Saturday, 14 September 2019

کیا بلوچ بلاول زرداری بھارت کے ایجنڈے پر کام کر رھا ھے؟

بلوچ نزاد آصف زرداری کے بیٹے اور پی پی پی کے چیئرمین بلاول زرداری نے حیدرآباد میں پریس کانفرنس کرتے ھوئے بلآخر اپنے باپ بلوچ نزاد آصف زرداری کی سرپرستی میں دیہی سندھ اور جنوبی پنجاب پر قابض پاکستان دشمن بلوچوں اور عربی نزادوں کے بھارت کی آشیرباد کے ساتھ تشکیل دیے گئے منصوبے کو آشکار کردیا۔ پی پی پی کے چیئرمین بلوچ بلاول زرداری نے کہا کہ؛ جس طرح مشرقی پاکستان کو "بنگلہ دیش" بنایا گیا ویسے ھی دیہی سندھ کو "سندھو دیش" اور جنوبی پنجاب کو "سرائیکی دیش" بنایا جائے گا۔ "بنگلہ دیش" تو شیخ مجیب الرحمٰن کی بھارت کے ساتھ ساز باز کے بعد بھارت کی مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت کے بعد وجود میں آیا تھا اور اس پر عمل کے دوران 20 لاکھ بنگالی مارے بھی گئے تھے۔ کیا دیہی سندھ کو "سندھو دیش" اور جنوبی پنجاب کو "سرائیکی دیش" بنانے کے لیے اپنے باپ بلوچ نزاد آصف زرداری کے بعد بلوچ بلاول زرداری بھی بھارت کے ساتھ ساز باز کرچکا ھے؟ کیا بلوچ بلاول زرداری اب 20 لاکھ بلوچ اور عربی نزاد دیہی سندھ میں اور 20 لاکھ بلوچ اور عربی نزاد جنوبی پنجاب میں مروائے گا؟ بلوچ بلاول زرداری نے ایسے نازک موقع پر "سندھو دیش" اور "سرائیکی دیش" بنانے کی بات کی ھے جب پاکستان دشمن طاقتیں پاکستان کے خلاف سرگرم ھیں۔ پاکستان حالتِ جنگ میں ھے اور پاکستان کی مسلح افواج پاکستان کے دفاع کے لیے پاکستان کے مشرقی اور مغربی محاذ پر جانوں کی قربانی دے رھی ھے۔

مشرقی پاکستان تو اس لیے "بنگلہ دیش" بن گیا کہ مشرقی پاکستان کی 98٪ آبادی بنگالی تھی اور وہ آباد بھی اپنی زمین پر تھے۔ لیکن جنوبی پنجاب میں آباد بلوچوں اور عربی نزادوں کے مقابلے میں پنجابیوں کی بہت زیادہ اکثریت ھے۔ سندھ کی صورتحال یہ ھے کہ؛ سندھ میں مہاجر 19٪ ' بلوچ 16٪ ' سید و عربی نزاد 2٪ ھیں جبکہ پنجابی 10٪ ' پٹھان 7٪ ' دیگر 4٪ اور سماٹ سندھیوں کی آبادی 42٪ ھے۔ سندھ کے اصل باشندے سماٹ ھیں اور سماٹ سندھ کی سب سے بڑی آبادی بھی ھیں۔ لیکن اس کے باوجود سندھ میں سیاسی ‘ سماجی ‘ معاشی بالادستی 42٪  سماٹ کی نہیں ھے۔ سندھ کے دیہی علاقوں پر قابض 16٪ بلوچ اور 2٪ سید و عربی نزاد نے سیاسی ‘ سماجی ‘ معاشی تسلط قائم کیا ھوا ھے۔ سندھ کے شھری علاقوں پر قابض 19٪ یوپی ‘ سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے سیاسی ‘ سماجی ‘ معاشی تسلط قائم کیا ھوا ھے۔

مشرقی پاکستان کے مقابلے میں کراچی کی ڈیموگرافی مختلف ھونے کی وجہ سے ھی کراچی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا لیڈر الطاف حسین تو بھارت کی آشیرباد کے ساتھ تشکیل دیے گئے کراچی کو پاکستان سے الگ کرنے کے "جناح پور" کے منصوبے پر عمل نہیں کروا سکا۔ اب کراچی میں الطاف حسین کے پیروکار ھندوستانی مھاجروں کا حال یہ ھے کہ رات کے وقت ان کے گھر کی کنڈی کھٹکے تو پہلے "پاکستان زندہ باد" کا نعرہ مارتے ھیں اور اس کے بعد دروازہ کھولتے ھیں۔ کیا بلوچ بلاول زرداری بھی اپنے دیہی سندھ اور جنوبی پنجاب کے بلوچ اور عربی نزاد پیروکاروں کا یہ حال کرے گا کہ رات کے وقت ان کے گھر کی کنڈی کھٹکے تو وہ پہلے "پاکستان زندہ باد" کا نعرہ ماریں گے اور اس کے بعد دروازہ کھولیں گے؟ پی پی پی کے چیئرمین بلوچ بلاول زرداری نے پریس کانفرنس کرتے ھوئے ثابت کردیا کہ پی پی پی کا مشن پاکستان دشمنی ھے۔ وفاق کی سیاست کے نام پر پی پی پی کا اصل مشن پاکستان کے وفاق کو بلیک میل کرنے کے ساتھ ساتھ دیہی سندھ میں سماٹ اور جنوبی پنجاب میں پنجابیوں پر بلوچوں اور عربی نزادوں کے سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی تسلط کو برقرار رکھنا ھے۔

عرصہ دراز سے سندھ پر قابض بلوچ اور عربی نزاد "سرائیکی سازش" کرکے اور "سندھ کارڈ" استعمال کرکے پنجاب اور سندھ کے آپس کے تعلقات خراب کر رھے ھیں۔ سندھ پر قابض بلوچ اور عربی نزاد کی "سرائیکی سازش" اور "سندھ کارڈ" استعمال کرنے کو پنجابی قوم کی طرف سے پنجاب اور پنجابی قوم کے خلاف سازش سمجھا جاتا ھے۔ سندھ کے اصل وارث سماٹ ھیں جو پنجابی قوم کے تاریخی پڑوسی بھی ھیں۔ پنجابی قوم اپنے تاریخی پڑوسی سماٹ کا احترام کرتی ھے لیکن اپنے تاریخی پڑوسی سماٹ پر بلوچوں اور عربی نزادوں کے سیاسی ' سماجی ' معاشی ' انتظامی تسلط کو پسند نہیں کرتی۔ جبکہ سندھ پر قابض بلوچ اور عربی نزاد کی "سرائیکی سازش" اور "سندھ کارڈ" استعمال کرنے کو پنجاب اور پنجابی قوم کے خلاف سازش سمجھتی ھے۔ سماٹ کو چاھیے کہ بلوچوں اور عربی نزادوں کے سیاسی ' سماجی ' معاشی ' انتظامی تسلط سے خود کو آزاد کروائیں اور ان کی "سرائیکی سازش" اور "سندھ کارڈ" استعمال کرنے کو روکیں۔ ورنہ پنجابی قوم کو خود یہ کام کرنا پڑے گا۔ ایسی صورت میں پنجابی قوم کی سندھ میں دخل اندازی پر سماٹ کے پاس اعتراض کرنے کی گنجائش نہیں رھے گی۔

دراصل انگریز دور میں مشرقی پنجاب سے ماھر کاشتکاروں کو لا کر جنوبی پنجاب اور دیہی سندھ میں نہری نظام قائم کیا گیا اور مشرقی پنجاب سے آنے والے پنجابی نے مقامی پنجابی کو جنوبی پنجاب میں اور سماٹ سندھی کو دیہی سندھ میں کاشتکاری کا جدید ھنر سکھایا۔ بعد ازاں پاکستان کے قیام کے بعد وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب سے بھی پنجابیوں نے جنوبی پنجاب اور دیہی سندھ جاکر زمینیں آباد کرنا یا کاروبار اور روزگار شروع کردیا۔ جنوبی پنجاب کا ریاستی پنجابی ' ملتانی پنجابی ' ڈیرہ والی پنجابی ھو یا دیہی سندھ کا سماٹ سندھی ' یہ سیدھے سادھے لوگ ھیں۔ مشرقی پنجاب ' وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب سے آئے ھوئے پنجابی کی یہ لوگ بہت عزت کرتے تھے اور اس سے اِنہوں نے کاشتکاری ' کاروبار اور روزگار کا جدید ھنر بھی سیکھا۔

جب بلوچ قبائل اور عربی نزاد مخدوموں ' جیلانیوں ' گیلانیوں ' قریشیوں ' عباسیوں وغیرہ نے جنوبی پنجاب اور دیہی سندھ میں زمینوں کو سرسبز اور شاداب ھوتے ' کاروبار اور روزگار کو پھلتے پھولتے دیکھا تو دیہی سندھ میں سماٹ اور جنوبی پنجاب میں مقامی پنجابی کو مشرقی پنجاب ' وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب سے آئے ھوئے پنجابی کے خلاف ورغلانا اور اکسانا شروع کر دیا اور بنگال کے پاکستان سے الگ ھونے کے بعد جب پنجابیوں کے مینڈیٹ سے پاکستان کی وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ میں بھی سندھی بھٹو کی قیادت میں پی پی پی کی حکومت قائم ھوئی تو بلوچوں اور عربی نزادوں نے جنوبی پنجاب کے ریاستی پنجابی ' ملتانی پنجابی ' ڈیرہ والی پنجابی اور دیہی سندھ کے سماٹ سندھی کو پنجابی کے خلاف مزید ورغلانا اور اکسانا شروع کر دیا اور نہ صرف بلوچوں نے بلوچستان سے بلوچوں کو لا کر جنوبی پنجاب اور دیہی سندھ میں مزید آباد کرنا شروع کر دیا بلکہ جنوبی پنجاب میں سرائیکی بن کر "سرائیکی سازش" اور دیہی سندھ میں سندھی بن کر "سندھو دیش کی سازش" میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے ساتھ ساتھ پی پی پی کے مقامی قائدین بھی بن بیٹھے اور پی پی پی کی حکومت کے بل بوتے پر نہ صرف مشرقی پنجاب سے آنے والے پنجابیوں بلکہ وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے مختلف علاقوں سے جنوبی پنجاب اور دیہی سندھ میں آکر کاروبار اور روزگار کرنے والے پنجابیوں کو ڈرا دھمکا کر پنجابیوں کی زمینوں ' کاروبار اور روزگار پر قابض ھونا شروع کر دیا۔

1972 سے پنجابیوں کو ڈرا دھمکا کر پنجابیوں کی زمینوں ' کاروبار اور روزگار پر قابض ھونے کا سلسلہ دیہی سندھ اور جنوبی پنجاب کے ان علاقوں میں زیادہ ھوا جہاں بلوچ اور عربی نزاد اکثریت میں تھے لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اور پنجابی کی خاموشی کی وجہ سے اب دیہی سندھ اور جنوبی پنجاب میں ھر جگہ پنجابیوں کو ڈرا دھمکا کر پنجابیوں کی زمینوں ' کاروبار اور روزگار پر قابض ھونا ان کی عادت بن چکی ھے۔ چونکہ 1971 کے بعد بھی 1988 میں اور اسکے بعد بھی سندھ میں پی پی پی کی صوبائی حکومت بنتی رھی۔ اس لیے حکومت کے زور پر دیہی سندھ میں تو زمینیں آباد کرنے کے لیے جاکر آباد ھونے والے ' کاروبار اور روزگار کرنے والے پنجابیوں پر دیہی سندھ کے بلوچ اور عربی نزاد غلبہ پا چکے ھیں لیکن پنجاب میں پی پی پی چونکہ صوبائی حکومت نہیں بنا پائی اور نہ آئندہ بھی پی پی پی کی صوبائی حکومت بننے کے امکانات ھیں۔ اس لیے اب کوشش ھے کہ کسی طرح جنوبی پنجاب کے ان علاقوں پر مشتمل نیا صوبہ بنا لیا جائے جہاں بلوچ اور عربی نزاد قابض ھیں۔ اسکے لیے سرائیکی کے نام اور پی پی پی کے تعاون سے جنوبی پنجاب کے بلوچ اور عربی نزاد ایک باقائدہ منظم سازش کر رھے ھیں۔

جنوبی پنجاب اور شمالی سندھ میں عربی نزاد اور بلوچ جاگیرداروں کا سماجی ' سیاسی ' معاشی تسلط ھے۔ عربی نزاد اور بلوچ جاگیرداروں کا خیال ھے کہ؛ سندھ کو الگ کرکے "سندھودیش" بنایا جاتا ھے تو پنجاب سے دریا کا پانی نہیں ملے گا۔ جبکہ کراچی بھی الگ صوبہ بن جائے گا۔ اس لیے جنوبی پنجاب کو صوبہ بناکر پہلے دریائے سندھ کو جنوبی پنجاب صوبہ میں لایا جائے۔ جنوبی پنجاب صوبہ کو بعد میں بھارت کی آشیرباد کے ساتھ عربی نزاد اور بلوچ جاگیردار "سرائیکی دیش" میں تبدیل کرلیں گے اور سندھ کے عربی نزاد اور بلوچ جاگیردار سندھ کو "سندھودیش" بنالیں گے۔ کراچی الگ ھوگیا تو فرق اس لیے نہیں پڑنا کہ پورٹ قاسم اگر سی پورٹ کے طور پر ھاتھ نہ آیا اور کراچی میں چلا گیا تو پھر کیٹی بندر کو سی پورٹ بنالیں گے۔ "سرائیکی دیش" کے پنجابیوں اور "سندھودیش" کے سماٹ پر عربی نزاد اور بلوچ جاگیرداروں کی حکمرانی ھوگی۔ پنجاب کی مخالفت کے لیے اڈے فراھم کرنے کے عوض بھارت اور امریکہ سے آشیرباد ملتی رھا کرے گی۔ دریائے سندھ پر کالاباغ ڈیم بناکر "سرائیکی دیش" اور "سندھودیش" کو عربی نزاد اور بلوچ جاگیردار آباد کروالیں گے۔ محنت و مشقت کیے بغیر عربی نزاد اور بلوچ جاگیرداروں کا عیش و عشرت کرنے کا بندوبست ھوتا رھے گا۔ یہ ھے جنوبی پنجاب اور شمالی سندھ کے عربی نزاد اور بلوچ جاگیردارکا خواب و خیال۔ اگر عربی نزاد اور بلوچ جاگیرداروں کا خواب و خیال پورا ھوگیا تو وسطی پنجاب و شمالی پنجاب کے پنجابی رُل جائیں گے اور اگر خواب و خیال پورا نہ ھوا تو عربی نزاد اور بلوچ جاگیردار رُل جائیں گے۔ جنوبی پنجاب کے پنجابی اور دیہی سندھ کے سماٹ تو اس وقت بھی عربی نزاد اور بلوچ جاگیرداروں کے سیاسی ' سماجی ' معاشی ' انتظامی تسلط میں ھیں بلکہ یرغمال ھیں۔

جنوبی پنجاب اور دیہی سندھ میں مشرقی پنجاب ' وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے مختلف علاقوں سے جاکر زمینیں آباد ' کاروبار اور روزگار کرنے والے پنجابیوں اور دیہی سندھ کے سماٹ کو بلوچوں اور عربی نزادوں کی یرغمالی سے نجات کے لیے ضروری ھے کہ؛

1۔ سندھ میں سندھ کے اصل وارث یعنی سماٹ سندھی اور سندھ کے پنجابی اپنا آپس کا سماجی اور سیاسی رابطہ بڑھائیں تاکہ؛ دیہی سندھ کے بلوچوں اور عربی نزادوں کے سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی تسلط سے نجات حاصل کی جائے۔

2۔ جنوبی پنجاب میں بلوچ اور عربی نزاد گیلانی ' قریشی ' عباسی وغیرہ کے ھاتھوں بلیک میل ھونے کے بجائے جنوبی پنجاب کے قدیم باشندوں ' ریاستی پنجابیوں ' ملتانی پنجابیوں ' ڈیرہ والی پنجابیوں کو بلوچوں اور عربی نزادوں کے چنگل سے نجات دلائی جائے۔

پنجابیوں کو سمجھ لینا چاھیئے کہ؛

1۔ جنوبی پنجاب میں "سرائیکی" شوشہ اصل مسئلہ نہیں ھے۔ اصل مسئلہ جنوبی پنجاب میں آ کر قابض ھونے والے بلوچ اور عربی نزاد گیلانی ' قریشی ' عباسی وغیرہ ھیں جو سرائیکی شوشہ کہ نام پر جنوبی پنجاب کے قدیم باشندوں ' ریاستی پنجابیوں ' ملتانی پنجابیوں ' ڈیرہ والی پنجابیوں اور پنجابی آباد گاروں پر اپنی سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی بالادستی قائم رکھنا اور انکی زمینوں ' کاروبار اور روزگار پر قبضے کرنا چاھتے ھیں۔

2۔ دیہی سندھ میں "سندھودیش" کا شوشہ اصل مسئلہ نہیں ھے۔ اصل مسئلہ دیہی سندھ میں آ کر قابض ھونے والے بلوچ اور عربی نزاد مخدوم ' جیلانی ' گیلانی ' قریشی ' عباسی وغیرہ ھیں جو "سندھودیش" کے شوشہ کہ نام پر سندھ کے قدیم باشندوں ' سماٹ سندھیوں اور پنجابی آباد گاروں پر اپنی سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی بالادستی قائم رکھنا اور انکی زمینوں ' کاروبار اور روزگار پر قبضے کرنا چاھتے ھیں۔

No comments:

Post a Comment