برطانیہ
کی برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1800 عیسوی میں کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج قائم کیا۔ کالج کے صدر جان گلکرسٹ نے ھندوستانی زبان کی صرف و نحو مرتب کی اور اترپردیش سے لائے گئے کالج کے منشیوں کو ھندوستانی
زبان میں لکھنے کی ترغیب دی۔ مصنفین کی حوصلہ افزائی کے لیے منظور شدہ کتابوں پر
انعام بھی دیا جاتا تھا۔ اس لیے قصوں کہانیوں کی کتابیں بڑی تعداد میں لکھی اور
ترجمہ کی گئیں۔ فورٹ ولیم کالج کے قیام سے قبل "ھندوستانی" زبان کا نثری
ذخیرہ بہت محدود تھا۔ نثر میں جو چند کتابیں لکھی گئی تھیں ان کی زبان فارسی اثرات
کے زیر اثر ' تکلف اور تصنع سے بھر پور ' مشکل ' ثقیل اور بوجھل تھی۔ اس لیے فورٹ
ولیم کالج کے مصنفین کی تحریروں کا نمایاں وصف سادہ ' روانی والا ' آسان ' لطیف
اور عام فہم بول چال کا انداز اپنانا رھا۔ اس طرح "ھندوستانی" زبان میں
تیار کی گئی کچھ تصانیف "معیاری ھندوستانی" زبان کی ادبی شکل اختیار کر
گئیں۔ اس سے سرکاری سرپرستی اور ادبی مقبولیت کے ساتھ ھی "کھڑی بولی" سے
وجود میں لائی گئی "ھندوستانی" زبان ترقی کرتے ھوئے "معیاری
ھندوستانی" زبان سے "اردو" کی شکل اختیار کرگئی۔
برطانوی
راج کے دوران دارالعلوم دیوبند کو 1866ء میں ' دار العلوم ندوۃ العلماء کو 1893ء
میں اور بریلوی مدرسوں کو 1904ء میں اتر پردیش میں قائم کیا گیا تھا۔ ان مدرسوں
میں درس و تدریس کا ذریعہ اردو زبان تھی۔ ان مدرسوں کے فلسفے کی تبلیغ کو دینِ
اسلام کی حقیقی تعلیمات کے طور پر روشناس کروا کر دین کی تعلیمات حاصل کر کے اپنا
اخلاق ٹھیک کرکے اور روحانی نشو نما کر کے ' اپنی جسمانی حرکات ' نفسانی خواھشات
اور قلبی خیالات کی اصلاح کرکے ' اپنی دنیا اور آخِرَت سنوارنے کے بجائے اسلام کو
سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی بنیاد رکھی گئی تھی اور غیر اردو زبان بولنے
والے مسلمانوں پر اردو زبان کا تسلط قائم کرنے کے لیے اردو زبان کو مسلمانوں کی
زبان قرار دینا شروع کیا گیا تھا۔ 15 اگست 1947 کو پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان
کے وزیرِاعظم اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی لیاقت علی خان نے اتر پردیش
میں واقع علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء
اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل مسلمان پاکستان لاکر پاکستان کی حکومت '
بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض کروا دیے ' جن کی اکثریت یوپی ' سی پی کے اردو
بولنے والے ھندوستانیوں کی تھی۔
پاکستان
آنے والے یوپی ' سی پی کے گنگا جمنا کی تہذیب و ثقافت والے اردو بولنے والے
ھندوستانی نہ زمیندار اور مزارعے تھے ' نہ صنعتکار اور مزدور تھے ' نہ تاجر اور
ھنر مند تھے۔ یوپی ' سی پی سے زیادہ تر دانشور اور مذھبی ورکر ' صحافی اور سماجی
ورکر ' سیاستدان اور سیاسی ورکر ' فوجی افسر اور سپاھی ' سول افسر اور کلرک ' وکیل
اور منشی ھی پاکستان آئے تھے۔ پاکستان کے قیام سے لیکر اب تک دارالعلوم دیوبند '
دار العلوم ندوۃ العلماء ' بریلوی مدرسوں اور علیگڑہ یونیورسٹی میں پرورش و تربیت
پانے والے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانیوں اور ان کی اولادوں
نے اپنے "اترپردیشی نظریہ" کے مطابق پاکستان کو چلایا۔ یوپی ' سی پی کے
اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانیوں کا "اترپردیشی نظریہ" تھا کہ؛
پاکستانی ایک قوم ھیں۔ نہ صرف انکا مذھب ایک ھے بلکہ انکی زبان بھی ایک ھی ھے '
انکی ثقافت بھی ایک ھی ھے اور انکا سیاسی مفاد بھی ایک ھی ھیں۔ بلاشبہ یہ ایک مذھب
انکا دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والا اسلامی فلسفہ رھا۔ ایک زبان انکی اردو
زبان رھی۔ ایک ثقافت انکی گنگا جمنا کی ثقافت رھی اور ایک سیاسی مفاد انکا یوپی '
سی پی کے اردو بولنے والے مسلمانوں کی پاکستان میں سماجی ' سیاسی ' انتظامی '
معاشی برتری رھا۔
ایک
ھی مذھب ھونے کے باوجود پاکستان کی پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ ' براھوئی '
ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' کوھستانی ' گجراتی '
راجستھانی قوموں کی اکثریت دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والے اسلامی فلسفہ سے ھٹ
کر "صوفی ازم" والا مذھبی نقطہ نظر رکھتی ھے۔ انکی زبانیں الگ الگ ھیں۔
انکی ثقافتیں الگ الگ ھیں۔ جبکہ "وادیء سندھ" سے وابستہ انکی اپنی اپنی
انفرادی تاریخ ھے۔ انکی اپنی اپنی منفرد قومی شناختیں ھیں اور انکے اپنے اپنے سماجی
' سیاسی ' انتظامی ' معاشی مفادات ھیں۔ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان
ھندوستانیوں کے "اترپردیشی نظریہ" کو مسترد کرکے مشرقی پاکستان کے
بنگالیوں نے تو 1971 میں ھی پاکستان سے علیحدگی اختیار کرکے بنگلہ دیش کے نام سے
آزاد ملک بنا لیا تھا۔ لیکن پاکستان میں اس وقت یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے
مسلمان ھندوستانیوں کی اولادوں کی سب سے بڑی آبادی کراچی میں ھے اور یوپی ' سی پی
کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانیوں کی اولادوں میں سے دانشوروں اور مذھبی
ورکروں ' صحافیوں اور سماجی ورکروں ' سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں ' فوجی افسروں
اور سپاھیوں ' سول افسروں اور کلرکوں ' وکیلوں اور منشیوں کے ذریعے اور انکے
"اترپردیشی نظریہ" کے مطابق پاکستان تو کیا اب کراچی کے سیاسی اور
حکومتی معاملات چلانا بھی ممکن نہیں رھا۔
یوپی
' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانیوں کی پہلے 1800 عیسوی سے کلکتہ کے
فورٹ ولیم کالج میں "لسانی تربیت" کی گئی۔ جبکہ 1866ء سے دارالعلوم
دیوبند میں ' 1893ء سے دار العلوم ندوۃ العلماء میں اور 1904ء سے بریلوی مدرسوں
میں "نظریاتی تربیت" کی گئی۔ لیکن پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ '
براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' کوھستانی ' گجراتی
' راجستھانی قوموں کے دانشوروں اور مذھبی ورکروں ' صحافیوں اور سماجی ورکروں '
سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں ' فوجی افسروں اور سپاھیوں ' سول افسروں اور کلرکوں '
وکیلوں اور منشیوں کی پاکستان کے قیام سے لیکر اب تک "ان کی زبان اور ان کے
نظریہ" کے مطابق "پاکستانی نظریہ" تشکیل دے کر"نظریاتی
اداروں" میں تربیت نہیں کی گئی۔ بلکہ اترپردیش والوں کی زبان اور نظریہ کو ھی
ان پر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی رھی۔ اس لیے ان کے پاس اب تک پاکستان کے سیاسی
اور حکومتی معاملات چلانے کے لیے نہ "پاکستانی نظریہ" ھے اور نہ
"پاکستانی نظریہ" کے مطابق "نظریاتی اداروں" میں ان کی
باقاعدہ پرورش و تربیت ھوئی ھے۔ اس لیے پاکستان کو اب کس " نظریہ" کے
مطابق چلایا جائے گا؟ کیا " نظریہ" کے بغیر کسی ملک کو چلایا جاسکتا ھے؟
کیا "اترپردیشی نظریہ" کے مطابق یا "پاکستانی نظریہ" کے بغیر
پاکستان کو چلانے سے سماجی انتشار ' سیاسی عدمِ استحکام ' انتظامی بحران ' معاشی
مشکلات میں اضافہ نہیں ھوتا جا رھا؟
No comments:
Post a Comment