Thursday, 15 October 2020

‏‎ اسلام کی تعلیمات کا مقصد ' ذریعہ اور مرحلے

اللہ کے دین کا نام اسلام ھے۔ اسلام کا مقصد اپنے رسول کی شریعت کے مطابق دین کی تعلیمات پر عمل کرکے اپنے عمل صالح ' خواھشات حسنات والی اور قلبی خیالات حق والے بناکر اپنی آخرت سنوارنا ھوتا ھے۔

اسلام کی تعلیمات کا ذریعہ قرآن ھے۔ قرآن انسانوں کے لیے ھدایت ھے اور اس ھدایت میں  حق کو باطل سے الگ کرنے کی واضح دلیلیں ھیں۔ حق کو باطل سے الگ کرنے کی واضح دلیلیں انسانوں کے لیے بیان ھے۔ قرآن پڑھ کرحق کو باطل سے الگ کرنے کے بیان کو سمجھ کر اسلام میں داخل ھونے کے بعد اپنے رسول کی شریعت کے مطابق دین کی تعلیمات پر عمل کرکے اپنے عمل صالح کیے جاتے ھیں۔ پھر طریقت کا علم حاصل کرکے اپنی خواھشات حسنات والی کی جاتی ھیں۔ پھر حقیقت کا علم حاصل کرکے اپنے قلبی خیالات حق والے کیے جاتے ھیں۔ پھر معرفت کا علم حاصل کرکے صراط مستقیم پر چلا جاتا ھے۔

اللہ پر ' آخرت پر ' فرشتوں پر ' کتابیوں پر ' نبیوں پر ایمان لاکر اسلام میں داخل ھونے۔ جبکہ اسلام کی تعلیمات حاصل کرکے اپنے عمل صالح ' خواھشات حسنات والی اور قلبی خیالات حق والے کرکے صراط مستقیم پر چلنے کے مرحلے ھیں۔ اس لیے یہ سمجھتا ضروری ھے کہ؛

1۔ اللہ پر ' آخرت پر ' فرشتوں پر ' کتابیوں پر ' نبیوں پر ایمان لائے بغیر اسلام میں داخل نہیں ھوا جاسکتا۔ اسلام میں داخل ھونا "ایمان لانے والوں" کا مقام ھے۔

قرآن کی ھدایت ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ھیں صرف بیان نہیں رھتی بلکہ  شفا بھی بن جاتی ھے۔ اس لیے شریعت کے مرحلے سے آگاھی ھونے لگتی ھے۔

2۔ شریعت کا علم حاصل کیے بغیر سوء العمل سے بچا نہیں جاسکتا اور صالح عمل کیے نہیں جاسکتے۔ صالح عمل کرنا "متقیوں" کا مقام ھے۔

"ایمان لانے والوں" کا مقام حاصل کرنے کے بعد اللہ کی محبت میں قربت والے لوگوں کو اور یتیموں کو اور مسکینوں کو اور مسافروں کو مال دینے۔ اور مانگنے والوں پر اور گردنوں  کے چھڑانے میں خرچ کرنے۔ اور صلاۃ قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے۔ اور جب عہد کرلیا جائے تو اس کو پورا کرنے۔ اور تنگدستی میں اور جسمانی تکلیف میں اور معرکہ کارزار کے وقت صبر کرنے سے"متقیوں" کا مقام حاصل ھوتا ھے۔

قرآن کی ھدایت متقیوں کے لیے صرف بیان اور شفا نہیں رھتی بلکہ عبرت بھی بن جاتی ھے۔ اس لیے طریقت کے مرحلے سے آگاھی ھونے لگتی ھے۔

3۔ طریقت کا علم حاصل کیے بغیر سیات والی خواھشات سے بچا نہیں جاسکتا اور حسنات والی خواھشات پر عمل کیا نہیں جاسکتا۔ حسنات والی خواھشات پر عمل کرنا "محسنین" کا مقام ھے۔

"متقیوں" کا مقام حاصل کرنے کے بعد ھر عبادت کے مقام پر اپنی زینت سے آراستہ رھنے اور کھانے اور پینے لیکن اسراف نہ کرنے۔ تمام فحش کاموں سے خواہ ظاھر ھوں یا پوشیدہ ھوں بچنے۔ گناہ کرنے سے بچنے۔ حق کے بغیر زیادتی کرنے سے بچنے۔ ان کو الله کا شریک نہ بنانے جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی۔ الله کے بارے میں ایسی باتیں نہ کہنے جن کا کچھ علم نہ ھو۔ اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرنے۔ زنا کے قریب نہ جانے۔ اس نفس کو قتل نہ کرنے جس کو قتل کرنا اللہ نے حرام کیا ھے۔ یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جانے مگر ایسے طریقے سے کہ جو احسن ھو۔ جب کوئی چیز ناپ کر دینی ھو تو پیمانہ پورا بھرنے اور جب تول کر دینی ھو تو ترازو سیدھی رکھنے۔ ایسی بات کے پیچھے نہ لگنے کہ جس کا علم نہ ھو۔ زمین پر اکڑ کر نہ چلنے۔ کیونکہ یہ سب سَيٍّئُه ھیں جو اللہ کے نزدیک بہت ناپسندیدہ ھیں۔ زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد برپا نہ کرنے۔ صبر کرنے اور صبر پر قائم رھنے اور آپس میں رابطہ رکھنے۔ الله سے ڈرتے رھنے اور اللہ کی خاطر جدوجہد کرتے رھنے اور خوف اور امید کے ساتھ اللہ سے دعائیں مانگتے رھنے سے "محسنین" کا مقام حاصل ھوتا ھے۔

قرآن کی ھدایت محسنین کے لیے صرف بیان اور شفا اورعبرت نہیں رھتی بلکہ رحمت بھی بن جاتی ھے۔ اس لیے حقیقت کے مرحلے سے آگاھی ھونے لگتی ھے۔

4۔ حقیقت کا علم حاصل کیے بغیر قلب کو باطل خیالات سے بچایا نہیں جاسکتا اور حق والے خیالات کی طرف متوجہ نہیں کیا جاسکتا۔ حق والے خیالات کی طرف متوجہ ھونا "مومنین" کا مقام ھے۔

"محسنین" کا مقام حاصل کرنے کے بعد جب الله کا ذکر کیا جائے تو دل لرز جانے۔ اللہ کی آیات پڑھی جائیں تو ایمان مزید بڑھ جانے۔ اللہ پر توکل رکھنے۔ صلاۃ قائم کرنے۔ جو رزق اللہ نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرنے۔ الله کی راہ میں اپنے مال سے اور اپنے نفس سے جدوجہد کرنے۔ اللہ کی  راہ میں جدوجہد کرنے والوں کو پناہ دینے اور ان کی مدد کرنے۔ ھجرت کرنے۔ آخرت کا ارادہ رکھنے اور آخرت کے لیے بھاگ دوڑکرنے جو بھاگ دوڑ آخرت کے لیے ضروری ھے ۔ اپنے نفس پر نبی کو زیادہ حق دار رکھنے اور نبی کی بیویوں کو اپنی  مائیں سمجھنے۔ مومنوں اور مہاجروں کی نسبت خونی رشتہ دار وں کوآپس میں زیادہ حق دار  سمجھنے  سوائے اس کے کہ اپنے سرپرستوں کے ساتھ کوئی معروف فعل کرنا  ھو۔ الله سے ڈرنے اور آپس کے تعلقات درست کرنے اور الله کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے۔ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا پر قائم رھنے۔ اپنی صلاۃ اور اپنی قربانی اور اپنی حیاتی اور اپنی موت اللہ کے لیے رکھنے۔ ھر چیز کا رب اللہ کو سمجھنے۔ اس پر یقین رکھنے کہ الله وہ ھے کہ نہیں ھے کوئی معبود سوائے اس کے اور مومنوں کو الله پر ھی توکل کرنا چاھیے۔ جو الله نے اپنے فضل سے عطا کیا ھے اس پر خوش رھنے۔ نہ کوئی خوف کرنے اور نہ غمگین ھونے۔ الله کی طرف سے دی گئی نعمتوں اور اس کے فضل سے مطمئن رھنے۔ تکلیفیں اٹھاکر اور مصیبتیں برداشت کرکے بھی الله اور رسول کے حکم کو قبول کرتے ھوئے احسن کام کرنے اور تقویٰ اختیار کرنے سے "مومنین" کا مقام حاصل ھوتا ھے۔

قرآن کی ھدایت مومنین کے لیے صرف بیان اور شفا اور عبرت اور رحمت نہیں رھتی بلکہ بشارت بھی بن جاتی ھے۔ اس لیے معرفت کے مرحلے سے آگاھی ھونے لگتی ھے۔

5۔ معرفت کا علم حاصل کیے بغیر صراط الجھیم سے بچا نہیں جاسکتا اور صراط مستقیم پر چلا نہیں جاسکتا۔ صراط مستقیم پر چلنا "مقربین" کا مقام ھے۔

"مومنین" کا مقام حاصل کرنے کے بعد وہ لوگ جنہوں نے الله کو مضبوطی سے پکڑے رکھا تو ان کو وہ اپنی رحمت اور فضل میں داخل کرے گا اور ان کی صِرَاطًا مُّسْتَقِيم کی طرف رھنمائی کرے گا۔ اللہ ھی نے واضح آیات نازل کیں ھیں اور الله ھی جسے چاھتا ھے صِرَاطٍ مُّسْتَقِيم کی طرف ھدایت دیتا ھے۔ تمہارے پاس الله کی طرف سے نور اور كِتَابٌ مُّبِين آگئی ھے۔ اس کے ذریعے سے الله اس کو ھدایت دیتا ھے جو سلامتی کی راھوں کے لیے اس کی رضا کی پیروی کرتا ھے اور ان کو اپنی اجازت سے ظلمات سے نور کی طرف نکالتا ھے اور ان کو صِرَاطٍ مُّسْتَقِيم کی طرف ھدایت دیتا ھے۔ اللہ نے ھدایت کی تھی کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ھے اور اللہ کی ھی عبادت کرنا۔ یہی صِرَاطٌ مُّسْتَقِيم ھے۔ ابلیس نے اللہ سے کہا تھا کہ چونکہ تونے مجھے دھتکارا ھے تو میں تیرے الْمُسْتَقِيم راستے پر ان کے لیے ضرور گھات  لگاتا رھوں گا۔ میں ضرور ان کے لیے زمین میں زیبائش پیدا کروں گا اور ان سب کو ضرور بہکاؤں گا۔ سوائے تیرے ان بندوں کے جو الْمُخْلَصِين ھیں۔ الله نے فرمایا تھا کہ یہی ھے مجھ تک پہنچنے کا مُسْتَقِيم راستہ۔ اللہ نے کہا کہ ھم نے تم میں سے ھر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک طریقہء کار بنا دیا ھے۔ اگر الله چاھتا تو تم کو ایک ھی اُمّت بنا دیتا لیکن چونکہ اس نے جو تمہیں دیا ھے اس سے تمہاری آزمائش کرنی ھے سو الخَيْرَات میں سبقت لے جاؤ۔ سبقت لے جانے والے تو سبقت لے جانے والے ھیں۔ یہی تو مقرب ھیں۔

Tuesday, 22 September 2020

بلوچ دوسری قوموں کی زمین پر قابض ھیں۔

پاکستان میں پنجابیوں کی آبادی پاکستان کی آبادی کا 60٪ ھے۔ پاکستان میں سیاست ' صحافت ' ملٹری بیوروکریسی ' سول بیوروکریسی ' صنعت کے شعبوں ' تجارت کے شعبوں ' ھنرمندی کے شعبوں اور پاکستان کے بڑے بڑے شھروں پر اب پنجابیوں کا کنٹرول قائم ھوتا جا رھا ھے۔ پنجابیوں میں قومپرستی بھی بڑی تیزی سے فروغ پا رھی ھے۔ پنجابیوں کے سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قوموں اور کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' راجستھانی ' گجراتی برادریوں کے ساتھ خوشگوار سماجی ' کاروباری اور سیاسی مراسم ھیں لیکن کردستانی بلوچوں کے ساتھ پنجابیوں کے ھی نہیں بلکہ براھوئیوں اور سماٹ کے بھی خوشگوار سماجی ' کاروباری اور سیاسی مراسم نہیں ھیں۔

پنجابی قوم کی پشت پناھی کی وجہ سے پنجاب کے ڈیرہ والی پنجابی ' ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی تو بلوچ کی سرائیکی سازش اور ڈیرہ والی پنجابی ' ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی پر غلبہ پانے کی کوشش کا آنکھ میں آنکھ ڈال کر مقابلہ کر رھے تھے۔ لیکن 1486 سے بلوچوں کے ظلم و زیادتیوں کی وجہ سے خوف و ھراس میں مبتلا ھونے کے باعث بلوچ کے سامنے براھوئی گردن اٹھانے کی ھمت نہیں کر رھے تھے۔ اب براھوئی نے بھی ھمت کرکے بلوچ کی آنکھ سے آنکھ ملاکر اپنے حقوق کی بات کرنا شروع کردی ھے۔ اب صرف سماٹ بچے ھیں۔ 1783 سے بلوچوں کے ظلم و زیادتیوں کی وجہ سے خوف و ھراس میں مبتلا ھونے کے باعث بلوچ کے سامنے سماٹ گردن اٹھانے کی ھمت نہیں کر رھے لیکن براھوئیوں کی طرح آخرکار سماٹ کو بھی ھمت کرکے بلوچ کی آنکھ سے آنکھ ملاکر اپنے حقوق کی بات کرنا پڑے گی۔ اس لیے بہتر ھے کہ بلوچ اپنی بالادستی کی سوچ سے دستبردار ھوکر عوامی اور انسانی انداز میں زندگی گزارنا سیکھیں اور پاکستان کے دشمن ملکوں کے ایجنٹ بننے سے گزیز کریں۔ جس ملک نے ان کو پناہ دی اس کے خلاف دشمن ملکوں کے ایجنٹ بن کر سازشیں نہ کریں۔

پنجابی ' براھوئی اور سماٹ چونکہ وادیء سندھ کی تہذیب کے باشندے ھیں اور اپنی اپنی زمین کے مالک ھیں۔ اس لیے پاکستان کے دشمنوں کے ایجنٹ نہیں بنتے۔ لیکن بلوچ چونکہ دوسری قوموں کی زمین پر قابض ھیں۔ انہیں زمین سے محبت اور زمین کی مالک قوم سے انسیت نہیں ھے۔ اس لیے پاکستان کے دشمنوں کے ایجنٹ بننے میں دیر نہیں لگاتے۔ پاکستان کے دشمن ملک بھارت اور افغانستان کے ایجنٹ بن کر بلوچستان ' جنوبی پنجاب اور سندھ میں دھشتگردی کی کاروائیاں کرنے والے سب سے زیادہ بلوچ ھیں۔

دراصل inhabitant of land اور invader of land اور immigrant of land میں فرق ھوتا ھے۔ بلوچ نہ تو براھوئیوں کی زمین ' پنجابیوں کی زمین ' سماٹ کی زمین میں inhabitant ھیں اور نہ immigrant ھوکر ائے ھیں۔ بلوچ تو براھوئیوں کی زمین ' پنجابیوں کی زمین ' سماٹ کی زمین میں invader بن کر آئے۔ اس لیے بلوچ کو چاھیے کہ اپنی invader والی سوچ بھی اب ختم کردے۔ پنجابی قوم اب بلوچ کے invader والے روپ کو بھی برداشت نہیں کرسکتی۔ پنجابی قوم نے اب پاکستان کے ساتھ غداری کرنے والے لوگوں کا مقابلہ اور مظلوم قوموں کی مدد کرنے کا فیصلہ کرلیا ھے۔

لیاقت علی خان کی وجہ سے پاکستان نے کشمیر کھو دیا۔

پاکستان میں "ولین" کو "ھیرو" کی شکل دے کر تاریخ کو مسخ کیا گیا۔ لیاقت علی خان نے ھندوستان سے بھاگ کر پاکستان آنے کے بعد جلسہ عام میں اپنے ھاتھ کا مکا بناکر دکھایا تاکہ عوام باور کرسکے کہ پاکستان کو مضبوط کرنے کے لیے اس کے ارادے بڑے بلند ھیں۔ لیاقت علی خان کے بارے میں ایسا خاکہ بنا دیا گیا کہ اس کے کیے گئے فیصلے کے بارے میں سوال کرنے کی پاکستان میں کسی کو جسارت نہ رھی۔ اس کی ایک مثال یہ ھے کہ لیاقت علی خان نے سردار شوکت حیات خان کو کہا کہ؛ سردار صاحب !!! کیا میں پاگل ھوں جو حیدرآباد دکن کو جو کہ پنجاب سے کہیں بڑا ھے "کشمیر کی پتھریلی پہاڑیوں" کی خاطر چھوڑ دوں؟

ھم نے پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی نااھل قیادت ' بھارت کی کھلم کھلا جارحیت اور پاکستان کی فوج کے انگریز کمانڈر انچیف کی جانب سے کشمیر میں بھارتی جارحیت کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے پاکستان کے گورنر جنرل محمد علی جناح کے احکامات کی تعمیل کرنے سے انکار کی وجہ سے کشمیر کھو دیا۔ جبکہ لیاقت علی خان کی خواھش کے باوجود حیدرآباد دکن اور جوناگڑھ کو حاصل کرنے میں بھی پاکستان ناکام رھا۔

مسئلہ یہ تھا کہ مسلم لیگ کی اعلی قیادت کا تعلق ھندوستان سے تھا اور ان کے تعلقات یوپی ' سی پی ' بہار ' حیدرآباد دکن ' جوناگڑھ ' نئی دھلی وغیرہ میں تھے۔ ان کے ذھن پر حیدرآباد دکن اور جوناگڑھ کو پاکستان میں شامل کرنے کی دھن سوار تھی۔ انہیں پنجاب اور کشمیر سے دلچسپی نہیں تھی۔ نہ پنجاب کی زرعی معیشت کا احساس تھا۔ نہ یہ خیال تھا کہ؛ اگر کشمیر پر بھارت کا قبضہ ھوگیا تو پاکستان کو کیا اسٹریٹجک خطرات درپیش آئیں گے؟

بھارت کا پہلا نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل حیدرآباد دکن کے بدلے کشمیر پاکستان کو دینے کا خواھشمند تھا۔ بھارت کا آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن اکتوبر 1947 میں ٹھیک اسی دن سردار ولبھ بھائی پٹیل کی پیش کش لے کر پاکستان پہنچا جب بھارتی فوج پاکستان سے کشمیر میں گھسنے والے قبائلیوں کے لشکر کو پیچھے ھٹاتے ھوئے سری نگر پہنچ کر کنٹرول سمبھال چکی تھی۔

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم ' اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر لیاقت علی خان نے "جو نہ تو پاکستان کی تاریخ کو سمجھتا تھا اور نہ ھی جغرافیے کو سمجھتا تھا" لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی طرف سے پہنچائی جانے والی سردار ولبھ بھائی پٹیل کی پیش کش کو ٹھکرا دیا اور حیدرآباد دکن لینے پر زور دیا۔ لیاقت علی خان نے اپنا دل حیدرآباد دکن پر لگایا ھوا تھا اور "کشمیر کی پتھریلی پہاڑیوں" سے اسے دلچسپی نہیں تھی۔ جبکہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کا موفق تھا کہ؛ کشمیر پر پاکستان کا حق بنتا ھے لیکن حیدرآباد دکن پر حق نہیں بنتا۔

کانگریس کے سابق وزیر اور ممتاز کشمیری سیاستدان سیف الدین سوز نے چونکا دینے والا دعوی کیا ھے کہ؛ “پہلے دن سے ھی سردار پٹیل کا اصرار تھا کہ؛ کشمیر پاکستان میں جانا چاھیے۔ پارٹیشن کونسل میں انہوں نے لیاقت علی خان کو کشمیر لینے اور حیدرآباد دکن چھوڑنے پر راضی کرنے کی پوری کوشش کی"۔ سوز نے کہا کہ؛ ایک بیٹھک ھوئی تھی۔ چوھدری محمد علی اور ھمارا ریڈی وھاں تھا۔ سردار پٹیل نے لیاقت علی خان سے کہا کہ؛ حیدرآباد دکن کے بارے میں بات ھی نہ کریں۔ کیونکہ وہ پاکستان کے ساتھ جڑا ھوا نہیں ھے۔ آپ حیدرآباد دکن کو ھمارے پاس رھنے دیں اور کشمیر لے لیں۔

سوز نے کہا کہ؛ "میں آپ کو ایک بہت ھی دلچسپ کہانی سناتا ھوں۔ جب ھماری فوج سری نگر میں داخل ھوئی۔ اسی دن سہ پہر میں ماؤنٹ بیٹن لاھور گیا۔ گورنر جنرل پاکستان محمد علی جناح ' وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان اور پاکستان کے چار وزراء کے ساتھ عشائیہ تھا۔ ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ؛ میں بھارت کی طاقتور ترین شخصیت سردار پٹیل کی طرف سے پیغام لایا ھوں۔ کشمیر لے لو اور حیدرآباد دکن کو چھوڑ دو۔ وہ پاکستان کے ساتھ جڑا ھوا نہیں ھے۔

سردار شوکت حیات خان نے اپنی کتاب The Nation That Lost Its Soul میں لکھا ھے کہ؛ ایک عشائیہ کے موقع پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پٹیل کا پیغام پہنچایا تھا۔ "پٹیل نے کہا تھا کہ؛ پاکستان کشمیر لے سکتا ھے اور حیدرآباد دکن دے سکتا ھے۔ جس کی اکثریت ھندو آبادی کی ھے اور وہ سمندر یا زمین کے ذریعے پاکستان کے قریب بھی نہیں ھے۔"

سردار شوکت حیات خان نے لکھا ھے کہ؛ یہ پیغام پہنچانے کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن لاھور گورنمنٹ ھاؤس میں سونے کے لیے چلے گئے۔ کشمیر آپریشن کا مجموعی انچارج ھونے کی وجہ سے میں لیاقت علی خان کے پاس گیا۔ میں نے اس کو مشورہ دیا کہ چونکہ بھارتی فوج کشمیر میں بھرپور طاقت کے ساتھ داخل ھوچکی ھے اور ھم قبائلی مجاھدوں یا اپنی ناکافی مسلح افواج کے ساتھ کشمیر کا الحاق کرنے میں کامیاب نہیں ھوسکیں گے۔ لہذا ھمیں پٹیل کی تجویز کو قبول کرنے میں جلدی کرنی چاھیے۔

لیاقت علی خان میری طرف مڑے اور کہا کہ؛ سردار صاحب !!! کیا میں پاگل ھوں جو حیدرآباد دکن کو جو کہ پنجاب سے کہیں بڑا ھے "کشمیر کی پتھریلی پہاڑیوں" کی خاطر چھوڑ دوں؟ میں وزیر اعظم کے رد عمل اور ھمارے جغرافیے کے بارے میں اس کی لاعلمی اور اس کے دانشمندی سے عاری ھونے پر حیران رہ گیا۔

میں نے سوچا کہ؛ وہ احمقوں کی جنت میں جی رھا ھے اور پاکستان کے لیے کشمیر کی اھمیت کو نہیں سمجھتا ھے۔ جبکہ حیدرآباد حاصل کرنے کی امید کر رھا ھے۔ جو کہ صرف سوچنے کی حد تک اچھی بات اور بہترین خواھش ھے۔ یہ پاکستان کے ساتھ کہیں سے بھی جڑا ھوا نہیں ھے۔ لہذا احتجاج کے طور پر میں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ جو کہ میرے پاس کشمیر آپریشن کے مجموعی انچارج کے طور پر تھا۔

سردار شوکت حیات خان نے اپنی کتاب میں لکھا ھے کہ؛ "لیاقت علی خان نہ تو تاریخ کو سمجھتا تھا۔ نہ جغرافیہ کو"۔ اس لیے اس نے پیش کش کو قبول نہیں کیا۔ سردار پٹیل کشمیر کو ایک پلیٹ میں رکھ کر دے رھا تھا۔ لیکن جذباتی وجوھات اور علم کی کمی کی وجہ سے لیاقت علی خان حیدرآباد دکن کو حاصل کرنا چاھتا تھا۔ جو کہ ایک ھندو اکثریتی علاقہ تھا اور اس کو چاروں طرف سے بھارتی علاقے نے گھیرا ھوا تھا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ھوتا ھے کہ؛ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی حماقت کی وجہ سے کشمیر کو کھویا گیا۔ ھمیں یہ تبادلہ قبول کرنا چاھیے تھا کہ؛ پاکستان کشمیر کی ریاست کو لے لیتا جبکہ بھارت کو حیدرآباد دکن کی ریاست دے دیتا۔ حیدرآباد دکن کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا غیر منطقی عمل تھا۔ جو کہ بھارت کے قلب میں واقع تھا اور ایک ھندو اکثریتی علاقہ تھا۔ صرف حکمران مسلمان تھا۔ پاکستان لیاقت علی خان کی حماقت کو بھگت رھا ھے۔ لیاقت علی خان کو تبادلہ قبول کرنا چاھیے تھا۔ یہ اسی ناکامی کا نتیجہ تھا کہ؛ میجر جنرل اکبر خان راولپنڈی سازش میں شامل ھوا۔ اس کو سخت غصہ تھا کہ لیاقت علی خان کی سیاسی قیادت کی ناکامیوں کی وجہ سے کشمیر کو بہت برے انداز میں کھو دیا گیا ھے۔

کلدیپ نیئر نے اپنی کتاب Beyond the Lines—An Autobiography میں سردار پٹیل کے مستقل نظریہ پر لکھا ھے کہ؛ کشمیر کو پاکستان کا حصہ ھونا چاھیے۔ کلدیپ نیئر لکھتے ھیں کہ؛ "میرا تاثر یہ ھے کہ؛ اگر پاکستان صبر کرتا تو اس کو خود بخود کشمیر مل جاتا۔ بھارت اس پر فتح حاصل نہیں کرسکتا تھا اور نہ ھی ھندو مہاراجہ آبادی کی ساخت کو نظرانداز کرسکتا تھا جوکہ واضح اکثریت کے ساتھ مسلمان تھی۔ اس کے بجائے پاکستان نے بے صبری کرتے ھوئے آزادی کے چند دنوں بعد ھی قبائلیوں کو باقاعدہ فوج کے ھمراہ کشمیر میں بھیج دیا"۔

کلدیپ نیئر لکھتے ھیں کہ؛ “اگرچہ یہ سچ ھے کہ نہرو کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کا خواھشمند تھا لیکن پٹیل اس کے برعکس تھا۔ یہاں تک کہ جب نئی دھلی نے مہاراجہ کی بھارت کے ساتھ الحاق کی درخواست وصول کی۔ تو پٹیل نے کہا تھا کہ؛ "ھمیں کشمیر میں نہیں الجھنا چاھیے۔ ھماری پلیٹ میں پہلے ھی بہت کچھ ھے"۔ پٹیل اپنے اس خیال پر قائم رھا کہ؛ پاکستان کو حیدرآباد کی بات نہیں کرنی چاھیے۔ کشمیر کو پاکستان میں جانا چاھیے۔

چودھری محمد علی نے اپنی کتاب The Emergence of Pakistan میں کشمیر کے بارے میں پٹیل کے تاثرات پر ایک دلچسپ تفصیل پیش کی ھے۔ وہ لکھتے ھیں کہ؛ “پارٹیشن کونسل کے اجلاس میں شرکت کے دوران اگرچہ سردار پٹیل پاکستان کا ایک تلخ دشمن تھا لیکن وہ نہرو سے زیادہ حقیقت پسند تھا۔ دونوں وزرائے اعظم کے مابین ایک بات چیت میں سردار پٹیل اور میں بھی موجود تھے۔ لیاقت علی خان جوناگڑھ اور کشمیر کے حوالے سے بھارت کے موقف کی عدم مطابقت پر برھم تھے کہ؛

اگر جوناگڑھ اپنے مسلم حکمران کے پاکستان سے الحاق کرنے کے باوجود اپنی ھندو اکثریت کی وجہ سے بھارت کا حصہ ھے۔ تو پھر کشمیر اس کی مسلم اکثریت کے ساتھ ھندو حکمران کے بھارت سے الحاق کے مشروط معاھدہ پر دستخط کرنے کی وجہ سے بھارت کا حصہ کیسے ھوسکتا ھے؟

اگر مسلم حکمران کی طرف سے جوناگڑھ کے الحاق کے دستخط کرنے کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ تو پھر کشمیر کے ھندو حکمران کی طرف سے دستخط کیے جانے کی بھی کوئی حیثیت نہیں ھے۔

اگر جوناگڑھ میں لوگوں کی مرضی کو اھمیت حاصل تھی۔ تو پھر اسے کشمیر میں بھی اھمیت حاصل ھونی چاھیے۔

بھارت جوناگڑھ اور کشمیر دونوں پر دعوی نہیں کرسکتا۔

چودھری محمد علی لکھتے ھیں کہ؛ "جب لیاقت علی خان نے یہ متضاد نکات اٹھائے تو پٹیل خود پر قابو نہ رکھ سکے اور پھٹ پڑے"۔ آپ جوناگڑھ کا کشمیر کے ساتھ موازنہ کیوں کرتے ھیں؟ حیدرآباد اور کشمیر کی بات کریں۔ تاکہ ھم کسی معاھدے پر پہنچ سکیں۔ چودھری محمد علی مزید تبصرہ کرتے ھیں کہ؛ اس وقت اور اس کے بعد بھی "پٹیل" کے خیالات یہ تھے کہ؛ لوگوں کی مرضی کے خلاف مسلم اکثریتی علاقوں کو حاصل کرنے کی بھارت کی کوشش بھارت کی طاقت کا نہیں بلکہ کمزوری کا سبب بنے گی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ؛ اگر بھارت اور پاکستان ' کشمیر کو پاکستان اور حیدرآباد کو بھارت میں جانے دینے پر راضی ھوجاتے ھیں تو کشمیر اور حیدرآباد کا مسئلہ پر امن طریقے سے حل ھوسکتا ھے۔ جو کہ بھارت اور پاکستان کے باھمی مفاد میں ھوگا۔

اے جی نورانی ایک معروف اسکالر ھیں۔ جو مسئلہ کشمیر پر کافی معلومات رکھتے ھیں۔ انہوں نے پٹیل کی تجاویز پر لیاقت علی خان کے رویہ کا حوالہ دیا ھے۔ اپنے مضمون A Tale of Two States میں اے جی نورانی لکھتے ھیں کہ؛ "ایک چوتھائی صدی کے بعد 27 نومبر 1972 کو پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے لنڈی کوتل میں ایک قبائلی جرگہ کو بتایا کہ؛ بھارت کے پہلے وزیر داخلہ اور وزیر برائے ریاستی امور سردار پٹیل نے ایک مرحلے پر جوناگڑھ اور حیدرآباد کے بدلے میں پاکستان کو کشمیر دینے کی پیش کش کی تھی۔ لیکن "بدقسمتی سے" پاکستان نے اس پیش کش کو قبول نہیں کیا۔ اس کے نتیجے میں اس نے نہ صرف تینوں ریاستوں بلکہ مشرقی پاکستان کو بھی کھو دیا۔

جہاں تک جناح کی بات ھے تو وہ ایک وکیل تھے۔ انہوں نے جوناگڑھ کے بدلے واضح طور پر کشمیر کے تبادلے کی تجویز پیش کی تھی۔ کیونکہ دونوں ریاستیں متعدد طریقوں سے ایک دوسرے کا عکس تھیں۔

کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی جس کے غیر مسلم حکمران نے اپنی ریاست کا بھارت کے ساتھ الحاق کرلیا تھا۔

جوناگڑھ ایک غیر مسلم اکثریتی ریاست تھی جس کے مسلم حکمران نے اپنی ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرلیا تھا۔

جناح کا استدلال تھا کہ؛ چونکہ جوناگڑھ قانونی طور پر پاکستان کا حصہ بن چکا ھے۔ لہذا پاکستان کا گورنر جنرل ھونے کے ناطے وہ ریاست کے مستقبل کے بارے میں بھارت کے ساتھ بات چیت کرنے کا حق رکھتے ھیں۔

لیکن چونکہ حیدرآباد کے حکمران نے اپنی ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں کیا۔ لہذا اسے ریاست کے مستقبل پر تبادلہ خیال کرنے یا حیدرآباد کے حکمران کو اس کی مرضی کے خلاف اپنی ریاست کا بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کے لیے مجبور کرنے کا اختیار نہیں ھے۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان ھونے والا "سندھ طاس معاھدہ"۔

برطانوی حکام نے 1909ء میں پنجاب کو برصغیر کے لیے "زرعی علاقہ" بنانے کے لیے "سندھ طاس کا منصوبہ" بنایا؛

1۔ جہلم کو ایک نہر کے ذریعہ چناب سے ملا دیا گیا۔

2۔ پنجند اور معاون دریاؤں پر بہت سے بند اور بیراج باندھے گئے جو سیلاب کے وقت پانی کا ذخیرہ کرلیتے تھے۔

3۔ برٹش انڈیا کی تقسیم سے کچھ عرصہ پہلے کالا باغ کے مقام پر دوسرا بیراج تعمیر کیا گیا۔

4۔ ڈیرہ غازی خان کے نزدیک چشمہ بیراج کی تعمیر کا کام 1953ء میں شروع ھوا۔ جس کی منصوبہ بندی برطانیہ نے کی تھی۔ چشمہ بیراج کی تعمیر 1958ء میں مکمل ھوئی۔

5۔ پنجاب اور سندھ کی سرحد کے نزدیک پنجند اور سکھر کے درمیان گدو کے مقام پر 1962ء میں گدو بیراج کا کام مکمل ھو گیا۔ اس بیراج کی منصوبہ بندی بھی برطانیہ نے کی تھی۔

اس طرح سیلابوں پر کسی حد تک قابوں پایا گیا اور ان میں جمع شدہ پانی کو سردیوں کے خشک موسم میں استعمال کیا جانے لگا۔

برطانیہ کے "سندھ طاس کے منصوبے" میں پنجاب کے علاوہ سندھ کے لیے بھی منصوبے شامل تھے۔ اس لیے؛

1۔ دریائے سندھ پر 1932ء میں سکھر کے مقام پر سندھ کے لیے پہلا بیراج تعمیر کیا گیا۔

2۔ سندھ میں 1955ء میں کوٹری بیراج مکمل ھوا۔ اس سے سندھ کے مشرقی علاقوں میں زراعت کے لیے پانی میسر آیا۔

1947ء تک برطانوی انجینئر "سندھ طاس" کو دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی کا نظام مہیا کرچکے تھے اور دنیا کے سب سے بڑے آبپاشی کے نظام نے کام کرنا شروع کر دیا تھا۔

برطانوی انجینئروں نے جو طریقہ کار اختیار کیا اسے دنیا میں ھر جگہ نہروں کی تعمیر اور ان کو چلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ھے۔

تقریباً پچاس سال تک طاقتور دریاؤں کو قابو میں رکھنے اور لگام ڈالنے کا کام ایک مکمل وحدت کے طور پر انجام دیا جاتا رھا۔ مگر 1947ء میں پنجاب کی تقسیم کے بعد سب کچھ بدل گیا۔

سر سیرل کلف اس کمیشن کا چیئرمین تھا۔ جسے پنجاب تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

سر سیرل کلف نے پنجاب کی تقسیم کے وقت نہروں اور دریاؤں کو کنٹرول کرنے کے نظام کی اھمیت پوری طرح دونوں فریقوں پر واضح کردی اور تجویز پیش کی کہ؛ دونوں ملک ایک معاھدہ کر لیں کہ؛ وہ اس سارے نظام کو ایک اکائی کی طرح چلائیں گے۔

پاکستان اور بھارت کے رھنما ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ انہوں نے یہ تجویز رد کردی۔

قائد اعظم اور لیاقت علی خان شاید جانتے تھے کہ؛ کشمیر کو پاکستان میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے پاکستان کو بھارت کے رحم و کرم پر رھنا پڑے گا۔ جبکہ پنڈت جواھر لال نہرو کا اندازہ تھا کہ؛

1۔ کشمیر میں مسلم اکثریت کے باوجود وھاں کا ھندو راجا بھارت میں شامل ھونا پسند کرے گا۔

2۔ لیاقت علی خان کشمیر کو پاکستان میں شامل کرنے کے بجائے حیدرآباد دکن کو پاکستان میں شامل کرنے کو ترجیج دے گا۔

3۔ کشمیر کے بھارت میں شامل ھونے کی صورت میں دریاؤں پر بھارت کی بالادستی قائم رھے گی۔

پنڈت جواھر لال نہرو کا اندازہ درست ثابت ھوا۔ کیونکہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے بھارت کے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی حیثیت سے پاکستان کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کو حیدرآباد دکن سے دستبردار ھونے اور کشمیر لینے کی پیشکش کی۔

بھارت کا وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن اس پیشکش کو لیکر پاکستان آیا۔ لیکن لیاقت علی خان نے کشمیر لینے کی پیشکش مسترد کردی۔ اس لیے بھارت نے نہ صرف حیدرآباد دکن پر قبضہ کرلیا۔ بلکہ کشمیر کے بیشتر حصے پر بھی بھارت نے قبضہ کرلیا۔

تقسیم کے وقت پنجاب کی 23 مستقل نہروں میں سے 21 پاکستان کے قبضہ میں آگئیں۔ اس لیے ظاھری طور پر پاکستان فائدے میں نظر آرھا تھا۔ لیکن؛

1۔ بھارت کے کشمیر پر قبضہ سے بھارت کو پاکستان کی نہروں کو پانی مہیا کرنے کے نظام پر مکمل بالادستی حاصل ھوگئی۔

2۔ پجند کے پانچوں دریا مغربی پنجاب میں داخل ھونے سے پہلے کشمیر اور مشرقی پنجاب سے بہتے ھوئے آتے تھے۔ جس پر اب بھارت قابض ھوچکا تھا۔

3۔ دریائے سندھ بھی لداخ کے مقام پر بہتا ھے۔ لداخ بھی کشمیر کا ایک حصہ ھے۔ لیکن ھمالیہ کی دور دراز گھاٹیوں میں بہنے کی وجہ سے وھاں اس کا رخ بدلنا ممکن نہیں ھے۔

4۔ دوسرے دریا خاص طور پر راوی اور ستلج مشرقی پنجاب میں سے ھوتے ھوئے مغربی پنجاب میں داخل ھوتے ھیں۔ اس کے علاوہ پانی کی تقسیم کے لیے راوی اور ستلج پر قائم تمام اھم ھیڈ ورکس بھی بھارت کے قبضہ میں آگئے تھے۔

5۔ راوی اور ستلج کے ھیڈورکس پچاس سال سے ان کھیتوں کو پانی پہنچا رھے تھے جو مغربی پنجاب کے علاقے میں تھے۔ لیکن دریا کے اوپر والے حصے کے لیے دریا کے نچلے حصے کو پانی دینے کا بین الاقوامی قانون نہیں ھے۔

6۔ بھارت اس پوزیشن میں آچکا تھا کہ؛ وہ جب چاھتا مغربی پنجاب کو پانی کی سپلائی روک سکتا تھا۔ بھارت نے آزادی کے فوری بعد مغربی پنجاب کا پانی روک لیا۔

7۔ آخر کار رقم کی ادائیگی کے عوض پانی فراھم کرنے کے لیے مارچ 1948ء تک کی مدت کے لیے ایک معاھدے پر دستخط ھوئے۔ جس میں تنازعات کے حل کے لیے ایک کمیٹی کی تجویز بھی شامل تھی۔

8۔ مارچ 1948ء میں جب معاھدے کی مدت ختم ھوئی تو بھارت نے راوی اور ستلج کا پانی روک دیا۔ کسانوں نے گرمیوں کی فصلیں بونی شروع کی ھوئی تھیں۔ بھارت کے راوی اور ستلج کا پانی روکنے کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ پر مشتمل فصلیں مکمل طور پر تباہ ھوگئیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان تکرار جاری تھی۔ پانی کی قیمت اور دریائی پانی وصول کرنے کے اوقات کے حوالے سے تنازعات تھے۔ اس سلسلے میں عارضی بنیادوں پر جو معاھدے ھوئے تھے۔ وہ پاکستان کے لیے غیر تسلی بخش تھے۔ کیونکہ؛

1۔ جب مغربی پنجاب کے علاقوں میں پانی کی سپلائی میں کمی ھوتی تھی تو بھارت اپنے استعمال کے لیے پانی روک لیتا تھا۔

2۔ جب موسمی سیلاب پنجند دریاؤں میں امڈ آتے تو پاکستان کے سالانہ کوٹے میں سے پانی منہا کر لیا جاتا تھا۔ جو مغربی پنجاب کے کسی کام نہیں آتا تھا۔

1951ء میں ورلڈ بینک نے کوشش کی کہ؛ دونوں ممالک "سندھ طاس" نظام کو ایک وحدت کے طور پر چلانے کے لیے آپس میں تعاون کر لیں اور کسی معاھدے پر پہچنے کی کوشش کریں۔ لیکن؛

1۔ بھارت کسی ایسے معاھدے کا خواھش مند نہیں تھا۔ جس کے تحت اس کا دریاؤں پر سے کنڑول ختم ھوجائے۔

2۔ پاکستان کو کسی صورت میں بھارت کی بالادستی اور دریاؤں پر پورا کنڑول منظور نہیں تھا۔

ایک طرف دریاؤں کے بالائی حصوں پر قبضہ کی وجہ سے راوی اور ستلج دریاؤں پر بھارت کی بالادستی قائم تھی اور مغربی پنجاب کو پانی فراھم نہیں ھورھا تھا۔

دوسری طرف بھارت کو اندرونی طور پر بڑھتے ھوئے معاشی اور سیاسی مسائل کا سامنا تھا۔ جبکہ بیرونی سطح پر چین کے دستے ھمالیہ میں اس کی بیرونی چوکیوں پر حملے کر رھے تھے۔

تیسری طرف پاکستان میں پٹھان جنرل ایوب خان کی فوجی آمرانہ حکومت تھی۔ سندھی ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کا وفاقی وزیر بجلی و پانی تھا۔ امریکا و برطانیہ کی حکومتیں ورلڈ بینک کے نمائندوں کے ذریعے پاکستان اور بھارت کے درمیان "سندھ طاس نظام" کے مسئلے کو حل کرانے میں مصروف تھیں۔

لہذا امریکا و برطانیہ کی حکومتیں اور ورلڈ بینک کے نمائندے "سندھ طاس معاھدہ" پر 19 ستمبر 1960 کو کراچی میں دستخط کروانے میں کامیاب ھو گئے؛

1۔ "سندھ طاس معاھدہ" کی تیاری وفاقی وزیر بجلی و پانی سندھی ذوالفقار علی بھٹو نے کی تھی۔

2۔ پاکستان کے صدر اور پٹھان فوجی آمر جنرل ایوب خان اور بھارت کے وزیرِ اعظم پنڈت جواھر لال نہرو نے "سندھ طاس معاھدے" پر دستخط کیے۔

بھارت اور پاکستان نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ھوئے؛

1۔ ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا۔ جو بھارت اور پاکستان کے کمشنروں پر مشتمل تھا۔

2۔ ھائیڈرولوجیکل اور موسمیاتی مراکز کا ایک مربوط نظام قائم کیا گیا۔ جس کی معلومات تک رسائی دونوں ممالک کو حاصل تھی۔

3۔ دریائے سندھ اور پنجند کے دو دریاؤں جہلم اور چناب پر بھارت نے پاکستان کی حاکمیت تسلیم کی اور بھارت نے وعدہ کیا کہ؛ وہ ان کے بہاوَ میں کبھی بھی کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔

4۔ پنجند کے تین مشرقی دریا راوی ' بیاس ' ستلج مکمل طور پر بھارت کے سپرد کر دیے گئے۔ لیکن بھارت نے ایک مقرہ مدت تک پانی کی ایک طے شدہ مقدار پاکستان کو مہیا کرنی تھی۔ تاکہ پاکستان مغربی دریاؤں پر ڈیم اور ھیڈ ورکس تعمیر کرکے زراعت کے لیے پانی کا انتظام کرسکے۔

پاکستان نے مقرہ مدت کے دوران مغربی دریاؤں پر ڈیم اور ھیڈ ورکس تعمیر کرکے زراعت کے لیے پانی کا انتظام کرنا تھا۔ تاکہ مشرقی دریاؤں کے مکمل بند ھو جانے کی صورت میں پانی کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔ اس لیے ایک خطیر رقم کی ضرورت تھی؛

1۔ بھارت نے راوی ' بیاس ' ستلج فروخت کرنے کے عوض کچھ رقم ادا کی۔

2۔ ورلڈ بینک نے راوی ' بیاس ' ستلج فروخت کرنے کے عوض قرضہ مہیا کیا۔

3۔ امریکا ' برطانیہ ' کنیڈا اور جرمنی نے راوی ' بیاس ' ستلج فروخت کرنے کے عوض امدادی رقوم دیں۔

لہذا پنجاب کے تین دریا راوی ' بیاس ' ستلج بھارت کو فروخت کرکے؛

1۔ مغربی پنجاب میں جہلم کے مقام پر منگلا ڈیم بنایا گیا۔

2۔ صوبہ سرحد (موجودہ نام خیبر پختونخوا) میں دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم بنایا گیا۔

3۔ دریائے کابل پر وارسک ڈیم بنایا گیا۔

دریائے جہلم ' دریائے سندھ اور دریائے کابل پر ڈیم بنا کر پانی و بجلی کا انتظام کرنے کے علاوہ زراعت کے فروغ کے لیے ھیڈ ورکس بناکر بیراج بنانے اور نہریں نکالنے کے منصوبے بھی شروع کیے گئے۔

سندھی مفت میں پنجاب کے پانی پر پل رھے ھیں۔

سندھیوں کو سندھی سیاستدانوں نے غلط بتایا ھے۔ سندھی صحافیوں نے غلط پڑھایا ھے۔ سندھی دانشوروں نے غلط سمجھایا ھے کہ؛ دریا کے پانی یا دریا کے نچلے حصے کے لئے بین الاقوامی قانون ھے۔ جبکہ دریا کے پانی یا دریا کے نچلے حصے کے لئے کوئی بین الاقوامی قانون موجود نہیں ھے۔

دریا کے پانی کو اب بھی جس ملک میں دریا ھو اس ملک کے اپنے بنائے گئے قانون کے مطابق کنٹرول کیا جاتا ھے۔ البتہ بین الاقوامی دریاؤں کے پانی کے استعمال پر تجویز کیے گئے قواعد جیسا کہ "ھیلسنکی قواعد" اور اکیسویں صدی میں پانی کی حفاظت پر "ھیگ اعلامیہ" کی تجاویز موجود ھیں۔ لیکن یہ قوائد اور تجاویز ابھی تک قانونی شکل اختیار نہیں کر سکیں ھیں۔

مسئلہ یہ ھے کہ سندھیوں کو؛

1۔ ایک تو "قوائد اور قانون" میں فرق سمجھ نہیں آرھا۔

2۔ دوسرا یہ سمجھ نہیں آرھا کہ؛ تجاویز کوئی معاھدہ نہیں ھوتیں بلکہ باھمی معاھدہ کرنے کے لیے مشورے ھوتے ھیں۔

3۔ تیسرا یہ کہ؛ دریا کا پانی پنجاب کا ھے اور سندھی مفت میں پنجاب کے پانی پر پل رھے ھیں۔ بلکہ پنجاب کا پانی استعمال بھی کرتے ھیں اور پنجابیوں کو گالیاں بھی دیتے ھیں کہ پنجابیوں کی طرف سے سندھیوں کا پانی چوری کیا جاتا ھے۔

عالمی سطح پر 263 بین السرحدی دریا بیسن موجود ھیں۔ ان میں سے بہت سی ریاستوں جن میں بین السرحدی دریائی بیسن ھیں اور نچلے حصے کی ریاستوں کے درمیان ابھی تک اشتراک یا مشترکہ طور پر پانی کے وسائل کا انتظام کرنے کے لئے کسی طرح کے معاھدے نہیں ھیں۔ عالمی سطح پر بین السرحدی پانی کے لیے کسی بین الاقوامی معاھدہ کی پابندی کرنا بھی لازمی نہیں ھے۔

گزشتہ صدی کے دوران مضبوط روایتی "تجاویز" تیار کی گئی تھیں۔ 1911 میں بین الاقوامی قانون کے ادارے نے علاوہ دوسرے کاموں کے بین السرحدی پانی کے استعمال کے سلسلے میں بین الاقوامی ریگولیشن پر "میڈرڈ اعلامیہ" شائع کیا۔ اس اعلامیہ میں دریا کے بہاؤ کی یکطرفہ تبدیلی سے پرھیز کرنے اور مشترکہ واٹر کمیشن بنانے کے لئے سفارش کی گئی تھی۔

1966 میں بین الاقوامی قانون کی ایسوسی ایشن نے بین الاقوامی دریاؤں کے پانی کے استعمال کے لیے "ھیلسنکی قواعد" تشکیل دیے۔ "ھیلسنکی قواعد" کے بنیادی اصولوں کا تعلق مشترکہ ڈیموں کے "منصفانہ استعمال" اور اس عزم کے اظہار سے ھے کہ مشترکہ فریق ریاستیں ایک دوسرے کو “بڑا نقصان” نہیں پہنچائیں گے۔

یہ اصول دوسرے کاموں کے علاوہ اقوام متحدہ کے بین السرحدی پانی کے قانون کے بارے میں کنونشن کا بھی بنیادی اصول ھے۔ جس کو 25 سال سے زیادہ کے عرصے کی تیاری کے بعد 1997 میں جنرل اسمبلی کی طرف سے منظور کیا گیا تھا۔ اس میں مشترکہ ڈیموں کے "منصفانہ اور معقول استعمال" اور مشترکہ فریق ریاستوں کے ایک دوسرے کو "بڑا نقصان” نہ پہنچانے کے وعدے کے اصولوں کی حمایت کے علاوہ کنونشن میں ڈیٹا اور معلومات کے تبادلے ' مشترکہ پانی کے ذخیروں کی حفاظت کرنے اور محفوظ بنانے ' مشترکہ انتظام کا بندوبست کرنے اور تنازعات کا تصفیہ کرنے کا طریقہ کار بھی شامل ھے۔ تاھم یہ اب بھی نافظ العمل نہیں ھے۔ کیونکہ توثیق کے لئے 35 ملکوں کا ضروری کورم ابھی تک دستیاب نہیں ھو سکا۔

کنونشن پر دستخط کرنے سے ریاستوں کی ھچکچاھٹ کی ایک وجہ بنیادی اصولوں میں مخصوص ابہام ھیں۔ جوکہ تضادات کا باعث بن سکتے ھیں۔

1۔ دریا کے اوپر کے حصے کی ریاست پہلے استعمال نہ کیے جانے والے آبی وسائل کے “مناسب حصے” پر اپنے حق کا دعویٰ کر سکتی ھے۔ جوکہ دریا کے نچلے حصے کی ریاست کے لیے معاشی نقصان کا سبب بن سکتا ھے جو طویل وقت سے ان آبی وسائل کا استعمال کر رھی ھو۔

2۔ کس کے حقوق اور کون سے اصول کو ترجیح ھو؟

3۔ ایک فریق کا نقصان کیسے قبول کیا جائے؟

4۔ اھم نقصان کے لیے کیا حد مقرر کی جائے؟

کنونشن میں ان سوالات کے تفصیل کے ساتھ جوابات نہیں دیے گئے۔ بلکہ صرف عام اصولوں اور معیار کے لئے تفصیل فراھم کی گئی اور یہ دانشمندی بھی ھے۔ کیونکہ ان سوالات کے عمومی جوابات دینے کے مقابلے میں خاص طور سے ھر بیسن کے لئے الگ الگ جواب دینا زیادہ مناسب ھے۔

اس سلسلے میں کنونشن مشترکہ اصولوں کا ایک "فریم ورک" فراھم کرتا ھے۔ جس کے مطابق نہ کہ تمام دریائی طاس کے لئے ایک بلیو پرنٹ تشکیل دیا جائے بلکہ علاقائی معاھدوں کو مذاکرات کے ذریعے طے کیا جا ئے۔

سندھیاں دے پنجابیاں نوں بلیک میل کرن دا علاج کی اے؟

سندھیاں دے پنجاب ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج دے نعرے لا لا کے پنجابیاں نوں بلیک میل کرن دا علاج اے وے کہ؛ سندھ جان والا دریا دا پانی ادھا بند کرکے سندھیاں نوں آکھیا جاوے کہ؛ بین الاقوامی عدالت وچ جاکے بین الاقوامی قانون وکھا کے پنجاب کولوں دریا دا پانی لین دا فیصلہ کروا لو تے اپنا "سندھو دیش" بنا لو۔

سندھیاں نے جے بین الاقوامی عدالت وچ جاکے بین الاقوامی قانون وکھا کے پنجاب کولوں دریا دا پانی لین دا فیصلہ نہ کروایا تے فے پنجاب نے سندھ جان والا سارا دریا دا پانی روک لینا اے تے سندھیاں نوں "سندھو دیش" بنا کے دے دینا اے۔

"سندھو دیش" دے نال ای کراچی دے مھاجراں نوں "جناح پور" بنا کے دتا جاسکدا اے۔ نئیں تے سندھو دیش" دے بنن توں بعد کراچی دے مھاجر کراچی نوں آپے ای "جناح پور" بنا لین گے یا فے کراچی وچ رین والے پنجابی ' پٹھان ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی آپس وچ رل مل کے کراچی نوں "کراچی صوبہ" بنا کے سمبھال لین گے۔

سندھ جان والا دریا دا پانی روکن توں بعد سندھیاں نوں "سندھو دیش" بنا کے دین توں بعد سندھ وچ رین والے پنجابیاں نوں پنجاب واپس لے آنا پینا اے۔ ایس لئی جنوبی پنجاب وچ ریہن والے تے "سرائیکی سازش" کرن والے بلوچاں تے عربی نژاداں نوں سندھ وچ گھل کے سندھ دے پنجابیاں دی زمین تے جائیداد دے کے سندھ چوں آن والے پنجابیاں نوں بلوچاں تے عربی نژاداں دی زمین تے جائیداد دے دتی جاووے گی۔

Why Punjabis are annoyed with Sindhis?

Punjabi people are feeling annoyed with Sindhi due to their habit of abusing, blaming, criticizing, defaming, loathing, and victimizing Punjabis and the Punjabi nation, without explaining facts and figures, by creating false stories, just to blackmail the Punjabi people, pressurize the Punjabi nation, and destabilizing Punjab.

In 1901 Nara Canal and in 1932 Sukkur Barrage lands were allotted to Punjabi settlers in Rural Sindh aiming to increase the cultivating area of Sindh. Punjabi’s did the task with manual labor, as machinery was not available at that time. With the passage of time; those Punjabis were assimilated in Sindh by adopting Sindhi language, culture, and traditions, but in the 1970s, at the time of 1st PPP government under the leadership of Zulfiqar Ali Bhutto, Sindhi’s forced the settlers to leave the Sindh by handing over the cultivated lands to Sindhi’s.

The majority of Punjabi landholders and well-established settlers considered it feasible to migrate to Hyderabad, Karachi, and Abroad or Back to Punjab. The remaining Punjabi settlers in Sindh are stuck people due to many reasons, therefore, they were not able to migrate and they are living in Sindh with low profile social and business lifestyle and under harassment.

پاکستانی کی پہلی اور دوسری بڑی قوم پر کس کی بالادستی ھے؟

سندھی بے نظیر بھٹو پہلی بار 1988 میں پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ھوئیں لیکن 1990 میں پاکستان کے پٹھان صدر غلام اسحاق خان نے سندھی بے نظیر بھٹو کی حکومت برخاست کردی۔ اس وقت پاکستان کی فوج کا سربراہ مھاجر جنرل اسلم بیگ تھا۔ سندھی بے نظیر بھٹو کی حکومت برخاست ھونے کے بعد پنجابی نواز شریف پہلی بار 1990 میں پاکستان کا وزیر اعظم منتخب ھوا لیکن 1993 میں پاکستان کے پٹھان صدر غلام اسحاق خان نے پنجابی نواز شریف کی حکومت برخاست کردی۔ اس وقت پاکستان کی فوج کا سربراہ کاکڑ پٹھان جنرل عبدالوحید تھا۔

سندھی بے نظیر بھٹو دوسری بار 1993 میں پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ھوئیں لیکن 1997 میں پاکستان کے بلوچ صدر فاروق لغاری نے سندھی بے نظیر بھٹو کی حکومت برخاست کردی۔ اس وقت پاکستان کی فوج کا سربراہ ککے زئی پٹھان جنرل جہانگیر کرامت تھا۔ سندھی بے نظیر بھٹو کی حکومت برخاست ھونے کے بعد پنجابی نواز شریف دوسری بار 1997 میں پاکستان کا وزیر اعظم منتخب ھوا لیکن 1999 میں پاکستان کی فوج کے سربراہ مھاجر جنرل پرویز مشرف نے پنجابی نواز شریف کی حکومت برخاست کرکے خود پاکستان کی حکومت سمبھال لی جو 2008 تک رھی۔

مھاجر جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ حکومت کے دور میں سندھی بے نظیر بھٹو اور پنجابی نواز شریف کو پاکستان سے باھر رھنا پڑا۔ 2007 میں عام انتخابات کا اعلان ھونے کی وجہ سے سندھی بے نظیر بھٹو نے مھاجر جنرل پرویز مشرف کی خواھش کے برعکس پاکستان پہنچ کر انتخابی مہہم شروع کردی تو پاکستان کے آمر حکمراں مھاجر جنرل پرویز مشرف اور سندھی بے نظیر بھٹو کے شوھر بلوچ آصف زرداری نے سندھی بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں قتل کر وا دیا۔

پاکستان کی سب سے بڑی قوم پنجابی ھے اور دوسری بڑی قوم سندھی ھے۔ لیکن اس وقت بھی پاکستان کا صدر ھندوستانی مھاجر ھے۔ پاکستان کا وزیر اعظم پٹھان ھے۔ پاکستان کی سینٹ کا چیئرمین بلوچ ھے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کا اسپیکر پٹھان ھے۔ پاکستان کی سینٹ کا ڈپٹی چیئرمین ھندوستانی مھاجر ھے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر پٹھان ھے۔ حتی کہ پنجاب کا وزیر اعلی تک بلوچ ھے۔

ھندوستانی مھاجر ' پٹھان اور بلوچ پھر بھی پنجابیوں کو ذلیل و خوار کرنے سے باز نہیں آتے۔ ھر وقت پنجاب ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج کی رٹ لگائے رکھتے ھیں اور ڈھنڈھورا پیٹتے رھتے ھیں کہ؛ پاکستان پر پنجابیوں کی حکمرانی ھے۔ پنجاب ان کے وسائل پر پلتا ھے۔ پنجابی ان کو حقوق نہیں دیتے۔ اس پروپیگنڈہ کا پنجابی قوم کی طرف سے جواب نہیں دیا جاتا اس لیے پاکستان کی دوسری قومیں بھی ھندوستانی مھاجر ' پٹھان اور بلوچ کے پروپیگنڈہ کو درست تسلیم کرکے پنجابیوں سے بدظن رھتی ھیں۔

سندھی در اصل سماٹ ھیں۔ پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی ھے۔ جبکہ 40٪ آبادی سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' بونیری ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر کی ھے۔

پاکستان کی 40٪ آبادی میں سے 15٪ آبادی پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر نے جب پاکستان کی سب سے بڑی قوم پنجابی اور دوسری بڑی قوم سندھی پر ھندوستانی مھاجر کی مکاری ' پٹھان کی عیاری ' بلوچ کی بدمعاشی کے ذریعے بالادستی قائم کی ھوئی ھے تو پھر پاکستان کی 40٪ آبادی میں سے براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' بونیری ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی کا کیا حال ھوگا؟

کیا پاکستان کی سب سے بڑی قوم پنجابی ھے اور دوسری بڑی قوم سماٹ کے ھونے کی وجہ سے پاکستان کا صدر ' وزیر اعظم ' سینٹ کا چیئرمین ' قومی اسمبلی کا اسپیکر ' سینٹ کا ڈپٹی چیئرمین ' قومی اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر ' پنجاب کا وزیر اعلی ' سندھ کا وزیر اعلیٰ پنجابی اور سماٹ نہیں ھونے چاھیئں؟

کیا پاکستان کی سب سے بڑی قوم پنجابی ھے اور دوسری بڑی قوم سماٹ کو پاکستان کی صنعت ' تجارت ' ذراٰعت ' ھنرمندی کے پیشوں ' سیاست ' صحافت ' سول سروسز ' ملٹری سروسز کے شعبوں اور بڑے بڑے شھروں میں چھایا ھوا نظر نہیں آنا چاھیے؟

پاکستان کی سب سے بڑی قوم پنجابی ھے اور دوسری بڑی قوم سماٹ جب ھندوستانی مھاجر کی مکاری ' پٹھان کی عیاری ' بلوچ کی بدمعاشی کی سے نجات حاصل نہیں کر پا رھی تو پھر براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' بونیری ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی کس طرح ھندوستانی مھاجروں ' پٹھانوں اور بلوچوں کے تسلط سے نجات حاصل کر سکیں گے؟

پاکستان کی سب سے بڑی قوم پنجابی ھے اور دوسری بڑی قوم سماٹ میں سیاسی شعور پیدا نہ ھونے تک پاکستان میں سماجی و سیاسی استحکام اور انتظامی و اقتصادی بہتری نہیں آنی۔ کیونکہ؛

1۔ نہ ھندوستانی مھاجروں ' پٹھانوں اور بلوچوں کی بالادستی اور بلیک میلنگ سے پنجابی اور سماٹ کو نجات حاصل ھونی ھے۔

2۔ نہ براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' بونیری ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی کو ھندوستانی مھاجروں ' پٹھانوں اور بلوچوں کے ظلم اور جبر سے نجات ملنی ھے۔