Tuesday 22 September 2020

لیاقت علی خان کی وجہ سے پاکستان نے کشمیر کھو دیا۔

پاکستان میں "ولین" کو "ھیرو" کی شکل دے کر تاریخ کو مسخ کیا گیا۔ لیاقت علی خان نے ھندوستان سے بھاگ کر پاکستان آنے کے بعد جلسہ عام میں اپنے ھاتھ کا مکا بناکر دکھایا تاکہ عوام باور کرسکے کہ پاکستان کو مضبوط کرنے کے لیے اس کے ارادے بڑے بلند ھیں۔ لیاقت علی خان کے بارے میں ایسا خاکہ بنا دیا گیا کہ اس کے کیے گئے فیصلے کے بارے میں سوال کرنے کی پاکستان میں کسی کو جسارت نہ رھی۔ اس کی ایک مثال یہ ھے کہ لیاقت علی خان نے سردار شوکت حیات خان کو کہا کہ؛ سردار صاحب !!! کیا میں پاگل ھوں جو حیدرآباد دکن کو جو کہ پنجاب سے کہیں بڑا ھے "کشمیر کی پتھریلی پہاڑیوں" کی خاطر چھوڑ دوں؟

ھم نے پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی نااھل قیادت ' بھارت کی کھلم کھلا جارحیت اور پاکستان کی فوج کے انگریز کمانڈر انچیف کی جانب سے کشمیر میں بھارتی جارحیت کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے پاکستان کے گورنر جنرل محمد علی جناح کے احکامات کی تعمیل کرنے سے انکار کی وجہ سے کشمیر کھو دیا۔ جبکہ لیاقت علی خان کی خواھش کے باوجود حیدرآباد دکن اور جوناگڑھ کو حاصل کرنے میں بھی پاکستان ناکام رھا۔

مسئلہ یہ تھا کہ مسلم لیگ کی اعلی قیادت کا تعلق ھندوستان سے تھا اور ان کے تعلقات یوپی ' سی پی ' بہار ' حیدرآباد دکن ' جوناگڑھ ' نئی دھلی وغیرہ میں تھے۔ ان کے ذھن پر حیدرآباد دکن اور جوناگڑھ کو پاکستان میں شامل کرنے کی دھن سوار تھی۔ انہیں پنجاب اور کشمیر سے دلچسپی نہیں تھی۔ نہ پنجاب کی زرعی معیشت کا احساس تھا۔ نہ یہ خیال تھا کہ؛ اگر کشمیر پر بھارت کا قبضہ ھوگیا تو پاکستان کو کیا اسٹریٹجک خطرات درپیش آئیں گے؟

بھارت کا پہلا نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل حیدرآباد دکن کے بدلے کشمیر پاکستان کو دینے کا خواھشمند تھا۔ بھارت کا آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن اکتوبر 1947 میں ٹھیک اسی دن سردار ولبھ بھائی پٹیل کی پیش کش لے کر پاکستان پہنچا جب بھارتی فوج پاکستان سے کشمیر میں گھسنے والے قبائلیوں کے لشکر کو پیچھے ھٹاتے ھوئے سری نگر پہنچ کر کنٹرول سمبھال چکی تھی۔

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم ' اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر لیاقت علی خان نے "جو نہ تو پاکستان کی تاریخ کو سمجھتا تھا اور نہ ھی جغرافیے کو سمجھتا تھا" لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی طرف سے پہنچائی جانے والی سردار ولبھ بھائی پٹیل کی پیش کش کو ٹھکرا دیا اور حیدرآباد دکن لینے پر زور دیا۔ لیاقت علی خان نے اپنا دل حیدرآباد دکن پر لگایا ھوا تھا اور "کشمیر کی پتھریلی پہاڑیوں" سے اسے دلچسپی نہیں تھی۔ جبکہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کا موفق تھا کہ؛ کشمیر پر پاکستان کا حق بنتا ھے لیکن حیدرآباد دکن پر حق نہیں بنتا۔

کانگریس کے سابق وزیر اور ممتاز کشمیری سیاستدان سیف الدین سوز نے چونکا دینے والا دعوی کیا ھے کہ؛ “پہلے دن سے ھی سردار پٹیل کا اصرار تھا کہ؛ کشمیر پاکستان میں جانا چاھیے۔ پارٹیشن کونسل میں انہوں نے لیاقت علی خان کو کشمیر لینے اور حیدرآباد دکن چھوڑنے پر راضی کرنے کی پوری کوشش کی"۔ سوز نے کہا کہ؛ ایک بیٹھک ھوئی تھی۔ چوھدری محمد علی اور ھمارا ریڈی وھاں تھا۔ سردار پٹیل نے لیاقت علی خان سے کہا کہ؛ حیدرآباد دکن کے بارے میں بات ھی نہ کریں۔ کیونکہ وہ پاکستان کے ساتھ جڑا ھوا نہیں ھے۔ آپ حیدرآباد دکن کو ھمارے پاس رھنے دیں اور کشمیر لے لیں۔

سوز نے کہا کہ؛ "میں آپ کو ایک بہت ھی دلچسپ کہانی سناتا ھوں۔ جب ھماری فوج سری نگر میں داخل ھوئی۔ اسی دن سہ پہر میں ماؤنٹ بیٹن لاھور گیا۔ گورنر جنرل پاکستان محمد علی جناح ' وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان اور پاکستان کے چار وزراء کے ساتھ عشائیہ تھا۔ ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ؛ میں بھارت کی طاقتور ترین شخصیت سردار پٹیل کی طرف سے پیغام لایا ھوں۔ کشمیر لے لو اور حیدرآباد دکن کو چھوڑ دو۔ وہ پاکستان کے ساتھ جڑا ھوا نہیں ھے۔

سردار شوکت حیات خان نے اپنی کتاب The Nation That Lost Its Soul میں لکھا ھے کہ؛ ایک عشائیہ کے موقع پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پٹیل کا پیغام پہنچایا تھا۔ "پٹیل نے کہا تھا کہ؛ پاکستان کشمیر لے سکتا ھے اور حیدرآباد دکن دے سکتا ھے۔ جس کی اکثریت ھندو آبادی کی ھے اور وہ سمندر یا زمین کے ذریعے پاکستان کے قریب بھی نہیں ھے۔"

سردار شوکت حیات خان نے لکھا ھے کہ؛ یہ پیغام پہنچانے کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن لاھور گورنمنٹ ھاؤس میں سونے کے لیے چلے گئے۔ کشمیر آپریشن کا مجموعی انچارج ھونے کی وجہ سے میں لیاقت علی خان کے پاس گیا۔ میں نے اس کو مشورہ دیا کہ چونکہ بھارتی فوج کشمیر میں بھرپور طاقت کے ساتھ داخل ھوچکی ھے اور ھم قبائلی مجاھدوں یا اپنی ناکافی مسلح افواج کے ساتھ کشمیر کا الحاق کرنے میں کامیاب نہیں ھوسکیں گے۔ لہذا ھمیں پٹیل کی تجویز کو قبول کرنے میں جلدی کرنی چاھیے۔

لیاقت علی خان میری طرف مڑے اور کہا کہ؛ سردار صاحب !!! کیا میں پاگل ھوں جو حیدرآباد دکن کو جو کہ پنجاب سے کہیں بڑا ھے "کشمیر کی پتھریلی پہاڑیوں" کی خاطر چھوڑ دوں؟ میں وزیر اعظم کے رد عمل اور ھمارے جغرافیے کے بارے میں اس کی لاعلمی اور اس کے دانشمندی سے عاری ھونے پر حیران رہ گیا۔

میں نے سوچا کہ؛ وہ احمقوں کی جنت میں جی رھا ھے اور پاکستان کے لیے کشمیر کی اھمیت کو نہیں سمجھتا ھے۔ جبکہ حیدرآباد حاصل کرنے کی امید کر رھا ھے۔ جو کہ صرف سوچنے کی حد تک اچھی بات اور بہترین خواھش ھے۔ یہ پاکستان کے ساتھ کہیں سے بھی جڑا ھوا نہیں ھے۔ لہذا احتجاج کے طور پر میں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ جو کہ میرے پاس کشمیر آپریشن کے مجموعی انچارج کے طور پر تھا۔

سردار شوکت حیات خان نے اپنی کتاب میں لکھا ھے کہ؛ "لیاقت علی خان نہ تو تاریخ کو سمجھتا تھا۔ نہ جغرافیہ کو"۔ اس لیے اس نے پیش کش کو قبول نہیں کیا۔ سردار پٹیل کشمیر کو ایک پلیٹ میں رکھ کر دے رھا تھا۔ لیکن جذباتی وجوھات اور علم کی کمی کی وجہ سے لیاقت علی خان حیدرآباد دکن کو حاصل کرنا چاھتا تھا۔ جو کہ ایک ھندو اکثریتی علاقہ تھا اور اس کو چاروں طرف سے بھارتی علاقے نے گھیرا ھوا تھا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ھوتا ھے کہ؛ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی حماقت کی وجہ سے کشمیر کو کھویا گیا۔ ھمیں یہ تبادلہ قبول کرنا چاھیے تھا کہ؛ پاکستان کشمیر کی ریاست کو لے لیتا جبکہ بھارت کو حیدرآباد دکن کی ریاست دے دیتا۔ حیدرآباد دکن کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا غیر منطقی عمل تھا۔ جو کہ بھارت کے قلب میں واقع تھا اور ایک ھندو اکثریتی علاقہ تھا۔ صرف حکمران مسلمان تھا۔ پاکستان لیاقت علی خان کی حماقت کو بھگت رھا ھے۔ لیاقت علی خان کو تبادلہ قبول کرنا چاھیے تھا۔ یہ اسی ناکامی کا نتیجہ تھا کہ؛ میجر جنرل اکبر خان راولپنڈی سازش میں شامل ھوا۔ اس کو سخت غصہ تھا کہ لیاقت علی خان کی سیاسی قیادت کی ناکامیوں کی وجہ سے کشمیر کو بہت برے انداز میں کھو دیا گیا ھے۔

کلدیپ نیئر نے اپنی کتاب Beyond the Lines—An Autobiography میں سردار پٹیل کے مستقل نظریہ پر لکھا ھے کہ؛ کشمیر کو پاکستان کا حصہ ھونا چاھیے۔ کلدیپ نیئر لکھتے ھیں کہ؛ "میرا تاثر یہ ھے کہ؛ اگر پاکستان صبر کرتا تو اس کو خود بخود کشمیر مل جاتا۔ بھارت اس پر فتح حاصل نہیں کرسکتا تھا اور نہ ھی ھندو مہاراجہ آبادی کی ساخت کو نظرانداز کرسکتا تھا جوکہ واضح اکثریت کے ساتھ مسلمان تھی۔ اس کے بجائے پاکستان نے بے صبری کرتے ھوئے آزادی کے چند دنوں بعد ھی قبائلیوں کو باقاعدہ فوج کے ھمراہ کشمیر میں بھیج دیا"۔

کلدیپ نیئر لکھتے ھیں کہ؛ “اگرچہ یہ سچ ھے کہ نہرو کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کا خواھشمند تھا لیکن پٹیل اس کے برعکس تھا۔ یہاں تک کہ جب نئی دھلی نے مہاراجہ کی بھارت کے ساتھ الحاق کی درخواست وصول کی۔ تو پٹیل نے کہا تھا کہ؛ "ھمیں کشمیر میں نہیں الجھنا چاھیے۔ ھماری پلیٹ میں پہلے ھی بہت کچھ ھے"۔ پٹیل اپنے اس خیال پر قائم رھا کہ؛ پاکستان کو حیدرآباد کی بات نہیں کرنی چاھیے۔ کشمیر کو پاکستان میں جانا چاھیے۔

چودھری محمد علی نے اپنی کتاب The Emergence of Pakistan میں کشمیر کے بارے میں پٹیل کے تاثرات پر ایک دلچسپ تفصیل پیش کی ھے۔ وہ لکھتے ھیں کہ؛ “پارٹیشن کونسل کے اجلاس میں شرکت کے دوران اگرچہ سردار پٹیل پاکستان کا ایک تلخ دشمن تھا لیکن وہ نہرو سے زیادہ حقیقت پسند تھا۔ دونوں وزرائے اعظم کے مابین ایک بات چیت میں سردار پٹیل اور میں بھی موجود تھے۔ لیاقت علی خان جوناگڑھ اور کشمیر کے حوالے سے بھارت کے موقف کی عدم مطابقت پر برھم تھے کہ؛

اگر جوناگڑھ اپنے مسلم حکمران کے پاکستان سے الحاق کرنے کے باوجود اپنی ھندو اکثریت کی وجہ سے بھارت کا حصہ ھے۔ تو پھر کشمیر اس کی مسلم اکثریت کے ساتھ ھندو حکمران کے بھارت سے الحاق کے مشروط معاھدہ پر دستخط کرنے کی وجہ سے بھارت کا حصہ کیسے ھوسکتا ھے؟

اگر مسلم حکمران کی طرف سے جوناگڑھ کے الحاق کے دستخط کرنے کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ تو پھر کشمیر کے ھندو حکمران کی طرف سے دستخط کیے جانے کی بھی کوئی حیثیت نہیں ھے۔

اگر جوناگڑھ میں لوگوں کی مرضی کو اھمیت حاصل تھی۔ تو پھر اسے کشمیر میں بھی اھمیت حاصل ھونی چاھیے۔

بھارت جوناگڑھ اور کشمیر دونوں پر دعوی نہیں کرسکتا۔

چودھری محمد علی لکھتے ھیں کہ؛ "جب لیاقت علی خان نے یہ متضاد نکات اٹھائے تو پٹیل خود پر قابو نہ رکھ سکے اور پھٹ پڑے"۔ آپ جوناگڑھ کا کشمیر کے ساتھ موازنہ کیوں کرتے ھیں؟ حیدرآباد اور کشمیر کی بات کریں۔ تاکہ ھم کسی معاھدے پر پہنچ سکیں۔ چودھری محمد علی مزید تبصرہ کرتے ھیں کہ؛ اس وقت اور اس کے بعد بھی "پٹیل" کے خیالات یہ تھے کہ؛ لوگوں کی مرضی کے خلاف مسلم اکثریتی علاقوں کو حاصل کرنے کی بھارت کی کوشش بھارت کی طاقت کا نہیں بلکہ کمزوری کا سبب بنے گی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ؛ اگر بھارت اور پاکستان ' کشمیر کو پاکستان اور حیدرآباد کو بھارت میں جانے دینے پر راضی ھوجاتے ھیں تو کشمیر اور حیدرآباد کا مسئلہ پر امن طریقے سے حل ھوسکتا ھے۔ جو کہ بھارت اور پاکستان کے باھمی مفاد میں ھوگا۔

اے جی نورانی ایک معروف اسکالر ھیں۔ جو مسئلہ کشمیر پر کافی معلومات رکھتے ھیں۔ انہوں نے پٹیل کی تجاویز پر لیاقت علی خان کے رویہ کا حوالہ دیا ھے۔ اپنے مضمون A Tale of Two States میں اے جی نورانی لکھتے ھیں کہ؛ "ایک چوتھائی صدی کے بعد 27 نومبر 1972 کو پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے لنڈی کوتل میں ایک قبائلی جرگہ کو بتایا کہ؛ بھارت کے پہلے وزیر داخلہ اور وزیر برائے ریاستی امور سردار پٹیل نے ایک مرحلے پر جوناگڑھ اور حیدرآباد کے بدلے میں پاکستان کو کشمیر دینے کی پیش کش کی تھی۔ لیکن "بدقسمتی سے" پاکستان نے اس پیش کش کو قبول نہیں کیا۔ اس کے نتیجے میں اس نے نہ صرف تینوں ریاستوں بلکہ مشرقی پاکستان کو بھی کھو دیا۔

جہاں تک جناح کی بات ھے تو وہ ایک وکیل تھے۔ انہوں نے جوناگڑھ کے بدلے واضح طور پر کشمیر کے تبادلے کی تجویز پیش کی تھی۔ کیونکہ دونوں ریاستیں متعدد طریقوں سے ایک دوسرے کا عکس تھیں۔

کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی جس کے غیر مسلم حکمران نے اپنی ریاست کا بھارت کے ساتھ الحاق کرلیا تھا۔

جوناگڑھ ایک غیر مسلم اکثریتی ریاست تھی جس کے مسلم حکمران نے اپنی ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرلیا تھا۔

جناح کا استدلال تھا کہ؛ چونکہ جوناگڑھ قانونی طور پر پاکستان کا حصہ بن چکا ھے۔ لہذا پاکستان کا گورنر جنرل ھونے کے ناطے وہ ریاست کے مستقبل کے بارے میں بھارت کے ساتھ بات چیت کرنے کا حق رکھتے ھیں۔

لیکن چونکہ حیدرآباد کے حکمران نے اپنی ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں کیا۔ لہذا اسے ریاست کے مستقبل پر تبادلہ خیال کرنے یا حیدرآباد کے حکمران کو اس کی مرضی کے خلاف اپنی ریاست کا بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کے لیے مجبور کرنے کا اختیار نہیں ھے۔

No comments:

Post a Comment