کراچی پورٹ سٹی ھے۔ سندھ میں 1983 میں شروع کی جانے والی MRD کی
تحرک کی آڑ میں سندھ کی آزادی کی تحریک کے 1985 کے انتخابات کے بعد پاکستان میں
سندھی محمد خان جونیجو اور سندھ میں سندھی غوث علی شاہ کی قیادت میں PML-Junejo کی
حکومت بن جانے اور جی- ایم سید کے سندھودیش کی تحریک سے دستبردار ھوجانے کے باعث
سندھ کی آزادی کی تحریک کے ناکام ھوجانے کی وجہ سے بھارتی خفیہ ایجنسی
"را" نے 1986 میں MQM کو کراچی پر مسلط کرکے مھاجروں کے
ذریعے جلسے ' جلوس ' مظاھرے ' جلاؤ ' گھیراؤ '' ھنگامے ' ھڑتالیں ' بھتہ خوری '
اغوا ' ٹارگٹ کلنگ کروا کر پاکستان کی معیشت برباد کروانی شروع کی تھی۔
کراچی میں انڈسٹری پنجابیوں کی تھی لیکن 1986 میں MQM کے
قیام کے بعد پنجابیوں نے کراچی میں انڈسٹری لگنا نہ صرف بند کردی تھی بلکہ انڈسٹری
کو پنجاب شفٹ کرنا اور مزید انڈسٹری پنجاب میں ھی لگانا شروع کردیا تھا۔ 2020
تک گوادر کے آپریٹ ھونے تک مھاجر نے کراچی میں مسئلہ بنے رھنا ھے۔ 2020 تک گوادر
کے آپریٹ ھونے کے بعد پنجابیوں نے کراچی سے بچی کھچی انڈسٹری اور اپنا بزنس گوادر
شفٹ کرنا شروع کردینا ھے۔ قومی اداروں ' بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ھیڈ
کوارٹر اسلام آباد اور لاھور شفٹ ھوجانے ھیں۔ اس کے بعد کراچی کے مھاجر نے معاشی
بحران کی وجہ سے بھوک کا شکار ھوکر خود ھی ٹھیک ھوجانا ھے اور کراچی میں بھی امن و
سکون ھوجانا ھے۔ نہ رھے گا بانس ۔ نہ بجے گی بانسری۔
پاکستان میں قومی اسمبلی کی 272 نشستیں ھیں۔ جن میں سے 150 صرف
پنجاب سے ھیں۔ دیہی سندھ کی 41 ' کے پی کے کی 35 ' بلوچستان کی 14 اور فاٹا کی 12
نشستں ھیں۔ جبکہ کراچی کی قومی اسمبلی میں صرف 20 نشستیں ھیں. اس لیے پاکستان کی
وفاقی حکومت کی طرف سے 20 نشستوں پر حاوی طبقے کو زیادہ سیاسی اھمیت دینے کی ضرورت
نہیں ھے۔ کیونکہ سندھ کی صوبائی حکومت ھی اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے
ساتھ کراچی کے مقامی سطح پر سیاسی اور انتظامی طور پر نپٹ سکتی ھے۔
No comments:
Post a Comment