لفظ
بلوچ کی وجہ تسمیہ نسبی اور سکنی اعتبار سے بھی کی جاسکتی ہے۔ نسبی اعتبار سے بلوص
نمرود کا لقب ہے۔ نمرود بابلی سلطنت کا پہلا بادشاہ تھا اور اسے احتراماً بلوص
یعنی سورج کا دیوتا پکارا جاتا تھا۔ یہ وہی نمرود ہے جس نے حضرت ابراہیم ؑ
کیلئے آگ کا الاؤ تیار کرایا تھا۔
سکنی
اعتبار سے بھی بلوچ وادی بلوص کے رہنے والے ہیں۔ یہ وادی شام میں حلب کے قریب
ایران کی سر حد کے ساتھ واقع ہے۔ اس علاقے کو کردستان بھی کہا جاتا ھے۔ خود بلوچوں
کے پاس اپنی تاریخ کے بارے میں ایک نظم کے سوا کوئی قدیم مواد نہیں۔اس نظم میں آیا ہے کہ وہ امیر حمزہ ؓ
کی اولاد ہیں اور حلب سے آئے ہیں۔ سردار محمد خان گشکوری نے یہ نظریہ پیش کیا ہے
کہ بلوچ کلدانی اور بابلی ہیں اور مشہور حکمران نمرود کی نسل سے ہیں۔ ایک عجیب
بات یہ ہے کہ بلوچی زبان میں جتنی بھی کہانیاں ملتی ہیں وہ سب میر چاکر خان رند
کے زمانے یا اس کے بعد کی ہیں۔
یہ
بات قرین قیاس ہے کہ بلوچوں نے دومرتبہ نقل مکانی کی اور دونوں بار ہجرت کی وجہ
ایک بڑے علاقے میں نئے فاتحوں کی پیش قدمی تھی۔ پہلی ہجرت اس وقت ہوئی جب فارس میں
سلجوقیوں کے ہاتھوں ولیمی اور غزنوی طاقتوں کا خاتمہ ہوا۔ اس موقع پر یہ لوگ کرمان
چھوڑ کر سیستان اور مغربی مکران کے علاقوں میں آکر آباد ہوئے۔ دوسری بار انہوں نے
اس علاقے کو چھوڑ کر وادیء سندھ میں مشرقی مکران کا رخ کیا۔ یہ ہجرت چنگیز خان کے حملوں
اور جلال الدین منگول کی وجہ سے ہوئی۔
دوسری
ہجرت کے نتیجے میں انھوں نے پہلی بار وادیء سندھ کی تہذیب کے مھرگڑہ کے علاقے میں
قدم رکھا جو بروھی علاقہ تھا۔ جس سے ان کے لئے تیسری اور آخری ہجرت کا راستہ
ہموار ہوا اور اس آخری ہجرت نے ان کے بڑے حصے کو وادیء سندھ کی تہذیب کے موھنجو
دڑو کے میدانی علاقے ' سماٹ کے علاقے اور ھڑپا کے میدانی علاقے ' پنجابی کے علاقے
میں منتشر کردیا۔ اس آخری ہجرت کا زمانہ ہندوستان پر تیمور لنگ کے حملے اور بابر
کی یورش کا زمانہ ہے۔
1430
میں میر جلال خان رند کی سر کرد گی میں بلوچوں کے چوالیس مختلف قبیلے سیستان سے
مکران آئے تھے اور وہاں سے وہ بلوچستان ' پنجاب ' سندھ اور گجرات میں پھیل گئے۔
امیر جلال خان ان بلوچ قبائل کا سردار تھا جو گیارہوں عیسوی میں کرمان کے پہاڑ
وں اور لوط کے ریگستان میں رہتے تھے۔ بلوچوں کی مقبول عام روایات اسی سردار کے عہد
سے شروع ہوتی ہیں۔ اس کے چار بیٹے رند ' کورائی ' لاشار اور ھوت تھے۔ آگے چل کر
رند کی اولاد سے میر چاکر خان رند بن میر شہک پیدا ہوا۔ جو بلوچ نسل کا عظیم
سپوت کہلاتا ہے۔
سردار
چاکر خان رند کی تاریخ پیدائش کی مختلف روایات ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ معتبر 1468
ھے۔ رندوں نے بروھیوں کے ساتھ جنگ کرکے 1486 میں قلات کو فتح کیا تو اس وقت سردار
چاکر کی عمر صرف 18 سال تھی۔ 1488 میں میر شہک نے سبی پہنچ کر سبی کے حاکم جام
نندہ کو شکست دی ' جو سماٹ سندھی حکمران تھا اور اسی سال میر شہک وفات پا گۓ اور
پورے رند علاقوں کا حکمران میر چاکر بنا۔
میر
چاکر خان رند نے خضدار فتح کیا۔ درۂ مولا پر قبضہ کیا۔ کچھی کے میدانوں کو فتح
کیا۔ درۂ بولان پر قبضہ کیا اور ڈھاڈر پر قبضہ کرنے کے بعد سبّی کو فتح کیا۔ جو
بروھی اور سماٹ ان کے مقابلے پر آئے یا تو وہ قتل کردئیے گئے یا انہوں نے اطاعت
قبول کر لی۔ آخر میر چاکر خان رند کے عہد میں سارا بلوچستان بلوچوں کے قبضے میں
آگیا اور وہاں ان کی حکومت قائم ہوگئی۔ اس کے بعد قبائلی حسد کی وجہ سے رند و
لاشاریوں میں جنگ چھڑ گئی جو تیس سال تک جاری رہی۔ رند اور لاشار کی تیس سالہ جنگ
کا آغاز سال 1489ءمیں شروع ھوا جو کہ 1519ءمیں اختتام پذیر ہوا۔
دراوڑی
زبان کا لفظ ھے " بر" جسکے معنی ھیں "آنا" اور دوسرا لفظ ھے
"اوک" جو کہ اسم مفعول کی نشانی ہے. جسکے معنی "والا" ھے.
"بر- اوک" کے لفظ کا مفھومی معنی "نیا آنے والا" یعنی "
نو وارد ' اجنبی ' پرائے دیس والا " ھے. رند و لاشاری قبائل جب 1500 عیسوی کے
آخر میں براھوی کی زمین پر آنا شروع ھوئے تو بروھی انکو "بر- اوک" کہتے
تھے۔ اس لیے کردستانی بلوص قبائل نے " بلوص " سے " بروک" بننا
شروع کردیا اور پھر " بروچ" بن گئے۔
مغل بادشاہ ھمایوں نے 1555 میں دھلی کا تخت سمبھالنے کے بعد سردار چاکر خان رند کی سر کرد گی میں چالیس ھزار کردستانی بلوص قبائل کو پنجابیوں کی مزاھمت کا مقابلہ کرنے کے لیے وادیء سندھ کی تہذیب کے ھڑپا کے میدانی علاقے میں آباد کیا ' جو پنجابی علاقہ تھا۔ پنجاب میں کردستانی بلوص قبائل نے خود کو بلوچ کہلوانا شروع کردیا۔ 1783 میں پنجاب سے بلوچ قبائل نے موھنجو دڑو کے میدانی علاقے میں قدم رکھا ' جو سماٹ علاقہ تھا اور عباسی کلھوڑا کی فوج میں بھرتی ھونا شروع کردیا اور بعد میں عباسی کلھوڑا کے ساتھ جنگ کرکے سندھ پر قبضہ کرلیا۔
تالپور بلوچ قبائل کے وادئ سندھ کی حکمرانی سمبھالنے کے بعد مری ' بگٹی ' کھوسہ ' بجارانی ' سندرانی ' مزاری ' لنڈ ' دریشک ' لغاری ' گورچانی ' قیصرانی ' بزدار ' کھیتران ' رند ' گشکوری ' دشتی ' گوپانگ ' چانڈیئے اور بہت سے دوسرے چھوٹے چھوٹے قبائل کے خاندانوں نے پنجاب کے علاوہ بلوچستان سے بھی سندھ کے علاقے میں جاکر اپنی جاگیریں بنانا شروع کردیں۔ بلوچستان سے سندھ میں جانے والوں نے خود کو بلوچستان میں بروچ کہلوانے کی وجہ سے سندھ میں بھی " بروچ" ھی کہلوایا جبکہ پنجاب سے سندھ میں جانے والوں نے خود کو پنجاب میں بلوچ کہلوانے کی وجہ سے سندھ میں بھی " بلوچ" ھی کہلوایا۔ پنجاب کے بلوچ اب 1962 کے بعد خود کو بلوچ کے بجائے سرائیکی کہلوانے لگے ھیں۔
مغل بادشاہ ھمایوں نے 1555 میں دھلی کا تخت سمبھالنے کے بعد سردار چاکر خان رند کی سر کرد گی میں چالیس ھزار کردستانی بلوص قبائل کو پنجابیوں کی مزاھمت کا مقابلہ کرنے کے لیے وادیء سندھ کی تہذیب کے ھڑپا کے میدانی علاقے میں آباد کیا ' جو پنجابی علاقہ تھا۔ پنجاب میں کردستانی بلوص قبائل نے خود کو بلوچ کہلوانا شروع کردیا۔ 1783 میں پنجاب سے بلوچ قبائل نے موھنجو دڑو کے میدانی علاقے میں قدم رکھا ' جو سماٹ علاقہ تھا اور عباسی کلھوڑا کی فوج میں بھرتی ھونا شروع کردیا اور بعد میں عباسی کلھوڑا کے ساتھ جنگ کرکے سندھ پر قبضہ کرلیا۔
تالپور بلوچ قبائل کے وادئ سندھ کی حکمرانی سمبھالنے کے بعد مری ' بگٹی ' کھوسہ ' بجارانی ' سندرانی ' مزاری ' لنڈ ' دریشک ' لغاری ' گورچانی ' قیصرانی ' بزدار ' کھیتران ' رند ' گشکوری ' دشتی ' گوپانگ ' چانڈیئے اور بہت سے دوسرے چھوٹے چھوٹے قبائل کے خاندانوں نے پنجاب کے علاوہ بلوچستان سے بھی سندھ کے علاقے میں جاکر اپنی جاگیریں بنانا شروع کردیں۔ بلوچستان سے سندھ میں جانے والوں نے خود کو بلوچستان میں بروچ کہلوانے کی وجہ سے سندھ میں بھی " بروچ" ھی کہلوایا جبکہ پنجاب سے سندھ میں جانے والوں نے خود کو پنجاب میں بلوچ کہلوانے کی وجہ سے سندھ میں بھی " بلوچ" ھی کہلوایا۔ پنجاب کے بلوچ اب 1962 کے بعد خود کو بلوچ کے بجائے سرائیکی کہلوانے لگے ھیں۔
بلوچستان
اور بلوچستان سے سندھ جانے والے کردستانی بلوص قبائل خود کو 1900 عیسوی تک " بروچ" ھی کہلواتے تھے
لیکن 1970 میں ون یونٹ کے خاتمے کے بعد قلات ' مکران ' خاران اور لسبیلہ کی
ریاستوں کو یکجا کرکے تاریخ میں پہلی بار بلوچستان کے نام سے صوبہ بنوا کر
"براھوی" کو " بلوچ" بنا دیا اور خود " بروچ" ھی
رھے لیکن پھر وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی " بروچ" سے "
بلوچ" بن گئے جبکہ سندھ میں " بروچ" سے "سندھی بلوچ" بن
گئے۔
پاکستان
کے آبادی کے لحاظ سے 50 بڑے شہروں میں سے ان کردستانیوں کی کسی ایک شہر میں بھی
اکثریت نہیں ھے کیونکہ کردستان سے یہ قبائل کی شکل میں آئے تھے اور بروھیوں ' سماٹ
' ڈیراوالی پنجابی ' ریاستی پنجابی ' ملتانی پنجابی کے دیہی علاقوں میں اپنی
قبائلی افرادی قوت کی بنا پر اپنا غلبہ کرنے کے بعد سے لیکر اب تک دیہی علاقوں میں
ھی اپنی بالادستی قائم کیے ھوئے ھیں۔
میر
چاکر کے زمانے تک جب تک یہ کردستانی قبائل منظم رہے من حیث الکل بلوچوں کی سرداری
رندوں میں رہی۔ لاشاریوں سے تیس سالہ جنگ کے بعد اور پھر پنجاب میں دودھائیوں سے
لڑائی کے بعد بلوچوں کی تنظیم منتشر ہوگئی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی سرداری
بھی تقسیم ہو کر رہ گئی اور ہر قبیلے نے نیم خود مختارانہ حیثیت حاصل کر لی۔
یہی
وجہ ہے کہ بعد کے زمانے میں قبیلے کی کمزوری کی وجہ سے رندوں کی سرداری منقسم
ہوگئی۔ جب میر بجار پژ رند پنجاب میں میر چاکر سے علیحدہ ہوا اور دودائی قبیلہ سے
لڑائی شروع کی تو اس نے اپنے آپ کو رندوں کا بادشاہ کہلوایا۔ میر چاکر رند اور بلو
چوں کے دوسرے مشہور رہنما سب کے سب رندوں کے پژ گروہ سے متعلق تھے۔ غرض اس طرح
کردستانی نزاد بلوچوں میں قبائلیت اور علیحدگی کی ابتداء ہوئی۔
بلوچوں
میں یہ عام دستور سا ہوگیا ہے کہ ان میں سے ہر ایک قبیلہ رند ہونے کا دعویٰ
کرتاہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کا رند ہونے سے متعلق کوئی تعلق
نہیں۔ تقریاً آدھے رند پنجاب میں مقیم ہیں۔ ان کے آباو اجداد میر چاکر رند کے ساتھ
وہاں گئے تھے۔ میر چاکر رند نے وہیں ضلع ساہیوال میں انتقال کیا اور وہیں دفن
ہوئے۔
بہر
حال رندوں کی ایک خاص تعداد نے میر چاکر رند سے علیحدہ ہو کر میر بجار کو اپنا
سردار مان لیا۔ میر بجار نے پنجاب میں دودائیوں کے خلاف بہت سی لڑائیاں لڑیں اور
اس کے بعد وہ سندھ سے ہوتا ہوا بلوچستان واپس آگیا۔ اس کے بہت سے پیروکار اور
ساتھیوں نے ڈیرہ غازیخان ، سندھ اور بلوچستان میں سکونت اختیار کرلی اور اپنے آپ
کو مختلف ناموں سے موسوم کیا۔ لیکن وہ ہمیشہ اپنے رند ہونے پر فخر کرتے رہے اور اب
بھی کرتے ھیں۔
بلوچ
قبائل۔
آزادی
اسحاق زئی
اندارا
بادیازئی
اسحاق زئی
اندارا
بادیازئی
بادینی
بازر زئی
بجارانی
ہڈدار
براہمانی
بزدار
بکھرانی
بگھیو
بازر زئی
بجارانی
ہڈدار
براہمانی
بزدار
بکھرانی
بگھیو
بولانی
بھولو زئی
پھگ
پھژ
پیتافی
پیروزانی
پھگ
پھژ
پیتافی
پیروزانی
پیرو زئی
پیندازئی
جاکھرانی
جتوئی
جلبانی
جلگاری
جمالانی
جمالی
جوگی
پیندازئی
جاکھرانی
جتوئی
جلبانی
جلگاری
جمالانی
جمالی
جوگی
چاکرانی
چامرا
چوٹئی
چامرا
چوٹئی
چولانی
چولیانی
چولیانی
چھلگری
حاجن زئی
حاجیان زئی
خیانی
حاجن زئی
حاجیان زئی
خیانی
دان
گن زئی
دیناری
راہوجا
ساکھانی
سرائی
سرخی
سنانی
سندرانی
سوہریانی
سیاہ پاد
شر
شیہہ
عالیانی
گنانی
راہوجا
راہیجہ
رامی زئی
رخسنی
ساہاکانیرامی زئی
رخسنی
رستمانی
رند
رند
روزی
ساکھانی
سرائی
سرخی
سنانی
سندرانی
سوہریانی
سیاہ پاد
سیکانی
شابیاکانی
شاہیجہ
شابیاکانی
شاہیجہ
شارکانی
شاسانیشر
شیہہ
عالیانی
عسبانی
عمرانی
عیسانی
عمرانی
عیسانی
غلام بولدک
فردکانی
کچکفردکانی
کرموزئی
کلوانی
کلوئی
کولاچی
کولانک
کھوسہ
کھور زئی
کھہیر
گادئی
(سراٹی)گنانی
گبول
گدری
گرزئی
گور گیثر
مودارانی
ناہر
نتکانی
نظامانی
نندوانی
نوشیروانی
نیوری دن
ہوتان زئی
گرزئی
گور گیثر
گورشیانی
گور مانی
لاشاری
لاکھی زئی
مندانیگور مانی
لاشاری
لاکھی زئی
لغاری
لنڈ
مراد خیل
مسوری
مراد خیل
مسوری
مغیری
مگسی
مگسی
مودارانی
ناہر
نتکانی
نظامانی
نندوانی
نوشیروانی
نیوری دن
ہوتان زئی
شکریہ جناب تاریخ لکھنے کا لیکن کاوی تضاد ہے آپکی تحریر میں
ReplyDeleteTumari maa ki kus jhoot se bhari taarekh
ReplyDelete