ایک تو سماٹ سندھی ھیں ' جو اصل سندھی ھیں۔ یہ ھندو ھیں یا ھندو سے مسلمان ھوئے۔
دوسرے بھٹو ' بھٹی ' مہر ' کلیار ' جویا ' کچھیلا ' کھرل ' سیال ' کھوکھر ' کھیڑے وغیرہ ذاتیں ھیں۔ یہ وہ پنجابی بیک گڑاؤنڈ سندھی ھیں ' جو 1900 سے بھی بہت پہلے سے سندھ میں رہ رھے ھیں اور اب تو گھر میں اور آپس میں بھی سندھی ھی بولتے ھیں۔
تیسرے ارائیں ' جاٹ ' راجپوت ذات کے وہ پنجابی بیک گڑاؤنڈ سندھی ھیں ' جو 1901 اور 1932 میں جا کر سندھ میں آباد ھوئے۔ سندھ کی ثقافت اور رسم رواج اختیار کرلینے کے بعد اب سندھی ھی لگتے ھیں اور سندھی زبان بھی بولتے ھیں ' لیکن گھر میں یا آپس میں اب بھی پنجابی ھی بولتے ھیں۔
چوتھے بلوچ بیک گڑاؤنڈ سندھی ھیں ' جو 1700 میں عباسی کلھوڑا کے سندھ پر حکومت کے دور میں سندھ آنا شروع ھوئے اور 1783 میں عباسی کلھوڑا سے حکومت چھین کر سندھ پر حکومت کرنا شروع کر دی اور مزید بلوچوں کو لا کر سندھ میں زمینیں دے کر آباد کرنا شروع کر دیا۔ یہ گھر میں بلوچی یا سرائیکی لیکن باھر سرائیکی ھی بولتے ھیں اور زیادہ تر اپنے نام کے ساتھ اب بھی بلوچ ضرور لکھتے ھیں۔
پانچویں عباسی ' انصاری ' گیلانی ' جیلانی ' قریشی ' صدیقی وغیرہ عربی بیک گڑاؤنڈ سندھی ھیں۔ جنھوں نے محمد بن قاسم کے سندھ پر قبضے کے بعد سے عربوں اور ترکوں کے سندھ پر قبضے کے دوران ' مختلف وقتوں میں ایران کے راستے سندھ آکر آستانے اور مزار بنا کر آباد ھونا اور پیری مریدی کرنا یا حکومتی معاملات سے وابستہ ھونا شروع کیا۔
دیہی سندھ میں رھنے والے سماٹ سندھیوں ' پنجابی بیک گڑاؤنڈ سندھیوں ' عربی بیک گڑاؤنڈ سندھیوں اور بلوچ بیک گڑاؤنڈ سندھیوں کا آپس میں بزنس اور سوشل انٹر ایکشن ھے۔ لیکن دیہی سندھ پر اس وقت سماٹ سندھیوں اور پنجابی بیک گڑاؤنڈ سندھیوں کے مقابلے میں عربی بیک گڑاؤنڈ سندھیوں اور بلوچ بیک گڑاؤنڈ سندھیوں کی سوشل ' اکنامک اور پولیٹیکل ڈومینیشن ھے۔
شہری سندھ کے علاقے ' کراچی میں پنجابی ' پٹھان ' راجستھانی ' گجراتی ' بہاری ، یوپی والے اور سی پی والے رھتے ھیں ' جو خود کو سندھی نہیں کہلواتے۔ نہ انکو سندھی آتی ھے اور نہ انکا سندھیوں کے ساتھ بزنس یا سوشل انٹر ایکشن ھے اور نہ وہ سندھی بننے یا خود کو سندھی کہلوانے پر تیار ھیں۔ لیکن شہری سندھ پر اس وقت پنجابیوں ' پٹھانوں ' راجستھانیوں ' گجراتیوں ' بہاریوں کے مقابلے میں یوپی والوں اور سی پی والوں کی سوشل ' اکنامک اور پولیٹیکل ڈومینیشن ھے۔
No comments:
Post a Comment