھی ' بلوچ اور پٹھان کا ٹکراؤ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ پنجابیوں کے ساتھ بھی ھوتا رھا۔ جس کی وجہ سے اردو بولنے والی ھندوستانی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی قومی اور بین الاقوامی سیاست ' صحافت اور سرکاری نوکریوں میں اپنی بالادستی قائم کرتی رھی۔ سندھی ' بلوچ اور پٹھان کو نہ تو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بننے کا موقعہ ملا اور نہ پنجابیوں کے ساتھ سیاسی اور سماجی مراسم بہتر ھوسکے۔ بلکہ پنجابی خود بھی اسٹیبلشمنٹ کے استحصال کا شکار ھونا شروع ھوگئے۔

پنجابی قوم کو اسٹیبلشمنٹ کے استحصال سے بچانے اور پاکستان کی اصل قوموں پنجابی ' سندھی ' بلوچ اور پٹھان کے آپس میں بہتر سیاسی اور سماجی مراسم کے لیے ضروری ھے کہ؛ پنجابی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ خود کو اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی طرف سے کی جانے والی نظریاتی تربیت سے نجات حاصل کریں۔ پاکستان کے قیام سے لیکر چونکہ اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی اسٹیبلشمنٹ پر بالادستی رھی ھے اور اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ‘ صحافیوں ‘ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا کام امریکہ ' برطانیا اور ھندوستان کی دلالی کرنا رھا ھے اور اب بھی کر رھے ھیں۔ اس لیے پنجابی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ آسانی کے ساتھ اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی بالادستی سے نجات حاصل نہیں کر سکیں گے۔ لیکن مقامی سیاست ' صحافت اور سرکاری نوکریاں کرنے والے سندھیوں ' بلوچوں اور پٹھانوں کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائیوں اور پنجابیوں کی اسٹیبلشمنٹ کے رویہ پر تنقید اور تشویش کے بعد اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ؛ پنجابی  سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو اسٹیبلشمنٹ کے اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے خلاف آخری لڑائی لڑنی پڑے گی۔ تاکہ پاکستان میں سماجی استحکام پیدا ھوسکے ' سیاسی افراتفری ختم کی جاسکے ' انتظامی کارکردگی بہتر بنائی جاسکے اور پاکستان کو معاشی ترقی کے راستے پر گامزن کیا جا سکے۔

نواز شریف سے نجات کا طریقہ کیا ھے؟

نواز شریف کو جیل میں قید رکھنے سے نواز شریف کی سیاسی اھمیت کم نہیں ھونی بلکہ نواز شریف کی عوامی مقبولیت میں مزید اضافہ ھونا شروع ھو جانا ھے۔ نواز شریف سے نجات کا طریقہ سیاسی طرزِ عمل سے عوام میں نواز شریف سے زیادہ اھمیت اور مقبولیت حاصل کر پانے والی شخصیت کو سیاست کے میدان میں لانا ھی ھوسکتا ھے۔

عوام کی سیاسی تسکین کے لیے کسی موثر سیاسی نظریہ کا ھونا اس شخصیت کی سیاسی جماعت کی پہلی خوبی ھونا ضروری ھے۔ عوام کو لسانی ' علاقائی اور فرقہ ورانہ تنازعات سے نکال کر ان میں سماجی ھم آھنگی پیدا کرنے کی صلاحیت دوسری خوبی ' عوام کو انتظامی انصاف فراھم کرنا تیسری خوبی ' پاکستان کی معیشت کو مظبوط کرکے عوام کو روزگار کے مواقع فراھم کرنا چوتھی خوبی اور پاکستان میں ترقیاتی معاملات کو بہتر طور پر انجام دے کر عوام کو سہولیات فراھم کرنا پانچویں خوبی ھونا ضروری ھے۔

اس شخصیت کے لیے ان امور پر عمل درآمد کروا پانے والی سیاسی شخصیات کو تلاش کرکے اپنی سیاسی جماعت کا حصہ بنا کر قومی ' صوبائی اور مقامی سطح پر ان سے خدمات انجام دلوانے ' پنجابی ' سندھی ' مھاجر ' پٹھان ' بلوچ اشرافیہ سے نبر آزما ھونے اور پنجابی ' سندھی ' مھاجر ' پٹھان عوام کی نفسیات ' مزاج ' مفادات اور مسائل سے آگاہ ھونے اور ان سے رابط کرکے اعتماد میں لے پانے کی صلاحیت ھونی چاھیے۔

جبکہ اس شخصیت کو علمی لحاظ سے پاکستان سے وابسطہ بین الاقوامی معاملات ' پاکستان کے قومی مفادات اور صوبوں کے مسائل سے آگاہی ھونی چاھیے۔ کیا پاکستان کی 21 کروڑ عوام میں ایسی شخصیات موجود ھیں؟