Tuesday 22 September 2020

بھارت اور پاکستان کے درمیان ھونے والا "سندھ طاس معاھدہ"۔

برطانوی حکام نے 1909ء میں پنجاب کو برصغیر کے لیے "زرعی علاقہ" بنانے کے لیے "سندھ طاس کا منصوبہ" بنایا؛

1۔ جہلم کو ایک نہر کے ذریعہ چناب سے ملا دیا گیا۔

2۔ پنجند اور معاون دریاؤں پر بہت سے بند اور بیراج باندھے گئے جو سیلاب کے وقت پانی کا ذخیرہ کرلیتے تھے۔

3۔ برٹش انڈیا کی تقسیم سے کچھ عرصہ پہلے کالا باغ کے مقام پر دوسرا بیراج تعمیر کیا گیا۔

4۔ ڈیرہ غازی خان کے نزدیک چشمہ بیراج کی تعمیر کا کام 1953ء میں شروع ھوا۔ جس کی منصوبہ بندی برطانیہ نے کی تھی۔ چشمہ بیراج کی تعمیر 1958ء میں مکمل ھوئی۔

5۔ پنجاب اور سندھ کی سرحد کے نزدیک پنجند اور سکھر کے درمیان گدو کے مقام پر 1962ء میں گدو بیراج کا کام مکمل ھو گیا۔ اس بیراج کی منصوبہ بندی بھی برطانیہ نے کی تھی۔

اس طرح سیلابوں پر کسی حد تک قابوں پایا گیا اور ان میں جمع شدہ پانی کو سردیوں کے خشک موسم میں استعمال کیا جانے لگا۔

برطانیہ کے "سندھ طاس کے منصوبے" میں پنجاب کے علاوہ سندھ کے لیے بھی منصوبے شامل تھے۔ اس لیے؛

1۔ دریائے سندھ پر 1932ء میں سکھر کے مقام پر سندھ کے لیے پہلا بیراج تعمیر کیا گیا۔

2۔ سندھ میں 1955ء میں کوٹری بیراج مکمل ھوا۔ اس سے سندھ کے مشرقی علاقوں میں زراعت کے لیے پانی میسر آیا۔

1947ء تک برطانوی انجینئر "سندھ طاس" کو دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی کا نظام مہیا کرچکے تھے اور دنیا کے سب سے بڑے آبپاشی کے نظام نے کام کرنا شروع کر دیا تھا۔

برطانوی انجینئروں نے جو طریقہ کار اختیار کیا اسے دنیا میں ھر جگہ نہروں کی تعمیر اور ان کو چلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ھے۔

تقریباً پچاس سال تک طاقتور دریاؤں کو قابو میں رکھنے اور لگام ڈالنے کا کام ایک مکمل وحدت کے طور پر انجام دیا جاتا رھا۔ مگر 1947ء میں پنجاب کی تقسیم کے بعد سب کچھ بدل گیا۔

سر سیرل کلف اس کمیشن کا چیئرمین تھا۔ جسے پنجاب تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

سر سیرل کلف نے پنجاب کی تقسیم کے وقت نہروں اور دریاؤں کو کنٹرول کرنے کے نظام کی اھمیت پوری طرح دونوں فریقوں پر واضح کردی اور تجویز پیش کی کہ؛ دونوں ملک ایک معاھدہ کر لیں کہ؛ وہ اس سارے نظام کو ایک اکائی کی طرح چلائیں گے۔

پاکستان اور بھارت کے رھنما ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ انہوں نے یہ تجویز رد کردی۔

قائد اعظم اور لیاقت علی خان شاید جانتے تھے کہ؛ کشمیر کو پاکستان میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے پاکستان کو بھارت کے رحم و کرم پر رھنا پڑے گا۔ جبکہ پنڈت جواھر لال نہرو کا اندازہ تھا کہ؛

1۔ کشمیر میں مسلم اکثریت کے باوجود وھاں کا ھندو راجا بھارت میں شامل ھونا پسند کرے گا۔

2۔ لیاقت علی خان کشمیر کو پاکستان میں شامل کرنے کے بجائے حیدرآباد دکن کو پاکستان میں شامل کرنے کو ترجیج دے گا۔

3۔ کشمیر کے بھارت میں شامل ھونے کی صورت میں دریاؤں پر بھارت کی بالادستی قائم رھے گی۔

پنڈت جواھر لال نہرو کا اندازہ درست ثابت ھوا۔ کیونکہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے بھارت کے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی حیثیت سے پاکستان کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کو حیدرآباد دکن سے دستبردار ھونے اور کشمیر لینے کی پیشکش کی۔

بھارت کا وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن اس پیشکش کو لیکر پاکستان آیا۔ لیکن لیاقت علی خان نے کشمیر لینے کی پیشکش مسترد کردی۔ اس لیے بھارت نے نہ صرف حیدرآباد دکن پر قبضہ کرلیا۔ بلکہ کشمیر کے بیشتر حصے پر بھی بھارت نے قبضہ کرلیا۔

تقسیم کے وقت پنجاب کی 23 مستقل نہروں میں سے 21 پاکستان کے قبضہ میں آگئیں۔ اس لیے ظاھری طور پر پاکستان فائدے میں نظر آرھا تھا۔ لیکن؛

1۔ بھارت کے کشمیر پر قبضہ سے بھارت کو پاکستان کی نہروں کو پانی مہیا کرنے کے نظام پر مکمل بالادستی حاصل ھوگئی۔

2۔ پجند کے پانچوں دریا مغربی پنجاب میں داخل ھونے سے پہلے کشمیر اور مشرقی پنجاب سے بہتے ھوئے آتے تھے۔ جس پر اب بھارت قابض ھوچکا تھا۔

3۔ دریائے سندھ بھی لداخ کے مقام پر بہتا ھے۔ لداخ بھی کشمیر کا ایک حصہ ھے۔ لیکن ھمالیہ کی دور دراز گھاٹیوں میں بہنے کی وجہ سے وھاں اس کا رخ بدلنا ممکن نہیں ھے۔

4۔ دوسرے دریا خاص طور پر راوی اور ستلج مشرقی پنجاب میں سے ھوتے ھوئے مغربی پنجاب میں داخل ھوتے ھیں۔ اس کے علاوہ پانی کی تقسیم کے لیے راوی اور ستلج پر قائم تمام اھم ھیڈ ورکس بھی بھارت کے قبضہ میں آگئے تھے۔

5۔ راوی اور ستلج کے ھیڈورکس پچاس سال سے ان کھیتوں کو پانی پہنچا رھے تھے جو مغربی پنجاب کے علاقے میں تھے۔ لیکن دریا کے اوپر والے حصے کے لیے دریا کے نچلے حصے کو پانی دینے کا بین الاقوامی قانون نہیں ھے۔

6۔ بھارت اس پوزیشن میں آچکا تھا کہ؛ وہ جب چاھتا مغربی پنجاب کو پانی کی سپلائی روک سکتا تھا۔ بھارت نے آزادی کے فوری بعد مغربی پنجاب کا پانی روک لیا۔

7۔ آخر کار رقم کی ادائیگی کے عوض پانی فراھم کرنے کے لیے مارچ 1948ء تک کی مدت کے لیے ایک معاھدے پر دستخط ھوئے۔ جس میں تنازعات کے حل کے لیے ایک کمیٹی کی تجویز بھی شامل تھی۔

8۔ مارچ 1948ء میں جب معاھدے کی مدت ختم ھوئی تو بھارت نے راوی اور ستلج کا پانی روک دیا۔ کسانوں نے گرمیوں کی فصلیں بونی شروع کی ھوئی تھیں۔ بھارت کے راوی اور ستلج کا پانی روکنے کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ پر مشتمل فصلیں مکمل طور پر تباہ ھوگئیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان تکرار جاری تھی۔ پانی کی قیمت اور دریائی پانی وصول کرنے کے اوقات کے حوالے سے تنازعات تھے۔ اس سلسلے میں عارضی بنیادوں پر جو معاھدے ھوئے تھے۔ وہ پاکستان کے لیے غیر تسلی بخش تھے۔ کیونکہ؛

1۔ جب مغربی پنجاب کے علاقوں میں پانی کی سپلائی میں کمی ھوتی تھی تو بھارت اپنے استعمال کے لیے پانی روک لیتا تھا۔

2۔ جب موسمی سیلاب پنجند دریاؤں میں امڈ آتے تو پاکستان کے سالانہ کوٹے میں سے پانی منہا کر لیا جاتا تھا۔ جو مغربی پنجاب کے کسی کام نہیں آتا تھا۔

1951ء میں ورلڈ بینک نے کوشش کی کہ؛ دونوں ممالک "سندھ طاس" نظام کو ایک وحدت کے طور پر چلانے کے لیے آپس میں تعاون کر لیں اور کسی معاھدے پر پہچنے کی کوشش کریں۔ لیکن؛

1۔ بھارت کسی ایسے معاھدے کا خواھش مند نہیں تھا۔ جس کے تحت اس کا دریاؤں پر سے کنڑول ختم ھوجائے۔

2۔ پاکستان کو کسی صورت میں بھارت کی بالادستی اور دریاؤں پر پورا کنڑول منظور نہیں تھا۔

ایک طرف دریاؤں کے بالائی حصوں پر قبضہ کی وجہ سے راوی اور ستلج دریاؤں پر بھارت کی بالادستی قائم تھی اور مغربی پنجاب کو پانی فراھم نہیں ھورھا تھا۔

دوسری طرف بھارت کو اندرونی طور پر بڑھتے ھوئے معاشی اور سیاسی مسائل کا سامنا تھا۔ جبکہ بیرونی سطح پر چین کے دستے ھمالیہ میں اس کی بیرونی چوکیوں پر حملے کر رھے تھے۔

تیسری طرف پاکستان میں پٹھان جنرل ایوب خان کی فوجی آمرانہ حکومت تھی۔ سندھی ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کا وفاقی وزیر بجلی و پانی تھا۔ امریکا و برطانیہ کی حکومتیں ورلڈ بینک کے نمائندوں کے ذریعے پاکستان اور بھارت کے درمیان "سندھ طاس نظام" کے مسئلے کو حل کرانے میں مصروف تھیں۔

لہذا امریکا و برطانیہ کی حکومتیں اور ورلڈ بینک کے نمائندے "سندھ طاس معاھدہ" پر 19 ستمبر 1960 کو کراچی میں دستخط کروانے میں کامیاب ھو گئے؛

1۔ "سندھ طاس معاھدہ" کی تیاری وفاقی وزیر بجلی و پانی سندھی ذوالفقار علی بھٹو نے کی تھی۔

2۔ پاکستان کے صدر اور پٹھان فوجی آمر جنرل ایوب خان اور بھارت کے وزیرِ اعظم پنڈت جواھر لال نہرو نے "سندھ طاس معاھدے" پر دستخط کیے۔

بھارت اور پاکستان نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ھوئے؛

1۔ ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا۔ جو بھارت اور پاکستان کے کمشنروں پر مشتمل تھا۔

2۔ ھائیڈرولوجیکل اور موسمیاتی مراکز کا ایک مربوط نظام قائم کیا گیا۔ جس کی معلومات تک رسائی دونوں ممالک کو حاصل تھی۔

3۔ دریائے سندھ اور پنجند کے دو دریاؤں جہلم اور چناب پر بھارت نے پاکستان کی حاکمیت تسلیم کی اور بھارت نے وعدہ کیا کہ؛ وہ ان کے بہاوَ میں کبھی بھی کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔

4۔ پنجند کے تین مشرقی دریا راوی ' بیاس ' ستلج مکمل طور پر بھارت کے سپرد کر دیے گئے۔ لیکن بھارت نے ایک مقرہ مدت تک پانی کی ایک طے شدہ مقدار پاکستان کو مہیا کرنی تھی۔ تاکہ پاکستان مغربی دریاؤں پر ڈیم اور ھیڈ ورکس تعمیر کرکے زراعت کے لیے پانی کا انتظام کرسکے۔

پاکستان نے مقرہ مدت کے دوران مغربی دریاؤں پر ڈیم اور ھیڈ ورکس تعمیر کرکے زراعت کے لیے پانی کا انتظام کرنا تھا۔ تاکہ مشرقی دریاؤں کے مکمل بند ھو جانے کی صورت میں پانی کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔ اس لیے ایک خطیر رقم کی ضرورت تھی؛

1۔ بھارت نے راوی ' بیاس ' ستلج فروخت کرنے کے عوض کچھ رقم ادا کی۔

2۔ ورلڈ بینک نے راوی ' بیاس ' ستلج فروخت کرنے کے عوض قرضہ مہیا کیا۔

3۔ امریکا ' برطانیہ ' کنیڈا اور جرمنی نے راوی ' بیاس ' ستلج فروخت کرنے کے عوض امدادی رقوم دیں۔

لہذا پنجاب کے تین دریا راوی ' بیاس ' ستلج بھارت کو فروخت کرکے؛

1۔ مغربی پنجاب میں جہلم کے مقام پر منگلا ڈیم بنایا گیا۔

2۔ صوبہ سرحد (موجودہ نام خیبر پختونخوا) میں دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم بنایا گیا۔

3۔ دریائے کابل پر وارسک ڈیم بنایا گیا۔

دریائے جہلم ' دریائے سندھ اور دریائے کابل پر ڈیم بنا کر پانی و بجلی کا انتظام کرنے کے علاوہ زراعت کے فروغ کے لیے ھیڈ ورکس بناکر بیراج بنانے اور نہریں نکالنے کے منصوبے بھی شروع کیے گئے۔

No comments:

Post a Comment