Saturday, 25 September 2021

پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت PMLN کا PNF کے ساتھ موازنہ

سیاست ایک کھیل ھے۔ سیاست کے کھیل میں سیاسی کھلاڑی کو معلوم ھونا چاھیے کہ؛ 

1۔ سماجی ' انتظامی ' معاشی ' اقتصادی مسائل کیا ھیں؟ 

2۔ سماجی ' انتظامی ' معاشی ' اقتصادی مسائل کی وجوھات کیا ھیں؟ 

3۔ سماجی ' انتظامی ' معاشی ' اقتصادی مسائل کو حل کیسے کیا جاسکتا ھے؟

سیاست کا کھیل کھیلنے کے لیے سماجی ' انتظامی ' معاشی ' اقتصادی مسائل کو "بنیاد" بنا کر "بیانیہ" بنانا ضروری ھوا کرتا ھے۔ جبکہ "بیانیہ" کو عملی شکل دینے کے لیے "منظم جماعت" کا ھونا ضروری ھوتا ھے۔

پاکستان میں تین بڑی سیاسی جماعتیں PMLN, PTI, PPP ھیں۔ PMLN چونکہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ھے۔ اس لیے PMLN کا PNF کے ساتھ موازنہ کرکے PMLN کے "منظم جماعت" یا "غیر منظم جماعت" ھونے کا جائزہ لیتے ھیں۔

جماعت تشکیل دینا مکان بنانے کی طرح ھے۔ جب مکان بنانا ھو تو مشکل مراحل 4 ھوتے ھیں؛

1۔ پہلا "پلاٹ" حاصل کرنا ھوتا ھے۔ 

2۔ دوسرا "بنیاد" کھڑی کرنا ھوتا ھے۔ 

3۔ تیسرا "دیواریں" کھڑی کرنا ھوتا ھے۔

4۔ چوتھا "چھت" ڈالنا ھوتا ھے۔

اس کے بعد جلد یا بدیر مکان کا؛

1۔ "پلستر" بھی ھو جاتا ھے۔ 

2۔ "فرش" بھی ڈل جاتا ھے۔ 

3۔ "دروازے" بھی لگ جاتے ھیں۔

اس وقت تک PMLN کی صورتحال کیا ھے؟ جبکہ PNF کی تو اس وقت تک کی صورتحال یہ ھے کہ؛

1۔ PNF کا "پلاٹ" یعنی "بیانیہ" باقاعدہ 2000 سے زیادہ مضامین اور "منشور و دستور" کی شکل میں موجود ھے۔ 

پنجابی قوم کے لیے بلکہ سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی (کشمیری ' ھندکو ' ڈیرہ والی کا شمار پنجابی قوم میں ھوتا ھے) کے لیے بھی سماجی عزت ' انتظامی بالادستی ' معاشی خوشحالی ' اقتصادی ترقی کے لیے PNF کے "بیانیہ" کو صرف پنجابی قوم ھی نہیں بلکہ پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر بھی سمجھنے لگے ھیں۔

کیا نواز شریف نے سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی کے لیے نہ سہی صرف پنجابی قوم کی سماجی عزت ' انتظامی بالادستی ' معاشی خوشحالی ' اقتصادی ترقی کے لیے ھی "بیانیہ" دیا ھوا ھے؟ اگر دیا ھوا ھے تو پھر؛ کیا نواز شریف کے "بیانیہ" کی پنجابی قوم کو سمجھ آچکی ھے؟

2۔ PNF کی "بنیاد" یعنی "سینٹرل لیڈرشپ" پاکستان کے قومی ' پاکستان کے صوبوں کے صوبائی ' پاکستان کے ضلعوں کے مقامی سطح کے سماجی ' انتظامی ' معاشی ' اقتصادی مسائل ' مسائل کی وجوھات ' مسائل کے حل سے آگاہ ھے۔

کیا PMLN کی "بنیاد" یعنی "سینٹرل لیڈرشپ" پاکستان کے قومی ' پاکستان کے صوبوں کے صوبائی ' پاکستان کے ضلعوں کے مقامی سطح کے سماجی ' انتظامی ' معاشی ' اقتصادی مسائل ' مسائل کی وجوھات ' مسائل کے حل سے آگاہ ھے؟

3۔ PNF کی "دیواریں" یعنی "زونل سطح پر تنظیمی ڈھانچہ" سارے پاکستان میں 8 زونوں کے طور پر موجود ھے۔ زونوں میں آرگنائزر ' ڈپٹی آرگنائزر اور کوآرڈینیٹر ھیں۔

کیا PMLN کی "دیواریں" یعنی "زونل سطح پر تنظیمی ڈھانچہ" سارے پاکستان میں ھے؟ اگر ھے تو کیا PMLN کی زونل سطح کی لیڈرشپ صرف سرمایہ دار ھے یا PNF کی زونل سطح کی لیڈرشپ کے معیار کا سیاسی شعور اور قیادت کی صلاحیت والی بھی ھے؟

(الف)۔ PNF کا "پلاٹ" یعنی "بیانیہ" شاندار ھے۔ 

(ب)۔ PNF کی "بنیاد" یعنی "سینٹرل لیڈرشپ" لاجواب ھے۔

(پ)۔ PNF کی "دیواریں" یعنی "زونل سطح پر تنظیمی ڈھانچہ" مظبوط ھے۔

(ت)۔ اب PNF کی "چھت" یعنی "ڈسٹرکٹ لیڈرشپ" بہترین بنائی جا رھی ھے۔

لہذا PNF کی تشکیل کے مشکل مراحل گزر چکے ھیں۔ اس لیے PNF کو مکمل کرنے کے لیے؛

1۔ PNF کے پاکستان کے 100 سے زیادہ اضلاع میں 2021 میں کارکردگی ' قابلیت اور قیادت کی صلاحیت کی بنیاد پر ڈسٹرکٹ ایگزیکٹو کمیٹی کے میمبران میں سے "ڈسٹرکٹ آرگنائزر" اور "ڈپٹی ڈسٹرکٹ آرگنائزر" اور "ڈسٹرکٹ سیکشن کوآرڈینیٹر" بنائے جا رھے ھیں۔ جو کہ PNF کی "چھت" ھیں۔

کیا PMLN کی "چھت" یعنی "ڈسٹرکٹ لیڈرشپ" پاکستان کے 100 سے زیادہ اضلاع میں ھے؟ اگر ھے تو کیا PMLN کی ڈسٹرکٹ لیڈرشپ صرف سرمایہ دار ھے یا PNF کی ڈسٹرکٹ لیڈرشپ کے معیار کا سیاسی شعور اور قیادت کی صلاحیت رکھنے والی بھی ھے؟

2۔ PNF کی تحصیل کی ایگزیکٹو کمیٹی جبکہ "تحصیل آرگنائزر" اور "تحصیل ڈپٹی آرگنائزر" اور "تحصیل سیکشن کوآرڈینیٹر" 2022 میں بنائے جائیں گے۔ جو کہ سیاسی شعور اور قیادت کی صلاحیت رکھنے والے ھوں گے اور PNF کا "پلستر" ھوں گے۔

کیا PMLN کا "پلستر" یعنی "تحصیل لیڈرشپ" پاکستان کے 100 سے زیادہ اضلاع کی تحصیلوں میں ھے؟ اگر ھے تو کیا سیاسی شعور اور قیادت کی صلاحیت رکھنے والی ھے یا صرف سرمایہ دار ھے؟

3۔ PNF کی یونین کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی جبکہ "یونین کونسل آرگنائزر" اور "یونین کونسل ڈپٹی آرگنائزر" اور "یونین کونسل سیکشن کوآرڈینیٹر" 2023 میں بنائے جائیں گے۔ جو کہ سیاسی شعور اور قیادت کی صلاحیت رکھنے والے ھوں گے اور PNF کا "فرش" ھوں گے۔

کیا PMLN کا "فرش" یعنی "یونین کونسل لیڈرشپ" پاکستان کے 100 سے زیادہ اضلاع کی یونین کونسلوں میں ھے؟ اگر ھے تو کیا سیاسی شعور اور قیادت کی صلاحیت والی ھے یا صرف سرمایہ دار ھے؟

4۔ PNF پاکستان کے 100 سے زیادہ اضلاع کی ھر "یونین کونسل" میں 2023 کے آخر تک عوامی سطح پر کام شروع کرنے کے لیے  "دفاتر" قائم کرے گی۔ یہ PNF کے "دروازے" ھوں گے۔ تاکہ عوام کو PNF کے "بیانیہ" کی بنیاد پر PNF میں داخل کریں۔ انشاء اللہ

کیا PMLN کے "دروازے" یعنی "دفاتر"  پاکستان کے 100 سے زیادہ اضلاع کی ھر "یونین کونسل" میں موجود ھیں؟ اگر ھیں تو کیا "بیانیہ" کی بنیاد پر سیاسی سرگرمیوں والے ھیں یا صرف سرمایہ داروں کے ڈیروں پر ھیں؟

قحط الرجالی کے دور میں عوام کی اکثریت کس طرح کی باتیں پسند کیا کرتی ھے؟

قحط الرجالی کی وجہ سے عوام کی اکثریت سطحی ذھن رکھتی ھے۔ اس لیے عوام کی اکثریت فضول باتوں کو پسند کیا کرتی ھے۔ لہذا عوام کی اکثریت دوسرے لوگوں کی تعریف یا برائی کرنے میں لگی رھتی ھے۔ کیونکہ کم عقل لوگ دوسرے لوگوں کے بارے میں بات کیا کرتے ھیں۔

قحط الرجالی کی وجہ سے عوام میں درمیانہ ذھن رکھنے والے ضرورت سے زیادہ ھوا کرتے ھیں۔ اس لیے عوام کی بڑی تعداد بے مقصد باتوں کو پسند کیا کرتی ھے۔ لہذا عوام کی بڑی تعداد واقعات کے بارے میں بلاوجہ باتیں کرنے میں لگی رھتی ھے۔ کیونکہ درمیانی عقل والے لوگ واقعات کے بارے میں بات کیا کرتے ھیں۔ 

قحط الرجالی کی وجہ سے عوام میں اعلی ذھن رکھنے والے کم ھوا کرتے ھیں۔ اس لیے عوام کی بڑی کم تعداد بامقصد باتوں کو پسند کیا کرتی ھے۔ لہذا عوام کی بڑی کم تعداد اعلی خیالات کے بارے میں باتیں کرتی ھے۔ کیونکہ اعلی عقل والے لوگ خیالات کے بارے میں بات کرتے ھیں۔

یہ قحط الرجالی کا دور ھے۔ قحط الرجالی کے دور میں؛

1۔ سطحی ذھن ھونے کی وجہ سے سطحی باتوں کو سمجھنے کی صلاحیت ھونے کی وجہ سے عوام میں سطحی باتوں کو پسند کیا جاتا ھے۔

2۔ اعلی ذھن کم ھونے کی وجہ سے اعلی باتوں کو سمجھنے کی صلاحیت نہ ھونے کی وجہ سے عوام میں اعلی خیالات کو پسند نہیں کیا جاتا ھے۔

قحط الرجالی کا دور نہ بھی ھو تو پھر بھی عام طور پر؛ 

1۔ علم و دانش والی شخصیات سے متاثر ھونے والے کم ھوا کرتے ھیں۔ 

2۔ انتظامی اثر و رسوخ والی شخصیات سے متاثر ھونے والے زیادہ ھوا کرتے ھیں۔

3۔ مال و دولت والی شخصیات سے متاثر ھونے والے بہت زیادہ ھوا کرتے ھیں۔

کہے حسین فقیر سائیں دا - تخت نہ ملدے منگے

پاکستان کی آبادی %60 پنجابی قوم کی ھے۔ (کشمیری ' ھندکو ' ڈیرہ والی کا شمار پنجابی قوم میں ھوتا ھے)۔ جبکہ %40 سماٹ ' براھوئی ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر قوم کی ھے۔

پاکستان کے قیام سے بنگلہ دیش بننے تک تو پاکستان پر پٹھانوں ' ھندوستانی مھاجروں ' بلوچوں کی حکمرانی رھی۔ لیکن مغربی پاکستان کے پاکستان بننے کے بعد بھی؛

1۔ کیا پاکستان کی %60 آبادی پنجابی قوم کو پاکستان میں سماجی بالادستی کا حق نہ دینا انسانی وقار کو پامال کرنا نہیں ھے؟

2۔ کیا پاکستان کی %60 آبادی پنجابی قوم کو پاکستان پر حکمرانی کرنے کا حق نہ دینا جمہوری اقدار کو پامال کرنا نہیں ھے؟

کیا پاکستان کی %60 آبادی پنجابی کا حق نہیں بنتا کہ؛

1۔ پاکستان کی قومی زبان پنجابی ھو؟

2۔ پاکستان میں حکمرانی پنجابی کی ھو؟

پاکستان میں حکمرانی کی اس وقت بھی صورتحال یہ ھے کہ؛

01۔ پاکستان کا صدر ھندوستانی مھاجر ھے۔

02۔ پاکستان کا وزیرِ اعظم پٹھان ھے۔

03۔ پاکستان کی سینٹ کا چیئرمین بلوچ ھے۔

04۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کا اسپیکر پٹھان ھے۔

05۔ پاکستان کی سینٹ کا ڈپٹی چیئرمین پٹھان ھے۔

06۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر پٹھان ھے۔

07۔ خیبر پختونخوا کا گورنر پٹھان ھے۔

08۔ بلوچستان کا گورنر پٹھان ھے۔

09۔ سندھ کا گورنر ھندوستانی مھاجر ھے۔

10۔ پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ بلوچ ھے۔

پھر بھی پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر؛

1۔ پنجاب کو گالیاں دیتے ھیں۔

2۔ پنجابیوں کی تذلیل کرتے ھیں۔

3۔ پنجابی قوم کی توھین کرتے ھیں۔

پنجابی صوفی شاعر اور دانشور شاہ حسین نے پنجابیوں کو نصیحت کی تھی کہ؛

کہے حسین فقیر سائیں دا
تخت نہ ملدے منگے

جمہوری نظام میں اکثریت حکومت کیا کرتی ھے۔ اس لیے افلاطون نے اپنی قوم کو آگاہ کیا تھا کہ؛ سیاست سے کنارہ کشی کا انجام یہ ھوگا کہ تم سے کم تر لوگ اٹھ کر تم پر راج کرنے لگیں گے۔

نتیجہ یہ نکلا کہ؛ پاکستان کی %40 چھوٹی قوموں میں سے پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر نے پاکستان کی %60 آبادی پنجابی پر نہ صرف راج کرنا شروع کردیا۔ بلکہ پنجابیوں کی تذلیل و توھین کرنا بھی شروع کردی اور بلیک میل کرنا بھی شروع کردیا۔ لہذا؛

1۔ پنجابی قوم کے "سیاسی شعور" کو بیدار کرکے پاکستان پر "پنجابی راج" قائم کیا جائے۔

2۔ پاکستان کی %40 چھوٹی قوموں میں سے سماٹ ' براھوئی ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی کے ساتھ پنجابی قوم مناسب مراسم رکھے۔ انہیں پاکستان میں "پنجابی راج" سے فائدہ دیا جائے۔

3۔ پاکستان کی %40 چھوٹی قوموں میں سے پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر پنجابی قوم کے ساتھ اپنے مراسم درست کریں۔

4۔ پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر اس پہلو پر غور و فکر کریں کہ؛ پنجابی قوم اگر ان کے ساتھ "سماجی لاتعلقی" اختیار کرلے تو پنجابی قوم کو کیا نقصان ھوگا اور ان کو کیا نقصان ھوگا؟

پاکستان پر "پنجابی راج" سے مراد ھے کہ؛

1۔ پاکستان کا وزیر اعظم پنجابی ھو۔

2۔ پاکستان کا صدر پنجابی ھو۔

3۔ پاکستان کی سینٹ کا چیئرمین پنجابی ھو۔

4۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کا اسپیکر پنجابی ھو۔

5۔ پاکستان کے وفاقی اداروں کے سربراہ پنجابی ھوں۔

6۔ پنجاب کا وزیر اعلی پنجابی ھو۔

7۔ پاکستان کے صوبوں کے گورنر پنجابی ھوں۔

8۔ پاکستان کے صوبوں کے چیف سیکرٹری پنجابی ھوں۔

9۔ پاکستان کے صوبوں کے انسپکٹر جنرل پولیس پنجابی ھوں۔

Some Punjabi's Are Also Enemies of Punjab and Punjabi Nation.

In Punjab, non-educated, agriculture-related, and rural residents speak Punjabi, owns Punjabi culture, and follow Punjabi traditions but the majority of the elite class, government servants, and urban residents do not have regard, respect, and honor for their motherland language, culture, and traditions.

Therefore, the basic assembling and vital binding force for Punjab and Punjabi nation, i.e. Punjabi language is not an official and educational language of Punjab.

Urdu Speaking UP-ites, those concurred foremost cities of Punjab during British rule and after the creation of Pakistan, is also a major problem for Punjabi Language, culture, and traditions.

By camouflaging in Punjabi skin, these UP-ite Urdu speaking Muhajirs are the main conspirators in Punjab to confuse Punjabi elite class, government servants, and urban residents by degrading the Punjabi language and support to Urdu with the propaganda of "Binding Language" for Pakistani People, rather than "Language of Muslims".

Punjabi's who are in support of Urdu language and Urdu Speaking politicians, journalists, intellectuals are also required to be treated as traitors of Punjab and Punjabi nation due to their support to Urdu language and Urdu speaking politicians, journalists, intellectuals.

پاکستان میں قوموں کی اب "نئی صف" بندی ھوگی۔

ھر ملک میں وقت کے ساتھ "سیاست کی بساط" بدلتی رھتی ھے۔ اس لیے قوموں کے لیے بہتر یہ ھوتا ھے کہ "سیاست کی بدلتی بساط" پر نظر رکھی جائے۔

افغانیوں ' کردستانیوں اور اترپردیش کے گنگا جمنا کی ثقافت والوں کا کھیل اختتامی مراحل میں ھے۔ پاکستان میں قوموں کی اب "نئی صف" بندی ھوگی۔

پنجابی ' سماٹ ' براھوئی قومیں اب پٹھانوں ' بلوچوں ' ھندوستانی مھاجروں کی پاکستان میں سماجی اور سیاسی بالادستی ختم کردیں گی۔

پاکستان پر "پنجابی راج" یقینی ھے۔ پنجابی راج میں پنجابی قوم کے اتحادی سماٹ اور براھوئی ھوں گے۔ پاکستان میں سماجی ' سیاسی ' انتظامی بالادستی پنجابی ' سماٹ ' براھوئی کی ھوگی۔

اس لیے "پنجابی قوم پرست" 3 کام کرنے پر دھیان دینا شروع کردیں؛

1۔ پنجابی قوم میں سیاسی شعور پیدا کرکے پنجابیوں کی سماجی عزت ' سیاسی حیثیت اور معاشی حالت بہتر بنانا شروع کردیں۔

2۔ سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی (کشمیری ' ھندکو ' ڈیرہ والی کا شمار پنجابی قوم میں ھوتا ھے) کے ساتھ پنجابی قوم کے بہترین سماجی و سیاسی مراسم قائم کرنا شروع کردیں۔

3۔ پنجابی ' سماٹ ' براھوئی کے ساتھ دشمنی رکھنے والے پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر اور جنوبی پنجاب و دیہی سندھ کے عربی نژاد کی سماجی ' سیاسی ' معاشی بالادستی اور ظلم و زیادتی کرنے کی عادت ختم کروانا شروع کردیں۔

جی - ایم سید سندھ پر قابض عربی نژادوں کا رھنما تھا۔

جی ایم سیّد نے پہلے تو اپنا سیاسی قد بڑھانے کے لئے مذھبی نوعیت کے جھگڑے میں ٹانگ اڑا کر 1937ء میں ھندو مسلم فساد کروایا اور 1947ء میں پاکستان کے قیام کے بعد سندھی قوم پرست بن گیا۔ سکھر میں “منزل گاہ سکھر” کے واقعہ میں ھندوؤں پر جب دھشتگردوں نے چاقو و گولیاں چلائیں تو جی ایم سیّد اس وقت مسلم لیگ سندھ کا لیڈر تھا۔ جی ایم سیّد کو ایسی کیا حاجت تھی کہ کانگریس کو چھوڑ کر مسلم لیگ میں شمولیت ھی اختیار نہ کی بلکہ 50 کے قریب سماٹ ھندو سندھیوں کا بے دردی سے لہو بھی بہانا قبول کیا؟ کیا جی ایم سیّد کو اندازہ نہیں تھا کہ مذھبی منافرت میں کودنے کے نتائج کیا ھوں گے؟ یہ کون سی قوم پرستی تھی کہ “منزل گاہ سکھر” کا معاملہ جسے مولوی لیڈرشپ اُٹھا رھی تھی اس میں جی ایم سیّد مسلم لیگ کا جھنڈا لے کر کود پڑا؟ کیا جی ایم سیّد کو مسلم قوم پرستی کی نعوذ باالله وحی آئی تھی؟

سندھ اسمبلی نے ھندوستان کے 10 کروڑ مسلمانوں کو علیحدہ قوم قرار دیکر پاکستان کی قرارد منظور کی۔ حالانکہ برٹش انڈیا میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ اکثریت پنجاب اسمبلی میں تھی لیکن پنجاب اسمبلی نے قراداد منظور نہیں کی تھی۔ جی ایم سیّد نے 1943ء میں 10 کروڑ مسلمانانِ ھند کی آزادی کے لیے ' جسکا سندھ کے مسلمان ایک حصّہ تھے ' سندھ اسمبلی میں قرار پیش کرنے کے بعد گرما گرم بحث کی۔ جی ایم سیّد کی بحث کا لبِ لباب یہ تھا کہ؛ قیام پاکستان کا مطالبہ بہ حیثیتِ مسلم قوم پرست کر رھے ھیں۔

قیامِ پاکستان کے بعد جی ایم سیّد اچانک مسلم لیگ اور مسلم قوم پرستی چھوڑ کر سندھی قوم پرست بن گیا۔ کیا “منزل گاہ سکھر” میں ھندو مسلم فساد کے موقع پر جی ایم سیّد کے دل میں سندھی قوم پرستی نہ تھی؟ محمد علی جناح بھی اتنا ھی سندھی تھا جتنا جی ایم سیّد سندھی تھا۔ صوبہ سندھ میں قیامِ پاکستان سے قبل جناح کی تصاویر ایسے ھی آویزاں ھوتی تھیں جیسے آج بھٹو کے خاندان اور جی ایم سیّد کی تصاویر آویزاں ھوتی ھیں۔ مگر جی ایم سیّد کا جناح سے اختلاف ذاتی مفاد پرستی کی سیاست کے باعث ھوا اور جی ایم سیّد مسلم قوم پرست سے سندھی قوم پرست بن گیا۔

سندھ کے اصل باشندے سماٹ ھیں۔ لیکن جی - ایم سید سندھ میں قابض ایک عربی نژاد تھا۔ اس لیے جی - ایم سید سندھی قوم پرست رھنما نہیں بلکہ مفاد پرست اور موقع پرست شخص تھا۔ بلکہ جی - ایم سید سندھ پر قابض عربی نژادوں کا رھنما تھا۔ دیہی سندھ کے معاشی اور اقتصادی طور پر امیر پنجابی آبادکار جو 1901ء اور 1932ء سے دیہی سندھ میں زراعت ' صنعت ' تجارت کے کاروبار کے فروغ ' صحت اور تعلیم کے شعبوں کی ترقی کے لیے اپنی خدمات پیش کر رھے تھے۔ ان کو دیہی سندھ سے نکال کر انکی زمینوں اور کاروبار پر قبضہ کرنا جی ایم سید کا مشن تھا۔

معاشی اور اقتصادی طور پر امیر پنجابی آبادکاروں کو دیہی سندھ سے بے دخل کروا کر انکے کاروبار اور آباد زرعی زمینوں پر سید اور بلوچ جاگیرداروں کے قبضے کروانے کے ساتھ ساتھ سماٹ سندھیوں پر بھی سید اور بلوچ جاگیرداروں کا سماجی ' معاشی اور سیاسی تسلط قائم کروا کر ' جی - ایم سید اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رھا۔ لیکن اس عمل کے ذریعے جی - ایم سید نے سندھی قوم کو پنجاب کے عوام کے ساتھ مستقل محاذ آرائی میں پھنسا دیا۔ جبکہ سندھ کے شہری علاقوں پر ھندوستانی مھاجروں کا تسلط بھی قائم کروا دیا۔

ماضی میں جی ایم سید کے سندھ کے پنجابی آبادکاروں کے خلاف گھناؤنے کردار کی وجہ سے 1901ء اور 1932ء کی دھائیوں سے سندھ میں آباد معاشی اور اقتصادی طور پر امیر پنجابیوں کے 1970ء اور 1980ء کی دھائیوں میں اپنے کاروبار اور آباد زرعی زمینیں سیدوں اور بلوچوں کو سونپ کر پنجاب واپس آنے کی وجہ سے سندھی قوم کے ساتھ پنجاب اور پنجابی قوم کے تنازعات پیدا ھوگئے تھے۔ انہیں حل کروانے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو ' پیر پگارو ' محمد خان جونیجو ' غلام مصطفی جتوئی اور بے نظیر بھٹو سندھیوں کے لیے پنجاب کے عوام کے ساتھ رابطے اور واسطے کا ذریعہ رھے لیکن سندھ سے معاشی اور اقتصادی طور پر امیر پنجابیوں کو بیدخل کردیے جانے کی وجہ سے سندھ کے سیدوں اور بلوچوں کے ساتھ پنجابی قوم کے اختلافات کو مکمل طور پر ختم نہ کروا سکے۔

ذوالفقار علی بھٹو' پیر پگارو' محمد خان جونیجو ' غلام مصطفی جتوئی اور بے نظیر بھٹو کی موت کے بعد اب موثر سماجی رابطوں اور سیاسی واسطوں کے نہ ھونے کی وجہ سے جبکہ جی ایم سید کے سندھ کے پنجابی آبادکاروں کے خلاف گھناؤنے کردار کی وجہ سے سندھ میں پیدا ھونے والے ماحول کے ابھی تک سندھ میں موجود ھونے کی وجہ سے پنجاب کا سندھ کے سیدوں اور بلوچوں کے ساتھ لاتعلقی کا رویہ ابھی تک برقرار ھے۔ سندھ کے اصل باشندے سماٹ نے اس کا ابھی تک حل نہیں نکالا۔ اس لیے سندھیوں کا پنجاب کے عوام کے ساتھ رھا سہا رابطہ اور واسطہ بھی ختم ھوتا جا رھا ھے۔

سندھ کے شہری علاقوں پر غالب اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے ساتھ سندھیوں کا سماجی ٹکراؤ اور انتظامی ' معاشی ' اقتصادی ' ترقیاتی امور کی وجہ سے سیاسی اختلاف ماضی میں بھی تھا اور اب بھی ھے اور مستقبل میں بھی رھنا ھے۔ جبکہ پنجاب کی آبادی پاکستان کی 60 فیصد آبادی ھے۔ پنجاب کی پاکستان کی مرکزی حکومت ' پاکستان کی بیوروکریسی ' اسٹیبلشمنٹ ' صنعت ' تجارت ' سیاست ' صحافت اور ھنرمندی کے شعبوں پر مکمل بالادستی ھے۔ اس لیے پنجاب کے عوام کے ساتھ رابطے اور واسطے کا ختم ھونا ' پنجاب کا سندھیوں کے ساتھ لاتعلقی کا باعث اور سندھیوں کے لیے قومی تنہائی کا سبب بنتا جا رھا ھے۔

سندھیوں کے پنجاب کی عوام کے ساتھ رابطے اور واسطے کے ختم ھونے اور پنجابی قوم کے سندھیوں کے ساتھ لاتعلقی کے باعث اب مستقبل میں سندھیوں کو پاکستان کی مرکزی حکومت ' پاکستان کی بیوروکریسی ' اسٹیبلشمنٹ ' صنعت ' تجارت ' سیاست ' صحافت اور ھنرمندی کے شعبوں میں وہ عزت ' اھمیت اور سہولت نہیں ملا کرنی جو ماضی میں ملتی رھی۔

Friday, 24 September 2021

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں پنجابی ' سماٹ ' براھوئی ھیں یا افغانی ' ایرانی ' کردستانی ' ھندوستانی ھیں؟

نسل اور قوم میں فرق ھوتا ھے۔ افغانی ' ایرانی ' کردستانی ' ھندوستانی نژاد "وادیء سندھ" کی زمین پر آباد نسلیں ھیں۔ جبکہ پنجابی ' سماٹ ' براھوئی قومیں ھیں ' نہ کہ نسلیں ھیں۔ پنجابی ' سماٹ ' براھوئی "وادیء سندھ" کی قومیں ھیں۔

قوم کے لیے زمین کا ھونا ضروری ھے۔ جبکہ زمین کی زبان ' ثقافت ' تاریخ بھی ھوتی ھے۔ اس لیے پنجابی ' سماٹ ' براھوئی قوموں کے پاس زمین ' زبان ' ثقافت ' تاریخ ھے۔ پنجابی ' سماٹ ' براھوئی تاریخی پڑوسی بھی ھیں۔

قوم یا ملک کا پہلا مسئلہ سماجی ھوا کرتا ھے۔ سماجی مسئلہ حل کیے بغیر انتظامی مسئلہ حل نہیں ھوا کرتا۔ انتظامی مسئلہ حل کیے بغیر معاشی مسئلہ حل نہیں ھوا کرتا۔ معاشی مسئلہ حل کیے بغیر اقتصادی مسئلہ حل نہیں ھوا کرتا۔

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ انتظامی ھے۔ اس لیے پاکستان میں قوموں کے سماجی مسئلہ کو حل کیے بغیر اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ کیسے حل ھوسکتا ھے؟

پاکستان میں سماجی بالادستی ھی نہیں بلکہ انتظامی بالادستی بھی پاکستان کی اصل قوموں پنجابی ' سماٹ ' براھوئی کے بجائے "وادیء سندھ" کی زمین پر آباد ھونے والے افغانی ' ایرانی ' کردستانی ' ھندوستانی نژاد نسلوں کے لوگوں کی رھی ھے اور اب بھی ھے۔

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ ' اسٹیبلشمنٹ کا شور زیادہ تر افغانی ' ایرانی ' کردستانی ' ھندوستانی نژاد نسلوں کے لوگ کرتے رھتے ھیں۔

1۔ افغانی ' ایرانی ' کردستانی ' ھندوستانی نژاد اسٹیبلشمنٹ ' اسٹیبلشمنٹ کرکے کہیں اپنی انتظامی بالادستی کی طرف سے پنجابی ' سماٹ ' براھوئی قوموں کا دھیان تو نہیں ھٹاتے؟

2۔ "وادیء سندھ" پر بنائے گئے ملک پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں بھی پنجابی ' سماٹ ' براھوئی ھیں یا رھے ھیں یا افغانی ' ایرانی ' کردستانی ' ھندوستانی ھیں یا رھے ھیں؟

3۔ افغانی ' ایرانی ' کردستانی ' ھندوستانی نژاد پاکستان کی اصل قوموں پنجابی ' سماٹ ' براھوئی کے ساتھ سماجی اور انتظامی مسئلہ کو حل کیوں نہیں کرتے؟

4۔ کیا پنجابی ' سماٹ ' براھوئی کو حق نہیں ھونا چاھیے کہ؛ پنجابی ' سماٹ ' براھوئی اپنی زمین پر اپنی قوموں پر راج کریں؟

5۔ کیا افغانی ' ایرانی ' کردستانی ' ھندوستانی کہیں جمہوریت کا راگ الاپ کر اور کہیں آمر کا روپ دھار کر "وادیء سندھ" پر راج کرتے رھیں؟

پنجابی ' سماٹ ' براھوئی "وادیء سندھ" کی زمین پر آباد ھونے والے افغانی ' ایرانی ' کردستانی ' ھندوستانی نژاد نسلوں کے ان لوگوں کو اپنی اپنی قوم کا حصہ سمجھتے ھیں جنہوں نے؛

پنجابی ' سماٹ ' براھوئی کی زمین پر اپنے آپ کو قابض کرنے کے بجائے نقل مکانی کرکے آباد کیا۔ زبان اور ثقافت اختیار کرنے کے علاوہ جنہوں نے تاریخی عمل میں سے گزر کر اپنے آپ کو پنجابی ' سماٹ ' براھوئی قوموں کا حصہ بنا لیا ھے۔

"پاکستان نیشنلسٹ فورم" تشکیل دینے کی تیاری کی جائے۔

"پی این ایف" (پنجابی نیشنلسٹ فورم) کے پاکستان کے ھر علاقے میں زون ھیں۔ "پی این ایف" کے پاکستان میں شمالی پنجاب ' وسطی پنجاب ' جنوبی پنجاب ' سندھ ' کراچی ' بلوچستان براھوئی ایریا ' بلوچستان پشتون ایریا ' صوبہ سرحد زون ھیں۔

"پی این ایف" کا ھر زون اپنے اپنے زون میں اپنے اپنے مشن کے مطابق کام کر رھا ھے۔ اس وقت بھی "پی این ایف" پاکستان میں "پنجابی قوم پرستوں" کا سب سے بڑا نیٹ ورک بن چکا ھے۔ لیکن "پی این ایف" کی 2021 میں ضلع اور 2022 میں تحصیل کی سطح پر تنظیم سازی مکمل ھوگی اور 2023 سے "پی این ایف" عوامی سطح پر متحرک ھوگا۔

"پی این ایف" کی تنظیم سازی مکمل کرنے کے بعد سماٹ ' براھوئی ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی قوموں کے ساتھ اشتراک کرکے "پنجابی نیشنلسٹ فورم" پاکستان کی سطح پر "پاکستان نیشنلسٹ فورم" تشکیل دے گا۔

سماٹ ' براھوئی ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی قوموں کو بھی چاھیے کہ اپنی اپنی قوم کا "پی این ایف" کے طرز پر؛

سماٹ نیشنلسٹ فورم SNF

براھوئی نیشنلسٹ فورم BNF

گلگتی بلتستانی نیشنلسٹ فورم GBNF

کوھستانی نیشنلسٹ فورم KNF

چترالی نیشنلسٹ فورم CNF

سواتی نیشنلسٹ فورم SNF

گجراتی نیشنلسٹ فورم GNF

راجستھانی نیشنلسٹ فورم RNF

تشکیل دیں تاکہ؛ "پی این ایف" کی تنظیم سازی مکمل کرنے کے بعد 2023 میں "پاکستان نیشنلسٹ فورم" تشکیل دیا جاسکے۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں پشتون قبائل کی قبضہ گیری کب اور کیسے ھوئی؟

01- گیارھویں صدی عیسوی میں کارلنری ڈویژن سے تعلق رکھنے والے افغانوں کے "دلزاک" قبیلہ نے مشرقی افغانستان سے نقل مکانی کی اور خیبر پاس کو عبور کرکے پشاور کے میدانی علاقوں میں آباد ھوگیا۔ انہوں نے جو گاؤں بنائے وہ کم تھے۔ اس علاقے میں بہت کم کاشت کاری ھوتی تھی اور زیادہ تر لوگ جانوروں کو پالتے تھے۔ اس علاقے کے لوگ پرامن تھے اور ابھی تک مسلمان نہیں ھوئے تھے۔ انہوں نے "دلزاک" قبیلہ کی آمد پر کسی بھی طرح کی لڑائی یا خون خرابہ نہیں کیا تھا۔ بلکہ انہیں اپنے کام کاج میں شامل کرلیا تھا۔ کچھ ھی وقت میں سرداروں کے کچھ خاندانوں کے درمیان شادیاں ھونے کے بعد اصل باشندے اور "دلزاک" قبیلہ کے افراد آپس میں گھل مل گئے۔ کیونکہ اس علاقے کے اصل باشندوں نے دین اسلام قبول کرلیا تھا۔

اس علاقے کے اصل باشندوں کے ساتھ شادیوں اور نئے رسم و رواج اختیار کرنے کی وجہ سے "دلزاک" قبیلہ کے افراد اپنی باقی قوم سے الگ ھوگئے۔ اپنے قائد ملک یحییٰ خان کی سربراھی میں "دلزاک" قبیلہ کے افراد نے بڑی تعداد میں محمود غزنوی کی مہموں میں حصہ لیا تھا۔

02 - تیرھویں صدی کے اوائل میں شہاب الدین غوری کے زمانے میں ' لودھی شاخ کے پُرنگی اور سور قبائل اور ان کے رشتہ دار سروانی ' موجودہ مشرقی افغانستان سے نقل مکانی کرکے کوہ سلیمان کے نیچے کے علاقے ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک پر قابض ھوگئے۔

پُرنگی اور سور قبائل ٹانک اور روڑی کے مقامات پر دامان کے علاقے میں آباد ھوئے۔ جبکہ سروانی ' لونی کے جنوب میں دربان اور چندوآن اور آس پاس کے اضلاع میں آباد ھوئے۔ ان کے ساتھ بلچ (یہ بلوچ نسل کے لوگ نہیں ھیں) ، خسور اور دوسرے قبیلے آئے۔ جنہوں نے دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر سالٹ رینج کے علاقے پر قبضہ کرلیا اور اب بھی اس مقام پر آباد ھیں۔

03۔ شہاب الدین غوری کے دور میں منگل اور ھانی قبائل ضلع بنوں کے علاقے پر قابض ھوگئے۔

04۔ خٹک کی پہلی آبادکاری پیر غل چوٹی کے قریب شمالی وزیرستان میں وادئ شوال میں ھوئی تھی۔ وہ وھاں سے مشرق کی طرف بنوں کی طرف چلے گئے اور پشتونوں کے ھانی اور منگل قبائل کے درمیان آباد ھوگئے۔ پھر اس علاقے میں اپنی بالادستی قائم کرلی۔

05- منگل اور ھانی قبائل کو چودھویں صدی کے دوران وادئ شوال سے تعلق رکھنے والے خٹک سے وابستہ ایک قبیلے شیتک (بنوچی) نے باھر نکال دیا۔ منگل اور کچھ ھانی خوست اور کرم کے مغرب میں پہاڑوں کی طرف نقل مکانی کرگئے۔ جہاں وہ اب بھی موجود ھیں۔

06- پھر شیتک نے ماضی میں کرم کے بائیں کنارے آباد رھنے والے کمزور خٹک خاندانوں کو آھستہ آھستہ نکالنا شروع کر دیا۔ اس طرح کمزور خٹک خاندان آھستہ آھستہ ضلع کوھاٹ کے جنوبی حصے میں پھیل گئے۔

07- بنگش قبیلہ پہلے وادئ کرم میں آباد ھوا۔ پندرھویں صدی کے آغاز میں وہ آھستہ آھستہ میران زئی میں چلا گیا اور بالآخر اورکزئیوں کو کوھاٹ کے علاقے سے بے دخل کردیا۔ انہوں نے یہ کام خٹک کے ساتھ اتحاد کرکے کیا۔ جو کہ اس وقت ضلع کوھاٹ پر جنوب سے حملہ کر رھے تھے۔ اورکزئی اس سے قبل دریائے سندھ پر ریسی تک قابض تھے۔ خٹک نے مشرقی علاقے ریسی ' پٹیالہ اور زیرا کو اپنے قبضہ میں لیا۔ بنگش نے کوھاٹ کی وادئ پر قبضہ کر لیا۔ یہ قبضہ شاید سن 1505 میں بابر کے حملے سے قبل مکمل ھو چکا تھا۔

08- نیازی نے ابتدائی طور پر غزنی کے جنوب میں واقع ضلع شیلغر کے ایک علاقے پر قبضہ کیا۔ جب غلزئی کی تعداد زیادہ ھوگئی تو انہوں نے نیازی کو مشرق کی طرف دھکیل دیا اور نیازی نے جنوب کی طرف نقل مکانی کرنا شروع کردی۔ یہاں تک کہ پندرھویں صدی میں وہ ٹانک پہنچ گئے۔ وھاں انہیں پناہ ملی اور ان کے جوان بیوپاری اور پھیری لگانے والے بن گئے۔ اس کے بعد وہ شمال مشرق میں دریائے سندھ کی طرف پھیل گئے اور تھل کے صحرائی خطوں میں آباد ھوگئے۔

09- پندرھویں صدی کے آخر میں خاشی قبیلے یعنی یوسفزئی ، گیگیانی اور محمد زئی قبیلے جلال آباد سے اسپرنگ میں واقع ترتارا کے راستے سے پشاور کے میدانی علاقوں میں داخل ھوئے۔ انہوں نے "دلزاک" قبیلہ سے اس علاقے میں امن کے ساتھ رھنے کے لیے زمین کی بھیک مانگی تو اجازت دے دی گئی اور نووارد دوآبہ میں آباد ھوگئے۔

10- خاشی قبائل اپنے وعدہ پر زیادہ دیر تک قائم نہ رھے اور "دلزاک" قبیلہ کے ساتھ کیا گیا وعدہ توڑ دیا۔ یوسفزئی نے اپنے سربراہ ملک احمد کی قیادت میں گیگیانی ، محمد زئی اور عثمان خیل کے ساتھ مل کر "دلزاک" قبیلہ کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا۔

1515 عیسوی میں دریائے سوات کے شمال کی جانب ایک بڑی جنگ لڑی گئی۔ جس میں "دلزاک" قبیلہ کے بہت زیادہ لوگ مارے گئے اور وہ ھزارہ کی طرف بھاگ گئے۔ گیگیانی نے اپنے حصے کے طور پر دوآبہ وصول کیا۔ محمد زئی کو ھشتنگر اور یوسفزئی کو دریائے کابل کے شمال کا علاقہ دیا گیا تھا۔ عثمان خیل کو دریائے سوات کی پہاڑیوں میں رکھا گیا تھا۔ یہ قبائل اب بھی اس علاقے پر قابض ھیں۔

"دلزاک" بہترین تیرانداز تھے۔ یوسف زئی ماھر تلوار باز تھے۔ یوسفزئی نے لڑائی میں قریب آنے سے پہلے تیروں کی وجہ سے آنے والے تباھی سے بچنے کا بندوبست کیا۔ ملک احمد نے کئی ڈھالیں اکٹھا کیں۔ جن کی اوٹ لیکر یوسفزئی زخمی ھوئے بغیر تیزی سے "دلزاک" کے سامنے آگئے اور بڑی تعداد میں "دلزاک" کی لاشیں گرا کر بھاگنے پر مجبور کردیا۔ دریائے کابل کے جنوب میں واقع پشاور کا میدانی علاقہ اب بھی "دلزاک" کے پاس ھے۔

11- یوسفزی مزید فتح پر تلے ھوئے تھے اور سوات پر قبضہ کرنے کے لیے تیار تھے۔ اس مقصد کے لیے شوکوٹ منتقل ھوگئے۔ سواتی مورا پاس پر جمع تھے اور یوسفزئی پہاڑیوں کے دامن پر اس طرح آگے بڑھ رھے تھے۔ گویا کہ وہ ایک دم حملہ کردیں گے۔ لیکن رات کے وقت انہوں نے مالاکنڈ پاس کی طرف تیزی سے رخ موڑ لیا اور اپنی خواتین کو کیمپ میں چھوڑ دیا۔ جن کی رات کے وقت موسیقی اور گانا سواتیوں سے ان کے منصوبوں کو چھپا رھے تھے۔ طلوع ھوتے سورج کے ساتھ حملہ آور یوسفزئیوں کی چمکتی ھوئی تلواریں سواتیوں کو نظر آئیں۔ جنہوں نے درہ پاس کرکے اچانک حیرت زدہ سواتیوں پر حملہ کردیا۔ سواتیوں نے ایک کمزور مزاحمت کی۔ یوں یوسفزئی نے زیریں سوات پر قبضہ کرلیا۔ یہاں کے باشندے جزوی طور پر یوسفزئیوں کے مزارعے بنے رھے۔ لیکن بیشتر باشندے ھزارہ کی وادئ پختلی میں فرار ھوگئے۔ اس وقت بالائی سوات پر قبضہ نہیں کیا گیا تھا۔ وہ اپنے سلطان کے تحت آزاد رھا۔ ترکانی اس وقت یوسفزئی سے علیحدہ ھوگئے اور باجوڑ کا ایک حصہ لے لیا۔

12- اس طرح خاشی افغانوں سے بیسول ' جلال آباد اور لغمان خالی ھوگیا اور غوریہ خیل قبیلوں کے قبضے میں آگیا۔ خلیل قبیلے مہمند اور داؤد زئی پر مشتمل ھیں۔ انہوں نے لال پورہ اور وادئ پشاور کے درمیان پہاڑیوں پر بھی قبضہ کرنا شروع کردیا۔ اب وہ مہمند کے علاقے پر بھی قابض ھیں۔

13- مغل ھمایوں نے 1553 میں پشاور میں قلعے کو دوبارہ تعمیر کیا۔ جسے "دلزاک" نے 1530 ء میں تباہ کردیا تھا۔ اس میں سکندر خان ازبک کی کمان میں ایک مضبوط فوج رکھی گئی تھی اور اس قلعے کو پڑوسی "دلزاک" کے خوف کی وجہ سے دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا۔ "دلزاک" نے جلد ھی اس پر حملہ کردیا لیکن ازبک کمانڈر نے انہیں پسپا کردیا۔

اگلے ھی سال میں ھمایوں نے دوبارہ دھلی جانے کے لیے اسی راستے سے دریائے سندھ عبور کیا۔ اس کے جانے کے بعد خلیل ' مہمند اور داؤد زئی قبائل پر مشتمل غوری خیل افغانی پشاور کے میدانی علاقوں میں داخل ھوئے اور "دلزاک" کو بے دخل کرتے ھوئے ان علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ جن میں وہ اب رھتے ھیں اور ان علاقوں کے نام اپنے نام پر رکھ لیے ھیں۔ جبکہ "دلزاک" کو بے دخل کرکے دریائے سندھ کے دوسری طرف دھکیل دیا۔

14- نوحانیوں (مروت ' دولت خیل ' میا خیل اور تتور) نے 1556ء میں شہاب الدین غوری کے زمانے سے دامن (ٹانک) میں آباد پرنگیوں اور سوریوں پر حملہ کیا۔ جنگ اتنی سخت تھی کہ پرانگیوں کا تقریباََ خاتمہ ھوگیا تھا اور جو بچ گئے تھے وہ ھند میں اپنے رشتہ داروں میں شامل ھوگئے۔

سوریوں کو بھی پنجاب اور ھند کے دیگر علاقوں میں دھکیل دیا گیا۔ لہذا لوھانی وادی گومل اور دامان کے واحد قابض اور مالک بن گئے۔ حاصل شدہ علاقہ ٹانک کے راستے کو چار نوھانی قبائل کے مابین چار مساوی حصوں میں بانٹ دیا گیا تھا۔ جنہوں نے پرانگیوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا۔ دولت خیل ' کٹی خیل اور حیدر خیل خود ٹانک میں آباد ھوئے۔ یعقوب خیل کو ٹانک شہر کے قریب واقع قصبہ دبارہ میں آباد کیا گیا تھا۔ تاتور خیل کو تاتور (ٹانک کے قریب) میں آباد کیا گیا تھا۔ مروت نے اپنی زمینیں دولت خیل کو لیز پر دی تھیں۔ ان کی مستقل رھائش وزیرستان میں تھی۔ اسی عرصے میں نوحانی قبیلے کے میا خیل اور بختیاروں نے سروانیوں پر حملہ کیا اور انہیں درھبان سے بے دخل کردیا۔

15- اسی عرصے میں شیرانی قبیلے کے ایک حصے بابر نے تخت سلیمان کے پہاڑوں سے نیچے کے میدانی علاقوں میں اتر کر جاٹ اور بلوچ آبادی کو محکوم کر لیا۔

16- سولھویں صدی کے آخر میں وزیر اور محسود قبائل نے وانا اور میکین کو مروت سے چھین لیا۔ اس کے نتیجے میں مروت سترہ صدی کے آغاز میں 1602 کے آس پاس مستقل رھائش کے لیے ٹانک آگئے۔ مروت نے مکمل طور پر ٹانک نقل مکانی کرنے کے بعد دولت خیل کو لیز پر دی گئی اپنی زمینوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ دولت خیل نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ اس لیے مروت کی دولت خیل کے ساتھ لڑائی شروع ھوگئی۔ مروت نے دولت خیل کو شکست دے کر ٹانک سے بے دخل کردیا۔

شہباز خان کٹی خیل کی سربراھی میں بے دخل دولت خیل کو گنڈہ پور اور بابر کی مدد ملی تو مروت پر حملہ ھوا اور مروت شکست کھا گئے۔ دولت خیل نے دوبارہ قبضہ کرلیا اور مروت کا حصہ بھی لے لیا۔ مروت نے پیزو پاس کو عبور کیا اور نیازیوں کے مابین اندرونی اختلافات کا فائدہ اٹھا کر شمال کی طرف لکی تھل میں داخل ھوئے اور وھاں آباد نیازیوں پر حملہ کردیا۔ انہوں نے اپنے نیازی رشتہ داروں کو ٹانگ درہ کے مشرق میں میانوالی کی طرف دھکیل کر کرم اور گمبیلہ کے کنارے اپنے کالے خیمے لگا دیے اور چرواھے بن کر رھنے لگے۔ محسود نے بھوٹانیوں کو جنوبی وزیرستان میں ان کے علاقوں سے بے دخل کردیا تھا اور انہوں نے ٹانک اور بنوں کی مغربی سرحد پر پہاڑیوں پر قبضہ کیا ھوا تھا۔

17- اٹھارویں صدی کے اوائل میں سید جلال بابا کے کارلگ ترکوں کو ملک بدر کرنے کے موقع پر جدون نے دریائے سندھ کو عبور کیا اور دھمٹور کے علاقے میں رھنے لگے۔ تقریبا سو سال بعد انہوں نے باقی چند "دلزاک" سے بگڑا ٹریک لے لیا۔ سکھوں کے علاقہ فتح کرنے سے کچھ ھی عرصہ پہلے ان کے حسن زئی قبیلے نے کرال کو وادی نیلان کے ایک حصے سے محروم کردیا۔

ایسا لگتا ھے کہ علاقے کے قدیم گوجر باشندوں کی دعوت پر ترین افغانستان سے ھزارہ آئے تھے۔ ترینوں نے ھری پور ضلع میں میدانی علاقوں پر آھستہ آھستہ قبضہ کرلیا اور اس علاقے کے گوجروں کے ایک بڑے حصے کو نکال دیا۔ گجروں نے دریائے سندھ کے پار سے عثمان زئی کو ترینوں کے خلاف مدعو کیا۔ لیکن عثمان زئی نے گجروں سے دریا کے کنارے کا گند گڑھ ٹریک چھین لیا۔ مشوانی بھی قبضہ کرنے کے لیے عثمان زئی کے ساتھ ملے ھوئے تھے۔ وہ عثمان زئی کے ساتھ آئے اور سری کوٹ پر قبضہ کرلیا۔

18- اٹھارویں صدی کے وسط میں عثمان زئی نے اور شیرانی افغانوں سے وابستہ ایک سید قبیلے نے ' موسی خیل کے ساتھ جھگڑا کرکے پہاڑوں کے نیچے کے ھموار علاقے کو حاصل کرلیا۔ جہاں وہ اب بھی رھتے ھیں۔

19- مغرب کی طرف سے آخری بڑی قبضہ گیری درویش خیل وزیر کی تھی۔ 1750 سے 1775 کے درمیان وزیر کے جانی خیل اور بکا خیل خاندانوں نے ٹوچی (گمبیلہ) اور پہاڑیوں کے درمیان پڑی میری کی چرنے والی زمینوں پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد وزیر کے محمد خیل اور احمد زئی خاندانوں نے کرم کے دھانے پر واقع پتھریلی زمین پر قبضہ کرلیا اور اس کے فورا بعد ھی احمد زئی نے خٹک اور مروت کو نکال کر ' چراگاھوں کو خالی کروا کر کرم کے بائیں کنارے سے تھل پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔