Thursday, 8 September 2016

ایم کیو ایم کب اور کیسے حکومت میں رھی؟

1988 میں پہلی بار جب پی پی پی حکومت میں ایم کیو ایم کو شامل کیا گیا تو اس وقت چیف آف آرمی اسٹاف ، مھاجر جنرل مرزا اسلم بیگ تھا اور جب پی پی پی کی حکومت نے 1990 میں ایم کیو ایم کے خلاف قلعہ آپریشن شروع کیا تو اس وقت بھی چیف آف آرمی اسٹاف ، مھاجر جنرل مرزا اسلم بیگ ھی تھا ، جس کی وجہ سے پی پی پی حکومت ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن مکمل نہ کر سکی اور پی پی پی کی حکومت ختم کردی گئی۔

1990 میں جب نواز شریف کی حکومت میں ایم کیو ایم شامل ھوئی تو اس وقت بھی چیف آف آرمی اسٹاف ، مھاجر جنرل مرزا اسلم بیگ ھی تھا۔ لیکن 1992 میں جب نواز شریف نے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کیا اور ایم کیو ایم کو حکومت سے نکال دیا گیا تو اس وقت چیف آف آرمی اسٹاف ، پنجابی جنرل آصف نواز جنجوعہ تھا اور 1993 میں جب دوبارہ پی پی پی کی حکومت بنی تو اس وقت چیف آف آرمی اسٹاف ، پٹھان جنرل وحید کاکڑ تھا۔ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل نہیں کیا گیا اور نواز شریف کی حکومت کے وقت سے جاری ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن بھی جاری رہا۔

1997 میں جب دوبارا نواز شریف کی حکومت بنی تو اس وقت چیف آف آرمی اسٹاف ، مھاجر جنرل جہانگیر كرامت تھا۔ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کیا گیا لیکن 1998 میں جب حکیم سعید کے قتل کے بعد ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تو مھاجر جنرل جہانگیر كرامت نے نواز شریف کی حکومت کو بحران میں مبتلا کرنا شروع کر دیا ، جس کی وجہ سے جنرل جہانگیر كرامت کو نکال کر دوسرا چیف آف آرمی اسٹاف بنانا پڑا۔ دوسرا چیف آف آرمی اسٹاف بھی مھاجر ھی بنا دیا گیا ، جو مھاجر جنرل مشرف تھا ، جس نے نواز شریف کی حکومت ھی ختم کردی۔

2001 میں مھاجر چیف آف آرمی اسٹاف ، جنرل مشرف کی حکومت کے دور میں الطاف حسین نے برطانیہ کے پرائم منسٹر ٹونی بلیئر کو خط لکھا ، جس کے بعد ایم کیو ایم کی طرف سے پاکستان میں جاسوسی کرنے اور ایم کیو ایم کو پاکستان کی فیڈرل گورنمنٹ اور سندھ گورنمنٹ میں حصہ دینے کا معاھدہ ھوا ، ظاھر ھے گورنمنٹ آف پاکستان کی مرضی کے بغیر معاھدہ نہیں ھو سکتا تھا اور 2001 میں مھاجر جنرل مشرف ھی پاکستان کا چیف آف آرمی سٹاف اور چیف ایگزیکٹو تھا ، اس نے ھی معاھدہ کی توثیق کی ھوگی۔ بلکہ معاھدہ کروایا اور ایم کیو ایم کے مردہ گھوڑے میں دوبارہ جان ڈالی۔ ورنہ ایم کیو ایم تو اس وقت تک مردار ھو چکی تھی۔

2002 کے الیکشن کے بعد پاکستان مسلم لیگ ق کی حکومت بنی تو اس وقت بھی چیف آف آرمی اسٹاف ، مھاجر جنرل مشرف ھی تھا۔ ایم کیو ایم پھر حکومت میں شامل کی گئی اور 2008 تک حکومت میں ھی رھی۔

2008 میں ایک بار پھر سے پی پی پی کی حکومت بنی تو اس وقت چیف آف آرمی اسٹاف گو کہ پنجابی جنرل اشفاق پرویز کیانی تھا لیکن اس کے باوجود سندھی پریذیڈنٹ آف پاکستان اور پی پی پی کے چیئرمین آصف زرداری نے ایم کیو ایم کو پی پی پی کی حکومت کا حصہ بنایا۔ یہ واحد موقع ھے جب ایم کیو ایم مھاجر چیف آف آرمی اسٹاف کے نہ ھونے کے باوجود حکومت کا حصہ بننے میں کامیاب ھوئی اور اس کی وجہ سندھی پریذیڈنٹ آف پاکستان اور پی پی پی کے چیئرمین آصف زرداری کا ایم کیو ایم کو پی پی پی کی حکومت کا حصہ بنا کر پنجاب اور پنجابیوں کے خلاف ایم کیو ایم کو استعمال کر کے پنجاب کو سرائیکی سازش کے ذریعے تقسیم کرنا ، پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کو ختم کر کے پی پی پی کی حکومت بنانا یا پنجاب میں گورنر رول کو ھی جاری رکھنا ، مھاجر آمر جنرل مشرف کی طرف سے پی سی او کے ذریعے ھٹائے گئے پنجابی چیف جسٹس چودھری افتخار کو بحال نہ ھونے دینا ، مھاجر بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ لے کر پنجابی بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کو کارنر کرنا تھا ، جس میں یہ سندھی پریذیڈنٹ آف پاکستان اور پی پی پی کا چیئرمین آصف زرداری ناکام رھا۔

2013 میں ایک بار پھر سے نواز شریف کی حکومت بنی تو پریزیڈنٹ آف پاکستان مھاجر ممنون حسین کو بنایا گیا لیکن چیف آف آرمی اسٹاف ' پنجابی جنرل اشفاق پرویز كیانی تھا۔ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل نہیں کیا گیا۔

2013 میں ھی پنجابی جنرل اشفاق پرویز كیانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد چیف آف آرمی اسٹاف ' پنجابی جنرل راحیل شریف بنا۔ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل نہیں کیا گیا۔

2016 میں پنجابی جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد چیف آف آرمی اسٹاف ' پنجابی جنرل قمر باجوہ بنا۔ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل نہیں کیا گیا۔

اب 
2017 میں بھی نواز شریف کی ھی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کی حکومت ھے اور نواز شریف کا نامزد کردہ شاھد خاقان عباسی پاکستان کا وزیرِ اعظم ھے۔ پریزیڈنٹ آف پاکستان ابھی تک مھاجر ممنون حسین ھی ھے۔ لیکن چیف آف آرمی اسٹاف ' پنجابی جنرل قمر باجوہ ھے۔ ایم کیو ایم کو ابھی تک حکومت میں شامل نہیں کیا گیا۔

کیا ایم کیو ایم ملٹری اسٹیبلشمنٹ ' فارن افیئرس اور سول بیوروکریسی میں موجود مھاجر پاور پلیئرس کا ایک پولیٹیکل ونگ نہیں ھے؟

No comments:

Post a Comment