Monday, 27 July 2020

What would be Greater Punjab?


The state of Sikh Punjabis, Khalistan, state of Hindu Punjabis, Haryanistan, and state of Muslim Punjabis, Pakistan will create a confederation of Greater Punjab.

Pakistan would be the Muslim Punjabi State and Muslim Punjabi will practice their Religion in their State with autonomy in Local and State affairs in Pakistan.

Khalistan would be the Sikh Punjabi State and Sikh Punjabi will practice their Religion in their State with autonomy in Local and State affairs in Khalistan.

Haryanistan would be the Hindu Punjabi State and Hindu Punjabi will practice their Religion in their State with autonomy in Local and State affairs in Haryanistan.

However, Greater Punjab would be a confederation of Pakistan + Khalistan + Haryanistan with the status of a Secular Punjabi Nation.

Punjabi Language will be the National Language of Greater Punjab.

Punjabi Culture will be the National Culture of Greater Punjab.

Punjabi Traditions will be the National Traditions of Greater Punjab.

پاکستان میں مسئلہ کیا ھے اور مسئلے کا حل کیا ھے؟

پاکستان کے قائم ھوتے کے بعد سے افغانی نزاد پٹھانوں کو پٹھان غفار خان ' کردستانی نزاد بلوچوں کو بلوچ خیر بخش مری ' 1972 سے بلوچ سندھیوں اور عربی نزاد سندھیوں کو عربی نزاد جی - ایم سید ' 1986 سے یوپی ‘ سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کو مھاجر الطاف حسین نے "ذھنی دھشتگردی" کا کھیل ' کھیل کر اپنی “Intellectual Corruption” کے ذریعے گمراہ کرکے ' انکی سوچ کو تباہ کردیا۔ اس لیے پٹھانوں ‘ بلوچوں اور اردو بولنے والے والے ھندوستانی مھاجروں نے پنجابیوں کے پنجاب کے بجائے پاکستان کی تعمیر و ترقی اور استحکام جبکہ پنجابی قوم کے بجائے پاکستانی عوام کی فلاح و بہبود اور خوشحالی کی کوششوں کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے قوم پرستی کے نام پر پنجاب اور پنجابیوں کو بلیک میل کرنے کا راستہ اختیار کر لیا۔

پٹھان ‘ بلوچ اور اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے پنجاب اور پنجابیوں پر بیجا الزامات لگاتے رھتے ھیں۔ پنجاب اور پنجابیوں کو گالیاں دیتے رھتے ھیں۔ پاکستان کو توڑنے کی دھمکیاں دیتے رھتے ھیں۔ پنجابی اس وقت نہ بلوچستان جا کر کاروبار کر سکتے ھیں ' نہ سندھ ' نہ خیبر پختونخوا اور نہ کراچی۔ جبکہ ان پٹھانوں ‘ بلوچوں اور اردو بولنے والے والے ھندوستانی مھاجروں نے نہ صرف سماٹ ' براھوئی اور ھندکو کی زمین پر قبضہ کیا ھوا ھے۔ بلکہ پنجاب کی سیاست ' صحافت ' تجارت ' سرکاری نوکریوں اور زمیںوں پر بھی یہ پٹھان ‘ بلوچ اور اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر قبضہ کرتے جا رھے ھیں جبکہ پاکستان کی جی ڈی پی ' پیداوار اور معیشت میں اضافہ کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے تباہ و برباد کرنے میں لگے رھتے ھیں۔

جب تک پنجابی ' پنجاب کے بجائے پاکستان کی وکالت کرتے اور پنجابی کے بجائے صرف پاکستانی بنے رھیں گے تو ان پٹھانوں ‘ بلوچوں اور اردو بولنے والے والے ھندوستانی مھاجروں کے پنجاب اور پنجابیوں پر لگائے جانے والے الزامات کا جواب کون دے گا؟ پنجابیوں کو چاھیئے کہ؛ اگر پٹھانوں ‘ بلوچوں اور اردو بولنے والے والے ھندوستانی مھاجروں کے پنجاب اور پنجابیوں پر لگائے جانے والے الزامات درست ھیں تو پٹھانوں ‘ بلوچوں اور اردو بولنے والے والے ھندوستانی مھاجروں پر ظلم اور زیادتیاں بند کریں اور ان پٹھانوں ‘ بلوچوں اور اردو بولنے والے والے ھندوستانی مھاجروں پر کیے گئے ظلم اور زیادتیوں کا حساب کتاب دیں۔ لیکن اگر پٹھانوں ‘ بلوچوں اور اردو بولنے والے والے ھندوستانی مھاجروں کے پنجاب اور پنجابیوں پر لگائے جانے والے الزامات درست نہیں ھیں تو پٹھانوں ‘ بلوچوں اور اردو بولنے والے والے ھندوستانی مھاجروں کو پنجاب اور پنجابیوں کو گالیاں دیتے رھنے ' پنجاب اور پنجابیوں پر جھوٹے الزامات لگاتے رھنے ' پنجاب اور پنجابیوں کو بلیک میل کرتے رھنے ' پاکستان کو توڑنے کی دھمکیاں دیتے رھنے کی عادت کو ختم کرنے کے لیے ان پٹھانوں ‘ بلوچوں اور اردو بولنے والے والے ھندوستانی مھاجروں کو پنجابی قوم پرست بن کر بھرپور جواب دیں۔

پٹھان ' بلوچ اور اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کی عادت بن چکی ھے کہ ایک تو ھندکو ' براھوئی اور سماٹ پر اپنا سماجی ' سیاسی اور معاشی تسلط برقرار رکھا جائے۔ دوسرا پنجاب اور پنجابی قوم پر الزامات لگا کر ' تنقید کرکے ' توھین کرکے ' گالیاں دے کر ' گندے حربوں کے ذریعے پنجاب اور پنجابی قوم کو بلیک میل کیا جائے۔ تیسرا یہ کہ پاکستان کے سماجی اور معاشی استحکام کے خلاف سازشیں کرکے ذاتی فوائد حاصل کیے جائیں۔ لیکن اس صورتحال میں پنجابی قوم کا رویہ مفاھمانہ ' معذرت خواھانہ اور لاپرواھی کا ھے۔ پنجابیوں نے اگر اب بھی پنجابی قوم پرست بن کر ان پٹھانوں ‘ بلوچوں اور اردو بولنے والے والے ھندوستانی مھاجروں کو حساب کتاب یا بھرپور جواب نہ دیا تو پنجابی پھر پنجاب اور پنجابیوں کو تو تباہ و برباد کروا ھی رھے ھیں لیکن پاکستان کو بھی تباہ و برباد کروا بیٹھیں گے۔ پاکستان کی تباھی اور بربادی در اصل سپتا سندھو یا وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین کے قدیم باشندوں پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی ' کشمیری '' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' راجستھانی ' گجراتی کی تباھی اور بربادی ھوگی۔

سپتا سندھو یا وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین یا پاکستان کو تباھی و بربادی سے بچانے اور پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی ' کشمیری '' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' راجستھانی ' گجراتی کو گنگا جمنا کی زبان و ثقافت اور کردستانی و افغانی بد تہذیبی اور قبضہ گیری سے نجات دلوانے۔ جبکہ پٹھان ‘ بلوچ اور اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کے سماجی ' سیاسی اور معاشی تسلط کو ختم کروانے کے لیے ضروری ھے کہ؛

1۔ پاکستان میں واقع زمین کی تاریخ کو نصاب میں پڑھایا جائے تاکہ اس زمین کے باشندے اپنے اپنے شاندار ماضی سے آگاہ ھوسکیں۔

2۔ پاکستان میں واقع زمین کے باشندوں کی تہذیب کو نصاب میں پڑھایا جائے تاکہ اس زمین کے باشندے اپنی اپنی شاندار تہذیب پر فخر کرسکیں۔

3۔ پاکستان میں واقع زمین کے باشندوں کی ثقافت کو نصاب میں پڑھایا جائے تاکہ اس زمین کے باشندے اپنی اپنی شاندار ثقافت کو اختیار کرسکیں۔

4۔ پاکستان میں واقع زمین کے باشندوں کو انکی اپنی زبان میں نصاب پڑھایا جائے تاکہ اس زمین کے باشندے اپنی اپنی شاندار زبان کو بولنا شروع کرسکیں۔

5۔ پاکستان میں واقع زمین پر پیدا ھونے والی عظیم شخصیات کا نصاب میں بتایا اور پڑھایا جائے تاکہ اس زمین کے باشندے اپنی اپنی عظیم شخصیات کے نقشَ قدم پر چل کر اپنی تہذیب کی عزت ' اپنی ثقافت کا احترام ' اپنی زبان کو بولنے ' اپنی عوام سے محبت کرنے والے بن جائیں ' بیرونی حملہ آوروں اور قبضہ گیروں کو ھیرو کے بجائے غاصب سمجھنا شروع کردیں ' بیرونی حملہ آوروں اور قبضہ گیروں کے راستے کی رکاوٹ بن جائیں۔ اپنی زمین کی حفاظت کریں اور اپنے وطن کو ترقی یافتہ ' مظبوط ' مستحکم اور خوشحال وطن بنائیں۔

UP, CP People started to come to Pakistan since 1950.


The Partition of India was the partition of the British Indian Empire that led to the creation of the sovereign states of the Dominions of Pakistan and India on 15 August 1947 with the division of Punjab.

The newly birthed Pakistan faced a number of immigration and naturalization difficulties due to the division of Punjab and Punjabi nation.

The Punjabi Hindus and Punjabi Sikhs were displaced from the western side of Punjab to the eastern side of Punjab and the Punjabi Muslims were displaced from the eastern side of Punjab to the western side of Punjab.

In the riots which preceded the partition in the Punjab region, about 2 million people were killed in the retributive genocide and 20 Million people were displaced.

The Time Magazine of September 1947 gave killing static around one million people. However, it was the largest genocide after the Second World War within a short span of time.

UNHCR estimates 14 million Muslim Punjabis, Hindu Punjabis, Sikh Punjabis were displaced during the partition; but, it was the largest mass migration in human history too.

However, after the death of Muhammad Ali Jinnah on 25 December 1948, the problem of religious minorities also flared in Sindh and United Provinces of India, during 1949.

The Liaquat Ali Khan took advantage of the situation and started to create the atmosphere and circumstances to help the Urdu Speaking population of the United Provinces of India and to settle them in Pakistan.

Liaquat Ali Khan met the Indian Prime Minister Jawaharlal Nehru to sign the Liaquat-Nehru Pact in 1950 to protect the religious minorities on both sides of the border. But, in particular, he started to patronize the infiltration of Urdu Speaking communities from the United Provinces of India to Pakistan on a mass scale.

After the Liaquat-Nehru Pact in 1950, the Urdu Speaking communities from the United Provinces of India started to infiltrate Pakistan which polarized the West Pakistani population, especially in the cities of Karachi, Lahore, Rawalpindi, Multan, Hyderabad and other parts of the Punjab and Sindh Provinces.

In a matter of fact, the Liaquat-Nehru pact was for the settlement of dislocated Punjabis due to the division of Punjab and not for the people of other areas. Punjab was declared as an agreed area and other areas were declared as Non-Agreed areas for migration, but as a Prime Minister of Pakistan, Liaquat Ali Khan manipulated the agreement to settle the people of his native province in Lahore, Rawalpindi, Multan, Hyderabad and other parts of the Punjab and Sindh Provinces at large scale, especially in Karachi to control the capital and port city of Pakistan.

In 1947, only the UP, CP politicians, bureaucracy and the establishment came in Karachi, the capital of Pakistan, to take the charge of Pakistan. In 1948, the students of Darul Uloom Nadwatul Ulama, Darul Uloom Deoband, and Barelvi institutions in the United Province of India and the Students of Aligarh Muslim University, with their families were brought into Pakistan through special trains by declaring them the Potential Immigrants from India. They were provided the services in teaching institutions and government departments of Pakistan. Students of Aligarh Muslim University were taken as the high-rank officers in the bureaucracy and the establishment of Pakistan. In Karachi, the capital of Pakistan, to settle them, the first residential colony for them with the name of the PIB Colony was built by the Chief Minister of Sindh, Pir Illahi Bux (3 May 1948 to 4 February 1949).

In Sept 1948, first one Quota System for Pakistan was introduced by the Prime Minister Liaquat Ali Khan and it used a Regional/Provincial model for recruitment in Government Jobs and accordingly; Bengal 42%, Punjab 23%, Potential Immigrants from India 15%, and Karachi had a 2% separate Quota. Other provinces [Sindh, Balochistan and NWFP] and the Princely States had a 17% Quota. Later in Nov 49, instead of using the term Potential immigrants from India, merit was used and the new quota was; Merit 20%, Karachi 2%, Bengal 40%, Punjab including Bahawalpur 23%. All other [Sindh, Balochistan, and NWFP] had a 15% Quota.

Three full provinces Sindh, Balochistan, and NWFP were given 15% Quota and Urdu Speaking Hindustani Muhajir's alone were given 20% in the name of "Merit " and 2% for Karachi alone, that makes it 22%. Ironically, the 15% Quota of Sindh and 23% Quota of Punjab including Bahawalpur, that too normally went to Urdu Speaking Hindustani Muhajir, due to their settlement in the cities and towns of rural Sindh and the urban areas of Punjab from 1950.

As a result of the infiltration of Urdu-speaking communities from the United Provinces of India to Pakistan, in 1951, close to half of the population of the Lahore, Karachi, Rawalpindi, Multan, Hyderabad and other major cities of Pakistan were Urdu speaking infiltrators from India.

راج پٹھاݨ تے ھندوستانی مھاجر دا تے گالاں پنجابیاں نوں۔


پاکستان دے بݨݨ توں لے کے پاکستان تے راج پٹھاݨ تے ھندوستانی مھاجر اسٹیبلشمنٹ کردی رئی اے۔ پنجابی سیاستدان ھوݨ یا پنجابی صحافی ھوݨ یا پنجابی اسٹیبلشمنٹ ھووے۔ اے "ڈھگے" نے۔ انہاں دا کم تے گالاں کھاݨا اے۔ وجہ ایس دی اے وے کہ؛ پنجابیاں وچ سیاسی شعور نئیں اے۔ خاص طور تے وسطی پنجاب دے پنجابی وچ۔ کیونکہ انہاں نوں رجواں ٹکر مل جاندا اے۔ نوکری یا کاروبار یا وائی بیجی کرکے موج مستی کردے ریہندے نے۔

ایس ویلے وی پاکستان دا صدر ھندوستانی مھاجر اے۔ پاکستان دا وزیر اعظم پٹھاݨ اے۔ پاکستان دی سینٹ دا چیئرمین بلوچ اے۔ پاکستان دی قومی اسمبلی دا اسپیکر پٹھاݨ اے۔ پاکستان دا چیف جسٹس ھندوستانی مھاجر اے۔ پاکستان دی سینٹ دا ڈپٹی چیئرمین ھندوستانی مھاجر اے۔ پاکستان دی قومی اسمبلی دا ڈپٹی اسپیکر پٹھاݨ اے۔ زیادتی دی حد اے وے کہ؛ پنجاب دا وزیر اعلی تک بلوچ اے۔ فے وی پنجابیاں دا حال اے وے کہ؛ ھندوستانی مھاجراں ' پٹھاݨاں تے بلوچاں کولوں گالاں کھا رئے نے کہ؛ پنجابی اسٹیبلشمنٹ راج کر رئی اے۔ بلکہ پنجابی آپ وی آکھ دیندے نے کہ "آھو"۔

کراچی پر پنجابی ' سندھی ' پٹھان کا کنٹرول ھونا چاھیے۔

جس طرح پاکستان کی اصل قومیں پنجابی ' سندھی ' پشتو اور بلوچی بولنے والے ھیں ویسے ھی بھارت کی اصل قومیں ھندی/اردو ' تیلگو ' تامل ' ملایالم ' مراٹھی ' کنڑا ' اڑیہ ' بنگالی ' آسامی اور بھوجپوری بولنے والے ھیں۔ جبکہ پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے پنجابی بولنے والے بھی بھارت میں رھتے ھیں۔

پاکستان کے قیام کی وجہ سے پنجاب کے تقسیم ھونے سے ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں نے پنجاب کے مغرب کی طرف سے پنجاب کے مشرق کی طرف نقل مکانی کی جبکہ مسلمان پنجابیوں نے پنجاب کے مشرق کی طرف سے پنجاب کے مغرب کی طرف نقل مکانی کی ' جسکی وجہ سے 20 لاکھ پنجابی مارے گئے اور 2 کروڑ پنجابی بے گھر ھوئے۔

پاکستان کی سرحد کے قریب ھونے ' پنجاب و سندھ میں پہلے سے روابط ھونے اور سندھ و پنجاب سے ھندؤں کی راجستھان اور گجرات کی طرف نقل مکانی کرنے کی وجہ سے ' بڑی تعداد میں راجستھانی اور گجراتی مسلمان بھی پاکستان منتقل ھو گئے۔ جبکہ جونا گڑہ ' مناودر اور حیدرآباد دکن کی ریاستوں کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے اعلان کی وجہ سے کچھ تعداد میں جونا گڑھی ' مراٹھی ' مدراسی ' دکنی مسلمان بھی پاکستان منتقل ھوگئے۔

ھندوستان کے صوبوں یونائیٹیڈ پروینس (جسکا نام اب اتر پردیش ھے۔ جو کہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کی مجموعی آبادی سے بھی بڑا صوبہ ھے۔ اسکی اس وقت آبادی 22 کروڑ ھے اور وھاں کے رھنے والوں کو یوپی والے کہا جاتا ھے) اور سنٹرل پروینس (وھاں کے رھنے والوں کو سی پی والے کہا جاتا ھے) کی نہ تو سرحد پاکستان کے ساتھ ملتی تھی اور نہ یوپی ' سی پی والوں کے پاکستان کی اصل قوموں پنجابی ' سندھی ' پٹھان اور بلوچ کے ساتھ روابط تھے۔

پاکستان کے قیام کے وقت جس طرح پنجاب کو مسلم پنجاب اور نان مسلم پنجاب میں تقسیم کیا گیا اسی طرح یوپی ' سی پی کے مسلمانوں کو چاھیے تھا کہ یوپی اور سی پی کے علاقوں کو بھی مسلم یوپی ' سی پی اور نان مسلم یوپی ' سی پی میں تقسیم کرواتے لیکن یوپی ' سی پی کے مسلمانوں نے مشرقی پنجاب کا پڑوسی ھونے کا فائدہ اٹھایا اور مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب کی طرف نقل مکانی کرنے والے مسلمان پنجابیوں کی آڑ لے کر اور مسلم پنجابیوں کو مھاجر قرار دے کر خود بھی مھاجر بن کر پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شہروں ' پاکستان کی حکومت ' پاکستان کی سیاست ' پاکستان کی صحافت ' سرکاری نوکریوں ' زمینوں ' جائیدادوں پر قبضہ کر لیا۔

یوپی ' سی پی کے مسلمانوں نے مشرقی پنجاب کے مسلمان پنجابیوں کو مھاجر قرار دے کر اور خود بھی مھاجر بن کر پاکستان میں خوب فائدہ اٹھایا۔ حالانکہ مسلمان پنجابیوں کو اپنے ھی دیش میں ' مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب کی طرف نقل مکانی کرنے کی بنیاد پر مھاجر نہیں کہا جاسکتا۔ مھاجر وہ ھوتے ھیں جو اپنی زمین سے پناہ کی خاطر کسی اور قوم کی زمین میں جا بسیں۔

پاکستان کے قیام کے بعد بھی جو مسلمان یوپی ' سی پی سے آکر پنجاب اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں پناھگزیر ھوگئے انکی قانونی حیثیت پاکستان کے شہری کی نہیں ھے کیونکہ ابھی تک انہوں نے پاکستان کے "سٹیزن شپ ایکٹ" کے تحت پاکستان کی شہریت نہیں لی۔ بلکہ ابھی تک انکو اقوام متحدہ کے "مھاجرین کے چارٹر" کے تحت ھندوستانی مھاجرین قرار نہیں دیا گیا ' اس کا مطلب ھے کہ ھندوستان سے آکر پنجاب اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں رھائش اختیار کرنے والے یوپی اور سی پی کے لوگ ابھی تک غیر قانونی مھاجرین ھیں؟

پاکستان میں راجستھانی ' گجراتی ' جونا گڑھی ' مراٹھی ' مدراسی ' دکنی اپنی اصل شناخت کے ساتھ رھتے ھیں۔ لیکن یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے لیے مھاجر کی اصطلاح استعمال کی جاتی ھے جو پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شھروں میں رھتے ھیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد ان یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے پنجاب اور سندھ کے تمام بڑے بڑے شھروں پر قبضہ کرلیا تھا جو کہ پنجاب کے شھروں میں پنجابیوں اور سندھ کے شھروں میں سندھیوں کے دیہی علاقوں سے شھری علاقوں کی طرف نقل مکانی کی وجہ سے برقرار نہ رہ سکا لیکن کراچی اور حیدرآباد پر یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے ابھی تک نان اردو اسپیکنگ گجراتیوں اور راجستھانیوں کو بھی مھاجر بنا کر اپنا کنٹرول قائم رکھا ھوا ھے۔

کراچی کی 75٪ آبادی اردو بولنے والوں کی نہیں ھے۔ کیونکہ کراچی میں 15٪ پنجابی ' 15٪ پٹھان ' 10٪ سندھی ' 5٪ بلوچ ' 5٪ گجراتی ' 5٪ راجستھانی اور 20٪ ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' برمی ' بنگالی ' افغانی و دیگر بھی ھیں۔ جنکی زبان اردو نہیں ھے۔ لیکن وہ آپس میں متحد نہیں ھیں۔

کراچی کے 25٪ اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجروں نے مھاجر لسانی تشخص کی بنیاد پر ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم پر آپس میں متحد ھوکر کراچی پر قبضہ کیا ھوا ھے اور 15٪ پنجابی ' 15٪ پٹھان ' 10٪ سندھی ' 5٪ بلوچ ' 5٪ گجراتی ' 5٪ راجستھانی اور 20٪ ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' برمی ' بنگالی ' افغانی و دیگر کو اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں نے یرغمال بنایا ھوا ھے۔

کراچی کے 15٪ پنجابی ' 15٪ پٹھان ' 10٪ سندھی کی آبادی 25٪ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں سے زیادہ بنتی ھے۔ اگر کراچی کے 15٪ پنجابی ' 15٪ پٹھان ' 10٪ سندھی آپس میں متحد ھو جائیں تو 5٪ بلوچ ' 5٪ گجراتی ' 5٪ راجستھانی اور 20٪ ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' برمی ' بنگالی ' افغانی و دیگر نے بھی اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے قبضہ سے نجات کے لیے پنجابی ' سندھی اور پٹھان کو ھی سپورٹ کرنا ھے اور کراچی پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے بجائے پنجابی ' سندھی اور پٹھان کا کنٹرول ھو جانا ھے۔

پاکستان میں مسئلہ "علاقوں" کا نہیں بلکہ "قوموں" کا ھے۔

پاکستان کے ھر علاقے میں پنجابی ' سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر آپس میں مل جل کر رھتے ھیں (کشمیری ' ھندکو ' ڈیرہ والی کا شمار پنجابی قوم میں ھوتا ھے)۔ اس لیے خیبر پختونخوا پٹھانوں کا ھے۔ بلوچستان بلوچوں کا ھے۔ سندھ سندھیوں کا ھے۔ کراچی مھاجروں کا ھے والا ڈرامہ ختم کرنا پڑے گا۔ پاکستان کے ضلعے ' ڈویژن ھی نہیں بلکہ صوبے بھی کسی ایک قوم کے راجواڑے نہیں ھیں۔

پاکستان میں اس وقت صورتحال یہ ھے کہ؛ پنجاب میں رھنے والے پٹھانوں ' بلوچوں ' ھندوستانی مھاجروں اور عربی نژادوں کو ان کی آبادی سے بھی زیادہ نمائندگی اور اختیار ملنے کی وجہ سے سماجی و معاشی حق اور سیاسی و انتظامی سہولتیں ملتی ھیں۔ بلکہ اس وقت پاکستان کا وزیر اعظم بھی پنجاب میں رھنے والے پٹھان ھے اور پنجاب کا وزیر اعلی بھی پنجاب میں رھنے والے بلوچ ھے۔ جبکہ پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر اور عربی نژاد وفاقی و صوبائی وزیر ان کے علاوہ ھیں۔ لیکن؛

1۔ خیبر پختونخوا پر پٹھانوں نے قبضہ کیا ھوا ھے اور خیبر پختونخوا کو پٹھانوں کا ملک قرار دے کر وفاق سے خیبر پختونخوا پر حکمرانی کا حق لے کر پٹھانوں کو سماجی و معاشی ' انتظامی و اقتصادی سہولتیں فراھم کرتے ھیں۔ خیبر پختونخوا میں رھنے والے پنجابیوں کو تو کیا خیبر پختونخوا کے اصل باشندے ھندکو ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی بھی خیبر پختونخوا کی حکومت میں آبادی کے مطابق نمائندگی اور اختیار نہ ھونے کی وجہ سے سماجی و معاشی حق اور انتظامی و اقتصادی سہولتیں لینے میں ناکام رھتے ھیں۔

2۔ بلوچستان پر بلوچوں اور پٹھانوں نے قبضہ کیا ھوا ھے اور بلوچستان کو بلوچوں اور پٹھانوں کا ملک قرار دے کر وفاق سے بلوچستان پر حکمرانی کا حق لے کر بلوچوں اور پٹھانوں کو سماجی و معاشی ' انتظامی و اقتصادی سہولتیں فراھم کرتے ھیں۔ بلوچستان میں رھنے والے پنجابی ' سماٹ ' ھندکو اور دیگر قومیں تو کیا بلوچستان کے اصل باشندے براھوئی بھی بلوچستان کی حکومت میں آبادی کے مطابق نمائندگی اور اختیار نہ ھونے کی وجہ سے سماجی و معاشی حق اور انتظامی و اقتصادی سہولتیں لینے میں ناکام رھتے ھیں۔

3۔ سندھ پر بلوچوں اور عربی نژادوں نے قبضہ کیا ھوا ھے اور سندھ کو سندھیوں کا ملک قرار دے کر وفاق سے سندھ پر حکمرانی کا حق لے کر بلوچوں اور عربی نژادوں کو سماجی و معاشی ' انتظامی و اقتصادی سہولتیں فراھم کرتے ھیں۔ سندھ میں رھنے والے پنجابی ' براھوئی ' گجراتی اور راجستھانی تو کیا سندھ کے اصل باشندے سماٹ بھی سندھ کی حکومت میں آبادی کے مطابق نمائندگی اور اختیار نہ ھونے کی وجہ سے سماجی و معاشی حق اور انتظامی و اقتصادی سہولتیں لینے میں ناکام رھتے ھیں۔

4۔ کراچی پر ھندوستانی مھاجروں نے قبضہ کیا ھوا ھے اور کراچی کو مھاجروں کا شھر قرار دے کر وفاق اور سندھ کی حکومت سے حکمرانی کا حق لے کر ھندوستانی مھاجروں کو سماجی و معاشی ' انتظامی و اقتصادی سہولتیں فراھم کرتے ھیں۔ کراچی میں رھنے والے پنجابی ' سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ کو کراچی کی مقامی حکومت میں آبادی کے مطابق نمائندگی اور اختیار نہ ھونے کی وجہ سے سماجی و معاشی حق اور انتظامی و اقتصادی سہولتیں نہیں دی جاتیں۔

پاکستان کے ھر علاقے میں ساری قومیں چونکہ مل جل کر رہ رھی ھیں۔ جبکہ پاکستان کی %60 آبادی پنجابیوں کی ھے۔ اس لیے پاکستان میں سب سے بڑی قوم پنجابی کو پاکستان پر راج کرنا چاھیے اور دیگر قوموں کو ھر صوبے میں ان کی آبادی کے مطابق ان کا سماجی و معاشی حق اور انتظامی و اقتصادی سہولتیں دلوانا چاھیے۔

پنجابیوں کے ساتھ بلوچوں کی محاذآرائی کا نتیجہ کیا نکلا؟

پاکستان کی 60% آبادی پنجابی قوم کی ھے۔ (کشمیری ' ھندکو ' ڈیرہ والی کا شمار پنجابی قوم میں ھوتا ھے)۔ جبکہ 40% آبادی سماٹ ' براھوئی ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر قوموں کی ھے۔

پاکستان کی تمام 12 قومیں پاکستان بھر میں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رھتی ھیں۔ اس لیے پاکستان میں کسی علاقے کو بھی کسی خاص قوم کا راجواڑہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ البتہ پاکستان کو انتظامی معاملات کے لیے صوبوں ' ڈویژنوں ' ضلعوں ' تحصیلوں ' یونین کونسلوں میں تقسیم کیا گیا ھے۔

پاکستان کی تمام 12 قوموں میں سے پنجابی قوم کے سماٹ ' براھوئی ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی اور راجستھانی قوموں کے ساتھ سماجی اور سیاسی مراسم اچھے ھیں۔ لیکن بلوچوں کے ساتھ پنجابیوں کے مراسم محاذآرائی والے ھیں۔ اس کی وجہ یہ ھے کہ؛

1۔ جنوبی پنجاب میں بلوچوں کی طرف سے خود کو "سرائیکی" قرار دے کر اور جنوبی پنجاب میں رھنے والے پٹھانوں اور عربی نژادوں کو اپنے ساتھ ملا کر پنجاب کو تقسیم کرکے "سرائیکی صوبہ" یا " جنوبی پنجاب صوبہ" بنانے کی سازش کی جا رھی ھے۔

2۔ بلوچستان کے براھوئی علاقے اور دیہی سندھ میں پنجابیوں کے ساتھ بدمعاشی و دادا گیری ' ظلم و زیادتی ' بھتہ خوری و قبضہ گیری بلکہ قتل و غارتگری تک ھوتی رھی۔ اس لیے بلوچستان کے براھوئی علاقے اور دیہی سندھ میں پنجابی ذھنی طور پر ھراساں ' سماجی پچیدگی کا شکار اور اپنے گھریلو و کاروباری امور کے بارے میں پریشان رھنے کی وجہ سے خوف و ھراس کے ماحول میں زندگی گزارتے رھے۔

بلوچوں کی طرف سے بلوچستان کے براھوئی علاقے ' دیہی سندھ اور جنوبی پنجاب میں پنجابیوں کے ساتھ چونکہ محاذآرائی کی جا رھی تھی۔ اس لیے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ؛ اب بلوچوں کو پنجابیوں کی طرف سے جنوبی پنجاب ' دیہی سندھ اور بلوچستان کے براھوئی علاقے کے پنجابیوں کی طرف سے پسند نہیں کیا جاتا۔ پی این ایف جنوبی پنجاب زون کے زونل آرگنائزر جناب DrJamil Arain ' پی این ایف سندھ زون کے زونل آرگنائزر جناب Afzal Punjabi اور پی این ایف بلوچستان کے براھوئی علاقے کے زونل آرگنائزر جناب Mansoor Ahmad اس کی مزید وضاحت کرسکتے ھیں۔

پنجابیوں کا چونکہ پاکستان بھر میں آپس میں رابطہ رھتا ھے۔ اس لیے بلوچستان کے براھوئی علاقے ' دیہی سندھ اور جنوبی پنجاب میں بلوچوں کی طرف سے پنجابیوں کے ساتھ محاذآرائی کرنے کی وجہ سے جنوبی پنجاب ' دیہی سندھ اور بلوچستان کے براھوئی علاقے میں ھی نہیں بلکہ شمالی پنجاب ' وسطی پنجاب ' بلوچستان کے پشتون علاقے ' خیبر پختونخوا کے پختون علاقے اور کراچی میں بھی بلوچوں کو اب پنجابیوں کی طرف سے پسند نہیں کیا جاتا۔

بلوچوں کی طرف سے جنوبی پنجاب میں "سرائیکی سازش" اور بلوچستان کے براھوئی علاقے اور دیہی سندھ میں پنجابیوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کی وجہ سے پنجابی اور بلوچ محاذآرائی شروع ھوگئی تو پھر بلوچستان کے براھوئی علاقے ' دیہی سندھ و جنوبی پنجاب کے علاوہ وسطی پنجاب ' شمالی پنجاب بلکہ بلوچستان کے پشتون علاقے ' خیبر پختونخوا کے پختون علاقے اور کراچی میں بھی بلوچوں کے لیے کس طرح کا ماحول بنے گا؟ جبکہ بلوچستان کے براھوئی علاقے میں براھوئی اور دیہی سندھ میں سماٹ کے ساتھ بلوچوں کے مراسم پہلے سے ھی محاذآرائی والے ھیں۔

جنوبی پنجاب ' دیہی سندھ اور بلوچستان کے براھوئی علاقے کے علاوہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں بلوچوں کو پنجابیوں کی طرف سے پسند نہ کرنے کی مزید وضاحت کرسکتے ھیں؛

1۔ پی این ایف کے شمالی پنجاب زون کے زونل آرگنائزر جناب Rajpoot Zulfiqar

2۔ وسطی پنجاب زون کے زونل آرگنائزر جناب Nadeem Ahmed

3۔ بلوچستان کے پشتون علاقے کے زونل آرگنائزر جناب Sheraz Rajpoot

4۔ صوبہ سرحد زون کے زونل آرگنائزر جناب Mazloom Punjabi

5۔ کراچی زون کے زونل آرگنائزر جناب Saleem Ilyas

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان بھر میں پنجابیوں کی طرف سے بلوچوں کے لیے ناپسندیدگی میں اضافہ ھوتا جا رھا ھے۔ بلوچوں کی طرف سے جنوبی پنجاب میں "سرائیکی سازش" ختم کرنے اور بلوچستان کے براھوئی علاقے اور دیہی سندھ میں پنجابیوں کے ساتھ کی گئی بدمعاشی و دادا گیری ' ظلم و زیادتی ' بھتہ خوری و قبضہ گیری اور قتل و غارتگری پر معافی مانگ کر بلوچستان کے براھوئی علاقے و دیہی سندھ کے پنجابیوں کے ساتھ مفاھمت نہ کرنے تک پنجابیوں کی طرف سے بلوچوں کے لیے ناپسندیدگی میں مزید اضافہ ھوتا رھے گا۔

کیا "بیانیہ" کے بغیر کسی ملک کو چلایا جاسکتا ھے؟

یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانیوں کا "بیانیہ" تھا کہ؛ پاکستانی ایک قوم ھیں۔ نہ صرف انکا مذھب ایک ھے بلکہ انکی زبان بھی ایک ھی ھے ' انکی ثقافت بھی ایک ھی ھے اور انکا سیاسی مفاد بھی ایک ھی ھیں۔ بلاشبہ یہ ایک مذھب انکا دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والا اسلامی فلسفہ رھا۔ ایک زبان انکی اردو زبان رھی۔ ایک ثقافت انکی گنگا جمنا کی ثقافت رھی اور ایک سیاسی مفاد انکا یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمانوں کی سماجی ' سیاسی ' انتظامی ' معاشی برتری رھا۔

ایک ھی مذھب ھونے کے باوجود پاکستان کی پنجابی ' سندھی ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ قومیں دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والے اسلامی فلسفہ سے ھٹ کر مختلف مذھبی نقطہ نظر رکھتی ھیں۔ انکی زبانیں الگ الگ ھیں۔ انکی ثقافتیں الگ الگ ھیں۔ انکی اپنی اپنی انفرادی تاریخ ھے۔ انکی اپنی اپنی منفرد قومی شناختیں ھیں اور انکے اپنے اپنے سماجی ' سیاسی ' انتظامی ' معاشی مفادات ھیں۔

پاکستان آنے والے یوپی ' سی پی کے گنگا جمنا کی تہذیب و ثقافت والے اردو بولنے والے ھندوستانی نہ زمیندار اور مزارعے تھے ' نہ صنعتکار اور مزدور تھے ' نہ تاجر اور ھنر مند تھے۔ یوپی ' سی پی سے زیادہ تر مذھبی رھنما اور فوجی ' افسر اور کلرک ' دانشور اور تجزیہ نگار ‘ صحافی اور وکیل ‘ سیاستدان اور سیاسی ورکر ھی پاکستان آئے تھے۔ پاکستان کے قیام سے لیکر اب تک دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء ' بریلوی مدرسوں اور علیگڑہ یونیورسٹی میں پرورش و تربیت پانے والے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانیوں اور ان کی اولادوں نے اپنے "بیانیہ" کے مطابق پاکستان کو چلایا۔

یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانیوں کے "بیانیہ" کو مسترد کرکے مشرقی پاکستان کے بنگالیوں نے تو 1971 میں ھی پاکستان سے علیحدگی اختیار کرکے بنگلہ دیش کے نام سے آزاد ملک بنا لیا تھا۔ لیکن پاکستان میں اس وقت یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانیوں کی اولادوں کی سب سے بڑی آبادی کراچی میں ھے اور یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانیوں کی اولادوں میں سے مذھبی رھنماؤں اور فوجیوں ' افسروں اور کلرکوں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں ‘ صحافیوں اور وکیلوں ‘ سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں کے ذریعے اور انکے "بیانیہ" کے مطابق پاکستان تو کیا کراچی کے سیاسی اور حکومتی معاملات چلانا بھی ممکن نہیں رھا۔

جبکہ پنجابی ' سندھی ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ قوموں کے مذھبی رھنماؤں اور فوجیوں ' افسروں اور کلرکوں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں ‘ صحافیوں اور وکیلوں ‘ سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں کے پاس اب تک نہ پاکستان کے سیاسی اور حکومتی معاملات چلانے کے لیے "بیانیہ" ھے اور نہ باقاعدہ پرورش و تربیت ھے۔ اس لیے پاکستان کو اب کس "بیانیہ" کے مطابق چلایا جائے گا؟ کیا "بیانیہ" کے بغیر کسی ملک کو چلایا جاسکتا ھے؟ کیا "بیانیہ" کے بغیر پاکستان کو چلانے سے سماجی انتشار ' سیاسی عدمِ استحکام ' انتظامی بحران ' معاشی مشکلات میں اضافہ نہیں ھوتا جا رھا؟

There is "No International Law" for River Water or Lower Riparian.


It is the propaganda of Sindhi’s that there is international law for river water or lower riparian. In fact, there is no international law for river water or lower riparian. Water law is still regulated mainly by individual countries. There are international sets of proposed rules such as the Helsinki Rules on the Uses of the Waters of International Rivers and the Hague Declaration on Water Security in the 21st Century.

The Convention on the Law of Non-Navigational Uses of International Watercourses is a document adopted by the United Nations on May 21, 1997, pertaining to the uses and conservation of all waters that cross international boundaries, including both surface and groundwater. "Mindful of increasing demands for water and the impact of human behavior", the UN drafted the document to help conserve and manage water resources for present and future generations.

To enter into force, the document requires ratification by 35 countries, but as of 2013 has received only 30 ratifications. Though not in force, the document is regarded as an important step towards arriving at international law governing water.

Though there are globally 263 trans-boundary river basins, many of them lack an agreement among the riparian states about how to share or to jointly manage the water resources. On a global level, there is no binding international agreement on trans-boundary water in force.

Nevertheless, over the last century, a strong customary law has evolved. In 1911, the Institute of International Law published the Madrid Declaration on the International Regulation regarding the Use of International Watercourses for Purposes other than Navigation. It recommended to abstain from unilateral alterations of river flow and to create joint water commissions.

In 1966, the International Law Association developed the Helsinki Rules on the Uses of the Waters of International Rivers. Their core principles are related to the «equitable utilization» of shared watercourses and the commitment not to cause «substantial injury» to co-riparian states. These principles are also the core of the UN Convention on the Law of the Non-Navigational Uses of International Watercourses, which was adopted by the General Assembly in 1997, after more than 25 years of preparation. Besides the confirmation of the principles of «equitable and reasonable utilization» and the «obligation not to cause significant harm», the convention contains regulations for the exchange of data and information, the protection, and preservation of shared water bodies, the creation of joint management mechanisms and the settlement of disputes. However, it is still not in force as the necessary quorum of 35 countries' ratification has not yet been reached.

One reason the reluctance of states to sign the convention is a certain vagueness of the core principles, which can lead to contradictions. An upstream country might claim its right to a previously unused «equitable share» of the water resources, which could cause economic harm to a downstream country that has used these resources for a long time. Whose rights and which principle have priority? And what exactly is an equitable share? Where is the borderline between harm that has to be accepted and significant harm? These questions are not answered in detail by the conventions, which only provide for the general principles and criteria. And this is very wise because many of these questions can only be answered specifically for each basin, rather than applying to all. In this respect, the conventions provide a framework of joint principles on which regional agreements can be negotiated, not a blueprint for all river basins.

But there is a binding regional convention for the European and Central Asian region that made these two principles obligatory for its parties and provided a framework and guidelines for their application in specific river basins: the UNECE 1992 Convention on the Protection and Use of Trans-boundary Watercourses and International Lakes (the so-called Helsinki Convention). The Convention obliges parties to prevent, control and reduce transboundary impact, use trans-boundary waters in a reasonable and equitable way and ensure their ­sustainable management. Parties bordering the same transboundary waters shall cooperate by entering into specific agreements and establishing joint bodies. The Convention includes provisions on monitoring, research, and development, consultations, warning and alarm systems, mutual assistance and exchange of information, as well as public access to information.

In Central Asia, Kazakhstan, and Uzbekistan have signed it and the other states, though not formal members, are participating in some of its activities. Though the convention is now only applicable to countries of the UNECE region, thus not Afghanistan, Iran, or China, an amendment intends to open it to others. As soon as this amendment is in force, the Helsinki Convention could also be a basis for water cooperation between Central Asia and its neighboring states.

ذاتی ' سماجی ' سیاسی معاملات کیسے حل کیے جاتے ھیں؟

انسانوں کے دنیاوی معاملات ذاتی نوعیت کے بھی ھوتے ھیں۔ سماجی نوعیت کے بھی ھوتے ھیں۔ سیاسی نوعیت کے بھی ھوتے ھیں۔

ذاتی معاملات خاندان کی سطح پر حل کیے جاتے ھیں۔ سماجی معاملات برادری کی سطح پر حل کیے جاتے ھیں۔ سیاسی معاملات قوم کی سطح پر حل کیے جاتے ھیں۔

سیاست کا مقصد دنیا داری کے معاملات میں اپنی قوم کی سماجی عزت ' معاشی خوشحالی ' انتظامی بالادستی ' اقتصادی ترقی کے لیے حکمت عملی اختیار کرنا ھوتا ھے۔

سیاستدان وہ ھوتا ھے جسے؛ سماجی ' معاشی ' انتظامی ' اقتصادی مسائل کی وجوھات سے آگاھی ھو اور ان کا حل آتا ھو۔ اس لیے سیاستدان حکمت عملی بناتے ھیں اور لوگ اس حکمت عملی پر عمل کرتے ھیں۔