Sunday, 9 August 2020

کراچی کو وفاقی علاقہ ڈکلیئر کرنے پر بد امنی پیدا کرنے کی کوشش کون کریں گے؟

کراچی ماسٹر پلان کی تیاری شروع کردی گئی ھے۔ سندھ میں گورنر راج نافذ کر کے صوبائی حکومت کو برطرف کر کے کراچی کو وفاقی علاقہ ڈکلیئر کر کے چیف ایڈمنسٹریٹر تعینات کیا جائے گا۔ فاٹا کی سینٹ نشستیں ختم کرکے کراچی کو الاٹ کی جائیں گی۔ حکومت وفاقی بلدیاتی ایکٹ نافذ کرے گی۔ کراچی میں ڈسٹرک ختم کرکے 40 ٹائون اور 320 یونین کمیٹیاں بنائی جائیں گی۔

پاکستان کی 2017 کی مردم شماری کے مطابق سندھ میں سندھیوں کی آبادی 2 کروڑ 95 لاکھ ھے۔ دیہی سندھ میں 2 لاکھ 80 ھزار اور کراچی میں 15 لاکھ سندھی رھتے ھیں۔ لیکن سندھ میں 12 سال پی پی پی کی حکومت ھونے کی وجہ سے نہ صرف دیہی سندھ کے رھنے والے سندھی صوبائی وزیروں اور مشیروں نے بلکہ کراچی کے پولیس ' صحت ' تعلیم ' لینڈ اینڈ یوٹیلائزیشن ' ٹیکس اینڈ روینیو ' کے ڈی اے ' کے ایم سی ' بلڈنگ کنٹرول ' واٹر بورڈ ' فشریز اور دیگر محکموں میں ایک لاکھ سرکاری افسروں اور ملازموں ' ٹھیکیداروں اور دلالوں نے جبکہ 4 لاکھ ان کے عزیز و اقارب ' خدمتگاروں و خوشامدیوں نے بھی ڈیرے ڈالے ھوئے ھیں۔

سندھ میں پی پی پی کی حکومت ھونے کی وجہ سے یہ 5 لاکھ افراد برسہا برس سے صوبائی حکومت کے محکموں میں عمل دخل بھی رکھتے ھیں اور آپس میں زیادہ رابطے میں بھی رھتے ھیں۔ اس لیے نفسیاتی طور پر "کنوئیں کے مینڈک" بنے ھوئے ھیں۔ اپنی "موج مستی" میں مست ھیں۔ انہیں اپنے ماحول سے باھر کے حالات کا صحیح طرح سے اندازہ نہیں ھے۔

کراچی کو وفاقی علاقہ ڈکلیئر کر کے کراچی کی حدود میں تحصیل میرپور ساکرو ' کیٹی بندر ' گڈانی ' حب مکمل شامل کر لیے جائیں گے۔ تھانہ بولا خان ' ٹھٹہ تحصیل کا بڑا علاقہ بھی کراچی میں شامل کر کے گجو اور نوری آباد تک کا اضافہ کیا جائے گا۔ اس لیے مزید 15 لاکھ سندھیوں کے کراچی میں شامل ھوجانے کی وجہ سے کراچی میں مستقل رھائش پذیر سندھیوں کی آبادی 30 لاکھ جبکہ دیہی سندھ میں 2 کروڑ 65 لاکھ ھوگی۔

کراچی کو وفاقی علاقہ ڈکلیئر کرنے کی وجہ سے کراچی میں مستقل رھائش پذیر 30 لاکھ سندھیوں کو معاشی فائدہ ھوگا۔ لیکن کراچی میں وہ اقلیت میں ھوں گے۔ اس لیے کراچی کو وفاقی علاقہ ڈکلیئر کرنے پر شور و شرابہ اور بلوے و ھنگامے نہیں کریں گے۔ دیہی سندھ میں رھنے والے 2 کروڑ 60 لاکھ سندھیوں کو چونکہ نہ فائدہ ھوگا اور نہ نقصان ھوگا۔ کیونکہ ان کے حالات پی پی پی کی حکومت کے دور جیسے ھی رھنے ھیں۔ اس لیے انہوں نے بھی نہ شور و شرابہ کرنا ھے اور نہ بلوے و ھنگامے کرنے ھیں۔

لیکن کراچی میں 5 لاکھ کی تعداد میں برسہا برس سے ڈیرے ڈالنے والے دیہی سندھ کے رھنے والے سندھی صوبائی وزیروں اور مشیروں ' افسروں اور ملازموں ' ٹھیکیداروں اور دلالوں ' ان کے عزیز و اقارب ' خدمتگاروں و خوشامدیوں کی ' جن میں سیاستدان اور صحافی بھی شامل ھیں۔ کراچی کو وفاقی علاقہ ڈکلیئر کرنے سے تو دنیا ھی اجڑ جانی ھے۔ اس لیے انہوں نے مرنے مارنے والا انداز اختیار کرنے کی کوشش کرنی ھے۔ بلکہ ابھی سے برے وقت میں شور و شرابہ کرنے اور بلوے و ھنگامے کرنے کی تیاریاں کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کر رھے ھیں۔

سندھ میں پی پی پی کی حکومت ھونے کی وجہ سے کراچی میں ڈیرے ڈال کر 12 سال سے "موج مستی" کرنے والے 5 لاکھ دیہی سندھ کے سندھیوں نے بھرپور بھاگ دوڑ کے باوجود بلوے و ھنگامے نہیں کر پانا۔ اس لیے شور و شرابہ تک محدود رھیں گے اور چند ماہ تک بے تکی اور بے سروپا "طوطا کہانیاں" تراش کر اور نعرہ بازی و جگت بازی کرکے اپنا غم غلط کرنے کے ساتھ ساتھ دیہی سندھ میں ڈیرے ڈال کر دیہی سندھ میں رھنے والے سندھیوں کو پہلے ورغلانے اور بہکانے کی کوشش کرتے رھیں گے۔ پھر انہیں ھی لوٹنے کھسوٹنے میں مصروف ھوجائیں گے۔

پاکستان میں امریکہ کا "کیروٹ" اور "اسٹک" کھیل۔

امریکہ ھو یا برطانیہ ' چین ھو یا روس ' یہ انٹرنیشنل پاور ھیں۔ پنجابی قوم کو نہ انسے دوستی کرنے کی ضرورت ھے ' نہ دشمنی۔

پاکستان میں چونکہ گریٹ گلوبل گیم آف کمیونیکیشن اینڈ انرجی کوریڈورز ھو رہا ھے۔ اس لیے امریکہ اور برطانیہ نے یہ گیم جیتنے کے لیے پہلے پنجابیوں کو "فائر" کرنے کے لیے اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجروں ' سندھیوں ' پٹھانوں ' بلوچوں کو "ھائر" کیا ہوا تھا۔

امریکہ اور برطانیہ کا پاکستان کو لسانی انتشار میں مبتلا کرنے ' پنجابیوں کو لہجوں کی بنیاد پر بکھیرنے اور پنجاب کو علاقوں میں تقسیم کرنے کا پروگرام تھا۔ جسکے لیے اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجروں ' سندھیوں ' پٹھانوں ' بلوچوں کو "کیروٹ" دینے کی پالیسی تھی۔ جبکہ پنجابیوں کو "اسٹک" دکھانے کی۔

اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجر ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ پہلے مشرف اور اسکے بعد زرداری کی محنتوں اور کوششوں کے باوجود پی پی پی ' ایم کیو ایم ' اے این پی اور بلوچوں کا اتحاد بنا کر ' پاکستان پر حکومت کر کے بھی امریکہ اور برطانیہ کے ایجنڈے پر عمل نہ کروا سکے۔ اسلیے اب امریکہ اور برطانیہ کا ایجنڈا ظاھر ھے تبدیل ھونا ھی تھا۔

اب امریکہ اور برطانیہ کو اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجروں ' سندھیوں ' پٹھانوں ' بلوچوں کو "فائر " کر کے پنجابی "ھائر" کرنے پڑیں گے۔ اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجروں ' سندھیوں ' پٹھانوں ' بلوچوں کو "اسٹک" اور پنجابیوں کو "کیروٹ" دینی پڑے گی۔ ورنہ امریکہ اور برطانیہ نے پاکستان میں ہونے والا کمیونیکیشن اینڈ اینرجی کوریڈورز کا گریٹ گلوبل گیم ہار جانا ھے۔ جبکہ چین اور روس جیت جائیں گے۔

سارا کھیل چونکہ مفادات کا ھے۔ اسلیے پنجابیوں نے اپنا فائدہ اور نقصان سوچنا ھے۔ نہ کہ خاہ مخواہ کی ' امریکہ ھو یا برطانیہ ' چین ھو یا روس ' انکے ساتھ دوستیاں یا دشمنیاں کرتے پھرنا ھے۔

"پی این ایف" کراچی زون "کراچی کو منی پاکستان" بنائے گا۔

"پی این ایف کراچی زون" نے کراچی میں پیار و محبت ' امن و آشتی کا ماحول قائم کرکے "کراچی کو منی پاکستان" بنانا ھے۔ اس لیے "پنجابی قوم پرست" کراچی میں سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان اور بلوچ کے ساتھ بہترین سماجی و سیاسی مراسم رکھا کریں۔ انکے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آیا کریں۔ انہیں عزت و احترام دیا کریں۔ انکی مدد اور حوصلہ افزائی کیا کریں۔ ان کے ساتھ تعاون کیا کریں۔ جبکہ یوپی ' سی پی کے ھندوستانی مھاجر کے ساتھ دور دور سے سلام دعا رکھا کریں۔

"پی این ایف کراچی زون" کی تنظیم سازی مکمل کرنے کے بعد "پی این ایف" نے ٹاؤن ایگزیکٹو کمیٹی کے میمبر بنانے شروع کر دیے ھیں۔ 2021 میں کارکردگی ' قابلیت اور قیادت کی صلاحیت کی بنیاد پر ٹاؤن ایگزیکٹو کمیٹی کے میمبران میں سے "ٹاؤن آرگنائزر" بنائے جائیں گے۔ جبکہ "یونین کونسل" کی سطح پر تنظیم سازی 2022 میں کی جائے گی اور 2023 سے "پی این ایف کراچی زون" عوامی سطح پر کراچی میں متحرک ھوگا۔

"پی این ایف کراچی زون" کے ٹاؤن درج ذیل ھیں؛

01۔ لیاقت آباد ٹاؤن 02۔ شمالی ناظم آباد ٹاؤن 03۔ گلبرگ ٹاؤن 04۔ نیو کراچی ٹاؤن 05۔ کیماڑی ٹاؤن 06۔ بلدیہ ٹاؤن 07۔ اورنگی ٹاؤن 08۔ سائٹ ٹاؤن 09۔ گلشن ٹاؤن 10۔ کورنگی ٹاؤن 11۔ لانڈھی ٹاؤن 12۔ شاہ فیصل ٹاؤن 13۔ ملیر ٹاؤن 14۔ گڈاپ ٹاؤن 15۔ لیاری ٹاؤن 16۔ صدر ٹاؤن 17۔ جمشید ٹاؤن 18۔ بن قاسم ٹاؤن 19۔ اسٹیل ٹاؤن 20۔ بحریہ ٹاؤن۔

"پی این ایف کراچی زون" کی ٹاؤن ایگزیکٹو کمیٹی کا میمبر بننے کے لیے زونل آرگنائزر جناب Saleem Ilyas صاحب یا ڈپٹی زونل آرگنائزر جناب Taseer Wahdan صاحب سے رابطہ کریں۔

"پی این ایف" (پنجابی نیشنلسٹ فورم) کے پاکستان کے ھر علاقے میں زون ھیں۔ "پی این ایف" کے پاکستان میں شمالی پنجاب ' وسطی پنجاب ' جنوبی پنجاب ' سندھ ' کراچی ' بلوچستان براھوئی ایریا ' بلوچستان پشتون ایریا ' صوبہ سرحد زون ھیں۔

"پی این ایف" کے ھر زون کا مشن الگ الگ ھے۔ ھر زون میں پنجابیوں کے لیے سماجی ' معاشی ' سیاسی ' انتظامی مسائل کے مطابق "پی این ایف" کی ٹیم پروگرام بناتی ھے اور پالیسی ترتیب دیتی ھے۔ اس لیے پاکستان کے ھر علاقے میں سماجی ' معاشی ' سیاسی ' انتظامی معاملات کے بارے میں "پی این ایف" کی ٹیم کا "بیانیہ" بڑا واضح ھے۔

"پی این ایف" کا ھر زون اپنے اپنے زون میں اپنے اپنے مشن کے مطابق کام کر رھا ھے۔ اس وقت بھی "پی این ایف" پاکستان میں "پنجابی قوم پرستوں" کا سب سے بڑا نیٹ ورک بن چکا ھے۔ لیکن "پی این ایف" کی 2021 میں ضلع اور 2022 میں تحصیل کی سطح پر تنظیم سازی مکمل ھوگی اور 2023 سے "پی این ایف" عوامی سطح پر متحرک ھوگا۔

"پی این ایف" کی تنظیم سازی مکمل کرنے کے بعد سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی قوموں کے ساتھ اشتراک کرکے "پنجابی نیشنلسٹ فورم" پاکستان کی سطح پر "پاکستان نیشنلسٹ فورم" تشکیل دے گا۔

پاکستان میں کن کن شعبوں پر "پنجابی قوم" کا کنٹرول ضروری ھے۔

جس برادری کا شھر کی بلدیہ ' بار کونسل ' پریس کلب ' چیمبر آف کامرس اور تعلیمی اداروں پر "کنٹرول" ھو۔ اس برادری کا شھر پر "کنٹرول" ھوتا ھے۔ جس قوم کا ملک کی عدلیہ ' فارن سروسز ' سول سروسز ' ملٹری سروسز ‘ سیاسی جماعتوں پر "کنٹرول" ھو۔ اس قوم کا ملک پر "کنٹرول" ھوتا ھے۔

پاکستان کی 60% آبادی پنجابی ھے۔ جبکہ 40% آبادی سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر ھے۔ (ھندکو ' کشمیری اور ڈیرہ والی کا شمار پنجابی قوم میں ھوتا ھے)۔

کیا پاکستان کی 60% آبادی پنجابی کا پاکستان کی عدلیہ ' فارن سروسز ' سول سروسز ' ملٹری سروسز اور سیاسی جماعتوں جبکہ بڑے بڑے شھروں کی بلدیہ ' بار کونسل ' پریس کلب ' چیمبر آف کامرس اور تعلیمی اداروں پر "کنٹرول" نہیں ھونا چاھیے؟

پنجاب اسمبلی سے "پنجابی لینگویج ایکٹ" کب منظور کروایا جائے گا؟

سپریم کورٹ نے ستمبر 2015 میں آرٹیکل 251 کے احکامات کو بلا غیر ضروری تاخیر فوراَ نافذ کرنے کا حکم دیا تھا۔

آرٹیکل 251 کا متن ھے؛

1۔ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ھے اور آغاز سے 15 سال کے اندر اندر یہ انتظام کیا جائے کہ اسکو سرکاری اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔

2۔ ذیلی دفعہ (1) کے اندر رھتے ھوئے انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری زبان کے طور پر استعمال کی جاسکے گی جب تک اس کے انتظامات نہیں کیے جاتے کہ اس کی جگہ اردو لے لے۔

3۔ سرکاری زبان کے مرتبہ پر اثر انداز ھوئے بغیر ایک صوبائی اسمبلی بذریعہ قانون ایسے اقدامات کرسکتی ھے جس کے ذریعہ صوبائی زبان کے فروغ ' تدریس اور سرکاری زبان کے ساتھ ساتھ اس کے استعمال کا بھی بندوبست کیا جاسکے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کی تمہید میں کہا ھے کہ؛

" اس سے پہلے بھی ھم آرٹیکل 251 کے مندرجات کی اھمیت کی طرف توجہ دلوا چکے ھیں اور سرکاری امور میں سرکاری زبان اور صوبائی زبانوں کی ترویج کی اھمیت کو اجاگر کرچکے ھیں"۔

" عدالت نے مشاہدہ کیا ھے کہ حکومتِ پنجاب ' پنجابی زبان کو اس کا مقام دلوانے میں ناکام رھی ھے اور اس زبان کو حصولِ علم کا ذریعہ بنانے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے"۔

" دستور میں مہیا کردہ ذاتی وقار کے حق کا لازمی تقاضہ ھے کہ ریاست ھر مرد و زن شہری کی زبان کو چاھے وہ قومی ھو یا صوبائی ' ایک قابلِ احترام زبان کا درجہ ضرور دے"۔

" جب ریاست اس بات پر مصر ھوجائے کہ وہ زبانیں جو پاکستان کے شہریوں کی اکثریت بولتی ھے ' اس قابل نہیں ھیں کہ ان میں ریاستی کام انجام پا سکے تو پھر ریاست ان شہریوں کو حقیقی معنوں میں ان کے انسانی وقار سے محروم کر رھی ھے"۔

" اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ انفرادی اور اجتماعی وقار اور تعلیم باھم مربوط ھیں۔ تعلیم ' جو ایک بنیادی حق ھے ' براہ راست زبان سے تعلق رکھتی ھے"۔

یونیسکو جیسا ادارہ بھی ' جو اقوامِ متحدہ کا تعلیمی ' سائنسی اور ثقافتی ادارہ ھے ' اس بات کی تائید کرتا ھے کہ بچے کو اس کی اپنی زبان میں ھی تعلیم دی جانی چاھیئے کیونکہ اپنی زبان ھی وہ زبان ھے جو اپنے گھر اور ماحول سے سیکھتا ھے اور اسی کے زیرِسایہ پروان چڑھتا ھے۔ لیکن حکومت اس اھم معاملے سے بے نیاز دکھائی دیتی ھے"۔

" حکومتوں کی بے عملی اور ناکامی کو سامنے رکھتے ھوئے ' ھمارے سامنے سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں کہ ھم حکم جاری کریں ؛ آرٹیکل 251 کے احکامات کو بلا غیر ضروری تاخیر فوراَ نافذ کیا جائے"۔

" بغیر کسی غیر ضروری تاخیر کے نگرانی کرنے اور باھمی رابط قائم رکھنے والے ادارے آرٹیکل 251 کو نافذ کریں اور تمام متعلقہ اداروں میں اس دفعہ کا نفاذ یقینی بنائیں"۔

" اس فیصلے کے اجراع کے بعد ' اگر کوئی سرکاری ادارہ یا اھلکار آرٹیکل 251 کے احکامات کی خلاف ورزی جاری رکھے گا تو جس شہری کو بھی اس خلاف ورزی کے نتیجے میں نقصان یا ضرر پہنچے گا ' اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ھوگا"۔

" اس فیصلے کی نقل تمام وفاقی اور صوبائی معتمدین کو بھیجی جائے تاکہ وہ آرٹیکل 5 کی روشنی میں آرٹیکل 251 پر عمل درآمد کے لیے فوری طور پر اقدام اٹھائیں۔ وفاق اور صوبوں کی جانب سے اس ھدایت پر عمل درآمد کی رپورٹ تین ماہ کے اندر تیار ھوکر عدالت میں پیش کی جائے"۔

سپریم کورٹ کا حکم چونکہ واضح طور پر آرٹیکل 251 کے نفاذ کے لیے ھے ' نہ کہ صرف آرٹیکل 251 (1) کے نفاذ کے لیے۔ اس لیے سپریم کورٹ کا حکم صرف اردو زبان کے انگریزی زبان کی جگہ سرکاری زبان کے طور پر استعمال تک محدود نہیں رکھا جاسکتا۔ بلکہ آرٹیکل 251 کے نفاذ کا مطلب "اردو زبان کا بطور سرکاری زبان نفاذ اور سرکاری زبان کے متوازی صوبائی زبانوں کا فروغ ھے"۔ اس لیے سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اب پاکستان کے وفاقی اداروں میں انگریزی زبان کے بجائے اردو زبان استعمال ھوگی جبکہ پنجاب کے صوبائی اداروں میں پنجابی زبان استعمال ھوگی۔

پنجابی نیشنلسٹ فورم" کا موقف ھے کہ؛ پنجابی قوم اپنے روزمرہ کے سرکاری معاملات پنجابی زبان میں انجام دینا چاھتی ھے۔ جبکہ عام تعلیم پنجابی زبان میں اور اعلی تعلیم انگریزی زبان میں حاصل کرنا چاھتی ھے۔ پنجابیوں کی اپنی زبان پنجابی کے ھوتے ھوئے پنجابی قوم پر اردو زبان کو حکومتی سرپرستی میں مزید مسلط نہ رکھا جائے۔ جب سندھ کی صوبائی زبان سندھی ' خیبر پختونخوا کی صوبائی زبان پشتو ' بلوچستان کی صوبائی زبان بلوچی قرار دی جاچکی ھے تو اب پنجاب اسمبلی میں سے "پنجابی لینگویج ایکٹ" منظور کروا کر پنجاب کی سرکاری اور تعلیمی زبان پنجابی کردی جائے۔

پی این ایف دے "سیکشن دے کوآرڈینیٹر" دے نوٹیفکیشن دا طریقہ۔

ھر زون دا زونل آرگنائزر اپنی اپنی زون وچ کسے وی سیکشن دے کوآرڈینیٹر دا نوٹیفکیشن "پی این ایف دے متعلقہ سینٹرل سیکشن کوآرڈینیٹر" دی طرفوں نامزدگی کرن توں بعد کرے گا۔

جناب Muhammad Shahzad Mian صاحب کوآرڈینیٹر لینگویج سیکشن ' جناب Iftikhar Mittra Punjabi صاحب کوآرڈینیٹر لٹریچر سیکشن ' جناب Iqbal Punjabi صاحب کوآرڈینیٹر ٹوئیٹر سیکشن بنائے جاچکے نے۔

کوآرڈینیٹر بلاگ/ویب سائٹ دا ناں فائنل ھوچکیا اے تے جلد ای سینٹرل لیڈرشپ دے سامنے منظوری لئی پیش کردتا جاوے گا۔

صرف کوآرڈینیٹر کلچر سیکشن تے کوآرڈینیٹر یوٹیوب سیکشن دے ناں فائنل کرنے باقی نے۔ ایس بارے انٹرویو ھو گئے نے۔ ھجے تک معیار دے مطابق کوآرڈینیٹر نئیں مل سکیا۔

پی این ایف دے معیار دے مطابق کوآرڈینیٹر کلچر سیکشن تے کوآرڈینیٹر یوٹیوب سیکشن دے ملن تو بعد ناں سینٹرل لیڈرشپ دے سامنے منظوری لئی پیش کردتا جاوے گا۔

پی این ایف دی ٹیم دی "ٹائم لائن" چیک کرن دی ڈیوٹی دے دتی گئی اے۔

پی این ایف دے زونل آرگنائزر اپنے ڈپٹی زونل آرگنائزر نوں ڈسٹرکٹ ایگزیکٹو کمیٹی دے میمبر بنان تے لان تے آپ اپنی زون دے ایگزیکٹو کمیٹی دے میمبراں نوں پی این ایف دے مشن ' پالیسی تے پرواگرام دے مطابق چلان لئی انہاں دی تربیت کرن۔

پی این ایف دی ٹیم دی ٹائم لائن چیک کرن دی ڈیوٹی ڈپٹی چیف آرگنائزر پی این ایف محترمہ Shahnaz Awan صاحبہ نوں دے دتی اے۔

ڈپٹی چیف آرگنائزر زون دی رپورٹ ھر مہینے متعلقہ زونل آرگنائزر نوں دے آ کرے گی۔ زونل آرگنائزر دی رپورٹ چیف آرگنائزر ھون دے کرکے مینوں دے آ کرے گی۔

پی این ایف دی ٹیم دی وال تے زون دے مشن ' پالیسی تے پرواگرام دے مطابق پوسٹ تے غیر متعلقہ پوسٹ دا جائزہ لے آ جایا کرے گا۔

جنوری 2021 تک زون دی ٹیم دے جیہڑے عہدیدار زون دے معیار دے مطابق کم نہ کر سکے۔ انہاں نوں "زون دے بجائے ڈسٹرک" دی سطح تے کم کرن دی پیش کش کیتی جائے گی۔

پی این ایف دے زونل آرگنائزر پی این ایف دے مشن ' پالیسی تے پرواگرام نوں اپنی زون دی ٹیم تک اپڑاندے ریہیا کرن تے زون دی ٹیم دی تربیت تے دھیان دین۔

پی این ایف وچ سینٹرل ' زونل ' ڈسٹرکٹ آرگنائزر اپنی اپنی سطح تے با اختیار نے۔

پی این ایف دے سینٹرل ' زونل ' ڈسٹرکٹ آرگنائزر دے اختیار نوں غلط استعمال کرن دی شکایت تے فیصلہ کرن دا طریقہ طے اے۔

پی این ایف دے چیف آرگنائزر تے سینٹرل لیڈر دے اختیار نوں غلط استعمال کرن دی شکایت تے پی این ایف دی سینٹرل لیڈرشپ اکثریت نال فیصلہ کرے گی۔ ایس لئی فیصلہ دے خلاف اعتراض نئیں کیتا جاسکے گا۔

پی این ایف دی زونل ٹیم دے میمبر دے خلاف شکایت تے فیصلہ زونل آرگنائزر کرے گا۔ زونل آرگنائزر دے فیصلہ دے خلاف اعتراض چیف آرگنائزر نوں کیتا جاووے گا۔ اعتراض تے فیصلہ کرن لئی سینٹرل لیڈرشپ دی 3 میمبراں دی کمیٹی بنائی جایا کرے گی۔ سینٹرل لیڈرشپ دی کمیٹی دا فیصلہ حتمی ھووے گا۔

پی این ایف دی ڈسٹرک ٹیم دے میمبر دے خلاف شکایت تے فیصلہ ڈسٹرک آرگنائزر کرے گا۔ ڈسٹرک آرگنائزر دے فیصلہ دے خلاف اعتراض زونل آرگنائزر نوں کیتا جاووے گا۔ اعتراض تے فیصلہ کرن لئی زونل لیڈرشپ دی 3 میمبراں دی کمیٹی بنائی جایا کرے گی۔ زونل لیڈرشپ دی کمیٹی دا فیصلہ حتمی ھووے گا۔

پنجابی قوم پرستی دے کم دا "پنجابی قوم نوں فائدہ" کیوں نئیں ھو ریہیا؟

کم کرن دا طریقہ اے ھوندا اے کہ؛

1۔ پہلے پروگرام بنایا جاووے۔

2۔ فے اوس پروگرام تے عمل کروان والے آں نوں تیار کیتا جاووے۔

3۔ فے پروگرام تے عمل کرن والے پروگرام تے عمل کرن۔

پنجابی قوم پرستی دا کم کرن والے آں دا مسئلہ اے وے کہ؛

1۔ او یا تے پروگرام توں بغیر ای اپنی اپنی سوچ نوں پروگرام سمجھی بیٹھے نے۔

2۔ یا فے پروگرام تے عمل کروان والے تیار کیتے بغیر ای پروگرام تے عمل کردے نے۔

3۔ یا فے پروگرام تے عمل کرن والے پروگرام دے مطابق عمل نئیں کردے۔

پنجابیاں وچ پنجابی قوم پرستی دے شعور دا جاگݨا ضروری اے۔

پاکستان دی اسٹیبلشمنٹ پاکستان دے بݨݨ توں لے کے ای پٹھاݨ تے ھندوستانی مھاجر اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ پنجابی اسٹیبلشمنٹ وچ تقسیم سی پر پنجابی اسٹیبلشمنٹ والے کبوتر بݨ کے اکھاں میٹ کے پنجابی دے بجائے مسلمان تے پاکستانی بݨے رئے یا اپݨے آپ نوں پنجابی دے بجائے مسلمان تے پاکستانی سمجھدے رئے تے اپنی قوم نوں وی مسلمان تے پاکستانی بݨݨ تے لاندے رئے پر پٹھاݨ اسٹیبلشمنٹ والے اپݨی قوم نوں پٹھاݨ قوم پرستی تے ھندوستانی مھاجر اسٹیبلشمنٹ والے اپݨی قوم نوں مھاجر قوم پرستی تے لاندے رئے۔ جد تک پنجابی اسٹیبلشمنٹ والے اپݨے آپ نوں پنجابی سمجھ کے پاکستان وچ قوماں دے سماجی اختلاف نئیں نبیڑدے ' اوس ویلے تائیں پاکستان دے انتظامی ' معاشی تے اقتصادی مسئلیاں تے گل بات کرنا تے محنت کوشش کرݨا "پاݨی وچ مدھاݨی" چلاݨا اے۔

پاکستان دی 60٪ آبادی پنجابی اے۔ جد کہ 40٪ آبادی سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' کوھستانی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھاݨ ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر دی اے۔ کی پاکستان دی 60% آبادی پنجابی نوں پاکستان دی زراٰعت ' صنعت ' تجارت ' ھنرمندی دے پیشے آں ' سیاست ' صحافت ' سول سروسز ' ملٹری سروسز دے شعبے آں تے حکومت وچ چھایا ھویا نظر نئیں آݨا چائی دا؟

پاکستان دا صدر ھندوستانی مھاجر اے۔ پاکستان دا وزیر اعظم پٹھاݨ اے۔ پاکستان دی سینٹ دا چیئرمین بلوچ اے۔ پاکستان دی قومی اسمبلی دا اسپیکر پٹھاݨ اے۔ پاکستان دا چیف جسٹس بلوچ اے۔ پاکستان دی سینٹ دا ڈپٹی چیئرمین ھندوستانی مھاجر اے۔ پاکستان دی قومی اسمبلی دا ڈپٹی اسپیکر پٹھاݨ اے۔ زیادتی دی حد اے وے کہ پنجاب دا وزیر اعلی تک بلوچ اے۔ فے وی ھندوستانی مھاجراں ' پٹھاݨاں تے بلوچاں نوں تسلی نئیں اے کہ پاکستان تے انہاں دی حکمرانی اے۔ ایس دی وجہ کی اے؟

کراچی وچ اردو بولݨ والے ھندوستانی مھاجراں دی سماجی تے سیاسی بالادستی اے۔ کراچی وچ اردو بولݨ والے ھندوستانی مھاجراں دی پالیسی اے کہ کراچی وچ ریݨ والے پنجابیاں نوں "تن کے تے ٹھوک وجا کے رکھو"۔

دیہی سندھ وچ کردستانی نزاد بلوچاں تے عربی نزاداں دی سماجی تے سیاسی بالادستی اے۔ دیہی سندھ وچ کردستانی نزاد بلوچاں تے عربی نزاداں دی پالیسی اے کہ دیہی سندھ وچ ریݨ والے پنجابیاں نوں "تن کے تے ٹھوک وجا کے رکھو"۔

جنوبی پنجاب وچ کردستانی نزاد بلوچاں تے عربی نزاداں دی سماجی تے سیاسی بالادستی اے۔ جنوبی پنجاب وچ کردستانی نزاد بلوچاں تے عربی نزاداں دی پالیسی اے کہ جنوبی پنجاب وچ ریݨ والے پنجابیاں نوں "تن کے تے ٹھوک وجا کے رکھو"۔

بلوچستان دے بلوچ علاقے وچ کردستانی نزاد بلوچاں دی سماجی تے سیاسی بالادستی اے۔ بلوچستان دے بلوچ علاقے وچ کردستانی نزاد بلوچاں دی پالیسی اے کہ بلوچستان دے بلوچ علاقے وچ ریݨ والے پنجابیاں نوں "تن کے تے ٹھوک وجا کے رکھو"۔

بلوچستان دے پشتون علاقے وچ افغانی نزاد پشتوناں دی سماجی تے سیاسی بالادستی اے۔ بلوچستان دے پشتون علاقے وچ افغانی نزاد پشتوناں دی پالیسی اے کہ بلوچستان دے پشتون علاقے وچ ریݨ والے پنجابیاں نوں "تن کے تے ٹھوک وجا کے رکھو"۔

خیبر پختونخوا وچ افغانستانی نزاد پختوناں دی سماجی تے سیاسی بالادستی اے۔ خیبر پختونخوا دے پختون علاقے وچ افغانستانی نزاد پختوناں دی پالیسی اے کہ خیبر پختونخوا دے پختون علاقے وچ ریݨ والے پنجابیاں نوں "تن کے تے ٹھوک وجا کے رکھو"۔

وسطی پنجاب تے شمالی پنجاب وچ وی اردو بولݨ والے ھندوستانی مھاجر تے افغانستانی نزاد پٹھاݨ اپنی اپنی سماجی تے سیاسی بالادستی قائم کردے جا رئے نے۔ پنجاب وچ وی اردو بولݨ والے ھندوستانی مھاجراں تے افغانستانی نزاد پٹھاݨاں دی پالیسی اے کہ وسطی پنجاب تے شمالی پنجاب وچ وی پنجابیاں نوں "تن کے تے ٹھوک وجا کے رکھو"۔

پنجابیاں نوں اردو بولݨ والے ھندوستانی مھاجراں ' کردستانی نزاد بلوچاں ' افغانستانی نزاد پشتوناں ' پختوناں ' پٹھاݨاں ' دیہی سندھ تے جنوبی پنجاب دے عربی نزاداں نے ایس لئی "تن کے تے ٹھوک وجا کے رکھیا" ھویا اے کہ پنجابی ' پاکستان وچ ھر جگہ ' سماجی تے سیاسی طور تے ماڑا اے۔ ایس لئی سماجی تے سیاسی طور تے تگڑے ھوݨ دے کرکے اردو بولݨ والے ھندوستانی مھاجراں ' کردستانی نزاد بلوچاں ' افغانستانی نزاد پشتوناں ' پختوناں ' پٹھاݨاں ' دیہی سندھ تے جنوبی پنجاب دے عربی نزاداں نے پنجابیاں نوں پاکستان وچ ھر تھاں تے "تن کے تے ٹھوک وجا کے رکھیا" ھویا اے۔

اردو بولݨ والے ھندوستانی مھاجر ' کردستانی نزاد بلوچ ' افغانستانی نزاد پشتون ' پختون ' پٹھاݨ ' دیہی سندھ تے جنوبی پنجاب دے عربی نزاد ایس لئی سماجی تے سیاسی طور تے تگڑے نے کہ اناں نے اپنی اپنی قوم نوں " قوم پرستی دا سیاسی شعور" دے کے تگڑا کیتا ھویا اے۔ پنجابی ایس لئی سماجی تے سیاسی طور تے ماڑے نے کہ پنجابیاں نے اپنی قوم نوں " قوم پرستی دا سیاسی شعور نہ دے کے" آپ ای ماڑا کیتا ھویا اے۔

پاکستان وچ پاکستان دے ادارے آں تے پٹھاݨاں ' بلوچاں تے ھندوستانی مھاجراں ولوں بالادستی قائم رکھݨ دے کرکے پٹھاݨاں ' بلوچاں تے ھندوستانی مھاجراں ولوں پنجابیاں نال سیاسی جنگ ھو رئی اے۔ جد کہ پنجابی قوم پرستی نہ ھوݨ دے کرکے پنجابی اسٹیبلشمنٹ " دولے شاہ دے چوھے" بݨی ھوئی اے۔ پنجابی اسٹیبلشمنٹ جد ایس گل نوں سمجھے گی تے فے ای رپھڑ نبڑے گا۔ پنجابی اسٹیبلشمنٹ نوں پٹھاݨاں تے ھندوستانی مھاجراں ولوں "تن کے رکھݨ" دے کرکے پنجابی اسٹیبلشمنٹ نوں اے گل سمجھ لینی چائی دی اے کہ؛ او پنجابی نے تے کسے وی ملک وچ کسے قوم دی سماجی عزت ' معاشی استحکام تے انتطامی بالادستی وچ اوس قوم دی عوام دے سیاسی شعور دے نال نال اوس قوم دی اسٹیبلشمنٹ دا وی کردار ھوندا اے۔

پنجابیاں وچ پنجابی قوم پرستی دے شعور دا جاگݨا ضروری اے۔ خاص طور تے پنجابی سیاستداناں تے پنجابی صحافیاں دے نال نال پنجابی اسٹیبلشمنٹ وی جے پنجابی قوم پرست نہ بݨی تے فے پنجاب وی تباہ کروا بیٹھے گی تے پنجابی قوم وی برباد کروا بیٹھے گی۔ کیونکہ پاکستان وچ پٹھاݨ ' بلوچ تے ھندوستانی مھاجر ھر ویلے تے ھر تھاں پنجابیاں نوں گالاݨ کڈھدے نے کہ پاکستان وچ پنجابی اسٹیبلشمنٹ دا راج اے۔ جد پاکستان دی 60% آبادی پنجابی اے۔ تے فے کی پاکستان دے ھر وفاقی ادارے دا سربراہ وی پنجابی ای نئیں ھوݨا چائی دا؟ تاکہ پنجابیاں نوں پٹھاݨ ' بلوچ تے ھندوستانی مھاجر ناحق گالاݨ نہ کڈھݨ تے پاکستان دے وفاقی ادارے آں دے سربراہ وی پٹھاݨ ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر نہ بݨݨ۔ پاکستان وچ پنجابیاں نوں جنیاں گالاݨ دتیاں جا چکیاں نے ھݨ اونے ای وفاقی ادارے آں دے سربراہ پنجابی بݨاݨ توں بعد ای حساب کتاب برابر ھونا چائی دا اے۔