Saturday 16 December 2017

ملک توڑنے والا بھٹوــــ ملک بچانے کا اعلان کرتا ھے۔

3 مارچ 1971 کو ڈھاکا میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا اجلاس ھونا تھا جو چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے مطالبے پر منسوخ کر دیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں شدید ردّ عمل ھوا۔ اسی مہینے صدر جنرل یحیٰ خان اور چیئرمین بھٹو ڈھاکا پہنچے اور شیخ مجیب الرحمان سے مذاکرات شروع ھوئے۔ مذاکرات ناکام ھونے پر 25 مارچ 1971 کو مشرقی پاکستان میں آرمــی آپــریـشـن شروع ھوا۔ فوجی کاروائی سے پہلے ڈھاکا سے کراچی پہنچنے والی پی آئی اے کی آخری فلائٹ سے چیئرمین بھٹو بھی کراچی واپس پہنچے۔ کراچی ایئرپورٹ پر جناب بھٹو نے بیان دیا : " خـدا کا شکر ھے۔ پاکستان بـچ گیا "۔

کیا آپ بتا سکتے ھیں کہ وہ کونسا پاکستان تھا جو بچا لیا گیا تھا؟

چلیے میں بتاتا ھوں۔ وہ وہ پاکستان تھا جس پر بھٹو نے انتخابات میں شکست کھا کر اور بنگالیوں سے جان چھڑا کر حکومت کرنی تھی۔ اگر پاکستان نہ ٹوٹتا تو بھٹو نے پوری زندگی میں کبھی بھی بر سر اقتدار نہیں آنا تھا اور اقتدار کی ھوس سینے میں دبائے قبر میں چلا جانا تھا۔ اس نے ملک ٹوٹنا گوارا کر لیا لیکن اقتدار کی ھوس نہ چھوڑی اور آخر پٹھان اور ھندوستانی مہاجر جرنیلوں سے ساز باز کرکے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ھوگیا۔

ذوالفقار علی بھٹو سندھی تھا اور 1971 میں پاک فوج کے با اختیار جرنیل پٹھان اور ھندوستانی مہاجر تھے۔ سندھی سیاستدان ' پٹھان اور ھندوستانی مہاجر جرنیلوں کا مفاد سانجھا تھا۔ انہوں نے ذاتی مفاد کی خاطر پاکستان تو توڑا ھی لیکن 1971 سے لیکر آج تک خود کو الزام سے بچانے کے لیے مشرقی بنگال کی علیحدگی کا قصور وار الٹا پنجابیوں کو قرار دیتے رھتے ھیں۔ پنجابی الزام تراشیاں سنتا رھتا ھے۔ پنجابی گالیاں کھاتا رھتا ھے۔ لیکن پنجابی خاموش ھے۔ پنجابی گونگا بہرا بنا ھوا ھے۔ اسے سندھی ' پٹھان اور ھندوستانی مہاجر کی عیاری ' مکاری یا ھوشیاری سمجھا جائے یا پنجابی کی بے حسی ' بے پروائی یا بے واقوفی؟

No comments:

Post a Comment