پاکستان
وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین پر قائم ھے۔ وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین کی درجہ
بندی وادئ سندھ کی تہذیب کے پنجابی خطے۔ وادئ سندھ کی تہذیب کے سماٹ خطے۔ وادئ
سندھ کی تہذیب کے براھوی خطے۔ وادئ سندھ کی تہذیب کے ھندکو خطے کے طور پر کی
جاسکتی ھے۔
وادئ
سندھ کی تہذیب کے اصل باشندے پنجابی ' سماٹ ' براھوی ' ھندکو ھیں۔ جو پاکستان کی
آبادی کا 85٪ فیصد ھیں۔ جنہیں پاکستان کی 15٪ فیصد آبادی کی وجہ سے الجھن '
پریشانی اور بحران کا سامنا ھے۔ یہ 15٪ فیصد آبادی والے لوگ ھیں؛ 1.
افغانستان سے آنے والے جو اب پٹھان کہلواتے ھیں۔ 2. کردستان سے آنے والے جو
اب بلوچ کہلواتے ھیں۔ 3. ھندوستان سے آنے والے جو اب مھاجر کہلواتے ھیں۔
بلوچستان
کے بلوچ علاقے ‘ سندھ کے سندھی علاقے اور پنجاب کے جنوبی علاقے میں بلوچ ‘
بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے پٹھان علاقے میں پٹھان ‘ سندھ کے مہاجر علاقے میں
مہاجر ‘ مقامی سطح پر اپنی سماجی اور معاشی بالادستی قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ
سماٹ ' براھوئی اور ھندکو قوموں پر اپنا راج قائم رکھنا چاھتے ھیں۔
ان کو اپنے ذاتی مفادات سے اتنی زیادہ غرض ھے کہ پاکستان کے اجتماعی مفادات کو بھی
یہ نہ صرف نظر انداز کر رھے ھیں بلکہ پاکستان دشمن عناصر کی سرپرستی اور تعاون
لینے اور ان کے لیے پَراکْسی پولیٹکس کرنے کو بھی غلط نہیں سمجھتے۔
پاکستان
کی 60 % آبادی پنجابی ھے۔ جسکی وجہ سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی ' تجارت
' صنعت ' صحافت اور سیاست میں بالاتر کردار پنجابیوں کا ھے۔ پنجاب اور پنجابی قوم
پر الزامات لگا کر ' تنقید کرکے ' توھین کرکے ' گالیاں دے کر ' گندے حربوں کے
ذریعے پنجاب اور پنجابی قوم کو بلیک میل کرنے کے لیے پٹھان ‘ بلوچ اور اردو بولنے
والے ھندوستانی مہاجر کا بظاھر ٹارگٹ پنجاب کا وہ پنجابی ھوتا ھے جو اسٹیبلشمنٹ
میں ھو ‘ بیوروکریسی میں ھو ' تجارت میں ھو ' صنعت میں ھو ' صحافت میں ھو اور
سیاست میں ھو لیکن وسطی اور شمالی پنجاب میں رھنے والے پنجابی کو عملی طور پر
پٹھان ‘ بلوچ اور اردو بولنے والے ھندوستانی مہاجر ‘ کوئی نقصان نہیں پونہچا پاتے
اور نہ وسطی اور شمالی پنجاب کے پنجابیوں کے ساتھ ان کا براہِ راست مفادات کا
ٹکراؤ ھے۔ اس لیے سماٹ ' براھوئی اور ھندکو قوموں پر اپنی
بالادستی قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کا اصل نشانہ کراچی ' سندھ
‘ خیبرپختونخواہ ' بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں رھنے والا پنجابی ھی
ھوتا ھے۔
پٹھان
' بلوچ اور مھاجر کی عادت بن چکی ھے کہ ایک تو ھندکو ' براھوئی اور سماٹ پر اپنا
سماجی ' سیاسی اور معاشی تسلط برقرار رکھا جائے۔ دوسرا کراچی ' سندھ
‘ خیبرپختونخواہ ' بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں رھنے والے پنجابی پر
ظلم اور زیادتی کی جائے۔ تیسرا پنجاب اور پنجابی قوم پر الزامات لگا کر ' تنقید
کرکے ' توھین کرکے ' گالیاں دے کر ' گندے حربوں کے ذریعے پنجاب اور پنجابی قوم کو
بلیک میل کیا جائے۔ چوتھا یہ کہ پاکستان کے سماجی اور معاشی استحکام کے خلاف
سازشیں کرکے ذاتی فوائد حاصل کیے جائیں۔ لیکن اس صورتحال میں پنجابی قوم کا رویہ
مفاھمانہ ' معذرت خواھانہ اور لاپرواھی کا رھا ھے۔
پاکستان
کی سب سے بڑی قوم پنجابی ھے۔ پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی ھے۔ پاکستان کی
اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی ' تجارت ' صنعت ' صحافت اور سیاست میں بالاتر کردار
پنجابیوں کا ھے۔ لہذا پنجابی قوم مفاھمانہ ' معذرت خواھانہ اور لاپرواھی کا
رویہ ختم کرے۔ خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ سے ریٹارڈ ھونے والے پنجابی '
بیوروکریسی سے ریٹارڈ ھونے والے پنجابی ' پنجابی تاجر
' پنجابی صنعتکار ' پنجابی صحافی
اور پنجابی سیاستدان اپنا بنیادی فرض اور اخلاقی ذمہ داری ادا
کرنے کے لیے؛
1.
جنوبی پنجاب میں ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی ' ڈیرہ والی پنجابی کو سماجی '
معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط کرکے کردستانی دراندازوں اور قبضہ گیروں کے سماجی '
معاشی اور سیاسی تسلط سے نجات دلوائیں۔ جو اب خود کو بلوچ کہلواتے ھیں۔
2.
خیبر پختونخواہ میں ھندکو قوم کو اور خیبر پختونخواہ میں رھنے والے پنجابیوں کو
سماجی ' معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط کرکے افغانی دراندازوں اور قبضہ گیروں کے
سماجی ' معاشی اور سیاسی تسلط سے نجات دلوائیں۔ جو اب خود کو پٹھان کہلواتے ھیں۔
3.
بلوچستان میں براھوئی قوم کو اور بلوچستان میں رھنے والے پنجابیوں کو سماجی '
معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط کرکے کردستانی دراندازوں اور قبضہ گیروں کے سماجی '
معاشی اور سیاسی تسلط سے نجات دلوائیں۔ جو اب خود کو بلوچ کہلواتے ھیں۔
4.
سندھ میں سماٹ قوم کو اور سندھ میں رھنے والے پنجابیوں کو سماجی ' معاشی اور سیاسی
طور پر مضبوط کرکے دیہی سندھ میں کردستانی دراندازوں اور قبضہ گیروں کے سماجی '
معاشی اور سیاسی تسلط سے نجات دلوائے۔ جو اب خود کو بلوچ کہلواتے ھیں اور شہری
سندھ میں ھندوستانی دراندازوں اور قبضہ گیروں کے سماجی ' معاشی اور سیاسی تسلط سے
نجات دلوائیں۔ جو اب خود کو مھاجر کہلواتے ھیں۔
No comments:
Post a Comment