Wednesday 18 July 2018

نواز شریف اور مریم نواز کو " پنجابی قوم پرست سیاستدان " بننا پڑے گا۔

پاکستان کے قیام سے لیکر 1990 میں پہلی بار نواز شریف کے وزیرِ اعظم بننے تک پاکستان کے اداروں پر کنٹرول ھندوستانی مھاجروں اور پٹھانوں کا رھا۔ سندھیوں اور بلوچوں کو تو پاکستان کے اداروں میں اب بھی شمولیت نہیں دی جا رھی۔ جبکہ پاکستان کے قیام سے لیکر پنجابیوں کی پاکستان کے اداروں میں حیثیت ثانوی رھی اور پاکستان کی فوج کا پہلا پنجابی سربراہ پاکستان کے قیام کے 28 سال بعد 1975 میں بننے میں کامیاب ھوسکا۔ اس کے علاوہ پاکستان کے اداروں میں پالیسی بنانے کا کام تو اب بھی ھندوستانی مھاجر اور پٹھان انجام دے رھے ھیں اور انکے ساتھ ان پنجابیوں کا شامل کردیا جاتا ھے جن کی نظریاتی تربیت ھندوستانی مھاجروں کے ھاتھوں کروائی گئی ھوتی ھے۔ وہ پنجابی جسمانی طور پر تو پنجابی ھوتے ھیں لیکن ذھنی طور پر "اترپردیشی" ھوتے ھیں۔

ذالفقار علی بھٹو ' جنرل ضیاء الحق ' محمد خان جونیجو ھی وہ تین افراد تھے جن کو پاکستان کے اداروں میں موجود ھندوستانی مھاجروں اور پٹھانوں کی مرضی و منشا کے برعکس پاکستان پر حکومت کرنے کا موقع ملا لیکن وہ بھی پاکستان کے اداروں پر سے ھندوستانی مھاجروں اور پٹھانوں کا کنٹرول ختم نہ کرسکے تھے۔ نواز شریف کے پاکستان میں قومی سطح کے پہلے پنجابی سیاستدان کے طور پر 1990 میں سامنے آنے اور پاکستان کا وزیرِ اعظم بننے کے بعد ھندوستانی مھاجروں اور پٹھانوں نے نواز شریف کو اپنے مفادات کے لیے خطرے کے طور پر دیکھنا شروع کردیا تھا۔ لہٰذا نواز شریف کے دشمن پاکستان کے ادارے نہیں ' پاکستان کے اداروں میں موجود ھندوستانی مھاجر اور پٹھان تھے۔ اس لیے نواز شریف کو؛

1993 میں پاکستان کے پٹھان صدر غلام اسحاق خان اور پٹھان چیف آف آرمی اسٹاف وحید کاکڑ نے وزارتِ عظمیٰ سے نکالا۔

1999 میں ھندوستانی مھاجر چیف آف آرمی اسٹاف پرویز مشرف نے وزارتِ عظمیٰ سے نکالا اور جیل پہنچایا۔

2017 میں سابق ھندوستانی مھاجر چیف آف آرمی اسٹاف پرویز مشرف اور پٹھان عمران خان نے باھمی سازشیں کرکے عدالت کے ذریعے وزارتِ عظمیٰ سے نکلوایا اور 2018 میں جیل پہنچایا۔

نواز شریف کے جیل جانے کے باوجود نواز شریف نے سیاست کا کھیل کھیلنا نہیں چھوڑنا۔ نواز شریف نے اگر سیاست کا کھیل کھیلنا چھوڑنا ھوتا تو عدالت کی طرف سے سنائی جانے والی سزا کے بعد خود ھی پاکستان آکر جیل نہ جاتا۔ جس طرح نواز شریف کے بیٹے لندن میں قیام پذیر ھیں ویسے ھی نواز شریف بھی لندن میں ھی رھتا۔ لیکن نہ صرف نواز شریف کے خود آنے بلکہ اپنی بیٹی مریم نواز کو بھی ساتھ لاکر جیل جانے کا مطلب ھے کہ نواز شریف نے اب اپنے جانشین کے طور پر اپنی بیٹی مریم نواز کو بھی سیاست کا کھیل کھلوانا ھے۔ 

نواز شریف کے عدالت کی طرف سے سزا سنائے جانے کے بعد لندن سے پاکستان آکر اپنی بیٹی سمیت جیل جانے سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ھے کہ؛ نواز شریف کے پاس پاکستان کی سیاسی بساط پر کھیلنے کے لیے اچھی چالیں اور مظبوط مہرے موجود ھیں۔ نواز شریف کو پاکستان کی سیاسی بساط پر یہ برتری تو پہلے سے ھی حاصل ھے کہ؛ پاکستان کے کسی دوسرے سیاستدان میں پاکستان کی عوام اور خاص طور پر پنجاب میں نواز شریف کی مقبلولیت اور عوامی حمایت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ھے۔ 

اس کے علاوہ طویل عرصہ تک سیاست کرنے ' دو بار پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ اور تین بار پاکستان کا وزیرِ اعظم رھنے کی وجہ سے پاکستان کے قومی معاملات کے علاوہ نواز شریف کو اب بین الاقوامی حالات سے بھی آگاھی ھے اور بین الاقوامی سیاست کے کھلاڑیوں سے تعلقات بھی ھیں۔ جبکہ پاکستان کے قومی اداروں اور قومی سطح کے سیاسی کھلاڑیوں کی صلاحیتوں اور چالوں سے بھی اب بخوبی آگاھی ھوچکی ھے۔ بلکہ دوسری بار جیل جانے سے اپنے مخالف کھلاڑیوں کی صلاحیتوں اور چالوں سے مزید آگاہ ھوچکا ھے اور سیاسی تجربہ میں بھی مزید اضافہ کر چکا ھے۔

سیاست کا کھیل کھیلنے کے لیے نواز شریف کو اب ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ھوئے نئی سیاسی بساط کی چالیں سوچنا اور چلنا پڑیں گی۔ اس لیے نواز شریف کو " خلائی مخلوق " اور " پاکستان کے اداروں " کو ذھن سے نکال کر اپنے اصل دشمن ' پاکستان کے اداروں میں موجود ھندوستانی مھاجروں اور پٹھانوں پر خاص دھیان دینا چاھیے۔ سندھی اور بلوچ قوموں کو اعتماد میں لینا چاھیے۔ لیکن اس سے پہلے پنجابی قوم پرست بن کر اپنی " پنجابی قوم " کی قیادت کرنے کا اعلان کرنا چاھیے۔ نواز شریف اگر پنجابی قوم پرست سیاستدان بننے بغیر پھر سے سیاست کرے گا یا اپنی بیٹی مریم نواز کو سیاست کروائے گا تو انجام پھر بھی پاکستان کے اداروں میں موجود ھندوستانی مھاجروں اور پٹھانوں کے ھاتھوں وزارتِ عظمیٰ سے نکلنا اور جیل جانا ھی ھوگا۔

اس بار بھی پنجابیوں کی سیاسی حمایت سے پاکستان کا وزیرِ اعظم بننے کے بعد نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے ھٹانے اور جیل پہنچانے کے لیے شروع کی جانے والی مہم میں نواز شریف کی تذلیل اور توھین کرنے کے لیے سب سے زیادہ متحرک ھندوستانی مھاجر اور پٹھان ھی نظر آئے۔ اس لیے ھندوستانی مھاجر اور پٹھان تو اب ویسے بھی کھل کر پنجابیوں کی نظروں میں آچکے ھیں۔ جبکہ سندھی اور بلوچ بھی انہیں بغور دیکھ رھے ھیں۔ اس لیے ھندوستانی مھاجر اور پٹھان کے ساتھ پنجابیوں کی محاذآرائی تو اب ویسے بھی ختم نہیں ھونی۔ جبکہ ھندوستانی مھاجروں اور پٹھانوں کے پاس بھی اب جواز نہیں رھنا کہ پنجابی انکے ساتھ محاذآرائی کیوں کرتے ھیں؟

پنجابیوں کی سیاسی حمایت تو 1988 سے ھی نواز شریف کو حاصل رھی ھے لیکن پنجابی قوم پرست سیاستدان بننے سے پاکستان کی 60٪ پنجابی آبادی مزید زور و شور سے نواز شریف اور مریم نواز کی پشت پر ھوگی۔ اس سے ایک تو ھندوستانی مھاجر اور پٹھان نواز شریف اور مریم نواز کی مخالفت کرنے کے لیے پنجابیوں کو ورغلا نہیں پائیں گے۔ دوسرا پنجابی قوم پرست سیاستدان ھونے کی وجہ سے سندھی اور بلوچ قومیں بھی نواز شریف اور مریم نواز کے دائیں اور بائیں کھڑی ھو جائیں گی۔ پنجابی قوم پرست سیاستدان بننے کے بعد سندھیوں اور بلوچوں کو اعتماد میں لینے سے پھر نواز شریف اور مریم نواز ' پاکستان کی سطح کے مظبوط سیاسی لیڈر ھی نہیں ھونگے بلکہ طاقتور وزیرِ اعظم بھی ھونگے۔ کیونکہ ھندوستانی مھاجر اور پٹھان پھر نہ تو پنجابیوں ' سندھیوں اور بلوچوں کو نواز شریف اور مریم نواز کیخلاف ورغلا پائیں گے۔ نہ سازشیں کر پائیں گے اور نہ تذلیل اور توھین کرنے کے قابل رھیں گے۔

No comments:

Post a Comment