Thursday 2 August 2018

کیا پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے اداروں کی پالیسی میں ترمیم ھوگی؟

کسی بھی ملک اور قوم میں عوام کے معاملات اور اختیارات کا دائرہ اپنے علاقے اور برادری تک محدود رھتا ھے۔ لیکن ملک اور قوم کے معاملات کا انحصار اسٹیبلشمنٹ پر ھوتا ھے۔ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کا دائرہ اختیار قومی ھی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح تک ھوتا ھے۔ آرمی ' عدلیہ ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت اور سفارتکاری کے ادارے مل کر اسٹیبلشمنٹ کہلواتے ھیں۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں پاکستان کے قیام سے لیکر ھی مسئلہ اسٹیبلشمنٹ کے ھندوستانی مھاجر اور پٹھان کا بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ کے پنجابی کا رھا ھے۔ جو کہ اس وقت بہت بڑہ چکا ھے۔ اس لیے ھی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں پنجابی اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اسٹیبلشمنٹ کی تفریق موجود ھے۔ جبکہ پنجابی ' سندھی ' بلوچ ' مھاجر اور پٹھان عوام اپنے علاقے کے معاملات تک محدود اور برادری کے مسائل میں مصروف رھتی ھے۔

پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی ھے۔ لیکن مختلف وجوھات کی بنا پر پاکستان کی آرمی ' عدلیہ ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت اور سفارتکاری کے شعبوں پر پاکستان کے قیام کے ساتھ ھی پٹھانوں اور خاص طور پر ھندوستانی مھاجروں کی بالادستی قائم ھوگئی تھی۔ سندھی اور بلوچ کی نہ تو پاکستان میں آبادی زیادہ ھے اور نہ اب تک ان میں پاکستان کی آرمی ' عدلیہ ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت اور سفارتکاری کے شعبوں میں کارکردگی انجام دینے کی قابلیت اور صلاحیت پیدا ھوسکی ھے اور نہ مستقبل قریب میں ھوتی نظر آرھی ھے۔ اس لیے سندھی اور بلوچ کا نہ تو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں کردار رھا ھے اور نہ مستقبل میں کوئی کردار نظر آتا ھے۔ اس لیے سندھی اور بلوچ صرف اپنے علاقے کے معاملات تک محدود اور برادری کے مسائل میں مصروف رھتے ھیں اور پاکستان کی سطح کے ملکی و قومی معاملات میں خاص عمل دخل نہیں رکھتے۔

جبکہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے اداروں میں پنجابی اس وقت اعلیٰ سطح پر بھی عددی مقدار سے اکثریت حاصل کرچکے ھیں۔ لیکن ھر ادارے کی پالیسی ھوتی ھے۔ جو پہلے سے بنی ھوئی ھوتی ھے۔ اسٹیبلشمنٹ کے اداروں میں اعلیٰ سطح پر اکثریت حاصل کرلینے کے باوجود پنجابیوں میں ابھی اتنا سیاسی شعور نہیں ھے کہ؛ وہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے اداروں کی پاکستان کے قیام سے لیکر ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اسٹیبلشمنٹ کی بنائی جانے والی پالیسی میں ترمیم کرسکیں۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ کے اداروں میں اعلیٰ سطح پر جو پنجابی ھیں انہیں " لکیر کا فقیر " کہہ سکتے ھیں۔ لیکن پاکستان کے قیام کے 70 سال بعد اب پنجابی قوم میں سیاسی شعور آنا شروع ھوگیا ھے اور اس نے قابلیت اور صلاحیت بھی حاصل کرنا شروع کردی ھے۔ جبکہ پاکستان کی آرمی ' عدلیہ ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت اور سفارتکاری کے شعبوں میں اپنے قدم بھی جمانا شروع کردیے ھیں۔ اس لیے پنجابی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کے قیام سے لیکر ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اسٹیبلشمنٹ کی بنائی جانے والی اسٹیبلشمنٹ کے اداروں کی پالیسی میں ترمیم ضرور کرنی ھے۔

پاکستان کے قیام سے لیکر ھی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں ھندوستانی مھاجر اور پٹھان سیاسی طور پر سرگرم رھتے آئے ھیں اور اب بھی سرگرم ھیں۔ جبکہ اسٹیبلشمنٹ کے پنجابی "ڈھگے" بنے رھے۔ لیکن جیسا کہ اب پنجابیوں میں سیاسی شعور آنا شروع ھوگیا ھے اور وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے پنجابی کا سیاسی شعور بھی بڑھے گا۔ جس سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا پنجابی ھوش و حواص میں آئے گا۔ 

ھندوستانی مھاجر اور پٹھان کا مزاج اور مفادات مختلف ھیں جبکہ پنجابی کا مزاج اور مفادات مختلف ھے۔ اس لیے سیاسی شعور آنے کے بعد پنجابی اسٹیبلشمنٹ نے ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اسٹیبلشمنٹ کی بنائی جانے والی اسٹیبلشمنٹ کے اداروں کی پالیسی میں ترمیم کرنا شروع کردینی ھے۔ جس سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ پر ھندوستانی مھاجر اور پٹھان کی بالادستی ختم ھوجائے گی اور پاکستان کے سیاسی ' سماجی ' انتظامی ' معاشی اور اقتصادی حالات درست ھو جائیں گے۔ 

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے اداروں کی پالیسی میں ترمیم سے نہ صرف پنجابی عوام کو بلکہ سندھی اور بلوچ عوام کو بھی فائدہ ھوگا۔ لیکن اس کے بعد ھندوستانی مھاجر اور پٹھان کو صرف اپنے اپنے علاقے کے معاملات تک محدود اور برادری کے مسائل میں ھی مصروف رھتا پڑا کرے گا۔ کیونکہ انکا پاکستان کی سطح کے ملکی و قومی معاملات میں خاص عمل دخل نہیں رھے گا۔ اس لیے ھندوستانی مھاجر اور پٹھان پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے اداروں پر پاکستان کی 60٪ آبادی بنجابی کی بالادستی آسانی کے ساتھ قائم نہیں ھونے دیں گے۔ جسکی وجہ سے پاکستان کی سیاست کا فائنل راؤنڈ اسٹیبلشمنٹ کے اندر کھیلا جائے گا ' جوکہ؛ پنجابی اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اسٹیبلشمنٹ ھوگا۔

No comments:

Post a Comment