Monday 10 April 2017

دریا کے پانی کے لئے کوئی بین الاقوامی قانون موجود نہیں ھے۔

سندھیوں کو سندھی سیاستدانوں نے غلط بتایا ھے۔ سندھی صحافیوں نے غلط پڑھایا ھے۔ سندھی دانشوروں نے غلط سمجھایا ھے کہ؛ دریا کے پانی یا دریا کے نچلے حصے کے لئے بین الاقوامی قانون ھے۔ جبکہ دریا کے پانی یا دریا کے نچلے حصے کے لئے کوئی بین الاقوامی قانون موجود نہیں ھے۔ دریا کے پانی کو اب بھی جس ملک میں دریا ھو اس ملک کے اپنے بنائے گئے قانون کے مطابق کنٹرول کیا جاتا ھے۔ البتہ بین الاقوامی دریاؤں کے پانی کے استعمال پرتجویز کیے گئے قواعد جیسا کہ ھیلسنکی قواعد اور اکیسویں  صدی میں پانی کی حفاظت پر ھیگ اعلامیہ کی تجاویز موجود ھیں۔ لیکن یہ قوائد اور تجاویز ابھی تک قانونی شکل اختیار نہیں کر سکیں ھیں۔ مسئلہ یہ ھے کہ سندھیوں کو ایک تو قوائد اور قانون میں فرق سمجھ نہیں آرھا اور دوسرا یہ سمجھ نہیں آرھا کہ تجاویز کوئی معاھدہ نہیں ھوتیں بلکہ باھمی معاھدہ کرنے کے لیے مشورے ھوتے ھیں۔

عالمی سطح پر 263 بین السرحدی دریا بیسن موجود ھیں۔ ان میں سے بہت سی ریاستوں جن میں بین السرحدی دریائی بیسن ھیں اور نچلے حصے کی  ریاستوں کے درمیان ابھی تک اشتراک یا مشترکہ طور پر پانی کے وسائل کا انتظام کرنے کے لئے کسی طرح کے معاھدے نہیں ھیں۔ عالمی سطح پر بین السرحدی پانی کے لیے کسی بین الاقوامی معاھدہ کی پابندی کرنا بھی لازمی نہیں ھے۔ بہر حال گزشتہ صدی کے دوران مضبوط روایتی تجاویز تیار کی گئی ھیں۔ 1911 میں بین الاقوامی قانون کے ادارے نے ' علاوہ دوسرے کاموں کے بین السرحدی پانی کے استعمال کے سلسلے میں ' بین الاقوامی ریگولیشن پر میڈرڈ اعلامیہ شائع کیا۔ اس اعلامیہ میں دریا کے بہاؤ کی یکطرفہ تبدیلی سے پرھیز کرنے اور مشترکہ واٹر کمیشن بنانے کے لئے سفارش کی گئی تھی۔

1966 میں بین الاقوامی قانون کی ایسوسی ایشن نے بین الاقوامی دریاؤں کے پانی کے استعمال کے لیے ھیلسنکی قواعد تشکیل دیے۔ ھیلسنکی قواعد کے بنیادی اصولوں کا تعلق مشترکہ ڈیموں کے "منصفانہ استعمال" اور اس عزم کے اظہار سے ھے کہ مشترکہ فریق ریاستیں ایک دوسرے کو “بڑا نقصان” نہیں پہنچائیں گے۔ یہ اصول دوسرے کاموں کے علاوہ اقوام متحدہ کے بین السرحدی پانی کے قانون کے بارے میں کنونشن کے بھی بنیادی اصول ھیں۔ جن کو 25 سال سے زیادہ کے عرصے کی تیاری کے بعد 1997 میں جنرل اسمبلی کی طرف سے منظور کیا گیا تھا۔ اس میں مشترکہ ڈیموں کے "منصفانہ اور معقول استعمال" اور مشترکہ فریق ریاستوں کے ایک دوسرے کو "بڑا نقصان” نہ پہنچانے کے وعدے کے اصولوں کی حمایت  کے علاوہ کنونشن میں ڈیٹا اور معلومات کے تبادلے ' مشترکہ پانی کے ذخیروں کی حفاظت کرنے اور محفوظ بنانے ' مشترکہ انتظام کا بندوبست کرنے اور تنازعات کا تصفیہ کرنے کا طریقہ کار بھی شامل ھے۔ تاہم یہ اب بھی نافظ العمل نہیں ھے۔ کیونکہ توثیق کے لئے 35 ملکوں کا ضروری کورم ابھی تک دستیاب نہیں ھو سکا۔

کنونشن پر دستخط کرنے سے ریاستوں کی ھچکچاھٹ کی ایک وجہ بنیادی اصولوں میں مخصوص ابہام ھیں۔ جوکہ تضادات کا باعث بن سکتے ھیں۔ دریا کے اوپر کے حصے کی ریاست پہلے استعمال نہ کیے جانے والے آبی وسائل کے “مناسب حصے” پر اپنے حق کا دعویٰ کر سکتی ھے۔ جوکہ دریا کے نچلے حصے کی ریاست کے لیے معاشی نقصان کا سبب بن سکتا ھے جو طویل وقت سے ان آبی وسائل کا استعمال کر رھی ھو۔ کس کے حقوق اور کون سے اصول کو ترجیح ھو؟ ایک فریق کا نقصان کیسے قبول کیا جائے؟ اہم نقصان کے لیے کیا حد مقرر کی جائے؟ کنونشن میں ان سوالات کے تفصیل کے ساتھ جوابات نہیں دیے گئے۔ بلکہ صرف عام اصولوں اور معیار کے لئے تفصیل فراھم کی گئی اور یہ دانشمندی بھی ھے۔ کیونکہ ان سوالات کے عمومی جوابات دینے کے مقابلے میں خاص طور سے ھر بیسن کے لئے الگ الگ جواب دینا زیادہ مناسب ھے۔ اس سلسلے میں کنونشن مشترکہ اصولوں کا ایک فریم ورک فراھم کرتا ھے۔ جس کے مطابق نہ کہ تمام دریائی طاس کے لئے ایک بلیو پرنٹ تشکیل دیا جائے بلکہ علاقائی معاھدوں کو مذاکرات کے ذریعے طے کیا جا ئے۔

لیکن یورپی اور وسطی ایشیائی خطے کے لئے ایک پابند علاقائی کنونشن ھے۔ جو دو اصولوں کے لیے اراکین کو پابند کرتا ھے اور مخصوص دریائی طاس میں عمل درآمد کے لیے ایک فریم ورک اور ھدایات فراھم کرتا ھے؛ بین السرحدی پانی کے ڈیموں اور بین الاقوامی جھیلوں پر یونیسف کا 1992 کنونشن: پہلا یہ کہ کنونشن اراکین پر زور دیتا ھے کہ بین السرحدی پانی کو روکنے اور بین السرحدی پانی کے اثرات کو کم کرنے کے بجائے ایک معقول اور منصفانہ انداز میں بین السرحدی پانی کو استعمال کرنے اور اس کے لیے پائیدار انتظام کو یقینی بنانے کے لیے اسی بین السرحدی پانیوں کی سرحد سے ملحق پارٹیوں کے لیے مخصوص معاھدوں میں داخل ھونے کے لیے مشترکہ اداروں کے قیام کے لیے تعاون کریں۔ دوسرا یہ کہ کنونشن نگرانی ' تحقیق ' ترقی ' مشاورت ' انتباہ ' الارم کے سسٹم ' باھمی امداد اور معلومات کے تبادلے جبکہ معلومات تک عوام کی رسائی کو بھی اھم قرار دیتا ھے۔ وسطی ایشیا میں قازقستان اور ازبکستان نے اس پر دستخط کیے ھیں۔ دوسری ریاستیں گو کہ باقائدہ طور پر رکن نہیں ھیں لیکن ان سرگرمیوں میں سے کچھ میں حصہ لے رھی ھیں۔ اس لیے کنونشن ابھی تک صرف یونیسف کے ممالک پر لاگو ھے لیکن افغانستان ' ایران یا چین پر نہیں کیونکہ دوسرے ممالک کو شامل کرنے کے لیے ایک ترمیم کی ضرورت ھے۔ جیسے ھی اس میں ترمیم ھوتی ھے ھیلسنکی کنونشن بھی وسطی ایشیا اور اس کے ھمسایہ ملکوں کے درمیان پانی کے معاملات پر تعاون کے لئے ایک بنیاد بن سکتا ھے۔

No comments:

Post a Comment