Friday, 24 May 2019

عمران خان کے کہنے سے کیا ھوتا ھے؟ جنوبی پنجاب تقسیم ھوا تو کراچی صوبہ ضرور بنے گا۔

بلوچ آصف زرداری اور بلاول زرداری کی جدوجہد اور پٹھان عمران خان  کی خواھش کے مطابق 14 مئی 2019 کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں پٹھانوں کی پارٹی پی ٹی آئی اور سندھیوں کی پارٹی پی پی پی نے پنجابیوں کی پارٹی ن لیگ کی مخالفت کے باوجود جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی  قرادا قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بھیجی تھی۔ لیکن پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے مؤرخہ 24 مئی کو کراچی میں کہا کہ؛ ھم سندھ میں ایک اور صوبہ بنانے کے خلاف ھیں۔ جو نیا بلدیاتی نظام لارھے ھیں اس کے بعد نئے صوبے کا سوچا بھی نہیں جائے گا۔ کیا نیا بلدیاتی نظام لانے کے باوجود پنجاب میں نیا صوبہ بنانے کی کوشش کی جائے گی اور سندھ میں نیا صوبہ بنانے کا سوچا بھی نہیں جائے گا؟ عمران خان کے کہنے سے کیا ھوتا ھے؟ پنجاب کی تقسیم کے بعد سندھ میں کراچی صوبہ کا قیام ' خیبر پختونخوا میں ھندکو صوبہ کا قیام ' بلوچستان میں گوادر صوبہ کا قیام بھی ھوجانا ھے۔ اس لیے پنجاب تقسیم ھوا تو کراچی صوبہ ضرور بنے گا۔

جنوبی پنجاب میں آباد بلوچ ' پٹھان اور عربی نزاد پنجاب کو تقسیم کرکے جنوبی پنجاب صوبہ بنانا چاھتے ھیں۔ جبکہ سندھی سیاستدان اور دانشور جنوبی پنجاب کے علاقے کو جنوبی پنجاب میں آباد بلوچ ' پٹھان اور عربی نزاد کا علاقہ قرار دیتے رھتے ھیں اور جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی زور و شور کے ساتھ حمایت کرتے رھتے ھیں۔ جنوبی سندھ میں آباد پنجابی ' پٹھان اور ھندوستانی مھاجر سندھ کو تقسیم کرکے جنوبی سندھ صوبہ بنانا چاھتے ھیں۔ جبکہ پنجابی سیاستدان اور دانشور جنوبی سندھ کے علاقے کو جنوبی سندھ میں آباد پنجابی ' پٹھان اور ھندوستانی مھاجر کا علاقہ قرار دیتے رھتے ھیں اور جنوبی سندھ صوبہ بنانے کی زور و شور کے ساتھ حمایت کرتے رھتے ھیں۔

جنوبی سندھ میں واقع شھر کراچی اقتصادی اور مالی سرگرمیوں کا مرکز ھے اور پاکستان کی معیشت میں 60 فی صد کا حصہ دار ھے۔ یہاں مرکزی اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) ' اسٹاک ایکسچینج ' قومی اور بین الاقوامی کمپنیوں کے ھیڈ آفس موجود ھیں۔ اس کے علاوہ بینک ' مالیاتی ادارے اور جائیداد کی خرید و فروخت کی کمپنیوں کا جال بھی پھیلا ھوا ھے۔ مزید براں بڑے نشریاتی اداروں کے ھیڈ کوارٹر بھی کراچی میں ھیں۔ وفاقی حکومت اعداد و شمار کے مطابق کراچی قومی GDP کا 15 فی صد حصہ مہیا کرتا ھے۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں 42 فی صد اور وفاقی حکومت کا کل 25 فی صد محصول ادا کرتا ھے۔ اس کے علاوہ بڑے بڑے صنعتی زون بھی ھیں جن میں سندھ انڈسٹریل اینڈ ٹریڈنگ اسٹیٹ (SITE) قابلِ ذکر ھے۔ صنعتی زون کی مصنوعات میں ٹیکسٹائل ' کیمیکل ' اسٹیل اور مشینری سے لے کر بے شمار دوسری پیدوار شامل ھے۔ یہ پیشین گوئی بھی کی گئی ھے کہ اگلی دھائی میں کراچی ملک کا مزید بڑا صنعتی اور کمرشل سینٹر بن جائے گا۔

کراچی دیگر پاکستان سے ھوائی راستے ' سڑکوں اور ریلوے لائن سے جڑا ھوا ھے۔ ملک کی اکلوتی بڑی بندرگاہ ھونے کی وجہ سے کراچی جہاز رانی اور بحری سرگرمیوں کے لیے خاص مقام رکھتا ھے اور خشکی سے محصور افغانستان کے لیے بھی پاکستان کی یہی بندرگاہ کام آتی ھے۔ جو 1200 کلو میٹر لمبی ھائی وے کے ذریعے پشاور پہنچائی جاتی ھے۔ یہیں سے سپلائی بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ کو بھی جاتی ھے۔ گو کہ نیوی کا ھیڈ کواٹر اسلام آباد میں ھے لیکن پاکستانی نیول ڈاک یارڈ کراچی میں ھے اور اس کی تمام مشینری کراچی اور اس کے اردگرد کے سمندر میں ھے۔ اس ڈاک یارڈ نے 1952ء میں اپنے آغاز سے ھی پاکستان نیوی کے جہاز ' آبدوزیں اور دوسرے سمندری جہازوں کی مرمت ' تعمیر اور ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ھے۔

کراچی میں مختلف قوموں کے لوگوں کے مقیم ھونے کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ھے۔ ھندوستانی مہاجرین بڑی تعداد میں (1940-50) کی دھائیوں میں آئے۔ پنجابی اور پٹھان بڑی تعداد میں 1960-80ء کی دھائیوں میں آئے۔ سندھی بڑی تعداد میں 1970-90ء میں آئے اور غیر ملکی لوگ بشمول افغان اور ایرانی بڑی تعداد میں (1980-90ء) کی دھائیوں میں آئے۔ ھندوستانی مہاجرین 1950 کی دھائی میں سب سے بڑی تعداد میں آئے۔ اثر و رسوخ رکھنے والے ھندوستانی مہاجرین نے نقل مکانی کرجانے والے ھندوؤں کی املاک پر قبضہ کر لیا۔ جبکہ غریب ھندوستانی مہاجروں کی بڑی تعداد ساحلی علاقوں کے ساتھ کچی آبادیوں میں بس گئی کیونکہ مقامی حکومت ان کی مدد کر رھی تھی۔ پنجابی اور پٹھان 1960ء کی دھائی کے وسط سے لیکر 1980ء کی دھائی تک آتے رھے۔ کراچی کی جانب سالانہ شرح ھجرت میں آدھی تعداد یعنی تقریباً 350,000 افراد صرف صوبہ سرحد اور پنجاب سے منتقل ھوئے اور مسائل کے باوجود ابھی تک اپنا نسلی تشخص برقرار رکھا ھوا ھے۔

جب 1960 میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد منتقل ھوا تو کراچی کو سندھ صوبے میں شامل کردیا گیا اور سندھ کا دارالحکومت کراچی رھا۔ سندھی قوم پرست رھنما ممتاز بھٹو کی جانب سے کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر روز گار' سرکاری زبان کے طور پر سندھی کا ابھرنا اور سندھ سے پاکستان پیپلز پارٹی کا عروج کچھ ایسے عوامل تھے کہ جس سے درمیانی طبقے کے سندھی کسانوں اور مزارعوں کو ''بڑے شہر'' میں پرکشش عہدوں پر متمکن ہونے کی ترغیب ملی تو اندرون سندھ سے بڑی تعداد میں سندھی 1970-90ء میں کراچی آئے۔ جب روس نے 1979ء میں افغانستان میں مداخلت کی تو افغانستان سے سیاسی پناہ گزینوں کا ریلا کراچی آیا۔ یہ لوگ اقتصادی لحاظ سے کراچی میں اقتصادی مواقع کی تلاش میں تھے۔ حالانکہ قانونی طور پر اقوام متحدہ کے بلوچستان اور صوبہ سرحد کے کیمپوں سے انہیں باھر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ علاوہ ازیں عراق کے کُرد ' ایران کے بہائی ' سری لنکا کے تامل اور اقتصادی مہاجرین کی رجسٹرڈ تعداد 1.5 ملین سے تجاویز کر گئی ھے۔

پاکستان کی 2017 کی آدم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی 14،910،352 ھے۔ اردو بولنے والے 5،278،245 ھیں۔ پشتو بولنے والے 2،296،194 ھیں۔ پنجابی بولنے والے 2،236،563 ھیں۔ سندھی بولنے والے 1،491،044 ھیں۔ بلوچی بولنے والے 760،428 ھیں۔ سرائیکی بولنے والے 536،773 ھیں۔ ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی سمیت دیگر زبانیں بولنے والے 2،311،105 ھیں۔

کراچی میں پنجابی معاشی طور مستحکم ھیں۔ کراچی اسٹاک ایکسچینج کے ریکارڈ کے مطابق کراچی اسٹاک ایکسچینج میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری پنجابی کی ھے۔ جسکی وجہ سے کراچی کی معیشت مظبوط ھے۔ کراچی کی صنعت ' تجارت ' ٹرانسپورٹ اور ھنرمندی کے شعبوں میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری پنجابی کی ھے۔ جسکی وجہ سے کراچی کی معیشت چلتی ھے۔ اس سے نہ صرف کراچی کے سیاست ' صحافت ' سرکاری اور پرائیویٹ نوکریاں کرنے والے ھندوستانی مھاجر کو رزگار ملتا ھے۔ بلکہ دیہی سندھ سے جانے والے سندھی کو بلوچستان سے جانے والے بلوچ کو اور خیبر پختونخواہ سے جانے والے پٹھان کو بھی روزگار ملتا ھے۔

پاک فوج کی ایک کور ' پاک بحریہ کے اھم اڈوں ' پاک فضائیہ کے اھم اڈوں ' وفاقی اداروں کے دفاتر اور پرائیویٹ کمپنیوں کے ھیڈ آفسوں میں پنجابیوں کی اکثریت کی وجہ سے کراچی میں پنجابی کی انتظامی اھمیت بھی ھے۔ سیاسی اھمیت بھی ھے۔ سماجی اھمیت بھی ھے۔ کراچی کے بہترین رھائشی علاقوں کلفٹن ' ڈیفینس اور کینٹ کے علاقوں میں رھنے والوں کی اکثریت پنجابیوں کی ھے۔ جبکہ سندھی اور بلوچ زیادہ تر کراچی کے گاؤں ' گوٹھوں پر مشتمل دیہی علاقوں میں رھتے ھیں۔ پٹھان زیادہ تر کراچی کی کچی آبادیوں کے کچے پکے اور ناجائز تعمیر کردہ مکانوں میں رھتے ھیں۔ ھندوستانی مھاجر زیادہ تر ضلع وسطی اور ضلع کورنگی کی گنجان آبادیوں کے چھوٹے چھوٹے مکانوں میں رھتے ھیں۔

کراچی کی صورتحال یہ ھے کہ کراچی میں سندھی بولنے والے صرف 1،491،044 ھیں۔ اس لیے دیہی سندھ کے سندھیوں کے لیے کراچی میں بیٹھ کر سندھ کی حکومت چلانا اس وقت تک ممکن نہیں ھے جب تک ھندوستانی مھاجر کو کراچی کی مکمل حکمرانی اور سندھ کی حکومت میں آدھا حصہ نہ دیں۔ اس صورت میں پنجابی اشرافیہ کی حمایت کی تو ضرورت نہیں لیکن وفاقی اداروں کا تعاون پھر بھی انتہائی ضروری ھے یا پھر دیہی سندھ کے سندھیوں کے لیے ضروری ھے کہ کراچی میں بیٹھ کر سندھ کی حکومت چلانے کے لیے پنجابی اشرافیہ دیہی سندھ کے سندھیوں کی حمایت کرے اور وفاقی ادارے تعاون کریں۔

کراچی کے 5،278،245 اردو 2،296،194 پشتو 2،236،563 پنجابی 2،311،105 ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی و دیگر جو کہ کراچی کی آبادی کا 12,122,107 بنتے ھیں۔ انکے کراچی کو الگ صوبہ بنانے کے مطالبے کو دیہی سندھ کے سندھی صرف اس بنیاد پر مسترد نہیں کرسکتے کہ کراچی کی  14،910،352 آبادی میں 1،491،044 سندھی بولنے والے رھتے ھیں۔ اس لیے کراچی کو الگ صوبہ بنانے کے مطالبے میں آئینی اور قانونی تقاضوں کے مطابق کراچی کو الگ صوبہ بنانے میں دقت کے باوجود بھی کراچی کو الگ صوبہ بننے سے روکنا دیہی سندھ کے سندھیوں کے لیے عملی طور پر ناممکن رھنا ھے۔ کیونکہ صرف 1،491،044 سندھیوں کے تعاون کی بنیاد پر دیہی سندھ کے سندھیوں کے لیے سندھ کی حکومت چلانا ناممکن ھوجانا ھے۔

کراچی کو الگ صوبہ بنانے کے بعد کراچی کے پنجابی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی اور پٹھان وفاقی اداروں کے تعاون کی وجہ سے آسانی کے ساتھ کراچی صوبہ پر حکومت کر سکتے ھیں۔ بلکہ ایسی صورت میں کراچی میں رھنے والے 1،491،044 سندھی 760،428 بلوچی 536،773 سرائیکی بھی پبجابی اشرافیہ کے ساتھ مفاھمت کرنے کو ترجیح دیں گے جبکہ ھندوستانی مھاجروں کی بڑی تعداد بھی اپنی اصلاح کرنا شروع کرسکتی ھے۔ جبکہ سندھ کو تقسیم کرکے کراچی کو صوبہ بنانے کے لیے صرف سندھ رینجرس کو سیاسی جلسوں اور جلوسوں میں مداخلت سے دور رکھنے کی ضرورت ھے۔ 

سندھ رینجرس کا کام سندھ میں دھشتگردی کرنے والوں اور سندھ میں ملک دشمن سرگرمیاں کرنے والوں کے خلاف قانونی اقدامات کرنا ھے۔ اس لیے کراچی میں سندھ رینجرس کو اگر سیاسی جلسوں اور جلوسوں میں مداخلت سے دور رکھا جائے تو کیا وزیرِ اعلیٰ سمیت سندھی وزیر ' سندھی مشیر ' سندھی سیکریٹری ' سندھی سرکاری ملازمیں سندھ سیکٹریٹ چھوڑ کر دیہی سندھ اپنے اپنے گاؤں نہیں بھاگ جائیں گے اور کراچی کے وفاقی اداروں اور پرائیویٹ اداروں میں ملازمت کرنے والے دیہی سندھ کے سندھیوں کو کراچی میں ملازمت کرنے کی اجازت دینے کے عوض خود ھی کراچی کو صوبہ بنانے کی پیش کش نہیں کردیں گے؟

کراچی صوبہ بننے کے بعد دیہی سندھ سے تعلق رکھنے والے وزیروں اور مشیروں کے علاوہ سندھ کی صوبائی حکومت کے افسروں اور ملازموں کو بھی کراچی صوبہ چھوڑ کر اپنے صوبہ سندھ میں جانا پڑے گا۔ سندھیوں کا کراچی پر قبضہ ختم ھونے کے بعد کراچی صوبہ میں وزیر اور مشیر ھی نہیں بلکہ سرکاری افسر اور ملازم بھی پنجابی ' پٹھان ' مھاجر نظر آئیں گے جو کراچی صوبہ کو پاکستان کا سب سے زیادہ ترقی والا صوبہ بنادیں گے۔ کراچی منی پاکستان بنے گا۔ کراچی پھر سے روشنیوں کا شھر بنے گا۔ کراچی پھر سے پنجابی ' پٹھان ' مھاجر کے آپس میں پیار و محبت والا شھر بنے گا۔ کراچی کا وزیرِ اعلیٰ کراچی کا پنجابی ھوگا۔ کراچی کا گورنر کراچی کا پٹھان ھوگا۔ کراچی کا میئر کراچی کا مھاجر ھوگا۔ جبکہ کراچی کا ڈپٹی میئر کراچی کے سندھی یا بلوچ میں سے کسی کو بنایا جاسکتا ھے۔

No comments:

Post a Comment