Tuesday, 22 September 2020

سندھی مفت میں پنجاب کے پانی پر پل رھے ھیں۔

سندھیوں کو سندھی سیاستدانوں نے غلط بتایا ھے۔ سندھی صحافیوں نے غلط پڑھایا ھے۔ سندھی دانشوروں نے غلط سمجھایا ھے کہ؛ دریا کے پانی یا دریا کے نچلے حصے کے لئے بین الاقوامی قانون ھے۔ جبکہ دریا کے پانی یا دریا کے نچلے حصے کے لئے کوئی بین الاقوامی قانون موجود نہیں ھے۔

دریا کے پانی کو اب بھی جس ملک میں دریا ھو اس ملک کے اپنے بنائے گئے قانون کے مطابق کنٹرول کیا جاتا ھے۔ البتہ بین الاقوامی دریاؤں کے پانی کے استعمال پر تجویز کیے گئے قواعد جیسا کہ "ھیلسنکی قواعد" اور اکیسویں صدی میں پانی کی حفاظت پر "ھیگ اعلامیہ" کی تجاویز موجود ھیں۔ لیکن یہ قوائد اور تجاویز ابھی تک قانونی شکل اختیار نہیں کر سکیں ھیں۔

مسئلہ یہ ھے کہ سندھیوں کو؛

1۔ ایک تو "قوائد اور قانون" میں فرق سمجھ نہیں آرھا۔

2۔ دوسرا یہ سمجھ نہیں آرھا کہ؛ تجاویز کوئی معاھدہ نہیں ھوتیں بلکہ باھمی معاھدہ کرنے کے لیے مشورے ھوتے ھیں۔

3۔ تیسرا یہ کہ؛ دریا کا پانی پنجاب کا ھے اور سندھی مفت میں پنجاب کے پانی پر پل رھے ھیں۔ بلکہ پنجاب کا پانی استعمال بھی کرتے ھیں اور پنجابیوں کو گالیاں بھی دیتے ھیں کہ پنجابیوں کی طرف سے سندھیوں کا پانی چوری کیا جاتا ھے۔

عالمی سطح پر 263 بین السرحدی دریا بیسن موجود ھیں۔ ان میں سے بہت سی ریاستوں جن میں بین السرحدی دریائی بیسن ھیں اور نچلے حصے کی ریاستوں کے درمیان ابھی تک اشتراک یا مشترکہ طور پر پانی کے وسائل کا انتظام کرنے کے لئے کسی طرح کے معاھدے نہیں ھیں۔ عالمی سطح پر بین السرحدی پانی کے لیے کسی بین الاقوامی معاھدہ کی پابندی کرنا بھی لازمی نہیں ھے۔

گزشتہ صدی کے دوران مضبوط روایتی "تجاویز" تیار کی گئی تھیں۔ 1911 میں بین الاقوامی قانون کے ادارے نے علاوہ دوسرے کاموں کے بین السرحدی پانی کے استعمال کے سلسلے میں بین الاقوامی ریگولیشن پر "میڈرڈ اعلامیہ" شائع کیا۔ اس اعلامیہ میں دریا کے بہاؤ کی یکطرفہ تبدیلی سے پرھیز کرنے اور مشترکہ واٹر کمیشن بنانے کے لئے سفارش کی گئی تھی۔

1966 میں بین الاقوامی قانون کی ایسوسی ایشن نے بین الاقوامی دریاؤں کے پانی کے استعمال کے لیے "ھیلسنکی قواعد" تشکیل دیے۔ "ھیلسنکی قواعد" کے بنیادی اصولوں کا تعلق مشترکہ ڈیموں کے "منصفانہ استعمال" اور اس عزم کے اظہار سے ھے کہ مشترکہ فریق ریاستیں ایک دوسرے کو “بڑا نقصان” نہیں پہنچائیں گے۔

یہ اصول دوسرے کاموں کے علاوہ اقوام متحدہ کے بین السرحدی پانی کے قانون کے بارے میں کنونشن کا بھی بنیادی اصول ھے۔ جس کو 25 سال سے زیادہ کے عرصے کی تیاری کے بعد 1997 میں جنرل اسمبلی کی طرف سے منظور کیا گیا تھا۔ اس میں مشترکہ ڈیموں کے "منصفانہ اور معقول استعمال" اور مشترکہ فریق ریاستوں کے ایک دوسرے کو "بڑا نقصان” نہ پہنچانے کے وعدے کے اصولوں کی حمایت کے علاوہ کنونشن میں ڈیٹا اور معلومات کے تبادلے ' مشترکہ پانی کے ذخیروں کی حفاظت کرنے اور محفوظ بنانے ' مشترکہ انتظام کا بندوبست کرنے اور تنازعات کا تصفیہ کرنے کا طریقہ کار بھی شامل ھے۔ تاھم یہ اب بھی نافظ العمل نہیں ھے۔ کیونکہ توثیق کے لئے 35 ملکوں کا ضروری کورم ابھی تک دستیاب نہیں ھو سکا۔

کنونشن پر دستخط کرنے سے ریاستوں کی ھچکچاھٹ کی ایک وجہ بنیادی اصولوں میں مخصوص ابہام ھیں۔ جوکہ تضادات کا باعث بن سکتے ھیں۔

1۔ دریا کے اوپر کے حصے کی ریاست پہلے استعمال نہ کیے جانے والے آبی وسائل کے “مناسب حصے” پر اپنے حق کا دعویٰ کر سکتی ھے۔ جوکہ دریا کے نچلے حصے کی ریاست کے لیے معاشی نقصان کا سبب بن سکتا ھے جو طویل وقت سے ان آبی وسائل کا استعمال کر رھی ھو۔

2۔ کس کے حقوق اور کون سے اصول کو ترجیح ھو؟

3۔ ایک فریق کا نقصان کیسے قبول کیا جائے؟

4۔ اھم نقصان کے لیے کیا حد مقرر کی جائے؟

کنونشن میں ان سوالات کے تفصیل کے ساتھ جوابات نہیں دیے گئے۔ بلکہ صرف عام اصولوں اور معیار کے لئے تفصیل فراھم کی گئی اور یہ دانشمندی بھی ھے۔ کیونکہ ان سوالات کے عمومی جوابات دینے کے مقابلے میں خاص طور سے ھر بیسن کے لئے الگ الگ جواب دینا زیادہ مناسب ھے۔

اس سلسلے میں کنونشن مشترکہ اصولوں کا ایک "فریم ورک" فراھم کرتا ھے۔ جس کے مطابق نہ کہ تمام دریائی طاس کے لئے ایک بلیو پرنٹ تشکیل دیا جائے بلکہ علاقائی معاھدوں کو مذاکرات کے ذریعے طے کیا جا ئے۔

No comments:

Post a Comment