Tuesday 21 September 2021

پاکستان میں استحکام کیوں نہیں ھے اور پاکستان میں استحکام کیسے آئے گا؟

 پاکستان کے 15 اگست 1947 میں قیام سے لیکر 16 دسمبر 1971 کو پٹھان جنرل عبداللہ نیازی کے مشرقی پاکستان میں ھتھیار ڈالنے کے بعد مغربی پاکستان میں سندھی ذوالفقار علی بھٹو کے 20 دسمبر 1971 کو پاکستان کے پہلے سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور پاکستان کے صدر کے طور پر حکومت سنبھالنے تک کے 24 سال 4 مہینے 6 دن کے عرصے کے دوران؛

(1)۔ پاکستان کے سیاسی حکمران 4 ھندوستانی مھاجر ' 2 پٹھان ' 2 بنگالی ' 2 پنجابی رھے۔

(2)۔ پاکستان کی فوج کے سربراہ 2 انگریز اور 3 پٹھان رھے۔

(1)۔ پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ لیاقت علی خان مہاجر سے لیکر ' مودودی و نورانی مہاجر ' مجیب و بھاشانی بنگالی ' بھٹو ' پیر پگارو و جی ایم سید سندھی' غفار خان ' صمد اچکزئی و ولی خان پٹھان ' خیر بخش مری' اکبر بگٹی و غوث بخش بزنجو بلوچ کے پاس رھی۔ ایک بھی قومی سطح کا پنجابی سیاسی لیڈر نہیں تھا۔

اس عرصے کے دوران پاکستان پر سیاسی حکمرانی؛

1۔ پٹھانوں نے 4805 دن کی جو کہ کل وقت کا %54.02 بنتا ھے۔

2۔ ھندوستانی مھاجروں نے 2154 دن کی جو کہ کل وقت کا %24.29 بنتا ھے۔

3۔ بنگالیوں نے 1244 دن کی جو کہ کل وقت کا %13.99 بنتا ھے۔

4۔ پنجابیوں نے 693 دن کی جو کہ کل وقت کا %7.79 بنتا ھے۔

پاکستان کے قیام کے بعد سے لیکر 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام تک پاکستان پر تو پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں کی حکمرانی رھی۔ لیکن پاکستان کے قیام کے ساتھ ھی پنجاب پر بھی "پٹھان راج" قائم کردیا گیا تھا۔

پاکستان کے قیام سے پہلے پنجاب متحد تھا اور متحدہ پنجاب کا وزیر اعظم ھوا کرتا تھا۔ متحدہ پنجاب کا وزیر اعظم پہلے پنجابی سر سکندر حیات تھا۔ پھر پنجابی سر خضر حیات ٹوانہ رھا۔

1۔ پنجابی سر سکندر حیات 

5 اپریل 1937 سے لیکر 26 دسمبر 1942 کو انتقال تک پنجاب کا وزیر اعظم رھا۔

2۔ پنجابی سر خضر حیات ٹوانہ

30 دسمبر 1942 سے لیکر 5 فروری 1946 تک پنجاب کا وزیر اعظم رھا۔

3۔ پنجاب میں 5 فروری 1946 سے لیکر 21 مارچ 1946 تک گورنر راج رھا اور انگریز برٹرینڈ گلینسی پنجاب کا گورنر رھا۔

4۔ پنجابی سر خضر حیات ٹوانہ دوسری بار 21 مارچ 1946 سے لیکر 2 مارچ 1947 تک پنجاب کا وزیر اعظم رھا۔

5۔ پنجاب میں 2 مارچ 1947 سے لیکر 15 اگست 1947 تک پھر سے گورنر راج رھا اور انگریز سر ایون میرڈیتھ جینکنز پنجاب کا گورنر رھا۔

لیکن پاکستان کے قیام کے لیے 1947 میں پنجاب تقسیم کروا کر 20 لاکھ پنجابی مرواکر اور 2 کروڑ پنجابیوں کو اجاڑ کر پاکستان کے حصے میں آنے والے پنجاب کا 15 اگست 1947 کو وزیر اعلی پٹھان افتخار حسین ممدوٹ کو بنا دیا گیا۔

پاکستان کا پہلا پنجابی وزیر اعظم 12 اگست 1955 کو چوھدری محمد علی کو بنایا گیا۔ جو 12 ستمبر 1956 تک 13 ماہ کے لیے وزیر اعظم رھا۔

پاکستان کا دوسرا پنجابی وزیر اعظم 16 دسمبر 1957 کو ملک فیروز خان نون کو بنایا گیا۔ جو 9 ماہ 22 دن تک کے لیے وزیر اعظم رھا۔ کیونکہ پاکستان کے صدر ھندوستانی مھاجر جنرل اسکندر مرزا نے 7 اکتوبر 1958 کو پاکستان میں مارشل لاء نافذ کرکے پنجابی وزیر اعظم ملک فیروز خان نون کو برطرف کردیا۔

14 اکتوبر 1955 کو پاکستان میں ون یونٹ قائم کرکے ' مغربی پاکستان میں صوبے ختم کرکے ' پنجاب میں رھنے والے اور پنجاب کا گورنر رھنے والے بلوچ مشتاق احمد گرمانی کو مغربی پاکستان کا گورنر بنا دیا گیا۔

ون یونٹ کے دور میں مغربی پاکستان کا گورنر ھونے کا مطلب موجودہ پاکستان کا صدر ھونا تھا۔ جبکہ ون یونٹ کے دور میں مغربی پاکستان کا وزیر اعلی ھونے کا مطلب موجودہ پاکستان کا وزیر اعظم ھونا تھا۔

مغربی پاکستان میں 14 اکتوبر 1955 کو پاکستان میں ون یونٹ کے قیام کے بعد صوبے ختم کرکے 7 اکتوبر 1958 کو پاکستان میں مارشل لاء نافذ ھونے تک مغربی پاکستان کے وزیر اعلی رھنے والوں کی تفصیل درج ذیل ھے؛

(1)۔ ڈاکٹر عبدالجبار خان (پٹھان)

14 اکتوبر 1955 تا 16 جولائی 1957 تک وزیر اعلی مغربی پاکستان رھا۔ اس عرصے کے دوران؛

1۔ پاکستان کا گورنر جنرل / صدر

سکندر مرزا (ھندوستانی مہاجر) تھا۔

2۔ پاکستانی فوج کا کمانڈر انچیف

جنرل ایوب خان ترین (پٹھان) تھا۔

3۔ مغربی پاکستان کا گورنر

مشتاق احمد گرمانی (بلوچ) تھا۔

(2)۔ سردار عبد الرشید خان (پٹھان)

16 جولائی 1957 تا 18 مارچ 1958 تک وزیراعلی مغربی پاکستان رھا۔ اس عرصے کے دوران؛

1۔ پاکستان کا صدر سکندر مرزا (ھندوستانی مہاجر) تھا۔

2۔ پاکستانی فوج کا کمانڈر انچیف

جنرل ایوب خان ترین (پٹھان) تھا۔

3۔ مغربی پاکستان کا گورنر

اختر حسین (ھندوستانی مہاجر) تھا۔

(3)۔ نواب مظفر علی خان قزلباش (ایرانی نژاد)

18 مارچ 1958 تا 7 اکتوبر 1958 تک وزیراعلی مغربی پاکستان رھا۔ اس عرصے کے دوران؛

1۔ پاکستان کا صدر سکندر مرزا (ھندوستانی مہاجر) تھا۔

2۔ پاکستانی فوج کا کمانڈر انچیف

جنرل ایوب خان ترین (پٹھان) تھا۔

3۔ مغربی پاکستان کا گورنر

اختر حسین (ھندوستانی مہاجر) تھا۔

7 اکتوبر 1958 کو پاکستان کے صدر سکندر مرزا (ھندوستانی مہاجر) کے مارشل لاء لگانے کے بعد مغربی پاکستان کے وزیراعلی کا عہدہ برخاست کر دیا گیا۔ مغربی پاکستان کا گورنر اختر حسین (ھندوستانی مہاجر) رھا۔

28 اکتوبر 1958 کو جنرل ایوب خان ترین (پٹھان) نے پاکستان کے صدر سکندر مرزا (ھندوستانی مہاجر) کو ھٹا کر مارشل لاء لگایا۔ مغربی پاکستان کا گورنر اختر حسین (ھندوستانی مہاجر) رھا۔

25 مارچ 1969 کو جنرل یحیٰی خان (پٹھان) نے مارشل لاء نافذ کیا۔

16 دسمبر 1971 کو پٹھان جنرل عبداللہ نیازی نے ھتھیار ڈال کر مشرقی پاکستان میں پاک فوج کو قید کروا دیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ جبکہ مغربی پاکستان کا نام پاکستان کر دیا گیا۔

مغربی پاکستان کا نام جب پاکستان کیا گیا تو پاکستان کی آبادی %60 پنجابی قوم کی تھی۔ (کشمیری ' ھندکو ' ڈیرہ والی کا شمار پنجابی قوم میں ھوتا ھے)۔ جبکہ %40 سماٹ ' براھوئی ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر قوم کی تھی۔

20 دسمبر 1971 کو ذوالفقار علی بھٹو (سندھی) پاکستان کا پہلا سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور پاکستان کا صدر بن گیا۔

پاکستان کی تمام قومیں پاکستان بھر میں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رھتی ھیں۔ اس لیے پاکستان میں کسی علاقے کو بھی کسی خاص قوم کا راجواڑہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ البتہ پاکستان کو انتظامی معاملات کے لیے صوبوں ' ڈویژنوں ' ضلعوں ' تحصیلوں ' یونین کونسلوں میں تقسیم کیا گیا ھے۔

پاکستان کے پنجاب کو اگر الگ ملک تصور کیا جائے تو آبادی کے لحاظ سے پاکستانی پنجاب 1۔ چین 2۔ بھارت 3۔ امریکہ 4۔ انڈونیشیا 5۔ برازیل 6۔ نائجیریا 7۔ بنگلہ دیش 8۔ روس 9۔ میکسیکو 10۔ جاپان کے بعد دنیا کا گیارواں بڑا ملک بنتا ھے۔

پاکستان میں پنجابی صرف پنجاب کی ھی سب سے بڑی آبادی نہیں ھیں۔ بلکہ خیبر پختونخوا کی دوسری بڑی آبادی ' بلوچستان کے پختون علاقے کی دوسری بڑی آبادی ' بلوچستان کے بلوچ علاقے کی دوسری بڑی آبادی ' سندھ کی دوسری بڑی آبادی ' کراچی کی دوسری بڑی آبادی بھی پنجابی ھی ھیں۔

پاکستان کے ایک لاکھ سے زیادہ آبادی والے 98 شھروں میں سے 62 شھر پنجابی اکثریتی آبادی والے ھیں۔ اس لیے زراعت ' صنعت ' تجارت ' سیاست ' صحافت ' ھنرمندی کے شعبوں ' بری و بحری و فضائی افواج اور سول سروسز کے محکموں ' تعلیمی اداروں جبکہ بڑے بڑے شھروں میں پنجابی چھائے ھوئے نظر آتے ھیں اور چھائے ھوئے نظر آتے رھیں گے۔

لیکن پاکستان کے قیام سے بنگلہ دیش بننے تک تو پاکستان پر پٹھانوں ' ھندوستانی مھاجروں ' بلوچوں کی حکمرانی رھی۔ جبکہ مغربی پاکستان کے پاکستان بننے کے بعد بھی؛

1۔ کیا پاکستان کی %60 آبادی پنجابی قوم کو پاکستان میں سماجی بالادستی کا حق نہ دینا انسانی وقار اور پاکستان پر حکمرانی کرنے کا حق نہ دینا جمہوری اقدار کو پامال کرنا نہیں ھے؟

2۔ کیا پاکستان کی %60 آبادی پنجابی کا سماجی حق نہیں بنتا کہ؛ "پاکستان کی قومی زبان" پنجابی ھو؟

3۔ کیا پاکستان کی %60 آبادی پنجابی کا انتظامی حق نہیں بنتا کہ؛ "پاکستان میں حکمرانی" پنجابی کی ھو؟

پاکستان میں حکمرانی کی اس وقت بھی صورتحال یہ ھے کہ؛

01۔ پاکستان کا صدر ھندوستانی مھاجر ھے۔

02۔ پاکستان کا وزیرِ اعظم پٹھان ھے۔

03۔ پاکستان کی سینٹ کا چیئرمین بلوچ ھے۔

04۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کا اسپیکر پٹھان ھے۔

05۔ پاکستان کی سینٹ کا ڈپٹی چیئرمین پٹھان ھے۔

06۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر پٹھان ھے۔

07۔ خیبر پختونخوا کا گورنر پٹھان ھے۔

08۔ بلوچستان کا گورنر پٹھان ھے۔

09۔ سندھ کا گورنر ھندوستانی مھاجر ھے۔

10۔ پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ بلوچ ھے۔

پھر بھی پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر؛

1۔ پنجاب کو گالیاں دیتے ھیں۔

2۔ پنجابیوں کی تذلیل کرتے ھیں۔

3۔ پنجابی قوم کی توھین کرتے ھیں۔

پاکستان میں "پنجابی قوم" کے ساتھ "کھیل" کیا کھیلا جا رھا ھے؟

کیا پنجابی قوم میں سماجی عزت نہ ھونے اور انتظامی حق نہ ملنے کی سوچ کے تیزی کے ساتھ فروغ پانے کی وجہ سے پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر اب پاکستان میں حکمرانی کرکے؛

1۔ پاکستان کی عوام میں سماجی استحکام اور معاشی خوشحالی کر پائیں گے؟

2۔ پاکستان میں انتظامی بہتری اور اقتصادی ترقی کر پائیں گے؟

پاکستان کے قیام کو سات دھائیاں ھوچکی ھیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی قوم ھونے کے باوجود "پنجابی قوم" نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کیے رکھی۔ اس لیے پاکستان پر "پنجابی راج" قائم نہیں کیا۔

حالانکہ پنجابی صوفی شاعر اور دانشور شاہ حسین نے پنجابیوں کو نصیحت کی تھی کہ؛

کہے حسین فقیر سائیں دا

تخت نہ ملدے منگے

جبکہ جمہوری نظام میں اکثریت حکومت کیا کرتی ھے۔ اس لیے افلاطون نے اپنی قوم کو آگاہ کیا تھا کہ؛ سیاست سے کنارہ کشی کا انجام یہ ھوگا کہ تم سے کم تر لوگ اٹھ کر تم پر راج کرنے لگیں گے۔

نتیجہ یہ نکلا کہ؛ پاکستان کی چھوٹی قوموں نے پاکستان کی %60 آبادی پنجابی پر نہ صرف راج کرنا شروع کردیا۔ بلکہ پنجابیوں کی تذلیل و توھین کرنا بھی شروع کردی اور بلیک میل کرنا بھی شروع کردیا۔

لہذا پاکستان میں سماجی افراتفری ' انتظامی بدنظمی ' معاشی بحران ' اقتصادی بربادی بڑھتے بڑھتے اب انتہا کو پہنچ چکی ھے۔

پاکستان میں سماجی ' معاشی ' انتظامی ' اقتصادی استحکام کے لیے ضروری ھے کہ؛ پاکستان کی سب سے بڑی قوم ھونے کی وجہ سے جمہوری اصولوں کے مطابق "پنجابی قوم" پاکستان پر حکمرانی کرے۔ لہذا؛

1۔ پنجابی قوم کے "سیاسی شعور" کو بیدار کرکے پاکستان پر "پنجابی راج" قائم کیا جائے۔

2۔ پاکستان کی جن چھوٹی قوموں نے پنجابی قوم کے ساتھ مناسب مراسم رکھے۔ انہیں پاکستان میں "پنجابی راج" سے فائدہ دیا جائے۔

3۔ پاکستان کی جن چھوٹی قوموں نے پنجابی قوم کے ساتھ مناسب مراسم نہیں رکھے۔ وہ پنجابی قوم کے ساتھ اپنے مراسم درست کریں۔

4۔ پاکستان کی جن چھوٹی قوموں نے پنجابی قوم کے ساتھ مناسب مراسم نہیں رکھے۔ انہیں اس پہلو پر غور و فکر کرنا چاھیے کہ؛ پنجابی قوم اگر ان قوموں سے "سماجی لاتعلقی" اختیار کرلے تو پنجابی قوم کو کیا نقصان ھوگا اور ان قوموں کو کیا نقصان ھوگا؟

پاکستان پر "پنجابی راج" سے مراد ھے کہ؛

1۔ پاکستان کا وزیر اعظم پنجابی ھو۔

2۔ پاکستان کا صدر پنجابی ھو۔

3۔ پاکستان کی سینٹ کا چیئرمین پنجابی ھو۔

4۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کا اسپیکر پنجابی ھو۔

5۔ پاکستان کے وفاقی اداروں کے سربراہ پنجابی ھوں۔

6۔ پنجاب کا وزیر اعلی پنجابی ھو۔

7۔ پاکستان کے صوبوں کے گورنر پنجابی ھوں۔

8۔ پاکستان کے صوبوں کے چیف سیکرٹری پنجابی ھوں۔

9۔ پاکستان کے صوبوں کے انسپکٹر جنرل پولیس پنجابی ھوں۔

No comments:

Post a Comment