Monday, 20 May 2019

پنجابی کلچر اور لینگویج سے لیکر پنجابی نیشنلسٹ موومنٹ تک کی جدوجہد

پاکستان کے قائم ھونے کے بعد پاکستان کی سب سے بڑی آبادی بنگالی ھونی تھی اور دوسری بڑی آبادی پنجابی ھونی تھی۔ اس لیے پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان کا گورنر جنرل بنگالی کو بننا چاھیے تھا جبکہ وزیرِ اعظم پنجابی ھونا چاھیے تھا۔ لیکن 15 اگست کو پاکستان کے قیام کے اعلان سے ایک دن پہلے ھی ٹھٹھہ کے علاقے جھرک میں پیدا ھونے والے سندھی خوجے جناح پونجا کے بیٹے محمد علی نے ' جسے قائد اعظم بھی کہا جاتا تھا ' 14 اگست کو پاکستان کے گورنر جنرل کا حلف اٹھا لیا اور اترپردیش سے کراچی پہنچ جانے والے اردو بولنے والے ھندوستانی لیاقت علی خاں کو پاکستان کا وزیرِ اعظم بنا کر سندھ میں پاکستان کے قیام کا جشن منانا شروع کردیا۔ جبکہ پنجاب میں پنجابی پنجاب کی تقسیم کا اعلان ھو جانے کی وجہ سے ایک دوسرے کی لاشیں گرا رھے تھے اور پنجاب کے علاقوں کی بھارت اور پاکستان میں بندر باٹ کا انتظار کر رھے تھے۔

17 اگست 1947 کو پنجاب کی تقسیم ھوجانے کی وجہ سے مسلمان پنجابیوں ' ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں کو ' جو سارے پنجاب میں آپس میں مل جل کر رھتے تھے ' پنجاب کے مسلم اور غیر مسلم قرار دیے جانے والے علاقوں میں نقل مکانی شروع کرنا پڑی۔ جسکی وجہ سے مزید مار دھاڑ ' لوٹ مار اور قتل و غارتگری کا سلسلہ شروع ھوا اور اگست سے لیکر دسمبر 1947 تک 20 لاکھ پنجابی مارے گئے۔ جو کہ تاریخ میں دنیا کی مختصر وقت میں سب سے بڑی قتل و غارتگری قرار دی جاتی ھے۔ جبکہ 2 کروڑ پنجابیوں نے نقل مکانی کی۔ جو کہ تاریخ میں دنیا کی مختصر وقت میں سب سے بڑی نقل مکانی قرار دی جاتی ھے۔ سندھی محمد علی جناح نے پاکستان بنانے کے لیے پنجاب تقسیم کروا دیا۔ 20 لاکھ پنجابی مروا دیے۔ 2 کروڑ پنجابی بے گھر کروا دیے۔ پنجاب میں پنجابیوں کی سیاسی پارٹی یونینسٹ کو ھرانے اور آل انڈیا مسلم لیگ کو 1946 کا الیکشن جتوانے کے لیے سندھی محمد علی جناح نے پنجاب میں مذھبی نفرت کی جو آگ لگائی ' پنجابی قوم اب تک اس میں جل رھی ھے۔

پاکستان کے قائم ھونے کے بعد پاکستان کی سب سے بڑی آبادی بنگالی تھی اور دوسری بڑی آبادی پنجابی تھی۔ اس لیے پاکستان کے قیام کے بعد مشرقی پاکستان کی سرکاری زبان تو بنگالی ھونی چاھیے تھی جبکہ مغربی پاکستان کی نہ سہی تو کم از کم پنجاب کی سرکاری زبان پنجابی ھونی چاھیے تھی۔ لیکن پاکستان کے سندھی گورنر جنرل قائدِ اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی عوام سے انکی اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے اور دفتری امور انجام دینے حتکہ پنجاب اسمبلی میں اپنی زبان میں بات کرنے کا حق بھی چھین لیا اور 21 مارچ 1948 کو رمنا ریس کورس ڈھاکہ میں سندھی محمد علی جناح نے انگریزی زبان میں تقریر کرتے ھوئے مشرقی پاکستان کی اکثریتی زبان بولنے والے بنگالیوں سے کہا کہ پاکستان کی سرکاری اور تعلیمی زبان اردو اور صرف اردو ھوگی اور اس بات کی مخالفت کرنے والے ملک دشمن تصور ھوں گے۔ اس لیے پاکستان کی سب سے بڑی آبادی بنگالی اور دوسری بڑی آبادی پنجابی کے لیے پاکستان میں اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے ' دفتری امور انجام دینے اور اپنی اپنی صوبائی اسمبلی میں اپنی اپنی زبان میں بات کرنے کے بجائے اردو کو استعمال کرنا قانونی حکم بن گیا جس کی خلاف ورزی جرم قرار پائی۔

پاکستان کے اردو بولنے والے ھندوستانی وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے مزید اقدامات کرتے ھوئے گنگا جمنا ثقافت کی شیروانی اور پاجامہ کو پاکستان کا قومی لباس قرار دیکر مشرقی پاکستان کی ثقافت اور مغربی پاکستان کی اصل قوموں کی وادیء سندھ کی ثقافت کی جگہ اتر پردیش کی ثقافت کو فروغ دیکر پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے سماجی گرفت مظبوط کرنے کی راہ بھی ھموار کردی۔ جبکہ پاکستان کا دارالحکومت کراچی میں ھونے لیکن مغربی پاکستان کے خطے کی سب سے بڑی قوم پنجابی کے ھونے کی وجہ سے پنجابی قوم کو حکومتی طور بھی بے بس اور اپنے تسلط میں رکھنے کے لیے 25 جنوری 1949 کو پنجاب کی منتخب اسمبلی کو تحلیل کرکے پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کے بعد ژوب میں پیدا ھونے والے ' پشاور میں رھائش پذیر اور علیگڑہ کے پڑھے ھوئے ایک کاکڑ پٹھان سردار عبدالرب نشتر کو پنجاب کا گورنر نامزد کرکے پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے سیاسی گرفت مظبوط کرنے کی راہ بھی ھموار کردی۔

پاکستان پر حکومتی گرفت ھونے کی وجہ سے پاکستان کی سب سے بڑی لسانی آبادی بنگالی اور پاکستان کی دوسری بڑی لسانی آبادی پنجابی پر اپنی سماجی اور سیاسی گرفت مظبوط کرنے کے بعد پاکستان کے اردو بولنے والے ھندوستانی وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے اتر پردیش میں واقع علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمان مغربی پاکستان لاکر پاکستان کی حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض کروا کر پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے انتظامی گرفت مظبوط کرنے کی راہ ھموار کردی۔ لہٰذا اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی پاکستان میں سماجی ' سیاسی ' انتظامی گرفت مظبوط ھونے کی وجہ سے پاکستان کی حکومت کے اداروں ' پاکستان کی سیاست اور پاکستان کی صحافت پر دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل یوپی ' سی پی کے سرکاری ملازم افسروں اور کلرکوں ' سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت کا غلبہ ھوگیا۔

پنجاب تقسیم ھوجانے اور 20 لاکھ پنجابی مارے جانے جانے جبکہ 2 کروڑ پنجابی بے گھر ھو جانے کی وجہ سے پنجابیوں کے تباہ و برباد ھوجانے ' پاکستان کا گورنر سندھی کے بن جانے ' پاکستان کا وزیرِ اعظم ھندوستانی مھاجر کے بن جانے ' پاکستان کی سرکاری اور تعلیمی زبان اردو ھو جانے اور مخالفت پر ملک دشمن تصور ھونے ' گنگا جمنا ثقافت کی شیروانی اور پاجامہ کو پاکستان کا قومی لباس قرار دے دینے ' پنجاب کی منتخب اسمبلی کو تحلیل کرکے پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کے بعد ایک پٹھان کو پنجاب کا گورنر نامزد کردینے ' علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمان مغربی پاکستان لاکر حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض کروا دینے کے بعد پاکستان میں پنجابیوں کا یہ حال تھا کہ؛ نہ تو پنجابیوں کے مفاد کے برخلاف پنجاب کی تقسیم ' 20 لاکھ پنجابیوں کے مارے جانے اور 2 کروڑ پنجابیوں کے بے گھر ھوجانے کے بارے میں کسی سے بات کرنے کے قابل تھے۔ نہ پاکستان کا گورنر بنگالی کو نہ بنانے اور پاکستان کا وزیرِ اعظم پنجابی کو نہ بنانے کی بات کرنے کے قابل تھے۔ نہ پنجاب کی سرکاری اور تعلیمی زبان پنجابی قرار دینے کی بات کرنے کے قابل تھے۔ نہ گنگا جمنا ثقافت کی شیروانی اور پاجامہ کو پاکستان کا قومی لباس قرار دینے کی مخالفت کرنے کے قابل تھے۔ نہ پنجاب کی منتخب اسمبلی کو تحلیل کرکے پنجاب میں گورنر راج نافذ کرکے پٹھان کو پنجاب کا گورنر نامزد کرنے کی مخالفت کرنے کے قابل تھے۔ نہ علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمان مغربی پاکستان لاکر حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض کروا کر پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی انتظامی گرفت مظبوط کرنے کی مخالفت کرنے کے قابل تھے۔  

پنجابیوں نے پاکستان میں بے بس ' بے کس اور لٹے پٹے ھونے کی وجہ سے 1947 لیکر 1957 تک ذراعت کے شعبوں میں محنت کرکے معاشی استحکام حاصل کرلیا۔ 1957 سے لیکر 1967 تک ھنرمندی کے شعبوں میں محنت کرکے مزید معاشی استحکام حاصل کرلیا۔ 1967 سے لیکر 1977 تک تجارت کے شعبوں میں محنت کرکے مزید معاشی استحکام حاصل کرلیا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ھی پنجاب میں ”پنجابی کلچرل موومنٹ” بھی شروع کردی تھی۔ ”پنجابی کلچرل موومنٹ” کے دور میں پنجابی کلچر کو فروغ دینے کی بات کی جاتی تھی لیکن اردو میں کہا جاتا تھا کہ؛ ھم پاکستانی قوم ھیں اور اردو ھماری قومی زبان ھے۔ ھم پنجابی کلچر کو فروغ دیں گے۔ یہ پنجاب میں پنجابی موومنٹ چلانے والے پنجابیوں کی پہلی پیڑھی کا دور تھا جو 1947 سے لیکر 1977 تک رھا۔ اس دور میں پنجابی سماجی سرگرمیوں میں تو مصروف رھے لیکن پنجابی قوم پرستی کا عنصر نہ ھونے کی وجہ سے قوم پرست سیاست کی سرگرمیاں نہ کرسکے۔ بلکہ پنجابیوں کی سیاست کا محور پنجابی قوم پرستی کے نظریات کے بجائے سماجی سرگرمیوں کی بنیاد پر رھا۔ اس لیے اس دور میں کوئی قابلِ ذکر پنجابی شخصیت بھی ابھر کر پاکستان کی سطح پر سیاسی عمل میں پنجابی قوم کی قیادت نہ کرپائی۔ البتہ اردو زبان میں خدمت انجام دے کر بے شمار پنجابی شاعروں ' ادیبوں ' صحافیوں اور داشوروں نے نمایاں مقام بنایا اور پنجابی ثقافت کو تھیٹر اور فلم کے ذریعے فروغ دے کر بے شمار پنجابیوں نے شھرت حاصل کی۔ لیکن پاکستان ریڈیو اور پاکستان ٹی وی پر پنجابی زبان اور پنجابی ثقافت کے پروگرام کو نہ ھونے کے برابر وقت دیا جاتا رھا۔

پھر پنجابیوں نے 1977 سے لیکر 1987 تک صنعت کے شعبوں میں محنت کرکے مزید معاشی استحکام حاصل کرلیا۔ 1987 سے لیکر 1997 تک سول بیوروکریسی کے شعبوں میں محنت کرکے سول سروسز میں استحکام حاصل کرنا شروع کردیا۔ 1997 سے لیکر 2007 تک ملٹری بیوروکریسی کے شعبوں میں محنت کرکے ملٹری سروسز میں استحکام حاصل کرنا شروع کردیا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ھی پنجاب میں ”پنجابی لینگویج موومنٹ” کا دور بھی شروع ھوگیا۔ کہا جانے لگا کہ؛ ھم پاکستانی قوم ھیں لیکن ھماری زبان پنجابی ھے۔ اس لیے پنجابی کلچر کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان کو بھی فروغ دیں گے اور پنجاب میں تعلیم پنجابی زبان میں بھی ھونی چاھیے۔ یہ پاکستان میں پنجابیوں کی دوسری پیڑھی کا دور تھا جو 1977 سے لیکر 2007 تک رھا۔ اس دور میں پنجابی سماجی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ترقیاتی امور میں بھی مصروف رھے لیکن پنجابی قوم پرستی کا عنصر نہ ھونے کی وجہ سے قوم پرست سیاست کی سرگرمیاں نہ کرسکے۔ بلکہ پنجابیوں کی سیاست کا محور پنجابی قوم پرستی کے نظریات کے بجائے سماجی سرگرمیوں اور ترقیاتی امور کی بنیاد پر رھا۔ اس لیے اس دور میں بھی سوائے نواز شریف کے کوئی دوسری قابلِ ذکر پنجابی شخصیت ابھر کر پاکستان کی سطح پر سیاسی عمل میں پنجابی قوم کی قیادت نہ کرپائی۔ لیکن پنجابی قوم پرستی کا عنصر نہ ھونے کی وجہ سے نواز شریف کی سیاست کا محور پنجابی قوم پرستی کے نظریات کے بجائے سماجی کاموں ' ترقیاتی امور ' ذاتی اثر و رسوخ اور مالی وسائل کی بنیاد پر رھا۔ البتہ اردو زبان میں خدمت انجام دے کر پنجابی شاعروں ' ادیبوں ' صحافیوں اور داشوروں کے نمایاں مقام بنانے کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان میں خدمت انجام دے کر بھی پنجابی شاعروں ' ادیبوں ' صحافیوں اور داشوروں نے نمایاں مقام بنانا شروع کردیا اور پنجابی ثقافت کو تھیٹر اور فلم کے ساتھ ساتھ الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے فروغ دینے کی جستجو کرکے بے شمار پنجابیوں نے شھرت حاصل کرنا شروع کردی۔ یہی وجہ ھے کہ پاکستان ریڈیو اور پاکستان ٹی وی پر بھی پنجابی زبان اور پنجابی ثقافت کے پروگرام روز بروز بڑھتے لگے جبکہ سوشل میڈیا پر تو بہت تیزی کے ساتھ سرگرمیاں بڑھنے لگیں۔

پھر پنجابیوں نے 2007 سے لیکر 2017 تک صحافت کے شعبوں میں محنت کرکے صحافت میں استحکام حاصل کرنا شروع کردیا۔ اب 2017 سے پنجابیوں نے سیاست کے شعبوں میں محنت کرکے سیاست میں بھی استحکام حاصل کرنا شروع کردیا ھے اور 2027 تک محنت کرکے سیاست میں بھی استحکام حاصل کرنا ھے۔ لیکن اس کے ساتھ ھی پنجاب میں اب ”پنجابی نیشنلسٹ موومنٹ” کا دور شروع ھوگیا ھے۔ کہا جاتا ھے کہ؛ ھم پاکستان کے شھری ھیں لیکن ھماری قوم پنجابی ھے۔ ھمارا کلچر پنجابی ھے۔ ھماری زبان پنجابی ھے۔ ھم پاکستان میں اپنے پنجابی کلچر کو فروٖغ دیں گے اور اپنی پنجابی زبان کو پنجاب کی تعلیمی اور دفتری زبان بنانے کے ساتھ ساتھ سارے پاکستان میں اپنی پنجابی قوم کے سماجی ' معاشی ' انتظامی ' اقتصادی حقوق بھی لیں گے۔ یہ پاکستان میں پنجابیوں کی تیسری پیڑھی کا دور ھے جو 2007 سے شروع ھوا اور 12 سالوں میں بڑہ کر 2019 تک پنجابیوں کی تیسری پیڑھی کی اکثریت کی آواز بنتا جا رھا ھے اور 2037 تک پنجابی قوم پرستی نے پاکستان میں اپنے عروج پر پہنچ جانا ھے۔

سیاست کے میدان میں اگرچہ اس وقت پنجابی مقدار کے لحاظ سے بڑی تعداد میں موجود ھیں لیکن پنجابیوں کی سیاست سماجی کاموں ' ترقیاتی امور ' ذاتی اثر و رسوخ اور مالی وسائل کی بنیاد پر ھے ' نہ کہ سیاست سے وابسطہ شعبوں میں مہارت اور استحکام کی بنیاد پر جسکی وجہ سے پنجابیوں کی سیاست میں ابھی تک پنجابی قوم پرستی کا عنصر نمایاں نہیں ھے۔ لہٰذا پنجابی سیاستدان پنجابی قوم کے سماجی ' معاشی ' انتظامی ' اقتصادی مفادات کی کھل کر ترجمانی کرنے سے ابھی گریز کرتے ھیں۔ لیکن پنجابیوں کی تیسری پیڑھی کی اکثریت میں پنجابی قوم پرستی کے روز بروز بڑھتے ھوئے رحجان کی وجہ سے پنجابی سیاستدانوں کو اب اپنی سیاسی سرگرمیوں میں پنجابی قوم پرستی کا عنصر بھی شامل کرنا پڑے گا۔

عزت و اھمیت ان قوموں کی ھوتی ھے جن کے پاس حکمرانی اور معیشت ھو۔ حکمرانی وہ قومیں کرتی ھیں جو سیاست ‘ صحافت ‘ سول بیوروکریسی اور ملٹری بیوروکریسی کے شعبوں پر اپنی گرفت رکھتی ھوں اور معیشت ان قوموں کے پاس ھوتی ھے جو ذراعت ' صنعت ' تجارت اور ھنرمندی کے شعبوں پر اپنی گرفت رکھتی ھوں۔ حکمرانی اور معیشت کے حصول اور گرفت کو مظبوط رکھنے کے لیے ذراعت ' صنعت ' تجارت اور ھنرمندی کے شعبوں پر اپنی گرفت قائم کرنا ' ملک کے بڑے بڑے شھروں پر اپنا تسلط قائم کرنا ' صحافت ‘ سول بیوروکریسی اور ملٹری بیوروکریسی کے شعبوں میں مستحکم ھونا جبکہ قوم پرستی کی سیاست کا ماھر ھونا انتہائی ضروری ھوتا ھے۔

پنجابیوں کی پہلی پیڑھی جو ابھی حیات ھے وہ ابھی تک”پنجابی کلچرل موومنٹ” والی سوچ میں پھنسی ھوئی ھے۔ پنجابیوں کی دوسری پیڑھی ”پنجابی لینگویج موومنٹ” والی سوچ میں پھنسی ھوئی ھے۔ پنجابیوں کی پہلی پیڑھی جو ابھی حیات ھے لیکن بہت کم تعداد میں ھے ' اس کے اور پنجابیوں کی دوسری پیڑھی کے کم ھونے کے بعد ' جس کی تعداد ابھی کسی حد تک ھے ' ”پنجابی کلچرل موومنٹ” اور ”پنجابی لینگویج موومنٹ” والی سوچ کے بجائے پنجابیوں میں صرف ”پنجابی نیشنلسٹ موومنٹ” والی سوچ ھی رہ جانی ھے۔ اس وقت پنجابی سیاستدان ‘پنجابی صحافی ' پنجابی سول سروینٹس ' پنجابی ملٹری سروینٹس ' پنجابی زمینداروں ' پنجابی صنعتکاروں ' پنجابی تاجروں اور بڑے بڑے شھروں میں رھنے والے پنجابیوں میں ”پنجابی نیشنلسٹ موومنٹ” والی سوچ بہت زیادہ ھونی ھے۔ اس لیے پنجابی قوم کا پاکستان کی حکمرانی اور معیشت پر مکمل کنٹرل ھو جانا ھے جبکہ پنجابی قوم کی عزت و اھمیت میں بے حد اضافہ ھوجا ھے۔

No comments:

Post a Comment