Saturday, 15 December 2018

انگریز نے پنجاب کی تباھی اور پنجابی قوم کی بربادی کی ابتدا کشمیر سے کی

انگریز نے 1846 میں پنجاب کے ماجھے کے علاقے کے شمال کی طرف کے پنجابی زبان کا ضمنی لہجہ ڈوگری بولنے والے جموں کے علاقے اور پنجابی زبان کا ضمنی لہجہ پہاڑی بولنے والے کشمیر کے علاقے کو پنجاب سے الگ کرکے جموں و کشمیر کی ریاست تکشکیل دے کر پنجاب کو تباہ جبکہ جموں و کشمیر کی سرکاری زبان کے طور پر اردو کو نافذ کرکے پنجابی زبان کا ضمنی لہجہ ڈوگری اور پنجابی زبان کا ضمنی لہجہ پہاڑی بولنے والے پنجابیوں کو برباد کرنا شروع کیا۔ اس کے بعد 1849 میں پنجاب پر قبضہ کرنے کے بعد 1877 سے پنجاب میں اردو زبان کو مسلط کرکے پنجابی زبان ' پنجابی تہذیب ' پنجابی ثقافت کو مکمل برباد کرنا شروع کردیا۔ جسکی وجہ سے پنجابی قوم کمزور اور پنجابی عوام بدحال ھونے لگی۔ جبکہ انگریز نے پنجاب کو مزید تباہ کرنے کے لیے پنجاب کی زمین کو تقسیم در تقسیم کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔

1901 میں انگریز نے پنجاب کے ماجھے کے علاقے کے شمال مغرب کی طرف کے پنجابی کے ضمنی لہجے ھندکو کے علاقے کو پنجاب سے الگ کرکے شمال مغربی صوبہ سرحد تکشکیل دے کر وھاں ھندکو پنجابی کو برباد کرنے کے لیے پشتونائزیشن کا سلسلہ شروع کرکے پنجابی قوم کو مزید برباد کیا۔ 1947 میں انگریز نے پنجاب کے ماجھے کے علاقے کے جنوب مشرق اور مشرق کی طرف کے پنجابی کے ضمنی لہجے مالوی اور دوآبی کے علاقے کو پنجاب کے ماجھے سے الگ کرکے مشرقی پنجاب کا صوبہ تکشکیل دے کر پنجاب کو مزید تباہ اور پنجابی قوم کو مزید برباد کیا۔

پنجاب کی تقسیم در تقسیم کی وجہ سے تاریخی پنجاب چونکہ تباہ ھوچکا ھے جبکہ پنجاب پر 1877 سے اردو کے تسلط کے سبب پنجابی قوم اپنی زبان ' تہذیب اور ثقافت کے کمزور ھوجانے کی وجہ سے برباد ھوچکی ھے۔ اس لیے اب جنوبی پنجاب میں آباد یا قابض ھونے والے بلوچ ' پٹھان اور عربی نزاد گیلانی ' قریشی ' عباسی پنجاب کو تقسیم کرکے سرائیکی صوبہ یا جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی سازش کر رھے ھیں۔ تاکہ شاھپوری کے ذیلی لہجوں تھلوچی / تھلی اور ڈیرہ والی جبکہ جھنگوچی کے ذیلی لہجوں ملتانی اور ریاستی / بہاولپوری کے علاقوں پر مشتمل صوبہ بنا کر پنجاب کو مزید تباہ اور پنجابی قوم کو مزید برباد کیا جائے۔

پنجاب کی تہذیب والی زمین معیشت کے لحاظ سے دنیا کی سب سے زیادہ خوشحال خطہ تھی۔ اس لیے قدرت نے پنجاب کے تحفظ اور خاص طور پر پنجاب کے مرکز کے میدانی علاقے اور ذرعی خطے کو بیرونی حملہ آوروں اور قبضہ گیروں سے محفوظ رکھنے کے لیے بہترین انداز میں دفاع کرنے کا اھتمام کیا ھے۔ جبکہ پنجابی قوم کے افراد کا آپس میں سماجی ربط و ضبط قائم رکھنے کا شاندار انتظام کیا ھے۔ تاکہ پنجاب کی زمین پر معیشت کے ساتھ ساتھ زبان ' تہذیب اور ثقافت بھی فروغ پائے۔ معاشی طور پر پنجاب ایک خوشحال خطہ رھے اور سماجی طور پر پنجابی ایک مظبوط قوم رھے۔

پنجابی زبان کا معیاری لہجہ ماجھی بولنے والوں کا علاقہ "پنجاب کے درمیان کا علاقہ" ھے۔ جبکہ پنجابی زبان کے ضمنی لہجے؛ مالوی ’ دوآبی ’ ڈوگری ’ پہاڑی ' پوٹھو ھاری ’ ھندکو ' شاھپوری ’ جھنگوچی بولنے والوں کے علاقے "پنجاب کے ماجھی بولنے والوں اور پنجابی زبان کے ضمنی لہجوں کے ذیلی لہجے بولنے والوں کے "سرے کے علاقوں" کے "درمیان والے علاقے" ھیں۔

پنجاب کے "سرے کے علاقوں" میں پنجابی زبان کے ضمنی لہجوں کے ذیلی لہجے 01۔ پوادھی 02۔ بانوالی 03۔ بھٹیانی 04۔ باگڑی 05۔ لبانکی 06۔ کانگڑی 07۔ چمبیالی 08۔ پونچھی 09۔ گوجری 10۔ آوانکاری 11۔ گھیبی 12۔ چھاچھی 13۔ سوائیں 14۔ پشوری/پشاوری 16۔ جاندلی / روھی 17۔ دھنی 18۔ چکوالی 19۔ بھیروچی 20۔ تھلوچی /تھلی 21۔ ڈیرہ والی 22۔ بار دی بولی 23۔ وزیرآبادی 24۔ رچنوی 25۔ جٹکی 26۔ چناوری 27۔ کاچی / کاچھڑی 28۔ ملتانی 29۔ جافری/کھیترانی 30۔ ریاستی / بہاولپوری 31۔ راٹھی / چولستانی بولے جاتے ھیں۔

ماجھی لہجہ پنجابی زبان کا مرکزی یا معیاری لہجہ ھے جو کہ مشرقی پنجاب اور مغربی پنجاب کے دونوں حصوں میں پنجابی لکھنے کے لیے بنیادی زبان ھے۔ ماجھی لہجہ بولنے والے علاقے کو "ماجھا" کہا جاتا ھے۔ لفظ "ماجھا" کا مطلب "مرکز" یا "درمیان" ھے. ماجھے کا علاقہ جغرافیائی طور پر تاریخی پنجاب کے "درمیان" کے علاقے میں واقع ھے.

پنجابی زبان کے ضمنی لہجے؛ مالوی ’ دوآبی ’ ڈوگری ’ پہاڑی ' پوٹھو ھاری ’ ھندکو ' شاھپوری ’ جھنگوچی بولنے والے علاقے پنجابی زبان کا معیاری لہجہ ماجھی بولنے والے "پنجاب کے مرکزی علاقے" اور "پنجاب کے سرے کے علاقوں" کو ملانے والے علاقے ھیں۔

ضمنی لہجے بولنے والے پنجابی ' مرکزی لہجہ ماجھی بولنے والے پنجابی کے علاقے کے ساتھ منسلک رھنے اور باھمی مفادات کے لیے آپس میں سماجی و سیاسی تعاون کرنے کے لیے مجبور ھیں۔ جبکہ سرے کے ذیلی لہجے بولنے والے پنجابی ' مرکزی لہجہ ماجھی کے ساتھ منسلک کرنے والے اپنے اپنے پنجابی کے ضمنی لہجے والے پنجابی علاقے کے ساتھ منسلک رھنے اور باھمی مفادات کے لیے آپس میں سماجی و سیاسی تعاون کرنے کے لیے مجبور ھیں۔

ماجھی لہجہ پنجابی زبان کے 8 ضمنی لہجوں؛ مالوی ’ دوآبی ’ ڈوگری ’ پہاڑی ' پوٹھو ھاری ’ ھندکو ' شاھپوری ’ جھنگوچی کو آپس میں جوڑے ھوئے ھے۔ اس لیے پنجابی زبان کے ضمنی لہجے بولنے والے پنجابی زبان کے ماجھی لہجے اور ماجھے کے علاقے سے الگ ھونے کی صورت میں نہ صرف پنجابی زبان اور ماجھے کے علاقے سے الگ ھوجاتے ھیں بلکہ انہیں پنجابی زبان کے دیگر ضمنی لہجوں اور ان کے ذیلی لہجوں اور علاقوں سے بھی لاتعلق ھونا پڑتا ھے۔

پنجابی زبان کے ضمنی لہجوں؛ مالوی ’ دوآبی ’ ڈوگری ’ پہاڑی ' پوٹھو ھاری ’ ھندکو ' شاھپوری ’ جھنگوچی نے ایک طرف تو ماجھے کو چاروں طرف سے گھیرا ھوا ھے۔ جبکہ دوسری طرف اپنے اپنے سرے کے علاقوں کو ماجھے سے ملانے کا کردار بھی ادا کرتے ھیں۔ اس لیے پنجاب کے سرے کے علاقے کے پنجابی زبان کے ذیلی لہجے بولنے والے پنجابی اپنے اپنے پنجابی کے ضمنی لہجے سے الگ ھونے کی صورت میں نہ صرف پنجابی زبان اور ماجھے کے علاقے سے الگ ھوجاتے ھیں بلکہ انہیں پنجابی زبان کے دیگر ضمنی لہجوں اور ان کے ذیلی لہجوں اور علاقوں سے بھی لاتعلق ھونا پڑتا ھے۔

ماجھے کے علاقے والے اپنے چاروں طرف واقع پنجابی کے ضمنی لہجے بولنے والے علاقے کو طاقت فراھم کرتے ھیں جبکہ ضمنی لہجے بولنے والے علاقوں والے ماجھے کے علاقے کو تحفظ فراھم کرتے ھیں۔ ضمنی لہجے بولنے والے علاقوں والے پنجابی کے ذیلی لہجے بولنے والے علاقے کو طاقت فراھم کرتے ھیں جبکہ ذیلی لہجے بولنے والے علاقوں والے ضمنی لہجے بولنے والے علاقے کو تحفظ فراھم کرتے ھیں۔ اس لیے؛

ماجھے کے علاقے ' ضمنی لہجے بولنے والے علاقے اور ذیلی لہجے بولنے والے علاقے اگر آپس میں متحد رھیں اور ایک دوسرے سے تعاون کریں تو؛ پنجاب محفوظ رھتا ھے۔ پنجابی قوم طاقتور رھتی ھے۔ پنجابی عوام خوشحال رھتی ھے۔

ماجھے کے علاقے ' ضمنی لہجے بولنے والے علاقے اور ذیلی لہجے بولنے والے علاقے اگر آپس میں متحد نہ رھیں اور ایک دوسرے سے تعاون نہ کریں تو؛ پنجاب غیر محفوظ رھتا ھے۔ پنجابی قوم طاقتور نہیں رھتی ھے۔ پنجابی عوام خوشحال نہیں رھتی ھے۔

1022 میں محمود غزنوی کے پنجاب کی زمین پر قبضے سے لیکر 1799 میں مھاراجہ رنجیت سنگھ کے پنجاب کی حکومت بحال کرنے تک پنجاب کی زمین پر بیرونی حملہ آوروں کی حکومت رھی۔ بیرونی حملہ آور پنجاب پر حکومت بھی کرتے رھے اور پنجاب میں لوٹ مار بھی کرتے رھے۔ لیکن پنجاب کی زمین پر 777 سال تک بیرونی حملہ آوروں کی حکمرانی اور لوٹ مار کے باوجود پنجاب ایک رھا۔ پنجابی زبان ' پنجابی تہذیب ' پنجابی ثقافت محفوظ رھی۔ اس لیے پنجابی قوم کا تشخص برقرار رھا۔ جسکی وجہ سے پنجابی قوم طاقتور اور پنجابی عوام خوشحال رھی۔

لیکن 1837 میں مھاراجہ رنجیت سنگھ کے انتقال کے بعد 1846 میں انگریز نے پنجاب کے ماجھے کے علاقے کے شمال کی طرف کے پنجابی کے ضمنی لہجے بولنے والے ڈوگری لہجے کے جموں والے اور پہاڑی لہجے کے کشمیر والے علاقوں کو پنجاب سے الگ کرکے جموں و کشمیر کی ریاست تکشکیل دے کر پنجاب کو تباہ کرنا شروع کیا۔ جبکہ ڈوگری پنجابی اور پہاڑی پنجابی کو کمزور کرنے اور اردو زبان کو مسلط کرنے کا سلسلہ شروع کرکے پنجابی قوم کو برباد کرنا شروع کیا۔ اس عمل سے پنجابی زبان کا ضمنی لہجہ ڈوگری اور پہاڑی بولنے والے پنجابی نہ صرف پنجاب کے ماجھے کے علاقے سے الگ ھوگئے بلکہ انہیں پنجابی زبان کے دیگر ضمنی لہجوں اور ان کے ذیلی لہجوں اور علاقوں سے بھی لاتعلق ھونا پڑا۔

وادی کشمیر تین صوبوں پر مشتمل ھے ۔ 1۔ جموں 2۔ کشمیر 3۔ لدّاخ۔ تینوں صوبوں کے درمیان وسیع و عریض پہاڑی علاقے ھیں۔ جن کی وجہ سے تینوں صوبوں کی زبانیں ایک دوسرے سے مختلف ھیں۔

وادی کشمیر میں زیادہ تر پنجابی زبان کا ضمنی لہجہ پہاڑی اور ضمنی لہجہ ڈوگری رائج ھے۔ پنجابی زبان کا ضمنی لہجہ ھونے کی وجہ سے ان میں صرف لفظی سرمائے کا اشتراک ھی نہیں ھے بلکہ لسانی قالب اور جملوں کی ساخت پرداخت کی مشابہت بھی پنجابی زبان سے ھے۔ اسکے علاوہ گوجری ' بلتی ' شنا ' بھدرواھی ' بروشتکی اور بکروالی وغیرہ بھی چھوٹی چھوٹی زبانیں ھیں۔

وادی کشمیر کے مختلف علاقوں میں مختلف زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ھیں۔ ایک طرف کشمیر وادی کے علاقہ میں جو جھیلوں اور جنگلات ’ دریاؤں اور ندی نالوں ’ سبزہ زاروں اور فلک بوس پہاڑوں کی زمین ھے۔ وھاں کے باسی کثرت سے پنجابی زبان کا پہاڑی لہجہ بولتے ھیں۔ دوسر ی طرف جموں جو اپنے دور دراز علاقوں اور دشوار گزار راستوں کے باعث “دوگرت” کہلاتا تھا اور پنجاب کا ملحقہ علاقہ ھے۔ وھاں پنجابی زبان کے ڈوگری لہجے کو زیادہ اھمیت حاصل ھے۔ پونچھ کا علاقہ جو بے باکی ’ دلیری’ نڈر افراد اور جری جوانوں کی آماجگاہ ھے۔ وھاں کثرت سے پنجابی زبان کے پہاڑی لہجے کو بولا اور سمجھا جاتا ھے۔

وادی کشمیر کا شمالی حصہ جو برف پوش پہاڑوں ’ سنگلاخ چٹانوں اور قدرتی دریاؤں اور جھیلوں کا مرکز ھے۔ جس کو دردستان اور بلورستان کے نام سے یاد کیا جاتا رھا ھے اور عصر حاضر میں گلگت ’ بلتستان یا پھر شمالی علاقہ جات کے نام سے جانا جاتا ھے۔ وھاں شینا ’ بلتی’ پروشسکی’ پوریک ’ گھورا ’ کوھستانی و دیگر زبانیں بولی جاتی ھیں۔

ریاست جموں و کشمیر کے مختلف حصوں میں آباد قبائل بھی مختلف زبانیں بولتے اور سمجھتے ھیں۔ مثلا گوجر قبائل کی زبان گوجری کہلاتی ھے جو کہ پنجابی زبان کے پوٹھو ھاری لہجہ کا ذیلی لہجہ ھے۔ اسی طرح آزاد کشمیر کے ضلع نیلم میں ایک گروہ ایسی زبان بولتا ھے جس کو ماھر لسانیات عرصہ دراز تک کوئی واضح نام نہیں دے سکے تھے۔ اب تحقیق کے بعد اس کو کنڈل شاھی زبان کا نام دیا گیا ھے۔

لکھن پور سے بانہال تک کا علاقہ جموں کہلاتا ھے۔ جموں رقبے کے لحاظ سے 8809 مربع میل ھے۔ جموں کی مقامی زبان ڈوگری ھے۔ جموں کو سنسکرت میں دوگرت کہتے ھیں جس کا مطلب دشوار گذار راستوں والا علاقہ ھے اور ڈگر میں بولی جانے والی بولی ڈوگری کہلائی ھے۔ یہ بولی جموں ' ادھم پور ' را م نگر' کٹھوعہ ' بسوھلی اور کانگڈہ میں بولی جاتی ھے۔ ڈوگری زبان لسانی اعتبار سے پنجابی زبان کا ایک ضمنی لہجہ ھے۔

قاضی گنڈ سے کشمیر کا علاقہ شروع ھوکر پاکستان کی سرحد پر ختم ھو جاتا ھے۔ کشمیر رقبے کے لحاظ سے 8396 مربع میل ھے۔ کشمیر کی علاقائی زبان پہاڑی ھے۔ پہاڑی زبان لسانی اعتبار سے پنجابی زبان کا ایک ضمنی لہجہ ھے۔

لدّاخ کا علاقہ کشمیر کے ایک پہاڑی علاقے سونہ مرگ سے شروع ھوکر چین کی سرحد پر ختم ھوجاتا ھے۔ لدّاخ کو تبّت صغیر بھی کہا جاتا ھے۔ لدّاخ کی علاقائی زبان لدّاخی ھے۔

جموں و کشمیر ھندوستان کی واحد ریاست ھے۔ جہاں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ھے۔ ڈوگرہ راج سے قبل سکھوں نے کشمیر پر 1819ء سے 1846ء تک 27 سال حکومت کی۔” مھاراجہ رنجیت سنگھ” سکھ سلطنت کا حکمران اعلیٰ تھا۔ اس نے کشمیر پر یکے بعد دیگرے دس گورنر تعینات کئے۔” گلاب سنگھ” اسی سلطنت کا ایک سپاھی تھا۔ ” مھاراجہ رنجیت سنگھ” نے ”گلاب سنگھ” کی خدمت سے خوش ھوکر اسے 1822 ء میں جموں صوبے کا گورنر مقرر کر دیا۔ اس وقت کشمیر صوبے پر "لاھور دربار" کی طرف سے امام الدین گورنر مقرر تھا۔ اس وقت ھندوستان میں انگریز حکومت اپنے پر پھلانے میں مصروف تھی۔ مھاراجہ رنجیت سنگھ کے 1839 میں انتقال کے بعد جموں صوبے کے گورنر ”گلاب سنگھ” نے خفیہ طور پر انگریزوں سے ساز باز کرلی اور 1846 میں انگریوں کی "لاھور دربار" کے ساتھ جنگ میں انگریزوں کا ساتھ دے کر 16 مارچ 1846 کے معائدہ امرتسر کے بعد انگریزوں سے کشمیرکی وادی 75 لاکھ روپے کے عوض خریدلی۔ جبکہ 1849 میں "لاھور دربار" پر قبضہ کرانے میں بھی ان کی مدد کی۔

ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کے کشمیرکو خریدنے کے وقت ریاست کی سرکاری زبان فارسی تھی۔ ڈوگرہ راجہ نے پنجابی زبان کے لہجے ڈوگری کو ریاست کی سرکاری زبان کا درجہ دینے کی کافی کوششیں کی لیکن اس کی کوششیں کامیاب نہیں ھوئیں اور انگریز نے 1946 میں ھی کشمیر کی سرکاری زبان کے طور پر اردو کو نافذ کردیا۔ اس لئے پنجابی زبان کا لہجہ ڈوگری نہ ھی تعلیمی اور سرکاری زبان بن سکا اور نہ ھی پنجابی زبان کے لہجے ڈوگری کا سرمایہء ادب محفوظ ھو سکا۔ اس لیے پنجابی زبان کا لہجہ ڈوگری بول چال کی زبان سے زیادہ مقبولیت حاصل نہیں کر پایا اور علاقائی زبان رھا۔

کشمیر کے لوگوں نے صدیوں سے پنجابی زبان کے لہجے ڈوگری کو اپنی تمنّاؤں اور خوابوں کے اظہار کا وسیلہ بنایا ھوا تھا۔۔ اس وادی کے لوگ جنہیں قدرت نے شاعرانہ ذوق بھی بخشا ھے ۔ قدرت کی فیاضیوں کی دِل کھول کر داد دیتے ھیں۔ چنانچہ کشمیر کے شاعروں نے اپنے وطن کی رعنائیوں اور حب الوطنی کے گیت جس کثرت سے گائے ھیں شاید ھی دنیا کی کوئی اور زبان اس سلسلے میں اس کا مقابلہ کرسکے۔

1857 ء کی جنگ آزادی بھی جموں و کشمیرمیں اردو کی ترویج کا اھم سبب بن گئی۔ انگریزوں نے تحریک آزادی کو ناکام کرنے کے لیے ”گلاب سنگھ ” سے فوجی امداد طلب کی۔ ”گلاب سنگھ” خود اگرچہ 1857ء میں حکومت کے کاموں سے دستبردار ھوچکا تھا۔ پھر بھی اس نے انگریزوں کی مدد کے لیے ڈوگرہ فوج کو دھلی کے لیے روانہ کیا۔ جب یہ جنگ ختم ھوئی تو یہ ڈوگرہ فوج عرصہ تک دھلی میں رکی رھی۔ جہاں انہیں مزید تربیت دی گئی۔ اس دوران ڈوگرہ فوجی ایسے لوگوں سے ملتے رھے۔ جن کی زبان اردو تھی۔ اس طرح ڈوگرہ فوجی ٹوٹی پھوٹی اردو بولنے لگے اور جب یہ فوجی ریاست میں واپس آئے تو اپنے ساتھ ٹوٹی پھوٹی اردو بھی لائے۔ اس سے کشمیر میں اردو کے رائج ھونے میں بڑی مدد ملی۔

کشمیر میں 1862 ء میں مسیحی مبلغوں کی آمد کا سلسلہ شروع ھوا۔ ایک یورپین پادری ”ینگسن” کے ھاتھوں جموں کے ایک کلیسا کی بنیاد پڑی تھی۔ ان مشینریوں کی آمد بھی اردو کے فروغ کا باعث بنی۔ کیونکہ یہ مشینریاں عیسائی مذھب کی اشاعت کے لیے اردومیں تصویروں کے ساتھ رسالے اور کتابچے شائع کرکے عوام میں مفت تقسیم کر تی تھیں۔ یہ رسالے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ جاتے تھے اور اس کے وسیلے سے ریاست میں اردو زبان کو پھلنے پھولنے کا خاصا موقع ملا۔

عرصۂ دراز سے وقتاً فوقتاً دوسری ریاستوں سے ڈرامہ کمپنیاں کشمیر میں آتی رھتی تھیں۔ ریاست کی عوام دکھائے جانے والے ڈراموں میں بڑی دلچسپی لیتی تھی اور ڈرامہ کمپنیاں کامیاب واپس جاتی تھیں۔ اس سے کشمیر دربار کو خیال ھوا کہ کیوں نہ ریاست میں ناٹک کمپنی قائم کی جائے۔ جس سے عوام کو تفریح بھی حاصل ھوجائے اور ملک کا روپیہ ملک ھی میں رھے۔ چنانچہ ”محکمۂ دھرم ارتھ” کی طرف سے جموں کے ایک ”روگھناتھ” مندر میں ایک ناٹک کمپنی کی تشکیل دی گئی۔ اس کمپنی نے شروع میں ”آغا حشرکاشمیری” کے مشہور ڈرامے ھیلمٹ ' خوبصورت بلا اور اللہ دین کا چراغ وغیرہ اسٹیج کیے۔ جس کے اداکار کچھ تو ھندوستان کی مشہور ڈرامہ کمپنیوں سے لائے جاتے تھے اور کچھ مقامی طور پر ریاست کے خوش ذوق گلوکار نوجوانوں کو تیار کیا جاتا تھا۔ جو لوگ ایک بار ڈرامہ دیکھ لیتے وہ بار بار دیکھنے کی کوشش کرتے اور اداکاروں کے لب و لہجہ میں مکالمے ادا کرتے تھے۔ بظاھر تو یہ کھیل تماشے تھے لیکن ان کے ذریعہ اردو کو عوام کی زبان پر چڑھنے کا موقع ملتا رھا اور غیر شعوری طور پر اردو کی اشاعت کا کام ھوتا رھا۔ اردو کی ھر دلعزیزی روز بروز ریاست میں بڑھتی رھی۔ بعد میں نئے ڈرامیٹک کلب بھی وجود میں آنے لگے۔

ریاست جموں و کشمیرمیں اردو کے فروغ اور ترقی کے سلسلے میں کئی اور عوامل بھی شامل رھے ھیں۔ جن میں محرم کی مجلسیں بھی شامل ھیں۔ ان مجلسوں میں لکھنؤ سے ذاکر بلوائے جاتے تھے اور ذاکروں سے ریاست کے لوگ لکھنوی لب و لہجہ میں مرثیے اور سلام سنتے تھے۔ ذاکروں کا انداز بیان سننے والوں کو متاثر کرتا تھا اور متعدد مرثیوں کے ان گنت مصرعے عوام کی زبانوں پر چڑھ جاتے تھے۔

ریاست میں رھنے والے وہ لوگ جو اردو سے بالکل نا آشنا تھے ان کو بھی شعر سننے کا شوق تھا۔ مناقب پڑھنے والے فقیر اکثر ریاست میں آتے جاتے تھے۔ یہ فقیر جس موضوع پر گفتگو کرتے تھے۔ اس کی سند عموماً نظیر کے کلام سے لائی جاتی تھی۔ وہ لوگوں کو مناقب اور”نظیر” کی نظمیں سناتے تھے۔ نظمیں سننے سے ان کے بہت سے حصّے حافظوں میں محفوظ ھو جایا کرتے تھے۔ ریاست کے لوگ نظیرکا کلام سنتے وقت خوش ھوتے تھے اور زبانی یاد بھی کرنے لگے تھے۔ وہ اپنے کاموں سے فراغت پاکر ان نظموں کو دھراتے اور خوش ھوتے تھے۔ اس طرح نظیر نے اردو سے ناآشنا لوگوں میں مقبولیت حاصل کرکے جموں وکشمیرمیں اردو کی ترویج میں آسانیاں پیداکیں۔

کشمیریوں کے اردو سے مانوس ھونے کی ایک کڑی ھندوستانی سیاّحوں کی آمدورفت بھی رھی۔ جموں تو بہر حال پنجاب سے ملحق تھا اس لیے رابطہ آسانی سے ھونے لگا لیکن کشمیر کا معاملہ اس سے مختلف تھا۔ لیکن جب ”مری کو ھالہ” اور ” بانہال” کا روڈ تعمیر ھوا تو کشمیر پہنچنے میں آسانی پیدا ھوگئی اور وقت کے ساتھ ساتھ ھر طبقے اور علاقے کے لوگ کشمیر پہنچنے لگے۔ سیّاحوں کی آمد سے کشمیرکی صنعت کوبھی بڑی ترقی حاصل ھوئی۔ جبکہ مقامی لوگوں اور سیّاحوں کو ایک دوسرے کی بات سمجھنے کے لئے رابطہ کا ذریعہ اردو زبان بننے لگی۔ اس لئے کشمیر میں اردو کو روز بروز فروغ حاصل ھونے لگا۔ حالانکہ وہ کاروباری زبان بولتے تھے جس میں نہ تذکیروتانیث کا کوئی لحاظ تھا اور نہ ھی جملوں کی ترتیب کا خیال رکھا جاتا۔ لیکن پھر بھی اردو نے فروغ پانا شروع کردیا۔

ڈوگرہ حکمرانوں نے اپنے دربار کی شان بڑھانے کے لئے دھلی سے نقیب بلوائے جن کو ملازمتیں دی گئیں۔ یہ نقیب ڈوگرہ دربار میں مغلیہ دربار کے روایتی انداز میں مہاراجہ کی آمد کا اعلان کر تے تھے۔ اس عمل نے بھی جموں و کشمیر میں اردو کی ترویج کی۔

مہاراجہ رنبیرسنگھ نے (75- 1874 ء) ”چودھری شیر سنگھ ” کو 1864ء میں سیاسی و تجارتی تعلقات کے امکان کا جائزہ لینے کے لیے بخارا بھیجا۔ شیرسنگھ نے واپس آکر 1865ء میں اردومیں 180 صفحات پر مشتمل سفر کے نتائج مرتب کرکے پیش کیے۔ جسے کشمیر میں اردو کی پہلی تحریر بھی کہا جاتا ھے۔ اس تحریر نے بھی جموں وکشمیرمیں اردو کی ترویج کی۔

گلاب سنگھ کے دورمیں تعلیم کا کوئی معقول انتظام نہیں تھا۔ لیکن ”رنبیرسنگھ ” کے زمانے (75-1874 ء) میں مہاراجہ” رنبیرسنگھ” نے جموں میں ایک دارالترجمہ قائم کیا۔ اس ادارے سے سنسکرت اور فارسی کی کتابوں شائع ھوتی تھی اور بہت سے مسودے اردو میں ترجمہ ھوتے تھے۔ اردو کی کتابیں جو عربی میں یا دوسری زبانوں سے اردو میں منتقل ھوئی تھیں ان کو باضابطہ طور پر شائع کیا جاتا تھا۔ اس عہد کے کئی مسودات ملتے ھیں جن میں سے اکثر انگریزی ' فارسی اور عربی سے اردو میں ترجمہ ھوئے ھیں۔ ان مسودات کی تیاری میں غلام غوث خان ' پنڈت بخشی رام ' مولوی فضل الدین ' لالہ بسنت رائے وغیرہ کے نام قابل ذکر ھیں۔ اس کی وجہ سے جموں وکشمیرمیں اردو کی مزید ترویج ھونا شروع ھوئی۔

پنجاب پر 1849 ء میں قبضے کے بعد 1877 ء میں اردو کو سرکاری زبان دے دیا تھا۔ چنانچہ ھندوستان کے علاوہ پنجاب کے بھی بعض علمی گھرانے جب ریاست میں آکر آباد ھوئے اور ان کا حکومت کے کاموں میں عمل دخل بڑھا تو انہوں نے عوام کی تعلیم کی طرف بھی توجہ مبذول کی۔ اس طرح ریاست میں پاٹ شالا اور مکتب کھولے گئے جہاں پنجاب کے مکتبوں کے طرز پر اردو اور فارسی نصاب جاری کیا گیا۔ اس کے بعد ”پرتاب سنگھ” کے دورمیں پنجاب کی تقلید کرتے ھوئے کشمیرمیں بھی اردو زبان میں اسکولوں اور کالجوں کا قیام عمل میں لانا شروع کیا اور استاد باہر سے منگوائے جانے لگے۔ اس لیے تعلیم کے عام ھونے کے ساتھ ھی اردو کی مقبولیت میں اضافہ ھوا۔

ریاست میں 1858 ء سے ”احمدی پریس” قائم تھا۔ جس میں فارسی ' سنسکرت اور ڈوگری زبان کی کتابیں اور دفتروں کے فارم طبع ھوتے تھے۔ اس کے بعد ”وکرم بلاس ” کے نام سے ایک سرکاری مطبع قائم ھوا۔ لیکن ریاست میں گورنمنٹ پریس کے علاوہ جموں اور سرینگر میں کئی پریس قائم ھونے سے اردو کی اشاعت عام ھونے لگی۔ جموں میں ”پبلک پرنٹنگ پریس” ”دیوان پریس” اونکار پریس” اور سرینگر میں ”مارتنڈ پریس” اور ” ھمدرد پریس” قائم ھوئے۔ جن میں درسی ' علمی و ادبی کتابیں بھی چھپنے لگیں۔ 1940ء میں ”مسٹر اے آر ساغر” اور پروفیسر اسحاق قریشی” نے ”جاوید پریس” قائم کیا۔ اس پریس میں اخبار بھی چھپتے تھے اور درسی کتابیں بھی شائع ھوتی تھی۔

1872ء میں مشہور صحافی و لیڈر ”ھر گوپال خستہ” اپنی مشہور کتاب ”گلدستئہ کشمیر” میں لکھتے ھیں کہ؛ یہ کتاب کشمیر میں اردو نثر کی پہلی کتاب ھے۔ اس عہد کے اھم ادیبوں میں اھم نام ”ھر گوپال خستہ” کا نام سر فہرست ھے۔ وہ کشمیری الاصل تھے اور ”تحفئہ کشمیر” کے نام سے اخبار بھی نکالتے تھے۔

کشمیر میں اردو کی ترقی و ترویج کے سلسلے میں اخبارات نے بھی اھم کردار ادا کیا۔ اس سے آھستہ آھستہ اردو صحافت نے بھی زور پکڑا اور 1924ء سے ریاست میں باقائدہ اردو صحافت کا آغاز ھوا۔ ”ملک راج صراف ” نے ”رنبیر” کے نام سے با اثر اخبار شائع کیا۔ اس لحاظ سے ”ملک راج صراف” ریاست جموں و کشمیر میں اردو صحافت کے باوا آدم ھیں۔ 1947ء تک جموں سے کئی روزنامچہ اور درجنوں ھفتہ وار اخبار شائع ھونے لگے تھے۔

1925ء کے بعد تو کشمیرکے نظام میں بڑی اصلاحیں ھوئیں ۔ اضلاع میں بھی ھائی اسکول کھولے گئے اور اردو زبان میں تعلیم کے عام ھونے سے اردو زبان میں تعلیم کی برکات سے عوام میں اردو زبان بولنے کے رحجان میں بھی اضافہ ھوا۔ اس سلسلے کی ایک کڑی یہ بھی تھی کہ حکومت سے تقاضہ کرکے کالجوں میں اردو ادب کے فروغ کے لیے ادبی انجمنوں کا قیام عمل میں لایا گیا اور متعدد کالجوں نے اردومیں رسالے جاری کیے گئے۔

(1) پرنس آف ویلزکالج سے اردو زبان میں رسالہ نکلتا تھا۔

(2) امر سنگھ کالج سرینگر سے ”لالہ رخ”کے نام سے اردو زبان میں رسالہ نکلتا تھا۔

(3) ایس’ پی’کالج” سرینگرکا ترجمان” ایک الگ اردو زبان میں رسالہ تھا۔

(4) دیہات سدھا کا محکمۂ ”دیہاتی دنیا” کے نام سے اردو زبان میں رسالہ شائع کرتا تھا۔

(5) محکمۂ تعلیم کی سرپرستی میں اردو زبان میں”تعلیم جدید” ایک معیاری رسالہ شائع ھوتا تھا۔

(6) ”شیرازہ ”جو اردو اور پنجابی زبان کے لہجہ ڈوگری دونوں زبانوں میں شائع ھوتا تھا۔

ظاہر ھے کہ اسکولوں اور کالجوں میں اردو کی تعلیم و تدریس کے عام ھونے سے اردو زبان میں اضافہ ھوا۔ بہت سے لوگ نظموں اور غزلوں کی صورت میں طبع آزمائی کرنے لگے۔ چناچہ شعری محفلوں اور چھوٹے موٹے مشاعروں کا انعقاد بھی شروع ھوا۔ ”منشی محمد دین فوق” نے ریاست میں شعری محفلوں کا سلسلہ عام کرکے اردو کی مقبولیت کو زیادہ یقینی بنایا۔ کشمیر میں داخلی طور پر اردو کے فروغ اور ترویج کا ماحول متذکرہ عوامل کے سبب ھو ھی رھا تھا کہ تعلیم کی غرض سے کشمیری نوجوانوں کو ریاست سے باھر علی گڑھ ' دھلی ' پنجاب ' کانپور اور بعض دوسرے مراکز میں جا کرتعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ جب یہ طلباء تعلیم حاصل کرکے واپس کشمیر آتے تووہ نہایت عمدہ لب و لہجہ میں معیاری اردو بولتے اور اس طرح اردو کو مزید مقبول ھونے کا موقع ملتا۔

ان معروضات سے اندازہ لگایا جاسکتا کہ وہ اردو زبان جوبرسہا برس سے پنجابی زبان کے لہجے ڈوگری اور پہاڑی کے علاوہ فارسی زبان کے غلبے کے سبب بہت زیادہ پنپ نہیں پائی تھی۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں بڑی تیزی سے مقبول ھوئی اور کشمیر میں محض اردو زبان ھی نہیں بلکہ اردو ادب کو بھی اپنی بنیادیں مستحکم کرنے کا موقع ملا۔ چنانچہ ادھر تقریباً نصف صدی میں یہاں ان گنت شعراء ’ فکشن نگار اور انشاپرداز ادبی افق پر محض نمودار ھی نہیں ھوئے بلکہ پورے ادبی منظر نامے میں انہو ں نے اپنی حیثیت اور اھمیت تسلیم کرالی۔ بیسویں صدی کے نصف اوّل میں میر غلام رسول ناز ' شہ زور کاشمیری ' تنہا انصاری ' طالب کاشمیری اور میکش کاشمیری نے شہرت حاصل کی اور 1960ء کے بعد جدیدیت کے زیر اثر حامدی کاشمیری ' حکیم منظور ' رفیق راز ' محمد یاسین اور رخسانہ جبیں نے تخلیقیت کو فروغ دیا ۔ حامدی کاشمیری نے معاصر شاعری اور تنقید میں عالمی سطح پر اونچا مقام حاصل کر لیا۔ ان کی تنقیدی تصانیف میں نئی حسّیت اور عصری شاعری اپنے موضوع کے اعتبار سے اھم ھے۔ اس کے علاو ہ سرینگر سے بین الاقوامی سطح کا ”جہات ” کے نام سے ایک ادبی رسالہ جاری کیا۔ نثر میں اکبر حیدری ' محمد زماں آزردہ ' نذیر احمد ملکاور ' مجید مضمر نے قابل قدر کتابیں شائع کیں۔ ان معروضات کے با وصف اس بات میں دو رائے نہیں کہ ریاست کشمیر میں اردو زبان کو مستقل کوششوں اور کاوشوں سے اب بھی ابھارا جا رھا ھے۔

Saturday, 6 October 2018

Punjabi Na Khul K Punjabi Bolday Ny Ty Na Dil Naal Urdu Bolday Ny. Kyon?

Pakistan k capital Islamabad k corridors, Punjab k capital Lahore k civil secretariat, Pakistan k cantonments mein officers ki office hours mein daily affairs ki zabaan Punjabi aur Urdu hooti hy jub k office hours k baad Punjabi aur English. Laykun Bulleh Shah, Waris Shah, Shah Hussain, Sultan Bahoo k Urs par Governor aur Chief Minister, chaadar Urdu mein charhaaTy hain. In he Sufiyon ki zaban Punjabi ko primary education karNy ki baat krNy waalay aur Punjab Assembly mein Punjabi mein baat krNy waalay par Lasaani Tausab ka ilzaam lug jaata hy. Civil Services k exam mein Punjabi language ka subject optional subject k tour par lyNy aur Punjabi language mein MA krNy ki permission hy. Punjabi language mein BA krwaaya jaata hy laykun primary education Punjabi mein  nahi krwaae jaati. A chukkar ki a? Urdu ko kon zinda rukhna chah raha hy? Kyon k Punjab ki primary educational language uggr Urdu hogaee, Punjab Assembly mein uggr Punjabi mein baat krna shoroo ho gaee, Punjab k Governor aur Chief Minister Ny uggr publically Punjabi mein baat krna shoroo kr di tu phir Pakistan mein Urdu kon bolay ga aur kahaan bolay ga?

Assal vich, Pakistan di 60% population Punjabi a par Pakistan vich Urdu language ty Religious Fundamentalism nu promote krn lae Punjabi language ty Punjabi culture nu promote nai hon ditta jaanda.

Pakistani Punjab vich Urdu Language ty Religious Fundamentalism day thaan ty Punjabi language ty Punjabi culture promote ho gayaa ty ki Pakistan di language ty Pakistan da culture, Punjabi nai ho jaana?

Pakistani Punjab vich Urdu Language ty Religious Fundamentalism day thaan ty Punjabi language ty Punjabi culture promote ho gayaa ty ki Punjabi nay Punjabi Nationalists nai bun jaana?

J Muslim Ummah di 3rd largest ethnic population, Muslman Punjabi, Punjabi Nationalist bun gaee ty fay South Asia di 3rd biggest ty World di 9th biggest Nation, Punjabi Nation nay ek nai ho jaana?

J Punjabi Nation ek ho gaee ty fay 1947 vich divide hon waalay Punjab nay ek nai ho jaana? Ki India day qabzay waalay Punjab day Pakistani Punjab day naal ral jaan nu India bardaasht kr lay ga?

1947 vich divide hon waalay Punjab day ek ho jaan naal India day qabzay waala Kashmir v India vich nai rayna, Pakistan vich e aa jaana a. Ki India day qabzay waalay Kashmir day Pakistan vich shaamal ho jaan nu v India bardaasht kr lay ga?

Kyon k, 1947 vich divide hon waalay Punjab ty India day qabzay waalay Kashmir day Pakistan vich shaamal ho jaan naal Marathi Nation, Bhojpuri Nation, Telugu Nation, Tamil Nation, Rajasthani Nation, Kannada Nation, Gujarati Nation, Oriya Nation, Malayalam Nation, Assamese Nation nay v Hindustani Nation (Hindi-Urdu Speaking, Gunga Jumna Culture, People of Uttar Pardesh) kolon azaad ho jaana a.

Pakistan hun e 60% Punjabi population da state a. J 1947 vich divide hon waala Punjab ty India day qabzay waala Kashmir v Pakistan vich shaamal ho jaanday nay ty fay Pakistan vich Punjabi population 85% nai ho jaani a?

1947 vich divide hon waalay Punjab ty India day qabzay waalay Kashmir day ek ho jaan naal Pakistan vich Punjabi population day 60% toun wudh k 85% ho jaan naal Muslman Sindhi, Muslman Pathan, Muslman Baloch ty Muslman Urdu Speaking Hindustani da ki bunnay ga?

Punjabi Nation day ek ho jaan naal Punjabi Army day moqaablay di Army South Asia, Central Asia, Middle East ty Africa vich kisay kol nai honi. Ki International powers a bardaasht kr layn geyaan?

Kisay v Nation nu socially stable ty politically dominate kurn vich establishment ty media da role bara important honda a. Establishment ty media vich 2 taraan day kum karn waalay bunday hoonday nay. Ek policymaking krn waalay ty Dooja policy nu implement krn waalay.

Pakistan di establishment ty media vich policy di implementation karn waalay ty Punjabi e bohty nay par policymaking nu Pakistan day bundayaan e UP, CP waalay Urdu Speaking Hindustaniyaan nay apnay qabzay vich kar layaa ty hujjay v Pakistan di establishment ty media vich UP, CP waalay Urdu Speaking Hindustani ty Urdu Speaking UP-ite mind-set Punjabi e dominating position vich ny, jairay Urdu language day kar k UP, CP waalayaan day Gunga Jumna culture day clone bunnay hoay nay.

Pakistan di establishment ty media di policymaking krn waalay UP, CP day Urdu Speaking Hindustani ty Urdu Speaking UP-ite mind-set Punjabi, British day Punjab ty qabzay day waylay di ous file nu phari baithay nay k j Punjab vich Urdu day bajaay Punjabi nu promote kita ty Punjabi nationalism ny fayr jag jaana a, jays day kar k Religious dissimilarity hon day bawajood Muslman Punjabiyan, Sikh Punjabiyan, Hindu Punjabiyan ty Christian Punjabiyan nay similar language, culture ty traditions hon day kr k aapus vich fayr kuthThay ho jaana a.

Jud k Muslman Sindhi, Muslman Pathan, Muslman Baloch, Muslman Urdu Speaking Hindustani, India ty international players v darday nay k Muslman Punjabiyan, Sikh Punjabiyan, Hindu Punjabiyan ty Christian Punjabiyan day similar language, culture ty traditions hon day kar k aapus vich kathThay hon naal Punjabi nation nay Religions vich divide hon day bajaay Secular Punjabi Nation bun jaana a, jays di wajaah naal Punjabi nation nay South Asia di 3rd biggest ty World di 9th biggest Nation hon day kar k, Indian subcontinent di sub toun ziyaada powerful nation bun jaana a. Punjabi nation day martial nation hon day naal naal powerful nation bun jaan day kr k Punjabi nation nu fay kissay v upnay control vich nai rakh sukna.


Ays lae Muslman Urdu Speaking Hindustaniyaan, India ty kujh International Players di koshish a k Punjab vich Punjabi language ty culture nu promote hon toun rokun laee ty Punjabi Nation nu Religious ground ty divide rakhun lae, proxy politics kr k Punjab vich Urdu language nu ty Religious fundamentalism nu e promote kita jaway. Jud k Muslman Sindhi, Muslman Pathan ty Muslman Baloch di koshish a k Punjabi Nation nu Dialects ty Regions vich divide kitta jaaway.

Thursday, 4 October 2018

سرائیکی نہ زبان ھے نہ پنجابی زبان کا لہجہ ھے

پنجابی زبان کا معیاری لہجہ ماجھی ھے۔ ماجھی بولنے والوں کا علاقہ "پنجاب کے درمیان کا علاقہ" ھے۔ جبکہ پنجابی زبان کے ضمنی لہجے؛ مالوی ’ دوآبی ’ ڈوگری ’ پہاڑی ' پوٹھو ھاری ’ ھندکو ' شاھپوری ’ جھنگوچی بولنے والوں کے علاقے "پنجاب کے ماجھی بولنے والوں اور پنجابی زبان کے ضمنی لہجوں کے ذیلی لہجے بولنے والوں کے "سرے کے علاقوں" کے "درمیان والے علاقے" ھیں۔

پنجاب کے "سرے کے علاقوں" میں پنجابی زبان کے ضمنی لہجوں کے ذیلی لہجے 01۔ پوادھی 02۔ بانوالی 03۔ بھٹیانی 04۔ باگڑی 05۔ لبانکی 06۔ کانگڑی 07۔ چمبیالی 08۔ پونچھی 09۔ گوجری 10۔ آوانکاری 11۔ گھیبی 12۔ چھاچھی 13۔ سوائیں 14۔ پشوری/پشاوری 16۔ جاندلی / روھی 17۔ دھنی 18۔ چکوالی 19۔ بھیروچی 20۔ تھلوچی /تھلی 21۔ ڈیرہ والی 22۔ بار دی بولی 23۔ وزیرآبادی 24۔ رچنوی 25۔ جٹکی 26۔ چناوری 27۔ کاچی / کاچھڑی 28۔ ملتانی 29۔ جافری/کھیترانی 30۔ ریاستی / بہاولپوری 31۔ راٹھی / چولستانی بولے جاتے ھیں۔ پنجاب میں سرائیکی کہاں بولی جاتی ھے؟

پنجاب کی زمین معیشت کے لحاظ سے دنیا کی سب سے زیادہ خوشحال خطہ تھی۔ اس لیے قدرت نے پنجاب کے تحفظ اور خاص طور پر پنجاب کے مرکز کے میدانی علاقے اور ذرعی خطے کو بیرونی حملہ آوروں اور قبضہ گیروں سے محفوظ رکھنے کے لیے بہترین انداز میں دفاع کرنے کا اھتمام کیا ھے۔ جبکہ پنجابی قوم کے افراد کا آپس میں سماجی ربط و ضبط قائم رکھنے کا شاندار انتظام کیا ھے۔ تاکہ پنجاب کی زمین پر معیشت کے ساتھ ساتھ زبان ' تہذیب اور ثقافت بھی فروغ پائے۔ معاشی طور پر پنجاب ایک خوشحال خطہ رھے اور سماجی طور پر پنجابی ایک مظبوط قوم رھے۔

1022 میں محمود غزنوی کے پنجاب کی زمین پر قبضے سے لیکر 1799 میں مھاراجہ رنجیت سنگھ کے پنجاب کی حکومت بحال کرنے تک پنجاب کی زمین پر بیرونی حملہ آوروں کی حکومت رھی۔ بیرونی حملہ آور پنجاب پر حکومت بھی کرتے رھے اور پنجاب میں لوٹ مار بھی کرتے رھے۔ لیکن پنجاب کی زمین پر 777 سال تک بیرونی حملہ آوروں کی حکمرانی اور لوٹ مار کے باوجود پنجاب ایک رھا۔ پنجابی زبان ' پنجابی تہذیب ' پنجابی ثقافت محفوظ رھی۔ اس لیے پنجابی قوم کا تشخص برقرار رھا۔ جسکی وجہ سے پنجابی قوم طاقتور اور پنجابی عوام خوشحال رھی۔

لیکن 1837 میں مھاراجہ رنجیت سنگھ کے انتقال کے بعد 1843 میں انگریز نے پنجاب کے ماجھے کے علاقے کے شمال کی طرف کے پنجابی کے ضمنی لہجے بولنے والے ڈوگری لہجے کے جموں والے اور پہاڑی لہجے کے کشمیر والے علاقوں کو پنجاب سے الگ کرکے جموں و کشمیر کی ریاست تکشکیل دے کر پنجاب کو تباہ کرنا شروع کیا۔ جبکہ 1846 سے ڈوگری پنجابی اور پہاڑی پنجابی کو کمزور کرنے اور اردو زبان کو مسلط کرنے کا سلسلہ شروع کرکے پنجابی قوم کو برباد کرنا شروع کیا۔ اس عمل سے پنجابی زبان کا ضمنی لہجہ ڈوگری اور پہاڑی بولنے والے پنجابی نہ صرف پنجاب کے ماجھے کے علاقے سے الگ ھوگئے بلکہ انہیں پنجابی زبان کے دیگر ضمنی لہجوں اور ان کے ذیلی لہجوں اور علاقوں سے بھی لاتعلق ھونا پڑا۔ جبکہ پنجاب کے ماجھے کے ساتھ 8 کے بجائے 6 ضمنی لہجوں؛ مالوی ’ دوآبی ' پوٹھو ھاری ’ ھندکو ' شاھپوری ’ جھنگوچی کے علاقے رہ گئے جنہیں ماجھا طاقت فراھم کرتا رھا اور ماجھے سے منسلک ضمنی لہجوں کے 6 علاقے ماجھے کو تحٖظ فراھم کرتے رھے۔

انگریز نے جموں و کشمیر کو پنجاب سے الگ کرنے کے بعد 1849 میں پنجاب پر قبضہ کرکے 1877 سے پنجاب میں اردو زبان کو مسلط کرکے پنجابی زبان ' پنجابی تہذیب ' پنجابی ثقافت کو مزید برباد کرنا شروع کردیا۔ جسکی وجہ سے پنجابی قوم کمزور اور پنجابی عوام بدحال ھونے لگی۔ جبکہ انگریز نے پنجاب کو بھی مزید تباہ کرنے کے لیے پنجاب کی زمین کو تقسیم در تقسیم کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔

1901 میں انگریز نے پنجاب کے ماجھے کے علاقے کے شمال مغرب کی طرف کے پنجابی کے ضمنی لہجے والے ھندکو کے علاقے کو پنجاب سے الگ کرکے شمال مغربی صوبہ سرحد تکشکیل دے کر وھاں ھندکو پنجابی کو برباد کرنے کے لیے پشتونائزیشن کا سلسلہ شروع کرکے پنجابی قوم کو مزید برباد کیا۔ اس عمل سے پنجابی زبان کا ضمنی لہجہ ھندکو بولنے والے پنجابی نہ صرف پنجاب کے ماجھے کے علاقے سے الگ ھوگئے بلکہ انہیں پنجابی زبان کے دیگر ضمنی لہجوں اور ان کے ذیلی لہجوں اور علاقوں سے بھی لاتعلق ھونا پڑا۔ جبکہ پنجاب کے ماجھے کے ساتھ 6 کے بجائے 5 ضمنی لہجوں؛ مالوی ’ دوآبی ' پوٹھو ھاری ’ شاھپوری ’ جھنگوچی کے علاقے رہ گئے جنہیں ماجھا طاقت فراھم کرتا رھا اور ماجھے سے منسلک ضمنی لہجوں کے 5 علاقے ماجھے کو تحٖظ فراھم کرتے رھے۔

1947 میں انگریز نے پنجاب کے ماجھے کے علاقے کے جنوب مشرق اور مشرق کی طرف کے پنجابی کے ضمنی لہجے مالوی اور دوآبی کے علاقے کو پنجاب کے ماجھے سے الگ کرکے مشرقی پنجاب کا صوبہ تکشکیل دے کر پنجاب کو مزید تباہ اور پنجابی قوم کو مزید برباد کیا۔ اس عمل سے پنجابی زبان کا ضمنی لہجہ مالوی اور دوآبی بولنے والے پنجابی نہ صرف پنجاب کے ماجھے کے علاقے سے الگ ھوگئے بلکہ انہیں پنجابی زبان کے دیگر ضمنی لہجوں اور ان کے ذیلی لہجوں اور علاقوں سے بھی لاتعلق ھونا پڑا۔ جبکہ پنجاب کے ماجھے کے ساتھ 5 کے بجائے 3 ضمنی لہجوں؛ پوٹھو ھاری ’ شاھپوری ’ جھنگوچی کے علاقے رہ گئے جنہیں ماجھا طاقت فراھم کرتا ھے اور ماجھے سے منسلک ضمنی لہجوں کے 3 علاقے ماجھے کو تحٖظ فراھم کرتے ھیں۔

پنجاب کی تقسیم در تقسیم کی وجہ سے تاریخی پنجاب چونکہ تباہ ھوچکا ھے جبکہ پنجاب پر 1877 سے اردو کے تسلط کے سبب پنجابی قوم اپنی زبان ' تہذیب اور ثقافت کے کمزور ھوجانے کی وجہ سے برباد ھوچکی ھے۔ اس لیے اب جنوبی پنجاب میں آباد یا قابض ھونے والے بلوچ ' پٹھان اور عربی نزاد گیلانی ' قریشی ' عباسی پنجاب کو تقسیم کرکے سرائیکی صوبہ یا جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی سازش کر رھے ھیں۔ تاکہ شاھپوری کے ذیلی لہجوں تھلوچی/تھلی اور ڈیرہ والی جبکہ جھنگوچی کے ذیلی لہجوں ملتانی اور ریاستی/بہاولپوری کے علاقوں پر مشتمل صوبہ بنا کر پنجاب کو مزید تباہ اور پنجابی قوم کو مزید برباد کیا جائے۔

سرائیکی صوبہ یا جنوبی پنجاب صوبہ بنانے سے پنجابی زبان کے ضمنی لہجہ شاھپوری کے ذیلی لہجے تھلوچی/تھلی و ڈیرہ والی اور جھنگوچی کے ذیلی لہجے ملتانی و ریاستی/بہاولپوری بولنے والے پنجابی نہ صرف پنجاب کے ماجھے کے علاقے سے الگ ھوجائیں گے۔ بلکہ انہیں پنجابی زبان کے دیگر ضمنی لہجوں اور ان کے ذیلی لہجوں اور علاقوں سے بھی لاتعلق ھونا پڑے گا۔ جبکہ پنجاب کے ماجھے کے ساتھ 3 ضمنی لہجوں پوٹھو ھاری ’ شاھپوری ’ جھنگوچی کے علاقوں کے بجائے صرف پوٹھو ھاری لہجے کا مکمل علاقہ رھے گا۔ جبکہ شاھپوری اور جھنگوچی لہجوں کے کچھ علاقے ماجھے کے ساتھ رھیں گے اور کچھ علاقے نئے بننے والے سرائیکی صوبہ یا جنوبی پنجاب صوبہ کا حصہ بن جائیں گے۔ جبکہ سرائیکی صوبہ یا جنوبی پنجاب صوبہ پر بلوچ ' پٹھان اور عربی نزاد گیلانی ' قریشی ' عباسی کا سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی تسلط قائم ھوجائے گا۔

پنجاب کو تباھی سے نکال کر اور پنجابی قوم کو بربادی سے نکال کر ھی پنجابی عوام خوشحال ھوگی۔ اس لیے ضروری ھے کہ؛ ایک تو اردو کے تسلط سے نجات حاصل کرکے پنجابی قوم اپنی زبان ' تہذیب اور ثقافت کو بحال کرکے خود کو بربادی سے نکالے اور دوسرا پنجاب کو تباھی سے نکالنے کے لیے؛

1۔ شاھپوری کے ذیلی لہجوں تھلوچی/تھلی اور ڈیرہ والی جبکہ جھنگوچی کے ذیلی لہجوں ملتانی اور ریاستی/بہاولپوری کے علاقوں پر مشتمل سرائیکی صوبہ یا جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی سازش کو ناکام بنایا جائے۔ تاکہ پنجاب کے ماجھے کے ساتھ صرف پنجابی زبان کے ضمنی لہجے بولنے والے پوٹھو ھاری لہجے کا مکمل علاقہ جبکہ شاھپوری اور جھنگوچی لہجوں کے علاقوں کے کچھ حصے ھی نہ رھیں بلکہ پوٹھو ھاری ’ شاھپوری ’ جھنگوچی کے مکمل علاقے رھیں۔ جنہیں ماجھا طاقت فراھم کرتا رھے اور ماجھے سے منسلک ضمنی لہجوں پوٹھو ھاری ’ شاھپوری ’ جھنگوچی کے علاقے ماجھے کو تحٖظ فراھم کرتے رھیں۔

2۔ پنجابی کے ضمنی لہجے والے ھندکو کے علاقے کو 1901 میں پنجاب سے الگ کرکے تکشکیل دیے گئے شمال مغربی صوبہ سرحد کو واپس پنجاب کا حصہ بنایا جائے۔ تاکہ ھندکو ' پوٹھو ھاری ’ شاھپوری ’ جھنگوچی کے علاقے ماجھے کو تحٖظ فراھم کرنے لگیں اور ماجھا انہیں طاقت فراھم کرنے لگے۔

3۔ پنجابی کے ضمنی لہجے والے ڈوگری لہجے کے جموں والے اور پہاڑی لہجے کے کشمیر والے علاقوں کو 1946 میں پنجاب سے الگ کرکے تکشکیل دی گئی جموں و کشمیر کی ریاست کا اقومِ متحدہ میں تعطل کا شکار کیس جیت کر جموں و کشمیر کو واپس پنجاب کا حصہ بنایا جائے۔ تاکہ ڈوگری ' پہاڑی ' ھندکو ' پوٹھو ھاری ’ شاھپوری ’ جھنگوچی کے علاقے ماجھے کو تحٖظ فراھم کرنے لگیں اور ماجھا انہیں طاقت فراھم کرنے لگے۔

4۔ پنجابی کے ضمنی لہجے والے مالوی اور دوآبی لہجے کے 1947 میں پنجاب سے الگ کرکے تکشکیل دیے گئے مشرقی پنجاب والے علاقے کو واپس پنجاب کا حصہ بنایا جائے۔ تاکہ مالوی ' دوآبی ' ڈوگری ' پہاڑی ' ھندکو ' پوٹھو ھاری ’ شاھپوری ’ جھنگوچی کے علاقے ماجھے کو تحٖظ فراھم کرنے لگیں اور ماجھا انہیں طاقت فراھم کرنے لگے۔

Thursday, 27 September 2018

What is the problem with Foreign Policy Making of Pakistan?


How Pakistan will be able to make a unanimous Foreign Policy when Sammat, Brahui, Hindko, Gilgati Baltistani, Kashmiri, Kohistani, Chitrali, Sawati, Derawali, Gujrati, Rajasthani has no influence on the national policymaking of Pakistan due to the inefficient role of their elite.

Baloch has no ability to participate in the national affairs of Pakistan due to the conspirator behavior of their elite. The elite of Pathan and Hindustani Muhajir has a dominating role in the national policymaking of Pakistan. But, Pathan elite has Pro Afghan inclination and their interests are restricted for the social, economic, political domination of Pathan in the national affairs of Pakistan.

Hindustani Muhajir elite has its contacts with India and the other Anti-Pakistan States and Non-State Actors due to their interest in social, economic, political domination of Hindustani Muhajir in the national affairs of Pakistan and desire of total control on Karachi.

Punjabi is the 60% population of Pakistan, therefore, the Punjabi elite has the prime duty and responsibility to form the National and Foreign Policy. But, the elite of Punjabi does not have the ability of national policymaking of Pakistan due to clones and psychological slaves of Gunga Jumna Culture, Urdu Speaking, Hindustani Muhajir and habitual to follow and implement the policy articulated, communicated, expressed, formulated by the Hindustani Muhajir.

پاکستان میں پنجابی زبان اور پنجابی ثقافت کو پروموٹ کیوں نہیں ھونے‌ دیا جاتا؟

پاکستان کی %60 آبادی پنجابی ھے۔ لیکن پاکستان میں اردو زبان اور مذھبی انتہا پسندی کو پروموٹ کرنے کے لیے پنجابی زبان اور پنجابی ثقافت کو پروموٹ نہیں ھونے‌ دیا جاتا۔ کیونکہ؛

1۔ پاکستانی پنجاب میں اردو زبان اور مذھبی انتہا پسندی کے بجائے اگر پنجابی زبان اور پنجابی ثقافت پروموٹ ھو گئی تو پھر؛ کیا پاکستان کی %60 آبادی پنجابی ھونے کی وجہ سے پاکستان کی زبان اور پاکستان کی ثقافت ' پنجابی نہیں ھو جانی؟

2۔ پاکستانی پنجاب میں اردو زبان اور مذھبی انتہا پسندی کے بجائے اگر پنجابی زبان اور پنجابی ثقافت پروموٹ ھو گئی تو پھر؛ کیا پنجابی نے پنجابی قوم پرست نہیں بن جانا؟

3۔ پاکستان کی سب سے بڑی اور مسلم امہ کی تیسری بڑی لسانی آبادی ' مسلمان پنجابی ' اگر پنجابی قوم پرست بن گئے تو پھر؛ کیا جنوبی ایشیاء کی تیسری بڑی اور دنیا کی نوویں بڑی قوم ، پنجابی قوم نے ایک نہیں ھو جانا؟

4۔ پنجابی قوم اگر ایک ھو گئی تو پھر؛ کیا 1947 میں تقسیم کیے جانے‌ والے پنجاب نے ایک نہیں ھو جانا؟ کیا انڈیا کے قبضے والے پنجاب کے پاکستانی پنجاب کے ساتھ مل جانے کو انڈیا برداشت کر لے گا؟

5۔ پنجاب کے ایک ھو جانے سے؛ کیا انڈیا کے قبضے والا کشمیر بھی انڈیا سے آزاد ھوکر پاکستان میں ھی نہیں آ جانا؟ کیا انڈیا کے قبضے والے کشمیر کے پاکستان میں شامل ھو جانے کو بھی انڈیا برداشت کر لے گا؟

6۔ انڈیا کے قبضے والے پنجاب اور انڈیا کے قبضے والے کشمیر کے پاکستان میں شامل ھو جانے سے؛ کیا مراٹھی قوم ' تیلگو قوم ' تامل قوم ' گجراتی قوم ' کنڑا قوم ' ملایالم قوم ' اڑیہ قوم ' راجستھانی قوم ' آسامی قوم نے بھی ھندوستانی قوم (اتر پردیش کے گنگا جمنا کلچر کے ھندی بولنے والوں) سے آزاد نہیں جانا؟

7۔ پاکستان اب بھی %60 پنجابی آبادی کا ملک ھے۔ اگر انڈیا کے قبضے والے پنجاب اور انڈیا کے قبضے والا کشمیر بھی پاکستان میں شامل ھو جاتے ھیں تو پھر؛ کیا پاکستان میں پنجابی آبادی %85 نہیں ھو جانی؟

8۔ انڈیا کے قبضے والے پنجاب اور انڈیا کے قبضے والے کشمیر کے پاکستان میں شامل ھو جانے سے پاکستان میں پنجابی آبادی کے %60 سے بڑہ کر %85 ھو جانے سے؛ مسلمان پٹھان ' مسلمان بلوچ اور مسلمان اردو بولنے والے ھندوستانی کا کیا بنے گا؟

9۔ پنجابی قوم کے ایک ھو جانے سے پنجابی فوج کے مقابلے کی فوج جنوبی ایشیاء ' وسطی ایشیاء ' مشرقِ وسطہ اور افریقہ میں کسی ملک کے پاس نہیں ھونی۔ کیا بین الاقوامی طاقتیں یہ برداشت کر لیں گی؟

کسی بھی قوم کو سماجی طور پر مظبوط اور سیاسی طور پر طاقتور کرنے میں اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا کا کردار بڑا اھم ھوتا ھے۔ اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا میں کام کرنے والے 2 قسم کے لوگ ھوتے ھیں۔ ایک پالیسی بنانے والے لوگ اور دوسرے پالیسی کو نافذ کرنے والے لوگ ھوتے ھیں۔

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا میں پالیسی کو نافذ کرنے والے تو پنجابی ھی زیادہ ھیں۔ لیکن پالیسی بنانے کے کام کو تو پاکستان کے بنتے ھی یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے اپنے قبضے میں کر لیا تھا۔ اب بھی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا میں یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی ھی بالادستی ھے یا پھر اردو بولنے والے یوپی ' سی پی والوں کا رنگ پکڑ لینے والے پنجابی بالادستی میں ھیں۔ جو یوپی ' سی پی والوں کا رنگ پکڑ لینے کی وجہ سے گنگا جمنا ثقافت اور اردو زبان کے ذھنی غلام بنے ھوئے ھیں۔

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا کی پالیسی بنانے والے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی اور اردو بولنے والے یوپی ' سی پی والوں کا رنگ پکڑ لینے والے پنجابی ' انگریز کے پنجاب پر قبضے کے وقت کی اس فائل کو پکڑے بیٹھے ھیں کہ؛ اگر پنجاب میں اردو کے بجائے پنجابی کو پروموٹ کیا گیا تو "پنجابی قوم پرستی" نے پھر سے جاگ جانا ھے۔

جس کی وجہ سے مذھبی طور پر الگ الگ ھونے‌ کے باوجود بھی مسلمان پنجابیوں ' سکھ پنجابیوں ' ھندو پنجابیوں اور کرسچن پنجابیوں نے ایک جیسی زبان ' ایک جیسی ثقافت اور ایک جیسی تاریخ ھونے کی وجہ سے آپس میں پھر اکٹھے ھوجانا ھے۔

جبکہ مسلمان پٹھان ' مسلمان بلوچ ' مسلمان اردو بولنے والے ھندوستانی ' انڈیا اور انٹرنیشنل پاور پلیئرز بھی ڈرتے ھیں کہ؛ مسلمان پنجابیوں ' سکھ پنجابیوں ' ھندو پنجابیوں اور کرسچن پنجابیوں کے ایک جیسی زبان ' ایک جیسی ثقافت اور ایک جیسی تاریخ ھونے کی وجہ سے آپس میں پھر اکٹھے ھونے سے پنجابی قوم نے مذھب میں تقسیم ھونے کے بجائے "سیکولر پنجابی قوم" بن جانا ھے۔

جس کی وجہ سے پنجابی قوم نے پاکستان کی سب سے بڑی ' جنوبی ایشیاء کی تیسری بڑی اور دنیا کی نوویں بڑی قوم ھونے‌ کی وجہ سے جنوبی ایشیاء کی سب سے زیادہ طاقتور قوم بن جانا ھے۔ پنجابی قوم کے مارشل قوم ھونے‌ کے ساتھ ساتھ طاقتور قوم بن جانے کی وجہ سے پنجابی قوم کو پھر کسی نے بھی اپنے کنٹرول میں نہیں رکھ سکنا۔

اس لیے مسلمان اردو بولنے والے ھندوستانیوں ' انڈیا اور کجھ انٹرنیشنل پاور پلیئرز کی کوشش ھے کہ؛ پنجاب میں پنجابی زبان اور پنجابی ثقافت کو پروموٹ ھونے‌ سے روکنے کے لیے اور پنجابی قوم کو مذھب کی بنیاد پر تقسیم کرکے رکھنے کے لیے "پراکسی پولیٹکس" کر کے پنجاب میں اردو زبان کو اور مذھبی انتہا پسندی کو پروموٹ کیا جائے۔ جبکہ مسلمان پٹھان اور مسلمان بلوچ کی کوشش ھے کہ؛ پنجابی قوم کو پنجابی زبان کے لہجوں اور پنجاب کو علاقوں میں تقسیم کیا جائے۔

Tuesday, 25 September 2018

پنجاب کی اور پنجاب میں پنجابیوں کی آبادی کیسے کم کی جائے؟

پنجاب کی آبادی 109,989,000 ھے۔ پنجاب میں پنجابیوں کی تعدا 99,375,061 ھے۔ جبکہ 10,613,939 غیر پنجابی رھتے ھیں۔ ان میں سے اردو بولنے والے 5,356,464 ' پشتو بولنے والے2,177,781 ' بلوچی بولنے والے 912,908 ' سندھی بولنے والے 164,983 ھیں۔

سندھ کی آبادی 47,855,000 ھے۔ اس میں 2,541,100 پنجابی ھیں۔ خیبر پختونخوا کی آبادی 30,509,000 تھی لیکن فاٹا کی 4,993,000 آبادی کے انضام کے بعد اب خیبر پختونخوا کی آبادی 35,502,000 ھوچکی ھے۔ اس میں 802,115,4 پنجابی ھیں۔ بلوچستان کی آبادی 12,335,000 ھے۔ اس میں 139,385 پنجابی ھیں۔

پنجاب میں چونکہ پنجابی آبادی زیادہ ھے۔ اردو' پشتو ' بلوچی ' سندھی بولنے والے کم ھیں۔ پنجابی اس لیے برادری کی بنیاد پر آپس میں محاذ آرائی کرتے رھتے ھیں۔ اس کے علاوہ پنجاب کی آبادی زیادہ ھے جبکہ سندھ ' خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی آبادی پنجاب کے مقابلے میں بہت کم ھے۔

برادری کی بنیاد پر پنجابیوں کی آپس کی محاذ آرائی ختم کرنے جبکہ پنجاب اور دوسرے صوبوں کے درمیان آبادی کے بہت زیادہ فرق کو کم کرنے کے لیے ضروری ھے کہ؛

1۔ ایک کروڑ سندھیوں کو سندھ سے پنجاب میں منتقل کیا جائے اور پنجاب میں سے دو کروڑ پنجابیوں کو سندھ منتقل کردیا جائے۔

2۔ ایک کروڑ پشتونوں کو خیبر پختونخوا سے پنجاب میں منتقل کیا جائے اور پنجاب میں سے دو کروڑ پنجابیوں کو خیبر پختونخوا منتقل کردیا جائے۔

3۔ پچاس لاکھ بلوچوں اور پشتونوں کو بلوچستان سے پنجاب میں منتقل کیا جائے اور پنجاب میں سے ایک کروڑ پنجابیوں کو بلوچستان منتقل کردیا جائے۔

اس طرح غیر پنجابیوں کی پنجاب میں تعداد ایک کروڑ کے بجائے 3 کروڑ 50 لاکھ ھوجائے گی۔ جبکہ 5 کروڑ پنجابیوں کو دوسرے صوبوں میں منتقل کرنے سے پنجاب میں پنجابیوں کی تعداد 10 کروڑ کے بجائے 5 کروڑ رہ جائے گی۔ اس کے علاوہ پنجاب کی آبادی بھی 11 کروڑ کے بجائے 8 کروڑ 50 لاکھ رہ جائے گی۔ جبکہ سندھ ' خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی آبادی جو کہ اب 9 کروڑ 50 لاکھ ھے۔ وہ 3 کروڑ آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے 12 کروڑ 50 لاکھ ھونے سے پنجاب کی آبادی سے زیادہ ھوجائے گی۔

Sunday, 23 September 2018

پاکستان اور ھندوستان میں جنگ تو ھونی ھی ھے۔

پاکستان اور ھندوستان کا  1947 سے لیکر اب تک جو حال ھے۔ اس کے نتیجے میں صلاح مشورے سے امن ھونے کی امید نہیں ھے۔ اس لیے جنگ تو ھونی ھی ھے۔ اس کے بغیر بات کسی طرف نہیں لگنی۔ ھندوستان کا زیادہ دھیان پاکستان میں "پراکسی وار" پر رھنا ھے۔ پاکستان کے بنتے ھی ھندوستان نے پاکستان کے صوبہ سرحد میں  "پشتونستان" کی سازش شروع کردی تھی۔ اس کے بعد بلوچستان میں "آزاد بلوچستان" کی سازش بھی شروع کردی۔ 1965 کی ھندوستان اور پاکستان کی جنگ کے بعد سندھ میں "سندھودیش" کی سازش بھی شروع کردی۔ 1986 سے  پاکستان کے سب سے بڑے اور بندرگاہ والے شھر کراچی میں "جناح پور" کی سازش بھی شروع کردی۔ اب جنوبی پنجاب میں "سرائیکی" سازش بھی کر رھا ھے۔

پاکستان کو بھی ھندوستان کی پاکستان میں "پراکسی وار" کے جواب میں ھندوستان میں "پراکسی وار" کرنی چاھیے تھی لیکن؛ پاکستان کے بننے سے لیکر 1977 میں جنرل ضیاء الحق کے پاکستان کی فوج کا پہلا پنجابی سپاہ سالار اور پاکستان کا پہلا پنجابی فوجی حکمران بننے سے پہلے اور 1990 میں نواز شریف کے پاکستان کا پہلا پنجابی سیاسی رھنما اور پاکستان کا وزیرِ اعظم بننے تک پاکستان پر جو ھندوستانی مھاجر ' پٹھان اور سندھی حکمراں رھے تھے۔ انہوں نے ھندوستان کی پاکستان میں "پراکسی وار" کے جواب میں ھندوستان میں "پراکسی وار" نہیں کی۔ بلکہ ھندوستان کی پاکستان میں "پراکسی وار" کو پاکستان کی سب سے بڑی آبادی پنجابی کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کرتے رھے اور پاکستان پر حکمرانی کرکے اپنے مفاد حاصل کرتے رھے۔

پاکستان کے ھندوستانی مھاجر ' پٹھان اور سندھی حکمرانوں نے اس لیے ھندوستان میں "پراکسی وار" نہیں کی کہ؛ پہلے ھی پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی تھی۔ اس لیے پاکستان کی ھندوستان میں "پراکسی وار" کے ذریعے ھندوستان کی 25٪ ھندی آبادی سے اگر 75٪ آبادی تیلگو ' تامل ' ملایالم ' مراٹھی ' گجراتی ' راجستھانی ' کنڑا ' اڑیہ ' آسامی ' بھوجپوری قوموں کو جبکہ بنگالی اور پنجابی کو ھندوستان میں "پراکسی وار" کے ذریعے آزاد کروایا جاتا تو پھر ھندوستان کے قبضے سے آزاد ھوکر پنجابیوں نے پاکستان کی 60٪ آبادی کے ساتھ مل جانا تھا۔ جس کی وجہ سے پاکستان کی پنجابی آبادی 80٪ ھو جانے کی وجہ سے پاکستان نے عملی طور پر پنجابستان بن جانا تھا۔ جہاں ھندوستانی مھاجر ' پٹھان ' بلوچ ' سندھی نے اقلیت بن جانا تھا اور ان سے پاکستان پر حکمرانی نہیں ھوپانی تھی۔

پاکستان میں مسئلہ یہ رھا کہ؛ 1947 میں پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے 20 لاکھ پنجابی مارے گئے تھے اور 2 کروڑ پنجابی اجڑ گئے تھے۔ پنجابیوں کے دربدر ھونے کی وجہ سے ھندوستانی مھاجر ' پٹھان ' بلوچ ' سندھی نہ صرف پاکستان پر راج کرتے رھے بلکہ پنجاب کو بلیک میل بھی کرتے رھے اور پنجابیوں کو گالیاں بھی دیتے رھے۔ پنجابی 1947 میں اجڑنے اور دربدر ھونے کے بعد اب پھر اپنے پاؤں پر کھڑے ھو گئے ھیں۔ پاکستان پر بھی اور پاکستان کی حکمرانی پر بھی اب پنجابی نے کنٹرول کرلیا ھے۔ لیکن ھندوستان میں "پراکسی وار" کرنے کے لیے پنجابی کے پاس اب وقت نہیں ھے۔ کیونکہ "پراکسی وار" کا رزلٹ 10 - 15 سال بعد آنے لگتا ھے۔ جبکہ ھندوستان کی طرف سے  "پراکسی وار" کے ذریعے ھندوستانی مھاجر ' پٹھان ' سندھی اور بلوچ کی نظریاتی برین واشنگ کرنے کی وجہ سے ان کی عادت پنجاب اور پنجابی کے ساتھ پنگا لینے والی بن چکی ھے۔ اس لیے پاکستان کے پاس ھندوستان کا مقابلہ کرنے کے لیے اب چارہ ایٹمی ھتھیار ھی ھیں۔

ھندوستان نے پاکستان میں اگر "پراکسی وار" کو مزید بڑھایا (جو کہ امریکہ کی سی پیک کا راستہ روکنے کی فرمائش کی وجہ سے ھندوستان کو بڑھانی ھی پڑنی ھے) تو پھر پاکستان نے ھندوستان کے ساتھ لڑائی تو شروع کر ھی دینی ھے۔ (پیچھے سے سی پیک کا راستہ روکنے کی وجہ سے چین کی پشت پناھی بھی تو پاکستان کو حاصل ھونی ھے)۔ ھندوستان نے پراکسی وار  ' زبان درازی ' بین الاقوامی فورم پر پروپیگنڈہ کرنے پر زیادہ زور دینا ھے۔ جبکہ پاکستان نے پراکسی وار  ' زبان درازی ' بین الاقوامی فورم پر پروپیگنڈہ کرنے کے چکر میں زیادہ پڑنا نہیں ھے۔ اس لیے لڑائی شروع ھونے کے بعد پاکستان نے سیدھا سیدھا ھندوستان پر ایٹمی ھتھیار پھینک دینے ھیں۔

پاکستان اور ھندوستان کی سرحد جڑی ھوئی ھے۔ اس لیے ایٹمی ھتھیاروں کو روکنے والا سسٹم ھندوستان کے کام نہیں آنا۔ جبکہ سندھ اور جنوبی پنجاب میں ھندوستان اور پاکستان کا جو سرحدی علاقہ ھے۔ وہ غیر آباد ھے۔ اس علاقے میں ھندوستان کی فوج نے اگر پیش قدمی کی کہ وہ سندھ اور جنوبی پنجاب کے علاقے کو پنجاب سے کاٹ دے تاکہ ان علاقوں میں ھندوستان کی "پراکسی وار" کے ذریعے تیار کیے گئے کراچی میں " جناح پور" ' سندھ میں "سندھیودیش" ' جنوبی پنجاب میں "سرائیکی" سازش والے کھلاڑی اپنے اپنے علاقوں کا کنٹرول سمبھال سکیں تو پھر پاکستان نے ھندوستان کی فوج کے ساتھ غیر آباد سرحدی علاقے میں زمینی جنگ نہیں لڑنی بلکہ علاقے کے غیر آباد ھونے کی وجہ سے پاکستان کی طرف سے بنائے گئے چھوٹے ایٹمی ھتھیار پاکستان نے سیدھے سیدھے ٹھوک دینے ھیں۔

پاکستان کے سیدھا سیدھا ھندوستان کو ایٹمی ھتھیاروں سے ٹھوکنے کے جواب میں ھندوستان چاھے جو بھی کرلے لیکن ایک مسئلہ نفسیات کا بھی ھے۔ پاکستان کی طرف سے جنگ پنجابیوں نے لڑنی ھے نہ کہ؛  ھندوستانی مھاجر ' پٹھان ' سندھی اور بلوچ نے لڑنی ھے۔ پنجابی جنگ کے وقت نہ مارنے سے ڈرتے ھیں اور نہ مرنے سے ڈرتے ھیں۔ مار دیا تو غازی۔ مر گئے تو شھید۔ جبکہ ھندوستانیوں کی نفسیات "زبانی پنگا" لینے اور "سازشیں" کرنے والی ھے۔ مارنے اور مرنے سے ڈرتے ھیں۔ اس لیے ھندوستانیوں کی نفسیات مارنے اور مرنے والی نہیں ھے۔

1947 کونسا دور ھے۔ 1947 میں سازش پنجاب اور پنجابی قوم کے دشمنوں کی تھی۔ لیکن پنجابیوں نے آپس میں ھی لڑکر 20 لاکھ پنجابی مار دیے اور 2 کروڑ پنجابی اجاڑ دیے۔ اس کے بعد ایسے بھول گئے کہ؛ جیسے 1947 میں کجھ ھوا ھی نہیں تھا۔ جبکہ تھوڑے وقت میں ھونے والی یہ دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی قتل و غارتگری تھی اور سب سے بڑا اجاڑہ تھا۔ جس نے پنجاب بھی تقسیم کردیا اور پنجابی قوم کو بھی دربدر کر دیا۔

1947 میں تو پنجابی آپس میں لڑے تھے لیکن اب ایک تو بات پنجابیوں کے آپس میں لڑنے کی نہیں ھے اور دوسرا ھندوستان کی پراکسی وار  ' زبان درازی ' بین الاقوامی فورم پر پروپیگنڈہ کرتے رھنے سے لیکن "کشمیر اور ھندوستان کے قبضے والے پنجاب کا مسئلہ" حل نہ کرنے بلکہ چناب اور جہلم دریا پر ڈیم بنا کر پنجاب کا پانی روکنے کی وجہ سے پنجابی بیزار بھی بیٹھے ھیں۔ جبکہ سی پیک کا راستہ روکنے کی امریکہ والی فرمائش اس وقت ھندوستان کے گلے پڑ چکی ھے۔

اگر ھندوستان نے امریکہ کی سی پیک کا راستہ روکنے کی فرمائش پوری نہ کی تو پھر امریکہ کیا کرے گا؟ اگر ھندوستان نے امریکہ کی سی پیک کا راستہ روکنے کی فرمائش پوری کی تو پھر پاکستان کیا کرے گا؟ یہ صورتحال دیکھ کر لگتا تو یہ ھی ھے کہ؛ جنگ تو ھوگی۔ جنگ روکنے اور صلاح و مشورے سے امن کے لیے ھندوستان کے پاس ایک ھی راستہ ھے کہ؛ ھندوستان ' امریکہ کو چھوڑ کر چین کے ساتھ مل جائے لیکن پھر مسئلہ یہ ھونا ھے کہ؛ کشمیر کو اور ھندوستان کے قبضے والے پنجاب کو آزاد کرنے کی پاکستان کی فرمائش ھندوستان کو ماننا پڑے گی۔